Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 190

سورة الأعراف

فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا ۚ فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۹۰﴾

But when He gives them a good [child], they ascribe partners to Him concerning that which He has given them. Exalted is Allah above what they associate with Him.

سو جب اللہ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

we shall indeed be among the grateful. But when He gave them a Salih child, they ascribed partners to Him (Allah) in that which He has given to them. High be Allah, Exalted above all that they ascribe as partners to Him. Ibn Jarir recorded that Al-Hasan commented on this part of the Ayah, جَعَلَ لَهُ شُرَكَاء فِيمَا اتَاهُمَا (they ascribed partners to Him (Allah) in that which He has given to them), "This occurred by followers of some religion, not from Adam (or Hawwa)." Al-Hasan also said, "This Ayah refers to those among the offspring of Adam who fell into Shirk, جَعَلَ لَهُ شُرَكَاء فِيمَا اتَاهُمَا (they ascribed partners to Him (Allah) in that which He has given to them)," Qatadah said, "Al-Hasan used to say that it refers to the Jews and Christians. Allah gave them children, and they turned them into Jews and Christians." The explanations from Al-Hasan have authentic chains of narration leading to him, and certainly, it is one of the best interpretations. This Ayah should therefore be understood this way, for it is apparent that it does not refer to Adam and Hawwa, but about the idolators among their offspring. Allah mentioned the person first (Adam and Hawwa) and then continued to mention the species (mankind, many of whom committed Shirk). There are similar cases in the Qur'an. For such cases, Allah said وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَأءَ الدُّنْيَا بِمَصَـبِيحَ And indeed We have adorned the nearest heaven with lamps. (67:5) It is well-known that the stars that were made as lamps in the sky are not the same as the shooting missiles that are thrown at the devils (mentioned later in the Ayah). There are similar instances in the Qur'an. Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

190۔ 1 شریک قرار دینے سے مراد یا تو بچے کا نام ایسا رکھنا ہے، مثلاً امام بخش، پیراں دیتا، عبدالشمس، بندہ علی وغیرہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بچہ فلاں بزرگ، فلاں پیر کی (نعوذ باللہ) نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ یا پھر اس اپنے عقیدے کا اظہار کرکے کہ ہم فلاں بزرگ فلاں قبر پر گئے تھے جس کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوا ہے، جو بدقسمتی سے مسلمان عوام میں بھی عام ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ شرک کی تردید فرما رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٩] اولاد کے بارے میں شرکیہ افعال :۔ ترمذی میں ایک روایت آتی ہے کہ && آدم و حوا (علیہما السلام) کے ہاں جو بچے پیدا ہوتے وہ مرجاتے تھے کیونکہ وہ کمزور الخلقت ہوتے تھے۔ ایک دفعہ جب سیدہ حوا (علیہا السلام) کو حمل ہوا تو آدم و حوا (علیہا السلام) دونوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر تندرست بچہ پیدا ہوا تو ہم اللہ کے شکر گزار ہوں گے۔ اسی دوران شیطان نے حوا (علیہا السلام) کو پٹی پڑھائی کہ اگر وہ اس ہونے والے بچے کا نام عبدالحارث رکھیں تو ان کا بچہ یقیناً تندرست ہوگا اور زندہ رہے گا۔ حارث دراصل ابلیس کا نام تھا اور جن دنوں وہ فرشتوں میں ملا ہوا تھا اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔ چناچہ حوا (علیہا السلام) نے شیطان سے اس بات کا وعدہ کرلیا اور سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بھی اس بات پر راضی کرلیا۔ اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے تین وجہ سے معلول قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا قصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے نیز قرآن ہی کے الفاظ سے یہ قصہ کئی وجوہ سے باطل قرار پاتا ہے اور وہ یہ ہیں :۔ ١۔ ( جَعَلاَلَہُ شُرَکَاءَ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا شریک صرف ایک شیطان ہی نہیں بنایا گیا بلکہ یہ شریک ایک جماعت یا کم از کم دو سے زیادہ ہیں۔ ٢۔ (عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شرک کرنے والے دو (آدم و حوا علیہا السلام) نہ تھے بلکہ یہ بھی ایک جماعت ہے۔ ٣۔ اگر شیطان کو ہی شریک بنایا تھا تو اس کے لیے من آنا چاہیے تھا جو ذوی العقول کیلئے آتا ہے حالانکہ یہاں ( مَالاَیَخْلُقُ ) کے الفاظ ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہا السلام) کو سب نام سکھلا دیئے تھے اگر ابلیس یا شیطان کا کوئی نام حارث بھی ہوتا تو وہ آپ کو ضرور معلوم ہونا چاہیے تھا کیونکہ اسی سے تو براہ راست آپ کی دشمنی ٹھن گئی تھی۔ علاوہ ازیں کسی بھی سند صحیح سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سیدنا آدم (علیہا السلام) کے کسی بیٹے کا نام عبدالحارث بھی تھا۔ اس آیت کے مخاطب دراصل مشرکین مکہ ہیں۔ ابتداء میں سیدنا آدم و حوا (علیہا السلام) کا ذکر ضرور ہے مگر بعد میں روئے سخن دور نبوی کے مشرکین کی طرف مڑ گیا ہے جن کی عادت تھی کہ جب بچہ پیٹ میں ہوتا تو اس کی سلامتی اور تندرست و صحیح سالم بچہ پیدا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی سے دعائیں کیا کرتے تھے لیکن جب صحیح وسالم بچہ پیدا ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ کے اس عطیہ میں دوسروں کو بھی شکریے کا حصہ دار ٹھہرا لیتے تھے اور ان کے نام ایسے ہی رکھ دیتے جن میں شرک پایا جاتا مثلاً عبدالشمس، عبدالعزّٰی & عبد مناف وغیرہ اور نذریں نیازیں بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھایا کرتے تھے۔ یہ حالت تو دور نبوی کے مشرکین کی تھی۔ مگر آج کے دور کے مشرکین جو خود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان مشرکوں سے چار ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ یہ اولاد بھی غیروں سے مانگتے ہیں حمل کے دوران منتیں بھی غیروں کے نام ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر جا کر چڑھاتے ہیں اور نام بھی مشرکانہ رکھتے ہیں جیسے پیراں دتہ، پیر بخش وغیرہ۔ پھر بھی یہ موحد کے موحد اور مسلمان کے مسلمان ہی رہتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In short, all the above acts or beliefs are different forms of &Shirk& ~,. and the worst kind of ungratefulness to Allah, their Lord. The last sentence of this verse confirms misguidance of such people by saying: فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ |"So far beyond is Allah than what they associate with Him.|" The above interpretation of this verse has made it clear that by referring to the Prophet &Adam and Hawwa& (Eve) (علیہما السلام) in the first sentence of this verse, the children of &Adam have been asked to follow him and show their gratefulness to Allah, while the rest of the verse speaks of the misguidance and perversion of their descendants who, instead of being grateful to their Lord ascribed partners to Him. This makes it clear that the Prophet &Adam and Hawwa& (علیہما السلام) have nothing to do with those who ascribed partners with Allah. The verse refers to the generations coming after them who were ungrateful to Allah and involved themselves in Shirk. We have adopted this interpretation on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) reported by Ibn al-Mundhir and Ibn Abi Hatim, in Tafsir al-Durr al-Manthur. The story related by Tirmidhi and Hakim about &Adam and Hawwa& being deceived by Shaitan has been taken by some scholars as an unauthentic Israelite report which is liable to be rejected. Many Mulhaddithin, the scholars in Hadith have, on the other hand, confirmed it. The above interpretation, however, clears away any possible doubt even if the story is taken to be authentic. The above verse has provided us with the following points of signif¬icant value. 1. The men and women have been created in the same species in order that they may have a natural affinity and perfect understanding with each other, and discharge their duties towards the construction of a good society. Havoc caused by immodesty 2. The rights and obligations assigned to the married couple basi¬cally aim at providing a peaceful environment at home. There are many social behaviours of modern age that are directly opposed to the above objective of creating a peaceful atmosphere. For example, the so called freedom of woman has caused havoc to social peace. The alarming number of divorces and serious altercations are mostly the result of free mixing of men and women in society. By experience we know that the growth of immodest practices in society is proportional to the destruction of social values and deprives man of peace at home and in the society. 3. The third point refers to the naming of one&s children. It is prohibited to give names to the children like ` Abdul Shams (The slave of the Sun) or ` Abd al ` Uzza (The slave of ` Uzza) which purport to assign them to entities other than Allah. Giving such names is prohib¬ited even if parents do not really mean it. This practice is a great sin in Islam. 4. The best way of offering our gratitude to Allah is to name our children after the good names of Allah and His Messenger. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, therefore, recommended the names like ` Abd ur Raliman, and ` Abdullah etc. It is a pity that, one by one, we are depriving ourselves of all the Islamic manners and values. Firstly, we give our children non Islamic names simply following the fashion of the non-Islamic cultures. In addition, we find that most of the parents abbreviate the names of their children into English initials which makes it all the more diffi¬cult to distinguish them as Muslims. specially so, when we have worn the appearance of the non-Muslims, altogether. May Allah favour us with the real understanding of Islam and Islamic values.

تیسری آیت کے آخر میں ان لوگوں کی بےراہی اور کجروی کو واضح کرنے کیلئے فرمایا (آیت) فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی پاک ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے جس کو ان لوگوں نے اختیار کیا۔ آیات مذکورہ کی اس تفسیر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت کے پہلے جملہ میں حضرت آدم و حواء کا ذکر کرکے اولاد آدم کو ان کے اتباع اور شکر گزری کی تعلیم دی گئی ہے، اور آخری جملوں میں بعد کی آنے والی اولاد آدم کی گمراہی اور کجروی کا بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بجائے شکر گزاری کے شرک کو اختیار کرلیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرک اختیار کرنے والوں کے معاملہ کا تعلق حضرت آدم و حواء سے مطلق نہیں جس کے سبب حضرت آدم (علیہ السلام) کی عصمت پر کوئی شبہ ہو، بلکہ اس کا تعلق بعد کی آنے والی نسلوں کے عمل سے ہے، اور یہ تفسیر جو ہم نے اخیتار کی ہے تفسیر درمنثور میں بروایت ابن المنذر و ابن ابی حاتم مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے۔ ترمذی اور حاکم کی روایات میں جو ایک قصہ حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) کا اور شیطان کے فریب دینے کا مذکور ہے اس کو بعض نے اسرائیلی روایات قرار دے کر ناقابل اعتماد بتلایا ہے لیکن بہت سے محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے، متذکرہ تفسیر پر اگر اس قصہ کی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی آیت کی تفسیر میں کوئی اشکال و شبہ باقی نہیں رہتا۔ اس آیت سے چند احکام و فوائد حاصل ہوئے : اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عورت و مرد کے جوڑے کو ہم جنس بنایا تاکہ طبعی موافقت اور پورا انس ایک دوسرے کے ساتھ حاصل ہوسکے اور ازدواجی زندگی سے جو تعمیر عالم کے فوائد وابستہ ہیں وہ پوری طرح انجام پاسکیں۔ دوسرے یہ کہ ازدواجی زندگی کے جتنے حقوق و فرائض زوجین پر عائد ہوتے ہیں ان سب کا خلاصہ اور اصل مقصد سکون ہے، دنیا کی نئی معاشرت اور نئی رسموں میں جو چیزیں سکون کو برباد کرنے والی ہیں وہ ازدواجی تعلق کی بنیادی دشمن ہیں، اور آج کی مہذب دنیا میں جو گھریلو زندگی عموما تلخ نظر آتی ہے اور چار طرف طلاقوں کی بھرمار ہے، اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ معاشرت میں ایسی چیزوں کو مستحسن سمجھ لیا گیا ہے جو گھریلو زندگی کے سکون کو سراسر برباد کرنے والی ہیں، عورت کی آزادی کے نام پر اس کی بےپردگی اور بےحیائی جو طوفان کی طرح عالمگیر ہوتی جاتی ہے اس کو ازدواجی سکون کے برباد کرنے میں بڑا دخل ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ جوں جوں یہ بےپردگی اور بےحیائی عورت میں بڑھتی جاتی ہے اسی رفتار سے گھریلو سکون و اطمینان ختم ہوتا جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ بچوں کے ایسے نام رکھنا جن سے مشرکانہ مفہوم لیا جاسکتا ہو، چاہے نام رکھنے والوں کی نیت یہ نہ ہو، وہ بھی ایک مشرکانہ رسم ہونے کے سبب گناہ عظیم ہے جیسے عبد الشمس عبد العزی وغیرہ نام رکھنا۔ چوتھے یہ کہ بچوں کے نام رکھنے میں بھی اداء شکر کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے نام اللہ و رسول کے ناموں پر رکھے جائیں، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد الرحمن، عبداللہ وغیرہ کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔ افسوس ہے کہ آج مسلمانوں میں سے یہ رہی سہی اسلامی رسم بھی ختم ہوتی جاتی ہے، اول تو نام ہی غیر اسلامی رکھے جاتے ہیں، اور کہیں اسلامی نام رکھ بھی دیئے تو ان کو بھی انگریزی کے مخفف حروف میں منتقل کرکے ختم کردیا جاتا ہے، سیرت و صورت سے تو کسی کا مسلمان سمجھنا پہلے ہی مشکل ہوچکا تھا، ناموں کے اس نئے طرز نے اسلام کی اس آخری علامت کو بھی رخصت کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا فہم اور اسلام کی محبت عطا فرمائے۔ آمین

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اٰتٰىہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىہُمَا۝ ٠ ۚ فَتَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝ ١٩٠ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٠) جب میاں بیوی کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اس کے نام رکھنے میں ابلیس کو شریک ٹھہرانے لگے چناچہ عبداللہ اور عبدالحارث نام رکھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٠ (فَلَمَّآ اٰتٰٹہُمَا صَالِحًا جَعَلاَ لَہٗ شُرَکَآءَ فِیْمَآاٰتٰٹہُمَا ج) ۔ کہ ہم فلاں بزرگ کے مزار پر گئے تھے ‘ ان کی نگاہ کرم ہوئی ہے ‘ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی کرپا کی وجہ سے ہمیں اولاد مل گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

146. The present and succeeding verses (190-8) seek to refute polytheism. These verses are devoted to highlighting the implications of the postulate which even the polytheists affirmed - that it is God Who originally created the human species. They also acknowledge that every human being owes his existence to God. God also holds absolute power over the entire process leading to man's birth, right from the fertilization of the ovurn in the uterus to its onward development in the form of a living being, then investing it with numerous faculties and ensuring its birth as a sound, healthy baby. No one has the power to prevent God, if He so willed, from causing a wornan to give birth to an animal or to odd creature, or to a physically or mentally handicapped baby. This fact is also equally acknowledged by monotheists and polytheists. It is for this reason that in the final stage of pregnancy, people are inclined to turn to God and pray for the birth of a sound and healthy baby. It is, however, the very, height of man's ignorance and folly that after a sound and healthy baby has been born as a result of God's will, man makes offerings at the altars of false gods, goddesses, or saints. Occasionally the names given to the child (e.g., 'abd al-Rasul, 'abd al-'Uzza, 'abd Shams, etc.) also indicate that man feels grateful to others than God and regardsthe child as a gift either of sorne Prophet, some noted Companion of the Prophet (peace be on him), or some other noted personality such as his spiritual mentor rather than a gift from God. There has been some misunderstanding with regard to the point emphasized here. This misunderstanding has been further reinforced by traditions of doubtful authenticity. The Qur'an mentions that human being's are created from a single person, and obviously here that person means Adam (peace be on him). Now this reference to one person is soon followed by reference to his spouse, and that both prayed to God for the birth of a sound and healthy baby. And when that prayer was accepted, the couple are mentioned as having associated others with God in the granting of His favour. The misunderstanding consists in considering this couple, who fell prey to polytheism, to be Adam and Eve. People resorted to unauthentic traditions to explain the above verse and the story which thus gained acceptance was the following. It was claimed that Eve suffered several mishaps since her offspring would die after birth. Satan seized this opportunity to mislead her into naming her baby Abd al-Harith (the slave of Satan). (See the comments of Ibn Kathir on verse 190. Cf. Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 5, p. 11 - Ed.) What is most shocking is that some of these unsubstantiated traditions have been ascribed to the Prophet (peace be on him). The fact, however, is that the above account does not have even an iota of truth. Nor is it, in any way, corroborated by the Qur'an itself. The only point brought home by the Qur'an is that it is God alone, to the total exclusion of every one else, Who brought the first human couple into being. And again it is God alone Who causes the birth of each baby born out of the intercourse between a man and a woman. The Qur'an also points out that the of this truth is innate in human nature which is evident from the fact that in states of distress and crisis man turns prayerfully to God alone. Ironically, however, after God blesses those prayers with acceptance, a number of people associate others with God in His divinity. The fact is that the present verses do not refer to any particular man and woman. The allusion is in fact to every man and woman enmeshed in polytheism. Here another point deserves attention. These verses condemn the Arabian polytheists on account of the fact that when God granted them sound children in response to their prayers they associated others with God in offering thanks. But what is the situation of many Muslims of today who strongly believe in the unity of God? Their situation seems even worse. It is not uncommon for them to ask others than God to grant children. They, make vows during pregnancy to others than God, and make offerings to others than God after child-birth. Yet they are satisfied that they have a full guarantee of Paradise since they are believers in the One True God whereas the Arabian polytheists would inevitably be consigned to Hell. It is only the doctrinal errors of the pre-Islamic Arabian polytheists which may be condemned. The doctrinal errors of Muslims are beyond all criticism and censure.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :146 یہاں مشرکین کی جاہلانہ گمراہیوں پر تنقید کی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ نوع انسانی کو ابتداء وجود بخشنے والا اللہ تعالیٰ ہے جس سے خود مشرکین کو بھی انکار نہیں ۔ پھر ہر انسان کو وجود عطا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس بات کو بھی مشرکین جانتے ہیں ۔ عورت کے رحم میں نطفے کو ٹھیرانا ، پھر اس خفیف سے حمل کو پرورش کرکے ایک زندہ بچے کی صورت دینا ، پھر اس بچے کے اندر طرح طرح کی قومیں اور قابلیتیں ودیعت کرنا اور اس کو صحیح و سالم انسان بنا کر پیدا کرنا ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ اگر اللہ عورت کے پیٹ میں بندر یا سانپ یا کوئی اور عجیب الخلقت حیوان پیدا کردے ، یا بچے کو پیٹ ہی میں اندھا بہرا لنگڑا لولا بنا دے ، یا اس کی جسمانی و ذہنی اور نفسانی قوتوں میں کوئی نقص رکھ دے تو کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ کی اس ساخت کو بدل ڈالے ۔ اس حقیقت سے مشرکین بھی اسی طرح آگاہ ہیں جس طرح موحِّدین ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زمانہ حمل میں ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوتی ہیں کہ وہی صحیح و سالم بچہ پیدا کرے گا ۔ لیکن اس پر بھی جہالت و نادانی کے طغیان کا یہ حال ہے کہ جب امید بر آتی ہے اور چاند سا بچہ نصیب ہو جاتا ہے تو شکر یے کے لیے نذریں اور نیازیں کسی دیوی ، کسی اوتار ، کسی ولی اور کسی حضرت کے نام پر چڑھائی جاتی ہیں اور بچے کو ایسے نام دیے جاتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے سوا کسی اور کی عنایت کا نتیجہ ہے ، مثلاً حسین بخش ، پیر بخش ، عبدالرسول ، عبدالعُزّیٰ اور عبد شمس وغیرہ ۔ اس تقریر کے سمجھنے میں ایک بڑی غلط فہمی واقع ہوئی ہے جسے ضعیف روایات نے اور زیادہ تقویت پہنچا دی ۔ چونکہ آغاز میں نوع انسانی کی پیدائش ایک جان سے ہونے کا ذکر آیا ہے ، جس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں ، اور پھر فوراً ہی ایک مرد و عورت کا ذکر شروع ہو گیا ہے جنہوں نے پہلے تو اللہ سے صحیح و سالم بچے کی پیدئش کے لیے دعا کی اور جب بچہ پیدا ہو گیا تو اللہ کی بخشش میں دوسروں کو شریک ٹھیرا لیا ۔ اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ شرک کرنے والے میاں بیوی ضرور حضرت آدم و حوا علیہما السلام ہی ہوں گے ۔ اس غلط فہمی پر روایات کا ایک خول چڑھ گیا اور ایک پورا قصہ تصنیف کر دیا گیا کہ حضرت حوا کے بچے پیدا ہو ہو کر مر جاتے تھے ، آخر کار ایک بچے کی پیدائش کے موقع پر شیطان نے ان کو بہکا کر اس بات پر آمادہ کر دیا کہ اس کا نام عبدالحارث ( بندہ شیطان ) رکھ دیں ۔ غضب یہ ہے کہ ان روایات میں سے بعض کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچا دی گئی ہے ۔ لیکن درحقیقت یہ تمام روایات غلط ہیں اور قرآن کی عبارت بھی ان کی تائید نہیں کرتی ۔ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ نوع انسانی کا پہلا جوڑا جس سے آفرنیش کی ابتداہوئی ۔ اس کا خالق بھی اللہ ہی تھا ، کوئی دوسرا اس کار تخلیق میں شریک نہ تھا ، اور پھر ہر مرد و عورت کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے جس کا اقرار تم سب لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ، چنانچہ اسی اقرار کی بدولت تم امید وہم کی حالت میں جب دعا مانگتے ہو تو اللہ ہی سے مانگتے ہو ، لیکن بعد میں جب امیدیں پوری ہو جاتی ہیں تو تمہیں شرک کی سوجھتی ہے ۔ اس تقریر میں کسی خاص مرد اور خاص عورت کا ذکر نہیں ہے بلکہ مشرکین میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ اس مقام پر ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی مذمت کی ہے وہ عرب کے مشرکین تھے اور ان کا تصور یہ تھا کہ وہ صحیح و سالم اولاد پیدا ہونے کے لیے تو خدا ہی سے مانگتے تھے مگر جب بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو اللہ کے اس عطیہ میں دوسروں کو شکریے کا حصہ دار ٹھیرا لیتے تھے ۔ بلا شبہ یہ حالت بھی نہایت بری تھی ۔ لیکن اب جو شرک ہم توحید کے مدعیوں میں پا رہے ہیں وہ اس سے بھی بدتر ہے ۔ یہ ظالم تو اولاد بھی غیروں ہی سے مانگتے ہیں ۔ حمل کے زمانے میں مَنَّتیں بھی غیروں کے نام ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر چڑھاتے ہیں ۔ اس پر بھی زمانہ جاہلیت کے عرب مشرک تھے اور یہ موجد ہیں ، ان کے لیے جہنم واجب تھی اور ان کے لیے نجات کی گارنٹی ہے ، ان کی گمراہیوں پر تنقید کی زبانیں تیز ہیں مگر ان کی گمراہیوں پر کوئی تنقید کر بیٹھے تو مذہبی درباروں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ اسی حالت کا ماتم حالی مرحوم نے اپنی مسدس میں کیا ہے: ۔ کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھیرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشاہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ جا جا کہ نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 شرک یہ تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث رکھا ( حارث ابلس کا نام تھا جس وہ گروہ ملائ کہ میں مشہور تھا ، ) ،۔ یہ تشریح جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور کی بنیاد حضرت سمر و (رض) کی ترمذی اور حاکم میں یہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب حوا ( علیہ السلام) چبہ جنا تو ابلیس ان کے پاس آیا، ان کا کوئی لڑا کا زندہ نہ رہتا تھا۔ ابلیس کہنے لگا اس کا نام عبد الحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا چناچہ انہوں نے بچہ کا نام عبدالحارث رکھا اور وہ زندہ بچ گیا۔ یہ سب کچھ شیطان کے اشارے سے تھا لیکن حافظ ابن کثیر اور بعض دوسرے محقق مفسرین نے اس روایت کو ضعیف اور اسرائیلیات سے ما خو ذ قرار دیا ہے خصو صا جب کہ اس میں انبیا ( علیہ السلام) سے شرک جیسے گناہ کی نسبت کی گئی ہے اس کے بجائے انہوں نے امام حسن بصری (رح) کی اس تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ لمسکن الیھا تک تو حضرت آدم و حو (علیہما السلام) کا قصہ ہے لیکن اس کے بعد فلما تغشاھا سے عام لوگوں خصوصا مشرکین عرب کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ امام حسن بصری وغیرہ کا کہنا یہ ہے کہ مگر اس کے بعد سلسلئہ کلام ان کی اولاد میں سے مشرکین کی طرف منتقل ہوگیا ہے اور اس کے نظاتر قرآن میں میں مو جود ہیں جن فرد کے ذکر سے سلسلئہ کلام جنس کی طرف منقتل ہوگیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعد میں فتعا لی ٰ اللہ عما یشرکو وغیرہ آیات میں جمع کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس معلوم ہوتا ہے کہ جنس آدم مراد ہے، اگر یہ سارہ قصہ آّدم اور حوا ( علیہ السلام) کے متعلق ہی تسلیم کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جعلا لہ شرکائ میں استفہام انکاری ہے کہ کیا آدم ( علیہ السلام) اور حوا نے شرک کیا تھا۔ جیسا کہ مشرکین عرب ان کی طرف شرک کی نسبت کرتے ہیں یعنی نہیں کیا، اس تاویل سے بھی شرک کی نسبت والا اعتراض دفع ہوسکتا ہے ( ابن کثیر۔ (رازی)9 یعنی کفار قریش کر شرک سے یشرکون بصیغہ جمع ہے لہذا اس سے بالا اتفاق مشرکین عرب مراد ہیں جیسا کہ مابعد والی آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ ( رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہاں تک تو اللہ تعالیٰ کی صفات مذکور تھیں جو مقتضی ہیں اس کے استحقاق معبودیت کو آگے آلہہ باطلہ کے نقائص کا ذکر ہے جو مقتضی ہیں ان کے عدم استحقاق معبودیت کو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اولاد کو شرک کا ذریعہ بنانے کی تردید : مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں میں اولاد کی پرورش اور ان کے زندہ رہنے کی امید اور ان کی موت کے ڈر سے ماں باپ افعال شرکیہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں شرک کی ابتداء بچے کے پیدا ہونے کی امید ہی سے شروع ہوجاتی ہے اس کے صحیح سالم پیدا ہونے کے لیے نذریں ماننے لگتے ہیں۔ یہ نذریں غیر اللہ کے لیے بھی ہوتی ہیں، پھر جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو شرکیہ نام رکھتے اور شرکیہ کام کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں اسے چھاج میں رکھ کر گھسیٹتے ہیں اور اس کا نام گھسیٹا رکھ دیتے ہیں یا کسی پیر فقیر کے نام پر کان چھید کر بندا ڈال دیتے ہیں اور لڑکے کا نام بندو رکھ دیتے ہیں اور بعض لوگ قصداً بچوں کے ایسے نام رکھتے ہیں جو برے معنی پر دلالت کرتے ہیں جیسے کوڑا کڑوا بھینگا۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ برا نام رکھیں گے تو لڑکا جیتا رہے گا اور یہ شرکیہ افعال شیطان کے سمجھانے سے اور ہندوؤں کے پاس پڑوس اور ماحول میں رہنے کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں، مشرکین عرب شرکیہ نام رکھا کرتے تھے۔ عبداللات، عبدالعزیٰ ، عبدمناف، عبدشمس ان جیسے نام ان لوگوں میں رائج تھے۔ نصاریٰ میں اب تک عبدالمسیح رکھنے کا رواج ہے۔ یہ سب شرک ہے۔ مسلمانوں کے نام ایسے ہونے چاہئیں جن سے عبدیت کا مظاہرہ ہو اور نام سے یہ ٹپکتا ہو کہ یہ اللہ کا بندہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : تسموا باسماء الانبیاء واحب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن و اصدقھا حارث و ھمام و اقبحھا حرب و مرۃ۔ (رواہ ابو داؤد) یعنی نبیوں کے ناموں پر اپنے نام رکھو اور ناموں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عبداللہ و عبدالرحمن ہے اور سب سے زیادہ سچا نام حارث (کسب کرنے والا) اور ھمام (ارادہ کرنے والا) ہے اور سب سے برا نام حرب (جنگ) اور مرہ (کڑوا) ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ سے پہلے لفظ عبد لگا کر اپنے بچوں کے نام رکھیں اور برے ناموں سے پرہیز کریں۔ حضرت مسروق تابعی (رح) نے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ میں نے کہا کہ میں مسروق بن الاجدع ہوں حضرت عمر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے۔ (رواہ ابو داؤد) اور اس کا معنی بھی خراب ہے کیونکہ جس کے نام کان کٹے ہوں عربی میں اس کو اجدع کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ تم قیامت کے دن اپنے ناموں اور اپنے باپ دادوں کے ناموں سے بلائے جاؤ گے لہٰذا تم اپنے نام اچھے رکھو۔ (رواہ ابو داؤد)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

190 پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میاں بیوی کو صحیح سالم اولاد عطا فرمادی تو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی چیز میں اور اس کی دی ہوئی اولاد میں یہ دونوں خدا کا شریک مقرر کرنے لگے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے اس شرک سے بہت پاک و بالاتر ہے۔