The preceding verse (169) contained a mention of a covenant made with the religious leaders of the Israelites in particular, that they shall not make any changes in the Torah and shall not ascribe to Allah anything but the truth. It has already been mentioned that they violated this pledge and distorted the contents of the Torah for petty amounts of money. This verse is an extension of the same theme. It says that there are some among their religious leaders who are truth-fully following the commands of the Torah and are firmly adhering to its guidance. They established the Salah as was required. The verse has provided with an assurance to such people that they shall not be deprived of their reward. That is, those who have been true to their faith and fulfilled its demands are righteous people among them. There are some points of discussion related to this verse. The term &Book& most probably refers to the Torah. Another possibility is that it refers to all the heavenly books of Allah like Torah, Injil and the Qur&an. Another point to be noted is that merely keeping the book of Allah and showing respect to it without following its& commandments does not fulfill the very object of its revelation. It is why the verse has used the word يُمَسِّكُونَ |"Hold fast|", in place of يَأْخُذُونَ or یَقرَؤنَ |"those who take it or read it. Holding fast the Book requires to follow all it&s injunctions and commands. The next thing we note in this verse is that out of a large number of doctrines of the Torah the verse has made mention of |"establishing &Salah& only. This is because the Salah is the most significant and purposeful act among the precepts enjoined by Allah. This is, in fact, the most basic and quintessential way of expressing one&s faith in, and obedience to, Allah. Offering the Salah regularly makes one capable of being regular in other worships more willingly and with more ease. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has termed the Salah as being the pillar of Islam. The whole edifice of Islam rests on it. Whoever has erected it properly has built the whole structure of his faith on a stronghold. Any one not regular in Salah, is of no worth to Allah, even if he is seen reciting His name all the times and has unusual visions and does extraordinary acts.
خلاصہ تفسیر اور (ان میں سے) جو لوگ کتاب (یعنی تورات) کے پابند ہیں (جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا بھی حکم ہے پس پابندی یہی ہے کہ مسلمان ہوگئے) اور (عقائد کے ساتھ اعمال صالحہ کے بھی پابند ہیں چنانچہ) نماز کی پابندی کرتے ہیں، ہم ایسے لوگوں کا جو اپنی (اس طرح) اصلاح کریں ثواب ضائع نہ کریں گے اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر چھت کی طرح ان ( بنی اسرائیل) کے اوپر (محاذات میں) معلق کردیا اور ان کو یقین ہوا کہ اب ان پر گرا اور (اس وقت) کہا کہ (جلدی) قبول کرو جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے (یعنی تورات اور) مضبوطی کے ساتھ قبول کرو) اور یاد رکھو جو احکام اس (کتاب) میں ہیں جس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں ایک عہد و میثاق کا ذکر تھا جو خصوصی طور پر علماء بنی اسرائیل سے تورات کے متعلق لیا گیا تھا کہ اس میں کوئی تصرف و تغیر نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بجز حق اور صحیح بات کے کوئی چیز منسوب نہ کریں گے، اور یہ بات پہلے بیان ہوچکی تھی کہ ان علماء بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی اور اہل غرض سے رشوتیں لے کر تورات کے احکام بدلے اور ان کی غرض کے مطابق کرکے بتلائے اب بعض وہ بھی اسی مضمون کا تکملہ ہے کہ علماء بنی اسرائیل سب کے سب ایسے نہیں، ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے تورات کے احکام کو مضبوطی سے تھاما، اور ایمان کے ساتھ عمل کے بھی پابند ہوئے، اور نماز کو پورے آداب کے ساتھ قائم کیا، ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے، تو جن لوگوں نے ایمان و عمل کے دونوں فرائض ادا کرکے اپنی اصلاح کرلی ان کا اجر ضائع نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں چند فوائد قابل غور ہیں، اول یہ کہ کتاب سے مراد اس میں وہی کتاب ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے یعنی تورات، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہر آسمانی کتاب تورات، انجیل، قرآن سب مراد ہوں۔ دوسرے یہ کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو صرف اپنے پاس احتیاط اور تعظیم کے ساتھ رکھ لینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے احکام کی پابندی مطلوب ہے شاید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں کتاب کے لینے یا پڑھنے کا ذکر نہیں، ورنہ يَاْخُذُوْنَ یا یقرَءُونَ کا لفظ ہوتا اس کی جگہ يُمَسِّكُوْنَ کا لفظ اختیار کیا گیا جس کے معنی ہیں مضبوطی کے ساتھ پوری طرح تھامنا یعنی اس کے احکام کی تعمیل کرنا۔ تیسری بات قابل غور یہ ہے کہ یہاں احکام تورات کی تعمیل اور پابندی کا ذکر تھا اور احکام تورات سینکڑوں ہیں، ان میں سے اس جگہ صرف اقامت صلوة کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ کتاب اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ اہم اور افضل و اعلی نماز ہے نیز یہ کہ نماز کی پابندی احکام الہیہ کی پابندی کی خاص نشانی اور علامت بھی ہے کہ اس کے ذریعہ فرمانبردار اور نافرمان کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی پابندی میں یہ خاصیت بھی ہے کہ جو نماز کا پابند ہوگا اس کے لئے دوسرے احکام خداوندی کی پابندی بھی سہل ہوجاتی ہے اور جس نے نماز کی پابندی نہ کی اس سے دوسرے احکام کی پابندی بھی نہ ہوسکے گی، جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ نماز دین کا عمود ہے جس پر اس کی تعمیر کھڑی ہوئی ہے جس نے اس عمود کو قائم کرلیا اس نے دین کو قائم کرلیا اور جس نے اس کو منہدم کردیا اس نے پورے دین کی عمارت منہدم کردی۔ اسی لئے اس آیت میں (آیت) وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ فرما کر یہ بتلا دیا کہ کتاب سے تمسک کرنے والا اور اس کی پابندی کرنے والا صرف اسی کو سمجھا جائے گا جو نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کرے، اور جو نماز میں کوتاہی کرے وہ کتنے ہی وظائف پڑھے یا مجاہدے کرے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ نہیں اگرچہ اس سے کشف و کرامت کا صدور بھی ہوتا ہو۔ یہاں تک بنی اسرائیل کو ان کی عہد شکنی اور احکام تورات میں تحریف کرنے پر تنبیہ کا بیان تھا اس کے بعد دوسری آیت میں بنی اسرائیل ہی کے ایک خاص عہد کا ذکر ہے جو ان سے احکام تورات کی پابندی کے لئے ڈرا دھمکا کر گویا زبردستی لیا گیا تھا، جس کا ذکر سورة بقرہ میں بھی آچکا ہے۔