Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 20

سورة الأعراف

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ ﴿۲۰﴾

But Satan whispered to them to make apparent to them that which was concealed from them of their private parts. He said, "Your Lord did not forbid you this tree except that you become angels or become of the immortal."

پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْءَاتِهِمَا ... "And O Adam! Dwell you and your wife in Paradise, and eat thereof as you both wish, but approach not this tree otherwise you both will be of the wrongdoers.Then Shaytan whispered suggestions to them both in order to uncover that which was hidden from them of their private parts (before); Allah states that He allowed Adam and his wife to dwell in Paradise and to eat from all of its fruits, except one tree. We have already discussed this in Surah Al-Baqarah. Thus, Shaytan envied them and plotted deceitfully, whispering and suggesting treachery. He wished to rid them of the various favors and nice clothes that they were enjoying. ... وَقَالَ ... He (Shaytan) said, uttering lies and falsehood, ... مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ ... "Your Lord did not forbid you this tree save you should become angels..." meaning, so that you do not become angels or dwell here for eternity. ... أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ or become of the immortals." Surely, if you eat from this tree, you will attain both, he said. In another Ayah, قَالَ يـَادَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لاَّ يَبْلَى Shaytan whispered to him, saying: "O Adam! Shall I lead you to the Tree of Eternity and to a kingdom that will never waste away." (20:120) Here, the wording is similar, so it means, `so that you do not become angels,' as in; يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ (Thus) does Allah make clear to you (His Law) lest you go astray. (4:176) meaning, so that you do not go astray, and, وَأَلْقَى فِى الاٌّرْضِ رَوَاسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ And He has affixed into the earth mountains standing firm, lest it should shake with you; (16:15) that is, so that the earth does not shake with you.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 وسوسہ اور وسو اس زلزلہ اور زلزال کے وزن پر ہے شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔ 20۔ 1 یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاوے سے حضرت آدم و حوا کو اس لباس جنت سے محروم کرکے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لئے دیا گیا تھا شرم گاہ کو سَوْءَۃ، ُ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِيُبْدِيَ لَهُمَا : بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ” ُ لِيُبْدِيَ “ میں ” لام “ عاقبت کا ہے، یعنی شیطان کے دل میں نہیں تھا کہ وہ ننگے ہوجائیں مگر ایسا کرنے کا انجام یہی تھا، لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ یہ ” لام “ تعلیل کا ہے اور اس کی غرض یہی تھی اور اسے معلوم تھا کہ درخت کھانے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ شرم گاہ کو ” سوء ۃ “ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ننگا ہونا انسان کو طبعاً برا لگتا ہے اور ” سَاءَ یَسُوْءُ “ کا معنی برا لگنا ہے، گویا ان کو جنت کا جو لباس پہنایا گیا تھا، جس سے ان کی شرم گاہیں چھپی ہوئی تھیں، وہ ممنوعہ درخت کھانے سے اتر جانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پہلے ہی جنت کی چار خصوصی سہولتیں بتائی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ تو جنت میں ننگا نہیں ہوگا اور ساتھ ہی بتادیا تھا کہ ممنوعہ درخت کھانے سے یہ سہولتیں چھن جائیں گی، اس لیے یہ بات آدم (علیہ السلام) کو بھی معلوم تھی، مگر شیطان کے قسم کھانے سے بھول گئے۔ ان سہولتوں کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (١١٨، ١١٩) وٗرِيَ ” وَریٰ “ یہ ” وَارٰی یُوَارِیْ مُوَارَاۃً “ ( مفاعلہ) سے ماضی مجہول ہے۔ وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا۔۔ : شیطان نے ان دونوں کو یوں بہکایا کہ اللہ تعالیٰ کے تمہیں اس درخت سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے، یعنی ان کی خصوصیات اور فطری کمالات تم میں بھی پیدا ہوجائیں گی، یا ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔ جن دو چیزوں کے درمیان ” أَوْ “ کا لفظ آئے ان میں سے ایک چیز بھی ہوسکتی ہے اور دونوں بھی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بھی نہ ہو۔ ایک بہرحال ضرور ہوگی، دوسری بھی ممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) فرشتوں کو اللہ کے قریب رہنے کی وجہ سے اپنے سے بہتر سمجھتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ( وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٩ ] ” اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ “ مگر یہ ایک جزوی فضیلت ہے، اس سے ہر لحاظ سے فرشتوں کا انسان سے افضل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ۝ ٢١ ۙ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود/ 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب، ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) شیطان نے اس درخت سے کھانے کا وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے بدن کے اس حصہ کو ان کے سامنے ظاہر کردے جو نور کے لباس نے پوشیدہ کر رکھا تھا۔ اور شیطان نے ان سے کہا اے آدم وحوا اس درخت کے کھانے سے محض اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم جنت میں خیر وشر سے واقف نہ ہوجاؤ اور قسم کھائی کہ یہ درخت ہمیشہ زندہ رہنے کا درخت ہے اور مکر و فریب سے اس درخت ہمیشہ زندہ رہنے کا درخت ہے اور مکروفریب سے اس درخت کے پھل کھانے پر ان کو راضی کرلیا حتی کہ انہوں نے اس کو کھالیا ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا) قصۂ آدم ( علیہ السلام) و ابلیس کی تفصیل ہم سورة البقرۃ کے چوتھے رکوع میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ یہاں یہ قصہ دوسری مرتبہ بیان ہوا ہے۔ پورے قرآن مجید میں یہ واقعہ سات مرتبہ آیا ہے ‘ چھ مرتبہ مکی سورتوں میں اور ایک مرتبہ مدنی سورت (البقرۃ) میں۔ لیکن ہر جگہ مختلف انداز سے بیان ہوا ہے اور ہر بار کسی نہ کسی نئی بات کا اس میں اضافہ ہوا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوتی تحریک جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی ‘ ہر دور کے مخصوص حالات کے سبب اس واقعے میں ہر دفعہ مزید تفصیلات شامل ہوتی گئیں۔ اس رکوع کے شروع میں جب اس قصے کا ذکر آیا ہے تو وہاں جمع کا صیغہ استعمال کر کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے : (وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط) سورۃ البقرۃ کی متعلقہ آیات کی وضاحت کرتے ہوئے اس ضمن میں بعض اہم نکات زیر بحث آ چکے ہیں۔ یہاں پر مزید کچھ باتیں تشریح طلب ہیں۔ ایک تو شیطان کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو ورغلانے اور ان کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کا سوال ہے کہ اس کی کیفیت کیا تھی۔ اس سلسلے میں جو باتیں یا مکالمات قرآن میں آئے ہیں ان سے یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ وہ اسی طرح ان کے درمیان وقوع پذیر بھی ہوئے تھے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے اور پہچانتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا ‘ بلکہ شیطان جیسے آج ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اسی طرح حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حضرت حوا ( علیہ السلام) کی نظروں سے بھی پوشیدہ تھا اور جس طرح آج ہمارے دلوں میں شیطانی وسوسے جنم لیتے ہیں اسی طرح ان کے دلوں میں بھی وسوسے پیدا ہوئے تھے۔ دوسرا اہم نکتہ ایک خاص ممنوعہ پھل کے چکھنے اور اس کی ایک خاص تاثیر کے بارے میں ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں اس کی تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ اس پھل کے چکھنے پر ان کی شرمگاہیں نمایاں ہوگئیں۔ جہاں تک اس کیفیت کی حقیقت کا تعلق ہے تو اسے معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس حتمی اور قطعی علمی ذرائع نہیں ہیں ‘ اس لیے اسے متشابہات میں ہی شمار کیا جائے گا۔ البتہ اس کے بارے میں مفسرین نے قیاس آرائیاں کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ پہلے انہیں اپنے ان اعضاء کے بارے میں شعور نہیں تھا ‘ مگر وہ پھل چکھنے کے بعد یہ شعور ان میں بیدار ہوگیا ‘ یا یہ کہ پہلے انہیں جنت کا لباس دیا گیا تھا جو اس واقعے کے بعد اتر گیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نیکی اور بدی کا درخت تھا جس کا پھل کھاتے ہی ان میں نیکی اور بدی کی تمیز پیدا ہوگئی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ دراصل آدم ( علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) کے درمیان پہلاجنسی اختلاط (sexual act) تھا ‘ جسے اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مختلف آراء ہیں ‘ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہے اور ٹھوس علمی معلومات کے بغیر اس کے بارے میں کوئی قطعی اور حقیقی رائے قائم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ درخت کون سا تھا اور اسے چکھنے کی اصل حقیقت اور کیفیت کیا تھی۔ (وَقَالَ مَا نَہٰٹکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الآَّ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ ) ۔ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ فرشتوں کو تو آدم ( علیہ السلام) کے سامنے جھکایا گیا تھا تو اس کے بعد آپ ( علیہ السلام) کے لیے فرشتہ بن جانا کون سی بڑی بات تھی ‘ لیکن بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کو نسیان ہوجاتا ہے اور وہ اپنی اصل حقیقت ‘ اصل مقام کو بھول جاتا ہے۔ چناچہ یہ بات گویا شیطان نے وسوسے کے انداز سے ان کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی کہ اس شجر ممنوعہ کا پھل کھا کر تم فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہو گے اور تم پر موت طاری نہ ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کی خاصیت یہ تھی کہ اس کا پھل کھانے سے جنت کا لباس اتر جاتا تھا اور یہ بات ابلیس کو معلوم تھی، چنانچہ جب حضرت آدم اور حوا علیہما السلام نے اسے کھایا تو جنت کا جو لباس انہیں عطا ہوا تھا وہ ان کے جسم سے اتر گیا۔ 7: مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس میں سے کھا لیتا ہے وہ یا تو فرشتہ بن جاتا ہے، یا اسے ہمیشہ کی زندگی عطا ہوجاتی ہے، اس لیے اسے کھانے کے لیے مخصوس قوت کی ضرورت ہے۔ شروع میں آپ دونوں کو یہ قوت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے منع کیا گیا تھا۔ اب آپ کو جنت میں رہتے ہوئے ایک زمانہ گذر گیا ہے اور آپ میں وہ قوت پیدا ہوگئی ہے اس لیے اب کھا لینے میں کچھ حرج نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:20) لیبدی لہما۔ لام عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنتی لباس اتار دیا گیا۔ اور وہ اپنے آپ کو برہنہ دیکھنے لگے۔ یبدی مضارع واحد مذکر غائب۔ ابداء (افعال) مصدر کہ ظاہر کر دے۔ کھول دے۔ نمایاں کردے۔ بدء مادہ۔ ووری۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب واری یواری مواراۃ (مفاعلۃ) روی مادہ۔ وہ چھپایا گیا۔ وہ پوشیدہ رکھا گیا۔ سواتھما۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان دونوں کی شرمگاہیں۔ سوء ۃ کی جمع ہے۔ لیبدی لہما ما ووری عنھما من سواتھما۔ یہ بھی شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی غرض و غائیت ہے۔ یعنی ان دونوں کی شرمگاہوں کے وہ حصے جو ڈھانپ کر ان سے چھپائے گئے تھے ان پر بےپردہ کر دے۔ (کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر دونوں اس کے دھوکہ میں آگئے تو نتیجۃًوہ بےپردہ ہوجائیں گے) ما نھکما میں ما نفی کے ہے۔ نہیں منع کیا تھا اس نے تم دونوں کو۔ عن ھذہ الشجرۃ یعنی عن الاکل من ھذہ الشجرۃ اس درخت (کا پھل) کھانے سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 علما تفسیر نے لکھا ہے کہ لیبدی میں لام عاقبت کا ہے کیونکہ شیطان کے دل میں یہ نہیں تھا کہ وہ ننگے ہوجائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ لام تعلیل کا ہو اور اس کی غرض ہی یہی ہو، ستر کو سوۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ننگا ہونا انسان کو طبعا برا لگتا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں، گویا ان کو جنت کا لباس پہنایا گیا تھا جس سے ان کے ستر مستور تھے۔ شجرۃ ممنو عتہ کا پھل کھانے وہ وہ کپڑا اتر گیا وہ ہب بن منبہ کہتے ہیں کہ وہ لباس نورانی تھا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو انکے ستر نظر نہیں آتے تھے درخت کا پھل کھانے سے وہ نور سلب ہوگا ی اور ان کو ایک دوسرے کے ستر نظر آنے لگے ( ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ عیب ڈھکے تھے، یعنی حاجت استنجا اور حات شہوت جنت میں نہ تھی اور ان کے بد ن پر کپڑے تھے وہ کبھی اتارے نہ تھے کہ اتارنے کی حاجت نہ ہوتی تھی یہ اپنے اعضا سے واقف نہ تھے جب یہ گناہ ہو تو آدم بشریٰ پیدا ہوئے اپنی حاجت سے خبردار ہوئے اور اپنے اعضا، دیکھئے۔ ( مو ضح)5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا کہ صرف اسلیے کہ تم دونوں فرشتے نہ بن جا و یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ شیطان نے نا دونوں کو یوں بہکایا کہ اگر تم دونوں اس درخت سے کچھ بھی چکھ لو گے تو تم میں بھی فرشتوں کی سی خصوصیات فطری کمالات پیدا ہوجائیں گے اس کے بعد نہ ۔ تمہیں کھانے پینے کی کوئی حاجت رہے گی اور نہ تم مروگے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس جنت میں رہو گے۔ ( ابن کثیر) اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ فرشتے مطلق انسان سے افضل ہیں ہاں جزوی فضیلت ضروری ثاتب ہوتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اسی سورة کی آیت ١٨٩ میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواکو آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا فرمایا۔ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم ہوا۔ اور ساتھ یہ بات بتلادی گئی کہ صرف اس ایک درخت کے سوا باقی ہر چیز کھا سکتے ہو۔ اس کے قریب گئے تو ظالموں میں شمار کیے جاؤ گے۔ لیکن شیطان نے انتقام لینے اور ان کو برہنہ کرنے کے لیے ان کے دل میں وسوسہ پیدا کرکے انہیں باور کرایا کہ تمہیں اس درخت سے محض اس لیے روکا گیا ہے کہیں تم فرشتے بن کر ہمیشہ کے لیے جنت کے باسی نہ بن جاؤ۔ نامعلوم شیطان لعین ان کو پھسلانے کی کتنی مدت کوشش کرتا رہا جب اس نے دیکھا کہ یہ دونوں میرے جال میں نہیں پھنس رہے تو اس نے اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ میں تمہیں دشمنی کی بناء پر نہیں بلکہ خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دے رہا ہوں کہ تمہیں اس درخت کا ذائقہ ضرور چکھنا چاہیے۔ چناچہ آدم (علیہ السلام) اور ان کی رفیۂ حیات نے شیطان کی قسموں پر اعتبار کرتے ہوئے اس درخت کا ذائقہ چکھ لیا۔ جونہی انہوں نے درخت کا ذائقہ چکھا تو ان کے لباس اتر گئے اور وہ شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنی شرم گاہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہے تھے اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو آواز دی کیا میں نے تمہیں اس سے پہلے منع نہیں کیا تھا کہ تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا اور میں نے یہ بھی تمہیں سمجھایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے بچ کر رہنا لیکن تم نے وہ کیا جس سے تمہیں روکا گیا تھا۔ ” وسوسہ “ کا معنیٰ ہے کہ کسی کے دل میں برا خیال ڈالنا یا اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بری بات کہنا بعض مفسر یہاں اس الجھن کا شکار ہوئے ہیں کہ شیطان کو جنت میں جانے کی اجازت نہ تھی تو پھر اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کے دل میں کس طرح وسوسہ ڈالا۔ اس الجھن سے نکلنے کے لیے اسرائیلی روایات کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ شیطان سانپ کی شکل میں جنت میں داخل ہوا۔ کچھ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت کے دروازے کے قریب آئے تو شیطان ان کو ورغلانے میں کامیاب ہوا یہ تفسیر لکھنے والے اگر حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرتے تو انہیں ان مضحکہ خیز تاویلات کی ضرورت پیش نہ آتی۔ شیطان کی قوت و حرکت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان دور کھڑا ہو کر بھی انسان پر اثرا نداز ہوتا ہے اور کبھی خون کی گردش کی طرح انسان کے جسم میں سرایت کرجاتا ہے۔ جہاں تک دور کھڑے ہو کر اثر انداز ہونے کا تعلق ہے ٹیوی کے فحش پروگرام اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بعض اہل علم نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) تو مسجود ملائکہ ہونے کی وجہ سے افضل المقام تھے پھر انہیں فرشتہ یا اس کا ہم پلہ ہونے کا کس طرح خیال آیا ؟ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا تھا تو پھر انہیں کس طرح خدشہ پیدا ہوا کہ وہ یہاں سے نکال دیے جائیں گے ؟ مذکورہ بالا خیالات کی توجیہ کے لیے بھی کئی راستے نکالے گئے ہیں۔ شاید کچھ مفسرین نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں فرمایا ورنہ قرآن مجید نے اسی مقام پر لفظ ” غرور ‘ استعمال کرکے اس الجھن کو دور کردیا ہے ” غرر “ کا معنیٰ ہے حقیقت کے خلاف کوئی چیز پیش کرنا یا حقیقت کے خلاف مغالطہ دینا۔ غرر کا مقصد ہی دوسرے کی عقل وفہم پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس لیے شیطان باربار اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھانے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے نام کی یہ پہلی قسم تھی جس کی وجہ سے وہ دھوکا کھا گئے آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شیطان اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم بھی اٹھا سکتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمْ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ رَجُلٌ عَلٰی فَضْلِ مَاءٍ بِطَرِیقٍ یَمْنَعُ مِنْہُ ابْنَ السَّبِیلِ وَرَجُلٌ بَایَعَ رَجُلًا لَا یُبَایِعُہٗ إِلَّا للدُّنْیَا فَإِنْ أَعْطَاہُ مَا یُرِیدُ وَفٰی لَہٗ وَإِلَّا لَمْ یَفِ لَہٗ وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا بِسِلْعَۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ باللّٰہِ لَقَدْ أَعْطٰی بِہَا کَذَا وَکَذَا فَأَخَذَہَا)[ رواہ البخاری : کتاب الأحکام، باب من بایع رجلا لا یبایعہ إلا للدنیا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے نہ ان کو گناہوں سے پاک کریں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔۔ ایسا آدمی جو دوسرے شخص کو سودا عصر کے بعد اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر فروخت کرے کہ وہ اسے فلاں قیمت پر ملا ہے تو لینے والا اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس سے لے لے حالانکہ بیچنے والے نے وہ چیز اس قیمت پر نہیں خریدی۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ رَفَعَہُ إِلَی حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْبَیِّعَان بالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّی یَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فِی بَیْعِہِمَا وَإِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب إذا بین البیعان ولم یکتما ] ” عبداللہ بن حارث حضرت حکیم بن حزام (رض) کے پاس گئے حضرت حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ علیحدہ نہ ہوجائیں یا فرمایا یہاں تک کہ وہ علیحدہ ہوجائیں تو اگر وہ دونوں سچے ہوں گے اور چیز کے نقص کی وضاحت کریں گے تو ان کے لیے اس سودے میں برکت ڈال دی جائے گی، اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں گے تو ان کے سودے سے برکت ختم کردی جائے گی۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٢٠ تا ٢١۔ معلوم نہیں کہ شیطانی وسوسہ کس طرح عمل پیرا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ ہم شیطان کی حقیقت سے واقف نہیں جس سے ہم اس کے اعمال کی نوعیت سے خبردار ہوجائیں یا یہ معلوم کرسکیں کہ وہ انسان تک رسائی کیونکر حاصل کرتا ہے اور اس کو کس طرح گمراہ کرتا ہے ۔ لیکن ہمیں مخبر صادق کے ذریعہ یہ علم حاصل ہے کہ شیطان کسی نہ کسی طرح انسان کو گمراہ کرتا ہے اور ان غیبی حقائق کے بارے میں مخبر صادق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سچا اور یقینی ذریعہ علم ہیں ۔ شیطان انسان کو مختلف طریقوں سے گمراہ کرتا ہے اور یہ تمام طریقے انسانی شخصیت میں کمزور مقامات کے ذریعے سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔ انسانی شخصیت میں فطری کمزوریاں ہیں ان سے انسان صرف پختہ ایمان اور یاد الہی کے ذریعے سے بچ سکتا ہے اور ایمان اور ذکر کے بعد صورت یہ ہوجاتی ہے کہ شیطان کا انسان پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا ۔ اس کی سازشیں کمزور پڑجاتی ہیں اور انسان پر ان کا اثر نہیں ہوتا ۔ اس طرح شیطان نے ان کو بہکایا اور انکی شرمگاہیں جو ایک دوسرے پوشیدہ تھیں انکو ان پر ظاہر کردیا گیا اور یہ تھا اس کا اصل مقصد انکی شرمگاہیں تھیں اور انکو کسی دوسری مادی چیز سے چھپانے کی ضرورت تھی ۔ شیطان نے ان پر اپنی اسکیم ظاہر نہ کی تھی البتہ وہ انکی خواہشات کی راہ سے داخل ہوگیا ۔ اس نے کہا ” تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں فرشتے نہ بنا جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے ۔ “ یوں شیطان انسانی خواہشات کے ساتھ کھیلا ۔ ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے یاطویل عرصے تک عمر پائے اور اسے خلود نصیب ہو ۔ اور اس کو ایسی سلطنت ملے جو محدود زندگی سے آگے ہو۔ بعض قراءتوں میں (ملکین ) لفظ ل کی زیر کیساتھ آیا ہے ۔ (ملکین) جس کے معنی دو بادشاہ کے ہوتے ہیں ۔ سورة طہ کی آیت آیت ” ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک الایبلی “۔ (٢٠ : ١٢٠) ” کیا میں خلود کا درخت نہ بتاؤں اور ایسی بادشاہت جو ختم ہونے والی نہ ہو ۔ “ اس صورت میں شیطان نے انہیں دائمی عمر اور دائمی حکومت کا لالچ دیا ۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی خواہشات میں سرفہرست ہیں۔ جنسی خواہش کی اصل حقیقت بھی یہ ہے کہ جنسی تعلق واتصال کے ذریعے ایک انسان خلود ہی چاہتا ہے یعنی اسکی اولاد ہو اور نسلا بعد نسل وہ زندہ رہے اور اگر ملکین پڑھیں تو مراد یہ ہوگی کہ دونوں فرشتے بن جاؤ گے اور انسان کی جسمانی ضروریات سے فارغ ہوجاؤ گے اور ملائکہ کی طرح زندگی بھی دائمی ہوگی لیکن پہلی قرات اگرچہ مشہور قرات نہیں ہے ‘ سورة طہ کی آیت سے زیادہ موافق ہے اور اس سورة میں شیطان کا دھوکہ بھی انسانی خواہشات کی حدود کے اندر رہتا ہے ۔ شیطان لعین چونکہ جانتا تھا کہ اللہ نے ان کو بصراحت اس درخت سے منع کردیا ہے اور یہ کہ اللہ کی جانب سے ممانعت کی وجہ سے ان کے دل میں کھٹکا موجود ہے ۔ اور قوت مدافعت ان کے اندر پائی جاتی ہے ۔ اس لئے اس وسوسہ اندازی میں وہ انسانی خواہشات اور کمزوریوں سے استفادے کے ساتھ ساتھ ناصح مشفق بن کر اور قسمیں اٹھا کر کہتا ہے آیت ” وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (21) ” اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۔ “ آدم اور ان کی بیوی اللہ کی اس تنبیہ کو بھول جاتے ہیں کہ شیطان انکا دشمن ہے ۔ یہ بھول ان کی شخصی خواہش اور شیطان کی قسموں کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ تم احکام الہیہ کی اطاعت کرو چاہے کسی حکم کی علت سمجھو یا نہ سمجھو ۔ یہ دونوں یہ بھی بھول گئے کہ اللہ کی تقدیر اور حکم کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اگر اللہ نے ان کے لئے خلود نہیں لکھا اور دائمی حکومت نہیں لکھی تو یہ مقصد کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ۔ ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:“ لِیُبْدِيئَ ” لام “ وَسْوَسَ ” کے متعلق ہے اور عاقبت کے لیے ہے کیونکہ ابلیس کا مقصد خاص یہ ذلت پہنچانا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد تو ان سے خدا کی نافرمانی صادر کرانا تھا لیکن آخر الامر یہ بات بھی ہوگئی۔ واللام فی قولہ “ لِیُبْدِيَ لَھُمَا ” لام العاقبۃ و ذلک لان ابلیس لم یقصد بالوسوسۃ ظھور عوراتھما وانما کان حملھما علی لمعصیۃ فقط فکان عاقبۃ امرھما ان بدت عوراتھما (خازن ج 2 ص 179) “ مِنْ سَوْ اٰتھِمَا ” یہ “ مَا وُوْرِيَ ” کا بیان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 پھر شیطان نے آدم (علیہ السلام) اور آدم (علیہ السلام) کی بیوی دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا اور دونوں کو بہکایا تاکہ ان کو شجر ممنوعہ کا پھل کھلا دے اور ان دونوں کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے جنت کے لباس کی وجہ سے پوشیدہ تھیں اور ایک دوسرے سے چھپی ہوئی تھیں ان شرمگاہوں کو دونوں کے سامنے آشکارا کردے یعنی ان کے ستر جو ایک دوسرے سے پوشیدہ اور چھپے ہوئے تھے ان کی خطا کے باعث ایک دوسرے کے سامنے ہوجائیں اور جنت کا لباس ان سے چھین لیا جائے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے روبرو برہنہ ہوجائیں اور ابلیس نے ان دونوں سے یہ کہا کہ تمہارے پروردگار نے تم کو اس درخت سے نہیں روکا مگر محض اس غرض سے روکا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم فرشتے بن جائویا تم دونوں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجائو یعنی یہ ممانعت تو صرف اس وقت کے لئے تھی جب تمہارا رب تم کو فرشتہ بننے سے یا دائمی زندگی کے حصول سے روکنا چاہتا تھا اور اب تم میں صلاحیت پیدا ہوگئی ہے اس وقت یہ ممانعت ہی نہیں اس لئے اب اس مخصوص درخت کا پھل کھا لینے سے کوئی مضائقہ نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔