Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 203

سورة الأعراف

وَ اِذَا لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بِاٰیَۃٍ قَالُوۡا لَوۡ لَا اجۡتَبَیۡتَہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَتَّبِعُ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ مِنۡ رَّبِّیۡ ۚ ہٰذَا بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۲۰۳﴾

And when you, [O Muhammad], do not bring them a sign, they say, "Why have you not contrived it?" Say, "I only follow what is revealed to me from my Lord. This [Qur'an] is enlightenment from your Lord and guidance and mercy for a people who believe."

اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Idolators ask to witness Miracles Allah says; وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِأيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِأيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِأيَةٍ إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَأءِ ءَايَةً فَظَلَّتْ أَعْنَـقُهُمْ لَهَا خَـضِعِينَ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَأيِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ This (the Qur'an) is nothing but evidences from your Lord, and a guidance and a mercy for a people who believe.

سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے ۔ یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے کہ نبی ہوتا تو ایسا کر لیتا ، بنا لیتا ، اللہ سے مانگ لیتا ، اپنے آپ گھڑ لیتا ، آسمان سے گھسیٹ لاتا ۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ Ć۝ ) 26- الشعراء:4 ) اگر ہم چاہتے تو کوئی نشان ان پر آسمان سے اتارتے جس سے ان کی گردنین جھک جاتیں ۔ وہ لوگ حضور سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے ۔ تو حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الٰہی کا تابع ہوں ۔ میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کر سکتا ، آگے نہیں بڑھ سکتا ، جو حکم دے صرف اسے بجا لاتا ہوں ۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے دکھا دوں ۔ جو وہ ظاہر نہ فرمائے میں اسے لا نہیں سکتا میرے بس میں کچھ نہیں میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا مجھ میں اتنی جرات نہیں ہاں اگر اس کی اجازت پالیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے ۔ میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے جو حکمت ہدایت اور رحمت سے پر ہے اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے سچے عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

203۔ 1 مراد ایسا معجزہ جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطا بات سورة بنی اسرائیل، آیت 90۔ 93 میں بیان کئے گئے ہیں۔ 203۔ 2 لَوْلَا اَجْتَبْیتَھَا کے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا ؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے۔ یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر (دلائل وبراہین) اور ہدایت و رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠١] آپ پر قرآن تصنیف کرنے کا الزام اور اس کا جواب :۔ اس آیت سے موضوع سخن بدل گیا ہے اور اس میں کافروں کے ایک مطالبہ کا اور اس کے جواب کا ذکر ہے اگر اس آیت کا معنی قرآن کی کوئی آیت ہی کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی قرآنی سورت یا آیات کے نازل ہونے میں دیر واقع ہوجاتی تو کافر کہنے لگتے کہ اپنی مرضی کی کوئی آیت تمہیں اب تک لے آنا چاہیے تھی اور ایسے استہزاء سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پہلے جو قرآن تم ہمیں سناتے ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ تمہارا اپنا ہی تصنیف کردہ ہے لہذا اب اگر دیر ہوگئی تو کیا ہوا ؟ کچھ اور بھی اپنی پسندیدہ آیات تمہیں اب تک تصنیف کر کے پیش کردینا چاہئیں تھیں۔ اور اگر آیت کا معنی معجزہ لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس حسی معجزہ کے لانے کا ہم آپ سے مطالبہ کرچکے ہیں ان میں سے جو بات آپ کو پسند ہو اسی کے لیے آپ اللہ سے تعالیٰ کہیں کہ وہ ہمیں دکھلا دے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ انہیں واضح الفاظ میں بتلا دیجئے کہ معجزات دکھلانا میرا کام نہیں نہ میرا معجزات پر کوئی اختیار ہے میرا کام صرف یہ ہے کہ جو وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے میں خود بھی اس کی پیروی کروں اور دوسروں کو بھی اس کی پیروی کی دعوت دوں اور اگر تم سوچو تو یہ قرآن بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے جس میں ہر ہدایت کے متلاشی کے لیے بیشمار بصیرت افروز دلائل موجود ہیں اور چونکہ یہ کتاب دنیوی اور اخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے لہذا یہ کتاب ہدایت ہونے کے علاوہ لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی رحمت بھی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ ۔۔ : اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی گمراہی اور بےجا ضد کی ایک مثال بیان فرمائی ہے، یعنی وہ پیغمبر سے ازراہ عناد کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس ہی سے کوئی آیت (معجزہ) کیوں نہیں لے آتے۔ فرمایا میں تو صرف وحی الٰہی کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ دیکھیے سورة یونس (١٥ تا ١٧) ۔ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۔۔ : اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی بڑا کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید معجزوں کی طلب محض نہ ماننے کا بہانہ ہے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٥٠، ٥١) پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں، جو صرف اس معجزے کی خصوصیت ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the verses cited above is the proof that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the true Messenger of Allah. Also answered there are doubts raised by his antagonists. Then, as a corollary, some religious injunctions have been taken up. To prove that they are Messengers of Allah, all prophets, may peace be upon them all, are given miracles. It was in consonance with it that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the foremost among prophets, was blessed with so many miracles which exceed the number of those given to past prophets and which are clear too. The miracles of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as proved from the Qur&an, and authentic Hadith reports, are fairly numerous. Muslim religious scholars have written separate books about them. ` Allamah Jalalud-Din as-Suyuti&s book, al-Khasais a1-Kubra, in two volumes, is a well-known work on this subject. But, despite the manifestation of so many miracles, his opponents stuck to their unreasonable demands asking for ever-new miracles of their choice. This has also been mentioned earlier in this very Surah. The first of the two verses cited above provides an answer to their demand as a matter of principle. To put it briefly, the miracle of a prophet is a testimony and proof of his mission as a Messenger of Allah. Take the example of the claim of a plaintiff that stands proved by some trustworthy evidence. The other party has not challenged it in any way. If so, no court in the world would give this party the right to demand from the plaintiff that it would accept the claim only when he produces its evidence from a number of particularly specified people. And that the said party would, without challenging the present evidence, not accept it. Therefore, after having seen so many manifest miracles, the antagonists had no right to say that they would take him to be a Messenger of Allah only if he were to show their custom-ordered miracles. This is nothing but a hostile demand that no court of justice would accept as valid. So, in the first verse (203), it was said when he does not show them the miracle specified by them, they use it as a pretext to deny that he was a Messenger of Allah. Had he been one, he would have shown them the miracle of their choice! The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been asked to tell them that his mission does not call for the showing of miracles on his own. Instead, his basic mission was to follow the injunctions sent to him by his Lord through the medium of Wahy (revelation) and it included the task of their preaching as well. Therefore, he was busy doing what he was assigned to do. As for the verifica¬tion of his status as a Messenger of Allah, the miracles already mani¬fested before them were more than enough for that purpose. Now that they have already seen those, the demand for some particular miracle is nothing but an exercise in hostility that is not worth noticing. Then, out of the miracles shown, the Qur&an by itself is a great miracle. It has challenged the whole world to come up with a small Surah the like of it and it has failed to do so. This, then, is an open sign that the Qur&an is no human word, instead, is the inimitable Word of Allah, the most exalted. For this reason, it was said: هَـٰذَا بَصَائِرُ‌ مِن رَّ‌بِّكُمْ (This is (a Book of) insights from your Lord). It means that this Qur&an has come from your Lord as a compendium of many proofs and miracles. Whoever deliberates into it, even summarily, could not part with it without believing that it was nothing but the Word of Allah, the most exalted, and that nothing created has anything to do with it. After that, it was said: وَهُدًى وَرَ‌حْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (and a guidance and mercy for a people who believe). It means that, no doubt, this Qur&an is a proof of what is true for the whole world, but it is an escort to the purpose of life and a medium of deserving the mercy of Allah Ta` ala only for those who believe in it.

خلاصہ تفسیر اور جب آپ (ان کے فرمائشی معجزات میں سے جن کی فرمائش براہ عناد کرتے تھے) کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے (بوجہ اس کے کہ حق تعالیٰ اس معجزہ کو بمقتضائے حکمت پیدا نہیں کرتے) تو وہ لوگ ( بقصد نفی رسالت آپ سے) کہتے ہیں کہ آپ (اگر نبی ہیں تو) یہ معجزہ کیوں نہ (ظہور میں) لائے، آپ فرما دیجئے کہ (میرا کام معجزات باختیار خود لانا نہیں بلکہ میرا اصلی کام یہ ہے کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے (اس میں تبلیغ بھی آگئی البتہ نبوت کے اثبات کے لئے نفس معجزہ ضروری ہے سو ان کا وقوع ہوچکا ہے چناچہ ان میں سب سے اعظم ایک یہی قرآن ہے جس کی شان یہ ہے کہ) یہ (بجائے خود) گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے (کیونکہ اس کی ہر مقدار سورت مثلا ایک معجزہ ہے تو اس حساب سے مجموعہ قرآن کتنی دلیلیں ہوا اور اس کا یہ دلیل ہونا تو عام ہے) اور (رہا اس کا نفع بالفعل تو وہ خاص ہے ماننے والوں کے ساتھ چناچہ وہ) ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو (اس پر) ایمان رکھتے ہیں اور (آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ) جب قرآن پڑھا جایا کرے (مثلا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تبلیغ فرمائیں) تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو (تاکہ اس کا معجز ہونا اور اس کی تعلیم کی خوبی سمجھ میں آئے جس سے) امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (جدید یا مزید) معارف و مسائل آیات مذکورہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کا ثبوت اور اس پر مخالفین کے شبہات کا جواب اور ان دونوں کے ضمن میں چند احکام شرعیہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ رسالت کے ثبوت کے لئے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو معجزات دیئے جاتے ہیں، سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی مناسبت سے اتنے معجزات عطا کئے گئے جو پچھلے انبیاء کے معجزات سے بہت زائد بھی ہیں اور واضح بھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات جو قرآن مجید اور صحیح روایات حدیث سے ثابت ہیں ان کی بڑی تعداد ہے، علماء نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، علامہ سیوطی (رح) کی کتاب خصائص کبری دو ضخیم جلدوں میں اسی موضوع پر لکھی ہوئی مشہور و معروف ہے۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیشمار معجزات سامنے آنے کے باوجود مخالفین اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے اپنی طرف سے متعین کرکے نئے نئے معجزات دکھلانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جس کا ذکر اسی سورت میں پہلے بھی آچکا ہے۔ متذکرہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں ان کا ایک اصولی جواب دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر کا معجزہ اس کی رسالت کی ایک شہادت اور ثبوت ہوتا ہے اور جب مدعی کا دعوی کسی معتبر شہادت سے ثابت ہوجائے اور فریق مخالف نے اس پر کوئی جرح بھی نہ کی ہو تو اس کو دنیا کی کسی عدالت میں یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ مدعی سے اس کا مطالبہ کرے کہ فلاں فلاں مخصوص لوگوں کی شہادت پیش کرے تو ہم مانیں گے موجودہ شہادت پر کوئی جرح پیش کئے بغیر ہم تسلیم نہیں کرتے، اس لئے بہت سے واضح معجزات کے دیکھنے کے بعد مخالفین کا یہ کہنا کہ فلاں قسم کا خاص معجزہ دکھلایئے تو ہم آپ کو رسول مانیں۔ یہ ایک معاندانہ مطالبہ ہے جس کو کوئی عدالت صحیح تسلیم نہیں کرسکتی۔ چانچہ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب آپ ان لوگوں کا متعین کیا ہوا کوئی خاص معجزہ نہیں دکھلاتے تو یہ آپ کی رسالت کا انکار کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں معجزہ کیوں نہیں دکھلایا، تو آپ ان کو یہ جواب دے دیجئے کہ میرا کام باختیار خود معجزات دکھلانا نہیں بلکہ میرا اصلی کام یہ ہے کہ میں ان احکام کا اتباع کروں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے بذریعہ وحی بھیجے جاتے ہیں جن میں تبلیغ بھی شامل ہے اس لئے میں اپنے اصلی کام میں مشغول ہوں اور رسالت کے لئے وہ دوسرے معجزات بھی کافی ہیں جو تم سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں، ان کے دیکھنے کے بعد کسی خاص معجزہ کا مطالبہ ایک معاندانہ مطالبہ ہے جو قابل التفات نہیں۔ اور جو معجزات دکھلائے گئے ہیں ان میں سے قرآن خود ایک عظیم معجزہ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنا بلکہ اپنی ایک چھوٹی سی سورت کا مثل لانے کا کھلا چیلنج دیا اور ساری دنیا باوجود پوری کوششوں کے اس کا مثل لانے سے عاجز ہوگئی جو نہایت واضح علامت اس بات کی ہے کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کا بےمثل کلام ہے۔ اس لئے فرمایا (آیت) هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے بہت سی دلیلوں اور معجزوں کا مجموعہ ہے، جن میں ادنی غور کرنے والا یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ شانہ کا ہی ہے، کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں، اس کے بعد فرمایا (آیت) وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی یہ قرآن دلیل حق تو سارے جہاں کیلئے ہے مگر مقصد تک پہنچانے والا اور رحمت حق تعالیٰ کا مستحق بنانے والا صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس پر ایمان لائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰيَۃٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَہَا۝ ٠ ۭ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۝ ٠ ۚ ہٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٢٠٣ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے ( بصائر) ، جمع بصیرة، اسم جامد يدل علی العقل والفطنة والحجة، وقد يستعمل في موضع الصفة مثل جو ارحه بصیرة عليه أي شاهدة، وزنه فعیلة، وبصائر فيه قلب الیاء همزة لمجيئها زائدة بعد ألف ساکنة، وزنه فعائل . هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٣) مکہ والوں کے مطالبہ پر جب کوئی نبی (علیہ السلام) پر معجزہ ظاہر نہیں ہوتا تو کہتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے معجزہ کوئی نہیں لائے یا اپنی طرف سے کیوں نہیں لائے۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں اپنے قول وعمل میں اسی کی پیروی کرتا ہوں جو حکم میرے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ یہہ قرآن حکیم اوامرو نواہی کو بیان کرتا ہے اور جو لوگ قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے عذاب سے رحمت ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آخر میں ان دونوں سورتوں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ملے تھے ‘ اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی طرف سے مطالبات آتے رہے ‘ ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔ آیت ٢٠٣ (وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا ط) کفار مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجزہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے ؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کرلے آئیں ! اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا ‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں ‘ یہ نہیں تو وہ دکھا دیں ‘ ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں ! (اس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں بھی آئے گی) مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آخری حجت قائم کردی۔ اس کے بعدجب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کردی ہے ‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورة الانعام آیت ٣٥ میں اس طرح کھینچا گیا ہے : (وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط) اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے ! (ہم تو نہیں دکھائیں گے ! ) ۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ‘ مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ (قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ج) (ہٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ‘ یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

151. This question is a taunt rather than a simple query. What the utterance implies is that if the claim to prophethood is genuine, it should have been supported by some miracle. The next verse contains a fitting rejoinder to the taunt. 152. The Prophet (peace be on him) is being made to tell his opponents in clear terms that he has no power to get whatever he wants. Being God's Messenger, he is required to follow the directives of the One Who has sent him and has granted him the Qur'an which has the light of guidance. The major characteristic of this Book is that those who seek guidance from it do indeed find the right way. The moral excellence visible in the lives of those people who accept the Qur'an is testimony to the fact that they have been blessed with God's mercy.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :151 کفار کے اس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا ۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے ۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :152 یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کردوں ۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں ۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اور ان کے اخلاق حسنہ میں رحمت الہٰی کے آثار صاف ہویدا ہونے لگتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

102: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزے ان لوگوں کے سامنے آ چکے تھے، لیکن وہ ضد میں آکر نئے نئے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے، یہ اس کا جواب ہے کہ میں اپنی طرف سے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ میں تو ہر بات میں وحی الٰہی کا اتباع کرتا ہوں۔ 103: یعنی قرآن کریم بذات خود ایک معجزہ ہے، اس میں جو بصیرتیں ہیں، وہ ایک امی کی زبان پر جاری ہو رہی ہیں جس نے کبھی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ اس کے بعد کسی معجزے کی ضرورت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠٣۔ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ ہماری فرمائش کے مطابق معجزہ دکھلائیے اور جب ان کی خواہش کے موافق کوئی معجزہ نہیں دکھلایا جاتا تھا تو کہنے لگتے تھے کہ آپ تو خدا کے رسول ہیں خدا سے التجا کیجئے وہ معجزہ آپ کو عطا کرے گا اور نہیں تو آپ خود اپنے جی سے کوئی بات بنا لیجئے اسی کو اللہ پاک نے بیان فرمایا کہ اے رسول اللہ کے جب تم ان کو ایسی نشانی دکھلاتے ہو جو ان کی مرضی کے موافق ہو تو کہتے ہیں کہ تم نے اپنے جی سے یہ معجزہ گھڑ لیا ہے مثلا شق القمر جیسے بڑے معجزہ کو ان لوگوں نے جادو کا اثر بتلایا اس لئے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں اپنے جی سے کوئی کام نہیں کرسکتا میں تو خدا کا فرماں بردار ہوں جو وحی کے ذریعہ سے مجھ کو بتایا جاتا ہے وہ میں کر دکھاتا ہوں اور اس قرآن سے بڑھ کر کیا معجزہ ہوسکتا ہے اگر تم ایمان لانا چاہو تو یہی کافی ہے دوسرے معجزہ کے اس کے ہوتے کچھ ضرورت نہیں ہے فرمایا کہ یہ قرآن پاک یہ بیان کیا ہے کہ اہل ایمان کے تین درجے ہیں کوئی تو علم توحید میں اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ قرآن کی توحید اور خوبیوں بعضے ایسی ہیں جو قرآن کے مطلب کو اچھی طرح سمجھنے کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان کے واسطے قرآن کریم ہدایت ہے یہ لوگ حق الیقین کے مرتبہ میں ہیں ان کے لئے قرآن پاک رحمت ہے بصائر بصیرت کی جمع ہے دل میں سوچ کر کسی بات کا نتیجہ نکالنا اس کو بصیرت کہتے ہیں اور آنکھوں سے دیکھنے کو بصارت کہتے ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور معجزات کے علاوہ قرآن ہی ایک ایسا معجزہ مجھ کو دیا گیا ہے جس کے سبب سے اس قدر لوگ ہدایت پاویں گے کہ قیامت کے دن میری امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے زیادہ ١ ؎ ہوگی۔ اس آیت میں قرآن کو بصیرت ہدایت اور رحمت جو قرمایا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی ہدایت کی بارش کے پانی سے تشبیہ دی ہے اور اچھے برے لوگوں کی تشبیہ اچھی بری زمین کی فرمائی ہے ٢ ؎ اس حدیث کو بھی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ بارش کے پانی کے عام اثر کی طرح قرآن کی نصیحت سب کے حق میں عام ہے لیکن بری زمین کے اثر کے سبب سے جس طرح اس میں بارش کا پانی رائگاں جاتا ہے اسی طرح علم الٰہی میں جو لوگ گمراہ قرار پاچکے ہیں قرآن کی نصیحت معجزات کا اثر سب کچھ ان کے حق میں رائگاں ہے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٤٤ باب کیف نزل الوحی و صحیح مسلم ج ١ ص ٨٧ باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ج ١ ص ١٨ باب فضل من علم وعلم و صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٤٧ باب بیان مثل بابعث النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:203) لم تاتہم۔ تو نہیں لاتا ان کے پاس۔ نفی جحد بلم۔ واحد مذکر حاضر ھم ضمیر جمع مذکر غائب۔ لولا۔ کیوں نہ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 6:43 ۔ اجتبیتھا۔ جبی (ضرب) جبی الماء فی الحرض۔ اس نے حوض میں پانی جمع کیا۔ بڑے حوض کو جابیۃ کہتے ہیں اور اس کی جمع جواب ہے قرآن میں ہے وجفان کالجواب (34:13) اور (ایسے) لگن جیسے بڑے بڑے حوض۔ باب افتعال سے اجتباء انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنا۔ جیسے المجتبی منتخب شدہ۔ برگزیدہ۔ آیت ہذا میں اجتبیت بمعنی اخترت واخلفت کے ہے۔ کیوں نہیں تم خود گھڑ لیتے ۔ کیوں نہیں تم خود بنا لیتے۔ کیوں نہیں تم خود اختراع کرلیتے (جیسا کہ بقول کافرین کے وہ یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن حکیم کو ازخود گھڑ کر پیش کرتے تھے) ۔ ھا ضمیر کا مرجع ایۃ ہے۔ اتبع۔ میں اتباع کرتا ہوں اتباع (افتعال) مضارع صیغہ واحد متکلم۔ یوحی۔ وحی کی جاتی ہے۔ ایحاء (افعال) سے مضارع مجہول واحد مذکر غائب ۔ ھذا۔ ای القران۔ بصائر۔ بصیرۃ کی جمع ۔ کھلی دلیں۔ ظاہر نصیحتیں۔ واضح براہین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(5 اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی ضلالت اور عناد کیا یک مثال ایتہ ( معجزہ) اپنے پاس سے ہی لے آؤ ( کبیر)6 یعنی میں تو وحی الہیٰ کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی چیز بنا کر پیش نہیں کرسکتا، اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی ایک بڑ امعجزہ ہے پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں ، ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ اجتبیت۔ تو نے پسند کیا۔ بصائر۔ بصرتیں۔ سمجھ کی باتیںَ تشریح : کفار اور مشرکین اعتراض برائے اعتراض کے طور پر کہتے تھے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی اور رسول ہیں… لیکن ہم اس بات کو کیسے تسلیم کرلیں۔ آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھائے کوئی ایسی چیز لا کر دکھائیے جسے دیکھ کر ہم یقین کرلیں کہ واقعی آپ اللہ کی طرف سے بھیجئے ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ ہر نبی نے جب بھی اللہ کے دین کی طرف بلایا تو جن لوگوں کو ماننا تھا انہوں نے مان لیا لیکن جن کو نہیں ماننا تھا وہ یہی کہتے تھے کہ ہمیں پہلے معجزہ دکھائو تو ہم تمہارے اوپر ایمان لائیں گے۔ جب اللہ کے حکم سے وہ کوئی معجزہ دکھا دیتے تو کہتے کہ یہ معجزہ نہیں ہے یہ تو جادو ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔ کفار مکہ جب بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی معجزہ کا مطالبہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کفار سے یہی سوال فرماتے کہ آج تم معجزہ دکھانے کی باتیں کرتے ہو کیا تم سے پہلے لوگوں نے معجزات کے مطالبے نہیں کئے تھے۔ انہوں نے معجزات دیکھ کر کب اسلام قبول کیا ہے جو تم معجزہ آنے کے بعد اسلام قبول کرلو گے ؟ ۔ اس میں شک نہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ بہت سے معجزات ثابت ہیں جو آپ کی سیرت پاک کے واقعات میں محفوظ ہیں لیکن قرآن کریم سے بڑھ کر اور کونسا معجزہ ہوگا۔ وہ قرآن کریم جس کی چھوٹی سے چھوٹی ایک سورة بنالانے کے لئے اس وقت بھی چیلنج تھا اور صدیا گزرنے کے باوجود آج بھی چیلنج ہے جس قرآن کریم کے سامنے ساری دنیا عاجز ہے اس سے بڑھ کر وہ لوگ اور کس معجزہ کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ اگر بغور دیکھا جائے تو ہر نبی کا معجزہ ان کی نبوت کی طرح ان کے زمانہ تک محدود تھا جب وہ نبی چلے گئے تو ان کا معجزہ بھی اسی زمانہ میں ختم ہوگیا لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان نبوت جس طرح قیامت تک جاری رہے گی اسی طرح قرآن کریم کا یہ معجزہ بھی قیامت تک قائم و دوائم رہے گا بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ دنیا سائنس میں جتنی ترقی کرتی چلی جائے گی انسان کی معلومات اپنی ذات اور کائنات تک جتنی وسیع ہوتی جائے گی قرآن کا معجزہ ہونا اور ثابت ہوتا جائے گا اور الحمد اللہ ثابت ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے جھوٹے مذاہب اور ان کی تعلیمات سائنس کی ترقیوں کے ساتھ ہی ختم ہوتی جائی گی لیکن قرآن کریم وہ معجزہ ہے جس کی شان بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ معجزہ طلب کرنے والوں سے کہہ دیجئے کہ مجھے جو قرآن کریم وحی کیا گیا ہے میں تو اس کی اتباع کرنے والا ہوں۔ یہی قرآن کریم بصیرت کی روشنی ہے۔ یہی رحمت ہے یہی معجزہ ہے۔ اگر تم بھی اس پر ایمان لے آئو تو یہ قرآن کریم تمہارے لئے بھی رحمت وکرم کا سبب بن جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ حاصل جواب یہ ہے کہ نبوت کی غایت اصلی اصلاح ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہ شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہے کہ دلائل اور معجزات دیکھنے اور جاننے کے باوجود کفار ہر روز نئے سے نیا مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں مزید معجزات دکھائے جائیں۔ یہاں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن سے بڑھ کر کونسا معجزہ ہوسکتا ہے۔ مکہ کے کفار اور مدینہ کے اہل کتاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سے ایک بڑھ کر سوال اور معجزات طلب کیا کرتے تھے۔ ان کے ہر معقول سوال کا مؤثر اور مدلل جواب دیا گیا اور ان کے مطالبہ پر بڑے بڑے معجزات بھی پیش کیے گئے۔ لیکن ان کے دل میں کھوٹ اور طبیعت میں بہانہ سازی کا عنصر غالب تھا جس وجہ سے وہ ایک مطالبہ پورا ہونے کے بعد دوسرا پیش کردیا کرتے تھے۔ اور کبھی کہتے یہ تو تیری جادوگری کا کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا جواب دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ فقط یہ فرمائیں میں تو ایک رسول ہونے کی حیثیت سے وحی الٰہی کی اتباع کا پابند ہوں۔ جہاں تک دلائل اور معجزہ کا تعلق ہے وہ قرآن مجید فرقان حمید کی شکل میں تمہارے سامنے ہے جس کا جواب آج تک تم سے نہیں بن سکا اور قیامت تک اس کا جواب پیش نہیں کرسکو گے۔ اگر تم اپنی ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو اور قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنو تو یقیناً تم پر اللہ کا کرم اور اس کی مہربانی نازل ہوگی کیونکہ یہ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت اور ان کی مشکلات کے مداوا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ لیکن کفار کا وطیرہ تھا اور ہے کہ قرآن پڑھنے اور سننے کے بجائے جونہی قرآن کی تلاوت شروع ہو تو اتنا شور و غوغا کرو کہ تم قرآن پر غالب آجاؤ۔ (سورۂ حٰم السجدہ، آیت : ٣٦) بعض اہل علم نے تلاوت قرآن کو خاموشی کے ساتھ سننے کے حکم کو نماز پر منطبق کیا ہے جس کی بناء پر ان کا خیال ہے کہ جب امام نماز میں بلند آواز سے قراءت کرے تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے ابتدا میں یہ صرف علمی بحث تھی لیکن جونہی ائمہ کی تقلید کا مسئلہ پیدا ہوا تو پھر اس میں یہاں تک تشدد پیدا ہوا کہ بعض لوگ من گھڑت روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ جو شخص امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھے گا اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ ڈالی جائے گی حالانکہ اس کا حدیث کی کتب میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہری نماز میں امام کے پیچھے صرف قرآن مجید کی تلاوت سے منع کیا ہے باقی فاتحہ سمیت پوری نماز امام کے پیچھے پڑھنی ہے۔ کیونکہ یہ آیت مبارکہ نماز کے بجائے کفار کے سورة حٰم السجدہ کے جواب میں نازل ہوئی تھی اس کا تعلق نماز کے بجائے تبلیغ کے ساتھ ہے اگر کوئی صاحب علم اس آیت کو عموم پر قیاس کرتا ہے تو پھر بھی اس کا اطلاق فاتحہ پر نہیں ہوتا اس شبہ کو دور کرنے کے لیے حدیث میں فاتحہ کا الگ ذکر کیا گیا۔ مسائل ١۔ معجزات نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں نہیں تھے۔ ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے۔ ٣۔ قرآن مجید ہدایت اور رحمت سے بھرپور ہے۔ ٤۔ قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (الاحزاب : ٢) ٢۔ میں اتباع کرتا ہوں اس کی جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (الاحقاف : ٩) ٣۔ مجھے قرآن وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں ڈراؤں۔ (الانعام : ١٩) ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کے متعلق اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے مگر آپ کو جو وحی کی جاتی ہے۔ (النجم : ٣ تا ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مشرکین مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزات کا مطالبہ ہر وقت کرتے رہتے تھے۔ یہاں ان کے بعض اقوال کو نقل کرکے دکھایا جاتا ہے کہ وہ کس قدر جاہل تھے اور رسالت کی حقیقت سے کس قدر بیخبر تھے۔ وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا۔ اے نبی جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانیوں کیوں نہ انتخاب کرلی۔ یعنی تم نے اصرار رب العالمین کے سامنے کیوں نہ کیا کہ مجھے یہ نشانی اور معجزہ دیا جائے یا یہ مطلب تھا کہ تم نے از خود معجزے کا صدور کیوں نہ کیا۔ کیا تم نبی نہیں ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ رسالت کی ماہیت اور رسول کے فرائض منصبی سے واقف ہی نہ تھے۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ رب العالمین کے دربار میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس قدر با ادب تھے اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ ملتا آپ اسے لے لیتے اور اگر کچھ نہ ملتا تو آپ از ٰخود مطالبہ نہ کرتے نہ کوئی تجویز دیتے۔ نہ آپ میں اس قدر طاقت تھی کہ کسی معجزے کا صدور وہ اپنی طرف ہی سے کرلیتے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے سامنے یہ اعلان کردیا جائے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ۔ ان سے کہو میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ میں نہ تو رب العالمین کے سامنے کوئی تجویز دیتا ہوں ، نہ اپنی طرف سے کوئی معجزہ ایجاد کرتا ہوں۔ میرے بس میں وہی کچھ ہے جو اچھے لوگوں کی جو تصویر پیش کی تھی وہ لوگوں کی نظروں کے سامنے تھی۔ حیقی رسالت اور رسول کے اصل منصب کی ماہیت کے ادراک کے لیے ان کے پاس کوئی علم نہ تھا۔ چناچہ حضور کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان لوگوں کے سامنے وہ علمی حقائق پیش کریں جو ان کے لیے چشمہ بصیرت ہوں اور جن کو قرآن میں نازل کیا گیا ہے اور وہ ان سے جاہل ہیں۔ ان حقائق پر غور کرنے کے بجائے وہ معجزات طلب کرتے ہیں حالانکہ وہ قرآن پڑھ کر ان حقائق کو پا سکتے ہیں۔ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ بیشک قرآن بصیرت کی روشنی ہے ، اور رحمت الہی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے جو اسے تسلیم کرلیں اور ایمان لائیں اور اس مال غنیمت کو لوٹ لیں کیونکہ یہ تو ہے ہی عامۃ الناس کی بھلائی کے لیے۔ وہ عرب جو جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے وہ اس قرآن سے روگردانی کرکے اس کے بجائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خارق عادت معجزات طلب کرتے تھے جس طرح اس وقت لوگ نبیوں سے معجزات طلب کرتے تھے جب انسانیت دور طفولیت میں تھی اور اس وقت لوگ اپنے اپنے علاقوں میں محدود تھے اور عالمی سطح پر لوگوں کے درمیان علم و حکمت کا تبادلہ نہ ہوا تھا۔ اس وقت کی رسالتیں بھی علاقوں اور مختصر زمانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں اور ان کا خطاب بھی ان ہی لوگوں تک محدود تھا جو اس وقت موجود تھے۔ بعد کے آنے والوں پر ان رسالتوں کا اطلاق نہ ہوتا تھا جنہوں نے ان معجزات کو نہ دیکھا تھا۔ وہ معجزات صرف ان لوگوں ہی کے لیے مفید تھے ، بعد میں آنے والوں کے لیے مفید نہ تھے ، جنہوں نے ان کو نہ دیکھا تھا اور شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ قرآن کریم اس قدر معجزہ ہے کہ کوئی مادی معجزہ اس کے مقابلے میں معجزہ نہیں ہے۔ جس دور کو لیا جائے اور جس پہلو سے لیا جائے قرآن مجید حران کن ہے۔ یہ کسی وقت یا کسی دور کے لوگوں کے لیے ہی معجز نہیں ہے بلکہ تاقیامت معجزہ ہے۔ لفظاً و معناً معجز ہے۔ ذرا اس کا لفظی اور اس تعبیری پہلو ملاحظہ کیجیے۔ جاہلیت کے دور میں عربوں کے اندر جو فصاحت و بلاغت پائی جاتی تھی وہ ان کے اعتبار سے بالکل واضح معجزہ تھا وہ جس طرز ادا کے عادی تھے اور جس طرح وہ اپنے بازاروں اور تہواروں میں اس پر باہم فخر کیا کرتے تھے۔ ذرا دیکھیے کہ اس پہلو سے جس طرح وہ اس وقت معجز رہا تھا ، آج بھی ہے اور کوئی انسان آج تک ان بلندیوں کو نہیں چھو سکا حالانکہ قرآن نے ان کو اس وقت بھی چیلنج دیا تھا اور آج بھی دے رہا ہے۔ انسانوں میں سے جو لوگ تعبیرات کلامی سے واقف ہیں اور جن کو ادراک ہے کہ انسان کس قدر فصاحت و بلاغت تک پہنچ سکتا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اپنی طرز ادا کے اعتبار سے قرآن معجز ہے اور معجز رہے گا۔ اور یہ ماہرین اسلوب چاہے قرآن مجید پر ایمان لائے ہوں۔ چاہے نہ لائے ہوں وہ اس کے اعجاز کو مانتے ہیں کیونکہ یہ چیلنج جن اصولوں پر قائم ہے ان کے سامنے مومن اور کافر دونوں برابر ہیں۔ کبرائے قریش قرآن کریم کے ان چیلنجوں کو رات دن پڑھتے تھے ، لیکن ان کے پاس ان کے جواب کی کوئی سبیل نہ تھی حالانکہ وہ قرآن کریم کے منکر تھے اور اسے بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ آج بھی ہر جاہل قرآن کریم کے ان چیلنجوں کو پاتا ہے مگر اس کے پاس جواب کی کوئی سبیل نہیں ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لفظی اور اسلوبی اعجاز کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے فطرت انسانی پر معجزانہ اثرات ہیں۔ بشرطیکہ انسانی فطرت اور اس کتاب کے درمیان رکاوٹیں ایک لمحے کے لیے بھی دور ہوجائیں۔ وہ لوگ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں اور جن کے دلوں پر تہ بہ تہ جاہلیت کی گرد پڑی ہوئی ہو ، ان کے دل بھی بعض اوقات گرد جھاڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور جب وہ قرآن کو سنتے ہیں تو ان کے دل بھی تلملا اٹھتے ہیں اور ان کے دل قرآن کریم کے مسحور کن اثرات میں گھر جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ بات کرتے ہیں اور بعض لوگوں کے کلام میں اصول و مذاہب اور مختلف افکار اور رجحانات ہوتے ہیں لیکن انسانی فطرت پر قرآن مجید کا جو اثر ہوتا ہے وہ ایک منفرد اثر ہوتا ہے۔ انسانی دلوں پر اس کی تلاوت کے مخصوص اثرات پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والوں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ قریش اپنے دیر دست متبعین کو یہ مشورہ دیتے اور در اصل وہ خود اپنے آپ کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔ لاتسمعوا لہذا القران والغوا فیہ لعلکم تغلبون " اس قرآن کی طرف کان نہ دھرو ، بلکہ اس میں شور مچاؤ شاید کہ تم غلبہ پا لو۔ وہ قرآن کریم کے اثرات خود اپنے نفوس کے اندر محسوس کرتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان اثرات کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ آج ہمارے دور جدید کے کبراء بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی توجہ قرآن کریم سے ہٹائیں لیکن قرآن کریم آج بھی غالب اور موثر ہے اور انسانی کلام کے اندر اگر قرآن کریم کی ایک یا دو آیات کو رکھ دیا جائے تو وہ واضح طور پر منفرد نظر آتی ہیں۔ ان کا اثر دوسرے کلام سے علیحدہ ہوتا ہے۔ انسانی احساس پر ان کا اثر گہرائیوں تک ہوتا ہے اور اس سے انسانی کلام بالکل جدا اور علیحدہ نظر آتا ہے۔ حالانکہ انسانی کلام بڑے تکلف اور نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہوتا ہے۔ اب ذرا اس کتاب کے موضوع اور مواد پر غور کریں۔ قرآن کے مواد اور موضوعات پر کلام کے لیے ظلال القرآن کے مختصر صفحات میں کلام کی گنجائش نہیں ہے۔ کیوں کہ موضوع اور مفہوم کے اعتبار سے تو وہ بحر ناپید اکنار ہے۔ اس قدر مختصر صفحات میں کہاں کہا جاسکتا ہے۔ بہرحال انسان اور انسانی شخصیت کے ہر پہلو کو قرآن نے موضوع بحث بنایا ہے۔ انسانی شخصیت کو قرآن نے ہر جہت سے لیا ہے۔ ایک ہی رو میں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے۔ انسانی شخصیت کے ہر دروازے سے یہ کتاب اندر داخل ہوتی ہے۔ انسانی تفکرات میں سے ہر فکر اور انسانی جذبات میں سے ہر جذبے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قرآن کریم جب ذات انسان کے مسائل پر بحث کرتا ہے تو اس کا منہاج بحث بڑا انوکھا ہوتا ہے۔ انسان کا دل و دماغ اور اس کی فطرت جس بات کو محسوس کرتی ہے ، قرآن اسے لیتا ہے ، اس کی واضح شکل سمانے لاتا ہے اور اس موضوع پر انسان کی فطری ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ دیتا ہے۔ انسان کی پوشیدہ قوتوں کو یہ کتاب جگاتی ہے اور ان کو صحت مند راستے پر ڈالتی ہے۔ پھر قرآن کا منہاج ایسا حکیمانہ ہے کہ وہ انسانی فطرت کو لے کر قدم بقدم ، مرحلہ وار ، نہایت ہی تدریج کے ساتھ ، نرمی اور سہولت کے ساتھ بلندی پر چڑھاتا جاتا ہے۔ انسان اس راستے پر نہایت ہی جوش اور پرجوش طریقے سے اگے بڑھتا ہے ، اسے اپنی راہ بالکل واضح اور صاف نظر آتی ہے اور وہ یوں ترقی کرتا ہے جس طرح ایک انسان بلندی پر ایک سیڑھی عبور کرکے چڑھتا ہے اور بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے ار اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اور اس راہ پر بڑھتے ہوئے وہ علم و نظر ، جوش و خروش ، استقامت اور یقین ، اعتماد اور امید اور آرام اور اطمینان کے ساتھ ، اس کائنات کے پورے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ، خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، آگے بڑھتا جاتا ہے۔ قرآن کا عجیب منہاج و انداز یہ ہے کہ وہ فطرت انسانی کو ایک ایسے مقام سے بیدار کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی شخص یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ کس قدر بیدار اور حساس مقام ہے۔ یا یہ کہ اس زاویہ سے فطرت انسانی زیادہ قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی فطرت اپنے اسی پہلو سے بیدار ہوتی ہے اور پرجوش انداز میں قرآنی ہدایات پر لبیک کہتی ہے ، اس لیے کہ جس ذات نے یہ قرآن نازل کیا ہے۔ وہی تو اس فطرت کی خالق ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ اس قدر رکھتا ہے جو قربت انسان کی شہ رگ نہیں رکھتی۔ یہ منہاج یا یہ مواد جسے قرآن کریم اس اسلوب و منہاج میں پیش کرتا ہے ، اس کے اس قدر وسیع پہلو ہیں جن پر قول و کلام حاوی نہیں ہوسکت۔ اسی لیے کہا گیا ہے : قل لوکان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مدد۔ کہو کہ اگر اللہ کے کلمات کے لیے سمندروں کو سیاہی بنا دیا جائے تو یہ سمندر ختم ہوجائیں اور اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں ، اگرچہ ہم ان جیسے مزید سمندر ہی سے سیاہی بنائیں۔ اور دوسری آیت میں کہا گیا ہے : ولو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام ۔ اور سمندر سے سیاہی بنانے میں مزید سات سمندر استعمال کیے جائیں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں۔ راقم الحروف ، اللہ کے فضل و کرم سے 15 سال تک قرآن کریم کا نہایت ہی گہرا مطالعہ کرتا رہا ہے۔ اس عرصے میں وہ اس کتاب کے موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر نگاہ دوڑاتا رہا ہے۔ انسان کے حاصل کردہ علوم کے مختلف میدانوں میں جہاں انسانی ذہن کی رسائی ہوئی ہے اور جہاں انسانی اذہان ابھی تک نہیں پہنچ سک کے۔ میں نے ان علوم کے بارے میں ان چیزوں کو مطالعہ بھی کیا جو انسانوں ان موضوعات کے بعض پہلوؤں کے بارے میں بطور انسانی کاوش پیس کی ہیں ، لیکن میں نے اس حقیقت کو پایا ہے کہ قرآن کریم کا فیض بہت ہی عام وسیع اور کھلا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی علم ایک چھوٹا سا بحیرہ ہے ، بلکہ ایک چھوٹا سا کنوا یا سوراخ ہے بلکہ وہ ایک ایسا تالاب ہے جو مسلسل ٹھہراؤ کی وجہ سے بدبودار ہوگیا ہے۔ میں نے اس کائنات پر قرآن کی روشنی میں ایک کلی نگاہ ڈالی۔ اس کائنات کے مزاج ، اس کی ماہیت ، اس کی پیدائش و تخلیق اور اس کی ترقی اور اس کی پشت پر راز ہائے نہفتہ کو خوب پڑھا۔ اس کائنات کی خفیہ اور پشویشدہ صفات اور خصوصاً اس کی زندہ مخلوق پر غور کیا ، خصوصاً وہ تحریں بھی مطالعہ کیں جو اس کائنات کے بارے میں انسان نے اپنے علم و تجربے سے تحریر کیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے کتاب خصائص التصور الاسلامی وغیرہ) پھر انسان کے وجود ، اس کی نفسیات ، اس کی اصلیت ، اس کی نشوونما ، اس کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اس کی سرگرمیوں کے دائروں ، اس کے وجود کی ساخت ، اس کے تاثرات ، اس کے میلانات اور دوسرے حالات اور راز جن کے بارے میں انسانوں نے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں ، مثلاً علوم الحساب اور حیاتیات کے مختلف موضوع ، انسانی عقائد و ادیان اور اس کے اجتماعی فلسلفے ، ان موضوعات کا بھی میں نے بغور مطالعہ کیا۔ (دیکھئے الاسلام و مشکلات الحضار وغیرہ) پھر انسان کے وجود ، اس کی نفسیات ، اس کی اصلیت ، اس کی نشوونما ، اس کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اس کی سرگرمیوں کے دائروں ، اس کے وجود کی ساخت ، اس کے تاثرات ، اس کے میلانات اور دوسرے حالات اور راز جن کے بارے میں انسانوں نے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں ، مثلاً علوم الحساب اور حیاتیات کے مختلف موضوع ، انسانی عقائد و ادیان اور اس کے اجتماعی فلسفے ، ان موضوعات کا بھی میں نے بغور مطالعہ کیا۔ (دیکھیے الاسلام و مشکلات الحضار وغیرہ) پھر میں نے انسانی نظام ہائے حیات کا بھی مطالعہ کیا۔ ان نظاموں میں انسان کی سرگرمیوں کا بھی مطالعہ کیا ، اس میں انسانوں کے باہم روابط اور اختلافات کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ انسانی روابط کی تجدید و اصلاح کی اسکیموں پر بھی غور کیا۔ اور ان کے بارے میں ان موضوعات پر مطالعہ کیا جن کے بارے میں بہت سے مکاتیب فکر میں اور جن پر انسانوں نے کام کیا ہے مثلاً سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی مسائل (تفصیلات کے لیے دیکیے میری کتاب نحو مجتمع اسلامی) ان تمام شعبوں میں اور ان تمام موضوعات پر انسانی علوم و فنون کے مطالعے کے بعد جب میں نے قرآن مجید کو غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ ان موضوعات کے بارے میں بڑی کثرت سے آیات موجود ہیں جن میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں اور جو علم کا خزانہ قرآن میں ہے وہ نہایت ہی حقیقی ، ٹھوس اور وسیع ہے۔ ان موضوعات پر سالہا سال تک غور کرتے ہوئے میں نے کبھی بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ قرآن سے باہر ، کسی حوالہ سے مدد لی جائے۔ ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احوال و احادیث کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے کیونکہ وہ کلام بھی آثار کلام الہی میں سے ہے۔ قرآن و سنت کے سوا ان موضوعات پر انسانوں نے جو کہا ہے وہ نہایت ہی کمزور اور ناقص ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تب بھی تشفی بخش نہیں ہے۔ راقم الحروف نے ہر انسانی تحریر کے مقابلے میں قرآن کو مفصل اور تشفی بخش پایا۔ میں جو بات کہہ رہا ہوں ، ایک طویل عرصہ تک قرآن پر غور و فکر کرنے اور انسانی مسائل کے حل میں قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرنے کی ضرورت کے تحت عملاً قرآن کے سائے میں رہنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ میں قرآن کی خوبیاں بیان کرکے قرآن کے بارے میں آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کر رہا نہ تمام انسان قرآن کی تعریفیں کرکے اس کے کمال میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کا ایک نہایت ہی منفرد گروہ اور نسل گراں قدر ہے ، یعنی صحابہ کرام ، ان کی تربیت ، ان کے علم اور ان کی راہنمائی کا سرچشمہ یہی کتاب تھی۔ اسی کتاب نے ان کو بنایا تھا۔ اس کے بعد انسانوں میں کوئی گراہ اس معیار کا تیار نہیں ہوسکا ، نہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں صحابہ کی ٹکر کا کوئی گروہ ہمارے علم میں ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انسانی تاریخ میں ایک گہرا اور وسیع انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس عظیم انقلاب اور اس عظیم واقعہ کا انسانوں نے فی الحقیقت گہرا مطالعہ نہیں کیا۔ انسانی تاریخ میں گروہ صحابہ کے ذریعے جو انقلاب برپا کیا گیا اور جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہے ، در حقیقت وہ اسی کتاب یعنی قرآن کے سرچشمے سے پھوٹا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام رسولوں کے ہاتھوں جن معجزات کا صدور ہوا ، یہ معجزہ یعنی انسانیت کے انقلاب عظیم کا معجزہ ان تمام معجزات سے برتر اور ان پر بھاری ہے ، کیونکہ یہ ایک حقیقی ، قابل ملاحظہ اور زیر مشاہدہ معجزہ ہے۔ غرض گروہ صحابہ انسانی تاریخ کا ایک منفرد معجزہ تھے۔ اسلامی معاشرے کی پہلی ترکیب اس منفرد گروہ سے تھی ، اس کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک اسلامی معاشرہ زندہ و تابندہ رہا اور اس میں اسلامی شریعت کے قوانین نافذ رہے۔ یہ معاشرہ اسلامی اقدار ، اسلامی حسن و قبح کے پیمانوں اور اسلامی ہدایات اور اشارات کا پابند رہا۔ یہ ہزار سالہ اسلامی معاشرہ بھی درحقیقت ایک دوسرا تاریخی معجزہ تھا خصوصاً جبکہ کوئی تاریخی مبصر اس اسلامی معاشرے اور دوسرے انسانی معاشروں کے درمیان تاریخی موازنہ کرے۔ یہ دوسرے جاہلی معاشرے مادی ترقی میں تو اسلامی معاشرے سے برتری کا دعوی کرسکتے ہیں لیکن انسانی تہذیب و تمدن میں وہ برتری کا دعوی نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ آج جدید جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی نفسیاتی ضروریات ، اپنی اجتماعی ضروریات اور اپنی زندگی کی بہبود قرآن کے بجائے کسی اور سرچشمے سے اخذ کرتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح جس طرح عرب جاہلیت کے پیروکار قرآن کریم کے علاوہ خوارق و معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ عرب کے سادہ جاہلوں کو تو قرآن مجید کا یہ عظیم معجزہ اس لیے نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہایت ہی گہری جاہلیت اور جہالت میں مبتلا تھے اور ان کے ذاتی مفادات بھی قرآنی تعلیمات سے متضاد تھے۔ لہذا وہ قرآنی عجائبات کو پانے سے محروم رہے۔ رہی جدید جاہلیت تو وہ جہالت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تعلیمی معیار کے غرور کی وجہ سے قرآنی عجائبات کے دیکھنے سے محروم ہے ، حالانکہ علم کے یہ دروازے ، ان پر اللہ ہی نے کھولے ہیں لیکن انہوں نے علم کو مادی دنیا کے اندر محدود کردیا ، نیز انسانی ضروریات کے تحت آج دنیا کو جو ضروریات لاحق ہیں ان ضروریات کے حصول کے لیے انسانی زندگی بہت زیادہ منظم ہوچکی ہے اور تنظیم و تشکیل کے زاویہ سے جدید جاہلیت کے پرستار نہایت ہی غرور میں مبتلا ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ زیادہ تجربات کی وجہ سے دور جدید کی زندگی نہایت ہی منظم اور پختہ ہوچکی ہے اور مختل ضروریات کی وجہ سے پیچیدہ بھی ہوچکی ہے۔ اور اس جدید زندگی کے دلدادہ لوگ غرور میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ نیز چودہ سو سال سے یہودی اور صیہونی لابی اسلام دشمنی میں مبتلا ہے اور اس نے ان چودہ سو سالوں میں اسلام اور قرآن کے خلاف اپنی سازشوں کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہیں کیا۔ یہودیوں کی پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اس کتاب سے غافل کردیں۔ وہ اس کتاب سے ہدایات نہ لیں ، کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے طویل تجربات کے ذریعے یہ بات معلوم ہچکی ہے کہ مسلمان جب تک قرآنی ہدایات کی پیروی کرتے رہیں گے یہ لوگ ان پر قابو نہیں پا سکتے۔ لیکن اس بات کے لیے ایک شرط ہے کہ مسلمان کتاب اللہ کو اس طرح پکڑیں جس طرح دور اول کی لاثانی جماعت ، جماعت صحابہ نے اسے پختہ طریقے سے پکڑا تھا۔ یہ نہ ہو کہ وہ اس کی آیات کو تو اچھی طرح گاتے ہوں اور خوش الحانی سے پڑتے ہوں لیکن ان کی عملی زندگی سو فیصد اس کی تعلیمات کے برعکس ہو۔ یہ یہودیوں کی نہایت ہی خبیث اور مذموم سازش ہے یہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ اس سازش ہی کا آخری نتیجہ وہ حالات ہیں جن میں وہ اقوام مبتلا ہیں جو اپنے نام مسلمانوں جیسے رکھتی ہیں ، حالانکہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں شریعت الہیہ کو نافذ نہ کردیں۔ غرض اسی سازش کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر جگہ اس دین کے آثار کو مٹایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مواقع فراہم نہیں ہوتے کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن کی ہدایات کے مطابق منظرم کریں اور اپنے تمام اختلافات و نزاعات میں بھی قرآن کو اس طرح حکم بنائیں جس طرح قرون اول کے مسلمان قرآن کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تھے اور اپنے لیے قوانین و اصول قرآن کی روشنی میں بناتے تھے۔ آج حالت یہ ہے کہ اہل قرآن نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ ماسوائے حسن قراءت ، ترتیل کے اس کا مطالعہ نہیں کرتے ، اوہام اور تعویذوں کے سوا اس کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ حالت گہری اور مذموم صیہونی اور صلیبی سازش کی وجہ سے ہے ، مسلمانوں کی جہالت اور غرور علم کی وجہ سے ہے اور مسلمانوں کے فکر و نظر کے عمومی فساد کی وجہ سے ہے۔ دور قدیمہ میں جاہلیت کے پرستار لوگوں کو اس سے اسی طرح غافل کرتے تھے کہ وہ اسے سننے اور اس پر غور کرنے کے بجائے خوارق عادت واقعات کے صدور کا مطالبہ کرتے تھے۔ دور جدید کے جاہل اس قرآن سے مسلمانوں کو دور رکھتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں اپنے بنائے ہوئے قرآن دیتے ہیں اور ابلاغ اور میڈیا کے جدید وسائل کے ذریعے وہ اپنے بنائے ہوئے نظریات کو لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرتے ہیں اس قرآن کے بارے علیم وخبیر کا فیصلہ یہ ہے۔ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور حمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ اور قرآن کا مقام چونکہ یہی ہے ، اس لیے خود ہدایت دی جاتی ہے کہ تمہارا قرآن کے ساتھ رویہ یہ ہونا چاہیے۔ وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ جب قران تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرمائشی معجزات طلب کرنے والوں کا جواب آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دلائل واضحہ کے ساتھ دعوت حق دیتے تھے حق پہچاننے کے لیے سب سے بڑی چیز دلائل عقلیہ ہی ہیں اس کے باو جود اللہ جل شانہٗ کی طرف سے معجزات کا ظہور بھی ہوتا رہتا تھا لیکن معاندین کہتے تھے کہ جو معجزہ ہم چاہیں ایسا معجزہ ظاہر ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ چاہتا تو لوگوں کے فرمائشی معجزے بھی ظاہر فرما دیتا لیکن اللہ تعالیٰ کسی کا پابند نہیں کہ لوگوں کے کہنے کے مطابق معجزہ ظاہر فرمائے پھر ان لوگوں کا فرمائشی معجزہ طلب کرنا بھی عناد اور تعنت کے طور پر تھا۔ حق قبول کرنا مقصود نہ تھا اسی لیے معجزات کو جادو بتا دیتے تھے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ معجزہ ظاہر ہونے میں دیر ہوئی یا ان کا فرمائشی معجزہ ظاہر نہ ہوا تو بطور عناد اعتراض کرنے لگے۔ آیت کریمہ (وَ اِذَا لَمْ تَاْتِھِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَھَا) میں معاندین کا شر پسندانہ اعتراض نقل فرمایا ہے کہ آپ نبوت کے دعویدار ہیں۔ آپ نے اپنے پاس سے کوئی معجزہ کیوں ظاہر نہ کردیا یا یہ مطلب تھا کہ اللہ سے کیوں یہ بات نہ منوالی تاکہ وہ ہمارا فرمائشی معجزہ ظاہر کردیتا اس کے جواب میں فرمایا (قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ) (آپ فرما دیجیے کہ میں تو صرف اسی کا اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف وحی کی جاتی ہے) مطلب یہ ہے کہ میرا کام تو بس یہ ہے کہ وحی کا اتباع کروں۔ میرے ہاتھ میں معجزوں کا ظاہر کرنا نہیں ہے اور فرمائشی معجزہ ظاہر ہونے پر ایمان قبول کرنے کو موقوف رکھنا حماقت ہے اور ضد وعناد ہے۔ بہت سے معجزات ظاہر ہوچکے ہیں لیکن تم ایمان نہیں لاتے۔ قرآن میں بصیرت کی باتیں ہیں اور رحمت اور ہدایت ہے جسے حق قبول کرنا ہو اس کے لیے قرآن کریم ہی بہت بڑا معجزہ ہے۔ لفظی معجزہ بھی ہے اور معنوی بھی، جو حقائق اور معارف پر مشتمل ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے طالب حق کو اور کسی معجزہ کی ضرورت نہیں، اسی کو فرمایا (ھٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ ) (یہ تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی باتیں ہیں) نیز یہ بھی فرمایا کہ (وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) (اور یہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان لاتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

193: یہ شکویٰ ہے اگر وحی میں ذرا تراخی ہوجائے تو مشرکین کہتے ہیں آپ اپنے پاس سے آیت بنا کر کیوں نہیں سنا دیتے “ قُلْ اِنَّمَا اَتَّبِعُ الخ ” یہ جواب شکویٰ ہے یعنی آپ فرما دیں میں تو اللہ تعالیٰ کی وحی کا تابع ہوں میرے پاس اللہ کی طرف سے جو کچھ وحی آتی ہے وہی سناتا ہوں اپنے پاس سے بنانے کا مجھے اختیار نہیں۔ “ وَ اِذَا لَمْ تَاتِھِمْ بِاٰيَةٍ من القراٰن عند تراخی الوحی لما روي ان مجاھد و قتادة۔۔۔۔۔” (روح ج 9 ص 146) ۔ “ ھٰذَا ” یہ جو کچھ پہلے مذکور ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

203 اور جب آپ ان کے پاس کچھ دنوں کوئی آیت ہیں لاتے یا ان کا کوئی منہ مانگا معجزہ ان کی خواہش کے مطابق ان کو نہیں دکھاتے تو یہ کہتے ہیں تو خود کوئی آیت کیوں نہیں بنا لاتا یا اپنے خدا سے کہہ کر ہمارا منہ مانگا معجزہ کیوں نہیں چھانٹ لاتا آپ فرما دیجئے میں تو فقط اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے مجھ پر بھیجی جاتی ہے۔ یہ قرآن کریم تمہارے رب کی جانب سے بصیرت افروز دلائل کا مجموعہ ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ایک… مخصوص ہدایت و رحمت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی وقت نزول قرآن کریم میں تاخیر ہوجاتی یا جو معجزہ منکر طلب کرتے اور وہ حکمت ِ الٰہی اور منشائے خداوندی کے خلاف ہوتا تو معاندانہ طور پر کہتے کہ جب تمام قرآن کریم تم ہی گھڑتے ہو ت پھر تاخیر کیوں ہوتی ہے۔ تم کوئی آیت گھڑ کیوں نہیں لیتے یا ہماری خواہش کے مطابق اپنے خدا کے نشانات میں سے ہمارا نشان اور معجزہ چن کیوں نہیں لاتے اس کا جواب دیا گیا کہ قرآن کریم کی ہر آیت ایک مستقل معجزہ ہے میرا بنایا ہوا نہیں ہے اور اس کھلی ہوئی دلیل کے بعد نئے نئے معجزات کا طلب کرنا بےمعنی ہے یہ قرآن کریم سراسر ہدایت و رحمت ہے اہل ایمان کے لئے اور میں خود بھی اس قرآن کریم کے احکام کا تابع فرمان ہوں۔