Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 184

سورة الأعراف

اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا ٜ مَا بِصَاحِبِہِمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۸۴﴾

Then do they not give thought? There is in their companion [Muhammad] no madness. He is not but a clear warner.

کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ ان کے ساتھی کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف ڈرانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْ ... Do they not reflect, `those who deny Our Ayat,' ... مَا بِصَاحِبِهِم ... there is not in their companion, (Muhammad), ... مِّن جِنَّةٍ ... madness, Muhammad is not mad, rather, he is truly the Messenger of Allah, calling to Truth, ... إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ مُّبِينٌ but he is a plain warner, and this is clear for those who have a mind and a heart by which they understand and comprehend. Allah said in another Ayah, وَمَا صَـحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ And (O people) your companion is not a madman. (81:22) Allah also said, قُلْ إِنَّمَأ أَعِظُكُمْ بِوَحِدَةٍ أَن تَقُومُواْ لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُواْ مَا بِصَـحِبِكُمْ مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ Say: "I exhort you to one (thing) only, that you stand up for Allah's sake in pairs and singly, and reflect, there is no madness in your companion. He is only a warner to you in face of a severe torment." (34:46) meaning, `I ask you to stand for Allah in sincerity without stubbornness or bias,' مَثْنَى وَفُرَادَى in pairs and singly. (34:46), individuals and in groups. ثُمَّ تَتَفَكَّرُواْ and reflect (34:46), about this man who brought the Message from Allah, is he mad If you do this, it will become clear to you that he is the Messenger of Allah in truth and justice. Qatadah bin Di'amah said, "We were informed that the Prophet of Allah once was on (Mount) As-Safa and called the Quraysh, sub-tribe by sub-tribe, proclaiming, يَا بَنِي فُلَانٍ يَا بَنِي فُلَانٍ فَحَذَّرَهُمْ بَأْسَ اللهِ وَوَقَايِعَ الله O Children of so-and-so, O Children of so-and-so! He warned them against Allah's might and what He has done (such as revenge from His enemies). Some of them commented, `This companion of yours (Prophet Muhammad) is mad; he kept shouting until the morning' Allah sent down this Ayah, أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ مُّبِينٌ Do they not reflect There is no madness in their companion. He is but a plain warner."'

صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی کیا ان کافروں نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جنوں کی کوئی بات بھی ہے؟ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ 46؀ ) 34- سبأ:46 ) آؤ میری ایک بات تو مان لو ذرا سی دیر خلوص کے ساتھ اللہ کو حاضر جان کر اکیلے و کیلے غور تو کرو کہ مجھ میں کونسا دیوانہ پن ہے ؟ میں تو تمہیں آنے والے سخت خطرے کی اطلاع دے رہا ہوں کہ اس سے ہوشیار رہو ۔ جب تم یہ کرو گے تو خود اس نتیجے پر پہنچ جاؤ گے کہ میں مجنوں نہیں بلکہ اللہ کا پیغام دے کر تم میں بھیجا گیا ہوں ۔ حضور نے ایک مرتبہ صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریشیوں کے ایک ایک قبیلے کا الگ الگ نام لے کر انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسی طرح صبح کر دی تو بعض کہنے لگے دیوانہ ہو گیا ہے اس پر یہ آیت اتری ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

184۔ 1 صَاحِب سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے جن کی بابت مشرکین کبھی ساحر اور کبھی مجنون (نعوذ باللہ) کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے عدم تفکر کا نتیجہ ہے وہ تو تمہارا پیغمبر ہے جو ہمارے احکام پہنچانے والا اور ان سے غفلت اور اعراض کرنے والوں کو ڈرانے والا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٤] مجنون اور نبی میں فرق :۔ اب ایسے لوگوں کے بعض شبہات کا جواب دیا جا رہا ہے مثلاً : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی ان قریش مکہ کے سامنے ہے نبوت سے پیشتر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری قوم نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ نیز صادق اور امین کی حیثیت سے جانتی تھی۔ پھر جب نبوت کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں کو پہنچایا اور انہیں اخروی انجام سے ڈرایا تو وہ آپ کو مجنون اور آسیب زدہ کہنے لگے حالانکہ نبی جو کچھ کہتا ہے سب سے پہلے وہ خود اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اپنی بات پر اپنے پاکیزہ سیرت و کردار سے مہر تصدیق ثبت کرتا ہے ذرا سوچو ! کسی مجنون میں یہ صفات پائی جاتی ہیں ؟ پھر تم کس لحاظ سے اسے مجنون کہتے ہو ؟ کیا صرف اس لیے کہ جو حقائق وہ پیش کرتا ہے وہ تمہاری طبائع قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہیں۔ حالانکہ اس کائنات کے نظام میں اگر وہ کچھ بھی غور و فکر کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ جو کچھ ان کا ساتھی انہیں سمجھا رہا ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی شہادت دے رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا ۫مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ : اوپر کی آیات میں ان کی غفلت اور بےرخی پر تنبیہ تھی، اب یہاں سے نبوت پر ان کے شبہات کی تردید ہو رہی ہے۔ کفار قریش آپ کو مجنون (پاگل) قرار دیتے تھے، دیکھیے سورة حجر (٦) اور دخان (١٣، ١٤) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کے دو جواب دیے، ایک یہ کہ کبھی تم نے سوچا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی اور جگہ سے نہیں آئے، تمہارے ساتھی ہیں، تمھی میں رہتے ہیں، تم ان سے خوب واقف ہو، انھوں نے چالیس برس تم میں گزارے ہیں، کچھ غور تو کرو، کیا پاگل ایسے ہوتے ہیں ؟ ” صاحبکم “ (تمھارے ساتھی) کے لفظ میں یہی جواب دیا گیا ہے۔ دیکھیے سورة یونس (١٦) دوسرا یہ کہ ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ جن باتوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دیتے ہیں، مثلاً توحید، نماز، صدقہ، صلہ رحمی، پاک دامنی اور صدق وغیرہ ان میں سے کون سی چیز جنون ہے، یا آپ کے عادات و خصائل میں کون سی چیز ہے جسے جنون کہا جاسکے، آپ تو محض اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے کھلم کھلا ڈرانے والے ہیں۔ دیکھیے سورة سبا (٤٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse no. 184 has refuted the false notion of the disbelievers that the Holy Prophet , 1n was a man of unsound mind or was possessed by devil. It said: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُ‌وا مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ‌ مُّبِينٌ |"Have they not reflected that with their friend there is no madness? He is but an open warner.|" The verse said that a little reflection on their part shall be enough to prove that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was neither a man of unsound mind, nor was he under the influence of Jinns. His matchless wisdom and knowledge is an obvious feature of his personality. Those having claim to wisdom and knowledge are astoundingly bewildered how a man of such extraordinary insight and sagacity could be blamed of madness? Blaming him with madness, in fact, is madness itself. He is only an elucidator of realities and a warner against the punishment from Allah.

چوتھی آیت میں کفار کے اس لغو خیال کی تردید ہے کہ معاذ اللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنون میں مبتلا ہیں، فرمایا : (آیت) اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ، یعنی کیا ان لوگوں نے غور و فکر نہیں کیا کہ ان کا جن سے سابقہ ہے ان کو ذرا بھی جنون نہیں، ان کی عقل و حکمت کے سامنے تو ساری دنیا کے عقلا و حکماء حیران ہیں، ان کے بارے میں جنون کا گمان کرنا خود جنون ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صاف صاف حقائق کو بیان کرکے آخرت اور عذاب خداوندی سے ڈرانے والے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا۝ ٠ ۫ مَا بِصَاحِبِہِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ۝ ٠ ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٨٤ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٤) کیا ان لوگوں نے آپس میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ جادوگر ہیں اور نہ کاہن اور نہ مجنون، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ ان کے نبی کو تو جنون کا شائبہ تک بھی نہیں وہ تو رسول ہیں جو عذاب الہی سے اس زبان میں ڈراتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” اولم یتفکروا “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) اور ابو الشیخ (رح) نے قتادہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش کو بلوایا، آپ ایک ایک شاخ کو بلاتے تھے کہ ایے بنی فلاں میں تمہیں عذاب الہی سے ڈراتا ہوں، تو کسی کہنے والے نے کہا کہ تمہارے ساتھی مجنون ہیں، رات کو صبح تک مبہوت ہوگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٤ (اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْاسکتہ مَا بِصَاحِبِہِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ ط) یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی طرح کے جنوں کے اثرات یا کسی جن کا سایہ وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی متجسسانہ سوال (searching question) کا انداز ہے کہ ذرا غور کرو ‘ کبھی تم نے سوچا ہے کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری نگاہوں کے سامنے پلے بڑھے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ‘ شخصیت ‘ طہارت ‘ نظافت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار ‘ کیا یہ سب کچھ آپ لوگوں کے سامنے نہیں ہے ؟ اس کے باوجود تمہارا اس قدر بھونڈا دعویٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جنون کے اثرات ہیں ! کبھی تم نے اپنے اس دعوے کے بودے پن پر بھی غور کیا ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

95: مشرکین مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغمبر ماننے کے بجائے کبھی معاذاللہ آپ کو مجنون قرار دیتے، کبھی شاعر یا جادوگر کہتے تھے، یہ آیت بتارہی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایسے بے سروپا تبصرے وہی کرسکتا ہے جو بے سوچے سمجھے بات کرنے کا عادی ہو، اگر یہ لوگ ذرا بھی غور کرلیں توان پر اپنے ان الزامات کی حقیقت واضح ہوجائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨٤۔ ١٨٦۔ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابوالشیخ میں قتادہ سے روایت ہے کہ ایک روز صفا پہاڑ پر چڑھ کر آنحضرت نے اہل مکہ کو بلایا اور اسلام لانے کی نصیحت ان کو کی ایک نے ان میں سے آنحضرت کو دیوانہ کہا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ اہل مکہ خود دیوانے اور ناسمجھ ہیں جو نبی کو دیوانہ بتلاتے ہیں جن بتوں کو یہ لوگ پوجتے ہیں نہ انہوں نے کوئی زمین پیدا کی نہ کوئی آسمان پیدا کیا خدا کی پیدا کی ہوئی زمین اور آسمان کے عجائبات پر غور کرنے سے خود بخود معلوم ہوتا ہے کہ وہی وحدہ لاشریک عبادت کے قابل ہے سوا اس کے اور کسی کی عبادت دیوانہ پن ہے اور نبی وقت جن باتوں کو نصیحت کرتے ہیں وہ بڑی سمجھ کی باتیں ہیں دیوانوں کی باتیں نہیں ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل کی معراج کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ معراج کی رات آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے اول آسمان کے نیچے کچھ گرد غبار اور دہواں دیکھا حضرت جبرئیل سے میں نے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے انہوں نے جواب دیا کہ یہ شیاطین اکٹھے ہو کر آسمان کے نیچے اس لئے آڑ کردیتے ہیں کہ زمین پر کے لوگوں کو آسمان کے عجائبات نظر نہ آویں عجائبات نظر نہ آویں یہ آڑ نہ ہوتی تو شاید لوگوں کو زیادہ عجائبات نظر آتے۔ عمادالدین حافظ ابن کثیر نے اگرچہ اس حدیث کے ایک راوی علی بن زید پر اعتراض کیا ہے ٢ ؎ لیکن ترمذی نے علی بن زید کو صدوق کہا ہے ٣ ؎ ہے اور صدوق کی روایت قابل اعتبار ہے۔ مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقبیٰ کی جزا وسزا کا ذکر رہتا تھا اس لئے وہ منکر حشر لوگ آپ کی باتوں کو وہمی اور خیالی باتیں جان کر آپ کو دیوانہ کہتے تھے اللہ کے رسول نے معجزہ کے طور پر اس حدیث میں یہ بھی جتلا دیا کہ اہل مکہ کی جس گستاخی کا ذکر آیت میں ہے وہ کچھ اہل مکہ پر یا زمانہ نبوت پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک جگہ اور ہر ایک زمانہ کے دنیا دار لوگ کثرت سے ذکر الٰہی میں مصروف رہنے والوں کو دیوانہ کہویں گے عرب میں یہ ایک دستور تھا کہ قوم میں کوئی شخص سب قوم کے لوگوں سے پہلے اگر کسی دشمن کے لشکر کو آتے ہوئے دیکھ لیتا تھا تو قوم کے لوگوں کو ہوشیار کردینے کی غرض سے اپنے کپڑے اتار کر ایک لکڑی کے سرے پر باندھ لیتا اور اس لکڑی کو جھنڈی کی طرح ہلاتا تھا ایسے شخص کو عرب کے محاورہ میں ننگا ڈرانے والا کہتے تھے اور اس کے ڈرانے کو ایک بڑا ڈر خیال کرتے تھے صحیح بخاری ومسلم میں ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس محاورہ کے موافق اپنے آپ کو نذیر عریاں فرمایا ٤ ؎ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قریش کو عذاب دوزخ سے جو ڈراتے ہیں اس کو یہ لوگ معمولی ڈر نہ خیال کریں بلکہ نذیر عریاں کے ڈرانے کی طرح اس کو ایک یقینی سمجھیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو صاف ڈرانے والا جو فرمایا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے باقی تفسیر ان آیتوں کی آیت ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس کی تفسیر میں اور آیتوں کی تفسیر میں تفصیل سے گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے لیکن لوگوں کے دوزخی اور جنتی ہونے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کے نوشتہ پر نہیں رکھا بلکہ ہر شخص کو فطرت اسلام پر اس نے پیدا کیا ہے ہر ایک کا ٹھکانا دوزخ اور جنت دونوں جگہ میں بنایا ہے ہر ایک کو نیک راہ پر لگانے کے لئے رسول بھیجے گئے آسمانی کتابیں نازل کی گئیں معرفت الٰہی حاصل کرنے کے لئے بےگنتی قدرت الہی کی نشانیاں دنیا میں پیدا کی گئیں باوجود اس کے نیک راہ چھوڑ کر جو لوگ ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں وہ وہی لوگ ہیں جو علم الٰہی میں دوزخی قرار پاچکے ہیں نہ ان کو ہدایت کا کوئی طریقہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ ان کو مجبور کیا جاکر نیک راہ پر لانا انتظام الہی میں داخل ہے کیونکہ دنیا نیک وبد کی جانچ کے لئے پیدا کی گئی ہے کسی کو کسی کام پر مجبور کرنے کے لئے نہیں پیدا کی گئی۔ صحیح بخاری وترمذی میں عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو اپنے مرنے کا وقت معلوم نہیں ٥ ؎ کہ ناگہانی طور پر کس وقت موت سر پر آن کھڑی ہو اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو قبر کا مردہ سمجھے۔ ان آیتوں میں موت کا جو ذکر ہے حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے :۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثرر ج ٢ ص ٦٧٠۔ ٢ ؎ تہذیب التہذب ج ٧ ص ٣٢٣۔ ٣ ؎ الترغیب والترہیب ج ١ ص ٢٧١ الترغیب فی الاکثار عن ذکر اللہ۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ١٠٨١ کتاب الا عتصام و صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٤٨ باب شفقتہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ٥ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٨١ باب قولہ اللہ یعلم ماتحمل کل انثی الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:184) جنۃ۔ جنون ۔ سودا۔ دیوانگی۔ جن سے مشتق ہے چونکہ دیوانگی عقل کو چھپا دیتی ہے اس لئے اسے جنۃ کہتے ہیں۔ ان ھو میں ان نافیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 اوپر کی آیات میں ان کی غفلت اور اعراض پر تہدید بھی اب یہاں سے نبوت پر ان کے شبہات کی تردید ہو رہی ہے مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ جن باتوں، توحیدوغیرہ کی طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں ان میں کون ایسی بات ہے جسے جنون سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا یہ یوں ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تر دید کے لیے اس قسم کی الزام طرازیاں کر رہے ہیں۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ روایت ملی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات صفا پر چڑھے اور صبح تک قریش کے مختلف گھرانوں کا نام لے کر انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے آخر ایک کافر ہنے لگا کہ تمہا را یہ ساتھی مجنون ہوگیا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر، ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا ساتھی فرمایا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں رہتے تھے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے خوب واقف تھے۔ ( از مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیت نمبر 184 تا 186 وقت کے دھارے کے خلاف جب بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے جو قائم شدہ نظام وقت سے ٹکراتی ہے اور ان لوگوں کے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے جنہوں نے مذہب کے نام پر دوسروں کو بیوقوف بنایا ہوا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس شخص کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں جو اس دعوت کو لے اٹھتا ہے تاکہ لوگ اس کی باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظرا نداز کردیں ۔ یہی صورت حال اس وقت پیش آئی جب خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتوں کو پوجنے والے اور رسموں کو مذہب کا نام دینے والوں کو للکارا۔ حضرت قتاوہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفاہ پر چڑھ کر قریش کے تمام قبیلوں کو ایسے الفاظ سے پکارا جیسے دشمن کے خطرہ کے وقت بو لے جاتے تھے ۔ مکہ کے تمام لوگ اس تصور کے ساتھ پہاڑ پہر پہنچ گئے کہ شاید کسی دشمن نے مکہ پر حملہ کردیا ہے ۔ جب سب جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قبیلے کو نام بنام پکار کر ان کو عذاب الہٰی سے ڈرایا، موت ، قیامت اور زوال و فنا کا نقشہ کھینچ کر فکر آخرت کی طرف متوجہ فرمایا۔ یہ سن کر بعض منکرین اور کفار مکہ نے کہا (نعوذباللہ) ان کو جنون ہوگیا ہے یہ روایت اور بھی متعدد طریقوں سے قرآن کریم میں اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ وہی لوگ جو آپ کے عقل و فہم کے قائل تھے صادق وا مین کہنے سے جن کے منہ سوکھتے تھے جیسے ہی ان کی رسموں اور بتوں اور چلتے دھارے کے خلاف بات کہی گئی تو انہوں نے اللہ کے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جنون کا الزام لگا دیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس بات پر غور و فکر نہیں کرتے کہ ان کے رفیق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنون مین مبتلا نہیں ہیں بلکہ وہ تو تمہارے برے انجام سے ڈرانے والے ہیں ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کا زمانہ اور ایک لمحہ ان کے سامنے تھا۔ چالیس سال تک آپ نے ان کے اندر اپنی زندگی کا وقت گذرا تھا۔ ہمیشہ آپ کو صادق و امین ، دانشمند اور سلیم الفطرت سمجھتے رہے اب جو انہوں نے حق و صداقت کی باتیں شروع کیں تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں یہاں تک کہ آپ کے خلاف جنونی ہونے کا دعویٰ کرنے لگے اللہ نے فرمایا ہے کہ جس ساری زندگی تمہارے درمیان گذری ہے ان پر اس طرح کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے ۔ اس بات پر تو تمہارا دل بھی گواہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کی عقل و حکمت کے سامنے تم اور سار دنیا کے عقلا اور حکما حیران و ششدر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس احمقانہ انداز فکر پر فرمایا ہے کہ اگر تم کائنات کے حسن انتظام پر غور و فکر کرو تو یہ بات تمہاری سمجھ میں آجائے گی۔ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اللہ ہی ہے۔ اس کی ہر چیز اس کے خالق ہونے پر گواہ ہے۔ یہ زندگی کا مختصر سا عرصہ ہے جس میں غور فکر کر کے اللہ پر ایمان لے آنے والے ہی کامیاب و با مراد ہوں گے۔ لیکن جنہوں نے اس وقت کو غفلت میں گذار دیا ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوگی ۔ فرمایا کہ ہمارا نبی تمہارے سامنے اسی حقیقت کو رکھ رہا ہے ۔ اگر تم اس کے بعد بھی ایمان نہیں لائو گے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بھٹکنا ہی تمہارا مقدر بن چکا ہے۔ تم دوزخ میں جانے پر تلے بیٹھے ہو۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کون ہے جو تمہیں راہ ہدایت دکھا سکے۔ جس کو اللہ ہی بھٹکا دے اس کو راستہ ملنا مشکل ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ حاصل یہ کہ اگر آپ کی مجموعی حالت میں غور کریں تو آپ کی پیغمبری سمجھ میں آجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کفار کو اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھاتے اور بتلاتے تو وہ دیگر الزامات کے ساتھ آپ کو مجنوں اور پاگل کہتے تھے جس کا جواب دیا گیا ہے۔ کفار نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر مجنون کہتے تھے۔ ١۔ ایک الٰہ تمام لوگوں کی مشکلات کس طرح حل کرسکتا ہے۔ ٢۔ کفار کا کہنا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کا کب انکار کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ہمارے معبودوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ ٣۔ نبی اس لیے مجنون ہے کہ توحید کے سوا کوئی اور بات نہیں کرتا۔ ہر وقت توحید، توحید کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ ٤۔ معاشرہ اور برادری میں اس کا بڑا مقام اور احترام تھا مگر اس نے اپنے مقام اور احترام کو برباد کرلیا ہے۔ ٥۔ ہم نے اسے ہر قسم کی مراعات کی پیشکش کی ہے لیکن یہ جنونیوں کی طرح ایک ہی بات کہے جارہا ہے۔ ٦۔ کفار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر عوام میں مجنون کہتے تھے۔ لیکن ذاتی طور پر پوری دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ آپ انتہائی ذہین، دانشور اور صاحب بصیرت انسان ہیں۔ جس کا تجربہ انھوں نے قومی سطح پر اس وقت کیا تھا۔ جب آپ کی عمر مبارک ٣٥ سال کی تھی۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجر اسود رکھنے پر اہل مکہ کے درمیان کشت و خون کی نوبت پیدا ہوچکی تھی۔ آپ نے انتہائی پر آشوب حالات اور جذباتی فضا میں ایسا فیصلہ فرمایا کہ آپ کی ذہانت کے نہ صرف اہل مکہ قائل ہوئے بلکہ پورے حجاز میں آپ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ آپ کی ٦٣ سالہ زندگی میں بدترین دشمن بھی کسی ایک کام یا بات کی نشاندہی نہ کرسکے۔ جس وجہ سے آپ کو معمولی عقل رکھنے والا انسان کہا جاسکے۔ ان حقائق کی بنیاد پر سورة سباء آیت ٤٦ میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ دو دو اور ایک ایک ہو کر سوچو ! کہ کیا اس نبی کو کوئی جنون ہے۔ یہ تو صرف اس لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے بھیجا ہے لہٰذا آپ کھلے الفاظ میں لوگوں کو ڈرانے والے ہیں۔ جس عقیدۂ توحید کی بناء پر تم اس رسول کو پاگل کہتے ہو بتاؤ کبھی تم نے زمین و آسمان کے انتظام و انصرام اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان پیدا کیا اس پر غور کیا ؟ کیا نظام قدرت میں کسی اعتبار سے بھی کسی کا عمل دخل ہے ؟ اور کبھی سوچا کہ اس نظام کے خاتمہ کا وقت کتنا قریب آلگا ہے، یہ اشارہ فرما کر توحید کے منکروں کو قیامت برپا ہونے کا احساس دلاکر فرمایا ہے کہ مزید کونسی دلیل ہوگی جس پر تم ایمان لاؤ گے۔ دراصل جسے اللہ تعالیٰ اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ انھیں ان کے گناہوں میں اس لیے چھوڑا جا رہا ہے تاکہ یہ اپنے گناہوں میں سرگرداں رہیں۔ مسائل ١۔ رسول لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے آتا ہے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ کی مخلوق پر غور و خوض کرے۔ ٣۔ آدمی کو اپنی موت سے پہلے اپنا عقیدہ اور اعمال درست کرلینے چاہییں۔ ٤۔ جس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ ٥۔ گمراہ شخص ہر وقت اپنے گناہوں میں پریشان رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داعیانہ حیثیت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (البقرۃ : ١١٩) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے دین کے داعی اور روشن چراغ ہیں۔ (الاحزاب : ٤٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاہد، بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا : ٢٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم ان آیات میں ان لوگوں کو تنبیہ کر رہا ہے جو اس وقت مکہ میں اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ لیکن یہ آیت مکہ کے لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، ازمنہ مابعد میں بھی امت مسلمہ کے ساتھ اس کے دشمنوں کا یہی سلوک ہے اور ہوگا ، اللہ ان مخالفوں کو مہلت دیتا ہے لیکن اس کی تدبیر مستحکم ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں آنکھیں کھول کر کریں۔ اپنے دل و دماغ سے کام لیں اور اپنے آپ کو جہنمی مخلوق میں شامل نہ کریں۔ اسلام اہل مکہ کو یہ مشورہ دے رہا تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں اپنے رویے پر اچھی طرح غور کریں ، کیا وہ دیکھتے نہیں کہ آپ حق کے حامل اور حق کے داعی ہیں۔ نیز اہل مکہ زمین و آسمان کی ساخت اور بادشاہت پر غور کریں۔ کیا اس میں سچائی تک پہنچانے والی آیات و معجزات بکھرے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ مہلت جو انہیں دی جا رہی ہے یہ بہت ابدی اور طویل نہیں ہے۔ اللہ کی تدبیر کے وقوع کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ وہ کیوں اس قدر غافل ہوگئے ہیں ؟ اسلام یہ کوشش کرتا ہے کہ انسانوں کو مدہوشی سے ہوش میں لائے ، ان کو غفلت کے خواب گراں سے جگائے اور انسان کی فطرت کو ان تہوں کے نیچے سے نکال کر باہر لائے جو اس کے اوپر جمی ہوئی ہیں۔ انسانوں کے شعور کو تازہ کرے۔ قرآن انسان کی شخصیت اور انسانیت کو مخاطب کرتا ہے اور اس کی ان صلاحیتوں کو جگاتا ہے جن کے ذریعہ وہ دعوت اسلام کو قبول کرلیں۔ قرآن کریم محض جامد اور خشک قسم کا مناظرہ نہیں کرتا۔ وہ انسان کی حقیقی شخصیت کو گمراہی کی گہری تہوں کے نیچے سے نکالتا ہے۔ اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا ۫مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْن۔ اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے (جو برا انجام سامنے ٓنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے قریش کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ وہ آپ پر یہ الزام لگاتے کہ آپ کو جنون لاحق ہوگیا ہے اور اس پر دلیل یہ دیتے تھے کہ تم دیکھتے نہیں کہ وہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو عربوں کے معروف اسالیب کلام سے بالکل مختلف ہے۔ قریش جو یہ پر پیگنڈہ کرتے تھے ، اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بک رہے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضور جس دعوت کے حامل ہیں وہ دعوت حق ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو سننے کے لیے بےتاب رہتے تھے اور اپنے آپ کو کنٹرول نہ کرسکتے تھے کہ اس کے سننے سے باز رہیں۔ اس سماع کے ان پر گہرے اثرات پڑتے تھے۔ اخنس ابن شریق ، ابو سفیان ابن حرب اور عمرو ابن ہشام ابوجہل کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ سب سے چھپ چھپ کر قرآن سنتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ یہ تینوں حضرات چھپ کر قرآن سننے کے لیے آئے۔ اس واقعہ کو فی ظلال القرآن میں ہم ذکر کر آئے ہیں۔ نیز عتبہ ابن ربیعہ کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ اس نے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة فصلت کی آیات سنیں اور انہوں نے اسے متزلزل کردیا۔ اور یہ واقعات بھی مشہور ہیں کہ یہ لوگ موسم حج میں لوگوں کو قرآن سے دور رکھنے کی تدبیر کرتے۔ ولید ابن مغیرہ لوگوں سے کہتے کہ یہ نہایت ہی موثر جادو ہے۔ ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام ، دعوت اسلام اور قرآن کی حقانیت میں شک نہ رکھتے تھے بلکہ یہ لوگ اپنے آپ کو اس دعوت سے مقابلے میں بڑا سمجھتے تھے۔ پھر ان کو یہ خطرہ تھا کہ جب ہم لا الہ الا اللہ مھمد رسول اللہ کا اقرار کرلیں گے تو پھر محمد ہمارے حاکم اور مقتدر اعلی ہوں گے۔ کیونکہ اس کلمے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان انسانوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی غلامی میں آجائیں اور تمام طاغوتی طاقتوں کو ختم کردیں۔ قرآن مجید ایک عجیب اور منفرد کتاب ہے ، اور اس کا اسلوب بھی لوگوں کے اندر مروج اسالیب کلام سے زیادہ منفرد ہے ، اس لیے قریش اس سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے۔ نیز عربوں میں پیشین گوئی کرنے والوں اور مجنونوں کے درمیان یک رنگی ہوتی تھی ، مثلاً مجذوب لوگ عربوں میں بھی اپنے آپ کو عالم بالا سے متعلق قرار دیتے تھے جو اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے جن کی تاویل وہ حسب منشا کرسکتے تھے ، ان روایات کی وجہ سے قریش حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایک مجذوب یا مجنون قرار دیتے تھے اور آپ کے کلام کو مجذوب یا مجنون کا کلام کہتے تھے۔ قرآن کریم ان لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا تھا اور یہ مشورہ دیتا تھا کہ یہ لوگ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں غور و فکر کریں جنہیں وہ خوب جانتے تھے اور ان کو معلوم تھا کہ انہوں نے اس سے قبل کبھی ایسی مجذوبانہ باتیں نہیں کی تھیں۔ پھر وہ خود اس بات کے بھی گواہ تھے کہ آپ سچے اور زمین ہیں جبکہ آپ کی حکمت اور دانائی اور سنجیدگی کے بھی وہ قائل تھے۔ جب حجر اسود کے معاملے میں انہوں نے آپ کو حکم بنایا اور آپ نے جو فیصلہ کیا اس کی وجہ سے وہ ایک بہت ہی عظیم خانہ جنگی سے بچ گئے۔ پھر آپ کے پاس سب لوگ اپنی امانتیں رکھتے۔ اور یہ امانتیں اس وقت تک آپ کے پاس تھیں جب تک آپ مکہ میں تھے اور آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کے ابن عم حضرت علی (رض) نے لوگوں تک پہنچائیں۔ قرآن مجید ان لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ حضرت محمد کا ماضی کھلی کتاب ہے ، تم آپ کی زندگی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو ، آخر وہ کیا بات ہے کہ جس کی وجہ سے تم ، آبے کو مجنون کہتے ہو ، آبے جس معیار کا کلام آپ پیش کر رہے ہیں کیا یہ مجنونوں اور پاگلوں کا کام ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ۔ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ، وہ ایک خبردار کرنے والا ہے جو صاف صاف متنبہ کر رہا ہے آپ کی عقل میں کوئی خلل نہیں ہے وہ تو واضح واضح بات کرنے والا ہے۔ آپ کا کلام مجنون کے کلام سے بالکل مختلف ہے۔ اور آپ کے حالات زندگی مجنونوں کے حالات زندگی سے مختلف ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ) (بس وہ تو واضح طور پر ڈرانے والا ہے) حق کی دعوت دیتا ہے اور آخرت کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ باتیں مشرکوں کو نا گوار ہیں حق کو مانتے نہیں اور داعی حق کو دیوانہ کہتے ہیں یہ ان کی اپنی دیوانگی ہے۔ داعی حق دیوانہ نہیں ہے۔ اس کے بعد فرمایا : (اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) (کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں غور نہیں کیا) (وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ ) (اور آسمان و زمین کے علاوہ دوسری چیزیں جو پیدا فرمائی ہیں ان میں غور نہیں کیا) (وَّ اَنْ عَسآی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ ) (اور کیا انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ ممکن ہے ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو) اگر زمین کے بارے میں غور کرتے اور اللہ کی بادشاہت کے مظاہرے دیکھتے اور دوسری مصنوعات و مخلوقات میں تدبر اور تفکر کرتے تو سمجھ لیتے کہ ان چیزوں کا خالق ومالک وحدہٗ لا شریک ہے حکیم ہے اور مدبر اور اگر یہ غور کرتے کہ ممکن ہے ہماری موت کا وقت قریب ہو تو موت کے بعد کے حالات کے لیے فکر مند ہوتے اور مابعد الموت کی زندگی کے لیے عمل کرتے لیکن بےفکری نے انہیں توحید کے ماننے سے غافل رکھا نہ اقراری ہوئے اور نہ اس کے لیے فکر مند ہوئے۔ آخر میں فرمایا : (فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ) ان کو قرآن صاف صاف باتیں بتاتا ہے حق کا اعلان کرتا ہے اس کی دعوت میں کوئی پوشیدگی نہیں ہے اس کی فصاحت و بلاغت مسلم ہے اس سب کے باو جود جو لوگ اسے نہیں مانتے آگے انہیں کیا انتظار ہے۔ اب اس کے بعد کون سی ایسی بات ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے۔ اگر ماننا چاہتے تو ہٹ دھرمی نہ کرتے اور اب تک مان گئے ہوتے، چونکہ ماننے کا ارادہ نہیں ہے اس لیے برابر حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ پھر فرمایا (مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ ) (جسے اللہ گمراہ کرے سو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں) (وَ یَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ) (اور اللہ نے انہیں چھوڑ رکھا ہے کہ وہ اپنے گمراہی میں بھٹک رہے ہیں) گمراہی میں پڑے ہیں اگر اسی پر مریں گے تو دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

181: یہ منکرین کے لیے زجر ہے۔ “ اَ وَ لَمْ یَنْظُرُوْا الخ ” یہ زمین و آسمان کی کتاب عبرت کے صفحات ان کے سامنے کھلے ہیں کیا وہ ان میں غور نہیں کرتے۔ یہ تکوینی دلائل اس قدر واضح ہیں کہ ان کو دیکھ کر لامحالہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یقین ہوجاتا ہے اور کیا نہوں نے کبھی اس میں غور نہیں کیا کہ کہیں ان کی اجل موت یا اجل عذاب قریب آچکی ہو۔ اگر اب وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو اس کے بعد کس چیز پر ایمان لائیں گے۔ جو لوگ قرآن جیسی سچی اور صدق محض کتاب پر ایمان نہیں لاتے جو ان کی نجات و فلاح کی ضامن ہے۔ اصل میں ان کی فطرتیں مسخ اور ان کے سوچنے سمجھنے کی قوتیں باطل ہوچکی ہیں۔ “ اذا الم یؤمنوا بھذا الحدیث ھو الصدق المحض و فیه نجاتھم و خلاصھم فکیف یصدقون بحدیث غیرہ والمعنی انه لیس من طباعھم التصدیق بما فیه خلاصھم ” (بحر ج 4 ص 433) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

184 کیا ان منکروں نے اتنی بات پر غور نہیں کیا کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قسم کا ذرا سا جنون اور دیوانگی نہیں ہے وہ تو صرف ایک صاف اور واضح طور پر ڈرانے والا ہے۔ یعنی اتنی بات پر تو ضرور غور کرنا چاہئے کہ یہ پیغمبر کسی قسم کی دیوانگی میں مبتلا نہیں ہے بلکہ محض ایک ڈرانے والا ہے تم جو اس کو جنون بتاتے ہو یہ الزام غلط ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رفیق فرمایا پیغمبر کو ہمیشہ ان کے پاس ہے اور وہ اس کے حال سے واقف ہیں۔ 12