Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 179

سورة الأعراف

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾

And We have certainly created for Hell many of the jinn and mankind. They have hearts with which they do not understand, they have eyes with which they do not see, and they have ears with which they do not hear. Those are like livestock; rather, they are more astray. It is they who are the heedless.

اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے ۔ یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں یہی لوگ غافل ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disbelief and the Divine Decree Allah said, وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ ... And surely, We have created for Hell, We made a share in the Fire for, ... كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالاِنسِ ... many of the Jinn and mankind, We prepared them for it by their performance of the deeds of its people. When Allah intended to create the creation, He knew what their work will be before they existed. He wrote all this in a Book, kept with Him, fifty thousand years before He created the heavens and earth. Muslim recorded that Abdullah bin `Amr narrated that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ قَدَّرَ مَقَادِيرَ الْخَلْقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالاَْرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء Verily, Allah decided the destination and due measurement of the creation fifty thousand years before He created the heavens and earth, and His Throne was over the water. There are many Hadiths on this subject, and certainly, the matter of Al-Qadar is of utmost importance, yet this is not where we should discuss it. Allah said, ... لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ اذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا ... They have hearts wherewith they understand not, and they have eyes wherewith they see not, and they have ears wherewith they hear not. meaning, they do not benefit from these senses that Allah made for them as a means of gaining guidance. Similarly, Allah said, وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعاً وَأَبْصَـراً وَأَفْيِدَةً فَمَأ أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلاَ أَبْصَـرُهُمْ وَلاَ أَفْيِدَتُهُمْ مِّن شَىْءٍ إِذْ كَانُواْ يَجْحَدُونَ بِـَايَـتِ اللَّهِ And We had assigned them the (faculties of) hearing, seeing, and hearts; but their hearing, seeing, and their hearts availed them nothing since they used to deny the Ayat. (46:26) Allah also said about the hypocrites, صُمٌّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ (They are) deaf, dumb, and blind, so they return not (to the right path). (2:18), and about the disbelievers, صُمٌّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ (They are) deaf, dumb and blind. So they do not understand. (2:171) However, they are not deaf, dumb or blind, except relation to the guidance. Allah said; وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ Had Allah known of any good in them, He would indeed have made them listen; and even if He had made them listen, they would but have turned away with aversion (to the truth). (8:23) فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ Verily, it is not the eyes that grow blind, but it is the hearts which are in the breasts that grow blind. (22:46) and, وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ And whosoever turns away blindly from the remembrance of the Most Gracious (Allah), We appoint for him Shaytan to be an intimate companion to him. And verily, they hinder them from the path, but they think that they are guided aright! (43:36-37) Allah's statement, ... أُوْلَـيِكَ كَالاَنْعَامِ ... They are like cattle, means, those who neither hear the truth, nor understand it, nor see the guidance, are just like grazing cattle that do not benefit from these senses, except for what sustains their life in this world. Allah said in a similar Ayah, وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَأءً وَنِدَاءً And the example of those who disbelieve is as that of one who shouts to those who hear nothing but calls and cries. (2:171) meaning, their example, when they are called to the faith, is the example of cattle that hear only the voice of their shepherd, but cannot understand what he is saying. Allah further described them ... بَلْ هُمْ أَضَلُّ ... nay even more astray, than cattle, because cattle still respond to the call of their shepherd, even though they do not understand what he is saying. As for the people described here, they are unlike cattle, which fulfill the purpose and service they were created for. The disbeliever was created to worship Allah alone in Tawhid, but he disbelieved in Allah and associated others in His worship. Therefore, those people who obey Allah are more honorable than some angels, while cattle are better than those who disbelieve in Him. So Allah said; ... أُوْلَـيِكَ كَالاَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـيِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ They are like cattle, nay even more astray; those! They are the heedless ones.

اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے بہت سے انسان اور جن جہنمی ہونے والے ہیں اور ان سے ویسے ہی اعمال سرزد ہوتے ہیں ۔ مخلوق میں سے کون کیسے عمل کرے گا ؟ یہ علام الغیوب کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے ۔ پس اپنے علم کے مطابق اپنی کتاب میں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے ہی لکھ لیا ۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور ایک انصاری نابالغ بچے کے جنازے پر بلوائے گئے تو میں نے کہا مبارک ہو اس کو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کی نہ برائی کا وقت پایا آپ نے فرمایا کچھ اور بھی؟ سن اللہ تعالیٰ نے جنت کو اور جنت والوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں جنتی مقرر کر دیا ہے حالانکہ ابھی تو وہ اپنے باپوں کی پیٹھوں میں ہی تھے اسی طرح اس نے جہنم بنائی ہے اور اس کے رہنے والے پیدا کئے ہیں انہیں اسی لئے مقرر کر دیا ہے درآں حالیکہ اب تک وہ اپنے باپوں کی پشت میں ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیثیں ہیں اور تقدیر کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں کہ یہاں پورا بیان ہو جائے ۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ ایسے خالی از خیر محروم قسمت لوگ کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھاتے تمام اعضاء ہوتے ہیں لیکن قوتیں سب سے چھن جاتی ہیں اندھے بہرے گونگے بن کر زندگی گڑھے میں ہی گذار دیتے ہیں اگر ان میں خیر باقی ہوتی تو اللہ اپنی باتیں انہیں سناتا بھی ۔ یہ تو خیر سے بالکل خالی ہوگئے سنتے ہیں اور ان سنی کر جاتے ہیں آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل کی آنکھین اندھی ہو گئی ہیں ۔ رحمان کے ذکر سے منہ موڑ نے کی سزا یہ ملی ہے کہ شیطان کے بھائی بن گئے ہیں ، راہ حق سے دور جا پڑے ہیں مگر سمجھ یہی رہے ہیں کہ ہم سچے اور صحیح راستے پر ہیں ۔ ان میں اور چوپائے جانوروں میں کوئی فرق نہیں ۔ نہ یہ حق کو دیکھیں ، نہ ہدایت کو دیکھیں ، نہ اللہ کی باتوں کو سوچیں ۔ چوپائے بھی تو اپنے حواس کو دنیا کے کام میں لاتے ہیں اسی طرح یہ بھی فکر عقبیٰ سے ، ذکر رب سے ، راہ مولا سے غافل ، گو نگے اور اندھے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ١٧١؁ ) 2- البقرة:171 ) یعنی ان کافروں کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو اس کے پیچھے چلا رہا ہے جو درحقیقت سنتی ونتی خاک بھی نہیں ہاں صرف شوروغل تو اس کے کان میں پڑتا ہے ۔ چوپائے آواز تو سنتے ہیں لیکن کیا کہا ؟ اسے سمجھے ان کی بلا ۔ پھر ترقی کر کے فرماتا ہے کہ یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں ، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں ، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے ۔ اپنی پیدائش کی غایت کو آج تک معلوم ہی نہیں کیا ، جبھی تو اللہ سے کفر کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اس کے برخلاف جو اللہ کا مطیع انسان ہو وہ اللہ کے اطاعت گذار فرشتے سے بہتر ہے اور کفار انسان سے چوپائے جانور بہتر ہیں ایسے لوگ پورے غافل ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

179۔ 1 اس کا تعلق تقدیر سے ہے۔ یعنی ہر انسان اور جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ دنیا میں جا کر اچھے یا برے کیا عمل کرے گا، اس کے مطابق اس نے لکھ رکھا ہے۔ یہ انہیں دوزخیوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ کے علم کے مطابق دوزخ والے ہی کام کرنے تھے۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کرکے بتادیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے اندر یہ چیزیں اس انداز میں ہوں جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کا انجام برا ہے۔ (2) یعنی دل آنکھ کان یہ چیزیں اللہ نے اس لیے دی ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کو سمجھے اس کی آیات کا مشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے۔ لیکن جو شحص ان مشاعر سے یہ کام نہیں لیتا وہ گویا ان سے عدم انتفاع (فائدہ نہ اٹھانے) میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ چوپایے تو پھر بھی اپنے نفع نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنی والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی ؟ اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٩] جنوں اور انسانوں کی اکثریت جہنم میں کیوں ؟:۔ یعنی جنوں اور انسانوں کو ہم نے دل و دماغ اس لیے دیئے تھے کہ وہ غور و فکر سے کام لیں، آنکھیں اس لیے دی تھیں کہ ان سے اللہ کی نشانیوں کو دیکھیں اور کان اس لیے دیئے تھے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کا کلام اور حق کی باتیں سنیں لیکن ان میں اکثریت ایسی تھی جس نے اللہ کی ان عطا کردہ نعمتوں کو صحیح طور پر استعمال نہ کیا اور ان سے اتنا ہی کام لیا جتنا حیوان لیتے ہیں اور گمراہ ہوگئے جس کے نتیجہ میں انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا اور یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اسی اختیار کے عوض انہیں جزا یا سزا ملے گی۔ رہے ان اسباب کے مسببات یا نتائج۔ تو ان نتائج پر صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ مثلاً اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس جہنم میں داخل ہونے والی اکثریت میں سے کسی کو معاف بھی کرسکتا ہے لہذا ان مسببات کی نسبت کرنے والوں کی طرف بھی ہوسکتی ہے کیونکہ انہوں نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کیونکہ مسببات کا خالق وہ ہے۔ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کرتے وقت یہ ٹھان لیا تھا کہ ان کی اکثریت کو جہنم میں داخل کرنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تو جنوں اور انسانوں کی پیدائش سے مقصد یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ (٥١ : ٥٦) اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت یا کثیر تعداد کو پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ انہیں جہنم داخل کیا جائے گا تو اس میں جنوں اور انسانوں کا کیا قصور ہے ؟ اس شبہ کے ازالہ کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر ٢٤ کے تحت حاشیہ نمبر ٢١ ملاحظہ کیا جائے۔ [١٨٠] کافر چوپایوں سے بھی بدتر کیسے ؟ چوپایوں سے گئے گزرے اس لحاظ سے کہ چوپایوں کو تو عقل وتمیز عطا ہی نہیں کی گئی لہذا وہ ہدایت کی راہ تلاش کرنے یا اس پر چلنے کے مکلف ہی نہیں جبکہ انسان کو ہدایت کی راہ تلاش کرنے اور روحانی کمال تک پہنچنے کے لیے ایسی قوتیں عطا کی گئی ہیں پھر بھی اگر وہ ان سے کام نہیں لیتا اور گمراہ ہوتا ہے تو وہ چوپایوں سے بدتر ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ ” لِجَهَنَّمَ “ میں لام عاقبت (برائے انجام) بھی ہوسکتا ہے، یعنی اپنے حواس سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے وہ انجام کار جہنم میں جائیں گے، گویا انھیں جہنم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور لام غایت کا بھی ہوسکتا ہے، یعنی کائنات کو بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو آئندہ کی ہر بات کا علم تھا کہ فلاں جن یا انسان نے دنیا میں جا کر دوزخیوں والے کام کرنے تھے، اسی علم کے مطابق اس نے سب کچھ لکھ دیا تھا، اس کا نام قضا و قدر ہے، آگے اہل جہنم کی صفات بیان ہوئی ہیں کہ جن میں یہ صفات ہوں وہ ہدایت قبول نہیں کیا کرتے، گو اللہ کا شریعت اور انبیاء کے بھیجنے کا مقصد یہی ہے کہ انسان اللہ کی عبادت کرے، مگر اسے پہلے ہی یہ بھی علم ہے کہ کون شریعت پر چلے گا اور کون نہیں چلے گا۔ علماء نے تقدیر میں اور انسان کے مجبور ہونے میں فرق کی وضاحت فرمائی ہے۔ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں دل، آنکھیں اور کان تو اس لیے دیے ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے مالک کو پہچانیں، کائنات اور اپنی ذات میں اس کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں، حق کی بات غور سے سنیں اور اسے قبول کریں، مگر جب انھوں نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ انعام (چوپاؤں) کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ثابت ہوئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی طبیعت میں جو تقاضے رکھے ہیں اور جس مقصد کے لیے وہ پیدا ہوئے ہیں وہ بخوبی پورا کر رہے ہیں، اس کے برعکس کفار اپنے مقصد حیات، یعنی عبادت کے بجائے اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ : یعنی اپنے مقصد حیات سے غافل ہیں اور مرنے کے بعد زندگی اور جواب دہی سے بےفکر ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننا اور ان کے احکام کو سیکھنا ہر شخص پر فرض ہے، اگر کوئی ایسا نہ کرے گا تو جہنم میں جائے گا۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verse is an extension of the same theme. It said: وَلَقَدْ ذَرَ‌أْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا |"And surely, we have created for Hell a lot of people from among Jinn and mankind. They possess heart wherewith they understand not, have eyes wherewith they see not and they have ears wherewith they hear not.|" That is, many Jinns and human beings have been created for Hell, because in spite of having all the means of guidance, the heart, the eyes and the ears, they do not use them to seek guidance. They could find the right path, had they used these faculties in proper way. They do not use their hearts to understand, their eyes to see things to be seen and their ears to hear things to be heard. As a substance of the verse we are given to understand that ulti¬mate end or destiny is a divine secret, not known to anyone, but there are definite signs which help us to make a surmise. The people of Hell can be identified by their characteristic sign of not making proper use of their faculties of seeing, hearing and understanding. Allah has blessed us with these faculties for acquiring knowledge and recogni¬tion of our Lord. The people of Hell invest these abilities in worthless objectives and are evidently heedless of the real aim of man&s life, that is, to earn with his capabilities eternal comfort and peace in the Hereafter through seeking guidance. A Question and its answer A question may be asked about the above Qur&anic verses. Here the Holy Qur&an has negated their qualities of hearing, seeing and understanding. On the other hand, we see that in real life they are not blind, deaf and insane. Like other human beings they do see, hear and understand things around them. How can this negation be reconciled with the actual fact? The answer requires to refresh our usual knowledge with regard to things and living beings around us. Everything created has an amount of sensibility equal to the need of its purpose of existence. The things we call inanimate are not totally devoid of sensibility or life. The stones and the earth which are not assigned with the duty of growth or movement have so little an amount of sensitivity that can hardly be detected1. 1. Human reason essentially requires the presence of some kind of perception or life in things called inanimate. It is because there must be some way of communication between the Creator and the created. The one who cannot communicate with created beings for the absence of sensibility on their part, is not worthy of being called god. Allah does communicate with all His created beings, animate or inanimate, which proves some kind of sensibility in all inanimate things. (Translator) The vegetable Kingdom comes next in this series. The purpose of their existence requires growth and nourishment. The amount of perception or life given to them is greater in degree and is equal to their requirements. Next we come to animal kingdom where we find more elaborate and complex form of life. In addition to growth and nourishment, the animals have to move on the earth from one place to another. They have to seek their food to maintain their existence. They require protecting themselves from dangers and above all, they are required to reproduce their children. The amount of life given to them is greater and more obvious than the others so far discussed. They are, however, equipped with as much powers only as were needed to assist them in feeding and protecting themselves from dangers and enemies. The last, but not the least, is human being who, in addition to, and more prominent of all the functions discussed above, has the duty of recognizing his Creator and the Lord of the universe, and seek His pleasure by following His commandments and avoid doing things disliked by Him. He is required to contemplate and give due thought to the creations and use his faculty of reason to distinguish right from wrong, abstain from evil and do good to please his Lord. Another distinction of a human being from other creatures is that he has been provided with vast opportunity to make progress in making his life more purposeful and more elevated in position. When he comes to make progress, he can attain more elevated rank than the angels. He is accountable for his acts and is promised of eternal peace and comfort for his good acts and everlasting punishment and distress for his evil deeds. He has been, therefore, trusted with the highest and the most perfect degree of life, in order that he is engaged in doing things that are proper for the aim of his life. He is not expected to waste his special faculties of understanding, hearing and seeing in the achieve-ment of material things only like animals. Keeping the above points in view, the human faculties of understanding, hearing and seeing should essentially be distinct from those of the animals. If he did not make special use of these faculties like distinguishing right from wrong, doing good and keeping away from evil, he would be rightly considered among those who have eyes but do not see, have ears but do not listen, have mind and heart but do not understand. The Hoy Qur&an has therefore termed them as صُمٌّ بُكْمٌ |"deaf, dumb and blind|". The verse therefore has not negated their physical ability of seeing, hearing and understanding. Rather, the Holy Qur&an has affirmed their knowledge about worldly things in the following words, يَعْلَمُونَ ظَاهِرً‌ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ‌ةِ هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾ |"They know the outward aspect of this worldly life, but of the Hereafter they are heedless.|" (30:7) In another verse the Holy Qur&an, speaking the destruction of the people of ` Ad and Thamud, said: وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِ‌ينَ |"While they could see clearly.|" (29:38) The people of ` Ad and Thamud being allured by satanic influences involved themselves in evil deeds which led them to their destruction. That is to say they kept the use of their capabilities limited to abject worldly gains like serving their physical needs and remained heedless to their spiritual demands. No matter what great advances they make in science and technology, they may conquer space, explore moon and other planets, make the world full of their sophisticated satellites, and tame the natural forces to serve their varied needs, but all such efforts are no more than a means of serving their physical and material life. It does not go beyond, to seek spiritual peace and comfort. This achievement science and technology of man is certainly confined to serving his physical life only, which does not make him distinct from the animal in technicality. It is why the Holy Qur&an calls them deaf, dumb and blind because they heard, saw and understood things that belonged to this world only. They did not make proper use of these functions which could lead them to eternal success and peace. The last phrase of this verse said that they are like cattle investing all their effort in serving their bodily desires. Next the verse added بَلْ هُمْ أَضَلُّ |"Rather they are much more misled.|" that is, they are far more unwise than are the cattle, because the animals are not bound to follow the laws of the Shari&ah. They have no reward or punishment for their acts. They are required only to serve their physical needs which they are efficiently doing, contrary to human beings who are accountable for everything they do in this world, and they are going to be punished or rewarded according to their performance. If they confine their effort only to seek material gains of this world and do not make proper use of their faculties, they are certainly more imprudent and unwise as compared to animals.

دوسری آیت میں بھی اسی مضمون کی مزید وضاحت ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں جس کو ہدایت مل گئی اس سے سارے کام ہدایت ہی کے مناسب سرزد ہوتے ہیں خرد چون دفتر تلقین کشاید زمن آن در وجود آید کہ باید اور جو گمراہی میں پڑگیا اس کے سارے کام اسی انداز کے ہوتے ہیں۔ اس لئے فرمایا (آیت) وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَ آ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا، یعنی ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے بہت سے جنات اور انسانوں کو جن کی علامات یہ ہیں کہ ان کے پاس سمجھنے کے لئے قلوب اور دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سننے کے لئے کان سب کچھ موجود ہیں، جن کو وہ صحیح استعمال کریں تو صراط مستقیم کو پالیں اور نفع نقصان کو سمجھ لیں، لیکن ان کا یہ حال ہے کہ نہ وہ قلوب سے بات سمجھتے ہیں، نہ آنکھوں سے دیکھنے کی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور نہ کانوں سے سننے کی چیزوں کو سنتے ہیں۔ اس میں یہ بتلا دیا کہ اگرچہ تقدیر الہی ایک راز سربستہ ہے جس کا کسی کو اس دنیا میں علم نہیں ہوتا لیکن اس کی علامات سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اہل جہنم کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کو ان کے صحیح کاموں میں نہ لگائیں، صحیح علم و مغفرت کے لئے جو اللہ جل شانہ نے عقل اور آنکھ کان عطا فرمائے ہیں ان کو وہ بےمصرف چیزوں میں لگاتے ہیں اور اصل مقصد جس کے ذریعہ دائمی اور لازوال راحت و دولت مل سکتی تھی اس کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ آیت میں کافروں سے سمجھنے، دیکھنے، سننے کی نفی جو بظاہر مشاہدہ کے خلاف ہے، کس حقیقت پر مبنی ہے ؟ اس آیت میں ان لوگوں کی سمجھ بوجھ اور بینائی و شنوائی سب چیزوں کی بالکل نفی کی گئی ہے کہ یہ نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ کوئی چیز دیکھتے ہیں نہ کوئی کلام سنتے ہیں، حالانکہ واقعہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ یہ لوگ نہ پاگل و دیوانے ہوتے ہیں کہ کچھ نہ سنیں، بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں یہ اکثر لوگوں سے زیادہ چالاک اور ہوشیار نظر آتے ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے ہر مخلوق کے اندر اس کی ضرورت کے مطابق اور اس کے مقصد حیات کے مناسب عقل و شعور رکھا ہے، جن چیزوں کو ہم بےعقل اور بےحسن و بےشعور کہتے اور سمجھتے ہیں درحقیقت وہ بھی حس و ادراک اور عقل و شعور سے خالی نہیں، البتہ یہ چیزیں ان میں اسی مقدار سے ہیں جو مقدار ان کے مقصد وجود کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو، سب سے کم عقل و شعور اور حس جمادات یعنی مٹی اور پھتر وغیرہ میں ہے، جن کو نہ کچھ بڑھنا ہے نہ اپنی جگہ سے نکلنا اور چلنا پھرنا، وہ اتنی قلیل ہے کہ ان میں حیات کے آثار کا پہچاننا بھی بہت دشوار ہے، اس سے کچھ زائد نباتات میں ہے جن کے مقصد وجود میں بڑھنا، پھلنا پھولنا داخل ہے، اسی کے مناسب عقل و ادراک ان کو دے دیا گیا، اس کے بعد حیوانات کا نمبر ہے، جن کے مقصد وجود میں بڑھنا بھی داخل ہے چلنا پھرنا بھی اور چل پھر کر اپنی غذا حاصل کرنا بھی اور مضر و مہلک چیزوں سے بچنا بھاگنا بھی اور نسل پیدا کرنا بھی، اس لئے ان کو جو عقل و شعور ملا وہ اوروں سے زیادہ ملا مگر اتنا ہی جس سے وہ اپنے کھانے پینے پیٹ بھرنے سونے جاگنے وغیرہ کا انتظام کرلیں اور دشمن سے اپنی جان بچالیں، سب کے بعد انسان کا نمبر ہے جس کا مقصد وجود سب چیزوں سے آگے یہ ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کو پہچانے، اس کی مرضی کے مطابق چلے، اس کی ناپسند چیزوں سے پرہیز کرے، ساری مخلوقات کے حقائق پر نظر ڈالے اور ان سے کام لے اور ہر چیز کے نتائج اور عواقب کو سمجھے، کھرے کھوٹے اچھے برے کو پرکھے، برائیوں سے بچے، اچھائیوں کو اختیار کرے، اسی نوع انسانی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کو ترقی کرنے کا بڑا میدان ملا ہے جو دوسری نوع کو حاصل نہیں، یہ جب ترقی کرتا ہے تو فرشتوں کی صف سے آگے مقام پاتا ہے، اسی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے اعمال و افعال پر جزاء و سزا ہے، اسی لئے اس کو عقل و شعور تمام انواع مخلوقات سے زائد ملا ہے تاکہ وہ عام حیوانات کی سطح سے بلند ہو کر اپنے مقصد وجود کے مناسب کاموں میں لگے، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مخصوص عقل و شعور اور اس کی بخشی ہوئی بینائی و شنوائی کو اسی کام میں صرف کرے۔ جب یہ حقیقت سامنے آگئی تو ایک انسان کا سمجھنا، دیکھنا، سننا دوسرے جانوروں کے سمجھنے، دیکھنے، سننے سے مختلف ہونا چاہئے اگر اس نے بھی صرف انہی چیزوں میں اپنی عقل اور بینائی و شنوائی کی طاقتوں کو لگا دیا جن میں دوسرے جانور لگاتے ہیں اور جو کام انسان کے لئے مخصوص تھا کہ ہر چیز کے نتائج و عواقب پر نظر رکھے اور برائیوں سے بچے بھلائیوں کو اختیار کرے، ان پر دھیان نہ دیا، اس کو باوجود عقل رکھنے کے بےعقل، باوجود بینا ہونے نابینا، باوجود سننے والا ہونے کے بہرا ہی کہا جائے گا، اسی لئے قرآن کریم نے دوسرے جگہ ایسے لوگوں کو (آیت) ۻ بُكْمٌ عُمْىٌ، یعنی بہرے گونگے، اندھے فرمایا ہے۔ اس میں اس کا بیان نہیں کہ وہ اپنے کھانے پینے، رہنے سہنے اور سونے جاگنے کی ضروریات کو سمجھتے نہیں، یا یہ کہ ان کے متعلق چیزوں کو دیکھتے سنتے نہیں بلکہ خود قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں ایک جگہ فرمایا، (آیت) يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، اور فرعون و ہامان اور ان کی قوموں کے بارے میں فرمایا (آیت) وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ ، یعنی یہ لوگ بڑے روشن خیال تھے مگر چونکہ ان کی دانائی و بینائی کا سارا مصرف صرف اتنا ہی رہا جتنا عام جانوروں کا ہوتا ہے کہ اپنے تن بدن کی خدمت کرلیں، روح کی خدمت اور اس کی راحت کے متعلق کچھ نہ سوچا نہ دیکھا، اس لئے وہ ان معاشیات اور عمرانیات میں کتنی ہی ترقی کرلیں، چاند اور مریخ کو فتح کرلیں، مصنوعی سیاروں سے دنیا کی فضا کو بھر دیں لیکن یہ سب خدمت صرف تن بدن کے ڈھانچہ اور پیٹ ہی کی ہے، اس سے آگے نہیں جو روح کے لئے دائمی چین و راحت کا سامان بنے، اس لئے قرآن کریم ان کو اندھا بہرا کہتا ہے اور اس آیت میں ان کے سمجھنے، سننے کی نفی کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو جو سمجھنا چاہئے تھا وہ نہیں سمجھے جو دیکھنا چاہئے تھا وہ نہیں دیکھا جو سننا چاہئے تھا وہ نہیں سنا، اور جو کچھ سمجھا اور دیکھا اور سنا وہ عام حیوانات کی سطح کی چیزیں تھیں جن میں گدھا گھوڑا، بیل بکری سب شریک ہیں۔ اسی لئے آیت مذکورہ کے آخر میں ان لوگوں کے متعلق فرمایا، (آیت) اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ ، کہ یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں کہ بدن کے صرف موجودہ ڈھانچہ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، روٹی اور پیٹ ان کے فکر کی آخری معراج ہے، پھر فرمایا (آیت) بَلْ هُمْ اَضَلُّ بلکہ یہ لوگ چوپاؤں اور جانوروں سے بھی زیادہ بیوقوف ہیں، وجہ یہ ہے کہ جانور احکام شرعیہ کے مکلف نہیں، ان کے لئے جزاء و سزاء نہیں، ان کا مقصد اگر صرف موجودہ زندگی اور اس کے ڈھانچہ کی درستی تک رہے تو صحیح ہے، مگر انسان کو تو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس پر جزاء و سزا ہونے والی ہے، اس لئے اس کا ان کاموں کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھنا جانوروں سے زیادہ بےوقوفی ہے، اس کے علاوہ جانور اپنے آقا ومالک کی خدمت پوری بجا لاتے ہیں اور نافرمان انسان اپنے رب اور مالک کی خدمت میں قصور کرتا ہے اس لئے وہ جانوروں سے زیادہ بیوقوف اور غافل ٹھہرا، اسی لئے فرمایا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْس ۡ ۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝ ٠ ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝ ٠ ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝ ١٧٩ ذرأ الذَّرْءُ : إظهار اللہ تعالیٰ ما أبداه، يقال : ذَرَأَ اللہ الخلق، أي : أوجد أشخاصهم . قال تعالی: وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف/ 179] ، وقال : وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام/ 136] ، وقال : وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری/ 11] ، وقرئ : ( تذرؤه الرّياح) «3» ، والذُّرْأَة : بياض الشّيب والملح . فيقال : ملح ذُرْآنيّ ، ورجل أَذْرَأُ ، وامرأة ذَرْآءُ ، وقد ذَرِئَ شعره . ( ذ ر ء ) الذرء کے معنی ہیں اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا اسے ظاہر کردیا ۔ کہا جاتا ہے ۔ یعنی ان کے اشخاص کو موجود کیا قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف/ 179] اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں ۔ وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام/ 136] اور یہ لوگ ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں ( یعنی ) کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری/ 11] اور چار پایوں کے بھی جوڑے بنادے اور اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف/ 45] میں ایک قراءت بھی ہے ۔ الذرؤۃ ۔ بڑھاپے یا نمک کی سفیدی ۔ کہاجاتا ہے ملح ذرانی نہایت سفید نمک اور جس کے بال سفید ہوجائیں اسے رجل اذرء کہاجاتا ہے اس کی مونث ذرآء ہے ۔ ذری شعرہ روذرء کفرح ومنع) اس کے بال سفید ہوگئے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ أذن (کان) الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّط اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) یعنی جب انسان ہدایت سے منہ موڑتا ہے اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے تو نتیجتاً اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر کردیتا ہے۔ اس کے بعد ان کے دل تفقہ سے یکسر خالی ہوجاتے ہیں ‘ ان کی آنکھیں انسانی آنکھیں نہیں رہتیں اور نہ ان کے کان انسانی کان رہتے ہیں۔ اب ان کا دیکھنا حیوانوں جیسا دیکھنا رہ جاتا ہے اور ان کا سننا حیوانوں جیسا سننا۔ جیسے کتا بھی دیکھ لیتا ہے کہ گاڑی آرہی ہے مجھے اس سے بچنا ہے۔ جبکہ انسانی دیکھنا تو یہ ہے کہ انسان کسی چیز کو دیکھے ‘ اس کی حقیقت کو سمجھے اور پھر درست نتائج اخذ کرے۔ اسی فلسفے کو علامہ اقبال ؔ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؂ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ! چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں ع دیدن دگر آموز ‘ شنیدن دگر آموز ! یعنی دوسری طرح کا دیکھنا سیکھو ‘ دوسری طرح کا سننا سیکھو ! وہ دیکھنا جو دل کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ سننا جو دل سے سنا جاتا ہے۔ لیکن جب ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر ہوگئی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے گئے تو اب ان کا حال یہ ہے کہ یہ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ ایسے لوگوں کو چوپایوں سے بد تر اس لیے کہا گیا ہے کہ چوپایوں کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی کم تر سطح پر کیا ہے ‘ جبکہ انسان کا تخلیقی مقام بہت اعلیٰ ہے ‘ لیکن جب انسان اس اعلیٰ مقام سے گرتا ہے تو پھر وہ نہ صرف شرف انسانیت کو کھو دیتا ہے بلکہ جانوروں سے بھی بد تر ہوجاتا ہے۔ یہی مضمون ہے جو سورة التین میں اس طرح بیان ہوا ہے : (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ) یعنی انسان کو پیدا کیا گیا بہترین اندازے پر ‘ بلند ترین سطح پر ‘ یہاں تک کہ اپنے تخلیقی معیار کے مطابق وہ مسجود ملائک ٹھہرا ‘ لیکن جب وہ اس مقام سے نیچے گراتو کم ترین سطح کی مخلوق سے بھی کم ترین ہوگیا۔ پھر اس کی زندگی محض حیوانی زندگی بن کر رہ گئی ‘ حیوانوں کی طرح کھایا پیا ‘ دنیا کی لذتیں حاصل کیں اور مرگیا۔ نہ زندگی کے مقصد کا ادراک ‘ نہ اپنے خالق ومالک کی پہچان ‘ نہ اللہ کے سامنے حاضری کا ڈر اور نہ آخرت میں احتساب کی فکر۔ یہ وہ انسانی زندگی ہے جو انسان کے لیے باعث شرم ہے۔ بقول سعدی شیرازی ؔ ؂ زندگی آمد برائے بندگی زندگی بےبندگی شر مندگی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

140. This does not mean that God has created some people for the specific purpose of fuelling Hell. What it does mean is that even though God has bestowed upon men faculties of observation, hearing and reasoning, some people do not use them properly. Thus, because of their own failings, they end up in Hell. The words employed to give expression to the idea are ones which reflect deep grief and sorrow. This can perhaps be grasped by the occasional outbursts of sorrow by human beings. If a mother is struck by the sudden death of her sons in a war, she is prone to exclaim: 'I had brought up my sons that they might serve as cannon fodder!' Her exclamatory, utterance does not mean that that was the real purpose of the upbringing. What she intends to convey by such an utterance is a strong condemnation of those criminals because of whom all her painful efforts to bring up her sons have gone to waste.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :140 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے ان کو پیدا ہی اس غرض کے لیے کیا تھا کہ وہ جہنم میں جائیں اور ان کو وجود میں لاتے وقت ہی یہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں دوزخ کا ایندھن بنانا ہے ، بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تو ان کو پیدا کیا تھا دل ، دماغ ، آنکھیں اور کان دے کر ، مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور اپنی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہے ۔ اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے وہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو انسانی زبان میں انتہائی افسوس اور حسرت کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی ماں کے متعدد جوان جوان بیٹے لڑائی میں جاکر لقمہ اجل ہوگئے ہوں تو وہ لوگوں سے کہتی ہے کہ میں نے انہیں اس لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا کہ لوہے اور آگ کے کھیل میں ختم ہوجائیں ۔ اس قول سے اس کا مدعا یہ نہیں ہوتا کہ واقعی اس کے پالنے پوسنے کی غرض یہی تھی ، بلکہ اس حسرت بھرے انداز میں دراصل وہ کہنا یہ چاہتی ہے کہ میں تو اتنی محنتوں سے اپنا خون جگر پلا پلا کر ان بچوں کو پالا تھا ، مگر خدا ان لڑنے والے فسادیوں سے سمجھے کہ میری محنت اور قربانی کے ثمرات یوں خاک میں مل کر رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

91: یعنی ان کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ایسے کام کریں گے جو انہیں جہنم تک لے جائیں گے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ تقدیر میں لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جہنم کے کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، بلکہ بلا تشبیہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد اپنے کسی شاگرد کے حالات کے پیش نظر یہ لکھ کر رکھ دے کہ یہ فیل ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ استاد نے اسے فیل ہونے پر مجبور کردیا۔ بلکہ اس نے جو کچھ لکھا تھا، اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ شاگرد محنت کرنے کے بجائے وقت ضائع کرے گا اور اس کے نتیجے میں فیل ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧٩۔ اکثر فلسفی اور دہریہ اور معتزلہ اور قدریہ جنات کے وجود کے جو منکر ہیں ان کا بےراہ ہونا اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور اس کے پیدا کرنے کی خبر اپنے کلام پاک میں دی ہے وہ ضرور موجود اور دنیا میں اس کا وجود ہے اور اس کے وجود سے انکار کرنا کلام الٰہی سے انکار کرنا ہے رہی یہ بات کہ ہماری قوت بصارت میں اللہ تعالیٰ نے وہ طاقت نہیں دی ہے کہ ہم جنات کو اصلی صورت میں دیکھ سکیں تو یہ کوئی عقل کی بات نہیں ہے کہ جس چیز کو ہم آنکھوں سے نہ دیکھیں اس کا انکار کریں سینکڑوں عجائبات اللہ کی قدرت کے دنیا میں ایسے ہیں کہ انسان کی آنکھ میں اس کے دیکھنے کی قوت نہیں ہے خود انسان کی روح بدن انسان میں ایسی چیز ہے جس کو کسی انسان نے آج تک نہیں دیکھا تو کیا کوئی عقل یہ حکم لگا سکتی ہے کہ روح کے وجود کا انکار کیا جاوے اور دنیا میں مردہ اور زندہ کو ایک کہا جاوے اصل بات یہ ہے کہ منکر شریعت لوگوں نے جس طرح شریعت کو نہیں جانا کہ شریعت کیا چیز ہے اسی طرح انہوں نے عقل کو بھی یہ نہیں جانا کہ عقل کیا اور کس مصرف کی چیز ہے انسان میں عقل خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کی ہے کہ آنکھ کان وغیرہ حواس سے جو چیزیں دریافت میں آسکتی ہیں ان چیزوں کی دریافت کے بعد آدمی ان چیزوں سے کوئی نتیجہ دینی عقل کے ذریعہ سے پیدا کرے نتیجہ دینی مثلا مخلوق سے خالق کو پہچاننا نتیجہ دنیوی مثلا ان چیزوں میں کوئی تصرف عقلی تجارتی یا حرفتی پیدا کرکے کسی ذریعہ معاش کا پیدا کرنا یہاں تک کی دریافت سے جو چیزیں بالکل الگ اور غائب چیزیں ہیں مثلا یہ کہ آسمان کے اوپر کیا ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا بدن کے تعلق سے پہلے روح کہاں تھی فرشتوں کا جنات کا وجود ہے یا نہیں اور ہے تو کیسا ہے۔ چیزیں بدوں علم آسمانی کے عقل کو کیونکر اور کس ذریعہ سے معلوم ہوسکتی ہیں ان لوگوں نے بلا مناسبت عقل کو ایسی چیزوں میں لگایا ہے نتیجہ جس کا یہ ہی ہے کہ الہیات میں بےگنتی غلطیاں کی ہیں اور پھر بھی ایک بات پر قیام نہیں جس طرح مادر زاد اندھا آدمی ایک کپڑے کے رنگ کو اٹکل سے کبھی لال کہہ دیتا ہے کبھی زرد کبھی ادوا حالانکہ وہ کپڑا سبز رنگ کا ہے اسی طرح الہیات میں بڑے بڑے حکما کا یہ حال ہے کہ الہیات کا کوئی مسئلہ صاف نہیں ایک کی بات پر دوسرا بےکھٹکے اعتراض کرنے کو موجود ہے ذریعہ علم اگر ناقص نہیں اور جس کا نام علم رکھا ہے وہ محض رنگ کے پہچاننے میں اندھے کیسی اٹکل نہیں ہے تو ان لوگوں میں یہ آپس کی آپا وھاپی کیوں ہے کوئی حکیم صاحب ذرا اس پر بھی غور کریں کیا خاک غور کریں گے عقلی عالموں کے حق میں خود عقل کے پیدا کرنے والے نے فرما دیا وما لھم بذلک من علم ان ھم الا یخرصون (٤٣: ٢٠) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان اٹکلی اندھوں کو کیا علم ہے کچھ نہیں محض اٹکل لڑاتے ہیں جنات کے وجود کے سوا جنات کے بارے میں اور بھی چند اختلاف ہیں مثلا جنات کسی شریعت کے پابند ہیں یا نہیں جنات کے رسول جن ہوتے ہیں یا انسان جنات کے لئے آخرت کا عذاب ثواب ہے یا نہیں حدیث کی کتابوں میں بد الخلق کی بحث خصوصا صیح بخاری اور اس کی شرح فتح الباری دیکھی جاوے ١ ؎ تو یہ سب اختلاف رفع ہوسکتے ہیں حاصل سب کا یہ ہے کہ جنات اور شیاطین کا مادہ پیدائشی اگرچہ ایک ہے آگ سے دونوں پیدا کئے گئے ہیں لیکن شیاطین علیحدہ ہیں کھاتے پیتے دونوں ہیں مباشرت اور توالد دونوں میں ہے تھوڑی ترمیم کے بعد انسانوں کے نبی وقت کی شریعت کے پابند جنات بھی ہیں مثلا شریعت محمدی میں لید انسانوں کو حرام ہے جنات کو حلال ہے۔ حضرت یوسف اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن وانس دونوں کے رسول ہیں باقی انبیاء انسانوں کے رسول تھے اور جنات میں جن ان کے نائب تھے عذاب ثواب ثقلین جن وانس دونوں کو ہے شیاطین میں کوئی نیک نہیں ہوتا اس لئے ان پر آخرت میں فقط عذاب ہے بعضے لوگوں نے یہ اعتراض جو کیا ہے کہ جب جنات اور شیطان آگ کی لو سے بنے ہیں تو سرکش جنات اور شیاطین پر دوزخ کے عذاب کا کیا اثر ہوگا جواب اس کا یہ ہے کہ خاص ترکیب کی غرض سے جس طرح آدمی میں مٹی کا جز ہے اور آدمی خاکی کہلاتا ہے اس طرح جنات میں آگ کا جز ہے او وہ آتشی کہلاتے ہیں خاکی آدمی پر ہزارہا من کی مٹی کو دیوار آپڑے تو مٹی سے مٹی کو کچھ تکلیف ہوگی یا نہیں اسی طرح پہاڑ کے پہاڑ آگ کے جنات اور شیاطین کے راہ نیک پر لگانے کے لئے اس عالم اسباب میں رسول کتاب الٰہی اور طرح طرح کی ہدایت کے سبب ہیں اور ان کو آنکھیں کرنے کے لئے دئے گئے ہیں جو جنات اور انسان ان سوف کے دیکھنے سننے سمجھنے کے لئے اور معرفت الٰہی ان اسباب سے پیدا کرنے کے لئے دئے گئے ہیں جو جنات اور انسان ان سیوں کے دیکھنے سننے سمجھنے سے غافل ہیں وہ دنیا میں حیوانوں سے اس طرح کے اسباب ہدنیت کا غافل جن وانس کا گروہ دوزخ میں جھونکا جاویگا یہاں یہ ایک اعتراض بعضے مفسروں نے کیا ہے کہ جب علم الٰہی میں یہ لوگ دوزخ میں جھونکے جانیکے لائق قرار پاچکے تھے تو ان کو اسباب ہدایت خلاف علم الٰہی اور خلاف قضا وقدر کیا مفید ہوسکتے تھے کیونکہ جگہ جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں اور آنکھ کان پر خدا کی طرف سے مہر لگی ہوئی ہے پھر ان کی آنکھیں نہ ان اساب ہدایت کو دیکھ سکتی ہیں نہ کان سن سکتے ہیں نہ دل ہدایت کی بات کو کچھ سمجھ سکتا ہے جواب اس کا یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا کے پیدا ہونے کے بعد میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق اگرچہ لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے جس کو قضا وقدر کہتے ہیں لیکن لوگوں کے دوزخی اور جنتی ہونے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے قضا وقدر کے لکھنے پر نہیں رکھا ہے ورنہ دنیا کے پیدا کرنے اور انبیاء کے بھیجنے اور انبیاء پر آسمانی کتابیں نازل کرنے اور انبیاء سے دین کے لئے خونریزی کرانے کی کچھ ضرورت نہ تھی دنیا کی پیدائش سے پہلے جو روحیں جنت کے قابل معلوم ہوئی تھیں ان کو اجسام سے متعلق کیا جاکر جنت میں اور علم ہذا القیاس قابل دوزخ کو دوزخ میں داخل کردیا جاتا بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کاموں کے لئے جس طرح سبب ٹھہرائے ہیں بیچ ڈالنے سے پیڑ اگتا ہے صحبت کرنے سے اولاد پیدا ہوتی ہے تجارت کرنے سے نفع ہوتا ہے کھانا کھانے سے پیٹ بھرتا ہے پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے اسی طرح دین کے کام آخرت کی نجات کا سبب ٹھہرنے میں اور جس نے دین کے کاموں سے پہلوتہی کی اس نے اپنی نجات کا آخرت کو بٹا لگایا جس طرح دنیا میں کوئی قضا وقدر پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہے تو بغیر بیج ڈالے کے پیڑ ہوسکتا ہے نہ بغیر صحبت کے اولاد ہوسکتی ہے نہ بغیر تجارت کے نفع ہوسکتا ہے نہ بغیر کھانے پینے کے پیٹ بھر سکتا ہے نہ بغیر پانی پینے کے پیاس بجھتی ہے اس طرح آخرت کی نجات کے سببوں میں سے کسی سبب کو باوجود انبیاء کے ہدایت کے جس شخص نے اپنے فعل اختیاری سے اپنی نجات کا سبب نہ ٹھہرایا اس کی آنکھ کان دل پر گمراہی کی مہر خدا کی طرف سے لگ جاتی ہے اگرچہ ابتدا میں سب فطرت اسلام پر پیدا کئے جاتے ہیں سب کی ہدایت کے لئے انبیاء کو حکم الٰہی ہوتا ہے لیکن اس طرح کے لوگ راہ راست پر کسی طرح نہیں آتے جس طرح ہر مرض کی دوا ہے اسی طرح لوح محفوظ میں آخرت کے ہر نیک وبد کا سبب لکھا ہے توحید نماز روزہ حج زکوٰۃ سبب نیک جس نے اختیار کئے جنتی ہوا۔ کفرو شرک یہ سبب بد جس نے اختیار کئے دوزخی ہوا۔ تفسیر عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے موقوف اور تفسیر ابن جریر میں ابوداؤد سے مرفوع روایت کا حاصل یہ ہے کہ اہل زمین کے عملوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر روز لوح محفوظ کے نوشتہ میں ترمیم فرماتا رہتا ٢ ؎ ہے ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی میں حضرت امام حسن کی روایت کی دعا قنوت میں خود آنحضرت نے صحابہ اور امت کو وقنی شرما قضیت کی تعلیم فرمائی ہے ٣ ؎ حضرت عمر (رض) جیسے صحابی جن کی نسبت آنحضرت نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد نبی ہوتے تو عمر ہوتے ٤ ؎ طواف کے وقت روتے جاتے تھے اور یہ دعا مانگتے تھے کہ یا اللہ تو نے مجھ کو شقی لکھا ہے تو اب نیک لکھ ٥ ؎ لے حاصل کلام یہ ہے کہ قضا و قدر کے نوشتہ نے اللہ کو کچھ مجبور نہیں کیا اللہ کی شان یَفْعَلُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ وَیَحْکُمْ مَایُرِیْدُ ہے اپنی طرف سے آدمی اسباب نیک میں لگا رہے اور اللہ سے حسن ظن رکھے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی یہ حدیث جو ہے کہ بعضے آدمی اہل جنت کے سے عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ جنت میں اور ان میں تھوڑا فرق رہ جاتا ہے اسی طرح بعضے آدمی اہل دوزخ کیسے عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ ان میں اور دوزخ میں تھوڑا فرق رہ جاتا ہے اتنے میں تقدیر کا لکھا پیش آجاتا ہے جس سے اہل جنت اہل دوزخ کیسے عمل کر کے دوزخی ہو کر مرتے ہیں اور اہل دوزخ اہل جنت کیسے عمل کر کے جنتی ہو کر مرتے ٦ ؎ ہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ خاتمہ کے عمل کا شریعت میں بڑا اعتبار ہے۔ بعضے لوگ آخری عمر میں غلطی سے ایسے عمل کرنے لگتے ہیں جو قضاو قدر میں آدمی کی ہلاکت اور دوزخی ہونے کا سبب ٹھہرتے ہیں اس لئے ان کے پچھلے عمل اکارت جاکر وہ دوزخی ہو کر مرتے ہیں، اسی طرح بعضے آدمی آخر عمر میں ایسے نیک عمل کرتے ہیں جو تضاوقدر میں نجات کا سبب ٹھہراتے ہیں اس لئے ان نیک عملوں کے طفیل سے ان کے سبب پچھلے برے عمل معاف ہوجاتے ہیں اور وہ جنتی ہو کر مرتے ہیں یہ معنے اس حدیث کے نہیں ہیں کہ بلاسبب فقط قضاو قدر کے لکھے پر بغیر عملوں کے کوئی دوزخی یا جنتی ہوجاتا ہے اور خاتمہ کی برائی سے اکثر صحابہ جو ڈرا کرتے تھے اس کے بھی یہ معنے ہیں کہ آدمی خدا سے پناہ مانگتا رہے اور ثابت قدمی سے عمل صالح کی دعا کرتا رہے ایسا نہ ہو کہ آخر عمر میں کوئی برا کام خدا تعالیٰ کی ناخوشی کا اس سے سرزد ہو کر اس کے خاتمہ کو نہ بگاڑ دے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کے حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ٧ ؎ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے کی طبیعت میں اسلام اور عقبیٰ کی بہبودی کی باتیں مان لینے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی طرح صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو دنیا میں ہونے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں لکھ لیا ٨ ؎ ہے۔ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جب دانش سب کی طبیعت میں عقبے کی بہبودی کی صلاحیت رکھی ہے لیکن ان میں بہت سے ایسے ہیں جو علم الٰہی میں دوزخی قرار پاچکے ہیں اس لئے دنیا میں پیدا ہونے کے بعد عقبیٰ کی بہودی کی باتوں کے کانوں سے سننے آنکھوں سے دیکھنے میں ان کا دل نہیں لگتا بلکہ جانوروں کی طرح دنیاوی باتوں پر ان کی زیست کا مدار ہے اور عقبے کے حساب سے وہ گویا دوزخ کا ایندھن بننے کے لئے دنیا میں پیدا ہوئے ہیں :۔ ١ ؎ فتح الباری ج ٣ ص ٢١١۔ ٢١٢ باب ذکر الجن وثوابہم وعقابہم ١٢ ٢ ؎ تفسیر ابن جریر ج ١٣ ص۔ ١٧ و تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٥١٩ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ١١٢ باب الوتر ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٥٨ باب مناقب عمر (رض) فصل دوسری ٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٥١٩ ٦ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٧٦ کتاب القدر۔ ٧ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٧٦ باب اللہ اعلم بما کانوا عاملین۔ ٨ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٣٥

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:179) ذرانا۔ ہم نے پیدا کیا۔ ماضی جمع متکلم۔ لجہنم۔ میں لام عاقبت کا ہے۔ غایت کا نہیں۔ یعنی ان کو پیدا کرنے کی غایت ان کو جہنم میں ڈالنے کی نہ تھی۔ بلکہ اپنے کفر و نافرمانی کے انجام کے طور پر وہ جہنمی بن گئے۔ قرآن میں اس کی اور مثالیں بھی ہیں۔ مثلاً فالتقطہ ال فرعون لیکون لہم عدوا وحزنا۔ پس فرعون کے آدمیوں نے اس کو اٹھالیا تاکہ بڑا ہو کر وہ ان کا دشمن بنے اور طاعث زحمت ہو۔ تو یہاں انہوں نے اس نیت اور اس غرض کے لئے نہیں اٹھایا تھا کہ واقعی ان کا دشمن نکلے۔ بلکہ ان کی نیت اور مقصد تو یہ تھا کہ جب یہ بڑا ہوگا تو ہمارے کام آئیگا لیکن ان کے اٹھانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انجام کار وہی موسیٰ (علیہ السلام) ان کی اور فرعون کی بربادی کا باعث بنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13لجھنم میں لام عاقبت بھی ہوسکتا ہے یعنی اپنے حواس سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے انجام کار جہنم میں جائیں گے گو یا جہنم ہی کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے، اور لام غایت کا بھی ہوسکتا یعنی تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے علم اور قضا قدر ہمیں وہ جہنم ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں گو تشریعی طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور شریعت کا مکلف قرار دیا ہے جیسا کہ بہت ہی احادیث تقدیر میں مذکور ہے اور علما نے تقدیر اور جبری فرق کی وضاحت کی ہے۔ 1 کیونکہ انعام ( چوپائے) کی نقل و حرکت تمام تر اس کے طبعی تقاضے اور تسخیری غایت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس کفار اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق کی نافرما کر رہے ہیں، ( ابن کثیر)6 یعنی خواب غفلت میں پڑے ہوئے اور حیات بعد الموت سے بےفکر ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا ننا اور ان کے احکام کو سیکھنا ہر شخص پر فرض ہے اگر کوئی ایسا نہ کرے گا تو دوزخ میں جائے گا۔ ( مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین کے بدلے دنیا کمانے والے نقصان پانے کے ساتھ جہنم میں جائیں گے یہاں ان کے جہنم میں جانے کی بنیادی وجہ بیان کی گئی ہے۔ جہنمیوں کے جہنم میں جانے کی وجہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا کہ ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انسانوں اور جنات کو جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے تو اس میں انسانوں اور جنات کا کیا گناہ ہے ؟ دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ سورة الذٰریت آیت ٥٦ میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس طرح ایک مغالطہ پیدا ہونے کے ساتھ قرآن مجید کی آیات میں بظاہر تعارض بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس مغالطہ اور سوال کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید کے مشہور مفسر امام الرازی (رح) لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں حرف لام کسی چیز کا انجام اور اس کی انتہا بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں لفظ لام جہنم کے ساتھ انجام کے لیے لایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انھیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ لیکن انھوں نے اپنے کردار کی وجہ سے اپنا انجام جہنم بنا لیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل عطا کیے تھے تاکہ غور و فکر کریں انھیں آنکھیں دیں تاکہ ہر معاملہ کو غور سے دیکھیں انھیں کان بخشے گئے تاکہ ہر بات کو توجہ کے ساتھ سنیں لیکن انھوں نے سوچنا، غور سے دیکھنا اور توجہ کے ساتھ سننا گوارا نہ کیا اس طرح جانوروں کی مانند ہوئے کیوں کہ جانوروں کے پاس دل، آنکھیں اور کان موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے، سونے اور چلنے پھرنے کے علاوہ کوئی صلاحیت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود اپنے مالک کے وفادار اور اس کے ساتھ محبت کرتے ہوئے اس کا کہنا مانتے اور اس کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ انسان اور جنات جانوروں سے اس لیے بدتر ٹھہرے کہ ان کے پاس نہ صرف سوچنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیت چوپاؤں سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء اور آسمانی کتب کا انتظام کیا گیا ہے لیکن یہ دنیا کے معاملات میں اس قدر مشغول ہوئے کہ اپنے خالق ومالک اور اس کے احکام سے یکسر غافل ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ گویا کہ جہنم کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ جنوں اور انسانوں کی اکثریت جہنم میں جائے گی۔ ٢۔ جہنم میں جانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دل، آنکھوں اور کانوں کو ہدایت کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام سے غفلت کرنے والے جانوروں سے بدتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن اندھے، بہرے لوگ اور ان کا انجام : ١۔ اہل ایمان اور کفر کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والوں کی طرح ہے۔ (ھود : ٢٤) ٢۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے اندھے بہرے ہیں۔ (الانعام : ٣٩) ٣۔ کانوں آنکھوں کا صحیح استعمال نہ کرنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٤۔ اندھے بہرے لوگ عقل نہیں رکھتے۔ (البقرۃ : ١٧١) ٥۔ بہرے وحی کو نہیں سنتے۔ (الانبیاء : ٤٥) ٦۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اندھے بہرے لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (الروم : ٥٢) ٧۔ اندھے بہرے لوگ ہدایت کی طرف نہیں لوٹتے۔ (البقرۃ : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جن و انس میں سے اکثریت جہنم کے لیے پیدا کی گئی ہے ، اس کے لیے وہ تیار ہو رہے ہیں ، تو ان لوگوں کا یہ انجام کیوں ہے ؟ اس اعلان کے دو پہلو ہیں ، ایک یہ کہ اللہ کو پیشگی علم تھا کہ وہ یہ مخلوق جہنم کی راہ لے گی اور جہنم تک پہنچے گی۔ ان لوگوں کا عملاً جہنم کی راہ لینا اللہ کے علم سے متاثر نہیں ہوتا۔ اللہ کا علم تو ہر شے پر محیط اور ازلی ہے۔ اللہ کو پیدائش انسان اور عمل انسان سے بھی بہت پہلے معلوم تھا کہ فلاں فلاں یہ راہ لے گا۔ اللہ کا علم وقوع واقعات پر موقوف نہیں ہے بلکہ پہلے سے ذات باری کا حصہ ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ اپنے علم ازلی سے جو ذات باری کے ساتھ ہے لوگوں کو عالم واقعہ میں اس امر پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ یہ کریں اور دوسری راہ اختیار نہ کریں بلکہ وہ خود اپنی صلاحیت اور ذات کی وجہ سے خود ایسا کرتے ہیں۔ چناچہ اللہ فرماتے ہیں " ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں ہیں ، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان کے ساتھ سنتے نہیں "۔ ان کو دل و دماغ اس لیے دئیے گئے تھے کہ وہ انہیں کھولیں اور بات کو سمجھنے کی کوشش کریں ، جبکہ پورا کائنات میں دلائل ایمان بکھیرے پڑے ہیں ، پھر رسولوں نے جو پیغام دیا اس میں بھی دلائل و معجزات موجود ہیں اگر دل بصیرت رکھتا ہو اور آنکھیں کھلی ہوں تو ہدایت پا سکتے تھے مگر انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور آیات الہیہ کو نہ دیکھا۔ انہوں نے کان بند کرلیے اور پیغمبروں کی دعوت کو نہ سنا۔ انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو معطل کرلیا۔ حالانکہ وہ ان کے فائدے کے لیے دی گئی تھیں۔ وہ حیوانات کی طرح غافل رہے لہذا وہ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں " وہ لوگ جو ان آیات و نشانات سے غفلت برتتے ہیں جو ان کے ارگرد کائنات میں بکھری پڑی ہیں ، جو لوگ اپنی آنکھوں سے ایسے واقعات اور عبرت آموز حادثات دیکھتے ہیں لیکن ان میں ان کو اللہ کا ہاتھ نظر نہیں آتا ، یہ لوگ بیشک جانوروں کی طرح ہیں بلکہ یہ لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ اس لیے کہ مویشیوں کے بھی کچھ فطری وظائف ہوتے ہیں اور ہر جانور انہیں پورا کرتا ہے۔ رہے جن و انس تو انہیں ایک سوچنے والا دل دیا گیا اور دیکھنے والی آنکھ دی گئی ، سننے والے کان دئیے گئے جب انہوں نے دلوں سے نہ سوچا ، آنکھوں سے نہ دیکھا ، اور کانوں سے نہ سنا اور اس پوری کائنات کی رفتار پر سے غافل ہوکر گزر گئے اور اس کے مقاصد و معانی نہ سمجھے ، ان کی آنکھوں نے ان اشارات کو نہ دیکھا جو یہاں ہیں ، ان کی سماعت پر اس پوری کائنات کی چیخ و پکار نے بھی اثر نہ کیا تو یقینا یہ لوگ اور اس قسم کے دوسرے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ٹھہرے جو کم از کم اپنے فطری وظائف تو سر انجام دیتے ہیں۔ اور یہ لوگ جہنم کے لیے پیدا ہوئے میں اور اللہ کی مشیت کے وسیع دائرے میں اللہ کے نظام قضا و قدر کے مطالبہ پر جہنم کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ یہ راہ اختیار کریں بلکہ اللہ کو اس کے علم قدیم کے ذریعے اس کا علم تھا کہ وہ ایسا کریں گے اور بھریں گے اور جہنم کا ایندھن ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسانوں اور جنوں میں ایسے لوگ ہیں جو چوپایوں سے زیادہ گمراہ ہیں اس سے پہلی آیات میں ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جسے اللہ نے اپنی آیات دی تھیں اس نے عالم ہوتے ہوئے دنیا کی محبت میں ان آیات کو چھوڑ دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گیا، اس آیت میں عمومی طور پر ہدایت اور گمراہی کے بارے میں حقیقت واضح فرما دی (دیگر آیات میں بھی یہ مضمون بیان فرمایا ہے) اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے ہدایت اور گمراہی اور ہر خیر و شر کا خالق وہی ہے۔ اس نے بندوں کو اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ ہدایت اور ضلالت دونوں کے راستے واضح فرما دیئے ہیں اور اپنے بندوں کو اختیار بھی دیا وہ اپنے اس اختیار کو خیر میں بھی لگا سکتے ہیں اور شر میں بھی، جو اپنے اختیار کو غلط استعمال کرتے ہیں اور گمراہی کے راستے پر چل دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں عذاب شدید ہے، جو لوگ اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں ان کو جتنا بھی سمجھایا جائے بات سمجھنے کا ارادہ نہیں کرتے اس لیے ہدایت کی بات سمجھتے ہی نہیں اور جو ہدایت کی باتیں کان میں پڑتی ہیں ان کو سننے کے طریقے پر نہیں سنتے، اگر ہدایت اور رشدو حق کی کوئی بات کان میں پڑجائے تو ساری سنی اَن سنی کردیتے ہیں اور ہدایت قبول کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے، سننے کی قوت تو برباد کر ہی دی دیکھنے کی قوت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب دلائل تکوینیہ سامنے آتے ہیں اور معجزات کو نظروں سے دیکھتے ہیں تو قصداً اور ارادۃً اندھے بن جاتے ہیں اور ہدایت سے دور بھاگتے ہیں۔ گو خالق ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن بندے اپنے اختیار سے خیر و شر اور ہدایت و ضلالت والے بنتے ہیں۔ (اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ) جن لوگوں کا اوپر ذکر ہوا ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ اپنی بصیرت و بصارت اور فہم و ادراک سے کام نہیں لیتے، ہدایت سامنے ہوتے ہوئے قبول نہیں کرتے اسی لیے یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ گمراہی میں چوپایوں سے بھی بڑھ کر ہیں، جانور اپنی ضرورت کو تو سمجھتا ہے کھانے اور پینے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لیے آوازیں نکالتا ہے اور اپنی حاجت پوری کرلیتا ہے۔ جانوروں کی حاجت اتنی ہی سی ہے۔ ان کے لیے جنت اور دوزخ نہیں ہے اگر جانوروں نے جنت میں جانے اور دوزخ سے بچنے کی فکر کی تو ان سے کوئی ملامت نہیں، لیکن انسانوں اور جنات جن کے سامنے اصلی اور واقعی ضرورت در پیش ہے۔ یعنی انہیں دوزخ کے دائمی عذاب سے بچنے اور جنت کی دائمی نعمتوں میں رہنے کی حاجت ہے اپنی اس ضرورت کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ پیدا کرنے والے نے نبی بھیجے کتابیں نازل فرمائیں، جنات اور انسانوں کو ان کی واقعی اور اصلی ضرورت بتائی، اور یہ بھی بتایا کہ تمہاری حاجت روائی اور کامیابی ایمان میں اور اعمال صالحہ میں ہے اور بربادی اور ناکامی کفر اور معصیت میں ہے۔ اس سب کو جانتے ہوئے بھی دھیان نہ دینا اور کفر پر جمے رہنا بہت بڑی گمراہی ہے ایسے لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ آخر میں فرمایا : (اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) (یہ لوگ غفلت والے ہی ہیں) آخرت سے بھی غافل ہیں اور آخرت کی ضرورتوں سے بھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

177: یہ دوسرے دعوی سے متعلق ہے جو لوگ کفر و شرک پر مصر ہیں اور ضد وعناد کی وجہ سے حق بات کا انکار کتے ہیں ان کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کو ہم نے دل دئیے۔ آنکھیں اور کان دئیے مگر وہ ہیں کہ ان چیزوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ وہ بالکل چوپایوں کی مانند ہیں جن کو بالکل حق و باطل کا کوئی امتیاز نہیں بالکل یہی حال ان لوگوں کا ہے یہانتک کہ وہ جانوروں کی طرح ننگے ہونے سے بھی نہیں شرماتے جیسا کہ مشرکین طواف کعبہ کے وقت کیا کرتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

179 اور یہ حقیقت امر واقعی ہے کہ ہم نے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے جن اور انسانوں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے وہ دوزخ میں رہنے والے اور دوزخ کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وہ لوگ وہ ہیں جن کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان دلوں سے حق بات کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے یعنی حق بات کو سمجھنے کا ارادہ نہیں کرتے اور ان لوگوں کے پاس آنکھیں تو ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور صحیح استدلال کا ان سے کام نہیں لیتے۔ اور ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان کانوں سے حق بات کو نہیں سنتے یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ یہ لوگ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں یعنی یہ انسان اور ذوی العقول ہونے کے باوجود آخرت سے جانوروں کی طرح غافل اور بیخبر ہیں تو جانوروں سے بھی زیادہ بےراہ ہوئے یہی لوگ وہ ہیں جو بالکل غافل ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی خدا اور رسول کو پہچاننا اور ان کے حکم سیکھنے ہر کسی پر فرض ہے نہ کرے تو دوزخ میں جاوے۔ 12 مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے قلوب سے اور آنکھوں اور کانوں سے کام نہ لیں تو یہ سمجھو کہ یہ بدنصیب دوزخ ہی میں رہنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔