Commentary Mentioned in the verses cited above is the proof that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the true Messenger of Allah. Also answered there are doubts raised by his antagonists. Then, as a corollary, some religious injunctions have been taken up. To prove that they are Messengers of Allah, all prophets, may peace be upon them all, are given miracles. It was in consonance with it that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the foremost among prophets, was blessed with so many miracles which exceed the number of those given to past prophets and which are clear too. The miracles of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as proved from the Qur&an, and authentic Hadith reports, are fairly numerous. Muslim religious scholars have written separate books about them. ` Allamah Jalalud-Din as-Suyuti&s book, al-Khasais a1-Kubra, in two volumes, is a well-known work on this subject. But, despite the manifestation of so many miracles, his opponents stuck to their unreasonable demands asking for ever-new miracles of their choice. This has also been mentioned earlier in this very Surah. The first of the two verses cited above provides an answer to their demand as a matter of principle. To put it briefly, the miracle of a prophet is a testimony and proof of his mission as a Messenger of Allah. Take the example of the claim of a plaintiff that stands proved by some trustworthy evidence. The other party has not challenged it in any way. If so, no court in the world would give this party the right to demand from the plaintiff that it would accept the claim only when he produces its evidence from a number of particularly specified people. And that the said party would, without challenging the present evidence, not accept it. Therefore, after having seen so many manifest miracles, the antagonists had no right to say that they would take him to be a Messenger of Allah only if he were to show their custom-ordered miracles. This is nothing but a hostile demand that no court of justice would accept as valid. So, in the first verse (203), it was said when he does not show them the miracle specified by them, they use it as a pretext to deny that he was a Messenger of Allah. Had he been one, he would have shown them the miracle of their choice! The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been asked to tell them that his mission does not call for the showing of miracles on his own. Instead, his basic mission was to follow the injunctions sent to him by his Lord through the medium of Wahy (revelation) and it included the task of their preaching as well. Therefore, he was busy doing what he was assigned to do. As for the verifica¬tion of his status as a Messenger of Allah, the miracles already mani¬fested before them were more than enough for that purpose. Now that they have already seen those, the demand for some particular miracle is nothing but an exercise in hostility that is not worth noticing. Then, out of the miracles shown, the Qur&an by itself is a great miracle. It has challenged the whole world to come up with a small Surah the like of it and it has failed to do so. This, then, is an open sign that the Qur&an is no human word, instead, is the inimitable Word of Allah, the most exalted. For this reason, it was said: هَـٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ (This is (a Book of) insights from your Lord). It means that this Qur&an has come from your Lord as a compendium of many proofs and miracles. Whoever deliberates into it, even summarily, could not part with it without believing that it was nothing but the Word of Allah, the most exalted, and that nothing created has anything to do with it. After that, it was said: وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (and a guidance and mercy for a people who believe). It means that, no doubt, this Qur&an is a proof of what is true for the whole world, but it is an escort to the purpose of life and a medium of deserving the mercy of Allah Ta` ala only for those who believe in it.
خلاصہ تفسیر اور جب آپ (ان کے فرمائشی معجزات میں سے جن کی فرمائش براہ عناد کرتے تھے) کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے (بوجہ اس کے کہ حق تعالیٰ اس معجزہ کو بمقتضائے حکمت پیدا نہیں کرتے) تو وہ لوگ ( بقصد نفی رسالت آپ سے) کہتے ہیں کہ آپ (اگر نبی ہیں تو) یہ معجزہ کیوں نہ (ظہور میں) لائے، آپ فرما دیجئے کہ (میرا کام معجزات باختیار خود لانا نہیں بلکہ میرا اصلی کام یہ ہے کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے (اس میں تبلیغ بھی آگئی البتہ نبوت کے اثبات کے لئے نفس معجزہ ضروری ہے سو ان کا وقوع ہوچکا ہے چناچہ ان میں سب سے اعظم ایک یہی قرآن ہے جس کی شان یہ ہے کہ) یہ (بجائے خود) گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے (کیونکہ اس کی ہر مقدار سورت مثلا ایک معجزہ ہے تو اس حساب سے مجموعہ قرآن کتنی دلیلیں ہوا اور اس کا یہ دلیل ہونا تو عام ہے) اور (رہا اس کا نفع بالفعل تو وہ خاص ہے ماننے والوں کے ساتھ چناچہ وہ) ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو (اس پر) ایمان رکھتے ہیں اور (آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ) جب قرآن پڑھا جایا کرے (مثلا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تبلیغ فرمائیں) تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو (تاکہ اس کا معجز ہونا اور اس کی تعلیم کی خوبی سمجھ میں آئے جس سے) امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (جدید یا مزید) معارف و مسائل آیات مذکورہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کا ثبوت اور اس پر مخالفین کے شبہات کا جواب اور ان دونوں کے ضمن میں چند احکام شرعیہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ رسالت کے ثبوت کے لئے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو معجزات دیئے جاتے ہیں، سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی مناسبت سے اتنے معجزات عطا کئے گئے جو پچھلے انبیاء کے معجزات سے بہت زائد بھی ہیں اور واضح بھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات جو قرآن مجید اور صحیح روایات حدیث سے ثابت ہیں ان کی بڑی تعداد ہے، علماء نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، علامہ سیوطی (رح) کی کتاب خصائص کبری دو ضخیم جلدوں میں اسی موضوع پر لکھی ہوئی مشہور و معروف ہے۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیشمار معجزات سامنے آنے کے باوجود مخالفین اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے اپنی طرف سے متعین کرکے نئے نئے معجزات دکھلانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جس کا ذکر اسی سورت میں پہلے بھی آچکا ہے۔ متذکرہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں ان کا ایک اصولی جواب دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر کا معجزہ اس کی رسالت کی ایک شہادت اور ثبوت ہوتا ہے اور جب مدعی کا دعوی کسی معتبر شہادت سے ثابت ہوجائے اور فریق مخالف نے اس پر کوئی جرح بھی نہ کی ہو تو اس کو دنیا کی کسی عدالت میں یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ مدعی سے اس کا مطالبہ کرے کہ فلاں فلاں مخصوص لوگوں کی شہادت پیش کرے تو ہم مانیں گے موجودہ شہادت پر کوئی جرح پیش کئے بغیر ہم تسلیم نہیں کرتے، اس لئے بہت سے واضح معجزات کے دیکھنے کے بعد مخالفین کا یہ کہنا کہ فلاں قسم کا خاص معجزہ دکھلایئے تو ہم آپ کو رسول مانیں۔ یہ ایک معاندانہ مطالبہ ہے جس کو کوئی عدالت صحیح تسلیم نہیں کرسکتی۔ چانچہ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب آپ ان لوگوں کا متعین کیا ہوا کوئی خاص معجزہ نہیں دکھلاتے تو یہ آپ کی رسالت کا انکار کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں معجزہ کیوں نہیں دکھلایا، تو آپ ان کو یہ جواب دے دیجئے کہ میرا کام باختیار خود معجزات دکھلانا نہیں بلکہ میرا اصلی کام یہ ہے کہ میں ان احکام کا اتباع کروں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے بذریعہ وحی بھیجے جاتے ہیں جن میں تبلیغ بھی شامل ہے اس لئے میں اپنے اصلی کام میں مشغول ہوں اور رسالت کے لئے وہ دوسرے معجزات بھی کافی ہیں جو تم سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں، ان کے دیکھنے کے بعد کسی خاص معجزہ کا مطالبہ ایک معاندانہ مطالبہ ہے جو قابل التفات نہیں۔ اور جو معجزات دکھلائے گئے ہیں ان میں سے قرآن خود ایک عظیم معجزہ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنا بلکہ اپنی ایک چھوٹی سی سورت کا مثل لانے کا کھلا چیلنج دیا اور ساری دنیا باوجود پوری کوششوں کے اس کا مثل لانے سے عاجز ہوگئی جو نہایت واضح علامت اس بات کی ہے کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کا بےمثل کلام ہے۔ اس لئے فرمایا (آیت) هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے بہت سی دلیلوں اور معجزوں کا مجموعہ ہے، جن میں ادنی غور کرنے والا یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ شانہ کا ہی ہے، کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں، اس کے بعد فرمایا (آیت) وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی یہ قرآن دلیل حق تو سارے جہاں کیلئے ہے مگر مقصد تک پہنچانے والا اور رحمت حق تعالیٰ کا مستحق بنانے والا صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس پر ایمان لائیں۔