Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 23

سورة الأعراف

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾

They said, "Our Lord, we have wronged ourselves, and if You do not forgive us and have mercy upon us, we will surely be among the losers."

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالاَ ... They said: رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ "Our Lord! We have wronged ourselves. If You forgive us not, and bestow not upon us Your mercy, we shall certainly be of the losers." Ad-Dahhak bin Muzahim commented, "These are the words that Adam received from his Lord."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 توبہ استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورة بقرہ، آیت 37 میں صراحت ہے (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ جواز و اثبات میں عقلی قیاسی دلائل دینے لگا، جس ک... ے نتیجہ میں وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استفغار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اسکو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل ' کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندمت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] ابلیس وآدم (علیہ السلام) کے خصائل کا فرق :۔ ان آیات سے شیطان اور آدم (علیہ السلام) کی سرشت کا فرق معلوم ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ (١) ابلیس نے اللہ کی نافرمانی عمداً کی جبکہ آدم (علیہ السلام) سے بھول کر ہوئی۔ (٢) ابلیس سے باز پرس ہوئی تو اس نے اعتراف کرنے کی بجائے تکبر کیا اور اکڑ بیٹھا اور آدم (... علیہ السلام) سے ہوئی تو انہوں نے اعتراف کیا اور اللہ کے حضور توبہ کی۔ (٣) ابلیس نے اپنی نافرمانی اور گمراہی کا الزام اللہ کے ذمے لگا دیا جبکہ آدم (علیہ السلام) نے یہ اعتراف کیا کہ واقعی یہ قصور ہمارا ہی تھا۔ (٤) ابلیس انہی جرائم کی وجہ سے بارگاہ الٰہی سے ہمیشہ کے لیے ملعون اور راندہ ہوا قرار دیا گیا اور آدم (علیہ السلام) اپنی غلطی کے اعتراف اور توبہ کی وجہ سے مقرب بارگاہ الٰہی بن گئے اور انہیں نبوت عطا ہوئی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫۔۔ : سورة بقرہ میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ کلمات رب تعالیٰ سے سیکھے تھے اور انھی کلمات سے ان کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ آیت (٣٧) کے فوائد۔ آدم (علیہ السلام) کی اس دعا سے ان کا اور ابلیس کا فرق واضح ہوتا ہے، یہاں عجز ہے، اعتراف گن... اہ ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی محتاجی کا اظہار اور بخشش کی درخواست ہے، وہاں تکبر ہے، اپنے گناہ پر اصرار ہے، آئندہ مزید نافرمانی کے ارادے کا اظہار ہے اور مہلت کی درخواست ہے۔ اسی طرح یہاں پاک فطرت ہونے کی بنا پر قسم کی وجہ سے دشمن پر بھی اعتبار ہے، وہاں حسد کی وجہ سے بےگناہوں سے بھی دشمنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بےنیازی دیکھیے کہ دوست کی دعا بھی قبول اور دشمن کی بھی۔ یقیناً اس میں اس پاک پروردگار کی بیشمار حکمتیں تھیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝ ٠ ۚ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ۝ ٢٤ هبط الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال : هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما ... يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط : الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد . ( ھ ب ط ) الھبوط ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔ مستقر قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. ( ق ر ر ) قرر فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] وكلّ موضع ذکر فيه «تمتّعوا» في الدّنيا فعلی طریق التّهديد، وذلک لما فيه من معنی التّوسّع، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں دنیاوی ساز و سامان کے متعلق تمتعو آیا ہے تو اس سے تہدید مراد ہے کیونکہ اس میں ایک گو نہ عیش کو شی اور وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) وہ عرض کرنے لگے ہم نے غلطی سے اپنا نقصان کیا، اگر آپ ہم سے درگزر نہ فرمائیں گے تو اس جرم کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ۔ یعنی ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ یہ وہی کلمات ہیں جن کے بارے میں ہم سورة البقرۃ (آیت ٣٧) میں پڑھ آئے ہیں : (فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ م... ِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط) یعنی آدم ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لیے اور ان کے ذریعے سے معافی مانگی تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی۔ وہاں اس ضمن میں صرف اشارہ کیا گیا تھا ‘ یہاں وہ کلمات بتا دیے گئے ہیں۔ اس سارے واقعے میں ایک اہم بات یہ بھی قابل غور ہے کہ قرآن میں کہیں بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہو کہ ابلیس نے یہ وسوسہ ابتدا میں اماں حوا ( علیہ السلام) کے دل میں ڈالا تھا۔ اس سلسلے میں عام طور پر ہمارے ہاں جو کہانیاں موجود ہیں ان کی رو سے شیطان کے بہکاوے میں پہلے حضرت حوا آئیں اور پھر وہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنیں۔ لیکن قرآن اس امکان کی نفی کرتا ہے۔ آیات زیر نظر کے مطالعے سے تو ان دونوں کا بہکاوے میں آجانا بالکل واضح ہوجاتا ہے کیونکہ یہاں قرآن مسلسل تثنیہ کا صیغہ استعمال کر رہا ہے۔ یعنی شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا ‘ دونوں اس کے بہکاوے میں آگئے اور پھر دونوں نے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ نے دونوں کو معاف کردیا۔ حضرت حوا ( علیہ السلام) کے شیطان کے بہکاوے میں آنے والی کہانیوں کی ترویج دراصل عیسائیت کے زیر اثر ہوئی ہے۔ عیسائیت میں عورت کو گناہ اور برائی کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Eve (حوا) سے لفظ evil ان کے ہاں برائی کا ہم معنی قرار پایا ہے۔ عیسائیت میں شادی کرنا اور عورت سے قربت کا تعلق ایک گھٹیا فعل تصور کیا جاتا تھا ‘ جبکہ تجرد کی زندگی گزارنا اور رہبانیت کے طور طریقوں کو ان کے ہاں روحانیت کی معراج سمجھا جاتا تھا۔ نتیجتاً ان کے ہاں اس طرح کی کہانیوں نے جنم لیا ‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم ( علیہ السلام) کو جنت سے نکلوانے اور ان کی آزمائشوں اور مصیبتوں کا باعث بننے والی دراصل ایک عورت تھی۔ بہر حال ایسے تصورات اور نظریات کی تائید قرآن مجید سے نہیں ہوتی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. The narrative sheds light on the following significant points: (i) Modesty and bashfulness are inherent in human nature. The primary manifestation of this instinct is seen in the sense of shame that one feels when one is required to expose the private parts of one's body in the presence of others. According to the Qur'an, this bashfulness is not artificial, nor an outcome of advancement in hu... man culture and civilization. Nor is it something acquired as some misguided thinkers contend. On the contrary, modesty has been an integral part of human nature from the very beginning. (ii) The very first stratagem adopted by Satan in his bid to lead man astray from the Right Path consisted of undermining man's sense of modesty, to direct him towards lewdness and make him sexually deviant. In other words, the sexual instincts of man were taken by Satan as the most vulnerable aspect of human nature. Accordingly, he sought to weaken man's natural instincts of modesty and bashfulness. This devilish stratagem is still followed by the disciples of Satan in our time. For them, progress is inconceivable without exposing woman to the gaze of all and making her strip before others in one form or another. (iii) Such is human nature that man scarcely responds to an unambiguous invitation to evil. Those who seek to propagate evil are, therefore, forced to present themselves as sincere well-wishers of humanity. (iv) Man is naturally, drawn towards lofty ideals such as the attainment of superhuman positions and the securing of immortality. Satan achieved his first victory in his bid to mislead man by appealing to the latter's inherent desire to attain immortality. Satan's most effective weapon is to promise man a more elevated position than his present one, and then set him on a course that leads instead to his degradation. (v) Here the Qur'an refutes the fairly popular view that Satan first misled Eve and later used her as an instrument to mislead Adam. (See Ibn Kathir's comments on verses 22-3 - Ed.) The Qur'anic version of the story is that Satan attempted to mislead both Adam and Eve, and in fact both fell prey to his guile. At first sight, this might seem of trivial significance. However, all those who are acquainted with the impact of this version of Adam's fall on the moral, legal and social degradation of women will appreciate the significance of this Qur'anic statement. (vi) There is hardly any basis to assume that the forbidden tree had certain inherent qualities which could result in the exposure of Adam and Eve's private parts as soon as they had tasted its fruit. Instead of the forbidden tree possessing any extraordinary qualities, it was rather man's disobedience to God which led to his fall from his original state. Initially, Adam and Eve's private parts had remained hidden on account of special arrangements made by God. Once they disobeyed, they were deprived of that special Divine arrangement, and were left to themselves to cover their nakedness if they so wished. (vii) This was a way, of conveying to mankind for all time that whenever he disobeys God, he will sooner or later be exposed; that man will enjoy God's support and protection only so long as he remains obedient to Him. Once man transgresses the bounds of his obedience, he will be deprived of God's care and protection and left to his own self. This idea is also embodied in many traditions from the Prophet (peace be on him). According to a tradition, the Prophet (peace be on him) prayed: 'O God! I seek Your Mercy. Do not leave me to my own care even for the wink of an eye!' (Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 5, P. 421 - Ed.) (vii) Satan wanted to prove that man did not deserve, not even for a moment, the superior status which had been granted to him by God. However, Satan failed in the very first round of his efforts to discredit man. Granted, man did not fully succeed in obeying God's command; rather, he fell prey to the machinations of his arch-enemy, Satan, and deviated from the path of obedience. Nevertheless, it is evident even in the course of this first encounter that man is a morally superior being. This is clear from many a thing. First, whereas Satan laid claim to superiority, man made no such claim rather a superior status was bestowed upon him by God. Second, Satan disobeyed God out of sheer pride and arrogance. But far from openly revolting against God out of his own prompting, man was disobedient under Satan's evil influence. Third, when man disobeyed God, he did so unwittingly, not realizing that he was committing a sin. 'Man was beguiled into disobedience by Satan ,who appeared in the garb of man's well-wisher. It was Satan who persuaded him to believe that in the fruit of the forbidden tree lay his good, that his action would lead him to the heights of goodness, not to the depths of evil. Fourth, when Satan was warned, rather than confessing his mistake and repenting, he clung even more adamantly to disobedience. But when man was told that he had sinned, he did not resort to continued transgression as Satan did. As soon as man realized his mistake, he confessed his fault, returned to the course of obedience and sought refuge in God's mercy. This story draws a clear line between the way of Satan and the way that befits man. Satan's way is characterized by rebellion against God, by arrogantly persisting in that rebellion even after having been warned, and by trying to mislead the righteously disposed towards sin and disobedience. As opposed to this, the way that befits man is to resist the evil promptings of Satan and to be constantly vigilant against Satanic machinations. But, if in spite of all these precautions, a man does swerve from the course of obedience, he should turn, as soon as he realizes his fault, to God in penitence and remorse and make amends. This is the lesson that God conveys to man through this anecdote. The Qur'an seeks to impress upon the opponents of the Prophet (peace be on him) that the way, they are following is the way of Satan. To become indifferent to God's Guidance, to take satans among men and jinn as their protectors and to persist in disobedience despite repeated warnings, amounts to adopting a Satanic attitude. It demonstrates that they have fallen prey to the snares of the arch-enemy and have been totally overpowered by him. This attitude will lead to their total undoing just as it led to Satan's undoing. Anyone who has even an iota of understanding should heed and emulate the example of his foreparents - Adam and Eve - who repented and made amends after their disobedience.  Show more

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :13 اس قصّے سے چند اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے: ( ١ ) انسان کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصّوں کو دوسروں کے سامنے کھو لنے میں آدمی کو فطرةً محسوس ہوتی ہے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر ت... ہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے ، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے ، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اوّل روز سے انسان میں موجود تھی ۔ ( ۲ ) شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت انسانی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی ، یہ تھی کہ اس کے اس جذبہ شرم وحیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کےلیے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بد راہ کردے ۔ بالفاظِ دیگر اپنے حرف کے محاذ میں ضعیف ترین مقام جو اس نے حملہ کےلیے تلاش کیا وہ اس کی زندگی کا جنسی پہلو تھا ، اور پہلی ضرب جو اس نے لگائی وہ اس محافظ فصپل پر لگائی جو شرم و حیا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی ۔ شیاطین ور ان کے شاگردوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ۔ ”ترقی“کا کوئی کام ان کے ہاں شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورت کو بے پردہ کرکے وہ بازار میں نہ لاکھڑا کریں اور اسے کسی نہ کسی طرح عریاں نہ کردیں ۔ ( ۳ ) یہ بھی انسان کی عین فطرت ہے کہ وہ برائی کی کھلی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے ۔ عموماً اسے جال میں پھانسنے کے لیے ہر داعیِ شر کو خیر خواہ کے بھیس ہی میں آنا پڑتا ہے ۔ ( ٤ ) انسان کے اندر معالیِ امور مثلاً بشریت سے بالا تر مقام پر پہنچنے یا حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان کو اسے فریب دینے میں پہلی کامیابی اِسی ذریعہ سے ہوئی کہ اس نے انسان کی اس خواہش سے اپیل کیا ۔ شیطان کا سب سے زیادہ چلتا ہوا حربہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلندی پرلے جانے اور موجودہ حالت سے بہتر حالت پر پہنچا دینے کی امید دلاتا ہے اور پھر اس کے لیے وہ راستہ پیش کرتا ہے جو اسے اُلٹا پستی کی طرف لے جائے ۔ ( ۵ ) عام طور پر یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں حضرت آدم علیہ السلالم کو پھانسنے کے لیے آلہ کار بنایا ، قرآن اس کی تردید کرتا ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نے دونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے ۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوّا کے متعلق اس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی ، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدر و قیمت سمجھ سکتے ہیں ۔ ( ٦ ) یہ گمان کرنے کےلیے کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے کہ شجر ممنوعہ کو مزہ چکھتے ہی آدم و حوّا کے ستر کُھل جانا اس درخت کی کسی خاصیّت کا نتیجہ تھا ۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سِوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا ستر اپنے انتظام سے ڈھانکا تھا ۔ جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو خدا کی حفاظت ان سے ہٹا لی گئی ، ان کا پردہ کھول دیا گیا اور انہیں خود ان کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں اگر اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ، اور اگر ضروت نہ سمجھیں یا اس کے لیے سعی نہ کریں تو خدا کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ کس حال میں پھرتے ہیں ۔ یہ گویا ہمیشہ کے لیے اس حقیقت کا مظاہرہ تھا کہ انسان جب خدا کی نافرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا ۔ اور یہ کہ انسان کے ساتھ خدا کی تائید و حمایت اسی وقت تک رہے گی جب تک وہ خدا کا مطیع فرمان رہے گا ۔ طاعت کے حدود سے قدم باہر نکالنے کے بعد اسے خدا کی تائید ہرگز حاصل نہ ہو گی بلکہ اسے خود اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ یہ وہی مضمون ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی ہے کہ اللھم رحمتک ارجو افلا تکلنی الیٰ تفسی طرفة عین ( خدایا ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر ) ۔ ( ۷ ) شیطان یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو اس کے مقابلہ میں انسان کو دی گئی ہے ۔ لیکن پہلے ہی معرکے میں اس نے شکست کھائی ۔ اس میں شک نہیں کہ اس معر کے میں انسان اپنے رب کے امر کی فرمانبرداری کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا اور اس کی یہ کمزوری ظاہر ہو گئی کہ وہ اپنے حریف کے فریب میں آکر اطاعت کی راہ سے ہٹ سکتا ہے ۔ مگر بہر حال اس اولین مقابلہ میں یہ قطعی ثابت ہو گیا کہ انسان اپنے اخلاقی مرتبہ میں ایک افضل مخلوق ہے ۔ اولاً ، شیطان اپنی بڑائی کا خود مدعی تھا ، اور انسان نے اس کا دعویٰ آپ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی ۔ ثانیاً ، شیطان نے خالص غرور تکبر کی بنا پر اللہ کے امر کی نافرمانی آپ اپنے اختیار سے کی اور انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا ۔ ثالثاً ، انسان نے شر کی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعیِ شر کو داعیِ خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا ۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں مبتلا ہو کر گیا کہ یہ راستہ اسے بلندی کی طرف لے جائے گا ۔ رابعاً ، شیطان کو تنبیہ کی گئی تو وہ اپنے قصور کا اعتراف کرنے اور بندگی کی طرف پلٹ آنے کے بجائے نافرمانی پر اور زیادہ جم گیا ، اور جب انسان کو اس کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اس نے شیطان کی طرح سرکشی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ نادم ہوا ، اپنے قصور کا اعتراف کر کے بغاوت سے اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور معافی مانگ کر اپنے رب کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگا ۔ ( ۸ ) اس طرح شیطان کی راہ اور وہ راہ جو انسان کے لائق ہے ، دونوں ایک دوسرے سے بالکل متمیّر ہو گئیں ۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ بندگی سے منہ موڑے ، خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کرے ، متنبہ کیے جانے باسجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرزِ عمل پر اصراف کیے چلا جائے اور جو لوگ طاعت کی راہ چل رہے ہوں ان کو بھی بہکائے اور معصیّت کی راہ پر لانے کی کوشش کرے ۔ بخلاف اس کے جو راہ انسان کےلائق ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اس دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنّا رہے ، لیکن اگر کبھی اس کا قدم بندگی وطاعت کی راہ سے ہٹ بھی جائےتو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فورًا اپنے رب کی طرف پلٹے اور اس قصور کی تلافی کر دے جو اس سے سرزد ہوگیا ہے ۔ یہی وہ اصل سبق ہے جو اللہ تعالیٰ اس قصے سے یہاں دینا چاہتا ہے ۔ ذہن نشین یہ کرنا مقصود ہے کہ جس راہ پر تم لوگ جا رہے ہو یہ شیطان کی راہ ہے ۔ یہ تمہارا خدائی ہدایت سے بے نیاز ہو گا شیاطینِ جن و انس کو اپنا ولی و سرپرست بنانا ، اور یہ تمہارا پے در پےتنبیہات کے باوجود اپنی غلطی پر اصرار کیے چلے جانا ، یہ دراصل خالص شیطانی رویّہ ہے ۔ تم اپنے ازلی دشمن کے دام میں گرفتار ہوگئے ہو اور اس سے مکمل شکست کھا رہے ہو ۔ اس کا انجام پھر وہی ہے جس سے شیطان خو دو چار ہونے والا ہے ۔ اگر تم حقیقت میں خود اپنے دشمن نہیں ہوگئے ہو اور کچھ بھی ہوش تم میں باقی ہے تو سنبھلو اور وہ راہ اختیار کرو جو آکر کار تمہارے باپ اور تمہاری ماں آدم و حوّا نے اختیار کی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :14 یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں معاف کر دیا ۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا ۔ ( تشریح کے لیے ملا حظہ ہو سورة بقرہ ، حاشیہ٤۸و۵۳ ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یہ استغفار کے وہی الفاظ ہیں جن کے بارے میں سورۂ بقرہ (٢: ٣٧) میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی یہ الفاظ سکھائے تھے، کیونکہ اس وقت تک انہیں توبہ کا طریقہ بھی معلوم نہیں تھا، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے کے لئے یہ الفاظ نہایت مناسب ہیں اور ان کے ذریعے توبہ قبول ہونے کی زیادہ امید ... ہے، کیونکہ یہ خود اللہ تعالیٰ ہی کے سکھائے ہوئے ہیں، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف شیطان کو مہلت دے کر اسے انسان کو بہکانے کی صلاحیت دی جو انسان کے لئے زہر جیسی تھی تو دوسری طرف انسان کو توبہ اور استغفار کا تریاق بھی عطا فرمادیا کہ اگر شیطان کے بہکائے میں آکر وہ کبھی کوئی گناہ کر گزرے تو اسے فوراً توبہ کرنی چاہئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اس طرح شیطان کا چڑھایا ہوا زہر اترجائے گا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا آدم (علیہ السلام) کو ان کی غلطی پر توجہ دلانا اور آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوّا کا اللہ کے حضور معذرت کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جونہی آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب نہ جانے اور شیطان کی دشمنی سے آگاہ ... نہیں کیا تھا ؟ یہ فرمان سنتے ہی دونوں نہایت عاجزی اور شرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور ان الفاظ میں معافی مانگنے لگے اے ہمارے رب ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا ہے۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والوں میں ہوں گے۔ آخرت کا خسارہ واضح ہے دنیا کی زندگی میں نقصان یہ ہے کہ تو نے ہمیں عزت و عظمت سے نوازا لیکن ہم اپنی غلطی کی وجہ سے یہ مقام کھوچکے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ” دَلَّ “ کا لفظ آیا ہے جس کا معنیٰ ہے اوپر سے نیچے آنا یہ گراوٹ روحانی بھی ہوسکتی ہے اور مکانی بھی۔ یہاں دونوں قسم کا تنزل پایا جاتا ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ٣٢ تا ٣٧ کی تفسیر میں ہم نے عرض کیا ہے کہ اس مقام پر تینوں قسم کی مخلوق کی فطرت کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ ملائکہ نے معمولی لغزش پر لفظ ” سبحان “ کے ساتھ معذرت کی انہیں اسی طرح ہی قرب الٰہی حاصل رہا۔ شیطان اپنے گناہ پر مصر رہا تو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ اور لعنتی قرار پایا۔ آدم (علیہ السلام) اپنی خطا پر معذرت خواہ ہوئے تو ان کی معذرت قبول کرلی گئی تاہم یہ حکم ہوا تم سب کے سب زمین پر اترجاؤ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ زمین تمہارے لیے عارضی طور پر جائے قرار اور ایک معین مدت تک زیست کا سامان ہے ہاں یاد رکھو کہ اب تمہیں زمین میں جینا اور مرنا ہے اور اسی سے ہی محشر کے دن اٹھایا جانا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارتے وقت کہا گیا تھا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو یہاں ایک دوسرے کا دشمن ہونے سے مراد پہلا دشمن شیطان ہے جو انسان کا ابدی اور ازلی دشمن ہے جس کی دشمنی میں کوئی شک نہیں۔ جس نے دشمن پر بھروسہ کیا وہ مارا گیا اور بسا اوقات میاں بیوی بھی آپس میں دشمن اور ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اولاد بھی ماں باپ کی مخالف اور دشمن بن جایا کرتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی فطرت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِین التَّوَّابُونَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابن آدم خطا کرنے والا ہے اور خطا کاروں میں اچھے وہ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی سُجُودِہٖ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ )[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، علانیہ اور پوشیدہ کیے تمام کے تمام گناہ معاف فرمادے۔ “ تفسیر بالقرآن اللہ رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ غفور ہے۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ رحمن ہے۔ (الفاتحۃ : ٢) ٣۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٤۔ اللہ بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٥۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٦۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰسٓ: ٤٣) ٧۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر : ٥٦) ٨۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔ (الاحزاب : ٤٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٢٣ یہ انسان کی وہ خصوصیت ہے جو اسے اپنے رب سے ملائے رکھتی ہے ‘ اور رب تک رسانی کے دروازے کھلے رکھتی ہے ۔ اعتراف جرم اور ندامت و استغفار ۔ اپنی کمزوری کا شعور اور اللہ سے طلب استعانت اور طلب رحمت اور یہ یقین کہ اللہ کے سوا کوئی اور قوت کا سرچشمہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی معاونت کرسکتا ہے ۔ ا... گر اللہ کی رحمت ومعاونت نہ ہو تو انسان عظیم خسارے سے دوچار ہوتا ہے ۔ یہاں انسان کا پہلا تجربہ پورا ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت کے بڑے بڑے خدوخال واضح ہوجاتے ہیں ۔ خود انسان اپنی کمزوریوں اور اپنے کمالات وصلاحیتوں سے واقف ہوجاتا ہے ‘ وہ صلاحیتیں جو اسے کرہ ارض پر فریضہ خلافت کی ادائیگی کیلئے دی گئی ہیں ۔ اس فریضے کا اہم حصہ یہ ہے کہ اس زمین پر انسان نے اپنے دشمن شیطان کے ساتھ ایک دائمی معرکہ سر کرنا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20: شجرہ ممنوعہ کھالینے کی لغزش پر نادم ہو کر حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے یہی دعائیہ کلمات ان کے دل میں ڈال دئیے چناچہ دونوں نے انہی کلمات سے گڑ گڑا کر اللہ سے معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزش معاف فرمادی جیسا کہ سورة بقرہ رکوع 4 میں ارشاد ہ... ے۔ “ فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ” تمام محققین اہل تفسیر کی رائے یہی ہے کہ اس آیت میں “ کَلِمَاتٍ ” سے یہی دعاء مراد ہے۔ ای استقبلہما بالاخذ والقبول والعمل بھا وھن قولہ تعالیٰ ربنا ظلمنا انفسنا الخ (مدارک ج 1 ص 35) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 اور ان دونوں میاں بیوی نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور ہم نے اپنے اوپر زیادتی کی اور اگر تم ہم کو معاف نہ کرے گا اور ہماری بخشش نہ فرمائے گا اور ہم پر آپ رحم نہ فرمائیں گے تو ہم یقیناً خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے اور ہم تباہ و برباد ہوں گے یعنی دونوں نے اپنی...  خطا کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بخشش اور رحم کی درخواست کردی۔  Show more