Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 169

سورة الأعراف

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ وَّرِثُوا الۡکِتٰبَ یَاۡخُذُوۡنَ عَرَضَ ہٰذَا الۡاَدۡنٰی وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَیُغۡفَرُ لَنَا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِہِمۡ عَرَضٌ مِّثۡلُہٗ یَاۡخُذُوۡہُ ؕ اَلَمۡ یُؤۡخَذۡ عَلَیۡہِمۡ مِّیۡثَاقُ الۡکِتٰبِ اَنۡ لَّا یَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ وَ دَرَسُوۡا مَا فِیۡہِ ؕ وَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾

And there followed them successors who inherited the Scripture [while] taking the commodities of this lower life and saying, "It will be forgiven for us." And if an offer like it comes to them, they will [again] take it. Was not the covenant of the Scripture taken from them that they would not say about Allah except the truth, and they studied what was in it? And the home of the Hereafter is better for those who fear Allah , so will you not use reason?

پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وہ اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی حالانکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف سے بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقوٰی رکھتے ہیں ، پھر کیا تم نہیں سمجھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـذَا الادْنَى ... Then after them succeeded an (evil) generation, which inherited the Book, but they chose (for themselves) the goods of this low life, This Ayah means, after the generation made up of righteous and unrighteous people, another generation came that did not have goodness in them, and they inherit... ed the Tawrah and studied it. Mujahid commented on Allah's statement, يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـذَا الادْنَى (They chose (for themselves) the goods of this low life), "They will consume anything they can consume in this life, whether legally or illegally. Yet, they wish for forgiveness, ... وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مُّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ... Saying: "(Everything) will be forgiven for us." And if (again) the offer of the like came their way, they would (again) seize them." Qatadah commented on Allah's statement, يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـذَا الادْنَى (they chose (for themselves) the goods of this low life), "This, by Allah, is an evil generation, وَرِثُواْ الْكِتَابَ (which inherited the Book) after their Prophets and Messengers, for they were entrusted with this job by Allah's command to them. Allah said in another Ayah, فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُواْ الصَّلَـوةَ Then, there has succeeded them a posterity who neglect the Salah (the prayers). (19:59) Allah said next, يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـذَا الادْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا (They chose the goods of this low life saying: "(Everything) will be forgiven to us"). They wish and hope from Allah, while deceiving themselves, وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مُّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ (And if (again) the offer of the like came their way, they would (again) seize them). Nothing stops them from this behavior, for whenever they are given an opportunity in this life, they will consume regardless of it being allowed or not." As-Suddi said about Allah's statement, فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ ..... وَدَرَسُواْ مَا فِيهِ Then after them succeeded an (evil) generation, until..... And they have studied what is in it (the Book). "Every time the Children of Israel appointed a judge, he used to take bribes. The best ones among them held a counsel and took covenants from each that they would not take bribes. However, when one of them would take bribes in return for judgment and was asked, `What is the matter with you; you take a bribe to grant judgment', he replied, `I will be forgiven.' So the rest of his people would admonish him for what he did. But when he died, or was replaced, the one who replaced him would take bribes too. Therefore, Allah says, if the others (who admonished him) would have a chance to loot this world, they will take it."' Allah said, ... أَلَمْ يُوْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لاَّ يِقُولُواْ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ ... Was not the covenant of the Book taken from them that they would not say about Allah anything but the truth, thus, admonishing them for this behavior. Allah took a pledge from them that they would declare the truth to people and not hide it. Allah said in another Ayah, وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَـقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلً فَبِيْسَ مَا يَشْتَرُونَ (And remember) when Allah took a covenant from those who were given the Scripture to make it known and clear to mankind, and not to hide it, but they threw it away behind their backs, and purchased with it some miserable gain! And indeed worst is that which they bought. (3:187) Ibn Jurayj said that Ibn Abbas said about the Ayah, أَلَمْ يُوْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لاَّ يِقُولُواْ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ (Was not the covenant of the Book taken from them that they would not say about Allah anything but the truth), "Their claim that Allah will forgive the sins they keep committing without repenting from them." ... وَدَرَسُواْ مَا فِيهِ ... And they have studied what is in it (the Book). Allah said, ... وَالدَّارُ الاخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَ تَعْقِلُونَ And the home in the Hereafter is better for those who have Taqwa. Do not you then understand! Encouraging them to seek Allah's tremendous reward and warning them against His severe torment. Allah says here, `My reward and what I have are better for those who avoid prohibitions, abandon lusts and become active in the obedience of their Lord.' ... أَفَلَ تَعْقِلُونَ Do not you then understand! Allah says' Do not these people, who preferred this life instead of what is with Me, have any sense to prohibit them from their foolish and extravagant ways!' Allah then praises those who adhere to His Book, which directs them to follow His Messenger Muhammad,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) خلف (لام پر فتح کیساتھ) اولاد صالح کو اور خلف (بسکون اللام) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔ 169۔ 1 أدنی دنو (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَآءَۃ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر گرا پڑا مال ہے۔ م... طلب دونوں سے اس دنیا کے مال متاع کے حرص کی وضاحت ہے۔ 169۔ 2 یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں، جیسے آجکل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔ 169۔ 3 اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔ 169۔ 4 اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہوسکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّیْحُ الاَ ثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کردیا یعنی ان پر عمل ترک کردیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧١] یعنی ان یہود کے اسلاف میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے اور کچھ فاسق تھے، اگرچہ اکثریت ان فاسقوں ہی کی تھی مگر ان کے اخلاف تو بالکل ناخلف اور نااہل ثابت ہوئے انہوں نے اللہ کی کتاب کو بیچنا شروع کردیا اور دنیا کے کتے بن گئے مزید ستم یہ کہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہم جیسے بھی عمل کرلیں ہمیں اللہ عذاب نہی... ں کرے گا اور معاف کردے گا کیونکہ ہم انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ وہ گناہ کر کے نادم اور شرمسار ہوں اور اللہ کے حضور توبہ کریں وہ پھر سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آدمی فتویٰ یا مسئلہ پوچھنے والا آئے تو اس سے بھی رشوت لے لیں یا مال و دولت جھاڑ لیں حالانکہ ان سے یہ پختہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ کوئی غلط اور ناحق بات اللہ کی طرف منسوب نہیں کریں گے اور یہ بات وہ کتاب میں پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں اس کے باوجود انہوں نے اللہ کے ذمہ یہ بات لگا دی کہ وہ جیسے بھی عمل کرلیں اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا کیونکہ وہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں کیا یہ بات وہ تورات سے دکھلا سکتے ہیں ؟ [١٧٢] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں ایک یہ کہ آخرت کا گھر اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے (جیسا کہ ترجمہ کیا گیا ہے) اور جو اللہ سے نہیں ڈرتے ان کے لیے ہرگز بہتر نہیں، انہیں وہاں عذاب اور دکھ ہی سہنا پڑیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ بہرحال آخرت کے گھر کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے گھر کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی اخروی زندگی اس دنیا سے بدرجہا بہتر ہوگی کاش تم لوگوں کو اس بات کی سمجھ آجائے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ۔۔ : قرطبی (رض) نے فرمایا ” اَلْخَلْفُ “ لام کے سکون کے ساتھ، بمعنی اولاد، واحد جمع یکساں ہیں اور ” اَلْخَلَفُ “ لام کے فتح کے ساتھ پہلوں کی جگہ آنے والا، اولاد ہو یا اجنبی۔ ابن الاعرابی نے فرمایا، لام کے فتح کے ساتھ نیک جانشین اور لام کے سکون کے ساتھ نالائق جانشین او... ر دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کرلیے جاتے ہیں۔ (طنطاوی) ” عَرَضٌ“ دنیا کا سامان، کیونکہ وہ عارضی ہے۔ ” هٰذَا الْاَدْنٰى“ میں ” هٰذَا “ (اس) کے لفظ سے حقارت مراد ہے اور ” الْاَدْنٰى‘ کے لفظ سے بھی دنیا کی دنایت اور حقارت مراد ہے۔ (کشاف) پھر ان کے جانشین ایسے نالائق ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بنے، یعنی انھوں نے اسے پڑھا، اس کا علم حاصل کیا اور اس میں مذکور حلال و حرام اور امر و نہی سے پوری طرح آگاہ ہوئے، مگر انھوں نے اس کا اثر قبول کرنے کے بجائے اس کے احکام کی مخالفت کی اور اس کے حرام کو حلال کرلیا اور شدید حرص کی وجہ سے اس حقیر دنیا کے مال کے حصول کی کوشش میں لگ گئے، حلال طریقے سے ملے یا حرام سے، سود ہو یا رشوت یا غیر کا حق۔ اس کے باوجود یہ کہتے رہے کہ ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا۔ ” سَيُغْفَرُ لَنَا “ میں سین تاکید کے لیے ہے۔ (آلوسی) کیونکہ ہم اللہ کے بیٹے، اس کے محبوب اور اس کے انبیاء کی نسل سے ہیں، فرمایا : (وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ) [ المائدۃ : ١٨] ” اور یہود و نصاریٰ نے کہا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ “ وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ ۭ: یعنی گناہ کرنے اور حرام کھانے کے بعد نہ وہ شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں توبہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ گناہوں پر اور حرام خوری پر ان کی جرأت بڑھتی جاتی ہے، حالانکہ بخشش کے لیے تو توبہ کی ضرورت ہے، جس کا لازمی جزو گزشتہ پر ندامت اور آئندہ کے لیے وہ کام نہ کرنے کا خالص اور پختہ عزم ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ پہلی دفعہ حرام کھانے کے بعد اسی طرح کا حرام دوبارہ مل جائے تو اسے بھی نہیں چھوڑتے۔ چناچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جونہی انھیں دوبارہ رشوت کا موقع ملتا ہے بلا جھجک اسے قبول کرلیتے ہیں۔ یہ ان کے علماء کا حال ہے کہ لوگوں کو غلط مسئلے بتا کر حرام کھانے کے باوجود دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری بخشش ہوجائے گی، حالانکہ وہ غلط کام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، جو بخشش کی شرط اول ہے۔ اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ ۔۔ : یہ عہد تفصیل کے ساتھ تورات کے علاوہ آل عمران کی آیت (١٨٧) میں مذکور ہے۔ وَدَرَسُوْا مَا فِيْهِ : اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے، یعنی خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں کہیں نہیں لکھا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے جاؤ، میں تمہیں بخش دوں گا، مگر ان کی جرأت اور بےخوفی کا یہ عالم ہے کہ گناہ بھی کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ عزوجل کی طرف وہ باتیں بھی منسوب کیے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔ وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ ۭ: یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر حرام کھانے سے بچنے والوں کے لیے آخرت میں جو نعمتیں تیار ہیں وہ اس حقیر دنیا کے عارضی سازوسامان سے کہیں بہتر ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے حرام کھانے والو ! کیا تم یہ نہیں سمجھتے ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 169 has said: فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِ‌ثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَ‌ضَ هَـٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ‌ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَ‌ضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ |"Then, after them came a generation, who inherited the Book, taking to the mundane stuff of this world and saying: &We shall be forgiven.& And if there comes to them similar stuff, they would take ... to it (again). The Arabic word خَلْفٌ is a past tense of خِلَافَہ signifying a deputy or a person trusted with one&s work in one&s absence. The second word used here is خَلْفُ with the merged sound of the second letter ل Lam, generally denoting a deputy who is marked with wickedness, as opposed to the good practices of his elders. The word وَرِ‌ثُوا is a derivative of ورَاثَۃ that is, inheritance. The next word is عَرَ‌ض meaning something bought with money. Sometimes, it is used just for something possessed. The use of this word for money indicates that anything owned in this world is temporary, because this word, as an antonym of &Jauhar& (substance), is used for an object which requires something else to show its existence like colour which requires another thing to show itself. The word اَدنی &has been derived from دُنوُ which denotes nearness or lack of distance. The word دُنیا is a feminine gender of this word. The word اَدنی may also be taken to be a derivative of دَنَاَءۃ which signifies disgrace. In this case the word shall refer to something disgraced. The verse implies that there were two groups of people among the early Jews, the righteous and the wrong-doers. The people coming in later generations who inherited the Torah, however, acted opposite to their elders and made the Book an object of trading or a means of their earning. They used to manipulate and distort the text of the Torah for some money offered to them for this purpose. Moreover, |"they said: وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ‌ لَنَا |"We shall be forgiven|". In spite of committing as great a sin as distorting the text of the Book of Allah, they claimed their forgive¬ness by Allah. They are warned of this error in the very next sentence. saying: وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَ‌ضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ &If there comes to them similar stuff they would take to it (again).|" That is to say, they are in such a state of perversion that in case they are offered money for changing another text, they shall readily accept it. The verse has implied that forgive¬ness of Allah is always there to those who are mindful of their error and turn to their Lord in repentance showing their remorse over what they have done, and making firm promise of not repeating the same mistake again. Being persistent in their sinful acts and claiming their forgiveness is sheer self deception. The next part of the verse puts a question to them, whether they were not made to enter a covenant with Allah that they shall never say anything but truth about Allah. Yes, they read this pledge in their Book. This is nothing but their impudence and obstinacy that stops them from realizing the truth of the Hereafter which is exclusively the fate of those who fear Allah.  Show more

تیسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ يَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا ۚ وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ ، اس میں پہلا لفظ خَلَفَ مصدر خلافت سے مشتق ماضی کا صیغہ ہے جس کے معنی مقام اور خلیفہ ہوگئے، اور ... دوسرا لفظ خَلْفٌ مصدر ہے جو قائم مقام اور خلیفہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مفرد اور جمع دونوں کے لئے یکساں بولا جاتا ہے، لیکن خلف بسکون اللام اکثر برے خلیفہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اپنے بڑوں کے طرز کے خلاف برائیوں میں مبتلا ہو، اور خلف بفتح لام اس کے مقابل نیک اور قابل خلیفہ کو کہا جاتا ہے جو اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلے اور ان کے مقصد کی تکمیل کرے، اس لفظ کا اکثری استعمال اسی طرح ہے کہیں کہیں اس کے خلاف بھی استعمال ہوا ہے۔ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ وارث سے مشتق ہے، وہ چیز جو مرنے والوں کے بعد زندہ رہنے والوں کو ملتی ہے اس کو میراث یا وراثت کہا جاتا ہے، معنی یہ ہیں کہ کتاب تورات ان لوگوں کو اپنے بڑوں سے وراثت میں مل گئی یعنی ان کے مرنے کے بعد ان لوگوں کے ہاتھ آئی۔ لفظ عَرَضَ سامان کے معنی میں بولا جاتا ہے جو نقد کے بدلہ میں خریدا جاتا ہے اور کبھی مطلقا مال کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے خواہ نقد ہو یا سامان، تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جگہ یہی عام معنی مراد ہیں، اور اس جگہ مال کو لفظ عرض سے تعبیر کرنے میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کا مال کتنا ہی ہو، ناپائیدار اور عارضی ہے کیونکہ عرض کا لفظ اصل میں جوھر کے بالمقابل ناپائیدار چیز کے لئے مستعمل ہوتا ہے جس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہ ہو بلکہ وہ اپنے وجود میں دوسری کسی چیز کا تابع ہو، اسی لئے عارض کا لفظ بادل کے معنی میں آتا ہے کیونکہ اس کا وجود قائم رہنے والا نہیں، جلد زائل اور ختم ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا اسی معنی کے لئے آیا ہے۔ هٰذَا الْاَدْنٰى میں لفظ ادنی، دُنُوٌ بمعنی قرب سے بھی مشتق کہا جاسکتا ہے، اس صورت میں ادنی کے معنی اقرب کے ہوجائیں گے، اسی کا مؤ نث دنیا ہے جس کے معنی قریب کے ہیں، آخرت کے مقابلہ میں یہ جہان انسان سے زیادہ قریب ہے اس لئے اس کو ادنی اور دنیا کہا جاتا ہے، اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ لفظ دناءة بمعنی ذلت سے مشتق ہو تو اس کے معنی ذلیل و حقیر کے ہوجائیں گے، دنیا اور اس کے سب سامان بمقابلہ آخرت کے حقیر و ذلیل ہیں اس لئے اس کو ادنی اور دنیا کہا گیا۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ پہلے دور کے یہودیوں میں تو دو قسم کے لوگ تھے کچھ نیک صالح، پابند شریعت تورات، اور کچھ نافرمان گنہگار، مگر ان کے بعد جو لوگ ان کی نسل میں ان کے خلیفہ اور قائم مقام اور تورات کے وارث بنے، انہوں نے یہ حرکت اختیار کی کہ اللہ کی کتاب کو سوداگری کا مال بنالیا کہ اہل غرض سے رشوت لے کر اللہ کے کلام میں تحریف کرکے ان کے مطلب کے موافق بنانے لگے۔ (آیت) وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا، اس پر مزید جرأت یہ کہ یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ہم نے گناہ کیا ہے مگر یہ گناہ ہمارا بخش دیا جائے گا، حق تعالیٰ نے ان کی غلطی پر اگلے جملے میں اس طرح تنبیہ فرمائی (آیت) وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ ، یعنی ان کا حال یہ ہے کہ اگر اس وقت بھی ان کو تحریف کلام اللہ کے بدلہ میں کوئی مال ملنے لگے تو یہ اب بھی مال لے کر تحریف کرنے سے باز نہ آئیں، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بجا اور حق ہے مگر انہیں لوگوں کے لئے جو اپنے کئے پر نادم ہوں اور آئندہ اس کے چھوڑنے کا پختہ عزم کرلیں جس کا اصطلاحی نام توبہ ہے۔ یہ لوگ اپنے جرم پر اصرار کے باوجود مغفرت کے امیدوار ہیں حالانکہ اس وقت ان کو پیسہ ملے تو تحریف کرنے میں کوتاہی نہ کریں، گناہ پر اصرار فرتے ہوئے مغفرت کی امید رکھنا خود فریبی سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ کیا ان لوگوں سے تورات میں یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے حق کے سوا کوئی بات نہ کہیں گے اور ان لوگوں نے اس معاہدہ کو تورات میں پڑھا پڑھایا بھی ہے، سب ان کی عاقبت نااندیشی ہے، بات یہ ہے کہ دار آخرت ہی پرہیزگاروں کے لئے بہترین لازوال دولت ہے کیا وہ اتنی بات کو نہیں سمجھتے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ يَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ہٰذَا الْاَدْنٰى وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّاْتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ يَاْخُذُوْہُ۝ ٠ ۭ اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْہِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا يَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِيْ... ہِ۝ ٠ ۭ وَالدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ١٦٩ خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته ( ور ث ) الوارثۃ والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ عرض أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] ، ( ع ر ض ) العرض اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ درس دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب . ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معیر مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

خلف کون ہے ؟ قول باری ہے فخلف من بعد ھم خلف۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے) ایک قول کے مطابق لفظ خلف میں لام کلمہ ساکن ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا اکثر استعمال مذمت کے معنوں میں ہوتا ہے۔ بعید کا مصرعہ ہے۔ وبقیت فی خلف کجلدالاجرب میں ایسے ناخلف لوگوں میں رہ گیا جو خارشی اونٹ کی کھ... ال کی طرح تھے۔ بعض دفعہ یہ لفظ لام کلمہ کے سکون کے ساتھ مدح کے لئے بھی آتا ہے۔ حضرت حسان (رض) کا شعر ہے۔ لنا القدم العلیا الیک وخلفنا لاولنا فی طاعۃ اللہ تابع۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے شاعر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آنے میں ہمیں اولیت حاصل ہے اور اللہ کی فرمانبرداری کے سلسلے میں ہمارے جانشین اس شخص کے پیچھے ہیں جو ہم میں سب سے اول ہے۔ قول باری ہے یاخذون عرض ھذا الادنیٰ ۔ اس دنیائے دنی کے فائدے سمیٹتے ہیں) ایک قول کے مطابق عرض اس چیز کا نام ہے جس کی بقا بہت کم عرصے کے لئے ہو۔ کہا جاتا ہے عرض ھذا الامرعرضاً (یہ معاملہ عارضی ثابت ہوا ہے) عارض کا لفظ لازم کی ضد ہے۔ قول باری ہے ھذا عارض ممطرنا۔ یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا) عارض سے مراد بادل ہے اس لئے کہ وہ تھوڑے عرصے کے لئے رہتا ہے۔ قول باری ہے عرض ھذا الادنیٰ کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد فیصلوں میں رشوت خوری ہے۔ قول باری ہے وان یاتھم عرض مثلہ یاخذوہ۔ اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں) مجاہد قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں حسن کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں کوئی چیز انہیں سیر نہیں کرتی۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٩) نتیجتا ان نیکوکاروں کے بعد دوسرے بدترین یہودی پیدا ہوئے جنہوں نے تورات لی اور اس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفت تھی اسے چھپایا تاکہ آپ کی تعریف و توصیف چھپا کر دنیا میں رشوت وغیرہ کا حرام مال حاصل کریں۔ اور پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو گناہ ہم دن میں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی...  رات کو اور جو رات میں گناہ سرزد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دن میں بخشش فرمادیتے ہیں، حالانکہ جیسا پہلے ان کے پاس حرام مال آتا تھا آج بھی ویسا ہی آنے لگے تو اسے حلال سمجھ لیں، کیا ان سے سچ بولنیپر کتاب میں وعدہ نہیں لیا گیا تھا اور انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف میں تبدیلی سے بچتے ہیں، جنت کا گھر دنیا سے بہتر ہے، پھر نہیں سمجھتے کہ دنیا فانی اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٩ (فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ہٰذَا الْاَدْنٰی) وہ ایسے لوگ ہیں جو حلال اور حرام سے بےنیاز ہو کر دنیاوی مفادات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو آخرت کے بارے میں کسی قسم کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔ (وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا ج) ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم...  حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ‘ پیغمبروں کی اولاد ہیں ‘ اللہ کے چہیتے ہیں ‘ ہماری بخشش تو یقینی ہے۔ ہمارے لیے سب معاف کردیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

129. The Jews knowingly commit sins in the belief that being God's chosen people they will necessarily be pardoned and spared God's punishment. As a result of this misconception, they neither repent nor refrain from committing sins. How unfortunate the Jews are! They received the Scriptures which could have made them leaders of all mankind. But they were so petty-minded that they aspired to nothin... g higher than paltry worldly benefits. Thus even though they had the potential of becoming the upholders of justice and righteousness across the world they ended up merely as worshippers of this world. 130. The people of Israel know well that the Torah does not unconditionally assure them salvation. They have never been promised by God or any of His Prophets that they will attain deliverance no matter what they do. Therefore they have absolutely no right to ascribe to God something which He never told them. What makes their crime even worse is that their claim to unconditional salvation constitutes a sacrilege of their covenant with God whereby they pledged never to attribute any false statement to God. 131. The above verse has two renderings. It may be either translated as above or it may be rendered thus: 'For the righteous, only the home in the Hereafter is the best.' Going by the first rendering, the verse means that salvation is not the exclusive privilege of a particular person or a family. It is absolutely out of the question that one will attain deliverance even if one commits sins, simply on account of being a Jew. A little reflection will help one realize that only the righteous and God-fearing will be rewarded in the Hereafter. In the light of the second rendering, only the unrighteous prefer worldly, gains to reward in the Hereafter. As for the righteous, they are conscious of the importance of the Hereafter and hence forego worldly benefits for the sake of reward in the Next World.  Show more

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :129 یعنی گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہرحال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے ۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ...  شرمندہ ہوتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ بدنصیب لوگ ! اس کتاب کے وارث ہوئے جو ان کو دنیا کا امام بنانے والی تھی ، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاع حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل و راستی کے علمبردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے ، محض دنیا کے کُتے بن کر رہ گئے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :130 یعنی یہ خود جانتے ہیں کہ توراة میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے ۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہرحال تمہاری مغفرت ضرور ہوگی ۔ پھر آخر انہیں کیا حق ہے کہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کریں جو خود خدا نے کبھی نہیں کہی حالانکہ ان سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے نام سے کوئی بات خلاف ِ حق نہ کہیں گے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :131 اس آیت کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ ”خدا ترس لوگوں کے لیے تو آخرت کی قیام گاہ ہی بہتر ہے“ ۔ پہلے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے ، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم کام تو وہ کرو جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر تمہیں آخرت میں جگہ مل جائے اچھی محض اس لیے کہ تم یہودی یا اسرائیلی ہو ۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل موجود ہو تو تم خود سمجھ سکتے ہو کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا جو دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ کام کریں ۔ رہا دوسرا ترجمہ تو اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح دینا تو صرف ان لوگوں کا کام ہے جو ناخدا ترس ہوں ، خدا ترس لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

86: یہ ان کی اس بد عنوانی کا ذکر ہے کہ وہ رشوت لے کر اللہ کی کتاب کی غلط تفسیر کردیتے تھے، اور ساتھ ہی بڑے یقین کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ہمارے اس گناہ کی بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ بخشش تو توبہ سے ہوتی ہے، جس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ آئندہ اس گناہ سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن ان کا حال یہ تھا کہ اگر انہیں دوبارہ...  رشوت کی پیشکش کی جاتی تو وہ دوبارہ لینے کو بے تکلف تیار رہتے تھے۔ اور یہ سب کچھ وہ دنیا کی خاطر کرتے تھے۔ حالانکہ اگر عقل ہوتی تو یہ دیکھتے کہ آخر کی زندگی کہیں بہتر ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:169) خلف۔ وہ نانشین ہوا۔ وہ پیچھے آیا (باب نصر) اول معنی میں خلافۃ۔ جانشین ہونا۔ اور دوسرے معنی میں خلف (پیچھے آنا) سے ہے۔ خلف۔ ناخلف۔ برے جانشین۔ امام بغوی لکھتے ہیں خلف اس قرن (نسل) کو کہتے ہیں جو دوسرے قرن کے بعد آتا ہے۔ ابن لاعرابی کا قول ہے کہ خلف (لام کے زیر کے ساتھ) نیک کیلئے آتا ہے اور خل... ف (لام کے جزم کے ساتھ) بد کے لئے آتا ہے۔ ورثوا الکتب۔ جو کتاب الٰہی (توریت) کے وارث ہوئے یعنی پہلی نسلوں کے بعد اب جن پر اس کتاب الٰہی پر گامزن رہنا فرض ٹھہرا۔ عرض۔ مال و متاع۔ سامان و اسباب۔ امام راغب لکھتے ہیں العرض۔ ہر وہ چیز جسے ثبات نہ ہو۔ ابو عبیدہ کے نزدیک جملہ متاع دنیا اس میں شامل ہے۔ یہ جو بولا جاتا ہے الدنیا عرض حاضر (کہ دنیا تو پیش افتادہ سامان کا نام ہے) یہ بھی دنیا کی بےثباتی ہی بتانے کے لئے ہے۔ قرآن مجید میں ہے تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ (8:67) تم لوگ پیش افتادہ سازوسامان کے طالب ہو۔ اور اللہ آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔ ادنی۔ زیادہ نزدیک (مذکر کے لئے بولا جاتا ہے) دان ودنی کا اسم تفضیل ہے دنیا (مؤنث ہے) یہاں یہ لفظ دنیا کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ یاخذون عرض ھذا الادنی۔ وہ اس دنیا کا مال و دولت لیتے ہیں۔ سیغفرلنا۔ وہ ہمیں ضرور بخش دیا جائیگا۔ یعنی جو مال حلال و حرام ہم حاصل کر رہے ہیں اس کا ہم سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ وان یاتھم عرض مثلہ۔ واؤ حالیہ ہے یعنی حال یہ ہے کہ بجائے حرام مال کے ہتھیانے پر توبہ کرنے اور مغفرت طلب کرنے کے ویسے ہی طریقہ کا مزید مال حاصل کرنے پر مصر ہیں۔ میثاق الکتاب۔ ای المیثاق المذکور فی الکتاب۔ وہ وعدہ جو کتاب (تورات ) میں مذکور ہے یعنی ان لا بقولوا علی اللہ الا الحق۔ درسوا۔ انہوں نے پڑھا۔ درس اور دراسۃ سے ماضی جمع مذکر غائب۔ مافیہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ الکتاب کی طرف راجع ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس لیے کہ ہم اسے کے لاڈ لے بیٹے اور اس کے بر کزیدہ ابنیا کی اولاد ہیں۔8 یعنی گناہ کرنے کے بعد نہ وہ شر مندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں تو نہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ گناہوں پر ان کی جرات دبے با کی دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے، چناچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جو نہی انہیں دوبارہ رشورت لینے کے بعد جونہی ... انہیں دوبارہ رشوت کا موقع ملتا ہے وہ بلا جھجک اسے قبول کرلیتے ہیں، ان کے علما کا یہ حال ہے لوگوں کو غلط مسئلے باتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہماری بخشش ہوجائے گی حالانکہ پھر اسی کا ام کو حاضر رہتے ہیں۔ بخشش کی امید تو تب ہے جب پچھلی سرکشی اور گناہوں سے باز رہیں۔ ( کذافی ابن کثیر)9 یعنی یہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے توراۃ میں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے رہو تمہیں بخش دو گا مگر ان کی جرات اور بےخوفی کا یہ علم ہے کہ گناہ بھی کئے جاتے ہیں اللہ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وہ باتیں بھی منسوب کئے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔ ( کذافی القرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 169 تا 171 یہاں دو لفظ استعمال کئے گئے خلف ۔ خلف ۔ خلف ۔ کے معنی ہیں قائم مقام۔ جانشین اور خلف کے معنی ہیں نالائق اور براجانشین۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آبا و اجداد میں کچھ اچھے لوگ ضرور تھے لیکن ان کی جگہ پر بعد میں آنے والی نسل میں اچھی لوگوں کی تعدا گھٹتی گئی ان بعد میں آنے و... الی نسلوں کے لئے لازمی اور ضروری تھا کہ وہ خلافت کا حق اچھی طرح ادا کرتیں چونکہ وہ کتاب اللہ کی وارث تھیں۔ وہ اس کتاب اللہ کی پیروی سے دنیا کی امامت و رہنمائی کا فریضہ احسن طریقہ پر ادا کرسکتی تھیں مگر وہ اس کی اہل ثابت نہ ہوئیں ۔ ان کے احبار اور علماء نے مذہب فروشی شروع کردی۔ دنیا کے حقیر ، عارضی اور گھٹیا فوائد حاصل کرنے کے لئے نہ صرف کھلم کھلا نا فرمانیاں شروع کردیں بلکہ خوشامد اور ضمیر فروشی میں جس فریاد طبقہ سے کچھ مال و منصب ہونے کی امید ہوتی اس کی مرضی کے مطابق کتاب اللہ (توریت انجیل ) میں تحریف و تبدیلی کردیتے۔ الفاظ تو الفاظ جملے کے جملے بدل دیتے یا حذف کردیتے ۔ اگر پھر بھی کچھ بچ جاتا تو معنی کو توڑ موڑ کر بات کو کہیں سے کہیں تک پہنچا دیتے غرضیکہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں کا ایسا کھلونا بن کر رہ گئی تھی کہ جس بات کو جس طرح چاہتے گھما کر رکھدیتے۔ عرض ھذا الادنیٰ عرض کے معنی مال و دولت کے بھی ہیں اور اس چیز کے بھی جو مال دے کر خریدی جاتی ہے مگر عرف عام میں اسے جو ہر (اصل) کے مقابلے میں نقل ، کھوٹ اور جھاگ کے لئے بولتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلے میں دنیا کا مال متاع اتنا ہی حقیر بےحقیقت اور ناپائدار ہے جتنا کسی چیز کا جھاگ بےحقیقت ہوتا ہے۔ ۔۔ ۔ لفظ ادنیٰ کے مادے ہیں دنو اورر دنی کے معنی ہیں قریب اور نزدیک کے اور دنی کے معنی ہیں ذلیل و خوار سی سے لفظ دنیابنا ہے جس کے دونوں معنی آتے ہیں قریب اور نزدیک کے بیق اور حقیر و ذلیل کے بھی یعنی وہ لوگ آخرت کی ابدی راحتوں کے مقابلے میں جو چیزلے رہے ہیں وہ جھاگ کی طرح بےحقیقت چیز ہے۔ اور وہ اس ذلیل جگہ (دنیا ) کا جھاگ ہے۔ دنیا کے بھی دو معنی ہیں۔ اگر دنیا کو آخرت کے لئے اختیار کیا جائے تو پھر اس کے معنی ہوں گے آخرت سے قریب لیکن اگر دنیا اور اس کی چیزوں کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال کیا جائے تو اس ذلیل و خوار چیز کوئی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جس کتاب کے ذریعہ وہ دنات کی امامت و رہنمائی کا فریضہ ادا کرسکتے تھے انہوں نے اس کو چھوڑ کر دنیا کے وقتی مفادات اور فائدوں کے لینے کے لئے اللہ کی کتاب کو فروخت کرنا شروع کردیا۔ اور پھر اس پر وہ شرمندہ ہونے کے بجائے یہ کہتے تھی کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں وہ اللہ ہماری ساری خطاؤں کو معاف کردے گا ۔ اس ڈھٹائی غلط گمانی اور فریب خیال کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے گناہوں اور معافی کی طر ف مائل ہونے کے بجائے ایمان و دین فروشی میں اس طرح مگن ہوگئے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو کمائی کا ذریعہ بنالیا۔ جہاں ہڈی نظر آئی اسی طرف لپکنے لگے، بےایمانی اور ضمیر فروشی کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نہیں کہ انہوں نے اس کتاب کو نہیں پڑھا یا اس سے ناواقف تھے بلکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس مقدس کتاب میں یہ معاہدہ موجود ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا کہ وہ جھوٹ فریب اور تحریف کو اللہ کے نام پر پیش نہیں کریں گے ۔ اپنی بنائی ہوئی باتوں کو یہ کہہ کر کر پیش نہیں کریں گے یہی توریت ہے یہی کلام الہٰی ہے ۔ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ سب کچھ کرلینے کے بعد ان کا یہ فریب کہ اللہ ہمارے سارے گناہوں کو معاف کرکے ہمیں جنت کی ساری نعمتیں عطا فرمادے گا۔ ایسا نہیں ہوگا بلکہ اگر ان کے گناہوں پر گرفت کرلی گئی تو ان کا اللہ کے عذاب سے بچنا ممکن ہی نہ ہوگا ۔ البتہ اگر کبھی کبھار انجانے میں اچھے لوگوں سے غلطی ہوجاتی ہے اور اس پر وہ نادم و شرمندہ ہوتے ہیں اور توبہ کرلیتے ہیں تو ان کو معا ف کیا جاسکتا ہے ان کی پہچان یہ کہ وہ اپنی اصلاح کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی بھلائی کا کام کرتے ہیں وہ کتاب اللہ پر خوب عمل کرتے ہیں ۔ جو ان کو حکم دیا گیا تھا اس پر وہ عمل کرتے ہیں اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے رکتے اور احکام الہٰی کی پابندی کرتے ہیں۔ وہ نماز نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی نمازوں کی پابندی کی طرف آمادہ کرتے ہیں۔ دوسروں کو تبلیغ و تلقین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آیت نمبر 17 میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کا بیان سورة بقرہ میں بھی آچکا ہے جہاں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے کوہ طور اٹھا کر بلند کردیا تھا یہاں ارشاد ہے کہ ہم نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر سائبان کی طرح مسلط کردیا تھا۔ جس کو وہ سمجھ رہے تھے کہ نہ جانے کب یہ پہاڑ ان کے اوپر گر پڑے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی عہد شکنی ایمان فروشی اور تحریف کی عادت حد سے زیادہ گذر گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر پہاڑ (طور) کو مسلط کردیا اور کہا گیا کہ اگر تم نے ان احکامات کی پابندی نہیں کی جن کا حکم دیا گیا تھا تو اس پہاڑ کو تمہارے اوپر گرادیا جائے گا۔ جنانچہ خوف کے مارے بنی اسرائیل نے تجدید عہد کیا اس کے بعد اس پہاڑ کے عذاب کو ان سے ہٹالیا گیا۔ جب پہاڑ کا عذاب ہٹ گیا تو پھر گناہوں پر دلیر ہوگئے۔ یہاں ایک مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے کہ ” لا اکر اہ فی الدین “ یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ اسکے واضح معنی یہ ہیں کہ کسی غیر مسلم کو زبردستی ڈرا دھمکا کر مسلم بن جانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جب وہ سوچ سمجھ کر خوشی سے اسلام قبول کرلے گا اور اسلام میں پوری طرح داخل ہوجائے گا تو اسے احکام الہی کا پابندی کرنی پڑے گی۔ ان احکامات کی پابندی کے لئے جبر واکراہ کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت کے یہی معنی ہیں ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کی نسل در نسل حالت اور ذہنیت۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اپنے انعامات اور عذابوں کے ساتھ اس لیے آزمایا تاکہ نعمت عطا ہونے پر شکر گزار ہوں اور عذاب آنے کی صورت میں اس کی طرف رجوع کریں۔ لیکن ہوا یہ کہ ان کی ایک کے بعد دوسری نسل پہلے سے بھی بری ثابت ہوئی۔ اہل علم نے لکھا ... ہے کہ خلف کا لفظ لام کی جزم کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ناخلف اور برا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی اچھے وارث کو صرف خلف نہیں بلکہ خلف الرشید کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ناخلف اور نالائق لوگ ہی تورات کے وارث بنے یعنی ان کی رہنمائی کے لیے کسی نہ کسی حالت میں تورات موجود تھی۔ لیکن جس طرح ان کے آباؤ اجداد نے آسمانی دستر خوان من وسلویٰ کے مقابلہ میں لہسن، پیاز اور دال کو ترجیح دی تھی۔ بیت المقدس میں داخلے کے وقت اللہ تعالیٰ سے بخشش اور اس کی رحمت مانگنے کی بجائے گندم کا مطالبہ کیا تھا گویا کہ جس طرح ان کے بڑے نیکی کے مقابلہ میں برائی، اعلیٰ کے مقابلہ میں ادنیٰ چیز پسند کرتے رہے اسی طرح ان کے نسل در نسل وارث بننے والے ناخلف لوگوں کا حال تھا اور ہے۔ اس گھٹیا ذہنیت اور بد اعمالیوں کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انھیں قیامت کے دن معاف کردیا جائے گا۔ جب کہ ان کی حالت جوں کی توں ہے اگر ان کو دنیا کا مال ملے تو یہ تورات میں رد و بدل کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایسا کرنے کے بعد اس کو ” ہٰذَا مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ “ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح یہ حکم نازل کیا ہے حالانکہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہ حکم تورات میں نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حق کے سوا دوسری بات نہ کہی جائے اور انھیں اچھی طرح علم ہے کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کا گھر متقین کے لیے بہتر ہے۔ لیکن پھر بھی عقل سے کام لینے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ عقل کا تقاضا اور سمجھ داری یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ پختہ تعلق قائم رکھتے ہوئے پانچ وقت نماز قائم کی جائے۔ یہی صالح اعمال کی بنیاد ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صالح عمل کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ یہاں کتاب کے ساتھ مضبوط تعلق جوڑنے کے ساتھ اقامت صلوٰۃ کی تلقین کی ہے کیونکہ ایمان لانے کے بعد نماز ہی وہ پہلا عمل ہے جو ایک مسلمان پر فرض ہوتا ہے۔ نماز کی اقامت کا معنی یہ ہے کہ اسے سنت کے مطابق اور اس کے روحانی اور معاشرتی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ادا کیا جائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز اور دین کو لازم ملزوم قرار دیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ مَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہٗ ) [ الترغیب والترہیب ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ہے۔ “ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ سَیَبْلَی الْقُرْآنُ فِی صُدُورِ أَقْوَامٍ کَمَا یَبْلَی الثَّوْبُ فَیَتَہَافَتُ یَقْرَءُ ونَہُ لَا یَجِدُونَ لَہٗ شَہْوَۃً وَلَا لَذَّۃً یَلْبَسُونَ جُلُود الضَّأْنِ عَلٰی قُلُوب الذِّءَابِ أَعْمَالُہُمْ طَمَعٌ لَا یُخَالِطُہُ خَوْفٌ إِنْ قَصَّرُوا قالُوا سَنَبْلُغُ وَإِنْ أَسَاءُ وا قالوا سَیُغْفَرُ لَنَا إِنَّا لَا نُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ الدارمی : کتاب فضائل القرآن، باب فی تعاھد القرآن ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ عنقریب لوگوں کے سینوں میں قرآن اس طرح ہلکا ہوجائے گا جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے لوگ بغیر کسی شوق اور لذت کے قرآن کریم پڑھیں گے ان کے کپڑے بھیڑوں کے چمڑوں کے ہوں گے، ان کے اعمال صرف دنیا کے طمع اور حرص کی بنیاد پر ہوں گے۔ وہ خوف خدا سے گناہوں سے پرہیز نہیں کریں گے وہ برے کام کرنے کے باوجود تبلیغ کریں گے اور یہ کہیں گے کہ عنقریب ہماری بخشش ہوجائے گی کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ “ مسائل ١۔ ناخلف انسان کی نشانی یہ ہے کہ وہ دین کے مقابلے میں دنیا پسند کرتا ہے۔ ٢۔ انسان کو توبہ کیے بغیر اللہ تعالیٰ کی بخشش کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ خود ساختہ مسائل اور بدعات کو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ نہیں لگانا چاہیے۔ ٤۔ حقیقی عقل کا تقاضا ہے کہ آدمی دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دے۔ ٥۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ کی کتاب کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیے۔ ٦۔ ایمان کی پہلی نشانی نماز قائم کرنا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن آخرت کا گھر بہتر ہے : ١۔ آخرت کا گھر متقین کے لیے بہتر ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (الاعراف : ١٦٩) ٢۔ آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔ تم سوچتے کیوں نہیں۔ (یوسف : ١٠٩) ٣۔ ان کے لیے دنیا میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ (یونس : ٦٤) ٤۔ اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا ثواب تو بہت اچھا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٥۔ آخرت کا گھر ہم نے ان کے لیے بنایا ہے جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣) ٦۔ آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے اگر لوگ جان جائیں۔ (العنکبوت : ٦٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بعد میں آنے والوں کی صفات یہاں یہ دی گئی ہیں کہ یہ لوگ کتاب کے وارث تھے ، اسے پڑھتے تھے ، لیکن وہ اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق نہ ڈھالتے تھے ، اور ان کے دل اور ان کا طرز عمل اس کتاب سے متاثر نہ ہوتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ ان کا ایمان ان کی ثقافت بن گیا تھا۔ ایک علم...  تھا جسے وہ پڑھتے تھے لیکن جب وہ مقاصد دنیاوی میں سے کوئی بھی مقصد دیکھتے تو اس کی طرف لپکتے چاہے جائز ہوتا یا ناجائز اور خوش فہمی یہ رکھتے تھے کہ امید ہے کہ اللہ ہمیں معاف کردے گا۔ لیکن عفو کی امیدواری کے بعد پھر اگر کوئی دنیاوی اغراض ان کے سامنے آتیں تو پھر ان کی طرف لپکتے۔ اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا يَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِيْهِ ۔ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو ؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ کیا کتاب میں ان سے وعدہ نہ لیا گیا تھا کہ وہ کتاب اللہ میں بےجا دلیل اور حجت نہ کریں گے اور نصوص کے تقاضوں سے بچنے کے لیے حیلہ سازی نہ کریں گے اور اللہ کی جانب سے سوائے سچائی کے اور کوئی بات نہ کریں گے۔ اس کے برعکس ان کا طرز عمل تو یہ ہے کہ دنیاوی مفادات دیکھتے ہی ان کی طرف لپکتے ہیں اور امیدیں یہ لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اللہ ہمیں بخش دے۔ اور وہ جو اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتے ہیں اس میں اپنے آپ کو حق بجانب اس لیے قرار دیتے ہیں کہ وہ مغفرت کے بےجا امیدوار ہیں حالانکہ ان کو اس بات کا علم ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو بیشک معاف فرماتا ہے لیکن صرف ان لوگوں کو جو فی الحقیقت تائب ہوگئے ہوں اور انہوں نے عملاً معصیت کو چھوڑ دیا ہو جبکہ ان کا طرز عمل ایسا نہیں ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ کوئی ناجائز مفاد سامنے آتے ہی یہ لوگ بےچین ہوجاتے ہیں اور اس کی طرف لپکتے ہیں حالانکہ انہیں کتاب اللہ کے احکام اور تقاضوں کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔ ہاں ! وہ پڑھتے ہیں لیکن پڑھنا صرف اس شخص کے لیے مفید ہوتا جس کے دل میں تعلیم اتر جائے ، کئی ایسے پڑھنے والے ہیں جن کے دلوں سے قرآن بہت دور ہے۔ یہ لوگ کتاب اللہ کی تدریس اس لیے کرتے ہیں کہ اس کی تاویل بھی کریں۔ اور اس کے مفہومات کو بدل دیں اور اپنے مطلب کے فتویٰ کے ذریعے دنیاوی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دین کو محض پڑھنے کی خاطر پڑھیں ، اسے اپنا نظریہ اور عقیدہ نہ بنائیں نہ وہ اللہ سے ڈریں اور اس کی سزا سے خائف ہوں۔ وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے ، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے ؟ ہاں یہ اصل بات دار آخرت کی ہے ، جو اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ صرف ان کی روش میں آخرت کی بات ہوتی ہے اور یہی لوگ دنیاوی مفادات کی کشش کے دائرے سے باہر نکل سکتے ہیں۔ کوئی دل اور کوئی نظام زندگی اس کے سوا درست نہیں ہوسکتا۔ انسان کے نفس اور اس کی نفسیات اور اس کی عملی زندگی کی اصلاح بھی صرف فکر آخرت سے ہوسکتی ہے۔ ورنہ بتایا جائے کہ وہ کون سا جذبہ ہوسکتا ہے جو انسان کو وہ تمام اغراض گھیر لینے سے روک سکتا ہے۔ وہ کیا چیز ہوسکتی ہے جو انسان کو طمع اور لالچ سے روک دے اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی سے روک دے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو دل کو مرغوبات روکے اور نفس انسانی شہوتوں پر کنٹرول کرے۔ زندگی کی اس ہیجان خیز کشمکش میں انسان کو ایک اطمینان بخش سکے۔ صرف اجر اخروی کی امید ہے جس کی وجہ سے انسان اخروی مفاد کی خاطر دنیا کی محرومیاں برداشت کرسکتا ہے مزید یہ کہ حق و باطل کے معرکے میں ، خیر و شر کی جنگ میں ، دنیوی اغراض اور اخروی مفادات کے درمیان فیصلے میں انسان ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ جبکہ شر سرکشی میں مبتلا ہو اور باطل حد سے آگے بڑھ رہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی اس ہیجان خیز کشمکش میں صرف فکر آخرت اور عقیدہ آخرت انسان کے لیے یقین اور سکون کا سبب بن سکتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لیے یہ نہایت ہی مفید ہے۔ ایسے لوگ عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں ، آلودگیوں سے بالا رہتے ہیں اور جادہ حق پر ثابت قدم رہتے ہیں ، قدم پھسلا دینے والے اور جھنجھوڑنے والے فتنے صرف اس شخص پر اثر انداز نہیں ہوتے جو متقی اور آخرت پر ایمان لانے والا ہو۔ ایسے لوگوں کے دل مطمئن اور ثابت قدم ہوتے ہیں اور یہ لوگ کامیابی کا پوری طرح یقین رکھتے ہیں۔ آج کے دور میں اشتراکیت کے داعی اس غائبانہ حقیقت کو ہمارے دلوں کے پردے سے محو کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے عقائد و نظریات سے آخرت کے تصور کو مٹانا چاہتے ہیں اور یہ ہمارے دلوں میں جنون کی وہ آگ کا روشن کرنا چاہتے ہیں جو صرف یقین آخرت سے بجھ سکتی ہے۔ کفر آخرت کے سوا رشوت ، فساد ، لالچ ، ظلم اور لاپرواہی کی بیماریاں زیادہ ہی ہوتی ہیں اور ایسے لوگ جہاں بھی ہوں خائن اور چور ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ عالم غیب اور الم مشاہدہ ، یعنی سائنس اور عالم غیب کے درمیان مکمل تضاد ہے۔ یہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی جہالت کی وبا ہے جہاں تک حقیقی سائنس دانوں اور اہل علم کا تعلق ہے انہوں نے تو اس نظریے کو ایک عرصے سے رد کردیا ہے۔ صرف بیسویں صدی کے جاہل کبھی کبھار اس کا ورد کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جہالت ہے جو انسانی فطرت سے موڑ نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جہالت کے شکار لوگوں کی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور یہ اب ہمہ گیر بگار ہے۔ جس کے نتیجے میں پوری انسانیت کی تباہی کا خطرہ ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ نہایت ہی عیارانہ صیہونی منصوبہ ہے۔ صیہونی کے اس منصوبے کی پشت پر یہ عرض کار فرما ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں سے وہ اصلی قوت سلب کرلی جائے جو انسانوں کی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے تاکہ یہ صیہونی پوری دنیا کو اپنے مقاصد کے مطیع بنا سکیں اور صیہونی منصوبہ سازوں کے اس منصوبے کو یہ لوگ جگہ جگہ اپنے ڈھنڈورچیوں کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ پوری دنیا میں صیہونیوں نے جو صورت حال پیدا کردی ہے اس میں تمام لوگ خود بخود اس منصوبے کو عملاً چلا رہے ہیں۔ فکر آخرت اور خدا خوفی ، انسانی زندگی کے دو نہایت ہی اہم مسئلے ہیں ، جو لوگ دنیاوی مفادات کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہیں قرآن کریم ان کو یہ تصور دیتا ہے کہ وہ عقل کے ناخن لیں " آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے " اگر فیصلہ کرنے کا موقعہ عقل کو دیا جائے اور خواہشات نفسانیہ کا اس میں دخل نہ ہو۔ اگر علم اور سائنس کو حققی معنوں میں لیا جائے اور جہالت کا نام علم نہ رکھا جائے تو آخری فیصلہ حتماً یہی ہو کہ اس دنیائے دنی کے مقابلے میں آخرت ہی بہتر ہے۔ تقویٰ اور خدا خوفی مومنین کے لیے دنیا و آخرت کا توشہ بن جائے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ) (الآیۃ) پھر ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو ناخلف تھے۔ ان لوگوں کا یہ طریقہ تھا کہ اللہ کی کتاب کے وارث تو بن گئے لیکن جو لوگ ان سے پہلے تھے ان سے کتاب تو پڑھ لی لیکن اس کتاب کو انہوں نے حقیر دنیا کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا اور وہ بھی اس طرح سے کہ اللہ کی کتاب میں ا... دل بدل کرتے تھے اور سوال کرنے والے کو مرضی کے مطابق مسئلہ بتا دیتے تھے۔ اس طرح سے اس سے کچھ مال مل جاتا تھا۔ جب دل میں کچھ احساس ہوتا اور اس بات کی ٹیس ہوتی کہ حرام طریقہ پر دنیا حاصل کرلی تو یوں کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیتے تھے کہ (سَیُغْفَرُلَنَا) (اللہ ہماری مغفرت فرما دے گا) اور چونکہ یہ واقعی اور اصلی توبہ نہیں ہوتی تھی اس لیے اپنی حرکت سے باز نہیں آتے تھے۔ سَیُغْفَرَوَلَنَا بھی کہہ دیا جس میں گناہ کا اقرار رہے اور اس کے بعد پھر اس جیسا مال آگیا تو اسے بھی لے لیا۔ جن لوگوں کا نافرمانی کا مزاج ہوتا ہے وہ سچے دل سے توبہ نہیں کرتا گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں کہتے رہتے ہیں کہ اللہ معاف فرمانے والا ہے۔ جاہل کی توبہ توبہ رہی گھونٹ گھونٹ پر سو بوتلیں چڑھا کر بھی ہوشیار ہی رہا امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و التحیہ میں بھی ایسے افراد کثیر تعداد میں ہیں جو برابر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ خاص کر وہ لوگ جنہیں حرام کھانے کی عادت ہے۔ کبھی ذرا سا گناہ کا خیال آتا ہے تو بخشش کا سہارا لے کر برابر گناہ میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔ اہل ایمان تو اللہ کے حضور میں سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور گناہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر توبہ کے بعد پھر گناہ ہوجائے تو پھر سچی توبہ کرلیتے ہیں۔ توبہ کا جزو اعظم یہ ہے کہ آئندہ نہ کرنے کا پختہ عہد ہو۔ جب یہ نہیں تو توبہ بھی نہیں، مومن کا طریقہ یہ ہے کہ ڈرتا بھی رہے اور امید بھی رکھے۔ خالی امید ہو، خوف و خشیت نہ ہو۔ گناہوں کی بہتات ہو، یہ طریقہ صحیح نہیں۔ اسی کو حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مومن اپنے گناہوں کو ایسا سمجھتا ہے کہ جیسے کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور اس بات سے ڈر رہا ہے کہ اس کے اوپر نہ گرپڑے اور فاجر آدمی اپنے گناہوں کو ایسا سمجھتا ہے جیسے اس کی ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور اس نے اسے ہاتھ کے اشارہ سے دفع کردیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٠٦) (اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ ) (الآیۃ) کیا ان سے توریت شریف میں یہ عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب نہ کریں گے جو حق نہ ہو ؟ انہیں اس عہد کا علم بھی ہے اور توریت شریف کو پڑھتے بھی رہے ہیں۔ جانتے بوجھتے اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں اور حقیر دنیا لینے کے لیے اپنی طرف سے مسئلہ بتا کر یوں کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ (ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ) (پھر کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں) (وَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ) (اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو عقائد باطلہ اور اعمال قبیحہ سے پرہیز کرتے ہیں) پتہ انہیں اس بات کا بھی ہے لیکن نا سمجھوں والے کام کرتے ہیں۔ ایمان قبول نہیں کرتے اور گناہوں کو نہیں چھوڑتے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

166: قوم کے صالحین اور نیک لوگوں کے بعد نااہل اور برے لوگ پیدا ہوئے جو تورات کی علمی وراچت پر قابض ہوئے جنہوں نے تورات کو دنیوی اغراض کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ “ یَاخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنیٰ ” وہ غلط فتوی اور خلاف حق فیصلہ دے کر لوگوں سے رشوتیں لیتے اور کتاب اللہ کی تحریف کر کے غیر اللہ...  کی نذریں اور نیازیں حلال ہونے کے فتوے دے کر اور عوام کو چھٹی باتیں بتا کر دولت جمع کرنے میں لگ گئے۔ “ و المراد بھذا العرض ما یاخذونه من الرشا فی الحکومات و علی تحریف الکلام ” (روح ج 9 ص 96) ۔ 167: اللہ کی کتاب کو خبیث دنیا کے عوض فروخت کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ دعوی بھی ہے کہ ہمیں اس گناہ پر گرفت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ “ نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰهِ وَ اَحِبَّاءُہٗ ”۔ “ وَ اِنْ يَّاتِیْھِمْ الخ ” یہ “ يَقُوْلُوْنَ ” کی ضمیر سے حال ہے۔ یعنی ایک طرف تو وہ اس گناہ کی مغفرت کے امید وار ہیں اور دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ اس گناہ پر اصرار بھی کر رہے ہیں اور متاع دنیا کے عوض اللہ کی کتاب کو بیچنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول شنیع کا چار طریقوں سے رد فرمایا ہے۔ 168: یہ یہود کے قول مذکور کے بطلان کی پہلی دلیل ہے یعنی اگر وہ بخشے ہوئے تھے تو ان سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لینے کی کیا ضرورت تھی۔ “ مِیْثَاقُ الْکِتٰبِ ” یعنی وہ عہد جو تورات میں ان سے لیا گیا تھا۔ “ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا ” یہ “ مِیْثَاقٌ ” کا عطف بیان یا اس سے بدل ہے۔ یعنی میثاق (عہد) یہ تھا کہ وہ اللہ کی طرف صرف حق بات ہی کو منسوب کریں۔ اور اپنی طرف سے غلط باتیں بنا کر اللہ کے ذمہ نہ لگائیں اور وہ تورات پڑھ چکے ہیں اور یہ عہد ان کو خوب یاد ہے۔ اس لیے ان کا فرض تھا کہ وہ اس عہد کو پورا کرتے مگر انہوں نے حقیر دنیا کی خاطر اللہ کا عہد توڑ دیا حالانکہ دار آخرت ان کے لیے بہتر تھا۔ اگر وہ اللہ سے ڈرتے اور عہد پر قائم رہتے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

169 پھر ان گزشتہ لوگوں کے بعد کچھ ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے کتاب یعنی توریت کو تو ان سے حاصل کیا اور ان گزشتہ لوگوں کے بعد توریت کے تو وارث بنے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ احکام الٰہی کی عوض اس دنیائے دنی کا مال و متاع سمیٹتے ہیں اور اس دنیائے دنی کے فائدے حاصل کرتے ہیں یعنی بجائے اس کے ک... ہ اللہ کے لئے تبلیغ کرتے اور خدا کے احکام اس کے بندوں تک حض لوجہ اللہ پہنچاتے انہوں نے احکامِ الٰہی اور توریت کی تبلیغ کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنالیا اور اس پر دلیر ایسے کہ اگر کوئی ان کو ٹوکے تو کہتے ہیں کہ ضرور ہماری مغفرت ہوجائے گی اور یہ دین فروشی ہم کو معاف کردی جائے گی اور باوجود اس کے اگر پھر ان کے پاس ایسا ہی کوئی مال آجائے تو اسے بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ یعنی دین فروشی کے عادی ہیں اور اس گناہ کو ہلکا اور خفیف سمجھتے ہیں کیا ان لوگوں سے کتاب الٰہی کے اس مضمون پر عہد نہیں لیا گیا کہ وہ سوائے امر حق اور واقعی بات کے اور کوئی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کریں اور جو کچھ اس توریت میں ہے اس کو یہلوگ پڑھ بھی چکے ہیں یعنی توریت میں یہ حکم موجود تھا اور یہ اس کو پڑھ بھی چکے تھے اور جب یہ کتاب پر ایمان لائے تو ہر حکم کے پابند ہوئے اور آخرت کا گھر اور دار آخرت ان لوگوں کے لئے بہتر ہے اور اس گھر کی بھلائی کے وہ لوگ مستحق ہیں جو اس قسم کی معصیت اور عہد شکنی سے پرہیز کرتے ہیں۔ کیا اے یہود ! تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پچھلے لوگ رشوت لے کر غلط مسئلے لگے کہنے اور امید رکھتے کہ ہم بخشے جاویں حالانکہ پھر اسی کام کو حاض ہیں امید بخشنے کی ہے جب باز آویں یہ اسباب زندگی مال دنیا کو فرمایا۔ 12  Show more