Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 206

سورة الأعراف

اِنَّ الَّذِیۡنَ عِنۡدَ رَبِّکَ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوۡنَہٗ وَ لَہٗ یَسۡجُدُوۡنَ ﴿۲۰۶﴾٪ٛ  14 الثلٰثۃ

Indeed, those who are near your Lord are not prevented by arrogance from His worship, and they exalt Him, and to Him they prostrate.

یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ but they glorify His praise and prostrate themselves before Him. Prostration, here, upon the mention that the angels prostrate to Allah is legitimate. A Hadith reads; أَلاَ تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَيِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الاُْوَلَ فَالاُْوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّف Why not you stand in line (for the prayer) like the angels stand in line before their Lord! They continue the first then the next lines and they stand close to each other in line. This is the first place in the Qur'an where it has been legitimized -- according to the agreement of the scholars -- for the readers of the Qur'an, and those listening to its recitation, to perform prostration. This is the end of the Tafsir of Surah A'raf. All praise and gratitude is due to Allah, and Allah may He be glorified and exalted, knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٥] کیونکہ اکڑنا شیطان کا کام ہے اس کے مقابلہ میں فرشتوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے، اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں جیسا کہ سورة بقرہ میں قصہ آدم (علیہ السلام) و ابلیس میں گزر چکا ہے۔ [٢٠٦] اس آیت کے اختتام پر مسلمانوں کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کا حال بھی ملائکہ مقربین کے حال کے مطابق ہوجائے۔ چناچہ : سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے علیحدہ ہوجاتا ہے اور کہتا ہے && میری بربادی، ابن آدم کو سجدہ کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا اور اس کے لیے جنت ہے اور مجھے حکم ملا تو میں نے انکار کیا اور میرے لیے دوزخ ہے۔ && (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ) سجدہ ہائے تلاوت :۔ قرآن کریم میں ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ لیکن سجدہ تلاوت کے وجوب میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں اور بعض سنت یا مستحب۔ علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک سجدہ تلاوت کے لیے نہ وضو ضروری ہے اور نہ قبلہ رخ ہونا اور نہ سلام پھیرنا، نیز یہ سواری پر بھی سر جھکانے سے ادا ہوجاتا ہے تاہم مستحب یہی ہے کہ سجدہ تلاوت بھی انہیں آداب کے ساتھ بجا لایا جائے جیسا کہ نماز میں سجدہ کیا جاتا ہے یعنی باوضو اور قبلہ رخ ہو کر ادا کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” جب مقرب فرشتے بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں تو انسان کو چاہیے کہ اس کے سوا اور کسی کو سجدہ نہ کرے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sajdah: Some merits and rules Sajdah (prostration) as a unit of the Islamic ` Ibadah of Salahhas been mentioned here exclusively since it occupies a distinct place among the rest of the units of Salah. It appears in Sahih Muslim that a person asked Sayyidaa Thawban (رض) &tell me about something I should do that will take me to Paradise.& Sayyidna Thawban remained silent. He repeated the question. He still remained silent. When he came up with the question the third time, he said, &I had asked the same question from the Holy Prophet (رض) and he had ordered me to make sajdah repeatedly because for every sajdah you do, Allah Ta` ala increases a rank and forgives a sin.& This person says that following his meeting with Sayyidna Thawban (رض) he met Sayyidna Abu al-Darda& (رض) . He put the same question to him and he was given the same answer. Again in Sahih Muslim, but on the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، it has been reported that the Holy Prophet (رض) said, &a servant of Allah is closest to his Lord when in sajdah. Therefore, when you are in a state of sajdah, pray most ardently, for it is strongly hoped that it will be answered. 1& 1. It should be borne in mind that supplication in sajdah should be in nafl salah and using the Arabic prayers either mentioned in the Holy Qur&an or in the sunnah of the Holy Prophet . However, in a sajdah meant for supplication only, one can pray in whatever language he wishes (Muhammad Taqi Usmani) Let us bear in mind that Sajdah, by itself, is not a recognized act of ` Ibadah. Therefore, according to Imam Abu Hanifah, prostrating in Sajdah abundantly means that one should offer nafl Salah abundantly. An increased number of nafl Salah would naturally result in an increased number of Sajdahs. But, if a person were to go in Sajdah alone and supplicate after that, it really does not matter. As for the instruction to supplicate in Sajdah, it is particular to Nafl Salats. It is not mandatory. Surah al-A` raf ends here. Its last verse is an Ayah of Sajdah (requiring the person reciting and the person listening to prostrate in Sajdah). According to a report from Sayyidna Abu Hurairah al appearing in Sahih Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ` when a son of Adam recites a verse of Sajdah and then prostrates in Sajdah, the Shaitan runs crying. He says: Alas, man was asked to prostrate in Sajdah and when he obeyed, Paradise became his home, and I was asked to prostrate in Sajdah and when I disobeyed, Hell became my home.&

سجدہ کے بعض فضائل اور احکام : یہاں عبادت نماز میں سے صرف سجدہ کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ تمام ارکان نماز میں سجدہ کو خاص فضیلت حاصل ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ثوبان (رض) سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جس سے میں جنت میں جاسکوں، حضرت ثوبان خاموش رہے، اس نے پھر سوال کیا، پھر بھی خاموش رہے، جب تیسری مرتبہ سوال کو دھرایا تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہی سوال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا، آپ نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ جب تم ایک سجدہ کرتے ہو تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرما دیتے ہیں، یہ شخص کہتے ہیں کہ حضرت ثوبان کے بعد میں حضرت ابوالدرداء (رض) سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بندہ سجدہ میں ہو، اس لئے تم سجدہ کی حالت میں خوب دعا کیا کرو کہ اس کے قبول ہونے کی بڑی امید ہے۔ یاد رہے کہ تنہا سجدہ کی کوئی عبادت معروف نہیں، اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک کثرت سجود سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے نوافل پڑھا کریں، جتنی نفلیں زیادہ ہوں گی سجدے زیادہ ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی شخص تنہا سجدہ ہی کرکے دعا کرلے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور سجدہ میں دعا کرنے کی ہدایت نفلی نمازوں کے لئے مخصوص ہے فرائض میں نیہں۔ سورة اعراف ختم ہوئی، اس کی آخری آیت سجدہ ہے، صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ متقول ہے کہ جب کوئی آدم کا بیٹا کوئی آیت سجدہ پڑھتا ہے اور پھر سجدہ تلاوت کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا بھاگتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس انسان کو سجدہ کرنے کا حکم ملا اور اس نے تعمیل کرلی تو اس کا ٹھکانہ جنت ہوا، اور مجھے سجدہ کا حکم ہوا میں نے نافرمانی کی تو میرا ٹھکانہ جہنم ہوا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَيُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ يَسْجُدُوْنَ۝ ٢٠٦ ۧ۞ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٦) اور فرشتے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اظہار عبودیت سے تکبر نہیں کرتے، ہر وقت اس کی اطاعت اور اس کے سامنے سر بسجود رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٦ (اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یعنی ملأ اعلیٰ جو ملائکہ مقربین پر مشتمل ہے ‘ جس کا نقشہ امیر خسرو (رح) ؔ نے اپنے اس خوبصورت شعر میں اس طرح بیان کیا ہے : خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم ! یعنی لامکاں کی وہ محفل جس کا میر محفل خود اللہ تعالیٰ ہے اور جہاں شرکائے محفل ملائکہ مقربین ہیں اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (روح محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس محفل میں گویا چراغ اور شمع کی حیثیت حاصل ہے۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ رات مجھے بھی اس محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ (لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ ) بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

155. It is Satan who behaves arrogantly and disdains to worship God, and such an attitude naturally brings about degradation and abasement. But an attitude marked by consistent surrender to God characterizes angels and leads people to spiritual elevation and proximity to God. Those interested in attaining this state should emulate the angels and refrain from following the ways of Satan. 156. To celebrate God's praise signifies that the angels acknowledge and constantly affirm that God is beyond any flaw, free from every defect, error and weakness; that He has no partner or peer; that none is like Him. 157. Whoever recites or hears this verse should fall in prostration so as to emulate the practice of angels. In addition. prostration also proves that one has no shred of pride, nor is one averse to the duty of being subservient to God. In all, there are fourteen verses in the Qur'an the recitation of which requires one to prostrate. That one should prostrate on reading or hearing these verses is, in principle, an incontrovertible point. There is, however, some disagreement about it being obligatory (wajib). Abu Hanifah regards it as obligatory, while other authorities consider it to be recommended (Ibn Qudamah, Al-Mughni, vol. 1. p. 663; Al-Jaziri, Kitab al-Fiqh 'ala al Madhahib al-arba'ah, vol. 1. p. 464 - Ed.) According to traditions, while reciting the Qur'an in large gatherings, when the Prophet (peace be on him) came upon a verse the recitation of which calls for prostration, he prostrated, and the whole gathering followed suit. The traditions mention that sometimes some people did not have room to prostrate. Such people prostrated on the backs of others. (See Bukhari, Abwab sujud al-Quran 'Bab Izdiham al-Nas Idh'a qara'a al-Imam al-Sajdah'- Ed.) It is reported in connection with the conquest of Makka that in the course of the Qur'an-recitation, as the Prophet (peace be on him) read such a verse, those standing fell into prostration while those who were mounted on horses and camels performed prostration in that very state. It is also on record that while delivering a sermon from the pulpit the Prophet (peace be on him) came down from the pulpit to offer prostration, and resumed his sermon thereafter. (Abu da'ud, Kitab al-Salah, 'Bab al-Sujud fi Sad' - Ed.) It is generally, believed that the conditions for this kind of prostration are exactly the same as required for offering Prayer - that one should be in a state of ritual purity, that one should be facing the Ka'bah, and that the prostration should be performed as in the state of Prayer. However, the traditions we have been able to find in the relevant sections of the Hadith collection do not specifically mention these conditions. It thus appears that one may perform prostration, irrespective of whether one fulfils these conditions or not. This view is corroborated by the practice of some of the early authorities. Bukhari, for instance, reports about 'Abd Allah b. 'Urnar that he used to perform prostration even though he would have required ablution if he wanted to perform Prayer. (See Bukhari, Abwab Sujud al-Quran, 'Bab Sujud al-Muslimin ma' al-Mushrikin'- Ed.) Likewise, it has been mentioned in Fath al-Bari about 'Abd al-Rahman al-Sulami that if he was reciting the Qur'an while moving, and he recited a verse calling for prostration, he would simply bow his head (rather than make full prostration). And he would do that even when he was required to make ablution for Prayer, and regardless of whether he was facing the Ka'bah or not. In our view, therefore, while it is preferable to follow the general opinion of the scholars on the question, it would not be blameworthy if someone deviates from that opinion. The reason for this is that the general opinion of the scholars on this question is not supported by well-established Sunnah, and there are instances of deviation from it on the part of the early authorities.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :155 مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے ۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے ۔ اگر تم اس ترقی کے خواہشمند ہو تو اپنے طرزِ عمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِ عمل کے مطابق بناؤ ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :156 تسبیح کرتے ہیں ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے تقص اور بے خطا ہونا ، ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا ، اور اس کا لا شریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں ، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشعول رہتے ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :157 اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تا کہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہو جائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی اس سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کر دے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں ۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا ، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا ۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے ۔ کبھی آپ نے دوران خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اوپر جا کر خطبہ شروع کر دیا ہے ۔ اس سجدہ کے لیے جمہور اُنہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں ، یعنی یا وضو ہونا ، قبلہ رخ ہونا ، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا ۔ لیکن جتنی احایث سجود تلاوة کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کو ئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے ، خواہ با وضو ہو یا نہ ہو ، خواہ استقبالِ قبلہ ممکن ہو یا نہ ہو ، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو ، سلف میں بھی ہم کو ایسی شخصیتیں ملتی ہیں جن کا عمل اس طریقے پر تھا ۔ چنانچہ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے ۔ اور ابو عبدالرحمٰن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے ، خواہ وضو ہو یا نہ ہو ، اور خواہ قبلہ رخ ہوں یا نہ ہوں ۔ ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ زیادہ مبنی بر احتیاط مسلک جمہور ہی کا ہے ، لیکن اگر کوئی شخص جمہور کے مسلک کے خلاف عمل کرے تو اسے ملامت بھی نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جمہور کی تائید میں کوئی سنت ثابتہ موجود نہیں ہے ، اور سلف میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جن کا عمل جمہور کے مسلک سے مختلف تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

105: اس سے اشارہ ہے کہ اِنسانوں کو اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے، اس میں (معاذ اللہ) اﷲ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ اوّل تو اﷲ تعالیٰ کسی مخلوق کی عبادت یا ذکر سے بے نیاز ہے، دوسرے اس کی ایک بڑی مخلوق یعنی فرشتے، ہر وقت اس کے ذکر میں مشغول ہیں۔ اِنسانوں کو جو ذکر کا حکم دیا گیا ہے، اس میں خود اِنسانوں کا فائدہ ہے کہ یہ ذکر جب دل میں سما جائے تو انہیں شیطان کے تصرفات سے محفوظ رکھنے کے لئے نہایت مفید ہے، اور اس کے ذریعے وہ گناہوں اور جرائم و مظالم سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ آیت سجدۂ تلاوت کی آیت ہے، اور جو شخص عربی میں یہ آیت پڑھے، اس پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ البتہ آیت کو پڑھے بغیر صرف دیکھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا، اور صرف ترجمہ زبان سے پڑھنے میں بھی احتیاطاً سجدہ کرلینا ضروری ہے۔ قرآنِ کریم میں ایسی چودہ آیتیں ہیں، اور یہ ان میں سب سے پہلی آیت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠٦۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں کو کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم دے کر اس آیت میں اپنے فرشتوں کا حال بیان فرمایا اور انسان کو اس بات کی ترغیب دلائی ہے کہ دیکھو خدا کے پاس جتنے فرشتے ہیں وہ تکبر نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت چاہئے اس لئے وہ ہر وقت خدا کی عبادت میں لگے رہتے ہیں اور ہر گھڑی اس کی پاکی بیان کرتے ہیں سُبَحان اللہ ربنا سبحانَ اللّٰہ ربنا کہتے رہتے ہیں اور اسی کو سجدہ بھی کیا کرتے ہیں اب تمہیں بھی مناسب ہے کہ ان باتوں کو اختیار کرو اور ہر وقت خدا کا ذکر کر کے فرشتہ خصلت اور ان کے ہم رتبہ ہوجاؤ، اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عمل دو طرح کے ہیں ایک تو وہ ہے جو فقط قلب سے تعلق رکھتا ہے ایک وہ ہے جس کو اعضا کے ظاہری سے تعلق ہے جس عمل کا تعلق قلب کے ساتھ ہے وہ یہ ہے کہ خدا کو ہر ایک بری صفتوں سے پاک اور بےعیب جان کر اس کو اوصاف حمیدہ کا متصف جانیں یہی مطلب ویسبحون کا ہے اور جو اعضائے ظاہری سے تعلق رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ خدا کو ان اوصاف کے ساتھ متصف جان کرا دوں میں اس کا پکا اعتقاد رکھ کر ہاتھ پیر سے بھی اسی اعتقاد کے موافق عمل کرے اسی کو ولہ یسجدون فرمایا ہے تاکہ عبادت کے اندر انسان فرشتوں کے مقابل وموافق ہوجاوے تسبیح اور سجود کے متعلق اکثر حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ مسلم کی ایک حدیث معدان بن طلحہ (رض) سے ہے کہ معدان بن طلحہ (رض) نے ایک روز ثوبان (رض) سے مل کر پوچھا مجھے کوئی ایسا عمل بتلاؤ جس سے اللہ پاک مجھے جنت میں داخل کرے دو تین مرتبہ پوچھا ثوبان (رض) چپ رہے تیسری مرتبہ جواب دیا کہ میں نے بھی اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا کہ کثرت سے سجدہ کیا کرو اللہ پاک ہر سجدہ میں ایک درجہ بڑھاتا ہے اور گناہ بخشتا ہے معدان (رض) کا بیان ہے کہ میں ابو درداء (رض) سے ملا تھا ان سے بھی اس بات کو دریافت کیا انہوں نے بھی یہی بتلایا ١ ؎۔ بہرحال اس آیت پر سامع وقاری دونوں کو سجدہ کرنا چاہئے پورے قرآن میں جو چودہ یا پندرہ سجدے ہیں ان میں سے یہ سورة اعراف میں پہلا سجدہ کرتا ہے تو شیطان رونے لگتا ہے کہ افسوس بنی آدم کو سجدہ کا حکم ہوا اس نے سجدہ کیا جس کے بدلہ میں اس کو جنت عطا ہوئی اور مجھے سجدہ کا حکم ہوا تو میں نے انکار کیا اس لئے میرے لئے دوزخ مقرر ہے ٢ ؎ معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں ابوذر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام آسمان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں کہیں چار انگل کی جگہ بھی ایسی خالی نہیں ہے کہ ایک فرشتہ سجدہ میں ٣ ؎ نہ ہو۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ میں عمر وبن العاص (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قرآن شریف میں پندرہ آیتیں سجدہ کی ہیں ٤ ؎۔ اگرچہ بعضے علماء نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن منذری نے اس کو سند کو معتبر بتلایا ہے ٥ ؎ یہ پندرہ آیتیں سجدہ کی اس حالت میں ہیں کہ سورة حج میں دو سجدے شمار کئے جاویں اور سورة ص کا سجدہ حساب میں لیا جاوے لیکن اس باب میں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ اور امام شافعی علیہ الرحمۃ کا اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے ٦ ؎ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت میں فرشتوں کی عبادت کا اور سجدہ کی آیت کا جو ذکر ہے اس کی تفصیل حدیثوں سے اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے :۔ ١ ؎ صحیح مسلم ج ١ ص ١٩٣ فضل السجودو المحث علیہ ٢ ؎ صحیح مسلم ج ١ ص ٦١ باب بیان طلاق اسم الکفر علی من ترجک الصلوٰۃ ومشکوٰۃ ص ٨٤ باب السجودو فطلہ ٣ ؎ جامع ترمذی ج ٢ ص ٥٥ باب ماجاء فی قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلمون اعلم الضکتم قلیلا دابن ماجہ ص ٣١٩ باب الحزن واسبکاء ٤ ؎ ابوداؤرج ١ ص ١٩٩ باب تفریع ابواب السجود و کم سجدۃ فی القرآن وابن ماجہ ص ٧٥ عدر سجود القرآن ٥ ؎ تتیقح الرواۃ ج ١ ص ١٨٨ ٦ ؎ ملاحظہ فرمائیے نیل الاوطارج و ٣ ص ١١٧

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:206) ان الذین عند ربک۔ بیشک وہ جو تیرے رب کے قرب میں ہیں۔ یہاں مراد فرشتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 قرآن کے سجدوں میں یہ پہلا سجدہ ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جب مقرب فرشتے بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں تو انسان کو چاہیے کہ اس کے سوا اور کسی سجدہ نہ کرے۔ ( موضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے سامنے ملائکہ مقربین کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہ جن پر شیطان کی اکساہٹ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ان کے اندر تخلیقی اعتبار سے کوئی کمی نہیں ہوتی نہ ان کے اندر شہوات ہوتی ہیں اور نہ میلانات ہوتے ہیں۔ وہ رات دن ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی بندگی میں نہ کوئی تقصیر کرتے ہیں اور نہ غرور کرتے ہیں حالانکہ اللہ کی بندگی اور تسبیح کرنے کے معاملے میں انسان ان سے زیادہ محتاج ہے۔ انسان کی راہ میں زیادہ مشکلات ہیں اور اس پر شیطان کی اکساہٹ کا اثر بھی جلد ہوتا ہے۔ انسان تباہ کن غفلت کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے۔ انسان کی سعی بھی محدود ہے ، اگر ذکر الہی کا توشہ نہ ہو تو اس کے لیے منزل تک پہنچنا ہی دشوار ہے۔ ۔۔۔ عبادت اور ذکر الہی دین اسلام کے اساسی طریقوں میں شامل ہیں۔ یہ محض علم و معرفت کا طریق کار نہیں ہیں نہ لاہوتی جدلیات سے ان کا تعلق ہے بلکہ ان کا تعلق سلوک و عمل اور عملی حرکت کے ساتھ ہے۔ اور اس کے ذریعے انسان کی عملی دنیا کو بدلنا مطلوب ہوتا ہے۔ انسان کی عملی زندگی کی جڑیں لوگوں کے نفس کے اندر ہوتی ہیں ، عمل کی اساس کے خزانے انسان کے اندر ہوتے ہیں ، لوگوں کو عملاً جاہلیت سے نکالنا اور اسلامی منہاج میں داخل کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے نہایت ہی مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس راہ کی مشکلات پر صبر ایوبی کی ضرورت ہے جبکہ داعی کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ اس لیے داعی کے لیے اس محدود قوت کے ساتھ اضافی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قوت محض علم و معرفت اور دلیل وبرہان سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اس کا سرچشمہ عبادت ، تعلق باللہ اور اللہ کی نصرت میں ہوتا ہے۔ یہی وہ توشہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ اور یہی سرچشمہ نصرت ہے جو اس طویل اور خطرناک راہ میں درکار ہوتا ہے۔ اس سورت کا آغاز ان الفاظ سے ہوا۔ کتاب انزل الیک " یہ کتاب ہے جو تمہاری جانب نازل کی گئی ہے۔ پس اے نبی تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے منکرین کو ڈراؤ اور ایمان لانے والوں کو نصیحت ہو " پوری سورة میں قافلہ اہل حق کی کہانیاں بیان ہوئی اور اس قافلے کی قیادت رسل کرام اپنے اپنے اوقات میں کرتے رہے۔ راستے پر شیطان رجیم ان کی راہ بار بار روکتا رہا۔ جنوں اور انسانوں کے شیاطین ان کو اذیت دیتے رہے ، اس دنیا کے جبار وقہار ان پر مظالم ڈھاتے رہے اور طاغوتی نظاموں کے ہر کارے ان کے آڑے آتے رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوکر ان کو غلام بنا رہے تھے۔ بیشک یہی ہے اس راستے کا توشہ اور یہی ہے اس راستے کے معزز مسافروں کا سازوسامان۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرشتوں کی تسبیح اور عبادت : اس کے بعد اللہ جل شانہٗ نے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں کی تسبیح اور عبادت کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ بلاشبہ جو تیرے رب کے مقرب بندے ہیں وہ اپنے رب کی عبادت سے استکبار نہیں کرتے یعنی اپنی ذات کو بڑا نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے اللہ کی عبادت سے رو گردانی کریں، وہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ جانتے اور مانتے ہیں اور بندگی کے آداب بجا لاتے ہیں اور اپنی مملوکیت اور عاجزی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے لیے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کو سورة نساء میں یوں بیان فرمایا (لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ وَ مَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا) (مسیح نے اور مقرب فرشتوں نے ہرگز اس سے استنکاف نہیں کیا کہ اللہ کے بندے بنیں اور جو شخص اس کی عبادت سے استنکاف کرے گا تو وہ انہیں عنقریب دوزخ میں جمع فرما دے گا) (استنکاف کا معنی یہ ہے کہ اپنے کو بڑا سمجھے اور کسی کام کو اپنی شان کے خلاف جانے) ۔ سجدۂ تلاوت کا بیان : اس آیت پر سورة اعراف ختم ہو رہی ہے اور یہ پہلی جگہ ہے جہاں قرآن مجید میں سجدۂ تلاوت آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرات ملائکہ ( علیہ السلام) کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے اندر بڑائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے اپنے رب کی عبادت سے منہ موڑیں بلکہ وہ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور مومن بندوں کے لیے سجدۂ تلاوت مشروع فرمایا تاکہ وہ بھی ملاء اعلیٰ کے رہنے والوں کی موافقت میں سجدہ ریز ہوجائیں، یہ سجدۂ تلاوت شیطان کے لیے بہت بڑی مار ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جب ابن آدم آیت سجدہ پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا وہاں سے ہٹ جاتا ہے کہتا ہے کہ ہائے میری بربادی ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کرلیا لہٰذا اس کے لیے جنت ہے، اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا اور میں نے انکار کیا لہٰذا میرے لیے دوزخ ہے۔ (رواہ مسلم کمافی المشکوٰۃ ص ٨٤ ج ١) مسئلہ : سجدۂ تلاوت کرنے لگے تو اس میں تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھانا نہیں ہے بلکہ اللہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے اور ایک سجدہ کرے تکبیر کہتے ہوئے سر اٹھائے اس میں تشہد اور سلام نہیں ہے۔ مسئلہ : جیسے آیت سجدہ پڑھنے والے پر سجدہ واجب ہوتا ہے ایسے ہی سننے والے پر بھی واجب ہوتا ہے اگرچہ اس نے ارادہ کر کے نہ سنا ہو، البتہ تلاوت کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ آیت سجدہ حاضرین کے سامنے زور سے نہ پڑھے، ہاں اگر حاضرین سننے ہی کے لیے بیٹھے ہیں تو سجدۂ تلاوت زور سے پڑھ دے۔ سجدۂ تلاوت کی دعاء سجدۂ تلاوت میں اگر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم تین مرتبہ کہے تو یہ بھی درست ہے اور اگر دعاء ماثور پڑھ لے تو زیادہ بہتر ہے۔ دعاء ماثور یہ ہے۔ سَجَدَ وَجْھِیْ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَ شَقَّ سَمْعَہٗ وَ بََصَرَہٗ بِحَوْلِہٖ وَ قُوَّتِہٖ (رواہ ابو داؤد والترمذی و النسائی کمافی المشکوٰۃ ص ٩٤) (میرے چہرہ نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا فرمایا اور اس میں سے کان اور آنکھ نکال دیئے اپنی قدرت سے) ۔ تم تفسیر سورة الاعراف بحمد اللہ تعالیٰ و حولہ و قوتہ و توفیقہ و تیسیرہ و لہ الحمد اولا و آخرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

196: اسم موصول سے باجماع مفسرین فرشتے مراد ہیں اور اللہ کے قریب ہونے سے منزلت اور مرتبہ میں قرب مراد ہے۔ “ ھذا علی جهة التشریف لھم وانھم بالمکان المرکم فھو عبارة عن قربھم فی الکرامةلا فی المسافة ” (قرطبی ج 7 ص 356) ۔ “ فالمراد من العندیة القرب من اللہ تعالیٰ بالزلفی والرضاء الخ ” (روح ج 9 ص 155) ۔ یعنی ملا اعلیٰ جو ہر وقت اللہ کے قرب و رضاء میں رہتے ہیں۔ وہ بھی اللہ کی عبادت اور اس کی پکار سے استکبار نہیں کرتے اور ہر وقت اللہ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں اور اللہ ہی کے سامنے سجدہ کر کے غایت خضوع و تذلل کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ “ اخبر اللہ عن حال الملائکة انھم خاضعون بعظمته لا یستکبرون عن عبادته ” (خازن ج 2 ص 274) “ اي و یخصونہ بغایة العبودیة والتذلل لا یشرکون به غیرہ جل شانه ”(روح) سورة اعراف کے اختتام پر سب سے پہلا سجدہ تلاوت ہے۔ یہ سجدہ عزائم میں سے ہے۔ سورة اعراف کی خصوصیات اور اس میں آیات توحید 1 ۔ “ کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْهُ الخ ”(رکوع 1) ۔ مسئلہ توحید کھول کر پہنچائیں اور اس سے دل میں تنگی نہ آنی چاہئے۔ 2 ۔ “ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ ” (رکوع 3) ۔ گمراہ کرنیوالے شیاطین ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ صرف ایک ابلیس ہی ہر جگہ حاضر و ناظر ہو کر سب کو گمراہ نہیں کر رہا۔ 3 ۔ “ حَتّٰی اِذَا جَآءَتْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ ” (رکوع 4) ۔ روحیں قبض کرنے پر ہزاروں لاکھوں فرشتے مقرر ہیں۔ صرف ایک ملک الموت ہی ہر جگہ حاضر و ناضر ہو کر سب کی جانیں قبض نہیں کرتا۔ 4 ۔ “ کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا ” تا “ وَلٰکنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ” (رکوع 4) مشرک پیروں اور مریدوں کے بارے میں۔ 5 ۔ “ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَی الْعَرْشِ ” تا “ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ” (رکوع 7) زمین و آسمان کو اسی نے پیدا کیا اور سارا نظام عالم اسی کے قبضے میں ہے اور اس نے کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کیا۔ 6 ۔ “ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ” (رکوع 8) 7 ۔ “ وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ” (رکوع 9) 8 ۔ “ وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوْا للّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ ” (رکوع 10) 9 ۔ “ وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبدُوْ اللّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ ” (رکوع 11) ۔ حضرت نوح، ہود، صالح اور شعیب (علیہم السلام) نے اعلان کیا کہ اللہ کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں اس لیے حاجات و مشکلات میں اسی کو پکارو۔ 10 ۔۔ “ قَالُوْا اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا ” تا “ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ” (رکوع 14) ۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کی توحید کے واضح دلائل کو مان لیا۔ 11 ۔ “ اَ لَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَايھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا ” (رکوع 18) ۔ جو ایسا عاجز اور بےبس ہو وہ کسی طرح کارساز اور متصرف و مختار نہیں ہوسکتا۔ 12 ۔ “ قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا الخ ”(رکوع 20) ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان توحید۔ میں اس اللہ کا رسول ہوں جو زمین و آسمان کا بادشاہ اور سارے عالم میں واحد متصرف و مختار ہے اور اس کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ 13 ۔ “ وَ اسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۔ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ ” تا “ نَبْلُوْھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ” (رکوع 21) ناجائز حیلوں اور بہانوں سے خدا کے احکام کی بےحرمتی کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ 14 ۔ “ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوْا الْکِتٰبَ یَاخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنیٰ وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا۔ ” (رکوع 21) ۔ اچھے لوگوں کے بعد برے لوگ اور علماء سوء ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے دنیا کی حقیر دولت کے عوض اللہ کی کتاب میں تعریف کرنا شروع کردی اور کہنے لگے ہمارے آباء و اجداد ہمیں بخشوا لیں گے۔ 15 ۔ “ وَ اتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ الَّذِيْ اٰتَیْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا ” جو عالم دین مسئلہ حق کو سمجھنے کے بعد محض لالچ اور طمع دنیا کی وجہ سے حق چھوڑتا ہے اس کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت ہے۔ 16 ۔ “ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَة اَيَّانَ مُرْسٰھَا۔ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ ” (رکوع 23) قیامت قائم ہونے کا مخصوص دن صرف اللہ ہی کو معلوم ہے اس کے سوا کسی اور کو اس کا علم نہیں۔ 17 ۔ “ ھُوَ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَهَا ” تا “ وَ لَا اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْن۔ ” (رکوع 24) سب کو اللہ ہی نے پیدا کی اور نر کی تسکین لیے اس کی مادہ کو پیدا کیا اور وہی اولاد عطا کرتا ہے لیکن مشرک لوگ اللہ کی عاجز مخلوق کو اس کا شریک بناتے اور عطیہ اولاد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 18 ۔ “ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُْ فَادْعُوْھُم فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ” (رکوع 24) ۔ جن بزرگوں کو تم متصرف و کارساز سمجھ کر پکارتے ہو وہ بھی تمہاری طرح عاجز اور اللہ کے محتاج ہیں اور تم ان کو پکار کر دیکھ لو وہ تمہارا کچھ نہیں سنوار سکیں گے۔ 19 ۔ “ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَطِیْعُونَ نَصْرَکُمْ وَ لَا اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ ” (رکوع 24) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تو اپنا بھی کچھ نہیں سنوار سکتے تمہاری کیا مدد کرینگے۔ 20 ۔ “ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۔ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ” (رکوع 24) ۔ جب شیطان دل میں کوئی وسوسہ ڈالدے تو فوراً اس سے اللہ کی پناہ مانگیں کیونکہ سب کچھ سننے اور جاننے والا وہی ہے اور کوئی نہیں۔ الحمد للہ سورة اعراف ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

206 بلاشبہ جو آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے استکبار اور سرتابی اور گردن کشی نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اسی کے لئے سجدہ ریز رہتے ہی۔ یعنی حضرت حق تعالیٰ کی بارگاہ میں جو مخلوق ہے وہ سب خدا کی یاد میں مشغول ہیں حضرت حق کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے بلکہ خدا کی عبادت کو موجب عزت سمجھتے ہیں اور صرف اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مقرب فرشتے بھی اس کی یاد سے غافل نہیں تو انسان کو اور بھی ضرور ہے اور اس کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرے اس جا پر سجدہ آتا ہے۔ 12 مختصراً تم تفسیر سورة اعراف