Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 25

سورة الأعراف

قَالَ فِیۡہَا تَحۡیَوۡنَ وَ فِیۡہَا تَمُوۡتُوۡنَ وَ مِنۡہَا تُخۡرَجُوۡنَ ﴿۲۵﴾٪  9

He said, "Therein you will live, and therein you will die, and from it you will be brought forth."

فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He (Allah) said: "Therein you shall live, and therein you shall die, and from it you shall be brought out (resurrected)." This Ayah is similar to Allah's other statement, مِنْهَا خَلَقْنَـكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى Thereof (the earth) We created you, and into it We shall return you, and from it We shall bring you out once again. (20:55) Allah states that He has made the earth a dwelling place for the Children of Adam, for the remainder of this earthly life. On it, they will live, die and be buried in their graves; and from it, they will be resurrected for the Day of Resurrection. On that Day, Allah will gather the first and last of creatures and reward or punish each according to his or her deeds.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] شیطان سیرت اور حق پرست انسانوں کا تقابل :۔ یعنی اس زمین پر ابلیس کی اولاد میں اور آدم کی اولاد میں یہ محاذ آرائی قیامت تک جاری رہے گی جب کہ پہلی بار صور پھونکا جائے گا۔ اس محاذ آرائی یا حق و باطل کے معرکے میں شیطان کے پیروکاروں کی بالکل وہی صفات ہوں گی جن کی ابلیس نے نمائندگی کی تھی یعنی وہ حق سے انحراف کریں گے اللہ کی نافرمانی کریں گے۔ تنبیہ ہونے پر اپنے گناہوں کے اعتراف کی بجائے مزید سرکشی اختیار کریں گے پھر خود ہی سرکشی نہ کریں گے بلکہ اوروں کو مکر و فریب اور جھوٹے وعدوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہوا تو دوسروں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے اب ان کے مقابلہ میں حق پرستوں کے اوصاف بھی وہی ہوں گے جن کی نمائندگی سیدنا آدم نے کی۔ یعنی اصل کے لحاظ سے وہ اللہ کے فرمانبردار ہوں گے اگر غلطیاں ان سے ہوں گی تو کسی شیطانی انگیخت کی بنا پر نادانستہ ہوں گی انہیں اپنی اس غلطی کا جلد ہی احساس ہوجائے گا تو وہ اس غلطی کو اپنا ہی قصور تسلیم کریں گے اور اللہ کے حضور توبہ کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنی آدم کے لیے زندگی میں جائے سکونت قرار دیا ہے، پھر مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے اور قیامت کے دن بھی اسی سے زندہ ہو کر نکلیں گے۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٥٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝ ٠ ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝ ٠ ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝ ٢٦ آدم آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان/ 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء/ 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب . ( ادم ) ادم ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت { أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ } ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : { وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا } ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ وری يقال : وَارَيْتُ كذا : إذا سترته . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وتَوَارَى: استتر . قال تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] وروي أن النبيّ عليه الصلاة والسلام «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ» ، وذلک إذا ستر خبرا وأظهر غيره . ( و ر ی ) واریت کذا ۔ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا سر ڈھانکے ۔ تواری ( لازم ) چھپ جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] یہانتک کہ ( افتاب ) پردے میں چھپ گیا ۔ وریالخبر کے معنی تو ریہ کرنے کے ہیں یعنی اصل بات کو چھپا کر اسے کسی اور طریقہ سے ظاہر کرنا اس طور پر کہ جھوٹ بھی نہ ہو ۔ اور اصل مقصد بھی ظاہر نہ ہونے پائے ) چناچہ حدیث میں ہے ۔ ( 143 ) «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ»کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو تو ریہ سے کام لیتے ۔ ريش رِيشُ الطائر معروف، وقد يخصّ الجناح من بين سائره، ولکون الرِّيشِ للطائر کا لثیاب للإنسان استعیر للثیاب . قال تعالی: وَرِيشاً وَلِباسُ التَّقْوى[ الأعراف/ 26] ، وقیل : أعطاه إبلا بِرِيشِهَا، أي : ما عليها من الثیاب والآلات، ورِشْتُ السّهم أَرِيشُهُ رَيْشاً فهو مَرِيشٌ: جعلت عليه الرّيش، واستعیر لإصلاح الأمر، فقیل : رِشْتُ فلانا فَارْتَاشَ ، أي : حسن حاله، قال الشاعر : فَرِشْنِي بخیر طالما قد بریتني ... فخیر الموالي من يَرِيشُ ولا يبري «1» ورمح رَاشٌ: خوّار، تصوّر منه خور الرّيش . ( ر ی ش ) ریش الطائر پرند کے پروں کو کہتے ہیں اور کبھی یہ لفظ خصوصیت کے ساتھ بازوؤں کے پروں پر بولا جاتا ہے اور چونکہ پرند کے پر اس کے لئے بمنزلہ لباس ہوتے ہیں ۔ اس لئے استعارہ کے طور پر یہ لفظ لباس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرِيشاً وَلِباسُ التَّقْوى [ الأعراف/ 26] اور موجب زینت اور پرہیز گاری کا لباس ۔ عام محاورہ ہے :۔ اعطاٰہ ابلا بریشھا : اسے سامان سمیت اونٹ دے دیئے یعنی مال ومتاع سمیت جو ان کے اوپر تھا ۔ اور رشت السھم اریشہ ریشا : کے معنی تیر کو پر لگانے کے ہیں اور تیر پر نہادہ کو مریش ( کمبیع ) کہتے ہیں ۔ پھر استعارہ کے طور پر اصلاح امر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہذا رشت فلانا فارعاش کے معنی ہیں ۔ میں نے اس کی اصلاح کی تو اس کی حالت سدھر گئی ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ فَرِشْنِي بخیر طالما قد بریتني ... فخیر الموالي من يَرِيشُ ولا يبری مجھے عرصہ دراز تک تم نے تراشا ہے کبھی تو میری اصلاح کیجئے ۔ بہتر موالی وہ ہیں جو بگاڑتے نہیں بلکہ سنوارتے ہیں ۔ اور نیزہ کے پر سے کمزوری کے معنی کے تصور کی بنا پر کمزور نیزہ کو رمح راش کہہ دیتے ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) تمہیں زمین میں زندگی بسر کرنا ہے اور وہیں مرنا ہے اور قیامت کے دن اسی میں سے پھر پیدا ہونا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنی آدم کے لیے جائے سکونت قرار دیا ہے کہ مر نے کے بعد اس زمین میں مد فون ہوں اور قیامت کے دن سے زندہ ہو کر نکلیں جیسا کہ سورت طحہٰ میں فرمایا : منھاخلقنا وفیھا نعید کم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری۔ اسی مٹی سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے ( آیت 55)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپر کے قصہ میں ابلیس کی ضلالت اور بنی آدم سے اس کی عداوت مذکور تھی آگے اس کے اضلال اور اس سے حذر اور احتیاط کی تاکید کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٧٤ ایک نظر میں : زیر نظر سبق اس سورة کے وقفوں میں سے ایک وقفہ ہے ۔ پہلے منظر کے بعد یہ ایک طویل وقفہ ہے جس میں تخلیق انسانیت کی ایک عظیم روئیداد بیان کی گئی ہے ۔ اس سورة میں جگہ جگہ ایسے وقفے آتے ہیں گویا سامعین سے کہا جاتا ہے ‘ ذرا رکیں ‘ کہا یہاں تک جو کچھ آپ نے دیکھا اس پر غور کریں اور آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ اس منظر میں انسانیت کے لئے کیا کیا نصائح ہیں اور کیا کیا عبرت آموزیاں ہے ۔ یہ وقفہ ان دستوں کی موجودگی میں ہے جو ایک طرف انسانیت کی جانب سے اور دوسری جانب شیطان کی جانب سے باہم معرکہ آرائی کے لئے تیار کھڑے ہیں ۔ اس وقفے میں بتایا جاتا ہے کہ شیطان کس اسلوب سے اور کس گزر گاہ سے داخل ہوتا ہے اور یہ کہ اس کا منصوبہ کیا ہے اور کس شکل و صورت میں ہے ۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ صرف اس صورت میں ہدایت دیتا ہے جب کوئی صورت عملا قائم ہو ‘ موجود ہو اور مسئلہ پیدا ہوگیا ہو ۔ وہ جو قصص بھی بیان کرتا ہے ‘ اس لئے بیان کرتا ہے کہ تحریک اسلامی کے اندر کچھ واقعی حالات موجود ہوتے ہیں جن پر وہ قصہ منطبق ہوتا ہے ۔ قرآن کے قصص جیسا کہ اوپر کہہ آئے ہیں محض فنی اور ادبی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے اور نہ قرآن کسی مسئلے پر محض نظریاتی زاوے سے بحث کرتا ہے ۔ اسلام کی حقیقت پسندی اور اس کی سنجیدگی اس بات کی متقاضی تھی کہ اس کی ہدایات ایسے مسائل کے بارے میں ہوں جو عملا تحریک اسلامی کو اس وقت درپیش تھے ۔ قصہ آدمیت کے اس پہلے مرحلے کے بعد آنے والے اس وقفے کا تعلق عرب جاہلیت کی واقعی صورت حال کے ساتھ ہے ۔ قریش نے دوسروں عربوں کے مقابلے میں اپنے لئے کچھ حقوق مختص کئے ہوئے تھے ۔ لوگ باہر سے حج بیت اللہ کے لئے آتے تھے جسے قریش نے بت خانہ بنا دیا تھا اور یہ حقوق وہ اپنے لئے بعض جعلی تصورات کی اساس پر مختص کرتے تھے اور اسے اللہ کی شریعت قرار دیتے تھے ۔ ان تصورات کو انہیں نے قانون شکل دے رکھی تھی اور اسے شریعت کہتے تھے تاکہ دوسرے مشرکین ان قوانین کی پیروی کریں ۔ ہر جاہلیت میں کاہن ‘ سردار ‘ گدی نشین لوگ عوام الناس کے لئے ایسے ہی اصول گھڑ لیتے ہیں ۔ قریش نے اپنے لئے ایک خاص لقب اختیار کیا ہوا تھا ۔ وہ اپنے آپ کو ” حمس “ کہتے تھے ۔ اور اپنے لئے انہوں نے بعض حقوق مختص کر رکھے تھے جو دوسرے عربوں کو حاصل نہ تھے ۔ ان حقوق میں سے بعض طواف بیت اللہ کے بارے میں تھے ۔ صرف ان کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے زیر استعمال کپڑوں میں طواف کرسکتے تھے ‘ رہے دوسرے عرب تو وہ ان کپڑوں میں حج نہ کرسکتے تھے جو کبھی کسی نے پہنے ہوں ۔ اب ان لوگوں کیلئے دو صورتیں تھیں یا تو وہ قریش سے کپڑے مستعار لیتے تھے تاکہ وہ طواف کرلیں اور یا اپنے لئے نئے کپڑے بنواتے تھے اور اگر وہ ان دونوں صورتوں پر عمل نہ کرسکتے تو پھر وہ ننگے طواف کرتے اور ان میں عورتیں بھی شامل ہوتیں ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں ” ماسوائے قریش کے دوسرے عرب ان کپڑوں میں طواف نہ کرسکتے تھے جو انہوں نے اس سے پہلے پہن لئے ہوتے تھے ۔ اس بات کے پیچھے ان کا یہ نظریہ تھا کہ چونکہ ان کپڑوں میں وہ اللہ کی نافرمانی کرتے رہے ہیں اس لئے ان میں ہمارے طواف کرنا درست نہیں ہے ۔ قریش جو حمس کہلاتے تھے ‘ ان کا یہ حق تھا کہ وہ اپنے طواف کرلیتا ‘ کسی کے پاس جدید کپڑے ہوتے تو بھی وہ طواف کرلیتا ‘ لیکن طواف کے بعد اسے پھینک دیتا اور وہ کسی کی ملکیت نہ ہوتا ۔ اگر کسی کو نہ نیا کپڑا ملتا اور نہ عاریتا اہل قریش میں سے دستیاب ہوتا تو وہ ننگا طواف کرتا ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک عورت ننگی حالت میں طواف کر رہی ہے ‘ اس صورت میں وہ اندام نہائی کو ڈھانپ لیتی ۔ لیکن جن عورتوں کو ایسی حالت میں طواف کرنا پڑتا وہ اکثر اوقات رات کے وقت طواف کرتیں ۔ یہ رسوم انہوں نے اپنی جانب سے گھڑ لی تھیں اور آباؤ اجداد کے وقت سے وہ ان پر عمل پیرا تھے ۔ وہ عقیدہ یہ رکھتے تھے کہ ان کا یہ جدی فعل شریعت الہیہ پر مبنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انکی اس بات پر حرف گیری فرمائی ۔ آیت ” وَإِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَۃً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَیْْہَا آبَاء نَا وَاللّہُ أَمَرَنَا بِہَا “۔ (٧ : ٢٨) ” اور جب وہ کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے آباء کو ایسا ہی کرتے پایا ہے اور یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے ۔ “ (قل ای) ’ اے پیغمبر کہہ دے (ان اللہ لا یامر بالفحشاء (٧ : ٢٨) ” بیشک اللہ فحاشی کا حکم نہیں دیتا ۔ “ یعنی تم جو کچھ کر رہے ہو یہ ایک فحش کام ہے اور قابل نفرت ہے اور اللہ ایسے قابل نفرت کاموں کا کبھی حکم نہیں دیتا ۔ آیت ” أَتَقُولُونَ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (28) ” کیا تم اللہ پر وہ افتراء باندھتے ہو جو تمہارے علم نہیں ہے ۔ “ یعنی تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہو جن کی صحت کا خود تمہیں بھی یقین نہیں ہے ۔ آیت ” قل امر ربی بالقسط “۔ (٧ : ٢٩) ” کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ۔ “ آیت ” قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَأَقِیْمُواْ وُجُوہَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ “۔ (٧ : ٢٩) ” اس کا حکم یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص رکھ کر “۔ یعنی اس نے جو حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ عبادت اور عبادت کے مقامات کو درست رکھو اور ان رسولوں کی اطاعت کرو جو معجزات لے کر آئے ہیں اور عبادت صرف اللہ کی کرو ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان دوبنیادی ارکان کے سوا کسی کی عبادت کو قبول نہیں کرتا یعنی یہ کہ وہ عمل شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے یہ کہ وہ شرک سے خالص ہو۔ عبادت ‘ طواف اور لباس کے بارے میں شرعی قوانین اور خوراک کے معاملات میں عربوں کی جاہلی سوسائٹی میں جو عملی صورت حال اس وقت موجود تھی اور جسے وہ شریعت منجانب اللہ سمجھتے تھے ‘ اس عملی صورت حال کے بارے میں یہ تبصرہ آیا ہے یہ تبصرہ انسانیت کی تخلیق کی عظیم کہانی کے ضمن میں آیا ہے ۔ کھانے کا ذکر شجر ممنوعہ کے ضمن میں اور لباس کا ذکر واقعہ نزع لباس میں تھا جو شیطان کی سازش سے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا سے اتار دیا گیا ۔ اس سازش کا شکار ہو کر وہ اس ممنوعہ درخت کے پھل کو کھا گئے تھے اور انسان کی فطری حیا کا ذکر بھی اس میں آگیا تھا کہ جب ان سے لباس جنت اتار دیا گیا تو پھر وہ جنت کے درختوں کے پتے اوپر لپٹینے لگے اور یوں وہ ستر پوشی کرنے لگے ۔ غرض اس قصے میں جو واقعات آئے اور اس کے بعد ان پر جو تبصرہ ہوا ‘ وہ عربوں کے اندر موجود جاہلی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ قصہ قرآن کی دوسری سورتوں میں بھی آئے گا۔ لیکن اس وقت اس کے لانے کے مقاصد اور ہوں گے اور اس پر پھر تبصرے اور نتائج بھی اور ہوں گے ۔ قرآن کریم ہر جگہ جو قصہ بھی لاتا ہے وہ انسانوں کی کسی عملی صورت حال پر ہی پیش کرتا ہے اور اس پر پھر تبصرے بھی ان مقاصد اور صورت حالات کے مطابق کرتا ہے ۔ چناچہ قرآن کریم ہر مقام کے حالات کے مطابق قصے کی متعلقہ کڑی پیش کرتا ہے اور ہر مقام کے مزاج کے مطابق اس کی تفصیلات دیتا ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے فصل قصص ‘ میری کتاب التصویر الغنی فی القرآن میں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22 حیات سے حیات متعارفہ مراد ہے اس لیے یہ اعتراض وارد نہیں ہوگا کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو وہ بھی زمین پر ہی زندگی بسر کرتے۔ زمین حیات متعارفہ کا مرکز ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آسمان میں زندگی یہاں کی متعارف زندگی نہیں ہے۔ یعنی وہ زندگی جس کے ساتھ خوردو نوش اور دیگر لوازم وابستہ ہوں۔ یہاں تک تمہید ختم ہوئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمادیا کہ تم کو زمین ہی میں زندہ رہنا اور اسی زمین میں مرنا اور اس ہی زمین سے نکلنا ہے یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر زمین ہی سے نکالے جائو گے۔