Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 170

سورة الأعراف

وَ الَّذِیۡنَ یُمَسِّکُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُصۡلِحِیۡنَ ﴿۱۷۰﴾

But those who hold fast to the Book and establish prayer - indeed, We will not allow to be lost the reward of the reformers.

اور جو لوگ کتاب کے پابند ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں ، ہم ایسے لوگوں کا جو اپنی اصلاح کریں ثواب ضائع نہ کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ يُمَسَّكُونَ بِالْكِتَابِ ... And as to those who hold fast to the Book, adhere to it, implement its commands and refrain from its prohibitions, ... وَأَقَامُواْ الصَّلَةَ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ and perform the Salah, certainly We shall never waste the reward of those who do righteous deeds.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

170۔ 1 ان لوگوں میں سے جو تقوٰی کا راستہ اختیار کرلیں، کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں۔ جس سے مراد اصلی تورات ہے اور جس پر عمل کرتے ہوئے نبوت محمدی پر ایمان لے آئیں، نماز وغیرہ کی پابندی کریں، تو اللہ ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ اس میں ان اہل کتاب (سیاق کلام سے یہاں بطور خاص یہود) کا ذکر ہے جو تقوٰی، تمسک یا کتاب اور اقامت صلٰوۃ کا اہتمام کریں اور ان کے لئے آخرت کی خوشخبری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور رسالت محمدیہ پر ایمان لے آئیں۔ کیونکہ اب پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٣] ہر معاشرے میں کچھ انصاف پسند موجود ہوتے ہیں :۔ اللہ تعالیٰ نے ان ناخلف لوگوں سے جن کی اوپر صفات بیان کی گئی ہیں ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا جو دیانتداری کے ساتھ دین پر قائم رہتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں خواہ کتنا فساد پھیل جائے کچھ نہ کچھ لوگ ایسے بھی نکل ہی آتے ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے اپنے دین کا خیال رکھنے والے ہوتے ہیں اللہ ایسے لوگوں کو ضرور ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دے گا کیونکہ اس کے عدل کا یہی تقاضا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بالْكِتٰبِ ۔۔ : کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد اس پر عمل کرنا ہے اور نماز بھی اگرچہ اس میں شامل تھی مگر اس کو خصوصاً اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ دین کا بنیادی ستون ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر۔۔ : ٨٢، عن جابر (رض) ] ” یقیناً آدمی کے درمیان اور شرک و کفر کے درمیان نماز کا ترک ہے۔ “ گویا نماز نہیں تو کتاب سے تمسک بھی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The preceding verse (169) contained a mention of a covenant made with the religious leaders of the Israelites in particular, that they shall not make any changes in the Torah and shall not ascribe to Allah anything but the truth. It has already been mentioned that they violated this pledge and distorted the contents of the Torah for petty amounts of money. This verse is an extension of the same theme. It says that there are some among their religious leaders who are truth-fully following the commands of the Torah and are firmly adhering to its guidance. They established the Salah as was required. The verse has provided with an assurance to such people that they shall not be deprived of their reward. That is, those who have been true to their faith and fulfilled its demands are righteous people among them. There are some points of discussion related to this verse. The term &Book& most probably refers to the Torah. Another possibility is that it refers to all the heavenly books of Allah like Torah, Injil and the Qur&an. Another point to be noted is that merely keeping the book of Allah and showing respect to it without following its& commandments does not fulfill the very object of its revelation. It is why the verse has used the word يُمَسِّكُونَ |"Hold fast|", in place of يَأْخُذُونَ or یَقرَؤنَ |"those who take it or read it. Holding fast the Book requires to follow all it&s injunctions and commands. The next thing we note in this verse is that out of a large number of doctrines of the Torah the verse has made mention of |"establishing &Salah& only. This is because the Salah is the most significant and purposeful act among the precepts enjoined by Allah. This is, in fact, the most basic and quintessential way of expressing one&s faith in, and obedience to, Allah. Offering the Salah regularly makes one capable of being regular in other worships more willingly and with more ease. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has termed the Salah as being the pillar of Islam. The whole edifice of Islam rests on it. Whoever has erected it properly has built the whole structure of his faith on a stronghold. Any one not regular in Salah, is of no worth to Allah, even if he is seen reciting His name all the times and has unusual visions and does extraordinary acts.

خلاصہ تفسیر اور (ان میں سے) جو لوگ کتاب (یعنی تورات) کے پابند ہیں (جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا بھی حکم ہے پس پابندی یہی ہے کہ مسلمان ہوگئے) اور (عقائد کے ساتھ اعمال صالحہ کے بھی پابند ہیں چنانچہ) نماز کی پابندی کرتے ہیں، ہم ایسے لوگوں کا جو اپنی (اس طرح) اصلاح کریں ثواب ضائع نہ کریں گے اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر چھت کی طرح ان ( بنی اسرائیل) کے اوپر (محاذات میں) معلق کردیا اور ان کو یقین ہوا کہ اب ان پر گرا اور (اس وقت) کہا کہ (جلدی) قبول کرو جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے (یعنی تورات اور) مضبوطی کے ساتھ قبول کرو) اور یاد رکھو جو احکام اس (کتاب) میں ہیں جس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں ایک عہد و میثاق کا ذکر تھا جو خصوصی طور پر علماء بنی اسرائیل سے تورات کے متعلق لیا گیا تھا کہ اس میں کوئی تصرف و تغیر نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بجز حق اور صحیح بات کے کوئی چیز منسوب نہ کریں گے، اور یہ بات پہلے بیان ہوچکی تھی کہ ان علماء بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی اور اہل غرض سے رشوتیں لے کر تورات کے احکام بدلے اور ان کی غرض کے مطابق کرکے بتلائے اب بعض وہ بھی اسی مضمون کا تکملہ ہے کہ علماء بنی اسرائیل سب کے سب ایسے نہیں، ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے تورات کے احکام کو مضبوطی سے تھاما، اور ایمان کے ساتھ عمل کے بھی پابند ہوئے، اور نماز کو پورے آداب کے ساتھ قائم کیا، ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے، تو جن لوگوں نے ایمان و عمل کے دونوں فرائض ادا کرکے اپنی اصلاح کرلی ان کا اجر ضائع نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں چند فوائد قابل غور ہیں، اول یہ کہ کتاب سے مراد اس میں وہی کتاب ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے یعنی تورات، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہر آسمانی کتاب تورات، انجیل، قرآن سب مراد ہوں۔ دوسرے یہ کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو صرف اپنے پاس احتیاط اور تعظیم کے ساتھ رکھ لینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے احکام کی پابندی مطلوب ہے شاید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں کتاب کے لینے یا پڑھنے کا ذکر نہیں، ورنہ يَاْخُذُوْنَ یا یقرَءُونَ کا لفظ ہوتا اس کی جگہ يُمَسِّكُوْنَ کا لفظ اختیار کیا گیا جس کے معنی ہیں مضبوطی کے ساتھ پوری طرح تھامنا یعنی اس کے احکام کی تعمیل کرنا۔ تیسری بات قابل غور یہ ہے کہ یہاں احکام تورات کی تعمیل اور پابندی کا ذکر تھا اور احکام تورات سینکڑوں ہیں، ان میں سے اس جگہ صرف اقامت صلوة کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ کتاب اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ اہم اور افضل و اعلی نماز ہے نیز یہ کہ نماز کی پابندی احکام الہیہ کی پابندی کی خاص نشانی اور علامت بھی ہے کہ اس کے ذریعہ فرمانبردار اور نافرمان کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی پابندی میں یہ خاصیت بھی ہے کہ جو نماز کا پابند ہوگا اس کے لئے دوسرے احکام خداوندی کی پابندی بھی سہل ہوجاتی ہے اور جس نے نماز کی پابندی نہ کی اس سے دوسرے احکام کی پابندی بھی نہ ہوسکے گی، جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ نماز دین کا عمود ہے جس پر اس کی تعمیر کھڑی ہوئی ہے جس نے اس عمود کو قائم کرلیا اس نے دین کو قائم کرلیا اور جس نے اس کو منہدم کردیا اس نے پورے دین کی عمارت منہدم کردی۔ اسی لئے اس آیت میں (آیت) وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ فرما کر یہ بتلا دیا کہ کتاب سے تمسک کرنے والا اور اس کی پابندی کرنے والا صرف اسی کو سمجھا جائے گا جو نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کرے، اور جو نماز میں کوتاہی کرے وہ کتنے ہی وظائف پڑھے یا مجاہدے کرے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ نہیں اگرچہ اس سے کشف و کرامت کا صدور بھی ہوتا ہو۔ یہاں تک بنی اسرائیل کو ان کی عہد شکنی اور احکام تورات میں تحریف کرنے پر تنبیہ کا بیان تھا اس کے بعد دوسری آیت میں بنی اسرائیل ہی کے ایک خاص عہد کا ذکر ہے جو ان سے احکام تورات کی پابندی کے لئے ڈرا دھمکا کر گویا زبردستی لیا گیا تھا، جس کا ذکر سورة بقرہ میں بھی آچکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝ ٠ ۭ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ۝ ١٧٠ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٠) اور جو لوگ جو کچھ کتاب میں ہے، اس پر عمل کرتے ہیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانتے ہیں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف کو بیان کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں کو قائم کرتے ہیں ہم ایسے لوگوں کے عمل کو جو قول وعمل میں نیک ہوتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی ضائع نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٠ (وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَط اِنَّا لاَ نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ) بنی اسرائیل میں نیک لوگ آخری وقت تک ضرور موجود رہے ہوں گے۔ ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کا اجر ہم کسی صورت میں ضائع نہیں کریں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:170) یمسکون۔ جمع مذکر غائب تمسک (باب تفعل) سے ۔ وہ پکڑے ہوئے ہیں وہ پابند ہیں۔ امساک الشیٔ کے معنی کسی چیز سے چمٹ جانا۔ اور اس کی حفاظت کرنے کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اس میں کوئی تحریٖف نہیں کرتے اور اسی برا پر وہ اگلی کتاب یعنی قرآن حکیم پر ایمان لاتے اور اس کے احکام کی پیروی کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭاِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ ۔ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے ، یقیناً ایسے نیک لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے " یہ ان لوگوں پر ایک طنز ہے جن سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور اسے پڑھیں اور انہوں نے عہد کے باوجود کتاب کو مضبوطی سے نہ پکڑا حالانکہ وہ اسے پکڑ تو لیتے ہیں لیکن عمل نہیں کر تھے اور اپنے نظریہ و عمل میں اسے نافذ نہیں کرتے ، نہ اپنے نظام زندگی میں اسے جاری کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک تعریض ہے لیکن آنے والی تمام نسلوں کے لیے اس میں طے کردہ اصول باقی ہے۔ تمسک کے لفظ سے ایسے مفہوم کا اظہار ہوتا ہے جو ذہن کے سامنے ایک عملی نقشہ اسکرین پیش کردیتا ہے۔ ایک معنوی چیز کو قرآن نے تمسک کے ذریعے حسی بنا دیا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قوت کے ساتھ اس کتاب کو پکڑ لو اور سختی اور سنجیدگی کے ساتھ اس کے اصولوں کو رائج کرو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی کتاب کو لیا جائے ، بغیر ہٹ دھرمی کے ، بغیر شکن کے اور بغیر گھٹن کے۔ اس لیے سنجیدگی ، قوت اور پختگی اور چیز ہے اور ہٹ دھمری اور گھٹن اور دل گرفتگی اور چیز ہے۔ سنجیدگی ، قوت اور پختگی یسر کے متضاد نہیں ہے البتہ سہل انگاری اور کردار کے بودے پن سے متضاد ہے۔ یہ صورت حال وسعت قلبی کے متضاد نہیں ہے۔ البتہ بےدینی کے متضاد ہے ، حالات کی رعایت اور حکمت کے متضاد نہیں البتہ وہ حالات اور واقعات کی رو میں نہیں بہتی۔ واقعات کو شریعت کے مطابق ہونا تو پالیسی ہے۔ یہ پالیسی نہیں ہے کہ ہم شریعت کو واقعی صورت حالات کے مطابق بناتے چلے جائیں۔ کتاب اللہ کو پختگی سے پکڑ لینا ، نماز اور دوسرے مراسم عبودیت کی پابندی کرنا یہ اسلامی نظام حیات کے دو اہم پہلو ہیں۔ یہاں تمسک بالکتاب کو ایک خاص رنگ یعنی مراسم عبودیت کے ساتھ معتین کیا گیا یعنی پورے اسلامی نظام حیات کے ساتھ ساتھ مراسم عبودیت کو لوگوں کی اصلاح کے لیے لازم کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام معاشرے کی اصلاح اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس میں تمسک بالکتاب ہو اور اس میں عبادات کی پابندی ہو ، اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں ہے۔ لا نضیع اجر المصلحین۔ ہم نیک اور مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ یعنی کتاب کو مضبوطی سے پکڑنا پوری کتاب کو اور عبادات پر عمل پیرا ہونا ہی اصلاح معاشرہ کا ذریعہ ہے۔ کسی معاشرے میں ان دو باتوں میں سے کوئی ایک مفقود ہوجائے تو وہ بگاڑ کا شکار ہوجات ہے۔ یعنی اس میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے نہ پکڑا جائے اور لوگ اپنے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق نہ کریں۔ دوسرے یہ کہ اس سے عبادت الٰہی مفقود ہوجائے جو دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر دل صاف نہ ہوں تو لوگ اللہ کے احکام کے ساتھ یہودیوں جیسی حیلہ سازی کریں گے۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں تقویٰ اور خدا خوفی نہ ہوگی۔ اسلامی نظام ایک مکمل نظام ہے ، وہ باہم مربوط ہے۔ عبادات کے ذریعے دلوں کا زنگ صاف ہوتا ہے اور پھر انسانی جسم احکام کتاب کو درستگی سے مانتے ہیں یوں عملی اور روحانی اصلاحی مکمل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کا طریقہ اصلاح ہے اور اس کے سوا ہم اصلاح کا کوئی اور طریقہ اختیار نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو بدبختی اور عذاب اس کی قسمت میں ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مصلحین کا اجر ضائع نہیں ہوتا : پھر فرمایا (وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بالْکِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ) (اور جو لوگ کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے) ۔ اس آیت میں عام قانون بیان فرما دیا کہ جو شخص اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے گا یعنی اس پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں فرمائے گا۔ البتہ طرز بیان ایسا اختیار فرمایا ہے جس میں اجرھم کے بجائے (اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ) فرمایا جس سے یہ واضح ہوگیا کہ کتاب اللہ کا مضبوطی سے پکڑنا جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ ایمان کی بھی اصلاح ہو یعنی ایمان خالص ہو نفاق سے بری ہو اور وہ ایمان ہو جو اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر ہے۔ اگر بعض انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان ہو اور بعض پر نہ ہو تو وہ ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں ہے اور ایسا شخص مصلح بھی نہیں لہٰذا مستحق اجر بھی نہیں، کتاب کو مضبوط پکڑنے کے ساتھ قائم کرنے کا بھی تذکرہ فرمایا کیونکہ نماز ایمان کے بعد سب سے بڑی عبادت ہے۔ معلوم ہوا کہ تمسک بالکتاب کے ساتھ بالخصوص نماز کو قائم کرنے کا اہتمام بھی لازم ہے۔ نماز کو شرائط اور آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے پابندی سے پڑھیں۔ اگر نماز کی اصلاح ہوگئی تو زندگی کے دوسرے اعمال کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ کما قال تعالیٰ (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ ) بنی اسرائیل کے اوپر پہاڑ کا ٹھہر جانا اور ان کا یہ سمجھنا کہ یہ گرنے والا ہے اس کے بعد بنی اسرائیل کے ایک اور واقعہ کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ جب سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) توریت شریف لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اسے قبول کرو اور اس پر عمل کرو، یہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو احکام بھاری ہیں ان پر عمل کرنا ہمارے بس کا نہیں، اللہ تعالیٰ نے کوہ طور کو اس کی جگہ سے اٹھا کر ان لوگوں پر معلق کردیا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو انہوں نے پہاڑ کو دیکھا کہ سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق ہے اور انہیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم پر گرنے والا ہے یہ منظر دیکھ کر اس بات کا عہد کرلیا کہ ہم توریت کے احکام کی پابندی کریں گے لیکن بعد میں پھر رو گردانی کی اور اپنے عہد سے منحرف ہوگئے۔ سورة بقرہ (رکوع ٨) میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔ وہاں واقعہ ذکر فرمانے کے بعد فرمایا۔ (ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ ) (پھر تم نے اس کے بعد رو گردانی کی) یعنی اس وقت جو پہاڑ گرنے کے ڈر سے عہد کرلیا تھا اس سے پھرگئے اور پھر وہی حرکتیں کرنے لگے جو نافرمانوں اور گناہ گاروں کی ہوتی ہیں نیز یہ واقعہ سورة بقرہ کے رکوع گیارہ میں بھی ہے۔ وہاں یہ الفاظ ہیں : (خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اسْمَعُوْا) (جو کچھ ہم نے تم کو دیا قوت کے ساتھ لے لو اور سن لو) اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ (سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا) (ہم نے سن لیا اور مانیں گے نہیں) تینوں جگہ قرآن مجید کے الفاظ کو ملا کر معلوم ہوا کہ انہوں نے پہاڑ گرنے کی جہ سے اس وقت عمل کرنے کا عہد کرلیا تھا لیکن بعد میں قول وقرار سے پھرگئے اور نافرمانی پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ سن تو لیا ہے لیکن عمل کرنا ہمارے بس کا نہیں ہے۔ کوہ طور کو سائبان کی طرح معلق کر کے عہد لینے اور لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَ میں جو بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ہم نے اس کو سورة بقرہ رکوع آٹھ (دیکھو انوار البیان جلد اول) میں جہاں یہ واقعہ مذکور ہے رفع کردیا ہے ملاحظہ کرلیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

169: یہ میثاق پر قائم رہنے والوں کیلئے بشارت ہے اور اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو تورات کے عہد پر قائم رہے اور اس کے احکام پر عمل کیا اور اس میں کسی قسم کی تحریف نہ کی۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام اور دوسرے اسلام قبول کرنے والے یہودی “ قال مجاھد ھم الذین امنوا من اھل الکتاب کعبدالله بن سلام و اصحابه تمسکوا بالکتاب الذي جاء به موسیٰ علیه السلام فلم یحرفوه و لم یکتموه و لم یتخذوه ماکلة ”(ابو السعود ج 4 ص 456) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

170 اور جو لوگ توریت کے صحی پابند ہیں اور اس کے تمام احکام پر عامل ہیں اور نماز کی بھی پابندی کرتے ہیں تو یقیناً ہم ایسے نیک کردار لوگوں کے اجر وثواب کو ضائع نہیں کریں گے۔