Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 17

سورة الأعراف

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ ﴿۱۷﴾

Then I will come to them from before them and from behind them and on their right and on their left, and You will not find most of them grateful [to You]."

پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"Then I will come to them from before them and behind them, from their right and from their left, and You will not find most of them to be thankful." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented on: ثُمَّ لاتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ (Then I will come to them from before them), Raising doubts in them concerning their Hereafter, وَمِنْ خَلْفِهِمْ (and (from) behind them), making them more eager for this life, وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ (from their right), causing them confusion in the religion, وَعَن شَمَأيِلِهِمْ (and from their left), luring them to commit sins." This is meant to cover all paths of good and evil. Shaytan discourages the people from the path of good and lures them to the path of evil. Al-Hakam bin Abban said that Ikrimah narrated from Ibn Abbas concerning the Ayah, ثُمَّ لاتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَأيِلِهِمْ ... Then I will come to them from before them and behind them, from their right and from their left, "He did not say that he will come from above them, because the mercy descends from above." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, ... وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ and You will not find most of them to be thankful. "means, those who single Him out (in worship)." When Shaytan said this, it was a guess and an assumption on his part. Yet, the truth turned out to be the same, for Allah said, وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلاَّ فَرِيقاً مِّنَ الْمُوْمِنِينَ وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِّن سُلْطَـنٍ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يُوْمِنُ بِالاٌّخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِى شَكٍّ وَرَبُّكَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ حَفُيظٌ And indeed Iblis (Shaytan) did prove true his thought about them, and they followed him, all except a group of true believers. And he had no authority over them, except that We might test him who believes in the Hereafter, from him who is in doubt about it. And your Lord is Watchful over everything. (34:20-21) This is why there is a Hadith that encourages seeking refuge with Allah from the lures of Shaytan from all directions. Imam Ahmad narrated that Abdullah bin Umar said, "The Messenger of Allah used to often recite this supplication in the morning and when the night falls, اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالاْخِرَةِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَامِنْ رَوْعَاتِي اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي O Allah! I ask You for well-being in this life and the Hereafter. O Allah! I ask You for pardon and well-being in my religion, life, family and wealth. O Allah! Cover my errors and reassure me in times of difficulty. O Allah! Protect me from before me, from behind me, from my right, from my left and from above me. I seek refuge with Your greatness from being killed from below me." Waki` commented (about being killed from below), "This refers to earthquakes." Abu Dawud, An-Nasa'i, Ibn Majah, Ibn Hibban and Al-Hakim collected this Hadith, and Al-Hakim said, "Its chain is Sahih."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 مطلب یہ ہے کہ ہر خیر اور شر کے راستے پر بیٹھوں گا۔ خیر سے روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بنا کر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دوں گا۔ 17۔ 2 شاکرین کے دوسرے معنی موحدین کے کیے گئے ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کو میں شرک میں مبتلا کر دوں گا۔ شیطان نے اپنا یہ گمان فی الواقع سچا کر دکھایا، (وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 34 ۔ سبأ :20) شیطان نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، اور مومنوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب لوگ اس کے پیچھے لگ گئے۔ اسی لئے حدیث میں شیطان سے پناہ مانگنے اور قرآن میں اس کے مکر و کید سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ ۔۔ : اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیطان اور دوسری تمام آفات سے تمام اطراف سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرتے تھے اور کبھی ان میں ناغہ نہیں کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَاْلعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَأَھْلِیْ وَمَالِیْ ، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَّوْعَاتِی، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَ مِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَاَعُوْذُ بِعَظْمَتِکَ اَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ ) [ أحمد : ٢؍٢٥، ح : ٤٨٨٤۔ أبو داوٗد، الأدب، باب ما یقول إذا أصبح : ٥٠٧٤ ]” اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین میں اور اپنی دنیا میں اور اپنے اہل میں اور مال میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! تو میری پردے والی چیزوں پر پردہ ڈال دے اور میری گھبراہٹوں کو امن عطا فرما۔ اے اللہ ! میری حفاظت فرما میرے آگے سے اور میرے پیچھے سے اور میرے دائیں سے اور میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک پکڑ لیا جاؤں۔ “ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ : ابلیس کو غیب کی خبر تو نہ تھی محض گمان پر اس نے یہ دعویٰ کردیا مگر ظالم نے اپنا یہ گمان واقعی سچا کر دکھایا، جیسا کہ سورة سبا (٢٠) میں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝ ٠ ۭ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ١٨ ذأم قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً [ الأعراف/ 18] أي : مذموما . يقال : ذمته أذيمه ذيما، وذممته أذمّه ذمّا، وذَأَمْتُهُ ذَأْماً. ( ذ ء م ) ذآ مہ یذء مہ ذاما اور ذمہ ( ن ) زما اور ذامہ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی کسی کو حقیر اور مذموم گرد اننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً [ الأعراف/ 18] یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا جو شخص ان میں تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ دحر الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] . ( د ح ر ) الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینگے جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔ مِلْء) بهرنا) مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ. الملأ کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ابلیس کے وار انسان پر قول باری ہے ثم لا تینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمائلھم پھر ان کے آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا) حضرت ابن عباس، ابراہیم، قتادہ، الحکم اور سدی سے منقول ہے کہ من بین ایدیھم ومن خلفھم) سے مراد ہے ” ان کی دنیا اور آخرت کی طرف سے، ان کی نیکیوں اور بدیوں کی جہت ہے “ مجاہد کا قول ہے۔” ان کی نظروں کے سامنے ہو کر اور ان کی نظروں سے چھپ کر “ ایک قول ہے ” ہر اس جہت سے جس میں انہیں اپنے پھندے میں پھانسنا ممکن ہوگا “۔ شیطان نے انسانوں کے خلاف اپنی فتنہ سا مانیوں کے لئے ایک جہت کا ذکر نہیں کیا یعنی ” ومن فوقھم “ (اور ان کے اوپر سے) نہیں کہا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ انسانوں پر اللہ کی رحمت اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اس جہت کو شیطان سے آزاد رکھا گیا۔ اسی طرح ومن تحت ارجلھم (اور ان کے قدموں کے نیچے سے) نہیں کہا اس لئے اگر اس کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں تو اس جہت سے کوئی کارروائی ناممکن اور ممتنع ہوتی ہے۔ قول باری ہے ولاتقرباھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین۔ مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جائو گے) اللہ تعالیٰ نے درخت سے دونوں کے قرب کو مقرون کردیا۔ البتہ یہ بات معلوم ہے کہ اس میں یاد کی شرط لگائی تھی اور جان بوجھ کر اس کا علم رکھتے ہوئے کھانے کی شرط عائد کی تھی۔ اس لئے کہ نسیان اور خطا کی بنا پر کسی کام کے کرلینے میں جس پر کوئی دلیل قاطمع موجود نہ ہو، مواخذہ نہیں ہوتا۔ ان دونوں کا درخت سے کھا لینا معصیت کبیرہ نہیں تھی بلکہ دو وجوہ سے معصیت صغیرہ تھی۔ ایک تو یہ کہ دونوں اس معصیت کی وعید کو بھول گئے تھے اور یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ یہ نہی استجباب پر مبنی ہے ایجاب پر مبنی نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فنسی ولم نجدلہ عزماً ۔ سو ان سے بھول ہوگئی اور ہم نے ان میں پختگی نہیں پائی) دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں ایک متعین درخت کا اشارہ دیا گیا تھا اور انہوں نے اس سے عین درخت مراد سمجھی تھی جبکہ جنس درخت مرا د تھی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونا اور ریشم ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا تھا ھذان مھلکا امتی۔ یہ دونوں چیزی میری امت کے لئے مہلک ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنس سونا اور جنس ریشم مراد لی تھی، صرف وہی سونا اور ریشم مراد نہیں تھے جنہیں آپ نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. This was the challenge thrown down by Satan to God. What it meant is that Satan would make use of the respite granted to him until the Last Day, and he would do so in order to prove that nian did not deserve a position superior to his and this had after all been bestowed upon him by God. So doing, he would expose how ungrateful, thankless and disloyal a creature man is. The respite asked for by Satan and granted to him by God includes not only the time but also the opportunity to mislead Man and to prove his point by appealing to man's weaknesses. The Qur'an makes a pointed statement about this in Banu Isra'il 17: 61-5. These verses make it clear that God had granted Satan the opportunity to try to mislead Adam and his offspring At the same time it has also been made quite clear that Satan was not granted the power to lead men into error against their will. 'As for my servants', says the Qur'an, 'you shall have no power over them' (Banu Isra'il 17: 65). Thus all that Satan can do is to cause misunderstanding, to make people cherish false illusions, to make evil and error seem atractive, and to invite people to evil ways by holding out to them the promise of immense pleasure and material benefits. He would have no power, however, to forcibly pull them to the Satanic way and to prevent them from following the Right Way. Accordingly, the Qur'an makes it quite plain elsewhere that on the Day of Judgement, Satan would address the men who had followed him in the following words: 'I had no power over you except to call you; but you listened to me: then reproach me not, but reproach your own selves' (Ibrahim 14: 22). As for Satan's allegation that God Himself caused him to fall into error (see verse 16) it is an attempt on the part of Satan to transfer the blame which fails squarely on him to God. Satan's grivance seems to be that God was responsible for his deviation insofar as He hurt Satan's pride by asking him to prostrate before Adam, and that it was this which led him to disobey God. It is thus clear that Satan wanted to continue enjoying his vain arrogance and that he was incensed that his weakness - arrogance - was seen through and brought to full light. The underlying stupidity of the statement is too patently obvious to call for any refutation, and hence God took no notice of it.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :12 یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہے اس سے فائدہ اُٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے ۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا ، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے ۔ یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرمادی ، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا ۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے ، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا ۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیات ٦١ ۔ ٦۵ میں اس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلتا چاہتا ہے ، چلے ۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کُھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا ۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہوگا ۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہوگا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے ، جھوٹی امیدیں دلائے ، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے ، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے ۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے ۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں فرمائی ہے کہ قیامت میں عدالتِ الہٰی سے فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہےگا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَانٍ اِلَّا ٓاَنْ دَعَوْتَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی ْفَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نے اپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کر لی ۔ لہذٰا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے ۔ اس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کر دیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی ۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا ۔ یہ ایک کُھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کے زمانہ میں شیطان نے اللہ تعالیٰ سے یہ ایک ظنی بات کہی تھی کہ ہر طرح سے میں بنی آدم کو بہکاؤں گا جب اس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت کے زمانہ میں اس کے ظن کی تصدیق آیت (لقد صدق علیہم ابلیس ظنہ (٣٤: ٢) سے فرمائی علی بن ابی طلحہ کی صحیح روایت میں امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے شاکرین کی تفسیر موحدین فرمائی ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اگرچہ انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور پیدا کرنے کے بعد انسان کو نجات عقبے کے راستہ پر لانے کے لئے آسمانی کتابیں نازل فرمائی ‘ رسول بھیجے مگر شیطان کے بہکاوے میں آن کر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو بھول گئے کوئی بتوں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرتا ہے کوئی ستاروں کو غرض صحیح طریق سے اللہ کی عبادت کرنے والے بہت کم لوگ سر زمین پر نظر آتے ہیں مسند امام احمد اور نسائی وغیرہ کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی صحیح حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خط کھینچ کر اس کو نجات کا راستہ فرمایا ہے اور اس خطبہ کے دائیں بائیں بہت خط کھینچ کر یہ فرمایا ہے کہ ان سب راستوں میں طرح طرح کے شیطانی بہکاوے ہیں یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ نجات کا راستہ ایک ہے اور اس پر چلنے والا بھی ایک ہی گروہ ہے شیطانی راستے بھی بہت سے ہیں اور ان پر چلنے والے بھی بہت سے گروہ ہیں یہی مطلب ولا تجد اکثر ھم شاکرین کا ہے :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:17) لاتینھم۔ مضارع بلام تاکید و نون ثقیلہ۔ صیغہ واحد متکلم ۔ میں ضرور آؤں گا ان کے پاس (ان کو بہکانے کے لئے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آگے سے مراد ہے کہ انہیں آخرت کے آنے یا نہ آنے سے متعلق شک میں ڈال دو گا پیچھے سے مراد یہ ہے کہ انہیں دنیا پر فریفتہ کروں گا۔ دارئیں سے مراد یہ ہے کہ دین کا معاملہ ان پر مشتبہ کردو گا اور بائیں سے مراد یہ ہے کہ گنا ہوں کو مرغوب بنا کر ان کے سامنے پیش کرونگا ( ابن کثیر ) 1 ابلیس نے یہ بات اپنے گمان کی بنا پر کہی جو واقع سچ ہو کر رہی جیسا کہ دوسری آیت میں ہے کہ ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فریقامن المومنین اور ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھا یا چانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی سوائے تھوڑے سے ایمانداروں کے۔ ( صبا 30)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی ان کے بہانے میں خوب کوشش کروں گا جس سے آپ کی عبادت نہ کرنے پائیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:“ مِنْ بَیْنِ اَيْدِيْھِمْ ” سے آخرت پر ایمان لانے سے روکنا مراد ہے۔ “ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ ” دنیا میں مشغول و منہمک کردینا “ وَ عَنْ اَيْمَانِھِمْ ” نیکیوں سے روکنا۔ “ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ ” سے برائیوں کی ترغیب دینا مراد ہے۔ یا یہ چاروں ہر طریقہ سے گمراہ کرنے سے کنایہ ہے اور یہی معنی سیاق قرآن کے مطابق ہے۔ الظاھر ان اتیانہ من ھذہ الجھات الاربع کنایۃ عن وسوستہ واغوائہ لہ والجد فی اضلالہ من کل وجہ یمکن (بحر ج 4 ص 276) ۔ 14 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں شاکر بمعنی موحد ہے۔ قال ابن عباس معناہ ولا تجد اکثرھم موحدین (خازن ج 2 ص 178) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے پاس بہکانے کے لئے آئوں گا اور ان پر حملہ آور ہوں گا اور تو اولادِ آدم (علیہ السلام) میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا یعنی عبادت کرنے والا اور حق ماننے والا نہ پائے گا اور اکثریت نافرمانوں کی ہوگی۔