The Messenger does not know the Unseen, and He cannot bring Benefit or Harm even to Himself
Allah
قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ
...
Say : "I possess no power over benefit or harm to myself except as Allah wills.
Allah commanded His Prophet to entrust all matters to Him and to inform, about himself, that he does not know the unseen future, but he knows of it only what Allah informs him.
Allah said in another Ayah,
عَـلِمُ الْغَيْبِ فَلَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً
(He Alone is) the All-Knower of the Ghayb (Unseen), and He reveals to none His Ghayb. (72:26)
...
وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ
...
If I had the knowledge of the Ghayb (Unseen), I should have secured for myself an abundance of wealth.
Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said that,
refers to money.
In another narration, Ibn Abbas commented,
"I would have knowledge of how much profit I would make with what I buy, and I would always sell what I would make profit from,
وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ
("and no evil should have touched me)." and poverty would never touch me."
Ibn Jarir said,
"And others said, `This means that if I know the Unseen then I would prepare for the years of famine during the prosperous years, and in the time of high cost, I would have prepared for it."'
Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam also commented on this Ayah;
وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ
(and no evil should have touched me),
"I would have avoided and saved myself from any type of harm before it comes."
The Prophet then stated that;
...
إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ
"I am but a warner, and a bringer of glad tidings unto people who believe."
Allah tells that the Prophet is a warner and bearer of good news. He warns against the torment and brings good news of Paradise for the believers,
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَـهُ بِلَسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُّدّاً
So We have made this (the Qur'an) easy on your tongue, only that you may give glad tidings to the pious, and warn with it the most quarrelsome of people. (19:97)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد الہ کریں اور صاف کہدیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورہ جن میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور کے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنالیتے ۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ہے کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ۔ ارزانی کے وقت گرانیے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا 97 ) 19-مريم:97 ) ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے ۔