Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 188

سورة الأعراف

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚ ۖ ۛ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚ ۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪  13

Say, "I hold not for myself [the power of] benefit or harm, except what Allah has willed. And if I knew the unseen, I could have acquired much wealth, and no harm would have touched me. I am not except a warner and a bringer of good tidings to a people who believe."

آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messenger does not know the Unseen, and He cannot bring Benefit or Harm even to Himself Allah قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ ... Say : "I possess no power over benefit or harm to myself except as Allah wills. Allah commanded His Prophet to entrust all matters to Him and to inform, about himself, that he does not know the unseen future, but he knows of it only what Allah informs him. Allah said in another Ayah, عَـلِمُ الْغَيْبِ فَلَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً (He Alone is) the All-Knower of the Ghayb (Unseen), and He reveals to none His Ghayb. (72:26) ... وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ... If I had the knowledge of the Ghayb (Unseen), I should have secured for myself an abundance of wealth. Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said that, refers to money. In another narration, Ibn Abbas commented, "I would have knowledge of how much profit I would make with what I buy, and I would always sell what I would make profit from, وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ("and no evil should have touched me)." and poverty would never touch me." Ibn Jarir said, "And others said, `This means that if I know the Unseen then I would prepare for the years of famine during the prosperous years, and in the time of high cost, I would have prepared for it."' Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam also commented on this Ayah; وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ (and no evil should have touched me), "I would have avoided and saved myself from any type of harm before it comes." The Prophet then stated that; ... إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ "I am but a warner, and a bringer of glad tidings unto people who believe." Allah tells that the Prophet is a warner and bearer of good news. He warns against the torment and brings good news of Paradise for the believers, فَإِنَّمَا يَسَّرْنَـهُ بِلَسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُّدّاً So We have made this (the Qur'an) easy on your tongue, only that you may give glad tidings to the pious, and warn with it the most quarrelsome of people. (19:97)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد الہ کریں اور صاف کہدیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورہ جن میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور کے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنالیتے ۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ہے کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ۔ ارزانی کے وقت گرانیے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا 97؀ ) 19-مريم:97 ) ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

188۔ 1 یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم غیب نہیں۔ عالم غیب صرف اللہ کی ذات ہے، لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب باور کراتے ہیں۔ حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، آپ کا چہرہ بھی زخمی ہوا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ قوم کیسے فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کے سر کو زخمی کردیا، کتب حدیث میں یہ واقعات بھی اور ذیل کے واقعات بھی درج ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگی تو پورا ایک مہینہ مضطرب اور نہایت پریشان رہے۔ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملادیا، جسے آپ نے تناول فرمایا اور صحابہ نے بھی، حتٰی کہ بعض صحابہ تو کھانے کے زہر سے ہلاک ہی ہوگئے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمر بھر اس زہر کے اثرات محسوس فرماتے رہے۔ یہ اور اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے واضح ہے کہ آپ کو عدم علم کی وجہ سے یہ تکلیف پہنچی، نقصان اٹھانا پڑا، جس سے قرآن کی بیان کردہ حقیقت کا اثبات ہوتا ہے ' اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی مضرت نہ پہنچتی '

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٨] علم غیب جاننے کے فائدے & غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم غیب جاننے کے دو فائدے بتلائے ہیں۔ ایک یہ کہ علم غیب جاننے والا اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرسکتا ہے مثلاً ایک عام مثال لیجئے اگر کسی کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو کہ فلاں وقت فلاں چیز کا بھاؤ اس حد تک چڑھ جائے گا تو وہ آسانی سے بہت نفع حاصل کرسکتا اور بہت سا مال و دولت کما سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایسے شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے کہ وہ بروقت یا وقت سے پہلے اس کا علاج سوچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا تو تمہارا یا دوسروں کے نفع و نقصان کا کیسے مختار ہوسکتا ہوں، اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مجھے اتنا بھی علم غیب حاصل نہیں کہ اپنا ہی نفع و نقصان سوچ سکوں تو قیامت کے واقع ہونے کے متعلق آپ کو کیا بتاسکتا ہوں ؟۔ غیب کی خبریں بتلانے والے :۔ اب اسی معیار پر ان لوگوں کو آپ پرکھ لیجئے جو ستاروں کی چالوں سے، ہاتھ کی لکیروں سے، مختلف طریقوں سے فال لینے سے یا جفرور مل کے علم سے یا اپنے کشف سے علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کی کیا حقیقت ہے۔ مثلاً ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر قسمت کی انگوٹھیاں بیچتا اور مختلف طرح سے لوگوں کو ان کی قسمت کے احوال سے مطلع کرتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کی یہ حالت زار ہوسکتی تھی ؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا ؟ دور نبوی میں کاہن حضرات لوگوں کو غیب کی خبریں بتلایا کرتے اور اس غرض سے بڑے بڑے لوگ دور دور سے ان کے آستانوں پر آتے اور گراں قدر نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا && جو شخص غیب کی خبریں بتلانے والے کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ && (مسلم۔ کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ ورتیان الکھان بحوالہ کتاب التوحید باب ٢٦ ماجاء فی الکھان ونحوھم) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا && جو کوئی کسی کاہن کے پاس جا کر دریافت کرے پھر اسے سچا سمجھے تو اس نے اس سے اظہار براءت کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے && (ابو داؤد۔ کتاب الطب باب فی الکاھن۔ باب الکھانۃ والتطیر) ان احادیث سے از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ غیب کی خبریں بتلانے والا خود کافر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جو کچھ ہونا ہے ہو رہا ہے، مجھ میں ذاتی طور پر یہ بھی قدرت و اختیار نہیں کہ میں اپنی جان سے کسی نقصان یا تکلیف کو روک سکوں، یا کچھ نفع حاصل کرسکوں۔ تو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ اختیار نہیں تو پھر وہ کون ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار عطا فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٣) اور یونس (١٠٦، ١٠٧) بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لیے واقعی اختیار نہیں رکھتے، مگر دوسرے سب لوگوں کے لیے نفع و ضرر کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے لیے دیکھیے سورة جن (٢٠ تا ٢٢) ۔ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ : یعنی نہ میں غیب دان ہی ہوں، اگر ایسا ہوتا تو کتنے ہی فائدے ہیں جنھیں میں پیشگی سمیٹ لیتا اور کتنے ہی نقصانات ہیں جن سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی بنا پر میں بچ جاتا۔ یہاں لفظ ” لو “ (اگر) سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود افضل المرسلین ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے تھے، کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔ دیکھیے سورة نمل (٦٥) اس کے باوجود بعض نادان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب باور کرواتے ہیں، حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کا چہرہ زخمی ہوا، دانت مبارک بھی شہید ہوا، چہرے میں خود کی کڑیاں چبھ گئیں، ہونٹ پھٹ گیا، گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے تو کتنے دن صاحب فراش رہے۔ عائشہ (رض) پر بہتان لگا تو پورا ایک مہینا آپ پریشان رہے، ایک یہودی عورت نے کھانے میں زہر ملا دیا، جسے کھانے سے آپ کے بعض صحابہ شہید بھی ہوگئے، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زہر کا اثر آخر تک محسوس کرتے رہے۔ یہ سب واقعات شاہد ہیں کہ ” اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ “ اس مضمون کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل (رح) اور تلاش حق از ارشاد اللہ مان صاحب کا مطالعہ فرمائیں۔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو جو اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے، سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں اور اس بات میں کچھ ان کی بڑائی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عالم میں تصرف کی قدرت دے دی ہو کہ موت و حیات یا نفع و نقصان ان کے اختیار میں ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیب دانی دے دی ہو کہ جس کے احوال جب چاہیں معلوم کرلیں۔ اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تمام عالم کے سردار ہیں، اپنی جان کے نفع و نقصان کا اختیار نہ ہو، نہ غیب کی بات معلوم ہو تو کسی اور نبی یا ولی یا بزرگ یا فقیر یا جن یا فرشتے کو کیا قدرت ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچائے، یا غیب کی کوئی بات بتائے، البتہ وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ آپ کو جو بات بتادیتا وہ آپ کو معلوم ہوجاتی اور آپ لوگوں کو اس کی خبر دے دیتے۔ (وحیدی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Verse 188 clears away a common misbelief of the people regarding the prophets of Allah. They thought that the prophets must possess the knowledge of each and everything in the universe, including the knowledge of the unseen future and unknown past. Similarly, they thought that the prophets must possess the power of bringing benefit or harm to any one out of their own will. The verse made it clear that the all-encompassing knowledge is an exclusive attribute of Allah which cannot be ascribed to any created being. Ascribing these exclusive attributes to anyone other than Allah is the greatest transgression and is tantamount to associating partners with Allah. The very purpose of the revelation of the Holy Qur&an and the advent of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been to eliminate all the traces of plurality of god and to establish the purest unity of Allah (Tauhid). The Holy Prophet has been asked to declare that, not to speak of others, even he was unable to harm or benefit himself and that he did not possess the knowledge of the unseen. Had he possessed such knowledge, he would have stored all the good for himself and would have saved himself from every possible harm. There are evident instances in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) could not achieve his objectives inspite of all his effort, and in many other instances, he could not save himself from the damages and harm that reached him. The incident of the treaty of Hudaibiyah is an evident example when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his companions travelled all the way to Makkah in order to perform the ` Umrah but were stopped by the unbelievers of Makkah. Despite all their desire and effort, they had to go back to Madinah without performing ` Umrah. similarly, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was wounded in the battle of Uhud and the Muslims faced temporary defeat. Perhaps, such events were allowed to happen, so that it may be demonstrated in practical terms that the Prophets, with due regards to their being closest to Allah and being the best of all the human beings, did not possess divine power and encompassing knowledge. They were human like other human beings. The Christians fell prey to the same error. They ascribed the divine attributes of Allah to their Prophet and went astray. The Prophets, however, are invested by Allah with as much knowl¬edge and power as no other human being has ever acquired. They Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was certainly favoured with the degree of knowl¬edge which surpassed the knowledge of all other prophets. He informed the Muslims of many things which were to happen in future. All his foretellings were seen to happen exactly as he had foretold. We can say that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was given the knowledge of a number of unseen things, but in Qur&anic terminology this is not termed as (the knowledge of the unseen). Therefore, on the basis of this we are not allowed to call the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَالِمُ الغیب (the knower of the unseen), as knower of the unseen is none other than Allah. The last sentence of the verse said, إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ‌ وَبَشِيرٌ‌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ I am but a warner and a harbinger of good for people who believe.|" That is, he has been assigned the duty of warning the evil doers against the punishment of Allah and give the good tidings of great reward by Allah to those who are righteous.

خلاصہ تفسیر : آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے ( بھی چہ جائے کہ دوسرے کے لئے) کسی نفع ( تکوینی کے حاصل کرنے) کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر ( تکوینی کے دفع کرنے) کا ( اختیار رکھتا ہوں) مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا ہو ( کہ مجھ کو اختیار دے دیں اور جس امر میں اختیار نہیں دیا اس میں بعض اوقات منافع فوت ہوجاتے ہیں اور مضار واقع ہوجاتے ہیں ایک مقدمہ تو یہ ہوا) اور ( دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ) اگر میں غیب کی باتیں ( امور اختیار کے متعلق) جانتا ہوتا تو میں ( اپنے لئے) بہت سے منافع حاصل کرلیا کرتا اور کوئی مضرت ہی مجھ پر واقع نہ ہوتی ( کیونکہ علم غیب کے سبب معلوم ہوجاتا کہ فلاں امر میرے لئے یقینا نافع ہوگا اس کو اختیار کرلیا کرتا اور فلاں امر میرے لئے یقینا مضر ہوگا اس سے احتراز کرتا اور اب چونکہ علم غیب نہیں اس لئے بعض اوقات نافع کا علم نہیں ہوتا کہ اس کو اختیار کروں اسی طرح مضر کا علم نہیں ہوتا کہ اس سے بچوں بلکہ گاہے بالعکس نافع کو مضر اور مضر کو نافع سمجھ لیا جاتا ہے، حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ علم غیب کے لئے نفع و ضرر کا مالک ہونا لازم تھا، یہ مقدمہ ذکر میں موخر ہے اور لازم منتفی ہے یہ مقدمہ ذکر میں مقدم ہے پس ملزوم یعنی علم غیب منتفی ہے اور یہ مطلوب ہے، غرض میں ایسے امور کا علم نہیں رکھتا) میں تو محض ( احکام شرعیہ بتلا کر ثواب کی) بشارت دینے والا اور ( عذاب سے) ڈرانے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ( خلاصہ یہ کہ نبوت کا اصلی مقصود امور تکوینیہ کا احاطہ نہیں اس لئے ان امور کا علم جن میں تعیین قیامت بھی داخل ہے نبی کو ملنا ضروری نہیں البتہ نبوت کا اصل مقصود امور تشریعیہ کا علم وافی ہے سو وہ مجھ کو حاصل ہے) وہ اللہ ایسا ( قادر اور منعم) ہے جس نے تم کو ایک تن واحد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا ( مراد حوا جسکی کیفیت شروع تفسیر سورة نساء میں گزر چکی) تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے ( پس جب وہ خالق بھی ہے اور محسن بھی تو عبادت اسی کا حق ہے) پھر ( اگے ان کی والاد بڑھی اور ان میں بھی میاں بی بی ہوئے لیکن ان میں بعض کی یہ حالت ہوئی ہے کہ) جب میاں نے بی بی سے قربت کی تو اس کو حمل رہ گیا ( جو اول اول) ہلکا سا ( رہا) سو وہ اس کو ( پیٹ میں) لئے ہوئے ( بےتکلف) چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ ( حاملہ اس حمل کے بڑھ جانے سے) بوجھل ہوگئی ( اور دونوں میاں بی بی کو یقین ہوگیا کہ حمل ہے) تو ( اس وقت ان کو طرح طرح کے احتمالات و توہمات ہونے لگے جسیا کہ بعضے حمل میں خطرات پیش آتے ہیں اس لئے) دونوں میاں بی بی اللہ سے جو کہ ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر آپ نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزرای کریں گے ( جیسا عام عادت ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے بڑے بڑے عہد و پیمان ہوا کرتے ہیں) سو جب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے ( مختلف طور پر کسی نے اعتقاد سے کہ یہ اولاد فلاں زندہ یا مردہ نے دی ہے، کسی نے عمل سے کہ اس کے نام کی نذر و نیاز کرنے لگے یا بچہ کو لے جا کر اس کے سامنے اس کا ماتھا ٹیک دیا، یا قول سے کہ اس کی بندگی پر نام رکھ دیا جیسے عبد شمس یا بندہ علی وغیرہما، یعنی یہ حق تو تھا خدا کا جو کہ منعم اور خالق اور قادر و محسن ہے اور صرف کیا اس کو دوسرے معبودوں کے لئے) سو اللہ تعالیٰ پاک ہے ان کے شرک سے ( یہاں تک تو حق تعالیٰ کی صفات مذکور تھیں جو مقتضی ہیں اس کے استحقاق معبودیت کو، آگے آلہہ باطلہ کے نقائص کا ذکر ہے جو مقتضی ہیں ان کے عدم استحقاق معبودیت کو پس فرماتے ہیں کہ) کیا ( اللہ تعالیٰ کے ساتھ) ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بنا نہ سکیں اور ( بلکہ) وہ خود ہی بنائے جاتے ہوں ( چناچہ ظاہر ہے کہ بت پرست خود ان کو تراشتے تھے) اور ( کسی چیز کا بنانا تو بڑی بات ہے) وہ ( تو ایسے عاجز ہیں کہ اس سے آسان کام بھی نہیں کرسکتے مثلا) ان کو کسی قسم کی مدد ( بھی) نہیں دے سکتے، اور (اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ) وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کرسکتے (اگر کوئی حادثہ ان کو پیش آجائے مثلا کوئی شخص ان کو توڑنے پھوڑنے ہی لگے) اور ( اس سے بھی بڑھ کر سنو کہ) اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں ( اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ تم ان کو پکارو کہ وہ تم کو کوئی بات بتلائیں تو تمہارا کہنا نہ کریں یعنی نہ بتلائیں اور دوسرے اس سے زیادہ یہ کہ تم ان کو پکارو کہ آؤ ہم تم کو کچھ بتلائیں تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں یعنی تمہاری بتلائی ہوئی بات پر عمل نہ کرسکیں بہرحال) تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو ( وہ جب نہیں سنتے) اور یا تم خاموش رہو ( جب تو نہ سننا ظاہر ہی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ جو کام سب سے سہل تر ہے کہ کوئی بات بتلانے کے لئے پکارے تو سن لینا وہ اسی سے عاجز ہیں تو جو اس سے مشکل ہے کہ اپنی حفاظت کریں اور پھر جو اس سے مشکل ہے کہ دوسروں کی امداد کرنا اور پھر ان سب سے جو دشوار تر ہے کہ کسی شئے کو پیدا کرنا ان سے تو بدرجہ اولی زیادہ تر عاجز ہوں گے پھر ایسے عاجز محتاج کب معبودیت کے لائق ہو سکتے ہیں) معارف و مسائل : پہلی آیت میں مشرکین اور عوام کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہے جو ان لوگوں نے انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں قائم کر رکھا تھا کہ وہ غیب دان ہوتے ہیں، ان کا علم اللہ تعالیٰ کی طرح تمام کائنات کے ذرہ ذرہ پر حاوی ہوتا ہے، نیز یہ کہ وہ ہر نفع اور نقصان کے مالک ہوتے ہیں جس کو جو چاہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اور اسی عقیدہ کے سبب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کی معین تاریخ بتلانے کا مطالبہ کرتے تھے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں گزر چکا ہے۔ اس آیت نے ان کے اس مشرکانہ عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے بتلادیا کہ علم غیب اور تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ جل شانہ کی مخصوص صفت ہے اس میں کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی و رسول شرک اور ظلم عظیم ہے، اسی طرح ہر نفع نقصان کا مالک ہونا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت خاص ہے اس میں کسی کو شریک ٹھہرانا بھی شرک ہے، جس کے مٹانے ہی کے لئے قرآن نازل ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے۔ قرآن کریم نے بیشمار آیات میں بار بار اس کو واضح فرما دیا ہے کہ علم غیب اور علم محیط جس سے کوئی ذرہ چھپا نہ رہے یہ صرف اللہ جل شانہ کی صفت خاص ہے اسی طرح قدرت مطلقہ کہ ہر نفع نقصان قبضہ میں ہو یہ بھی صفت خاص ہے حق تعالیٰ شانہ کی، ان صفتوں میں غیر اللہ کو شریک قرار دینا شرک ہے۔ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اس کا اعلان کریں کہ میں اپنے نفس کے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں، دوسروں کے نفع نقصان کا تو کیا ذکر ہے۔ اسی طرح یہ بھی اعلان کردیں کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں کہ ہر چیز کا علم ہونا میرے لئے ضروری ہو، اور اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا، اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتا اور کبھی کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا، حالانکہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت سے کام ایسے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حاصل کرنا چاہا مگر حاصل نہیں ہوئے، اور بہت سی تکلیفیں اور مضرتیں ایسی ہیں جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچنے کا ارادہ کیا مگر وہ مضرت و تکلیف پہنچ گئی، غزوہ حدیبیہ کے موقع پر آپ صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرہ کا ارادہ کرکے حدود حرم تک پہنچ گئے مگر حرم میں داخل اور عمرہ کی ادائیگی اس وقت نہ ہوسکی سب کو احرام کھول کر واپس ہو ناپڑا۔ اسی طرح غزوہ احد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخم پہنچا اور مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں معروف و مشہور ہیں۔ اور شاید ایسے واقعات کے ظاہر کرنے کا مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں پر عملا یہ بات واضح کردی جائے کہ انبیاء (علیہم السلام) اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول اور افضل خلائق ہیں مگر پھر بھی وہ خدائی علم وقدرت کے مالک نہیں تاکہ لوگ اس غلط فہمی کے شکار نہ ہوجائیں جس میں عیسائی اور نصرانی مبتلا ہوگئے کہ اپنے رسول کو خدائی صفات کا مالک سمجھ بیٹھے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔ اس آیت نے بھی یہ واضح کردیا کہ انبیاء (علیہم السلام) نہ قادر مطلق ہوتے ہیں نہ عالم الغیب بلکہ ان کو علم وقدرت کا اتنا ہی حصہ حاصل ہوتا ہے جتنا من جانب اللہ ان کو دے دیا جائے۔ ہاں اس میں شک و شبہ نہیں کہ جو حصہ علم کا ان کو عطا ہوتا ہے وہ ساری مخلوقات سے بڑھا ہوا ہوتا ہے خصوصا ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا گیا تھا، یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جتنا علم دیا گیا تھا وہ سب اور اس سے بھی زیادہ آپ کو عطا فرمایا گیا تھا، اور اسی عطا شدہ علم کے مطابق آپ نے ہزاروں غیب کی باتوں کی خبریں دیں جن کی سچائی کا ہر عام و خاص نے مشاہدہ کیا، اس کی وجہ سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہزاروں لاکھوں غیب کی چیزوں کا علم عطا کیا گیا تھا مگر اس کو اصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہہ سکتے اور اس کی وجہ سے رسول کو عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی اعلان کردیں کہ میرا فریضہ منصبی صرف یہ ہے کہ میں بدکاروں کو عذاب سے ڈراؤں اور نیک لوگوں کو ثواب عظیم کی خوشخبری سناؤں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ۝ ٠ ۚ ۖ ۛ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ۝ ٠ ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ١٨٨ ۧ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ میں نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مگر جس قدر اللہ تعالیٰ مجھے نفع ونقصان پہنچانا چاہے۔ اور اگر مجھے اس بات کا پتہ ہوتا کہ تمہارے اوپر عذاب کب نازل ہوگا تو اس کے شکریہ میں بہت سافائدہ حاصل کرلیتا اور تمہاری وجہ سے مجھے کسی قسم کا غم و پریشانی نہ ہوتی۔ اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اگر مجھے غیب کی باتیں معلوم ہوتیں کہ میں کب انتقال کروں گا تو بہت ہی زیادہ نیکیاں کرلیتا اور مجھے کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہوتی، یا یہ کہ مجھے اگر یہ معلوم ہوتا کہ قحط کب ہوگا اور اشیا کی گرانی کس وقت ہوگی تو میں بہت سی نعمتوں کو جمع کرلیتا اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچتی، میں محض جنت کی بشارت دینے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٨ (قُلْ لآَّ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلاَ ضَرًّا الاَّ مَا شَآء اللّٰہُ ط) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں بتائیں کہ میرے پاس علم غیب نہیں ہے۔ جیسا کہ سورة الانعام کی آیت ٥٠ میں فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ کے خزانے میرے قبضۂ قدرت میں ہیں ‘ نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ (وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِج وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ ج) اور اگر مجھے علم غیب حاصل ہوتا تو میں بہت سا خیر جمع کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ آتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

145. The time of the advent of the Last Day is known to God alone Who knows the Unseen which, in fact, is not known even to the Prophet (peace be on him). Being human, he is not aware what the morrow has in store for him and his family. Had his knowledge encompassed everything - even things that lie beyond the ken of sense-perception and events that lie hidden in the future - he would have accumulated immense benefit and would have been able to avoid a great deal of loss owing to such foreknowledge. That being the case, it is sheer naivety to ask the Prophet about the actual time for the advent of the Last Day.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :145 مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو ، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے ۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

96: یعنی اگر مجھے غیب کی ساری باتیں معلوم ہوجایا کرتیں تو میں دنیا کے سارے فائدے اکھٹے کرلیتا اور کبھی مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ؛ کیونکہ ہر کام کا انجام مجھے پہلے سے معلوم ہوجاتا، حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مجھے غیب کی ساری باتوں کا علم نہیں دیا گیا، البتہ جو باتیں وحی کے ذریعے بتادیتے ہیں ان کا مجھے بھی علم ہوجاتا ہے، یہ ان کافروں کی بھی تردید ہے جو پیغمبر کیلئے ضروری سمجھتے تھے کہ اسے خدائی کے اختیارات حاصل ہوں اور ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو اپنے پیغمبروں کی تعظیم میں حد سے نکل کر انہیں خدائی کا درجہ دے دیتے ہیں، اور جس شرک کو مٹانے کے لئے انبیا کرام علیہم السلام تشریف لائے تھے ان کی تعظیم کے نام پر اسی شرک کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

د ١٨٨۔ اوپر کی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے اللہ پاک نے یہ فرمایا تھا کہ لوگ تم سے قیامت کا حال پوچھتے ہیں کہ کب ہے تو تم ان سے یہی کہہ دو کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے خدا ہی جانے کب ہے مگر ایک نہ ایک دن ضرور آنے والی ہے اسی کی تاکید اس آیت فرمائی کہ تم یہ بھی کہہ دو میں تو یہاں تک بےاختیار ہوں کہ مجھے خود اپنی جان کے نفع ونقصان کا کچھ اختیار نہیں ہے پھر میں غیب کی بات کیونکر بتلا سکتا ہوں غیب کی بات فقط اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر میں غیب کی باتیں جانتا تو ہر طرح کی بہتری حاصل کرلیتا کبھی برائی پاس بھی نہیں پھٹکتی مال و دولت دنیا ہی لازوال پیدا کرلیتا کوئی چیز خریدتا تو ویسی خریدتا جس میں معقول نفع ہوتا قحط میں ویسا ہی بندوبست کر یتا لڑائیوں میں ہمیشہ دشمنوں پر غالب رہتا غرضیکہ ہر وقت شر سے بچتا رہتا مجھے تو بس اتنا ہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے بتلا دیا ہے قیامت کب ہوگی مجھے اس کا علم نہیں دیا گیا ہے ہاں قیامت کے علامات مجھے بتلائے گئے ہیں اور مجھے تو اللہ نے صرف اس کام کے لئے بھیجا ہے کہ منکروں کو اس کے عذاب سے ڈراؤں اور مومنوں کو اس کی رحمت کی بشارت سنادوں بدر کی لڑائی کے قصہ میں صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) اور انس بن مالک (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں جو لوگ اس لڑائی میں مارے گئے ان کا حال پہلے سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو بتلادیا ١ ؎ تھا اسی طرح احد کی لڑائی کے قصہ میں صحیح بخاری کے حوالہ سے براء بن عازب (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تیر اندازوں کی بےاحتیاطی سے مسلمانوں کو جو شکست ہوئی اس کا حال پہلے سے کسی کو کچھ معلوم نہ ٢ ؎ تھا۔ ان حدیثوں کو قیامت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان عذاب آلہی اور قیامت کی جلدی کرنے والے لوگوں سے کہہ دو کہ دنیا کی بھلائی برائی کے حال کو پہلے سے جان لینا ایک علم غیب ہے جس کا حال سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں ہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جس کا چاہتا ہے اس کو بذریعہ وحی کے غیب کی باتوں میں سے کچھ باتیں بتلا دیتا ہے مثلا بدر کی لڑائی میں جو نافرمان لوگ مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہونے والے تھے اس کا حال پہلے سے اس نے بذریعہ وحی کے اپنے رسول کو بتلا دیا اور احد کی لڑائی میں جو مسلمان مشرکوں کے ہاتھ سے شہید ہونے والے تھے ان کا حال پہلے سے نہیں بتلایا :۔ ١ ؎ صحیح مسلم ج ٣ ص ١٠٢ باب غزوۃ بدر۔ ٢ ؎ صحیح بخاری دج ٢٣ ص ٥٧ باب غزوۃ احد الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:188) لا استکثرت۔ میں ضرور بہت جمع کرلیتا ۔ استکثار (استفعال) سے جس کے معنی کسی چیز کو کثیر سمجھنے یا کسی کام کو بہت زیادہ کرنے کے ہیں۔ یہاں اگر غیب سے مراد وقت موت لیا جاوے تو لاستکثرت کا مطلب ہوگا کہ میں بہت نیکیاں جمع کرلیتا ۔ عمل صالح کرکے اور اعمال سوء سے اجتناب کرکے۔ اور اگر عام معنی لئے جاویں تو مطلب ہوگا کہ نقصان سے بچتے ہوئے اور نفع کو اختیار کرتے ہوئے میں بہت کچھ جمع کرلیتا۔ اور ایذا وغیرہ سے بچ جاتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی مشیئت الہیٰ سے جو کچھ ہونا ہے ہو رہا ہے۔ سمجھ میں ذاتی طو پر اتنا بھی اختیار وقدرت نہیں کہ میں اپنی جان سے کسی مضرت کو روک سکوں یا کچھ حاصل کرسکوں ( کذافی السلفیہ)4 یعنی نہ میں غیب دان ہی ہوں اگر ایسا ہوتا تو کتنے ہی فائدے ہیں جن پیشگی علم کی وجہ سے میں سمیٹ لیتا اور کتنے ہی نقصانات ہیں جن سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی بنا پر میں بچ جاتا۔ یہاں لفظ لو۔ سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود افصل المرسلین ہونے کی علم غیب نہیں رکھتے تھے، خواہ واقعہ افک ہمارے سامنے ہے کہ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتنے دنوں تک مضطرب اور پریشان رہے آخر کا قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی برات نازل فرمائی تو آپ حقیقت حال سے آگاہ ہوئے۔ اس ایک واقعہ سے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل اور غیب دان کہنے والے خود ہی فیٖصلہ کرسکتے ہیں،5 اس آیت سے معلوم ہوتا کہ انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اولیا کو جو اللہ تعالیٰ سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے۔ سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ بتاتے ہیں اور اس بات میں کچھ ان کی بڑائی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عالم میں تصرف کی قدرت دے دی ہو کہ موت وحیات ان کے اختیار میں ہو یا یہ کہ اللہ صاحب نے ان کو غیب دانی دے دی ہو کہ جس کے احوال جب چاہیں معلوم کرلیں ( سلفیہ) اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی گئی جب آنحضرت کو جو تمام عالم کے سردار ہیں اپنی جان کے نفع و نقصان کا اختیار نہ ہو نہ غیب کی بات معلوم ہو تو کسی اور نبی یا ولی یا بزرگ یا فقیر یا جن یا فرشتے کو کیا قدرت ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچائے یا کوئی غیب کی بات بتائے۔ البتہ اللہ تعال جو غیب کی بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنا دیتا وہ آپ کو معلوم ہوجاتی اور آپ لوگوں کو اس کی خبردے دیتے ( از وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا گیا کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اب اس کا مزید جواب دیا جار ہا ہے۔ باطل فرقوں کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذمہ وہ بات لگاتے اور ان سے مافوق الفطرت کاموں کی توقع اور ایسے مطالبات کرتے رہے کہ جس کا انھوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ کبھی آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ ہم آپ پر تب ایمان لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردیں یا پھر آپ کے پاس کھجوروں کا ایسا باغ ہونا چاہیے جس میں نہریں جاری ہوں، یہ نہیں تو آپ اپنے دعویٰ کے مطابق آسمان ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا ڈالیں۔ اگر یہ کام نہیں کرسکتے تو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کو ہمارے سامنے لے آئیں تاکہ ہم ان سے ہم کلام ہونے کے ساتھ انھیں دیکھ لیں۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو آپ کا گھر سونے کا ہونا چاہیے۔ آخری بات انھوں نے یہ کہی کہ آپ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چڑھ جائیں لیکن یاد رکھنا ہم پھر بھی آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی لکھی لکھائی کتاب نہ لائیں جس کو ہم خود دیکھ کر پڑھ سکیں۔ ان بےہودہ سوالات کے جواب میں آپ کو صرف اتنا کہنے کا حکم ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میرا رب یہ کرنا چاہے تو اس کے پاس ایسا کرنے کا پورا اختیار اور طاقت ہے۔ کیونکہ وہ ہر کمزوری سے مبرا اور پاک ہے لیکن مجھے تو میرے رب نے صرف ایک انسان اور رسول بنایا ہے۔ ” اور کہنے لگے : ہم آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ نہ جاری کردیں۔ یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہا دے۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔ یا آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے حتیٰ کہ آپ ہم پر کتاب اتار لائیں جس کو ہم پڑھ لیں کہیے : پاک ہے میرا رب ! میں تو محض ایک انسان ہوں پیغام پہنچانے والا۔ “ [ بنی اسرائیل : ٩٠ تا ٩٣] یعنی نہ میں نے کبھی ایسی باتوں کا وعدہ اور دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی یہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔ یہاں تک کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے اگر میں غیب جاننے والا ہوتا تو یقیناً اپنے لیے بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھے کبھی نقصان نہ پہنچتا۔ میرا دعویٰ صرف یہ ہے میں ایمان لانے والوں کے لیے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر عقیدۂ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا خواہ کوئی ولی، نبی اور فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اپنے یا دوسرے کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لیکن افسوس فرقہ واریت کی لہر میں بہہ کر بڑے بڑے علماء کھلم کھلا اپنے بزرگوں کے ایسے اقوال نقل کرتے ہیں جو واضح طور پر قرآن و سنت کے منافی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس مقام پر ایک عالم نے کچھ اقوال کے ذریعے اپنا کمزور عقیدہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات مقدسہ سے الوہیت کی نفی فرما رہے ہیں کہ میں خدا نہیں۔ کیونکہ خدا وہ ہے جس کی قدرت کامل اور اختیار مستقل ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ نہ کسی کام سے اسے کوئی روک سکتا ہے اور نہ اسے کسی کام پر مجبور کرسکتا ہے۔ اور مجھ میں یہ اختیار کامل اور قدرت مستقلہ نہیں پائی جاتی۔ میرے پاس جو کچھ ہے میرے رب کا عطیہ ہے اور میرا سارا اختیار اسی کا عنایت فرمودہ ہے۔ ” لَا اَمْلِکُ “ کے کلمات سے اپنے اختیار کامل کی نفی فرمائی اور ” اِلَّا مَا شَاء اللّٰہُ “ سے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ کوئی نادان یہ نہ سمجھے کہ حضور کو نفع و ضرر کا کچھ اختیار ہی نہیں۔ فرمایا مجھے اختیار ہے اور یہ اختیار اتنا ہی ہے جتنا میرے رب کریم نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کتنا عطا فرمایا ہے تو انسانی عقل کا کوئی پیمانہ اور کوئی اندازہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ کوئی بناوٹی حد قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس ایک آیت کریمہ میں ہی غور فرمائیے وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔”(اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا رب تجھے اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا۔ “ کیا لطف ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ساری توانائیوں اور قوتوں سے برأت کرتے ہوئے ہر بات اپنے خالق ومالک کی مرضی اور مشیت کے سپرد کردی اور اس بندہ نواز نے اپنی مشیت کو اپنے محبوب بندے کی رضاو خوشنودی پر منحصر کردیا۔ بتادیا تجھے دینے والا میں ہوں۔ خود تمہیں دوں گا اور اتنا دوں گا جتنا تو چاہے گا۔ اب اس عالی ظرف آقا کی وسعت ظرف کو ملاحظہ فرمائیے۔ جب (وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی) کا مژدہ پہنچا تو عرض کی اے کریم ! میں تو اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میری امت کا آخری فرد بھی جنت میں نہ پہنچ جائے۔ انصاف کردیا۔ کیا آتش جہنم سے بچا لینا دفع ضرر باذن اللہ نہیں۔ کیا جنت میں پہنچا دینا نفع رسانی باذن اللہ نہیں ؟ ہے اور یقیناً ہے۔ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے اور آپ کے بارے میں علم الغیب ثابت کرنے کے لیے عطائی علم کی اصطلاح کا سہارا لیا ہے یہ ایسا ہی کمزور سہارا ہے جس طرح مرزائی مرزا کو اصلی نبی نہیں کہتے بلکہ عوام الناس کو دھوکا دینے اور مرزا کی نبوت ثابت کرنے کے لیے ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا اس عقیدہ کی کوئی بنیاد نہیں ان کی دیکھا دیکھی ایک طبقہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب ثابت کرنے کے لیے عطائی علم کی اصطلاح اپنائی ہے۔ جس کا معنی ہے کہ آپ واقعی غیب نہیں جانتے تھے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اس کے لیے قرآن مجید کی واضح اور دو ٹوک آیات کو چھوڑ کر لوگوں کو مغالطہ دینے کے لیے ایک دو ایسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جو متشابہات میں سے ہیں۔ متشابہات آیات کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ان آیات کو قرآن مجید کی مرکزی آیات کے ساتھ ملا کر سمجھنا چاہیے لیکن جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہے اور وہ امت میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ ان آیات کی تفسیر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ (آل عمران، آیت : ٥) (عَنِ ابْنِ دَارَّۃَ مَوْلٰی عُثْمَانَ (رض) قَالَ إِنَّا لَبِالْبَقِیعِ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ إِذْ سَمِعْنَاہُ یَقُولُ أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِشَفَاعَۃِ مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَتَدَاکَّ النَّاسُ عَلَیْہِ فَقَالُوا إِیہٍ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ قَالَ یَقُول اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِکُلِّ عَبْدٍ مُسْلِمٍ لَقِیَکَ یُؤْمِنُ بِی وَلَایُشْرِکُ بِکَ )[ رواہ احمد ] ” ابن دارہ جو کہ حضرت عثمان (رض) کے غلام ہیں فرماتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بقیع میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا میں لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں قیامت کے دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس کے ساتھ سفارش کریں گے۔ ابن دارہ کہتے ہیں لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا بتائیے اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے انہوں نے کہا اے اللہ ہر مسلمان بندے کو بخش دے جو تجھے اس حال میں ملے کہ تجھ پر ایمان لاکر اس نے شرک نہ کیا ہو۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَہِیَ نَاءِلَۃٌ إِنْ شَاء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِی لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہپ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نبی کے لیے ایک ایسی دعا ہوتی ہے جو قبول کی جاتی ہے سارے انبیاء نے اپنی دعاؤں میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا کو آخرت کے لیے اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہے میری دعا ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأٰی رَبَّہٗ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُولُ لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُولُ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو بلاشبہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں “ اور جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے ہیں تو وہ بھی جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اللہ کے علاوہ کو غیب نہیں جانتا “۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتے۔ ٢۔ پیغمبر بھی عام لوگوں کی طرح بیمار ہوتے اور مالی نقصان اٹھاتے تھے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کی خوشخبری اور جہنم سے ڈرانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفع و نقصان کے مالک نہیں : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (الجن : ٢١ تا ٢٢) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ اپنے متعلق بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (الاعراف : ١٨٨) ٣۔ اگر مجھے کوئی اللہ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو اسے اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ (الانعام : ١٧) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (یونس : ٤٩) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (التحریم : ١٠) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ کے سامنے کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ (الممتحنۃ : ٤) ٧۔ کہہ دیجئے اگر اللہ عیسیٰ ابن مریم اور اس کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ (المائدۃ : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ فرما دیجیے کہ میں اپنے لیے کسی نفع و ضرر کا مالک نہیں ہوں اور نہ غیب جانتا ہوں اس آیت میں اول تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرما کر یہ ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں کو بتادیں کہ میں اپنے لیے ذرا بھی کسی نفع یا کسی ضرر کا مالک نہیں ہوں اللہ کی مشیت اور اس کی قضاء و قدر کے موافق ہی مجھے نفع و ضرر پہنچتا ہے۔ مجھے اپنے نفع اور ضرر کے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کرا دیا تاکہ لوگ آپ کو اللہ کا بندہ سمجھیں اور یہ بھی یقین کریں کہ آپ کو جو نفع و نقصان پہنچتا ہے وہ صرف اللہ کی مشیت سے پہنچتا ہے نفع اور نقصان کے بارے میں آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ بندوں کو اللہ تعالیٰ نے جو علم و فہم اور تدبیر، محنت اور کوشش کا اختیار دیا ہے جس کے ذریعہ کچھ فائدہ ہوجاتا ہے یا کسی ضرر سے بچ جاتے ہیں اس طرح کا اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی تھا ان تدابیر اور اسباب کے اختیار کرنے اور اعضاء وجوارح کو حرکت دینے سے جو کچھ نفع حاصل ہوجاتا ہے یا بعض مرتبہ کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو یہ سب اللہ کی مشیت کے تابع ہے خود مختار نہیں ہے لفظ (اِلَّا مَا شَآء اللّٰہُ ) کی یہ تفسیر اس صورت میں ہے جبکہ استثناء متصل ہو۔ قال فی الروح اَیْ الا وَقْتَ مَشِیَّتہٖ سُبْحَانَہٗ بِاَنْ یَّمَکِنَّنِی مِنْ ذٰلِکَ فَاِنَّنِیْْْ حَیْنَءِذٍ اَمْلِکُہ بِمَشِیئتِہٖ ۔ اور اگر استثناء منقطع لیا جائے تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے بس وہی ہوگا میرا اختیار کچھ بھی نہیں۔ (راجع روح المعانی ص ١٢٦ ج ٩) (وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ ) (یعنی آپ یہ بھی فرما دیں کہ اگر میں غیب کو جانتا ہوتا تو بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھے نا گوار چیز پیش نہ آتی) نفع یا ضرر پہنچنے سے پہلے ہی اگر علم ہوجائے کہ ان میں سے کوئی امر پیش آنے والا ہے تو پہلے ہی سے ایسی صورتیں اختیار کرلی جائیں کہ نفع زیادہ سے زیادہ ہو اور کثرت منافع کے موانع میں رکاوٹ ڈال دی جائے اور آنے والے ضرر کے دفعیہ کے لیے پوری کوشش کام میں لائی جائے لیکن حال یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیفیں پہنچ جاتی تھی جس کا پہلے سے علم نہ ہوتا تھا جس کے واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ (اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) (یعنی آپ یہ بھی فرما دیجیے کہ میں تو بس ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں) ۔ انذار وتبشیر کا کام امر شرعی ہے دنیا میں نفع و ضرر پہنچنے سے اس کا تعلق نہیں ہے اور تشریعی اوامرو نواہی اور تبلیغی احکام کا تعلق منصب نبوت سے ہے، جو شخص نبی اور رسول ہو اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے یہ کوئی شرعی یا تکوینی قانون نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے علم غیب کلی ثابت کرنے والوں کی تردید آیات بالا میں واضح طور پر تصریح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کا علم نہیں تھا اور قیامت کا علم بھی نہ تھا کہ کب آئے گی اور سورة انعام میں بھی اس کی تصریح گزر چکی ہے وہاں فرمایا (قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ) (آپ فرما دیجیے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کو جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں) اس میں شک نہیں کہ اللہ جل شانہٗ نے آپ کو علوم غیبیہ عطا فرمائے تھے اور آپ کو ساری مخلوق سے زیادہ علم عطا فرمایا لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام غیبوں کو جانتے تھے اور قیامت کب آئے گی اس کا بھی آپ کو علم تھا یہ دعویٰ باطل ہے اور قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ ملا علی قاری (رح) الموضوعات الکبیر میں حافظ جلال الدین سیوطی سے نقل کرتے ہیں۔ و قد جاھر بالکذب بعض من یدعی فی زماننا العلم و ھو متشبع بما لم یعط ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان یعلم متیٰ تقوم الساعۃ قیل لہ فقد قال فی حدیث جبرئیل ما المسؤل عنھا باعلم من السائل فحرفہ عن موضعہ و قال معناہ انا و انت تعلمھاو ھذا من اعظم الجھل و اقبح التحریف (الی ان قال) ثم قولہ، فی الحدیث ما المسؤل عنھا باعلم من السائل یعلم کل سائل و مسؤل عن الساعۃ ھذا شانھما و لکن ھؤلاء الغلاۃ عنھم ان علم رسول اللہ منطبق علی علم اللہ سواء بسواء فکل ما یعلمہ اللہ یعلم رسولہ واللہ تعالیٰ یقول : و ممن حولکم من الاعراب منافقون و من اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا نعلمھم نحن نعلمھم و ھذا فی براءۃ و ھی من اواخر ما نزل من القرآن ھذا و المنافقون جیرانہ فی المدینہ انتھی بحذف۔ ترجمہ : ہمارے زمانہ میں بعض ایسے لوگ جو عالم نہیں ہیں علم کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے ہیں انہوں نے برملا یہ جھوٹی بات کہی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کا وقت معلوم تھا ان سے کہا گیا کہ حدیث میں تو یوں ہے۔ ” ما المسؤل عنھا باعلم من السائل “۔ تو اس شخص نے اس کا معنی پلٹ دیا اور یہ مطلب بتادیا کہ میں اور تو دونوں قیامت کے وقت کو جانتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جہل ہے اور بد ترین تحریف ہے حدیث ما المسؤل عنھا باعلم من السائل ہر سائل اور ہر مسؤل کو شامل ہے قیامت کے بارے میں جو بھی کوئی سائل ہوگا یا جس سے سوال کیا جائے سب کے بارے میں یہی بات ہے کہ وہ قیامت کے آنے کا وقت نہیں جانتے لیکن یہ غلو کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم پوری طرح اللہ تعالیٰ کے علم پر منطبق ہے ان کے نزدیک ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس کا رسول بھی جانتا ہے ان لوگوں کی اس بات کی تردید سورة برأت کی آیت سے واضح طور پر ہو رہی ہے اور سورة برأت ان سورتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئیں وہ آیت یہ ہے۔ (وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ) یعنی تمہارے گردا گرد دیہاتیوں میں سے منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں سے وہ لوگ ہیں جو نفاق میں خوب زیادہ آگے بڑھے ہوئے ہیں آپ انہیں نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں حالانکہ وہ آپ کے پڑوسی تھے۔ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے۔ آیت کی اس واضح تصریح کے بعد پھر بھی یوں کہنا کہ رسول کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر ہے سراسر قرآن مجید کا انکار ہے۔ اسی لیے ملا علی قاری (رح) مذکورہ بالا عبارت کے بعد لکھتے ہیں : و من اعتقد تسویۃ علم اللہ و رسولہ یکفر اجماعاً کما لا یخفی یعنی جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم برابر ہے تو بالا جماع اسے کافر کہا جائے گا۔ آج کل ایک ایسی جماعت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر ہے صرف عطائی اور غیر عطائی کا فرق ہے یہ ان لوگوں کی گمراہی ہے۔ ملاعلی قاری (رح) الموضوعات الکبیر میں بعض ایسی آیات و احادیث درج کرنے کے بعد جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کلی کی نفی ہوتی ہے تحریر فرماتے ہیں : و لا ریب ان الحامل لھؤلاء علی ھذا الغلو اعتقادھم انہ یکفر عنھم سیئاتھم و یدخلھم الجنۃ و کلما غلو کانوا اقرب الیہ و اخص بہٖ فھم اعصی الناس لامرہ و اشلھم مخالفۃ السنتہ وھولاء فیھم شبہ ظاھر من النصاری غلو علی المسیح اعظم الغلو و خالفوا شرعہ و دینہ اعظم المخالفۃ و المقصود ان ھولاء یصدقون بالاحادیث المکذوبۃ الصریحۃ و یحرفون الاحادیث الصریحۃ واللہ ولی دینہ فیقیم من یقوم لہ بحق النصیحۃ۔ ترجمہ : اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کے اعتقاد میں جو غلو ہے اس کی وجہ سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ غلو ان کے گناہ کو معاف کرا دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرا دے گا اور جتنا بھی زیادہ غلو کریں گے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قریب تر ہونگے اور آپ کے مخصوصین میں شمار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ سب لوگوں سے بڑھ کر آپ کی نافرمانی کرنے والے ہیں اور آپ کی سنت کی مخالفت میں سب لوگوں سے زیادہ سخت ہیں اور ان لوگوں میں نصاریٰ سے مشابہت ہے جنہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں بہت زیادہ غلو کیا اور ان کے دین اور شریعت کے بارے میں بہت زیادہ مخالفت کی یہ لوگ صریح جھوٹی بنائی ہوئی حدیثوں کی تصدیق کرتے ہیں اور صحیح احادیث میں تحریف کرتے ہیں۔ اللہ اپنے دین کا ولی ہے وہ ایسے شخص کو مقرر فرماتا ہے جو خیر خواہی کے لیے قائم ہو۔ ا ھ بعض جاہل یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آیات و احادیث سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر چیز کا علم نہیں دیا گیا ہے لیکن وفات سے تھوڑی دیر پہلے ہر چیز کا علم دے دیا گیا تھا۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ نہ صرف یہ کہ بےدلیل ہے بلکہ احادیث شریفہ کی تصریحات کے خلاف ہے۔ حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں پانی پلانے کے لیے پہلے سے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا جو میرے پاس سے گزرے گا پی لے گا اور جو پی لے گا کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔ ضرور ایسا ہوگا کہ کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے پھر میرے اور ان کے درمیان آڑ لگا دی جائے گی میں کہوں گا کہ یہ میرے لوگ ہیں جواب میں کہا جائے گا کہ بلاشبہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نئی باتیں نکالی تھیں اس پر میں کہوں گا کہ دور ہوں دور ہوں جنہوں نے میرے بعد ادل بدل کردیا (اس ادل بدل کرنے میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر قرار دے دیا) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٨٨ از بخاری و مسلم) نیز شفاعت کے بیان میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں سجدہ میں پڑجاؤں گا اور اپنے رب کی وہ وہ ثناء وتحمید بیان کروں گا جو اللہ مجھے سکھا دے گا جنہیں میں اس وقت نہیں جانتا (ایضاً ) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو اس دنیا میں آپ کے علم میں نہیں لائی گئیں وہ وہاں آخرت میں ظاہر ہوں گی، اہل بدعت پر تعجب ہے کہ وہ عقیدت کے غلو میں آیات و احادیث کو نہیں جانتے اور دعویٰ ان کا یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سب سے زیادہ محبت ہے بلکہ اپنے بارے میں یوں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے علاوہ کوئی مسلمان ہی نہیں۔ ھداھم اللہ تعالیٰ الیٰ الصراط المستقیم صراط الذین انعم علیھم من النبیین و الصدیقین و الشھداء و الصالحین۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

183: چھٹا طریقہ : قیامت کا علم تو درکنار وہ تو بہت بڑی بات ہے میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں ہوں۔ “ اِلَّا مَاشَاءَ الّٰهُ ” یہ استثناء منقطع ہے یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہوتا ہے۔ اس میں انتہائی عجز کا اظہار ہے اس سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم قیامت سے عجز کامل طور پر ثابت ہوتا ہے۔ “ ولکن ماشاء اللہ من ذلک کائن فا لاستثناء منقطع وھذا ابلغ فی اظھار العجز ” (ابو السعود ج 4 ص 485) ۔ “ والکلام مسوق لاثبات عجزہ عن العلم بالساعة علی اتم وجه ” (روح ج 9 ص 136) ۔ 184: ساتواں طریقہ : یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علم غیب کی نفی پر ایک واضح دلیل ہے یعنی اگر میں غیب جانتا ہوتا تو دنیا کے تمام منافع حاصل کرلیتا اور تمام مضار سے بچ جاتا۔ اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ اہل بدعت کہتے ہیں کہ یہاں “ کُنْتُ ” ماضی کا صیغہ ہے اور یہ پہلے کی بات ہے۔ بعد میں آپ کو کلی علم غیب حاصل ہوگیا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کلمہ لَوْ ماضی پر داخل ہوجائے تو وہ مفید استمرار ہوتا ہے جیسا کہ شرح عقائد اور حاشیہ خیالی میں مذکور ہے۔ “ خیر ” دنیوی منافع اور “ سوء ” سے دنیوی تکلیفیں مراد ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی دنیوی منافع فوت ہوگئے اور کئی دنیوی تکلیفیں آپ کو پہنچیں۔ باقی رہی آخرت کی خیر تو وہ آپ کو تمام و کمال حاصل تھی اور آخرت کے مضار سے بھی محفوظ تھے۔ لہذا اب مبتدعین کا یہ اعتراض باطل ہوگیا کہ تمہارے مطلب سے نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھلائی سے محروم ہونا لازم آتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

188 آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو خود اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا ہوں نہ کسی ضرر و نقصان کا اختیار رکھتا ہوں مگر ہاں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور اگر اللہ چاہتا ہے اور کسی نقصان سے مجھ کو باخبر کردیتا ہے تو میں اس کے حکم سے بچ جاتا ہوں اسی طرح کسی نفع کی بات سے مجھ کو مطلع کردیتا ہے تو میں اس کے حکم سے وہ نفع حاصل کرلیتا ہوں اور اگر میں غیب داں ہوتا اور مجھ کو جملہ مغیبات کا علم ہوتا تو میں بکثرت منافع اور بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھ کو کوئی ضرر اور برائی نہیں پہنچتی اور میں کبھی کوئی نقصان نہ اٹھاتا میں تو صرف ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں اور میری بات مانتے ہیں ڈرانے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں۔ یعنی جملہ مغیبات الٰہیہ کا مجھ کو علم نہیں وہ جس بات سے آگاہ کردیتا ہے اس کی خبر مجھ کو ہوجاتی ہے قیامت کے واقع ہونے کی تاریخ مجھ کو نہیں بتائی اس لئے میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔