Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 189

سورة الأعراف

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِیۡفًا فَمَرَّتۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّاۤ اَثۡقَلَتۡ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَئِنۡ اٰتَیۡتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۸۹﴾

It is He who created you from one soul and created from it its mate that he might dwell in security with her. And when he covers her, she carries a light burden and continues therein. And when it becomes heavy, they both invoke Allah , their Lord, "If You should give us a good [child], we will surely be among the grateful."

وہ اللہ تعالٰی ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے پھر جب میاں بیوی سے قربت حاصل کی تو اس کو حمل رہ گیا ہلکا سا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گذاری کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All Mankind are the Offspring of Adam Allah states; هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ... It is He Who has created you from a single person, Allah states that He has created all mankind from Adam, peace be upon him, and from Adam, He created his wife, Hawwa and from them, people started to spread. Allah said in other Ayat, يأَيُّهَا النَّاسُ ... إِنَّا خَلَقْنَـكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَـكُمْ شُعُوباً وَقَبَأيِلَ لِتَعَـرَفُواْ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عَندَ اللَّهِ أَتْقَـكُمْ O mankind! We have created you from a male and a female, and made you into nations and tribes, that you may know one another. Verily, the most honorable of you with Allah is that (believer) who has Taqwa. (49:13) and, يَـأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا O mankind! Have Taqwa of your Lord, Who created you from a single person, and from him He created his wife. (4:1) In this honorable Ayah, Allah said; ... وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ... And (then) He has created from him his wife, in order that he might enjoy the pleasure of living with her. so that he is intimate and compassionate with her. Allah said in another Ayah, وَمِنْ ءايَـتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَجاً لِّتَسْكُنُواْ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً And among His Signs is this, that He created for you wives (spouses) from among yourselves, that you may find repose in them, and He has put between you affection and mercy. (30:21) Indeed, there is no intimacy between two souls like that between the spouses. This is why Allah mentioned that the sorcerer might be able with his trick to separate between a man and his wife (thus indicating the difficulty of separating them in normal circumstances). Allah said next, ... فَلَمَّا تَغَشَّاهَا ... When he covered her, meaning had sexual intercourses with her. ... حَمَلَتْ حَمْلً خَفِيفًا ... she became pregnant and she carried it about lightly, in reference to the first stage of pregnancy when the woman does not feel pain, for at that time, the fetus will be just a Nutfah (the mixture of the male and female discharge), then becomes an Alaqah (a piece of thick coagulated blood) and then a Mudghah (a small lump of flesh). Allah said next, ... فَمَرَّتْ بِهِ ... and she carried it about, According to Mujahid, she continued the pregnancy, Al-Hasan, Ibrahim An-Nakha`i and As-Suddi said similarly. Maymun bin Mahran reported that his father said, "She found the pregnancy unnoticeable." Ayub said, "I asked Al-Hasan about the Ayah, فَمَرَّتْ بِهِ (and she carried it about) and he said, `Had you been an Arab, you would know what it means! It means that she continued the pregnancy (through its various stages)."' Qatadah said, فَمَرَّتْ بِهِ (and she carried it about (lightly).), means, it became clear that she was pregnant. Ibn Jarir commented, "This Ayah means that the liquid remained, whether she stood up or sat down." Al-`Awfi recorded that Ibn Abbas said, "The semen remained in, but she was unsure if she became pregnant or not, ... فَلَمَّا أَثْقَلَت ... Then when it became heavy, she became heavier with the fetus", As-Suddi said, "The fetus grew in her womb." ... دَّعَوَا اللّهَ رَبَّهُمَا لَيِنْ اتَيْتَنَا صَالِحاً .... they both invoked Allah, their Lord (saying): "If You give us a Salih child, if he is born human in every respect. Ad-Dahhak said that Ibn Abbas commented, "They feared that their child might be born in the shape of an animal!" while Abu Al-Bakhtri and Abu Malik commented, "They feared that their newborn might not be human." Al-Hasan Al-Basri also commented, "If You (Allah) give us a boy." ... لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ فَلَمَّا اتَاهُمَا صَالِحاً جَعَلَ لَهُ شُرَكَاء فِيمَا اتَاهُمَا فَتَعَالَى اللّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ   Show more

ایک ہی باپ ایک ہی ماں اور تمام نسل آدم تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم علیہ السلام سے ہی پیدا کیا ۔ انہی سے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُو... ْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀ ) 49- الحجرات:13 ) لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک وسرے کو پہچانتے رہو ۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے ۔ سورۃ نساء کے شروع میں ہے اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں چنانچہ ایک اور آیت میں ہے ( لتسکنو ا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمتہ ) لوگو یہ بھی اللہ کی ایک مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنا دیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو اور اس نے تم میں باہم محبت و الفت پیدا کر دی ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کر دیتا ہے ۔ اسی لئے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں ۔ عورت مرد کے ملنے سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے جب تک وہ نطفے ، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے وہ برابر اپنے کام کاج میں آمد و رفت میں لگی رہتی ہے کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اسے تو یونہی سا کچھ وہم کبھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو ۔ کچھ وقت یونہی گذر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے حمل ظاہر ہو جاتا ہے بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے طبیعت تھکنے لگتی ہے اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گذاری کریں گے ۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہو جائے ۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں ۔ مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے وہ بھی بیان کروں گا پھر جو بات صحیح ہے اسے بتاؤں گا ان شاء اللہ ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت حوا کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے شیطان نے سیکھایا کہ اب اس کا نام عبدالحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا ۔ امام ترمذی نے بھی اسے وارد کیا ہے پھر فرمایا ہے حسن غریب ہے ، میں کہتا ہوں اس حدیث میں تین علتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے گو امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ابن مردویہ نے اسے معمر سے اس نے اپنے باپ سے اس نے سمرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے واللہ اعلم دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً حضرت سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ابن جرید میں خود حضرت عمرہ بن جندب کا اپنا فرمان ہے کہ حضرت آدم نے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا ۔ تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حضرت حسن سے بھی اس کے علاوہ بھی مروی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے ۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں ۔ یہ سب اسنادیں حضرت حسن تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کو جو کچھ تفسیر کی گئی ہے اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے ۔ خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر روایت کرے پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے یہ بالکل ان ہونی بات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ حضرت سمرہ کا اپنا قول ہے ۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ حضرت سمرہ نے اسے ہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو جیسے کعب و ہب وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے ان شاء اللہ اس کا بیان بھی عنقریب ہوگا بہر صورت اس روایت کا مرفوع ہونا ہم تسلیم نہیں کرتے واللہ اعلم ۔ اب اور آثار جو اس بارے میں ہیں انہیں سنئے ۔ ابن عباس کہتے ہیں حضرت حوا کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا نام عبداللہ عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں وہ بچے فوت ہو جاتے تھے پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے چنانچہ ان دونوں نے یہی کیا جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام عبدالحارث رکھا اس کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ ان کے دو بجے اس سے پہلے مر چکے تھے اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے؟ ممکن ہے کوئی جانور ہی ہو ممکن ہے صحیح سالم نہ پیدا ہو ممکن ہے اگلوں کی طرح یہ بھی مر جائے تم میری مان لو اور اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام میرے نام پر رکھو تو انسان ہوگا صحیح سالم ہوگا زندہ رہے گا یہ بھی اس کے بہکاوے میں آ گئے اور عبدالحارث نام رکھا ۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلویا اب یا تم میری اطاعت کرو ۔ ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ہر چند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی ۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا دوبارہ حمل ٹھہرا پھر یہ ملعون پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی چنانچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا ۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے ۔ ابن عباس سے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے جیسے حضرت مجاہد حضرت سعید بن جبیر حضرت عکرمہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ سدی وغیرہ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے ۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اسے ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی ہاتم میں ہے پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے ۔ جن کی بابت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوٹی ۔ ان کی روایتیں تین طرح کی ہیں ۔ ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے ۔ ایک وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو ۔ ایک وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں لیکن تصدیق تکذیب جائز نہیں ۔ میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے انہوں نے اسے تیسری قسم کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت آدم و حوا کا ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند و بالا ہے ان آیتوں میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدم و حوا کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا اور ان ہی کا شرک بیان ہوا ۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر جیسے آیت ( ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیع ) میں ہے یعنی ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں وہ جھڑتے نہیں ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی ۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں ، واللہ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

189۔ 1 ابتدا یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے۔ اسی لئے انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔ 189۔ 2 اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۃ کی طرف راجع ہے اور واضح ہے (مزید دیکھئے سورت نساء کا حا... شیہ) 189۔ 3 یعنی اس سے اطمینان و سکون حاصل کرے۔ اس لئے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ) 30 ۔ الروم :21) اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے (یا تمہاری جنس ہی میں سے) جوڑے پیدا کئے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے دل میں اس نے پیار محبت رکھ دی ' یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب و انس حاصل کرتے ہیں۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ 189۔ 4 یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ تَغشَّاھَا کے معنی بیوی سے ہمبستری۔ یعنی وطی کرنے کے لئے ڈھانپا۔ 189۔ 5 یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتٰی کہ نطفے سے عَلَقَۃِاور عَلَقَۃ، ُ سے مُضَغَۃ، ُ بننے تک، حمل خفیف رہتا ہے محسوس نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔ 189۔ 6 بوجھل ہوجانے سے مراد بچہ پیٹ میں بڑا ہوجاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں (بالخصوص جب عورت کو اٹھرا کی بیماری ہو تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چناچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۔۔ : ایک جان، یعنی آدم (علیہ السلام) سے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء کی پہلی آیت۔ لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا ۔۔ : معلوم ہوا میاں بیوی کے تعلق کا اصل سکون و راحت ہے۔ دیکھیے سورة روم (٢١) ” فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا “ جس مقصد کے لیے...  قرآن مجید نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر ادب، حیا، پردے اور پاکیزگی کے ساتھ وہ مطلب ادا کرنے والے اور لفظ ملنا مشکل ہیں۔ ” صَالِحًا “ یعنی صحیح و سالم بچہ، جس میں کوئی جسمانی نقص نہ ہو۔ اس آیت کی صحیح تفسیر جسے حافظ ابن کثیر اور دوسرے محققین نے اختیار فرمایا ہے، وہ ہے جو حسن بصری (رض) سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ بیشک شروع میں بطور تمہید آدم و حوا ( علیہ السلام) کا ذکر ہے، مگر اس کے بعد ” فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا “ سے سلسلۂ کلام ان کی اولاد میں سے مشرکین کی طرف منتقل ہوگیا ہے اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں فرد کے ذکر سے سلسلۂ کلام جنس کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعد میں (فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) وغیرہ یعنی تمام آیات میں آخر تک جمع کے الفاظ استعمال ہوئے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے جنس آدم مراد ہے۔ آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہو کر شرک کا ارتکاب کیسے کرسکتے ہیں ؟ بہت سے مفسرین نے ان سے مراد آدم اور حوا ( علیہ السلام) لیے ہیں، ان کی بنیاد اس روایت پر ہے جو سمرہ (رض) سے ترمذی اور حاکم وغیرہ میں مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب حوا نے بچہ جنا تو ابلیس ان کے پاس آیا، ان کا کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا۔ ابلیس کہنے لگا : ” اس کا نام عبد الحارث رکھو تو یہ زندہ رہے گا۔ “ چناچہ انھوں نے بچے کا نام عبد الحارث رکھا اور وہ زندہ بچ گیا۔ یہ سب کچھ شیطان کے اشارے سے تھا۔ “ لیکن حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو ضعیف اور اسرائیلیات سے ماخوذ قرار دیا ہے اور اس کے ضعف کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں، خصوصاً اس لیے بھی کہ اس میں شرک کی نسبت اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی آدم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے بھی سلسلہ ضعیفہ (٣٤٢) میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔ اس روایت کی سند میں موجود ایک راوی حسن بصری (رض) نے وہ تفسیر فرمائی جو اوپر گزری اور صحیح سند کے ساتھ ان سے تفسیر طبری وغیرہ میں مروی ہے، اگر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کو صحیح سمجھتے تو خود اس کے خلاف ہرگز تفسیر نہ فرماتے۔ اس لیے وہی تفسیر درست ہے۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) ابن کثیر (رض) وغیرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگر یہ سارا قصہ آدم و حوا ( علیہ السلام) کے متعلق ہی تسلیم کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ” جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ “ میں استفہام انکاری ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں تندرست بچہ عطا کیا تو کیا آدم وحوا نے شرک کیا تھا ؟ جیسا کہ مشرکین عرب ان کی طرف شرک کی نسبت کرتے ہیں، یعنی نہیں۔ یہ تاویل بھی درست ہے، کیونکہ یہاں تک تثنیہ کی ضمیریں ہیں، آگے جمع کے صیغے کے ساتھ مشرکین پر رد ہے۔ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے مراد بالاتفاق کفار عرب ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات سے ثابت ہو رہا ہے، یعنی جب اولاد کی امید ہوتی ہے تو مشرکین اللہ سے تندرست اولاد عطا کرنے کی دعا کرتے اور شکر گزار ہونے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر جب ٹھیک ٹھاک تندرست اولاد عطا ہوجاتی ہے تو اسے غیر اللہ کی دین قرار دے دیتے ہیں، کوئی اسے عبد العزیٰ کہتا ہے، کوئی عبد المطلب، کوئی عبد ود اور کوئی عبد یغوث، یا کسی مردے کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں، یا شکریہ ادا کرنے کے لیے بچے کو کسی قبر پر لے جا کر اس کا ماتھا وہاں ٹکاتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کے طفیل یہ بچہ ملا ہے۔ یہ سب صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں جو صرف مشرکین عرب ہی میں نہیں تھیں بلکہ مسلمان کہلانے والے بہت سے لوگوں میں اب بھی عام ہیں، چناچہ وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اللہ کو سب سے پیارے دو نام عبداللہ یا عبد الرحمن یا اس سے ملتے جلتے نام یا شرک سے پاک نام رکھنے کے بجائے نبی بخش، حسین بخش، پیراں دتہ، عبد النبی، عبد الرسول اور بندۂ علی وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ پھر وہ کسی کو کسی آستانے کا فقیر بنا دیتے ہیں، کسی کو کسی قبر کا مجاور بنا دیتے ہیں۔ کوئی اپنا نام سگ دربار غوثیہ رکھ لیتا ہے، کوئی سگ رسول یا سگ مدینہ۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verse 189 speaks of the most basic belief of Islam that is Tauhid and, at the same time, brings out the falsity of believing in more than one god. In the beginning of the verse Allah سُبحَانہ و تعالیٰ has mentioned the creation of Sayyidna &Adam and Sayyidah Hawwa& (علیہما السلام) which was a manifestation of His perfect power. The verse said: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ و... َاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا |"He is the One who has created you from a single soul and from him created his wife, so that he may find comfort in her.|" This manifestation of Allah&s great Power should have made mankind more grateful to Allah and they must have abstained from associating partners with Allah, but negligent as they were, they acted differently. Their neglectful attitude has been referred to in this verse and in the next, in these words: فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّ‌تْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّـهَ رَ‌بَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِ‌ينَ ﴿١٨٩﴾ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَ‌كَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ﴿١٩٠﴾ |"So when he covered her with himself, she carried a light burden and moved about with it. Thereafter, when she grew heavy, they both prayed to Allah, their Lord, |"If you bless us with a perfect child, we shall be among the grateful.|" So, when Allah blessed them with a perfect one, they ascribed partners with Him.|" That is to say, at the initial stage of pregnancy the woman feels free to move about, but later when fetus grows heavy in her womb, the parents are anxious about their unborn. They are not sure if they would get a perfect child, because there are occasions when new born is not a normal child or is deaf dumb or blind etc. Having such appre¬hensions, they start praying for a perfect child and make promises with Allah to be grateful to Him if He favours them with a perfect child. Now, when Allah grants their prayers by giving them a normal and healthy baby, they ascribe partners with Allah, and thus their children, themselves, become the source of their misguidance. It happens in a variety of ways. Sometimes they are misled by their false belief that their new born is a gift of some holy or godly person. Sometimes, they devote it to some living or dead person and start making offerings in their names. Some people take their children to them and bow their forehead before them. Sometimes, they involve themselves in Shirk شِرک by naming their children like ` Abdullat عبدَاللات ` Abd ul ` Uzza عبد العُزٰی ` Abdul Shams عَبد الشمس or Bandah ` Ali بَندہِ علی etc., assigning their children to false gods, indicating that these children have been created or gifted by these gods or personalities.  Show more

دوسری آیت میں عقیدہ توحید کا ذکر ہے جو اسلام کا سب سے بڑا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کے ساتھ شرک کے باطل اور نامعقول ہونے کا بیان کسی قدر تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ شروع آیت میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ایک مظہر حضرت آدم و حواء کی پیدائش سے اس طرح بیان فرمایا (آیت) هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّ... فْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا، یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے جس نے سارے بنی آدم کو ایک ذات آدم سے پیدا کیا اور انہیں سے ان کی بی بی حضرت حواء کو پیدا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ آدم (علیہ السلام) کو ایک ہم جنس ہم دم کے ذریعہ سکون حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی اس صنعت عجیبہ کا تقاضہ یہی تھا کہ تمام اولاد آدم ہمیشہ اس کی شکر گزار ہوتی اور کسی مخلوق کو اس کی صفات کاملہ میں شریک نہ ٹھہراتی، مگر غفلت شعار انسان نے معاملہ اس کے خلاف کیا جس کا بیان اسی آیت کے دوسرے جملہ اور بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا : (آیت) فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ۔ فَلَمَّآ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی اولاد آدم نے اپنی غفلت و ناشکری سے اس معاملہ میں عمل یہ کیا کہ جب نر و مادہ کے باہمی اختلاط سے حمل قرار پایا تو شروع شروع میں جب تک حمل کا کوئی بوجھ نہ تھا عورت آزادی کے ساتھ چلتی پھرتی رہی پھر جب حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے تین اندھیریوں کے اندر اس حمل کی تربیت کرکے اس کو بڑھایا اور اس کا بوجھ محسوس ہونے لگا تو اب ماں باپ فکر میں پڑگئے اور یہ خطرے محسوس کرنے لگے کہ اس حمل سے کیسی اولاد پیدا ہوگی کیونکہ بعض اوقات انسان ہی کے پیٹ سے عجیب عجیب طرح کی مخلوق بھی پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ناقص الخلقت بچہ پیدا ہوجاتا ہے، اندھا یا بہرا یا گونگا یا ہاتھ پیر سے معذور، ان خطرات کے سبب ماں باپ یہ دعائیں مانگنے لگے کہ یا اللہ ہمیں صحیح سالم بچہ عنایت فرمایئے اگر صحیح سالم بچہ پیدا ہوا تو ہم شکر گزار ہوں گے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سن لیں اور بچہ صحیح سالم عطا کردیا تو اب شکر گزاری کے بجائے شرک میں مبتلا ہوگئے اور یہ اولاد ہی ان کے شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بن گئی، جس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، کبھی تو عقیدہ ہی فاسد ہوتا ہے، یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ بیٹا کسی ولی یا بزرگ نے دیا ہے، کبھی یہ ہوتا ہے کہ عملا اس بچہ کو کسی زندہ یا مردہ بزرگ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان کے نام کی نذر و نیاز کرنے لگتے ہیں یا بچہ کو لے جا کر ان کے سامنے اس کا ماتھا ٹیک دیتے ہیں اور کبھی بچہ کا نام رکھنے میں مشرکانہ انداز اختیار کرتے ہیں، عبد اللات، عبد العزی یا عبد الشمس یا بندہ علی وغیرہ ایسے نام رکھ دیتے ہیں جن سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بچہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان بتوں یا ان بزرگوں کا پیدا کیا ہوا بندہ ہے یہ سب مشرکانہ عقائد و اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کے مقابلہ میں شکر کے بجائے ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا۝ ٠ ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىہَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ۝ ٠ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللہَ رَبَّہُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۝ ١٨٩ خلق الخَلْقُ أ... صله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام/ 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم/ 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق/ 6] ( س ک ن ) السکون ( ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام/ 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم/ 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق/ 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] . الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش، و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل : معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان . ( خ ف ف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔ خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ مرر المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا [يونس/ 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ : المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه ( م ر ر ) المرور ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس/ 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف/ 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

تخلیق انسانی قول باری ہے ھوالذی خالقکم من نفس واحدۃ وجعل منھا زوجھا۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا) ایک قول ہے کہ ہر جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ گویا یوں فرمایا ” جان سے اس کا جوڑا بنایا “۔ اور اس سے جنس مراد لیا۔ آیت کی عبارت میں لفظ جنس پوشیدہ ہے۔ ا... یک قول ہے کہ آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) سے پیدا کیا۔ قول باری ہے لئن اتیتنا صالحاً ۔ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا) حسن کا قول ہے ” ایک صحیح و سالم بچہ “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” ایک سالم انسان “ اس لئے کہ ماں باپ کو یہ خوف کھائے جاتا تھا کہ کہیں چوپائے کی شکل کی کوئی مخلوق نہ آجائے۔ قول باری ہے فلما اتاھما صالحاً جعل لہ شرکاء فیما اتاھما۔ مگر جب اللہ نے ان کو صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی اس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے) حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ فعل ” جعلا “ میں ضمیر جان اور اس کے جوڑے کی طرف راجع ہے آدم و حوا کی طرف راجع نہیں ہے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ضمیر ولد صالح کی طرف بایں معنی راجع ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ جسمانی طور پر صحیح و سالم تھا۔ یہ صحت و سلامتی اس کی خلقت کے لحاظ سے تھی، دین کے لحاظ سے نہیں تھی۔ تثنیہ کی ضمیر کے مرجع کی یہ توجیہہ ہے کہ حضرت حوا کے ہاں ہر دفعہ دو بچے پیدا ہوتے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٩) تم سب لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے نفس سے پیدا کیا اور انھیں کے نفس سے ان کی بیوی حضرت حواء (علیہا السلام) کو پیدا کیا، پھر میاں بیوی نے قربت کی تو ہلکا ساحمل لیے ہوئے چلتی پھرتی رہی، پھر جب حمل بوجھل ہوا تو ابلیس کے وسوسہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ کہیں کوئی جانور تو نہ ہو تو دعا کی کہ اگر یہ...  صحیح سالم اولاد ہو تو ہم اس پر خوب صبر کریں گے ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٩ (ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا ج) ۔ اس نکتے کی وضاحت سورة البقرۃ کی آیت ١٨٧ (وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْص) کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات میں جہاں اولاد کا معاملہ ہے وہاں تسکین اور سکون ... کا پہلو بھی ہے۔ (فَلَمَّا تَغَشّٰٹہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ج) ۔ ابتدا میں حمل اتنا خفیف ہوتا ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کوئی حمل ٹھہر گیا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

97: ’’ایک جان‘‘ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، اور ان کی بیوی سے مراد حضرت حوا علیہما السلام 98: اب یہاں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی ایسی اولاد کا ذکر ہورہا ہے جس نے بعد میں شرک کا راستہ اختیار کیا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨٩۔ ١٩٠۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے کفار مکہ کو خطاب کر کہ فرمایا کہ اللہ نے تم لوگوں کو ایک جان آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اس ذکر سے اصل میں اللہ پاک اپنی نعمتوں اور احسانوں کو جتلاتا ہے جو اس نے اپنے بندروں پر کئے اور بندے اس کی شکر گذاری عاجز ہیں فرمایا کہ آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کر کے پھر ا... ن کی پسلی سے ان کی بیوی حوا کو پیدا کیا تاکہ آدم (علیہ السلام) اور حوا دونوں میں انسیت ہو کیونکہ آدمی کا آدمی کے ساتھ جی لگتا ہے پھر اس میں بھی یہ بہت بڑی حکمت تھی کہ مرد کے واسطے عورت کو پیدا کیا اس کی نسل کا قائم رکھنا منظور تھا اور جو انسیت مرد کو عورت کے ساتھ ہوتی ہے وہ ایک مرد کو ایک مرد کے ساتھ ہرگز نہیں ہوسکتی یہاں تک تو جنت کا حال تھا پھر جب جنت سے آدم ( علیہ السلام) اور حوا روئے زمین پر اتارئے گئے تو فرمایا کہ جب آدم (علیہ السلام) حوا کے ساتھ ہم بستر ہوئے تو حوا کو حمل رہ گیا اور جب تک حمل کا ابتدائی زمانہ رہا کوئی تکلیف حوا کو نہیں ہوئی نہ چلنے پھرنے میں نہ کھانے پینے میں نہ کام کاج میں ہر ایک کا حسب ضرورت آسمانی سے کرلیا کرتی تھیں مگر جوں جوں حمل کا زمانہ زیادہ ہوتا گیا اور حوا کو بوجھ معلوم ہوتا گیا تو ان دونوں نے یہ بات سمجھ لی کہ پیٹ میں نطفہ قائم ہوگیا ہے اور ایک روز ہماری جنس سے بچہ پیدا ہونے والا ہے اسی واسطے دعائیں کرنے لگے کہ یا اللہ اگر تو صالح لڑکا ہمیں دے گا تو ہم بہت شکر گذار ہوں گے صالح کے معنے میں بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ بیٹا مردا ہے خدا سے انہوں نے دعا کی تھی کہ بیٹا دینا بیٹی نہیں اور اکثر مفسروں نے معنے لئے ہیں کہ ہماری ہی جنس سے آدمی پیدا کرنا کوئی جانور یا اور کوئی شے نہ ہو اور جو بچہ ہو وہ صحیح وسالم آنکھ ناک ہاتھ پیر کان سب اعضا اس کے درست ہوں لنگڑا ‘ ٹنڈا ‘ بہرا ‘ کانا نہ ہو غرضیکہ جب اللہ پاک نے ان کی مرضی کے موافق صالح اولاد عنایت کی تو انہوں نے اس بچہ کے نام کے رکھنے میں شرک کی باتیں کیں کہ جب بچہ پیدا نہیں ہوا تھا تو ابلیس نے حوا کے پاس آکر کہا تھا کہ اگر بچہ پیدا ہو تو اس کا نام میرے نام پر رکھنا حوا نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے ابلیس نے اپنا اصلی اور مشہور نام نہ بتلایا کہ پہچان جائیں گی اور اپنا دوسرا نام حارث بتلایا اور کہا کہ اس بچہ کا نام عبدالحارث رکھنا انہوں نے بچہ پیدا ہونے پر یہی نام رکھا اکثر مفسروں نے جعلا لہ شرکاء فیما اتاھما کی تفسیر یہی کی ہے جو اوپر بیان کی گئی ترمذی امام احمد ابن ابی حاتم طبرانی وغیرہ محدثین نے اس موقعہ پر سمرہ (رض) کی حدیث بیان فرمائی ہے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا حوا (علیہا السلام) کا کوئی بچہ زندہ نہ رہتا تھا اس مرتبہ جو حمل رہا تو ابلیس نے آکر کہا کر اگر اس بچہ کا نام عبدالحارث رکھو گی تو زندہ رہے گا غرضیکہ یہ کام ابلیس کے بہکانے سے حوا نے کیا ١ ؎۔ اس میں آدم (علیہ السلام) کا کوئی قصور نہ تھا اور بعضے مفسروں نے آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ یہ کفار مکہ کی شان میں نازل ہوا ہے کیونکہ و لوگ اپنے بچوں کا نام خدا کے نام کے سوا اوروں کے نام پر رکھا کرتے تھے جیسے عبدالشمس اور عبدالعزی وغیرہ تو یہ نام رکھنا بھی شرک میں داخل ہے شرک کچھ عبادت ہی میں منحصر نہیں ہے پھر اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ اللہ پاک ان چیزوں سے بالکل علیحدہ ہے جن کو تم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو ہمرہ بن جندب (رض) کی حدیث جو اوپر گذری اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابراہیم بصری ہے جس کو بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن معین نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے ٢ ؎ اسی واسطے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٣ ؎ ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی عمر میں سے چالیس برس حضرت ہود (علیہ السلام) کو دے کر پھر اس اپنے اقرار پر جو قائم ٤ ؎ نہ رہے اس کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں فرمایا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا اقرار پر قائم نہ رہنا اسی بات کا ایک نمونہ تھا کہ ان کی اولاد میں بھی یہ بات پائی جاوے گی اس حدیث سے ان مفسروں کے قول کی تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عبادت میں تو نہیں مگر نام کے رکھنے میں یہ نام کے رکھنے کا شریک شیطان کے بہکانے سے حوا (علیہ السلام) سے ظہور میں آیا تاکہ بنی آدم میں جو شرک پھیلنے والا تھا اللہ کا نمونہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو معلوم ہوجاوے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کا حاصل یہ ہے کہ شیطان نے حوا علیہا السلا کو یہ نام خواب میں سکھایا تھا اور جب حوا (علیہا السلام) نے اپنا یہ خواب حضرت آدم (علیہ السلام) سے بیان کیا تو حضرت آدم (علیہ السلام) سے بیان کیا تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے حوا (علیہا السلام) کو یہ پٹی پڑھائی اب کی دفعہ جو لڑکا پیدا ہو اس کا نام اگر عبدالحارث رکھا جاوے گا تو وہ لڑکا صاحب عمر ہوگا اسی واسطے اب کی دفعہ اولاد کی محبت کے جوش میں اس لڑکے کا نام حوا (علیہا السلام) نے عبدالحارث رکھا حضرت آدم ( علیہ السلام) پہلے اس نام کی ممانعت کرچکے تھے اس لئے بچہ کے پیدا ہونے اور اس نام کے رکھے جانے کے بعد اس نام کی کچھ کرید حضرت آدم (علیہ السلام) نے نہیں کی یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حوا علہیما السلام دونوں کے نام کا اس قصہ میں ذکر فرمایا اس آیت کی تفسیر کو علمائے مفسرین نے بہت مشکل قرار دیا ہے لیکن سلف میں سے قتادہ اور سفیان ثوری کا یہ قول جب مد نظر رکھا جاوے کہ تفسیر کے باب میں سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کا بڑا اعتبار ہے اور عکرمہ کے قول کے موافق آیت کی تفسیر کی جاوے تو آیت تفسیر میں کچھ رسوائی باقی نہیں ٥ ؎ رہتی سورة الشورے کی آیت شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا کی تفسیر میں آوے گا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) سے لیکر حضرت نوح ( علیہ السلام) تک شریعت کے احکام زیادہ تفصیل سے نازل نہیں ہوئے تھے اس سے یہ بات نکلی کہ حوا (علیہما السلام) کو عبدالحارث نام رکھنے کی خرابی تفصیل سے معلوم نہ تھی صحیح مسلم ابوداؤد ترمذی وغیرہ میں ابن عمر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اور عبدالرحمن یہ نام اللہ کو بہت پسند ہیں ٦ ؎ صحیح مسلم اور ترمذی میں ابن (رض) عمر کی دوسری حدیث ہے جس میں ہے یہ کہ حضرت عمر (رض) کی ایک لڑکی کا نام عاصیہ تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نام کو بدل کر اس لڑکی کا نام جمیلہ رکھا ٧ ؎ ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ جن ناموں میں اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا اقرار نکلے وہ نام اللہ کو بہت پسند ہیں اور جس طرح عبدالحارث جیسے ناموں سے پرہیز کرنا لازم ہے اسی طرح عاصیہ جیسے ناموں کا حال ہے کیونکہ عاصیہ کے معنے گنہگار کے ہیں اور گنہگار کا لفظ شریعت میں ایک مذمت کا لفظ ہے جن ناموں میں دین کی بڑائی اور فوقیت پائی جاوے مثلا جیسے کسی لڑکی کا نام نیکی رکھنا یا جن ناموں میں دنیا کی بڑی فوقیت پائی جاوے جیسے مثلا کسی کا لقب شہنشاہ ٹھہرانا اس طرح کے ناموں کی بھی ممانعت ہے چناچہ بخاری ومسلم اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ (رض) کی جو روایتیں ٨ ؎ ہیں ان میں اس طرح کے ناموں کی ممانعت کا ذکر ہے :۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢٧٤ و جامع ترمذی ج ٢ ص ١٣٣ تفسیر سورة الاعراف لیکن حافظ ابن کثیر نے شدومد سے اس مرفوع روایت کو ضعیف قرار دیا اور تفسیر کو اسرائیات کتاب التاریخ سے ماخوذ بنا کر اگلی تفسیر کو ترجیح دی ہے ج ٢ ص ٢٧٤۔ ٢٧٦۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢٧٤ و۔ ٣ ؎ مستدرک حاکم ج ٢ ص ٥٤٥۔ ٤ ؎ جامع ترمذی ج ٢ ص ١٣٣ تفسیر سورة الاعراف۔ ٥ ؎ نیز دیکھئے فتح البیان ج ٢ ص ١٢٨۔ ١٢٨۔ ٦ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٠٦ باب النہی عن التکنی بابی القاسم دبیان مایستحب من الاسماء وجامع ترمذی ج ٢ ص ١٠٦ باب جاء مامستحب من الاسماء۔ ٧ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٠٨ باب استحباب تغییر الاسم الخ وجامع ترمذی ج ٢ ص ١٠٧ باب ماجاء فی تغییر الاسمائل۔ ٨ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩١٦ باب الغض الاسماء الی اللہ تبارک وتعالیٰ ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:189) زوجھا۔ اس (مؤنث ) کو جوڑا یعنی خاوند اور زوجہ اس (مذکر) کا جوڑا ۔ یعنی اس کی بیوی۔ گویا زوج کا مطلب ہوا بالمقابل صنف سے ساتھی۔ لیسکن تاکہ تسکین پائے۔ اطمینان حاصل کرے۔ اس میں فاعل نفس ہے جو کہ مؤنث استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہاں صیغہ مذکر کا لایا گیا۔ نفس کے معنی کے لحاظ سے کیونکہ اس سے مراد یہ... اں آدم (مرد) ہے۔ اور اسی مناسبت سے زوج کا لفظ جو اس آیت میں استعمال ہوا ہے اس سے مراد بیوی ہے۔ تغشھا۔ اس (مرد) نے اس (عورت) کو ڈھانکا۔ کنایہ۔ اس مرد نے اس عورت سے ہمبستری کی۔ تغشی المرأۃ۔ وہ عورت کے پاس گیا۔ (اس سے مجامعت کی) غشاوۃ سے پردہ جس سے کوئی شے ڈھانپ دی جائے۔ فمرت بہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ حملا کی طرف راجع ہے وہ اس حمل کو لئے پھرتی ہے۔ دعوا۔ ماضی تثنیہ مذکر غائب (اگرچہ تثنیہ میں ایک مرد اور ایک عورت شامل ہیں لیکن مرد کی جنس کے غلبہ کی وجہ سے تثنیہ مذکر لایا گیا) ان دونوں نے پکارا۔ ان دونوں نے دعا کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی آدم ( علیہ السلام) سے مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورة نسا آیت 1)7 یعنی صحیح وسالم بچہ کوئی جسمانی نقص نہ ہو ،

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 24 ۔ آیات 189 ۔ تا۔ 206 جہاں تک علوم غیبیہ اور نفع و نقصان کا تعلق ہے تو یہ اوصاف تو اس ذات حمید کے ہیں جس نے تمہیں ایک وجود یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور ایسا کریم ہے کہ انسان کی نسل بقا کے لیے اسی وجود میں سے اس کا جوڑا یعنی حوا کو پیدا فرما کر ان میں باہمی محبت و الفت اور ا... یک لذت وصال رکھ دی کہ انسان نہ صرف بقائے نسل کا کام کرے بلکہ ایک دوسرے سے انس اور روحت بھی حاصل کریں۔ یہ اس کے احسانات ہیں۔ مگر انسانوں کا یہ حال ہے کہ مرد و عورت جمع ہوئے اور حمل قرار پا گیا اب خالق کو اس کا علم ہے جس کی پشت میں تھا وہ بیخبر رہا جس کے پیٹ میں پہنچا اسے پتہ نہیں بغیر کسی پرواہ کے روز مرہ کے امور میں لگی ہے ہاں جب حمل کا ثقل محسوس ہوا تو جانا اور میاں بیوی دونوں فکر مند ہوگئے اب وہ نہیں جانتے بچہ ہوگا یا بچی خوبصورت ہوگا یا بدشکل نیک ہوگا یا بدلمبی عمر پائے گا یا مختصر دنیا میں آرام سے بسر کرے گا یا غربت و افلاس سے دو چار ہوگا تو لگے اللہ کو پکارنے ان کے اندر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اب کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا کہ اے اللہ ہمیں ہر طرح سے بہتر اولاد عطا کر عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب اللہ سالم تندرست و توانا اولاد عطا فرما دیتے ہیں تو ان کے اعتقادات بدلنے لگتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کی عظمت اور صفات میں شریک بنانے لگتے ہیں جیسے کسی نے گمان کرلیا کہ بچہ ولی یا پیر نے عطا کیا ہے لہذا اسے کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ کی طرف منسوب کرتے ہیں یا کسی بت اور دیوی دیوتا کا دان سمجھ کر اس کے سامنے بچے کا ماتھا بھی زمین پہ رکھک دیتے ہیں حالانکہ اللہ کریم ایسے شرک وغیرہ سے بہت ہی بلند ہے اور مخلوق کے پیدا کرنے یا بچے کے بنانے سنوارنے میں کوئی اس کا شریک نہیں نہ اسے کسی کی احتیاج ہے۔ بت یا دنیا دار پیر کا حال : کیسے نادان ہیں کہ ان کا خالق کا شریک سمجھ لیتے ہیں جو خود مخلوق ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے بلکہ خود ان کی مدد کے محتاج رہتے ہیں یعنی اپنی مدد نہیں کرسکتے دوسرے کی کیا کریں گے اگر یہ بات بت کی طرف منسوب کی جائے تو واضح ہے کہ وہ خود انسانی تراش خراش کے محتاج بھی تھے اور پھر انسانی تحفظ کے طالب بھی ہیں لیکن اگر دنیا دار پیر مراد لیے جائیں جیسا کہ یہود و نصاری میں راہب وغیرہ تھے جو لوگوں کو گمراہ کرتے رہے یا مسلمانوں میں ایسے لوگ کہ ان کا اپنا عقیدہ تک درست نہیں عمل کیا کریں گے اور پیر بن کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور مرید سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ یہی عطا کر رہے ہیں تو ان کا حال بھی بتوں سے کچھ مختلف نہیں ایسے لوگ بلاشبہ مخلوق بھی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی معروف طریقے سے اپنی روزی حاصل کرنے کی سعی بھی نہیں کرتا بلکہ مریدوں کے عطایا پہ نظر رہتی ہے تو جو لوگ اپنی مدد نہیں کرسکتے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈال کر زندہ ہیں بھلا دوسروں کو کیا عطا کریں گے ؟ بلکہ یہ تو ایسے گئے گزرے ہوتے ہیں کہ ان کی ہدایت کے لیے محنت کرتے رہو انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے بھی رہو تو بات مان کر ہی نہیں دیتے بلکہ کسی کا پکارنا یا نہ پکارنا ان کے کے لیے ایک سا اثر رکھتا ہے اور بت کا حال تو واضح ہے کہ وہ کیا سنے گا انسان بھی جو اس طرح گمراہی پہ جم جاتے ہیں ان پر اثر نہیں ہوتا میری مراد نیک حضرات کی سوء ادبی ہرگز نہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت کے بغیر دین آتا ہی نہیں مگر جعلسازوں سے بچنا بھی اشد ضروری ہے۔ جو لوگ اللہ کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسرے سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور اسے پکارتے ہیں یا بتوں کو یاد کرتے ہیں تو وہ اتنی بات نہیں سمجھ سکتے کہ وہ بھی تو انہی کی طرح بندے اور مخلوق ہیں اور مخلوق کا خاصہ تو محتاجی ہے بھلا حاجت روا کیسے بن سکتی ہے اور اگر تمہارا یہ گمان ہے تو ذرا ان کو پکارو اور وہ تمہاری مرادیں پوری تو کردیں اور غائبانہ امداد کا سامان تو کریں کہ تمہارے عقیدے کی سچائی کا پتہ چل سکے ۔ تمہارا کیا کریں گے کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جو چل سکیں یا ہاتھ ہیں کہ کسی چیز کو تھام سکیں یا آنکھیں کہ کچھ دیکھ سکیں یا کان ہیں کہ سن ہی لیں جب ان کے پاس ظاہری اعضا بھی نہیں کہ عالم اسباب میں تو کچھ کریں تو کسی کو پیدا کرنا یا موت دینا رزق دینا یا صحت عطا کرنا تو بہت دور کی باتیں ہیں اور عموماً دنیا دار پیر بھی ایسے ہی عاجز ہیں کہ خود اپنا کام نہیں کرسکتے کسی کا غائبانہ کیا کریں گے۔ جنات و شیاطین سے حفاظت : فرمایا اے میرے حبیب ان سے کہیے کہ اگر بت ہی کچھ کرسکتے ہیں یا جن طاقتوں کو تم اللہ کریم کا شریک گمان کرتے ہو کچھ سنوارنے کی طاقت رکھتی ہیں تو پھر ان سے کہو کہ میں پوری شدت سے انکار کر رہا ہوں ذرا میرا کچھ بگاڑ کر دکھا دیں اور کوئی لحاظ نہ کریں مگر یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اس لیے کہ میرا محافظ اور میرا ولی تو اللہ ہے جس قرآن نازل فرمایا اور وہ ایسا کریم ہے کہ ہر نیک اور صالح مسلمان کی مدد حفاظت اور حمایت کرتا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حمایت حاصل نہ ہو تو شیاطین و جنات تکلیف دے سکتے ہیں اور اس ولایت و حمایت سے مراد وہ قلبی تعلق ہے جو صحبت شیخ میں نصیب ہوتا ہے اور جس سے لطیفہ قلب منور ہو کر قوت حاصل کرلیتا ہے ایسے وجود کو جنات ایذا نہیں دے سکتے کہ وہ انوارات ان کو جلاتے ہیں اور جنوں میں انہیں برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی اور اللہ کریم کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے یا جن بتوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں وہ خود اپنی مدد نہیں کرسکتے کہ خود اپنی حفاظت ہی کرلیں تو پکارنے والوں کی مدد کیا خاک کریں گے بلکہ انہیں تو کسی بھلے کام کا مشورہ بھی دو اور ہدایت کی طرف دعوت بھی دی جائے تو وہ نہیں سنتے اور یوں نظر آتا ہے جیسے دیکھ رہے ہوں مگر دیکھ بھی نہیں سکتے یہی حال کفار کے ان رہنماؤں کا تھا کہ نہ ہدایت کی بات ان کی سمجھ میں آتی اور نہ ان کی نگاہ میں قوت باقی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جمال سے سیراب ہوتی وہ دیکھتے تو محمد بن عبداللہ نظر آتے مگر محمد رسول اللہ انہیں دکھائی نہ دیتے گناہ سے نگاہ میں فساد آجاتا ہے اور انسان آپ کے جمال سے محروم ہو کر مسلسل گناہ میں مبتلا رہتا ہے اگر کبھی نگاہوں کو جلا نصیب ہو اور آپ کا جمال جہاں تاب نظر آئے تو بھلا کیسے نافرمانی کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔ معیار عبادت : حق تو یہ ہے کہ انسان آپ کی غلامی میں جان لڑا دے مگر اے میرے حبیب آپ لوگوں پہ اتنے اعلی معیار کی کڑی شرط نہ رکھیں بلکہ جس قدر ذوق سے کوئی اطاعت کرسکے اسی کو قبول فرما لیں نہ ہر آدمی کو وہ دقت نظر نصیب ہے اور نہ جذب دروں کی ایسی حالت تو جس قدر بھی کوئی خواہ سرسری طور پر اطاعت کرے قبول فرما لیں کہ لوگوں کی بخشش کا بہانہ بنتا چلا جائے اور دوسری مراد یہ ہے کہ اطاعت نہ کرنے اور ایذا دینے والوں سے بھی ممکن حد تک درگزر فرمائیں اور خفا نہ ہوا کریں بلکہ نیکی کا حکم فرماتے رہیں یعنی سب کے لیے بھلائی کی دعوت و تربیت جاری رکھیں پھر بھی اگر کوئی جہالت کی وجہ سے درپئے آزار ہو تو اس سے کنارہ کرلیں۔ یہ اصول تبلیغ ہیں کہ لوگ جس طرح آسانی سے عبادات ادا کرتے ہوں انہیں قبول کیا جائے اور ہر آدمی پر عبادات کو دشوار اور تنگ نہ کردیا جائے اور زیادہ کرید اور تجسس نہ کیا جائے کہ اس کے دل کا کیا حال ہے وغیرہ ذلک نیز اللہ کریم کی رضا کیلئے پیار اور محبت سے تربیت کا کام ہمیشہ جاری رکھا جائے اور نیکی اور بھلائی کی دعوت میں کمی نہ آئے نیز اگر کوئی خواہ مخواہ الجھنا چاہے تو بےسود مناظروں میں نہ الجھا جائے بلکہ ان سے دامن بچانا چاہئے اور جہلا کے ساتھ وقت برباد نہ کرنا چاہئے ہاں اگر اسلام یا مسلمانوں کو خطرہ پیدا ہوجائے تو دفاع کرنا جہاد اور فرض ہوجائے گا۔ اگر کبھی غصہ آنے لگے تو فوراً اللہ سے پناہ مانگیں کہ غصہ شیطانی وساوس میں سے ہے اور شیطان سے بچنے ا سب سے آسان نسخہ اللہ کریم سے پناہ مانگنا ہے کہ وہ سنتا بھی ہے اور ہر آن ہر شے سے آگاہ بھی ہے۔ یہہاں بھی ایسا ہی غصہ مراد ہے جو اپنی ذات کے لیے آئے اگر دینی امور پر غصہ آئے اور انسان برائی کے مقابلہ کے لیے جوش و جذبے سے کوشاں ہو تو یہ اللہ کی دی ہوئی توفیق ہے لیکن بعض اوقات لوگوں کی طعن وتشنیع اور جاہلانہ الزامات سے بہت دکھ ہوتا ہے اور اپنی ذات کا دفاع کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو عموماً جھگڑے اور فساد کا باعث بنا کرتا ہے لہذا ایسا جوش وساوس ابلیس میں سے ہے فوراً تعوذ پڑھا جائے تو طبیعت سنبھل جاتی ہے جن لوگوں کو دل کا حال حاصل ہے یعنی تقوی اور بصریت قلبی ، اگر ان کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے کہ شیطان انہیں بہکانے لگے تو فوراً اللہ کریم کا ذکر شروع کردیتے ہیں یاد لاہی میں لگ جاتے ہیں۔ صاحب بصیرت لوگ : اور اس کی برکت سے ان کے دل روشن ہو کر حقیقت الامر کو پا لیتے ہیں اور شیطان کے فریب سے بچ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ جنہوں نے شیاطین کی غلامی ہی اپنا رکھی ہے اور نہی کے بھائ یبن رہے ہیں تو شیاطین انہیں مزید گمراہی کی دلدل میں ہی کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ بہت بڑا معجزہ : بعض اوقات خاص خاص معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ مطالبہ پورا نہ ہو تو نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں جبکہ آپ کے معجزات تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے زیادہ تھے اور جب بیشمار معجزات سے آپ کی رسالت ثابت ہوچکی تو یہ محض ضد اور ہٹ دھرمی ہے کہ فلاں بات ظاہر ہو تو مانیں گے جیسے کوئی عدالت میں مطلوبہ شہادت پیش کردے گی مگر مدعی مطالبہ کرے کہ نہیں فلاں فلاں آدمی شہادت دیں تب بات ہوگی تو ظاہر ہے اس کی اجازت نہ دی جائے گی یہی بات یہاں ہے بلکہ ان سے کہئے کہ میں اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر اتاری جاتی ہے اور یہ وحی کتاب بہت بڑا معجزہ ہے آپ کی ذات آپ کا جمال آپ کے کمالات کے ساتھ یہ کتاب جس میں زندگی گزارنے کا ہر قاعدہ اور ضرورت کے ہر کام کی صحیح انداز میں رہنمائی موجود ہے اور رحمت الہی کے ساتھ یعنی آسان ترین انداز میں۔ مگر یہ سب فائدے تو جب نصیب ہوں جب کوئی مانے بھی۔ یعنی یہ انعامات تو ایمان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جب قرآن حکیم پڑھا جا رہا ہو تو پوری توجہ سے سنا جائے اور نہایت خاموشی کے ساتھ تاکہ پوری توجہ اسی طرف رہے اور سننے میں متوجہ ہونے سے مراد ہے کہ سن کر اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش ہوتا کہ تمہیں اللہ کی رحمت نصیب ہو۔ تلاوت قرآن مجید کے آداب : نماز میں خاموش رہ کر سنا تو جاتا ہے ساتھ متوجہ بھی رہنا چاہئے۔ خطبہ جمعۃ المبارک میں بھی کلام جائز نہیں اور نہ سنت وغیرہ پڑھی جائے۔ ہاں علماء کے نزدیک یہ سننا اور کان لگانا اسی صورت میں واجب ہے جب سنانے ک ےلیے پڑھا جا رہ اہو اگر چند لوگ کسی جگہ بیٹھ کر تلاوت کر رہے ہوں تو ایک دوسرے کے لیے خاموشی کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی ممکن ہے اور عملاً سنانے کے لیے ایسے حال میں نہ پڑھا جائے کہ لوگوں کے لیے سننا ممکن ہی نہ ہو جیسے مساجد سے لاؤڈ سپیکر پہ ساری ساری رات تلاوت ہوتی ہے یا ایسے مجمع میں جہاں لوگ گپ ہانک رہے ہوں ریڈیوں وغیرہ سے قرآن کا درس اونچی آواز میں لگانا کہ اس طرح کرنے والا بےادبی کا مرتکب ہوگا نیز اس طرح تلاوت کرنا بھی جائز نہیں جو کسی دوسرے کی عبادت یا آرام میں مخل ہو اور جب کہیں سے بھی تلاوت کی آواز آئے تو بہتر طریق یہی ہے کہ خاموش رہا جائے اور توجہ سے سنا جائے۔ ذکر الہی کی تاکید اور طریقہ ذکر۔ اور آخر میں ذکر الہی کی تاکید اور طریقہ ارشاد ہوتا ہے کہ تمام مسلمانوں سے فرما دیجئے اللہ کریم کا ذکر کیا کریں قرآن کی تلاوت کریں تسبیحات پڑھیں یا ذکر قلبی حاصل کرلیں تو سب ہی اس میں داخل ہوں گے چونکہ تلاوت اور ذکر کے آداب ایک جیسے ہیں۔ نیز یہاں مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں کہ اس سے جمہور کے نزدیک مظلق ذکر اللہ مراد ہے۔ سب سے بہترین صورت یہ ارشاد ہوئی کہ اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر نہایت عجز سے اور اس کی عظمت کے پیش نظر اپنی بےبسی کو دیکھ کر ڈرتے لرزتے ہوئے۔ یا پھر اگر پکار کرنا چاہے تو نہایت دھیمی آواز سے یعنی چیخ چیخ کر یا لاؤڈ اسپیکر پہ نہ کرے۔ ذکر خفی : اس سے مراد قلبی ذکر ہے جس میں زبان شامل ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ اس تزکیہ کے طفیل نصیب ہوتا ہے جو آپ کے فرائض نبوت میں سے ہے کہ مھض آپ کی مجلس عالی میں حاضر ہونے والا مومن بیک نگاہ شرف صحابیت سے مشرف ہوجاتا ہے اور صحابہ کا یہ شان خود قرآن میں بیان ہوا ہے کہ ان کے وجود کھال سے لے کر دل تک ذاکر ہوگئے تھے اور یہی دولت صحابہ کی مجالس میں تابعین کو نصیب ہوئی پھر نسلاً بعد نسلً یہ کیفیات قلبی اہل اللہ سے سینہ بسینہ منتقل ہو کر خلق خدا کے دلوں کو سیراب کرتی رہیں جب دل ذاکر ہوجاتا ہے تو پھر کوئی لمحہ ذکر سے غافل نہیں رہتا آدمی کام کر رہا ہو یا آرام سفر ہو یا حضر دل کی ہر دھڑکن کئی کئی بار اللہ تعالیٰ کا نام پکارتی ہے اور اسی سے حقیقی تفکر نصیب ہوتا ہے جسے مراقبہ بھی کہا جاتا ہے کہ گردن نیچی کرکے کیفیات میں کھوجانے کو مراقبہ کا نام دیا گیا یہ بہت عظیم نعمت ہے اور جب یہ نصیب ہوا تو عبادات اور اعمال کی لذات کو یہاں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے نیز گناہ کی کراہت بھی متشکل نظر آسکتی ہے۔ ذکر جہر : دوسرا طریقہ ذکر جہر ہے جسے ذکر لسانی بھی کہتے ہیں اور جو زبان سے کیا جاتا ہے تلاوت ہو یا مختلف تسبیحات یا اسم ذات کا زکر اسے زبانی کرنا بھی درست ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دھیمی آواز سے دون الجہر یعنی شور کے بغیر کیا جائے جس سے خود کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نصیب ہو اور کسی بھی دوسرے آدمی کی عبادات ، آرام یا نیند میں خلل نہ آئے اور لوگوں کو سنا کر ریا کا مرتکب نہ ہوا جائے یاد رہے مختلف سلاسل میں ذکر لسانی کرایا ضرور جاتا ہے مگر صرف مبتدی کو اور متوجہ کرنے کے لیے آخر کار اسے بھی ذکر قلبی اور خفی سکھایا جاتا ہے لہذا ذکر کے دونوں طریقے اپنے آداب کے ساتھ درست اور جائز ہیں۔ اور یہی حکم تلاوت کا بھی ہے نیز نماز میں بھی اسی حد تک جہر کی اجازت ہے اور یہی آداب تلاوت ضروری ہیں۔ ذکر کتنی دیر کیا جائے اور کس وقت کیا جائے : تو فرمایا۔ بالغدو والاصال۔ یعنی صبح اور شام۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ صبح اور شام دو وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور کیا جائے اور اس کا اہتمام کیا جائے مگر حقیقی معنی یہ ہوگا کہ صبح شام بول کر رات دن۔ اور ہر وقت مرد لیا جائے جیسا کہ حضرت عائشۃ الصدیقۃ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اور ہر آن ذکر کیا کرتے تھے نیز جب ذکر قلبی مراد ہوگا تو پھر اس میں وقفہ آنے کا سوال پیدا نہیں ہوت وہ تو رات دن سوتے جاگتے چلتے پھرتے ہر حال میں جاری رہے گا اسی لیے ذکر لسانی اور جہری سے حصول ذکر قلبی ہی مراد ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ قلبی اور خفی ذکر صر فصحبت شیخ سے نصیب ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے حصول کا کوئی راستہ نہیں اور قلبی ذکر کا ہر حال ذکر لسانی بھی بہت بہتر طور پر کرتا ہے مگر ہر ذکر لسانی کرنیوالا ضروری نہیں کہ ذکر قلبی کو پا لے کہ یہ نور دل کو منعکس ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جب تک کوئی حدود شرعیہ سے تجاوز نہ کرے جس طرح چاہے ذکر کرسکتا ہے اور اصل صورت حال یہ ہے کہ بندہ کبھی غافلوں میں شامل نہ ہو کوئی لمحہ ایسا نہ آئے کہ یاد الہی سے غفلت وارد ہو اس لیے کہ غفلت ہی موت ہے اور حضوری کا نام حیات ہے اور یہ دائمی یاد صرف ذکر قلبی ہی سے نصیب ہوسکتی ہے نہ کہ غفلت سے اس لیے ذکر ضروری ہے۔ اس کی بارگاہ کا خاصہ یہ ہے کہ جو جتنا قریب ہوتا ہے اتنا زیادہ عبادت میں کمر بستہ ہوجاتا ہے اور اس کے مقرب بندے ہوں یا فرشتے انبیاء ہوں یا اولیا اس کی عبادت کرنے سے تکبر نہیں کرتے۔ نہ عقاید کی اصلاح قبول کرنے میں انہیں کوئی چیز رکاوٹ بنتی ہے اور نہ عبادات کی ادائیگی میں ہمیشہ اس کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے اور اسے یاد کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سر بسجود رہتے ہیں۔ یہاں سدہ کہہ کر عبادات نافلہ مراد لی گئی ہیں اور سجدہ چونکہ عبادات میں ایک خاص حیثیت کا حامل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ بندہ کو سجدہ میں سب سے زیادہ قریب ہونا نصیب ہوتا ہے لہذا سجدہ میں دعا کیا کرو امام صاحب کے نزدیک تو کثرت سجود سے مراد کثرت نوافل ہے اس کے باوجود اگر صرف سجدہ کرکے دعا کی جائے تو بھی جائز ہے بہرحال مقربین بارگاہ عبادت سے مستغنی نہیں ہوجاتے جیسا کہ جاہلوں کا گمان ہوا ہے اور بےنمازوں کو بہت پہنچا ہوا سمجھ لیتے ہیں بلکہ مقربین تو کثرت سے عبادت کرتے اور سجدے کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں جنت میں جانے اور بلندی درجات کو پانے کے لیے کثرت سجود کا حکم موجود ہے یعنی نوافل کثرت سے پڑھا کرے اور ظاہر ہے نوافل پڑھنے والا فرائض و سنن تو اور حسن و خوبی سے ادا کرے گا۔ وفقنا اللہ تعالی۔ و صلی اللہ علی حبیبہ محمد والہ وصحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ زوج۔ جوڑا۔ لیسکن۔ تاکہ وہ سکون حاصل کرے۔ تغشی۔ وہ چھا جاتا ہے۔ حملت۔ اس نے اٹھا لیا۔ حملا خفیفا۔ ہلکا سا بوجھ۔ مرت۔ وہ چلی۔ پھری۔ تشریح : ان آیات میں چند باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پہلا انسان (حضرت آدم (علیہ السلام) اور پہلی عورت (حضرت حوا) کو پیدا فرم... ایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اپنے دست قدرت سے بنایا۔ میاں اور بیوی کے بنانے اور پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں ذہنی سکون، جسمانی لذت اور راحت حاصل کرین۔ 2۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں کے ملنے سے محض جسمانی سکون اور لذت ہی حاصل نہ ہو بلکہ ایسی نسلیں تیار ہوں جن سے کائنات میں رونق پیدا ہو۔ 3۔ جب میاں اور بیوی کا اختلاط ہوتا ہے تو اس سے ایک ہلکا سا حمل ٹھہر جاتا ہے جس کے ساتھ وہ عورت چلتی پھرتی ہے۔ وضع حمل کا وقت بہت نازک ہوتا ہے اس میں زچہ اور بچہ دونوں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔ حمل اور وضع حمل کے دوران بچے کے ماں اور باپ بہت سی جذباتی کیفیات سے گزرت ہیں یہی فکر رہتی ہے کہ بچہ صحیح سالم بھی پیدا ہوگا یا نہیں صورت شکل کیسی ہوگی خوبصورت ہوگا یا بدشکل بدعقل ہوگا یا صاحب عقل و فہم وغیرہ وغیرہ جیسے جیسے وضع حمل کا وقت قریب آنے لگتا ہے تو یہ جذباتی کیفیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور دونوں مل کر اللہ سے دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ ہماری اولاد کو خیر و خوبی سے پیدا فرما اور وہ پیدا ہونے والا بچہ نیک بخت ہو۔ خوبصورت ہو وغیرہ دونوں کی زبان پر یہی ایک دعا ہوتی ہے جب اللہ کی قدرت سے بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسان اس کو بھول جاتا ہے کہ اس نے اپنے پروردگار سے کس قدر گڑ گڑا کر دعائیں کی تھیں اور اب وہ شرک شروع کردیتا ہے اور اپنے دیوی دیوتا کے نام پر چڑھاوے چڑھانا شروع کردیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان غیر اللہ کا کرم نہ ہوتا تو ہمیں اتنی اچھی اولاد نصیب نہ ہوتی۔ انسان کا یہ معاملہ صرف اولاد تک نہیں بلکہ زندگی کے ہر نازک مور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اے اللہ میرا یہ کام کر دے مجھے صحت و تندرستی عطا فرما دے اور جب اس کو صحت و تندرستی اور راحتیں حاصل ہوجاتی ہیں تو اللہ کے ساتھ وہ اس طرح شرک کرتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر صاحب کی دوا سے مجھے یہ فائدہ ہوا۔ فلاں تدبیر کی وجہ سے مجھے یہ کامیابی نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب انسان کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے غیر اللہ کی طرف وہ تمام خوبیاں منسوب کردیتا ہے جو اللہ نے اسے اپنی قدرت سے عطا فرمائی تھیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں یہ ثابت کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختار کل اور عالم الغیب نہیں۔ مختار کل اور غیب کا علم جاننے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہی ذات ہے جس نے پہلے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا ہے۔ عقیدۂ توحید دین کی روح اور اس ک... ی بنیاد ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے قرآن مجید نے کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں سے استدلال کرکے عقیدۂ توحید کو واضح کیا ہے۔ سب سے پہلا توحید کے لیے جو استدلال پیش کیا گیا ہے وہ انسان کی تخلیق کے متعلق ہے۔ پہلی وحی میں فرمایا گیا کہ اس رب کے نام کے ساتھ پڑھیے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا سورة النساء آیت (١) میں ارشاد ہوا کہ لوگو ! اس رب کی نافرمانی سے بچو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا فرمایا۔ اس سے اس کی بیوی کو جنم دیا اور پھر دونوں سے بیشمار مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں۔ وہاں خَلَقَ اور یہاں جَعَلَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی پیدا کرنا اور بنانا ہے۔ پھر یہاں بیوی کے رشتے کی غرض وغایت بیان فرمائی کہ یہ رشتہ باہمی سکون کا باعث ہے۔ تاکہ باہم سکون حاصل کرتے ہوئے سلسلۂ تخلیق کی بنیاد بن سکے۔ ازدواجی تعلقات کے یہاں دو مقاصد بیان کیے ہیں۔ ١۔ میاں بیوی کے درمیان باہم اطمینان اور سکون کا رشتہ ہونا چاہیے جس کی تفصیل سورة الروم آیت ٢١ میں یوں بیان کی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اس نے مردوں کی جنس سے ہی ان کی بیویوں کو پیدا کیا تاکہ ان سے سکون حاصل کریں۔ اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی کا جذبہ قائم فرمایا ہے۔ سورۃ البقرۃ آیۃ ١٨٧ میں ازدواجی رشتہ کو ایک دوسرے کے لیے لباس قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ازدواجی زندگی میں چار باتیں ہونی چاہیں۔ ١۔ باہم اطمینان اور اعتماد۔ ٢۔ باہمی محبت۔ ٣۔ ایک دوسرے پر شفقت و مہربانی کرنا۔ ٤۔ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا۔ یہ وہ چار بنیادی تقاضے ہیں کہ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو گھر کی زندگی پر سکون، امن وامان اور محبت و مہربانی کا گہوارا بن سکتی ہے۔ یہاں تخلیق انسانی کی ابتدائی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے تَغَشّٰہَا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا معنیٰ ڈھانپ لینا ہے جو میاں بیوی کی صحبت اور تعلق کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں بیوی صاحب امید ہوتی ہے اور اس پر کچھ مہینے ایسے گزرتے ہیں جن میں وہ اپنے معمول کے مطابق زندگی گزارتی ہے لیکن جب مادۂ منویہ خون کے بعد لوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں روح پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد عورت محتاط ہونے کے ساتھ اپنے وجود میں دن بدن ایک بوجھ محسوس کرتی ہے امید کے یہ ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں میاں بیوی اپنے رب کے حضور مسلسل دعائیں کرتے ہیں کہ الٰہی ! ہمیں خوبصورت اور خوب سیرت بیٹا عنایت فرما۔ ہم تیرے شکر گزار بن کر رہیں گے لیکن جب انھیں صحت مند بیٹا عنایت ہوتا ہے تو پھر اپنے خالق ومالک کے ساتھ دوسروں کو شریک گردانتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ شرک سے مبرا اور ان باتوں سے بلند وبالا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کرتے ہیں۔ مشرک بتوں، فوت شدہ بزرگوں، چاند ستاروں فرشتوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور اس کی مخلوق ہیں اور پکارنے والوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ ان پر کوئی افتادآپڑے تو اپنے آپ کو بھی بچا نہیں سکتے لیکن اس کے باوجود مشرک اپنی اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک سمجھتے ہوئے پیراں دتہ، عبدالرسول، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اپنی اولاد کو ساتھ لے کر بتوں اور مزارات کا طواف کرتے اور ان کے لیے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ یہ پہلے زمانے کے لوگ بچہ پیدا ہونے کے موقعہ شرک کرتے تھے آج کل تو مشرک اس حد تک شرک میں آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ شادی کے بعد مزارات کے چکر لگاتے ہوئے صاحب قبر سے اولاد مانگتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس یعنی آدم سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ میاں بیوی کے درمیان سکون اور اطمینان کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اولاد دینے والا نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرک کے شرک سے مبرا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ صرف اکیلا خالق ہے باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی مالک اور خالق نہیں : ١۔ مخلوق اللہ کی ہے۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھاؤ۔ ( لقمان : ١١) ٢۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں گے تو اللہ ہی کا نام لیں گے۔ ( لقمان : ٢٥) ٣۔ یہ تمہارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں زمین و آسمان میں رزق دیتا ہے ؟ (الفاطر : ٢) ٥۔ تمہارا اللہ تمہارا رب ہے کیا اس کے سوا کوئی دوسرا خالق ہے ؟ (غافر : ٦٢) ٦۔ ہر چیز اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (یٰسین : ٨٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تفسیر آیات 189 تا 198:۔ عقیدہ توحید کے بارے میں ایک بار پھر اس کا آغاز قصے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ توحید سے شرک کی طرف انتقال میں کیا کیا مراحل پیش آتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے انحراف کے مراحل ہیں جو دین ابراہیم سے پھر کر موجودہ مشرکانہ عقائد و اعمال کے پیرو بن گئے ہیں۔ اور آ... خر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جن الہوں کی عبادت کرتے ہیں ، ان کی عبادت کس قدر بودا اور احمقانہ فعل ہے۔ پہلی نظر ہی میں اور معمولی غور و فکر کے بعد ہی نظر آجاتا ہے کہ ان کی سوچ و عمل باطل ہیں۔ اس فقرے کے آخر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان کو چیلنج دیں کہ یہ الہ آپ کا جو بگاڑنا چاہیں بگاڑ لیں اور آپ یہ بھی اعلان کردیں کہ میرا والی اور مددگا اللہ رب العالمین ہے۔ وہ میری نصرت کے لیے کافی ہے۔ ذرا ایک نظر ملاحظہ ہو۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ۔ فَلَمَّآ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ۔ اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ ۔ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَتَّبِعُوْكُمْ ۭ سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔ اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا ۭقُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے مگر جب اللہ نے ان کو ایک صیح وسالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ بہت بلندو برتر ہے۔ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ی سے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں۔ تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو ، دونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی ہے تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو ، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں " کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سنیں ؟ اے نبی ان سے کہو کہ "" بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو " میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ یہ جاہلیت اور اس کے تصورات کے ساتھ ایک ٹکر ہے ، جاہلیت جب اللہ وحدہ کی غلامی اور بندگی سے منحرف ہوجاتی ہے تو وہ ضلالت اور گمراہی کی حدوں کو پار کرلیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ تدبر اور غور و فکر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس ٹکڑے میں ان مراحل کی تصویر کشی کی گئی ہے جب ابتدائی طور پر انسان راہ انحراف اختیار کرتا ہے اور آخر کار مکمل گمراہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ ۔۔۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ یہ ہے فطرت جس کے مطابق اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو ، اور اللہ وحدہ کی ربوبیت کا اس طرح اعتراف کرے کہ اس میں کوئی اور شریک نہ ہو ، اور خوف اور رجا دونوں میں یہ اعتراف ہو۔ یہاں اللہ نے اس فطرت کی جس مثال کو بیان کیا ہے ، وہ تخلیق انسان سے شروع ہوتی ہے اور نظام تخلیق میں خاوند اور بیوی کے تعلق کی نوعیت کو لیا ہے۔ ھوالذی خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منہا زوجہا لیسکن الیہا۔ وہ اللہ ہی جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کی اور اس کی جسن سے اس کا جوڑ بنانا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ مرد اور عورت تخلیقی اعتبار سے ایک ہیں اس لیے انہیں نفس واحد کہا گیا ، اگرچہ مرد اور عورت کا فطری وظیفہ جدا جدا ہے۔ فرائض طبیعہ کا یہ اختلاف اللہ نے اسلیے پیدا کیا ہے تاکہ مرد عورت کے پاس سکون حاصلکرے اور وہ اس کے لیے راحت کا سبب ہو۔ انسان کی حققت کے بارے میں اسلام کا یہ تصور ہے اور زوجین کے باہم تعلق اور فرائض کے بارے میں اسلام یہ تاثر دیتا ہے۔ یہ ایک مکمل اور سچا تصور ہے ، جو صرف اسلام نے پیش کیا ہے۔ اور آج سے چودہ سو سال قبل پیش کیا گیا ہے جبکہ تحریف شدہ ادیان سماوی میں تصور یہ تھا کہ تمام انسانی مصائب کی ذمہ دار عورت ہے۔ اسے نجاست اور لعنت سمجھا جاتا تھا۔ اور گمراہی کا ایک خطرناک پھندا اسے کہا جاتا تھا اور ہر وقت یہ تلقین کی جاتی کہ اس سے ہر وقت خطرہ محسوس کیا جائے۔ جبکہ قدیم و جدید بت پرست ادیان اور تہذیبوں میں اس کا مقام کنڈم مال کا سا تھا یا اگر کہیں اسے کوئی رتبہ دیا جاتا تو وہ صرف یہ ہوتا کہ وہ مرد کی خادمہ ہے اور اس کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ زوجین کے ملاپ کا اصل مقصد ، اسلام میں یہ ہے کہ وہ باہم ملیں ، سکون حاصل کریں اور امن و محبت کی فضا میں آرام کی زندگی بسر کریں۔ تاکہ یہ کائنات اور گھر کے امن کی فضا میں بچے کے سر پر سایہ ہوں اور انسانیت کے قیمتی اثاثے کے لیے سہولت فراہم ہو۔ اور نئی نسل انسانی تہذیب و تمدن کی حامل بن کر اس امانت کو اگلی پشتوں تک منتقل کرنے کی اہل ہوسکے۔ اور اس میں مناسب اضافہ بھی کرسکے۔ اسلام نے زوجین کے اس مالپ کی غرض وغایت وقتی لذت اور عارضی جذبات کو قرار نہیں دیا ہے اور نہ اسے مرد اور عورت کے درمیان دشمنی اور نزاع تصور کیا ہے۔ نہ مرد اور عورت کے فرائض میں سے کسی ایک کو اہم قرار دے کر دوسرے کے ساتھ متعارض قرار دیا ہے۔ نہ عورت کو مرد کے فرائض کی دعویدار بنایا ہے اور نہ مرد کو عورت کے فرائض سپرد کیے ہیں جیسا کہ قدیم و جدید جاہلیت نے ان میں التباس کرنے کی سعی کی ہے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے الاسلام و مشکلات الحضارہ) یہاں مرد اور عورت کی پہلی ملاقات کے لیے قرآن کریم نے نہایت ہی لطیف و دقیق انداز بیان اختیار کیا ہے۔ تغاشاہا مرد نے عورت کو ڈھانک لیا۔ اس لفظ سے مباشرت کی تصویر کے ساتھ ساتھ امن و سکون کی فضا کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ بات کو دو جنسوں کے درمیان ملاپ کا رنگ دیا گیا ہے ، صرف اجسام کے ملاپ کا تصور نہیں دیا گیا تاکہ انسانی جنسی ملاپ اور جوانی جنسی ملاپ میں فرق و امتیاز بتایا جاسکے۔ اسی طرح حمل کی تصویر کشی بھی نہایت ہی اچھے پیرائے میں دی گئی ہے۔ ابتداء میں وہ نہایت ہی خفیف شکل میں ہوتا ہے اور بعد میں بوجھ بنتا ہے۔ حمل کا دوسرا درجہ بوجھل ہوتا ہے فلما اثقلت دعوا اللہ ربھما لئن اتیتنا صالحا لنکونن من الشکرین۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے اب اس دوسرے مرحلے میں حمل واضح ہوگیا ہے اور زوجین کے دل اس کے ساتھ اٹک گئے ہیں اور ان امیدوں کا وقت آگیا ہے کہ بچہ صحیح وسالم اور خوبصورت اور صالح ہو اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کی تمنا سب والدین ، اولاد کے بارے میں کرتے ہیں جبکہ وہ ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں جنین ہوتی ہے اور وہ عالم غیب میں ہوتی ہے۔ امید کے اس عالم میں انسانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ اور والدین اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، وہ اللہ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں اور اللہ وحدہ کے فضل و کرم کے امیدوار ہوتے ہیں ، کیونک انسانی فطرت کو ذاتی طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کائنات میں قوت ، نعمت اور فضل و کرم کا واحد سرچشمہ ذات باری ہے۔ چناچہ دعوا اللہ۔ دونوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اگر اس نے ہمیں صالح بچہ دیا تو ہم شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ فلما اتھما صالحا جعلا لہ شکراء فیما اتھما۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح وسالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ایک حقیقی واقعہ تھا۔ یہ واقعہ حضرت آدم اور حوا کو پیش آیا ، کیونکہ ان کے جو بچے پیدا ہو رہے تھے وہ بد شکل اور بگڑی ہوئی صورت کے ہوتے تھے۔ شیطان نے حضرت حوا کو اس طرح ورغلایا کہ اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس کا نام عبدالحارث رکھ دے۔ حارث ابلیس کا نام تھا۔ اس طرح یہ بچہ صحیح وسالم پیدا ہوگا۔ اس نے حضرت آدم کو بھی ورغلا کر ایسا ہی کہا۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت اسرائیلی طرز کی ہے۔ کیونکہ اسرائیلی اور یہودی تصور کے مطابق وہ آدم کے ورغلانے میں حوا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جب کہ اسلام اس تصور کو جڑ سے اکھاڑتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہودی اور عیسائی ادیان میں حقیقت سے انحراف کیا گیا ہے۔ ہمیں اس آیت کی تشریح میں اسی اسرائیلی روایات کی طرف کوئی احتیاج نہیں ہے۔ اس آیت میں در اصل ان انحرافات کی طرف اشارہ ہے جو نفس انسانی میں بتدریج راہ پاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اور آپ سے پہلے ادوار میں بھی یہ رواج تھا کہ مشرکین اپنے بچوں کی بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے یا گرجوں اور عبادت گاہوں کی خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ یہ کام وہ بطور تقرب الی اللہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں پہلے تو ان کی توجہ کا مرکز ذات باری ہوتی تھی کیونکہ توحید کے بلند مقام سے گرنے اور بت پرستی کے گڑھے میں نیچے چلے جانے کے بعد وہ اس قسم کی نذر و نیاز مختلف آستانوں پر گزارتے تھے تاکہ ان کے بچچے زندہ رہیں اور صحیح وسالم ہوں اور وہ خطرات سے دوچار نہ ہوں ، جس طرح آج بھی لوگ اپنے بچوں میں سے بعض کو اولیاء اور مذہبی شخصیات کے لیے وقف کرتے ہیں۔ مثلاً وہ بچوں کے بال اس وقت تک نہیں منڈواتے جب تک پہلی مرتبہ کسی ولی اور پاکباز شخص کی درگار پر نہ لے جائیں۔ ، بعض اوقات اس کا ختنہ بھی نہیں کرتے اور یہ ختنہ بھی کسی گدی اور درگاہ پر لے جا کر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ کلمہ پڑھ کر اللہ وحدہ لا شریک کو تسلیم کرتے ہیں اور اس اقرار اور اعتراف کے باوجود یہ مشرکانہ رجحانات رکھتے ہیں۔ غرض وہی لوگ اور وہی ان کے خیالات مشرکانہ : فتعلی اللہ عما یشرکون۔ اللہ بہت بلندو برتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یعنی وہ پاک ہے ان تصورات سے جو وہ اس کے بارے میں رکھتے اور ان باتوں سے جو اس کے حوالے سے وہ کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے دور جدید میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ انواع و اقسام کے شرک میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا زعم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور موحد ہیں اور ان لوگوں کے یہ جدید شرک اور بت پرستیاں بھی اسی شکل و صورت جیسی ہیں جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ آج لوگ اپنے لیے نئے نئے بت گھڑتے ہیں ، بعض اسے " قوم " کا نام دیتے ہیں ، بعض اسے " وطن " کا نام دیتے ہیں بعض اسے " شعب کا نام دیتے ہیں وغیرہ۔ یہ بھی بت ہیں لیکن یہ غیر مجسم بت ہیں یہ سابقہ بت پرستوں کی طرح سادہ اور مجسم بت نہیں۔ یہ بھی در اصل ان لوگوں کے خدا ہیں جو ان کو پوجتے ہیں۔ یہ ان بتوں کو اللہ کی تخلیق اور نذر و نیاز میں اسی طرح شریک کرتے ہیں جس طرح اسی سے قبل قدیم الہوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہ ان بتوں کی چوکھٹ پر اسی طرح قربانیاں دیتے ہیں جس طرح قدیم بتروں اور بت خانوں پر خون بہایا جاتا تھا۔ اور وسیع پیمانے پر بہایا جاتا تھا۔ اور وسیع پیمانے پر بہایا جاتا تھا۔ لوگ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ ان کا رب ہے ، لیکن وہ اللہ کے اوامرو احکام اور شریعت کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ان جدید غیر مجسم بتوں کے احکام اور قوانین کی وہ پوری طرح پابندی کرتے ہیں اور انہیں مقدس سمجھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں اللہ کے احکام و شرائع کو مکمل طور پر ترک کردیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ الہ نہیں ہیں ، اگر یہ شرک نہیں ہے ، اور لوگوں کی اولاد میں یہ لوگ شریک نہیں ہیں تو اور کیا ہیں۔ آخر جاہلیت جدید کی اس بت پرستی کو ہم کن الفاظ سے تعبیر کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ بت پرستی ہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جاہلیت قدیم اللہ کے معاملے میں زیادہ با ادب تھی۔ اس کا کہنا تو یہ تھا کہ ہم اپنی اولاد ، اپنی پیداوار اور اپنے مویشیوں میں ان الہوں کا حصہ اس لیے مقرر کرتے ہیں تاکہ ان ذرائع سے ہم اللہ کا قرب اور نزدیکی حاصل کرلیں۔ ان کے احساس و شعور میں ان بتوں اور الہوں سے اللہ بلند تھا۔ رہی جاہلیت جدیدہ تو اس کے احساس و شعور میں یہ غیر مجسم بت اللہ سے اعلی وارفع ہیں ، اس طرح کہ جاہلیت جدید اللہ کے احکام و شرائع کو ترک کر رہی ہے وار ان بتوں کے احکام و شرائع کو سینے سے لگا رہی ہے۔ ہم بت پرستی کے بارے میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ساری بت پرستی ہے جو قدیم زمانے کی طرح کوئی کسی بت کی طرف اشارہ کرے یا وہ مراسم ادا کرے جو بتوں کے حوالے سے قدیم زمانے کے لوگ کرتے تھے۔ دور جدید کی بت پرستی میں بتوں کی شکل و صورت اور ان کے سامنے مراسم ادا کرنے کی شکل اگرچہ بدل گئی ہے لیکن ان کی تہ میں جو شرک ہے وہ ہرگز نہیں بدلا اور وہ علی حالہ قائم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس حقیقت کو نوٹ کریں اور اس معاملے میں دھوکے کا شکار نہ ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورت عفت وقار اور شرافت کو اپنا زیور بنائے اور " وطن " کا حکم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لی عورت گھر سے نکل آئے اور جاہلیت کی زیب وزینت اختیار کرے۔ وہ عریاں ہو ، ہوٹلوں میں خادمہ کا کام کرے ، جس طرح بت پرست جاپان میں " جیثا " عورتیں کرتی ہیں لہذا کون الہ ہے جس کے احکام مانے جاتے ہیں ، اللہ کے احکام مانے جاتے ہیں یا الہ وطن اور الہ پیداوار کے۔ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ اجتماع کا مدار عقیدے پر ہونا چاہیے ، سوسائٹی کا مدار لا الہ پر ہو لیکن قومیت اور وطن کا حکم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی سے اسلام عقائد و تصورات کی نفی کی جائے اور سوسائٹی کا مدار قوم پرستی یا نسل پرستی پر ہو۔ یہاں بھی یہی سوال ہے کہ الہ کون ہے اللہ یا وطن اور نسل۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ اس کی شریعت کی پابندی ہوگی لیکن انسانوں میں سے ایک انسان ڈکٹیٹر اٹھتا ہے یا لوگوں کا ایک گروپ اٹھتا ہے (اسمبلی) کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ قانون تو اسمبلی کا چلے گا۔ اب آپ بتائیں کہ اسمبلی الہہ ہے یا اللہ جل شانہ الہ ہے۔ یہی وہ مثالیں ہیں جن کے مطابق پوری دنیا چل رہی ہے اور پوری انسانیت ان مثالوں سے متاعرف ہے اور گمراہ ہوچکی ہے اور یہ ہے اس وقت کی مروج اور چلتی ہوئی بت پرستی اور یہ ہیں آج کے بت۔ قدیم بتوں کے مقابلے میں یہ جدید بت سامنے آگئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ بت نظر نہیں آتے اور وہ سابقہ بت مجسم تھے ، نظر آتے تھے لیکن دونوں کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن کریم کا خطاب اس سادہ ببت پرستی سے تھا۔ قدیم جاہلیت سے جو بالکل واضح تھی۔ قرآن انہیں اس کم عقلی سے جگا رہا تھا۔ وہ انسان جیسی مخلوق کے شایان شان نہ تھی۔ چناچہ قرآن کریم نے ان کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے لیے ایسی مثال دی جس میں ان کی ذہنی کیفیات کو آشکارا کردیا۔ اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ ۔ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں۔ جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔ قرآن انہیں یہ سمجھاتا ہے کہ جو خالق ہے وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کی بندگی کی جائے اور جن الہوں کی وہ بندگی کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس جہاں کا خالق نہیں ہے بلکہ وہ خود مخلوق میں تو آخر کیا جواز ہے کہ یہ لوگ ان بتوں کی بندگی کرتے ہیں۔ کس لئے وہ اپنے نفوس اور اپنی اولاد میں ان بتوں کو کیوں شریک کرتے ہیں۔ تخلیق کی دلیل اور حجت جس طرح جاہلیت قدیمہ کے خلاف حجت تھی ، اسی طرح یہ جاہلیت جدیدہ کے خلاف بھی حجت ہے۔ جاہلیت جدید نے جو نئے بت تراشے ہیں ان میں سے کس بت نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے کہ وہ لوگ انہیں اپنی جان ، اپنی اولاد اور اپنے اموال میں شریک کرتے ہیں۔ پھر ان جدید بتوں میں سے کون بت ایسا ہے جو نفع و نقصان کا مالک بن سکتا ہے۔ اگر انسانی عقل اور سوچ کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ اس صورت حالات کو یکسر رد کردے اور کبھی اسے قبول نہ کرے۔ یہ تو لوگوں کی خواہشات اور میلانات اور خارجی گمراہی اور فریب کاری ہے کہ لوگ ان جدید بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ خارجی اثرات اور سازشیں ہیں کہ وہ لوگوں کو مرتد کرکے اس جدید جاہلیت کی طرف لوٹا رہی ہیں اور اس جدید شکل میں اسے شرک و بت پرستی میں مبتلا کر رہی ہیں۔ اس لیے لوگ ان بتوں کو پوجتے ہیں جو انہوں نے خود گھڑے ہیں (قوم ، نسل ، وطن) اور یہ بت لوگوں کے نفع و نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں۔ دور جدید کی انسانیت اسبات کی محتاج ہے کہ اسے قرآن کی تعلیمات سے مخاطب کیا جائے۔ جس طرح قدیم ادوار میں اس تک قرآنی تعلیمات پہنچائی گئی تھیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی قیادت کرکے اسے اسلام کی طرف لایا جاے۔ اسے اندھروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے۔ اور اس کے عقل و شعور کو اس جدید جاہلیت سے نجات دی جاے۔ اسے اس جدید فکری گندگی سے اسی طرح نجات دی جائے جس طرح آج سے صدیوں قبل اسلام نے انسانیت کو جات دی تھی۔ قرآن کریم نے قدیم جاہلیت کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ان میں یہ اشارہ بھی ہے کہ انسانوں میں سے بھی کسی کو الہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ذرا دوبارہ غور کریں۔ " کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں ، نہ آپ اپنی مدد پر ہی قادر ہیں " ان آیات کے صیغوں میں جمع مذکور کے صیغے اور ہم کی ضمیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان بتوں میں سے کچھ عقلا بھی تھے۔ یہ بات ہم نہیں کہ سکتے کہ عرب کچھ انسانوں کو بھی اپنا الہ اس معنی میں تسلیم کرتے تھے کہ وہ ان کی بندگی کرتے ہوں اور ان کے سامنے مراسم عبودیت بجا لاتے ہوں ، انسانوں کو وہ الہ اس معنی میں بناتے تھے کہ وہ اجتماعی امور میں ان کے رسم و رواج اور ہدایات کی اطاعت کرتے تھے اور اپنے نزاعات میں ان کے قوانین کے مطابق فیصلے کرتے تھے یعنی زمینی حاکمیت کے اعتبار سے قرآن کریم اسی عمل کو شرک کہتا ہے اور وہ اس معنوی بت پرستی اور ان کی مجسم بت پرستی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ دونوں شرک ہیں اور اسی معنی میں یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے مذہبی لیڈروں کو رب بنا رکھا تھا کہ وہ ان کے احکام و قوانین کو خدا کے احکام و قوانین کی طرح مانتے اور جانتے تھے جبکہ ان میں سے کوئی بھی خدا کی طرح ان کے سامنے مراسم عبودیت بجا نہ لاتا تھا لیکن قرآن نے ان کے اس فعل کو شرک اور خروج عن التوحید سے تعبیر کیا۔ اس توحید سے خروج جس کا ذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے کیا گیا ہے اور یہ تعبیر اس نکتے کے عین مطابق ہے جو ہم نے جاہلیت جدیدہ کے بارے میں اوپر بیان کیا۔ احادیث کے مطابق حضور نے آیات اتخذوا احبارم و ربانہم اربابا من دون اللہ کی یہی تعبیر فرمائی ہے۔ زوجین کے قصے کی شکل میں اوپر جس شرک کا ذکر کیا گیا تھا ، وہ در اصل ہر شرک کی بات تھی۔ ان لوگوں کو بت پرستی کے خلاف منظم کرنا مطلوب تھا ، جن کو قرآن مخاطب کر رہا تھا۔ اور ان کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ وہ جس بت پرستی میں مبتلا ہیں وہ نہایت ہی کمزور اور احمقانہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو الہ بنا رہے ہیں جو کسی چیز کی تخلیق نہیں کرسکتے بلکہ خود مخلوق ہیں ، نہ صرف یہ کہ وہ چیزیں تمہیں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتیں بلکہ وہ خود اپنے نفع و نقصان کی مالک ہی نہیں ہیں۔ خواہ یہ چیزیں زندہ انسان ہوں یا مردہ بت ہوں۔ یہ سب کی سب نہ تخلیق کرسکتی ہیں اور نہ کسی کی نصرت پر قادر ہیں۔ چونکہ قرآن کا مقصد اس تمثیل سے صرف یہی تھا ، اس لیے تمثیل کے بعد روئے سخن براہ راست مشرکین مکہ کی طرف مڑجاتا ہے اور حکایت کے اسلوب کو ترک کرکے اچانک خطاب شروع کردیا جاتا ہے۔ بات وہی سابقہ ہے ، پہلے تمثیل و قصہ تھا اور اب براہ راست خطاب ہے۔ ان الہوں کی حقیقت کے بارے میں۔ ۔۔۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بیان کیا۔ مشرکین عرب کی بت پرستی ایک سادہ بت پرستی تھی ، انسانی عقل کے ترازو میں بالکل بےوزن تھی ، اگرچہ یہ عقل نہایت ہی ابتدائی اور پتھرو کے دور کی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کریم عقل کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ ان بتوں کے بارے میں جن شرکیہ خیالات کو سچا سمجھتے ہیں یہ نہایت ہی کم عقلی کی دلیل ہے۔ ذرا اپنے بتوں کے بارے میں غور تو کرو ، بظاہر ان کے پاؤں چلنے کے قابل نہیں ہیں ، ان کے پاتھ پکڑنے والے نہیں ہیں۔ ان کی آنکھوں میں نظر نہیں ہے۔ ان کے کانوں میں قوت سماعت نہیں ہے جبکہ تمہارے پاس جو اعضاء ہیں ان میں یہ قوتیں موجود ہیں ، تو پھر تم ایسے بےجان اعضاء والے بتوں کی کیوں پوجا کرتے ہو ؟ بعض اوقات بت پرست یہ کہتے ہیں کہ ان بتوں سے ان کا اصل مدعا اشارہ ہے بعض رشتوں کی عزت یا آباء و اجداد کی طرح تو قرآن کہتا ہے کہ وہ بھی تو تمہاری طرح کے بندے ہیں اور اللہ کی مخلوق ہیں اور وہ خود کوئی چیز پیدا کرنے والے نہ تھے اور نہ ہیں اور نہ نفع و نقصان کے مالک ہیں اور نہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ چونکہ عرب بت پرستی میں ظاہری بت پرستی بھی تھی اور سابقہ انسانوں کی طرف اشارہ بھی تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے ان کے لیے ذوی العقول کے صیغے استعمال کیے اور یوں آدمیوں کی طرف خطاب کیا۔ ذوی العقول کی ضمیر میں اشارہ ان شخصیات کی طرف ہے جن کی طرف بتوں میں رمز تھا۔ کبھی تو براہ راست بتوں کی بات کی گئی اور کبھی عباد امثالکم کیا گیا۔ بہرحال دونوں طرز کا شرک اسلامی نظر میں باطل ہے۔ اور قرآن انسانیت کو اس ذلت سے نکالنے کے درپے ہے۔ اور اسے انسانیت کے شایان شان عقیدہ توحید کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ اس مباحثے اور نقد و جرح کے آخر میں اللہ تعالیٰ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرماتے ہیں کہ آپ ان کو چیلج کریں۔ ان لا چار خداؤں کو بھی چیلنج کریں اور ان کے سامنے واشگاف الفاظ میں اپنے صاف اور ستھرے نظریات رکھیں۔ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ اے نبی ان سے کہو کہ " بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ۔ میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں۔ بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ یہ ہے وہ بات جو ہر داعی کو کسی بھی جاہلیت کے سامنے کرنی چاہئے۔ اور یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کی جس طرح ان کے رب نے ان کو حکم دیا۔ اور اپنے دور میں آپ نے بت پرستوں اور ان کے بتوں کو اسی انداز میں چیلنج کیا۔ قل ادعوا شرکاء کم ثم کیدون فلا تنظرون۔ اے نبی ان سے کہو کہ بلا لو اپنے ٹھہراے ہوے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو ۔ آپ نھے اس تحدی کو ان کے اور ان کے بتوں کے منہ پر دے مارا اور فرمایا کہ میرے خلاف جو تدابیر تم کرسکتے ہو ، وہ کرو۔ جس قدر کرسکتے ہو ، کوئی کمی نہ چھوڑو ، مجھے کوئی مہلت نہ دو ، اور یہ تحدی آپ نے اس شخص کی طرح دی جسے اپنے مقصد پر یقین ہوتا ہے اور اپنے خالق اور الہ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور مخالفین کی سازشوں اور قوتوں کے مقابلے میں وہ اپنے خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ نے اعلان کردیا کہ وہ کس پر بھروسہ کرتے ہیں ، صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں جس نے کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب کے نزول سے معلوم ہوا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے۔ یہ کہ سچائی پر مشتمل اس کتاب کو رسول لوگوں کے سامنے پیش کریں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ وہ اس سچائی کو ہر باطل اور اہل باطل پر بلند اور غالب کردیں گے اور دعوت کے حاملین بندگان کی حفاظت اور ولایت وہ خود کریں گے جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ کے بعد ہر دور اور ہر علاقے میں دعوت کے حاملین کا یہی نعرہ اور یہ نصب العین ہوگا۔ اے نبی ان سے کہو " بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھ ہر گز مہلت نہ دو ، میر حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے ، ہر صاحب دعوت کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کے تکیوں اور بھروسوں پر اعتماد نہ کرے اور وہ دنیا کے بھروسوں کو کوئی اہمیت نہ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سہاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، وہ بہت ہی کچے سہارے ہوتے ہیں۔ اگرچہ دنیاوی سہارے نہایت ہی قوی ہوں اور بظاہر نہایت ہی طاقتور نظر آئیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : یا ایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا و لواجتمعوا لہ ان یسلبہم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب و المطلوب۔ لوگوں ایک مثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو ، وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہی کرسکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ مثل الذین اتخذوا من دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت اتخذت بیتا وان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لو کانوا یعلمون۔ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے ، جو اپنا گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزوسر گھر مکڑ کا گھر ہوتا ہے ، کاش کہ یہ لوگ علم رکھتے۔ غرض جو شخص اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے ، وہ بھرسہ بھی اللہ پر کرتا ہے لہذا اللہ کے سوا دوسرے سرپرستوں اور سہاروں کی حیثیت ہی کیا رہتی ہے۔ اور ایسے شخص کے شعور میں ان کی گنجائش کیا رہتی ہے۔ اگرچہ دوسرے لوگ داعی کو اذیت دینے پر بھی قدرت رکھتے ہوں داعی کو اگر کوئی اذیت دیتا ہے تو یہ بھی اذن الہی سے ہوتا ہے ، جو داعی کا والی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ داعی کی حمایت سے عاجز و لاچار ہوتا ہے اور نہ اس لیے کہ داعی کی حمایت سے اللہ تعالیٰ دست کش ہوگیا ہے۔ نہ یہ صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی مدد نہٰں کرسکتا۔ آخر اللہ تعالیٰ داعیوں کے مخالفین کو یہ مہلت اور اجازت کیوں دیا ہے کہ وہ اللہ کے دوستوں کو اذیت دیں ؟ ان کی تربیت کے لیے کھرے اور کھوٹے کو جدا کرنے کے لیے اور ان کو مجرب بنانے کے لیے۔ نیز اللہ کے دشمنوں کی رسی دراز کرنے کے لیے انہیں مہلت دینے کے لیے اور ان کے خلاف سخت ترین اقدامات اور تدابیر اختیار کرنے کے لیے اللہ ان کو ڈھیل دیتا ہے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مشرکین مکہ اذیت دے رہے تھے اور آپ کو جوتوں کے تلووں کے ساتھ مار رہے تھے۔ آپ کے چہرے پر انہوں نے اس قدر ضربات لگائیں کہ آپ کے چہرہ مبارک پر آنکھیں نظر ہی نہ آتی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کرہ ارض پر اس عظیم ترین ہستی پر اس قدر بےرحمانہ تشدد ہو رہا تھا لیکن اس پورے تشددد کے دوران آپ یہی کہتے رہے " اے اللہ آپ کس قدر حلیم ہیں ! اے اللہ آپ کس قدر حلیم ہیں " وہ دل جان سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس اذیت کے پیچھے رب کا حکم کام کرتا ہے۔ ان کو پورا یقین تھا کہ رب تعالیٰ عاجز نہ تھا کہ وہ اپنے ان دشمنوں کو تہس نہس کردے۔ نیز ان کو یہ یقین بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی بےسہارا نہیں چھوڑتا۔ جب مشرکین نے حضرت عبداللہ ابن مسعود پر تشدد کیا اور یہ تشدد انہوں نے محض اس لیے کیا کہ انہوں نے کعبہ کے سائے میں ، مشرکین کی ایک محل کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی تھی۔ انہوں نے اسے اس قدر مارا کہ ان کا سر چکرانے لگا اور ان کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ اس سنگدلانہ تشدد کے بعد وہ کہتے " خدا کی قسم کہ یہ لوگ میرے لیے اس وقت سے زیادہ کبھی بھی قابل برداشت اور آسان نہ تھے " آپ کو علم تھا کہ یہ اللہ کے دشمن تھے اور ان کو یہ بھی یقنی تھا کہ اللہ کا دشمن ایک مومن کے لیے بہت ہی آسان اور خفیف ہوتا ہے۔ لہذا اللہ کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کو خاطر ہی میں نہ لائیں۔ حضرت عبداللہ ابن مظعون عتبہ ابن ربیعہ مشرک کی پناہ میں تھے انہوں نے اپنے آپ کو عتبہ کی پناہ سے نکال دیا۔ کیونکہ وہ پسند نہ کرتے تھے کہ وہ عتبہ کی مشرکی پناہ میں مزے سے رہیں اور دوسرے مسلمانوں پر تشدد جاری ہو ، جب انہوں نے عتبہ کی پناہ کو حقارت سے پھینک دیا تو مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے ان پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہوگئے۔ عتبہ دیکھتے تھے کہ ان پر یہ تشدد ہو رہا ہے اور ان کو دعوت دیتے تھے کہ وہ دوبارہ اس کی پناہ میں آجائیں۔ انہوں نے کہا " میں ایک ایسی ذات کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ طاقتور ہے " عتبہ کہتا " اے بھائی تمہاری آنکھ اس سے مستغنی اور محفوظ تھی جو اذیت اسے پہنچی۔ تو وہ جواب دیتے۔ ہر گز نہیں خدا کی قسم ! میری دوسری آنکھ بھی اس بات کی متمنی کہ اسے بھی اللہ کے راستے میں وہ کچھ پہنچے جو اس کے لیے بہتر ہو۔ وہ جانے تھے کہ اللہ کی پناہ بندوں کی پناہ سے زیادہ طاقتور ہے۔ ان کو یقین تھا کہ رب تعالیٰ ہر گز انہیں بےسہارا نہ چھوڑیں گے۔ اگرچہ وہ نفس کو سربلند کرنے اور آزمانے کے لیے ان مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ کیا خوب کہا " خدا کی قسم میری دوسری آنکھ بھی اس صورت حال کی مستحق ہے جو اس کے لیے اللہ کے راستے میں بہتر ہو۔ یہ ہیں مثالیں اس گروہ کی جنہوں نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدرسہ میں تربیت پائی۔ اور اللہ کی ان ہدایات کے سائے میں پلے۔ اے نبی ان سے کہہ دو کہ بلالو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ، پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو ، اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ، میرا حامی اور ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس تشدد کا نتیجہ کیا تھا ؟ انہوں نے مشرکین کی جانب سے یہ تشدد برداشت کیا۔ انہوں نے اللہ پر بھروسہ کیا ، جس نے کتاب نازل کی تھی اور جو نیک بندوں کا حامی تھا۔ تاریخ اس نتیجے سے اچھی طرح واقف ہے۔ مسلمانوں کو غلبہ ، عزت اور شوکت نصیب ہوئی کیونکہ وہ اللہ کے دوست تھے۔ ہزیمت ، شکست اور ہلاکت و بربادی ان لوگوں کے حصے میں آئی جو نیک لوگوں کے دشمن تھے اور طاغوت تھے اور ان میں سے جن لوگوں کے نصیب میں ایمان لانا مقدر تھا ، وہ ایمان لے آئے اور ان سابقین اولین کے تابع ہوگئے۔ جنہوں نے خود ان کے ہاتھوں تکالیف اٹھائی تھیں۔ لیکن ان کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کو چیلنج کریں تو آپ نے ان کو چیلنج دے دیا اور حکم دیا کہ آپ ان کے الہوں کی کمزوری اور عاجزی کو ان الفاظ میں بیان کریں اور آپ نے اس کی تعمیل فرمائی۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں۔ بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ اگر یہ موقف عربوں کی سادہ جاہلیت پر پوری طرح منطبق تھا ، تو آج کی جدید اور نظریاتی جاہلیت پر بھی اسی اعلان اور موقف کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ جدید مشرکین بھی در اصل اللہ کے سوا دوسرے لوگوں کو اپنا ولی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے ہاتھوں میں دنیا کا اقتدار ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ان سرکشوں اور فرعونوں کے اندر اس کی قدر قوت نہیں ہوتی کہ وہ ان کی کوئی امداد کرسکیں۔ اور اللہ کی تقدیر اور اس کی سنت اپنے بندوں کے بارے میں اپنے مقررہ طریقے پر چلتی رہی ہے۔ عربوں کے مصنوعی الہ اپنی سادہ شکل میں سنتے نہ تھے حالانکہ ان کی دھاتوں یا موتیوں کی بنی ہوئی آنکھیں تھیں ، تو دور جدید کے بعض الہ بھی نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ الہ وطن بھی اندھا ہے اور الہ القوم بھی بہرا ہے۔ اور الہ پیداوار بھی گونگا بہرا ہے۔ اور ان کے بارے میں بھی تاریخ کا فیصلہ اٹل ہوگا۔ جدید دور کے الہوں سے صرف وہ الہ سنتے اور سمجھتے ہیں جو انسانوں میں سے ہیں ، جنہیں اقتدار دیا گیا ہے اور جو اللہ حقیقی کے مقابلے میں قانون سازی بھی کرتے ہیں اور اس کے احکام کے بعکس احکام بھی صادر کرتے ہیں ، تو یہ اللہ بھی در حقیقت نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے کہہ دیا ہے۔ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ ہر داعی کو ہی ایک صورت حال پیش آتی ہے۔ تمام جاہلیتوں کے مقابلے میں اسے ایک ہی جیسے حالات سے سابقہ پڑتا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ ہر جاہلیت کو وہی چیلنج دے جو اللہ نے نبی آخر الزمان کو بتایا۔ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ اے نبی ان سے کہو کہ "" بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو " میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ غرض یہ الہ اب وہی ہیں جو مکہ میں تھے ، ہر دور اور ہر مقام پر در اصل یہ وہی کچھ ہیں اور ان کو اسی قسم کا چیلنج درکار ہے جو حضور نے بحکم خدا دیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بیوی قلبی سکون کے لیے ہے ان آیات میں اول تو اللہ جل شانہٗ نے اولاد آدم کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا۔ پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا۔ پھر جب انہوں نے تنہائی محسوس کی اور طبعی طور پر انس و الفت کی ضرورت محسوس کرنے لگے تو ان کی بائیں پسلی سے ان کا جوڑا پیدا فرما دیا۔ جس کا نام حواء تھا۔ اس جوڑ... ے کی ضرورت ظاہر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا) تاکہ وہ اپنے جوڑے کے پاس قرار پکڑے۔ تھکا ماندہ اپنے گھر آئے تو اپنے گھر کو آرام کی جگہ پائے۔ سورۂ روم میں فرمایا (وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ) (اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا فرما دی۔ بلاشبہ اس میں فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) ۔ سورة اعراف میں (لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا) فرمایا۔ اور سورة روم میں (لِیَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا) فرمایا۔ معلوم ہوا کہ انسان کی ازدواجی زندگی کا مقصد اصلی یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مانوس ہو اور زندگی پر سکون ہو۔ آپس میں محبت اور ہمدردی کے تعلقات ہوں۔ بہت سے مرد عورتوں کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں اور بہت عورتیں مرد کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں۔ یہ ازدواجی مقصد کے خلاف ہے۔ جن میاں بیوی میں تلخی ہو وہاں سکون کہاں اور یہ سکون وہیں ہوسکتا ہے جبکہ خلاف طبع امور میں فریقین تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ نکاح کرتے وقت اچھی طرح دیکھ بھال کر نکاح کریں۔ مال اور حسن و جمال ہی کو نہ دیکھیں۔ فریقین کی دین داری اور خوش خلقی کو بھی دیکھیں اور یہ بھی دیکھیں کہ آپس میں جوڑ بیٹھے گا یا نہیں ؟ دونوں محبت و الفت کی راہ پر چل سکیں گے یا نہیں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغام لائے جس کے دین اور اخلاق کو پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردینا اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور (لمبا) چوڑا فساد ہوجائے گا۔ (رواہ الترمذی ) حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت والی ہو جس سے اولاد زیادہ پیدا ہو کیونکہ میں تمہاری کثرت پر دوسری امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا۔ (رواہ ابو داؤد) دونوں میاں بیوی محبت کے ساتھ رہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق پہچانیں اور ایک دوسرے کی رعایت کریں، ناگواریوں سے درگزر کرتے رہیں۔ یہی اسلم طریقہ ہے اور اس میں سکون ہے۔ میاں بیوی آپس میں کس طرح زندگی گزاریں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مومن بندہ (اپنی) مومن (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی کوئی خصلت نا گوار ہوگی تو دوسری خصلت پسند آجائے گی۔ (رواہ مسلم ص ٤٧٥ ج ١) نیز حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ کسی بھی طریقہ پر تیرے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی اگر تجھے اس سے نفع حاصل کرنا ہے تو اس صورت میں حاصل کرسکتا ہے کہ اس کا ٹیڑھا پن باقی رہے اور اگر تو اسے سیدھی کرنے لگے گا تو توڑ دے گا، اور اس کا توڑ دینا طلاق دینا ہے۔ (رواہ مسلم ص ٤٧٥ ج ١) نیز حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اہل ایمان میں سے سب سے زیادہ کامل لوگ وہ ہیں جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں اور تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے سب سے بہتر ہیں۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو چار چیزیں دے دی گئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی دے دی گئی۔ (١) شکر گزار دل (٢) ذکر کرنے والی زبان (٣) تکلیف پر صبر کرنے والا بدن (٤) اور ایسی بیوی جو اپنی جان میں اور شوہر کے مال میں خیانت کرنا نہ چاہتی ہو۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عصمت محفوظ رکھے اور اپنے شوہر کی فرمانبر داری کرے (جو شریعت کے خلاف نہ ہو) تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہوجائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٨١) یہ چند احادیث جو ہم نے ذکر کی ہیں ان میں آپس کی محبت اور حسن معاشرت کے ساتھ زندگی گزارنے کے اصول بتا دیئے ہیں ان پر عمل کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ دونوں میاں بیوی سکھ سے رہیں گے اور میاں بیوی بننے کا جو کیف اور سرور ہے اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اور زندگی بھر محبت کے ساتھ نباہ ہوتا رہے گا۔ میاں بیوی میں جو بھی بد اخلاق ہوتا ہے دوسرے کے لیے مصیبت بن جاتا ہے جو مقصد نکاح کے خلاف ہے۔ جَعَلَالَہٗ شُرَکَآءَ فِیْمَآ اٰتَاھُمَا سے کون مراد ہے ؟: یہ بیان فرمانے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا مشرکین کا حال بیان فرمایا جو اولاد کی وجہ سے شرک کی صورتیں اختیار کرلیتے ہیں، ارشاد فرمایا (فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ) جب مرد نے عورت کو ڈھانکا یعنی قربت اور مباشرت کی تو حمل رہ گیا، ابتداءً یہ حمل خفیف اور ہلکا ہوتا ہے جسے پیٹ میں لے کر عورت آسانی سے چلتی پھرتی ہے۔ (فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَءِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ) (جب حمل کی وجہ سے عورت بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے دعاء کرنے لگے کہ اگر آپ نے ہمیں صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے) (فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَالَہٗ شُرَکَآءَ فِیْمَآ اٰتٰھُمَا) (پھر جب ان کے رب نے انہیں صحیح سالم بھلا چنگا بچہ عطا فرما دیا تو اللہ کی اس بخشی ہوئی چیز میں اللہ کے لیے شریک بنانے لگے) (فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) (سو اللہ ان کے شرک سے برتر ہے) اس میں کن لوگوں کے شرک کا بیان ہے اس کے بارے میں بعض روایات میں یوں ملتا ہے کہ جیسے شروع آیت میں حضرت آدم اور حضرت حوا ( علیہ السلام) کا ذکر ہے اسی طرح سے (فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا) سے لے کر (فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) تک بھی انہیں میاں بیوی کا ذکر ہے اور وہ یہ کہ شیطان کے بتانے سے حضرت حواء نے اپنے ایک بچہ کا نام عبدالحارث رکھ دیا تھا اس سے پہلے بچے زندہ نہیں رہتے تھے۔ ابلیس نے کہا کہ اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام عبدالحارث رکھنا۔ اس طرح وہ زندہ رہے گا۔ مفسر ابن کثیر (رض) نے اول تو اس قصہ کو مرفوعاً نقل کیا ہے پھر ابن جریر کے حوالہ سے اس کو حدیث موقوف بتایا ہے اور موقوف ہونے کے بعض شواہد پیش کیے ہیں پھر لکھا ہے کہ یہ روایت موقوف ہے صحابی کا قول ہے ممکن ہے کہ صحابی (سمرہ بن جندب) نے بعض اہل کتاب سے یہ بات حاصل کی ہو جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے جیسے کعب احبار اور وہب بن منبہ (رح) اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی کچھ اس طرح منقول ہے کہ حضرت آدم و حواء ( علیہ السلام) نے اپنے بچہ کا نام عبدالحارث رکھ دیا تھا مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ سب اہل کتاب کے آثار سے لیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی بات درست ہے کیونکہ آیت میں تثنیہ کا صیغہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں کا ذکر ہے اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے شرک خفی یا جلی کا صدور نہیں ہوسکتا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت کا مطلب کیا ہے اور اس میں کن لوگوں کا حال بیان کیا ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت حسن (بصری) سے منقول ہے کہ اس سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد عطا فرمائی تو ان کو یہودی اور نصرانی بنا دیا مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں : و ھو من احسن التفاسیر و اولیٰ ما حملت علیہ الآیۃ (کہ یہ سب سے اچھی تفسیر ہے اور آیت کو اس پر محمول کرنا اولیٰ ہے) تفسیر درمنثور ص ١٥٤ ج ٢ میں حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہ بات نقل کی ہے کہ شرک کرنے والی بات حضرت آدم (علیہ السلام) سے متعلق نہیں ہے ان کے لفاظ یہ ہیں : عن ابن عباس قال ما اشرک آدم ان اولھا شکر و آخرھا مثل ضربہ لمن م بعدہ۔ یعنی حضرت آدم نے شرک نہیں کیا ان کے بارے میں آیت کا اول حصہ ہے جس میں شکر کا بیان ہے اور بعد کے حصہ میں ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جو ان کے بعد آئے (اور شرک اختیار کیا) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

185: یہ دوسرے دعوی سے متعلق ہے یعنی اولاد کے لیے غیر اللہ کی نذریں نیازیں دیتے ہیں۔ مفسرین کے نزدیک “ نَفْسٍ وَّاحِدَةً ” حضرت آدم (علیہ السلام) مراد ہیں۔ ان آیتوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے بعض لوگ اس کو حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ایک روایت سے تمسک کرتے ہیں۔ محققین ن... ے اس روایت کو غیر معتبر اور اسرائیلیات سے قراردیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ “ فَلَمَّا تَغَشّٰھَا ” سے روئے سخن بنی آدم کی طرف ہوگیا ہے اور تثنیہ کے صیغوں سے اولاد آدم میں سے مشرک خاوند بیوی مراد ہیں کہ وہ پہلے تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کے گھر میں صحیح اور تندرست بیٹا پیدا ہوا اور وہ اس کا شکر ادا کریں گے لیکن جب اللہ ان کو فرزند نرینہ عطا کردیتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں کہ یہ بیٹا تو ان کو فلاں بزرگ کی برکت سے ملا ہے۔ پھر اسی بزرگ کی نذر و نیاز دیتے ہیں اور بعض اس کا نام بھی مشرکانہ ہی تجویز کرتے ہیں۔ مثلاً عبد ود، عبد یغوث، عبدالعزی، پیراں دتہ، نبی بخش، علی بخش، حسین بخش وغیرہ۔ “ و قال قوم ان ھذا راجع الی جنس الادمیین والتبیین عن حال المشرکین من ذریة اٰدم علیه السلام وھو الذي یعول علیه۔ فقوله جَعَلَا لَهٗ یعنی الذکر والانثی الکافرین الخ ”(قرطبی ج 7 ص 339) لیکن حضرت شیخ (رح) کے یہاں “ نفس واحدة ” سے مرد مراد ہے اور “ مِنْھَا ” سے “ من جنسھا ” مراد ہے یعنی تم سب کو اپنے اپنے باپ سے پیدا کیا اور اس کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں “ اي من جنسھا کما فی قوله سبحانه جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا فمن ابتدائیة ”(روح) اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً “ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا ” (نحل رکوع 10) اور “ وَمِنْ اٰیٰتِهٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا ” (روم رکوع 3) ۔ اس طرح آیت میں آدم و حوا (علیہما السلام) کا ذکر نہیں ہے بلکہ شروع ہی سے مطلق خاوند بیوی کا ذکر ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

189 وہ اللہ تعالیٰ وہ ہے اور اس کی شان ایسی ہے جس نے تم کو نفسِ واحدہ اور ایک جاندار سے پیدا کیا یعنی سب کو حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی جاندار سے اس کا جوڑا بنایا یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے ان کی بیوی حواؔ کو نکالا تاکہ وہ آدم (علیہ السلام) اس سے سکون و اطمینان حاصل کرے جیسا کہ عا... م طور پر مردو عورت میں باہمی انس ہوتا ہے پھر جب مرد عورت سے ہم بستر اور ہم فراش ہوا تو عورت کو حمل ہوگیا جو ابتدائً ہلکا سا تھا کہ وہ اس حمل کو لئے ہوئے ہر طرف چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ زیادہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ تعالیٰ سے جو ان کا رب ہے یوں دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم بچہ عنایت فرمایا اور صحیح اولاد عطا فرمائی تو یقیناً ہم تیرا احسان مانیں گے اور خوب شکر گزار رہیں گے۔  Show more