Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 26

سورة الأعراف

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ ﴿۲۶﴾

O children of Adam, We have bestowed upon you clothing to conceal your private parts and as adornment. But the clothing of righteousness - that is best. That is from the signs of Allah that perhaps they will remember.

اے آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوےٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Bestowing Raiment and Adornment on Mankind Allah says; يَا بَنِي ادَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ ايَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ O Children of Adam! We have bestowed Libas (raiment) upon you to cover yourselves with, and as Rish (adornment); and the Libas (raiment) of Taqwa, that is better. Such are among the Ayat of Allah, that they may remember. Allah reminds His servants that He has given them Libas and Rish. Libas refers to the clothes that are used to cover the private parts, while Rish refers to the outer adornments used for purposes of beautification. Therefore, the first type is essential while the second type is complimentary. Ibn Jarir said that; Rish includes furniture and outer clothes. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam commented on the Ayah, وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ (and the Libas (raiment) of Taqwa...), "When one fears Allah, Allah covers his errors. Hence the `Libas of Taqwa' (that the Ayah mentions)."

لباس اور داڑھی جمال و جلال یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی ۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے ۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال و خوش لباسی کے بھی ہیں ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا دعا ( الحمد اللہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی و اتجمل بہ فی حیاتی ) پھر فرمانے لگے میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں ، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) مسند احمد میں ہے حضرت علی نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کو خریدا اور اسے پہنا جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی ( الحمد اللہ الذی رزقنی من ریاش ما اتجمل بہ فی الناس واواری بہ عورتی ) یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں؟ فرمایا میں نے اسے حضور سے سنا ہے لباس التقوی کی دوسری قرأت لباس التقوی سین کے زبر سے بھی ہے ۔ رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کے دن پرہیز گاروں کو جو لباس عطا ہو گا وہ ہے ۔ ابن جریج کا قول ہے لباس تقوی ایمان ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ، عروہ کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔ عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے ۔ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور باہم یک دیگر قریب قریب ہیں ۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حضرت حسن سے مرقوم ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو اللہ سے ڈرو خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر علانیہ ڈال دے گا اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے ۔ ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ حضرت عثمان نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 سَوْآت، ُ ، ُ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے جیسے شرم گاہ اور وہ لباس جو حسن و رعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تتمہ اضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔ 26۔ 2 اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح مشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریبًا ایک ہے کہ ایسالباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کی بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ 26۔ 3 اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب وزینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے، تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد اور تقوے ٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا پڑھا کرتے تھے : (واَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّزِیْ کَسَانِی مَائْو وَارِیْ بِہٖ عَوْرَبِّی وَاَتَجَمَّلْ بِہِ فِیْ حَیَاتِیْ ) تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] لباس کے اخلاقی اور طبعی فوائد اور لباس کا بنیادی مقصد :۔ لباس کو نازل کرنے سے مراد یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو فوری طور پر الہام کیا گیا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپیں اور ممکن ہے اس سے مراد شرم و حیا کی وہ فطری جبلت ہو جو انسان کے اندر رکھ دی گئی ہے اور اس سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے زمین پر آجانے کے بعد بارش ہوئی جس سے زمین میں سے روئی یا دوسری ریشہ دار نباتات اگ آئیں جس سے انہوں نے لباس بنا لیا ہو اور لباس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے بدن کو ڈھانپا جاسکے اور اس لباس کے اللہ تعالیٰ نے دو فائدے بتائے ایک اخلاقی دوسرا طبعی۔ اخلاقی فائدہ یہ ہے کہ اپنے مقامات ستر ڈھانپ کر بےحیائی سے بچا جاسکے اور طبعی فائدہ یہ ہے کہ لباس انسان کے لیے زینت ہے اور یہ سردی اور گرمی کے موسمی اثرات سے بھی بچاتا ہے اور اخلاقی فائدے کو اللہ تعالیٰ نے پہلے بیان فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ لباس کا بنیادی مقصد سترکو ڈھانپنا ہے۔ [٢٤] تقویٰ کے لباس کا مفہوم :۔ تقویٰ کے لباس کا مطلب یہ ہے کہ لباس پردہ پوش یا ساتر ہو ایسا پتلا یا شفاف نہ ہو کہ پہننے کے باوجود جسم کی سلوٹیں اور مقامات ستر سب کچھ نظر آتا رہے۔ دوسرے یہ کہ لباس فاخرانہ اور متکبرانہ نہ ہو نہ دامن دراز ہو اور نہ اپنی حیثیت سے کم تر درجہ ہی کا اور گندہ ہو کیونکہ یہ سب باتیں تقویٰ کے خلاف ہیں تیسرے وہ لباس ایسا بھی نہ ہو کہ مرد عورتوں کا لباس پہن کر عورت بننے کی کوشش کرنے لگیں اور عورتیں مردوں کا سا پہن کر مرد بننے کی کوشش کرنے لگیں کیونکہ اس سے ان کی اپنی اپنی جنس کی توہین ہوتی ہے اور چوتھے یہ کہ اپنا لباس ترک کر کے کسی حاکم یا سربر آوردہ قوم کا لباس استعمال نہ کریں کیونکہ سربر آوردہ قوم کی تہذیب و تمدن اور اس کا لباس اختیار کرنے سے جہاں تمہارا قومی تشخص مجروح ہوگا وہاں یہ بات اس قوم کے مقابلہ میں تمہاری ذہنی مرعوبیت کی بھی دلیل ہوگی اور پانچویں یہ کہ مرد ریشمی لباس نہ پہنیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک لباس سے مراد صرف ظاہری لباس ہی نہیں بلکہ اس سے مراد رنگ ڈھنگ اور پورا طرز زندگی ہے جس میں لباس بھی شامل ہے یعنی انسان کی ایک ایک عادت ایسی ہونی چاہیے جس سے تقویٰ کا رنگ ٹپکتا ہو ان کے نزدیک لباس کا لفظ مجازی معنوں میں ہے جیسے && مذہبی تقدس کا پردہ && میں پردہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا : یعنی آسمان سے پانی اتارا، جس سے روئی اگتی ہے، ریشم اور پشم کا سامان مہیا ہوتا ہے، پھر تمہیں زراعت، شجرکاری، حیوان پروری، کپڑا بننے اور دوسری چیزیں بنانے کا طریقہ سکھا دیا۔ راغب نے فرمایا کہ یہاں ” اَنْزَلَ “ بمعنی ” خَلَقَ “ ہے، جیسے : (وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ ) [ الحدید : ٢٥ ] ” اور ہم نے لوہا اتارا۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے، پھر ہم نے تم کو دنیا میں لباس کی تدبیر سکھا دی۔ “ (موضح) يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۭ: یعنی لباس کا مقصد ستر پوشی اور زینت ہے۔ اس کے علاوہ وہ سردی، گرمی اور چوٹ وغیرہ سے بھی بچانے کے باعث بنتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ) [ النحل : ٨١ ] ” اور اس نے تمہارے لیے کچھ قمیص بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمہیں تمہاری لڑائی میں بچاتی ہیں۔ “ وَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭ: یعنی اس ظاہری لباس کے علاوہ جس سے تم صرف بدن ڈھانکتے ہو یا زینت کا کام لیتے ہو ایک اور معنوی لباس بھی ہے جو ہر لباس سے بہتر ہے، لہٰذا تمہیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور وہ ہے پرہیزگاری، یعنی اللہ کا خوف، ایمان اور عمل صالح کا لباس۔ بعض نے کہا ہے کہ ” ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ“ سے مراد اون کھدر وغیرہ کی قسم کا کھردرا اور موٹا لباس ہے، جسے صوفی لوگ پہنتے ہیں، مگر یہ صحیح نہیں، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین، جن کی پرہیزگاری بےمثال تھی، عمدہ لباس بھی پہنا کرتے تھے اور وسعت کے باوجود سادہ لباس بھی پہنتے تھے۔ بعض نے زرہ وغیرہ فوجی لباس مراد لیا ہے جو دشمن سے بچاؤ کا ذریعہ بنتا ہے۔ (قرطبی۔ روح المعانی) ہاں یہ ضرور ہے کہ جس لباس کی ممانعت آئی ہے وہ نہ پہنا جائے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اب وہی لباس پہنو جس میں پرہیزگاری ہو، یعنی مرد ریشمی (اور زعفرانی رنگ کا) لباس نہ پہنے، دامن لمبا نہ رکھے جو ٹخنوں کو ڈھانک لے اور جو منع ہوا ہے سو نہ کرے اور عورت بہت باریک ( یا تنگ) لباس نہ پہنے کہ لوگوں کو بدن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھائے۔ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ : تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی اس بڑی نعمت کی قدر کریں، یا نصیحت حاصل کریں اور برے کاموں سے بچیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in almost a section preceding the verses cited above was the event relating to Sayyidna &Adam and Satan, the accursed. The first outcome of the satanic instigation was that the heavenly apparel of &Adam and Hawwa came off leaving them coverless as a re-suit of which they began hiding their coverable body with leaves. In the first of the present verses (26), Allah Ta` ala has addressed all children of &Adam and told them that the dress they wear is a great blessing the worth and value of which must be recognized by them. The address here is not to Muslims alone. It is to all children of Adam. This is a sharp pointer to the fact that the act of covering the coverable parts of the body and the wearing of dress is both a human need and a natural desire. Everyone abides by it without any distinction of relig¬ion or community. Then, giving its details, three kinds of clothings were mentioned. First of all, it was said: لِبَاسًا يُوَارِ‌ي سَوْآتِكُمْ (clothing that covers your shame). Here, the word: يُوَارِ‌ي (yuwari) is a derivation from: مُوَارَات (muwarat) which means to cover, hide or conceal. And the word: سَواٰۃ (sau&at) is the plural form of: سَوۃُ (sau&ah). This is applied to body parts the uncovering of which is taken, by nature, as bad and shameful by all human beings. The sense of the statement is that Allah has sent down for people dress with which they could cover their body parts the exposing of which is a matter of shame. After that, it was said: رِ‌يشًا (wa risha). The dress one uses for adornment and decency is called: رَیُش (Rish). The meaning is that just to cover up the cover-worthy body parts, even a simple set of clothing is enough. But, Allah has provided for you much more than simply cloth¬ing, He blessed you with dresses which make you look handsome, or decent, neat and civilized. At this place, the word used by the Holy Qur&an is: اَنزَلنَا (anzalna: We have sent down). It means to bestow or bless with. It is not necessary that it be sent down from the heavens ready to wear. This is like an-other expression: اَنزَلنَا حدِید (57:25). It means: ` We sent down the iron,& which is dug out of the earth as everyone can see. However, at both these places, by saying: اَنزَلنَا (anzalna : We have sent down), it was indi¬cated that the way no human planning or artifice operates as active agent in what ` descends from the heavens,& so it is with the essential mother element of dress, cotton or wool etc., where human ingenuity has no role to play. That is simply a gift from the great creative power of Allah Ta` ala. But, human artifice does work in efforts to make out of these materials dresses to individual taste, temperament, and the need to stay safe against heat or chill. Even the way to that artifice is shown by Allah Ta` ala. Therefore, eyes that see reality see all this as nothing but Divine gift sent from the heavens. Two Uses of Dress Identified here are two uses of dress: (1) To cover the cover-worthy parts of the body سَتَر (satr), and (2) protection from hot and cold weather, and decor of the body. The first use has been placed first which indi¬cates that the real purpose of human dress is to be able to cover the cover-worthy parts of the body سَتَر اَلعَورَہ (satr al-&awrah). This also happens to be its line of demarcation from animals. The dress given to animals has been naturally made a part of their body. The purpose it serves is ei¬ther to protect from hot and cold weather, or beautify them. No elabo¬rate arrangements have been made to cover up their سَتَر satr. Neverthe¬less, formations of particular body parts in their bodies have been so placed that they do not remain totally exposed. Some would have a screen of a tail and many others would have other obstructers of view. After having related the event concerning &Adam and Hawwa& (&Adam and Eve) and how the Satan had instigated them, this mention of dress indicates that for human beings to be naked, or the exposure of their shame before others is a sign of abject disgrace and indecency at its worst. Moreover, it is an antecedent to all sorts of evils and dis¬orders. The Modern Obsession for Nudity: The Tempter of &Adam and Eve still Stalks So, the first attack of Satan came from this opening against human beings when their dress dropped off from where it belonged. Even today, when Satan wishes to confuse and waylay human beings through his accomplices, it always picks up a chic front like being trendy, hip, hot or cool and ends up pulling people out from homes into streets and alleys naked or just about. It would seem that what Satan has classi¬fied as modern advancement does not happen unless women are de¬prived of their sense of shame and modesty and made to parade around in the near-nude. After &Iman, the First Duty is to Cover your Body Properly When Shaytan, sensing this weakness in human beings, made the first assault on their body cover, the Shari&ah of Islam acted smartly as it is responsible for the inculcation, protection and flowering of eve¬ry good in its people that it took the issue so seriously that it enjoined the covering of human body as the first duty after &Iman or faith. The Salah, the Sawm, and duties like those come after that. Sayyidna Faruq al-A` zam (رض) says that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: When someone wears a new dress, he should recite the following Du` a while wearing it: اَلحَمدُ للہِ الَّذِی کَسَانِی مَا اُوَارِی بِہِ عَورَتِی وَاَتَجَمَّلُ بِہِ فی حَیَاتِی Praise be to Allah who gave me clothes with which I am to cover the cover-worthy parts of my body and look handsome with it in my life. The Great Reward of Giving the Old Dress as Sadaqah after Wearing the New One He also said: If a person who wears a new dress and gives away the old one as Sadaqah (charity) to anyone poor and needy, he comes un¬der the protection and patronage of Allah Ta` ala in all states of his life and death. (Ibn Kathir from the Musnad of Ahmad) In this Hadith too, one is reminded of the two considerations in wearing a dress which is why Allah Ta` ala has created the human dress. Covering of Body is Natural and the Theory of Evolution is False The event of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and the statement of the Qur&an make it clear that covering the body and using a dress is a natural desire and an inborn necessity of human beings which has been with them since the very beginning. Those who profess that the first man went around naked and it was only after having passed through stages of evolution that he invented the dress, they are patently false. The Ultimate Dress After having identified the dress of two kinds, that which covers the body properly and that which gives comfort and beauty, a third kind of dress was mentioned by saying: وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ (And the dress of Taqwa [ fear of Allah ]! that is the best). In some readings (Qira&at) of the Qur&an, the word: لِبَاس (libas: dress) has been rendered with a fathah on the letter: سِین (sin) as: وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ. Thus, read with: اَنزَلنَا (anzalna), it will mean: We have sent down a third dress of Taqwa. But, in accordance with the well-known reading of it, it means that everyone knows the two dresses mentioned, however, there is a third kind of dress, that of Taqwa - and that is the best of all dresses. The dress of Taqwa, as ex plained by Sayyidna Ibn ` Abbas and ` Urwah ibn Zubayr (رض) means right conduct, good deed and fear of Allah. (Ruh a1-Ma&ani) The sense is that the way the visible physical dress of human be¬ings serves the purpose of covering the cover-worthy parts of the body, protecting from hot and cold weather and giving beauty and embellish¬ment - very similarly, there is a spiritual dress, that of right and be-coming conduct, good deed and fear of Allah. This libas or dress of Taq¬wa conceals human weaknesses and moral shortcomings. It delivers one from immediate hardships and ultimate losses. Therefore, it is the best of dresses one can wear. Present here is the hint that an evil-doing person who has no fear of Allah and does not care for acting right, must be disgraced ultimate¬ly, no matter how he covers up - as reported by Ibn Jarir from Sayyidna ` Uthman al-Ghani (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: By Allah in whose hands rests the life of Muhammad, whatever a person does in secret, Allah Ta` ala wraps his deed like a sheet around him and announces it - the good of it, if the deed is good, and the evil of it, if the deed is evil. Wrapping like a sheet on the body means that it is visible to everyone. No matter how secretly one may do something, Allah Ta` ala makes its effects become evident on the face and the body. Then, to authenticate his statement, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse: وَرِ‌يشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ (... and dress that adorns. And the dress of Taqwa , that is the best. That is one of the signs of Allah). The Real Purpose of Physical Dress Too is to Achieve Taqwa The expression, ` Dress of Taqwa,& indicates that the purpose of physical dress which fulfills the function of covering the body properly, and helps beautify it as well, is really a way of achieving the ability to fear Allah, or Taqwa as in the Qur&an. This ability should manifest it-self in the way one dresses. The parts of the body which must be cov¬ered should be fully covered. It should be ensured that one&s modesty stays concealed. Neither should it be allowed to remain naked, nor should the dress on the body be so tight-fitting through which body parts look like being naked. Then, this dress should not have the flair of pride and arrogance, instead, it should reflect modesty and humili¬ty. Then, it should not be extravagant either. The cloth material used should be tailored to need. And neither should the dress for women be masculine, nor the dress for men be feminine, which is odious and re¬pugnant in the sight of Allah. Also, there should be no imitation in wearing a dress like others which is a sign of deviation from the estab¬lished norms of one&s community. Along with it, there is the crucial need to correct one&s morals and deeds which is the real purpose of dress. At the end of the verse comes the invitation to understand: ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ (That is one of the signs of Allah, so that they may be receptive to advice).

خلاصہ تفسیر اے اولاد آدم (ایک ہمارا انعام یہ ہے کہ) ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہارے ستر (یعنی پردہ والے بدن) کو بھی چھپاتا ہے اور (تمہارے بدن کے لئے) موجب زینت بھی (ہوتا) ہے، اور (ظاہری لباس کے علاوہ ایک معنوی لباس بھی تمہارے لئے تجویز کیا ہے جو) تقویٰ (یعنی دینداری) کا لباس (ہے کہ) یہ اس (لباس ظاہری) سے بڑھ کر (ضروری) ہے (کیونکہ اس ظاہری لباس کا مطلوب شرعی ہونا اسی تقویٰ یعنی دینداری کی ایک فرع ہے، اصل مقصود ہر حالت میں لباس تقویٰ ہی ہے) یہ (لباس پیدا کرنا) اللہ تعالیٰ کے (فضل و کرم) کی نشانیوں میں سے ہوتا ہے، تاکہ یہ لوگ (اس نعمت کو) یاد رکھیں (اور یاد رکھ کر اپنے منعم اور محسن کا حق اطاعت ادا کریں اور وہ حق اطاعت وہی ہے جس کو لباس تقویٰ فرمایا ہے) اے اولاد آدم ! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے (کہ خلاف دین وتقویٰ تم سے کوئی کام کراوے) جیسا اس نے تمہارے دادا دادی (یعنی آدم و حوا علیہما السلام) کو جنت سے باہر کرا دیا (یعنی ان سے ایسا کام کرادیا کہ اس کے نتیجہ میں وہ جنت سے باہر آگئے، اور باہر بھی) ایسی حالت سے (کرایا) کہ ان کا لباس بھی ان (کے بدن) سے اتروا دیا، تاکہ دونوں کو ایک دوسرے کے پردہ کا بدن دکھائی دینے لگے (جو شریف انسان کیلئے بڑی شرم و رسوائی ہے، غرض شیطان تمہارا قدیم دشمن ہے، اس سے بہت ہوشیار رہو اور زیادہ احتیاط اس لئے اور بھی ضروری ہے کہ) وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو (عادةً ) نہیں دیکھتے ہو (ظاہر ہے کہ ایسا دشمن بہت خطرناک ہے، اس سے بچنے کا پورا اہتمام چاہئے، اور یہ اہتمام ایمان کامل اور تقویٰ سے حاصل ہوتا ہے وہ اختیار کرلو تو بچاو کا سامان ہوجائے گا کیونکہ) ہم شیطانوں کو انہی کا رفیق ہونے دیتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے (اگر بالکل ایمان نہیں تو پوری طرح شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے، اور اگر ایمان تو ہے مگر کامل نہیں تو اس سے کم درجہ کا تسلط ہوتا ہے، بخلاف مومن کامل کے کہ اس پر شیطان کا بالکل قابو نہیں چلتا، جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے : (آیت) انہ لیس لہ سلطان علی الذین آمنوا وعلی ربھم یتوکلون) معارف و مسائل آیات مذکورہ سے پہلے ایک پورے رکوع میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیطان رحیم کا واقعہ بیان فرمایا گیا تھا، جس میں شیطانی اغواء کا پہلا اثر یہ ہوا تھا کہ آدم و حواء (علیہما السلام) کا جنتی لباس اتر گیا اور وہ ننگے رہ گئے، اور پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔ مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ تمہارا لباس قدرت کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کرو، یہاں خطاب صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ پوری اولاد آدم کو ہے، اس میں اشارہ ہے کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے، بغیر امتیاز کسی مذہب و ملت کے سب ہی اس کے پابند ہیں، پھر اس کی تفصیل میں تین قسم کے لباسوں کا ذکر فرمایا : اول : (آیت) لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ اس میں یواری، موارات سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں چھپانے کے، اور سواٰة سوءة کی جمع ہے، ان اعضاء انسانی کو سوءة کہا جاتا ہے جن کے کھلنے کو انسان فطرةً برا اور قابل شرم سمجھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری صلاح و فلاح کے لئے ایک ایسا لباس اتارا ہے، جس سے تم اپنے قابل شرم اعضاء کو چھپا سکو۔ اس کے بعد فرمایا وریشاً ، ریش اس لباس کو کہا جاتا ہے جو آدمی زینت و جمال کے لئے استعمال کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ صرف ستر چھپانے کے لئے تو مختصر سا لباس کافی ہوتا ہے، مگر ہم نے تمہیں اس سے زیادہ لباس اس لئے عطا کیا کہ تم اس کے ذریعہ زینت و جمال حاصل کرسکو، اور اپنی ہیئت کو شائستہ بنا سکو۔ اس جگہ قرآن کریم نے انزلنا یعنی اتارنے کا لفظ استعمال فرمایا ہے، مراد اس سے عطا کرنا ہے، یہ ضروری نہیں کہ آسمان سے بنا بنایا اترا ہو، جیسے دوسری جگہ انزلنا الحدید کا لفظ آیا ہے، یعنی ہم نے لوہا اتارا، جو سب کے سامنے زمین سے نکلتا ہے، البتہ دونوں جگہ لفظ انزلنا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جس طرح آسمان سے اترنے والی چیزوں میں کسی انسانی تدبیر اور صنعت کو دخل نہیں ہوتا، اسی طرح لباس کا اصل مادہ جو روئی یا اون وغیرہ ہے اس میں کسی انسانی تدبیر کو ذرّہ برابر دخل نہیں، وہ محض قدرت حق تعالیٰ کا عطیہ ہے، البتہ ان چیزوں سے اپنی راحت و آرام اور مزاج کے مناسب سردی گرمی سے بچنے کے لئے لباس بنا لینے میں انسانی صنعت گری کام آتی ہے، اور وہ صنعت بھی حق تعالیٰ ہی کی بتلائی اور سکھائی ہوئی ہے، اس لئے حقیقت شناس نگاہ میں یہ سب حق تعالیٰ ہی کا ایسا عطیہ ہے جیسے آسمان سے اتارا گیا ہو۔ لباس کے دو فائدے اس میں لباس کے دو فائدے بتلائے گئے، ایک ستر پوشی، دوسرے سردی گرمی سے حفاظت اور آرائش بدن اور پہلے فائدہ کو مقدم کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ انسانی لباس کا اصل مقصد ستر پوشی ہے، اور یہی اس کا عام جانوروں سے امتیاز ہے، کہ جانوروں کا لباس جو قدرتی طور پر ان کے بدن کا جزء بنادیا گیا ہے اس کا کام صرف سردی گرمی سے حفاظت یا زینت ہے، ستر پوشی کا اس میں اتنا اہتمام نہیں، البتہ اعضائے مخصوصہ کی وضع ان کے بدن میں اس طرح رکھ دی کہ بالکل کھلے نہ رہیں، کہیں ان پر دم کا پردہ کہیں دوسری طرح کا۔ اور حضرت آدم و حواء اور اغواء شیطانی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لباس کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لئے ننگا ہونا اور قابل شرم اعضاء کا دوسروں کے سامنے کھلنا انتہائی ذلت و رسوائی اور بےحیائی کی علامت اور طرح طرح کے شرو فساد کا مقدمہ ہے۔ انسان پر شیطان کا پہلا حملہ اس کو ننگا کرنے کی صورت میں ہوا آج بھی نئی شیطانی تہذیب انسان کو برہنہ یا نیم برہنہ کرنے میں لگی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شیطان کا سب سے پہلا حملہ انسان کے خلاف اسی راہ سے ہوا کہ اس کا لباس اتر گیا، اور آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعے جب انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو تہذیب و شائستگی کا نام لے کر سب سے پہلے اس کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے عام سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا کردیتا ہے اور شیطان نے جس کا نام ترقی رکھ دیا ہے وہ عورت کو شرم و حیاء سے محروم کرکے منظر عام پر نیم برہنہ حالت میں لے آنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوتی۔ ایمان کے بعد سب سے پہلا فرض ستر پوشی ہے شیطان نے انسان کے اس کمزور پہلو کو بھانپ کر پہلا حملہ انسان کی ستر پوشی پر کیا، تو شریعت اسلام جو انسان کی ہر صلاح و فلاح کی کفیل ہے، اس نے ستر پوشی کا اہتمام اتنا کیا کہ ایمان کے بعد سب سے پہلا فرض ستر پوشی کو قرار دیا، نماز، روزہ وغیرہ سب اس کے بعد ہے۔ حضرت فاروق اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہئے کہ لباس پہننے کے وقت یہ دعا پڑھے : الحمد للّٰہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی۔ ” یعنی شکر اس ذات کا جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعہ میں اپنے ستر کا پردہ کروں اور زینت حاصل کروں “۔ نیا لباس بنانے کے وقت پرانے لباس کو صدقہ کردینے کا ثواب عظیم اور فرمایا کہ جو شخص نیا لباس پہننے کے بعد پرانے کو غرباء و مساکین پر صدقہ کر دے تو وہ اپنی موت وحیات کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور پناہ میں آگیا۔ (ابن کثیر عن مسند احمد) اس حدیث میں بھی انسان کو لباس پہننے کے وقت انہی دونوں مصلحتوں کو یاد دلایا گیا ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی لباس پیدا فرمایا ہے۔ ستر پوشی ابتداء آفرنیش سے انسان کا فطری عمل ہے ارتقاء کا جدید فلسفہ باطل ہے آدم (علیہ السلام) کے واقعہ اور قرآن کریم کے اس ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو اول دن سے اس کے ساتھ ہے، اور آج کل کے بعض فلاسفروں کا یہ قول سراسر غلط اور بےاصول ہے کہ انسان اول ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی منزلیں طے کرنے کے بعد اس نے لباس ایجاد کیا۔ لباس کی ایک تیسری قسم ستر پوشی اور راحت وزینت کے لئے دو قسم کے لباسوں کا ذکر فرمانے کے بعد قرآن کریم نے ایک تیسرے لباس کا ذکر اس طرح فرمایا (آیت) ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ بعض قراءتوں میں فتح یعنی زبر کے ساتھ لباس التقوی پڑھا گیا ہے، تو انزلنا کے تحت میں داخل ہو کر معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ایک تیسرا لباس تقویٰ کا اتارا ہے، اور مشہور قراءت کی رو سے معنی یہ ہیں کہ یہ دو لباس تو سب جانتے ہیں، ایک تیسرا لباس تقویٰ کا ہے، اور وہ سب لباسوں سے زیادہ بہتر ہے، لباس تقویٰ سے مراد حضرت ابن عباس اور عروہ بن زبیر (رض) کی تفسیر کے مطابق عمل صالح اور خوف خدا ہے۔ (روح) مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری لباس انسان کے قابل شرم اعضاء کے لئے پردہ اور سردی گرمی سے بچنے اور زینت حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اسی طرح ایک معنوی لباس، صالح اور خوف خدا تعالیٰ کا ہے، جو انسان کے اخلاقی عیوب اور کمزوریوں کا پردہ ہے، اور دائمی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کا ذریعہ ہے اسی لئے وہ سب سے بہتر لباس ہے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک بدکار آدمی جس میں خوف خدا نہ ہو اور وہ عمل صالح کا پابند نہ ہو وہ کتنے ہی پردوں میں چھپے مگر انجام کار رسوا اور ذلیل ہو کر رہتا ہے، جیسا کہ ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے بروایت عثمان غنی (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے جو شخص کوئی بھی عمل لوگوں کی نظروں سے چھپا کر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کی چادر اڑھا کر اعلان کردیتے ہیں، نیک عمل ہو تو نیکی کا اور برا عمل ہو تو برائی کا “۔ چادر اڑھانے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن پر اوڑھی ہوئی چادر سب کے سامنے ہوتی ہے، انسان کا عمل کتنا ہی پوشیدہ ہو اس کے ثمرات و آثار اس کے چہرے اور بدن پر اللہ تعالیٰ ظاہر کردیتے ہیں، اور اس ارشاد کی سند میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی، (آیت) وَرِيْشًا ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ ظاہری لباس کا بھی اصل مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے لباس التقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعہ ستر پوشی اور زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوف خدا تعالیٰ ہے، جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اس طرح ہونا چاہئے کہ اس میں پوری ستر پوشی ہو، کہ قابل شرم اعضاء کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضاء مثل ننگے کے نظر آئیں، نیز اس لباس میں فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بیجا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے، عورتوں کے لئے مردانہ اور مردوں کے لئے زنانہ لباس بھی نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالہ بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ ہی اخلاق و اعمال کی دوستی بھی ہو جو لباس کا اصل مقصد ہے، آخر آیت میں ارشاد فرمای آذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ یعنی انسان کو لباس کی یہ تینوں قسمیں عطا فرمانا اللہ جل شانہ کی آیات قدرت میں سے ہے، تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ يَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِيُرِيَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ يَرٰىكُمْ ہُوَوَقَبِيْلُہٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٢٧ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ (1) قَبِيلُ والقَبِيلُ : جمع قَبِيلَةٍ ، وهي الجماعة المجتمعة التي يقبل بعضها علی بعض . قال تعالی: وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] ، أي : جماعة جماعة . وقیل : معناه كفيلا . من قولهم : قَبلْتُ فلانا وتَقَبَّلْتُ به، أي : تكفّلت به، وقیل مُقَابَلَةً ، أي : معاینة، ويقال : فلان لا يعرف قَبِيلًا من دبیر أي : ما أَقْبَلَتْ به المرأة من غزلها وما أدبرت به . القبیل یہ قبیلہ کی جمع ہے یعنی وہ جماعت جو ایک دوسرے پر متوجہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] تمہاری قو میں اور قبیلے بنائے ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبیل بمعنی کفیل یعنی ضامن کے ہے اور یہ قبلت فلانا وتتبلت بہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ضامن بننے کے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے معنی مقابلہ یعنی معائنہ کئے ہیں ۔ مثل مشہور ہے : ۔ وہ عورت کے اگلے اور پچھلے سوت میں تمیز نہیں کرسکتا یعنی بیوقوف ہے ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

لباس کی حقیقت قول باری ہے یا بنی ادم قدانزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم وریشاً ولباس التقوی ذلک خیر۔ اے اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور نیت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوی ٰ کا لباس ہے) یہ انسانوں میں سے تمام مکلفین کے لئے خطاب عام ہے جس طرح یہ قول باری یایھا الناس اتقواربکم۔ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو) ان تمام مکلفین کے لئے خطاب ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود تھے اور جو اس زمانے کے بعد کے زمانوں میں آنے والے تھے۔ البتہ جو لوگ اس وقت موجود نہیں تھے ان کے لئے یہ خطاب وجود میں آجانے اور کمال عقل کو پہنچنے کی شرط کے ساتھ مشروط تھا۔ قول باری قد انزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم) نیز قول باری (وطفقا یغصفان علیھا من ورق الجنۃ۔ اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے) ستر عورت کی فرضیت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے ہم پر لباس نازل کیا تاکہ ہم اس کے ذریعے اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانک لیں۔ نزول لباس کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے (انزلنا) فرمایا اس لئے کہ لباس یا تو زمین کی پیداوار یعنی روئی وغیرہ سے تیار ہوتا ہے یا جانوروں کی کھالوں اور اون سے بنایا جاتا ہے۔ ان سب کی بنیاد بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ایک قول کے مطابق لباس کو آسمان سے نازل کرنے کی بات اس لئے کہی گئی کہ تمام برکتوں کی نسبت آسمان سے اترنے کی طرف کی جاتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں زبردست طاقت ہے اور لوگوں کے لئے اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں) ۔ قول باری ریشاً کے بارے میں ایک قول ہے کہ اس سے گھریلو سامان مراد ہے مثلاً بستر چادریں وغیرہ ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ لباس ہے جو زینت کا ذریعہ بنتا ہے اسی بنا پر پرندے کے پروں کو ریش کہا جاتا ہے۔ لباس التقوی کیا ہے ؟ قول باری (ولباس التقویٰ ) کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے عمل صالح مراد ہے۔ اسے لباس کے نام سے اس لئے موسوم کی گیا کہ عمل صالح کے ذریعے انسان اللہ کے عذاب سے بچ جاتا ہے جس طرح لباس کے ذریعے گرمی سردی سے بچتا ہے۔ قتادہ اور سدی کے قول کے مطابق اس سے ایمان مراد ہے۔ جن کا قول ہے کہ اس سے حیا مراد ہے جس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس سے ادنیٰ لباس نیز ایسا موٹا لباس مراد ہے جو تواضع کے طور پر نیز عبادت میں زہد و ریاضت کی بنا پر پہنا جاتا ہے۔ آیت ستر عورت کی فرضیت کے لزوم پر دلالت کرتی ہے اس پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات بھی منقول ہیں۔ تنہائی میں برہنگی بہزبن حکیم نے اپنے والد سے انہوں بہز کے دادا سے روایت کی ہے۔ انہوں نے پوچھا تھا “۔ اللہ کے رسول ہم اپنی شرمگاہوں کے سلسلے میں کیا کریں اور کیا نہ کریں ؟ “ آپ نے جواب میں فرمایا ” اپنی بیوی یا لونڈی کے سوا اپنی شرمگاہ کو ہر ایک سے بچا کے رکھو “۔ میں نے عرض کیا ” اگر ہم میں سے کوئی شخص تنہا ہو تو کیا وہ اپنی شرمگاہ برہنہ کرسکتا ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے “۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی مرد کسی مرد کی شرمگاہ پر اور کوئی عورت کسی عورت کی شرمگاہ پر نظر نہ ڈالے “۔ نگاہ کی حفاظت ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا ” وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کی شرمگاہ پر نظر ڈالتا ہے “۔ قول باری ہے قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔ اہل ایمان سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں) نیز فرمایا وقل للمومنت یغضضن من البصار ھن۔ مومن خواتین سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں) یعنی دوسروں کے جسم کے اس حصے پر نظر ڈالنے سے جس کا ڈھانکنا فرض ہے۔ اس لئے کہ جسم کے جس حصے کو ڈھانکنا فرض ہے اس کے سوا جسم کے دوسروں حصوں پر نظر ڈالنے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) روئی، اون اور بالوں وغیرہ کے کپڑے تمہارے لیے پیدا کیے اور تمہیں دیے تاکہ تم اس سے اپنے پردہ دار جسم کو چھپاؤ اور مال اور گھریلو سامان بھی دیا، باقی توحید وعفت کا لباس روئی کے لباس سے بہت زیادہ بہتر ہے اور یہ کپڑے اللہ کے عجائبات میں سے ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا ط) ۔ عربوں کے ہاں زمانۂ جاہلیت کے غلط رسم و رواج اور نظریات میں سے ایک راہبانہ نظریہ یا تصور یہ بھی تھا کہ لباس انسانی جسم کے لیے خواہ مخواہ کا تکلف ہے اور یہ شرم کا احساس جو انسان نے اپنے اوپر اوڑھ رکھا ہے یہ بھی انسان کا خود اپنا پیدا کردہ ہے۔ اس نظریے کے تحت ان کے مرد اور عورتیں مادر زاد ننگے ہو کر کعبۃ اللہ کا طواف کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ نفہ ذات (self annihiliation) کا بہت بڑا مظاہرہ تھا اور یوں اللہ تعالیٰ کے قرب کا ایک خاص ذریعہ بھی۔ اس طرح کے خیالات و نظریات بعض معاشروں میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بعض ملنگ قسم کے لوگ لباس پر عریانی کو ترجیح دیتے ہیں ‘ جبکہ عوام الناس عام طور پر ایسے لوگوں کو اللہ کے مقرب بندے سمجھتے ہیں۔ اس آیت میں در اصل ایسے جاہلانہ نظریات کی نفی کی جا رہی ہے کہ تمہارے لیے لباس کا تصور اللہ کا ودیعت کردہ ہے۔ یہ نہ صرف تمہاری ستر پوشی کرتا ہے بلکہ تمہارے لیے زیب وزینت کا باعث بھی ہے۔ (وَلِبَاس التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ط) ۔ سب سے بہتر لباس تقویٰ کا لباس ہے ‘ اگر یہ نہ ہو تو بسا اوقات انسان لباس پہن کر بھی ننگا ہوتا ہے ‘ جیسا کہ انتہائی تنگ لباس ‘ جس میں جسم کے نشیب و فراز ظاہر ہو رہے ہوں یا عورتوں کا اس قدر باریک لباس جس میں جسم جھلک رہا ہو۔ ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ‘ یعنی جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ عورتیں جنت میں داخل ہونا تو درکنار ‘ جنت کی ہوا بھی نہ پاسکیں گی ‘ جبکہ جنت کی ہوا پانچ سو سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوجاتی ہے (١) ۔ چناچہ لِبَاس التَّقْوٰی سے مراد ایک طرف تو یہ ہے کہ انسان جو لباس زیب تن کرے وہ حقیقی معنوں میں تقویٰ کا مظہر ہو اور دوسری طرف یہ بھی کہ انسانی شخصیت کی اصل زینت وہ لباس ہے جس کا تانا بانا شرم و حیا اور خدا خوفی سے بنتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. By referring to an important aspect of Adam and Eve's story, the attention of the people of Arabia of those days was drawn to the evil influence of Satan upon their lives. Under Satan's influence they had begun to see dress merely as a shield of protection against the inclemencies of the weather and as a means of adornment. The basic purpose of dress to cover the private parts of the body - had receded into the background. People had no inhibition about the immodest exposure of the private parts of their body in public. To publicly take a bath absolutely naked, to attend to the call of nature on thoroughfares, were the order of the day. To crown it all, in the course of Pilgrimage they used to circumambulate around the Ka'bah in stark nakedness. Women even surpassed men in immodesty. In their view, the performance of religious rites in complete nudity was an act of religious merit. Immodesty, however, was not an exclusive characteristic of the people of Arabia. Many nations indulged in it in the past, and many nations continue to indulge in it even now. Hence the message embodied in these verses is not directed just to the people of Arabia. It is rather directed to all men. Mankind, which is the progeny of Adam, is warned against this particular aspect of Satanic influence on their lives. When men show indifference to God's Guidance and turn away from the Message of the Prophets, they virtually place themselves at the mercy of Satan. For it is Satan who makes them abandon way's that are consistent with true human nature and who leads them to immodesty in the same way he did with Adam and Eve. Were man to reflect on this, it would become quite evident that when he is deprived of the guidance of the Prophets, he cannot even appreciate, let alone fulfil, the primary requirements of his true nature.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :15 اب قصہ آدم و حوا کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ منعطف کر کے اہل عرب کے سامنے خود ان کی اپنی زندگی کے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایاں ترین اثر کی نشان دہی فرمائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے ، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض ، یعنی جسم کےقابل شرم حصّوں کی پردہ پوشی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی ۔ اُنہیں اپنے ستر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا ۔ برہنہ منظرِ عام پر نہا لینا ، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا ، ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہو جانے کی پروا نہ کرنا ان کے شب و روز کے معمولات تھے ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملہ میں ان کی عورتیں ان کے مردوں سےبھی کچھ زیادہ بے حیا تھیں ۔ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی ، دنیا کی اکثر قومیں اسی بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے ، اور سارے نبی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو ، یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمہاری زندگی میں موجود ہے ۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بےنیاز ہو کر اور اس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کےحوالے کر دیا اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹاکر اسی بے حیائی میں مبتلا کر دیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا ۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: آیات ۲۶ تا ۳۲ اہل عرب کی ایک عجیب وغریب رسم کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مکہ مکرَّمہ کے قریب رہنے والے کچھ قبیلے مثلا قریش، ’’حمس‘‘ کہلاتے تھے۔ عرب کے دوسرے تمام قبیلے حرم کی پاسبانی کی وجہ سے ان لوگوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ عربوں کے عقیدے کے مطابق کپڑے پہن کر طواف کرنا صرف انہی کا حق تھا۔ دوسرے لوگ کہتے تھے کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں، ان کے ساتھ ہم بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتے۔ چنانچہ یہ لوگ جب طواف کے لئے آتے تو ’’حمس‘‘ کے کسی آدمی سے کپڑے مانگتے، اگر اس کے کپڑے مل جاتے تو انہیں پہن کر طواف کرلیتے، لیکن اگر کسی کو ’’حمس‘‘ میں سے کسی کے کپڑے نہ ملتے تو وہ بالکل عریاں ہو کر طواف کرتے تھے۔ یہ آیتیں اس بے ہودہ رسم کی تردید کے لئے نازل ہوئی ہیں، اور ان میں اِنسان کے لئے لباس کی اہمیت بھی بیان فرمائی گئی ہے، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لباس کا اصل مقصد جسم کا پردہ ہے، اور ساتھ ہی لباس اِنسان کے لئے زینت اور خوشنمائی کا بھی ذریعہ ہے۔ ایک اچھے لباس کی صفت یہ ہونی چاہئے کہ وہ یہ دونوں مقصد پورے کرے۔ اور جس لباس سے پردے کا مقصد حاصل نہ ہو وہ اِنسانی فطرت کے خلاف ہے۔ 12: لباس کا ذکر آیا تو یہ حقیقت بھی واضح فرمادی گئی کہ جس طرح لباس اِنسان کے ظاہری جسم کی پردہ داری کرتا ہے، اسی طرح تقویٰ اِنسان کو گناہوں سے پاک رکھتا ہے، اور اس کے ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس لحاظ سے تقویٰ کا لباس بہترین لباس ہے۔ لہٰذا ظاہری لباس پہننے کے ساتھ ساتھ اِنسان کو یہ فکر بھی رکھنی چاہئے کہ وہ تقویٰ کے لباس سے آراستہ ہو۔ 13: یعنی لباس کا پیدا کرنا اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانیوں میں سے ایک ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب شیطان تمہارے دشمن نے تم سے لباس بہشتی چھنوادیا تو پھر ہم نے تمہارے لئے دنیا میں لباس اتارا کہ مینہ کے ذریعہ سے زمین میں روئی پیدا کی جس سے طرح طرح کے کپڑے بنانے کی تدبیر تم کو سکھلا دی سو تم اب پرہیزگاری کا لباس پہنو مرد ریشمی اور ٹخنوں سے نیچا کپڑا اور عورت بہت باریک کپڑا کہ جس میں بدن دکھائی دے نہ پہنے یہ تمہارے حق میں بہتر ہے خدا کی اس نعمت کا شکر کرو معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی و ابن ماجہ میں حضرت عمر (رض) سے آیا ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے نئے کپڑے پہن کہ اللہ کا شکر کیا اور پر نے کپڑے صدقہ دے دے تو وہ شخص زندہ مردہ اللہ کی ہمسائیگی اور حمایت میں رہے گا بعضے مفسروں کے نزدیک تقوٰے کے لباس سے وہ لباس مراد ہے جو قیامت کے دن پرہیز گار لوگ پہنیں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ تقوے کے لباس کا مطلب نیک عمل ہیں مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو عورت ایسا کپڑا پہنے گی جس سے اس کا بدن اچھی طرح نہیں ڈھکے گا تو وہ عورت دوزخی ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ اترانے کے طور پر ٹخنوں سے نیچے پاؤنچے پہنتے ہیں وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے دور رہیں گے معتبر سند سے ابوداؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں بعداللہ بن عمر (رض) کی روایت ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پاجامہ کے علاوہ اور کپڑوں کو بھی عادت سے زیادہ نیچا رکھنے کو منع فرمایا ہے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عمر (رض) اور انس (رض) بن مالک کی روایتیں ہیں جن میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو ریشمی کپڑا پہننے کی ممانعت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ ریشمی کپڑے کی چار انگل گوٹ وغیرہ مردوں کو جائز ہے اس سے زیادہ جائز نہیں ہے جن مفسروں نے لباس التقوٰے کی تفسیر جائز لباس کو قرار دیا ہے ان کے قول کے موافق یہ حدیثیں لباس التقویٰ کی گویا تفسیر ہیں ریش کے معنے زیب وزنیت کے ہیں مطلب یہ ہے کہ لباس سے آدمی کا بدن بھی ڈھکنا ہے اور بدن کی زیب وزینت بھی ہوجاتی ہے یہ ان مشرکوں کو تنبیہ ہے جو ننگے ہو کر طواف کرتے تھے آخر کو فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یہ انسان کی ضرورت کی چیزیں اس لئے پیدا کی ہیں کہ یہ مشرک لوگ ان چیزوں پر دھیان کر کے اللہ کو پہچانیں اور شرک سے باز آویں :۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حوا کا لباس ایسا تھا جس طرح اب ہاتھ پیروں کے انگلیوں کے ناخق ہیں گیہوں کھانے سے تمام بدن کا لباس اتر کر فقط انگلیوں پر اس لباس کی نشانی باقی رہ گئی جس کو ناخن کہتے ہیں مسند امام احمد ابو واود ‘ ابن ماجہ ‘ صحیح ابن حبان مستدرک حاکم اور بیہقی میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص جنگل میں پاخانہ کو بیٹھے تو اس کو چاہئے کہ کچھ آڑ کر لیوے پھر فرمایا یہ آڑ اس واسطے ہے کہ شیطان جب انسان کو ننگا دیکھتا ہے تو انسان کی شرمگاہ کو ایک کھیل ٹھہرا لیتا ہے مطلب یہ ہے کہ ننگے آدمی کو شیطان زیادہ بہکاتا ہے کیونکہ شیطان ذکر الٰہی سے بھاگتا ہے اور پاخانہ کے وقت ننگا آدمی ذکر الٰہی نہیں کرسکتا اس آڑ سے شیطان کا وہ غلبہ اللہ کے حکم سے جاتا رہتا ہے یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے آدم ( علیہ السلام) وحوا کو گیہوں کھلا کر کیوں ننگا کردیا اور بنی آدم جب ننگے ہوں تو ان کے پاس کیوں آتا ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی حصین حرانی کو اگرچہ بعضے علماء نے نامعلوم الحال کہا ہے لیکن ابن حبان نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے علاوہ اس کے ایک راوی ابو سعید حرانی ہیں جو علماء کا اختلاف ہے اس اختلاف سے حدیث میں کچھ ضعف نہیں آتا کیونکہ اس حدیث کو حضرت عائشہ (رض) کی اس صحیح روایت سے تقویت ہوجاتی ہے جس کو ابوداود وغیرہ نے پاخانہ کے وقت آڑ کرنے کے باب میں روایت کیا ہے ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث میں اور حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں فرق فقط اتنا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں پاخانہ کے وقت فقط آڑ کرنے کا حکم ہے اور ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں آڑ کا حکم اور اس کا فائدہ دونوں باتیں ہیں اس صورت میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث حضرت عائشہ (رض) کی حدیث گویا تفسیر ہے علاوہ اس کے جب ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں روایت کیا ہے تو ابن حبان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:26) انزلنا۔ کا لغوی معنی ہے اوپر سے نیچے آنا۔ جیسے انزلنا الماء ہم نے پانی (بارش کی صورت میں ) نازل کیا۔ انسانی ضرورت زندگی کو بہم پہنچانے کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر ارضی چیزیں تدبیرات سماویہ سے ظہور میں آتی ہیں۔ مثلاً یہی لباس کہ کپاس سے تیار ہوتا ہے جو اپنی نشونما کے لئے پانی کی محتاج ہے جو اوپر سے برستا ہے۔ اسی طرح آیا ہے وانزل لہم من الانعام (39:6) اور اس نے تمہارے لئے چوپائے (مویشی) بھیجے یا نازل کئے۔ پیدا کئے۔ ریشا۔ باعث زینت۔ ریش۔ رونق۔ لباس زینت۔ ریش اصل میں پرندوں کے پروں کو کہتے ہیں ۔ اور اس کا واحد ریشہ ہے۔ اور چونکہ پرندوں کی پروں سے رونق ہے اور وہ ان کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے انسان کے لئے کپڑے۔ اس لئے اس کا استعمال بطور استعارہ رونق ۔ زیب و زینت اور کپڑوں کے لئے ہوتا ہے۔ ریشا صفت بھی ہوسکتا ہے لباسا کی جو اس سے قبل محذوف ہے۔ ولباس التقوی ذلک خیر۔ اور پرہیزگاری کا لباس وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ نیا جملہ ہے لباس التقوی مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا ۔ اور ذلک خیر۔ خبر۔ گویا تقدیر کلام یوں ہے۔ و لباس التقوی ھو خیر۔ بعض نے لباس التقوی کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے اور اس کو لباسا پر عطف لیا ہے۔ لیکن جمہور اول الذکر کی طرف گئے ہیں۔ لباس التقوی سے مختلف علمانے مختلف معانی لئے ہیں ۔ مثلاً لباس الحرب (ڈھال ۔ رزہ وغیرہ) خشیۃ اللہ۔ الایمان۔ السمت الحسن۔ عمل صالح۔ الحیاء وغیرہ۔ ذلک من ایات اللہ میں ذلک کا اشارہ انزال اللباس کی طرف ہے۔ اور آیات سے مراد اللہ کی نعمتیں۔ اس کا فضل و کرم بھی ہوسکتا ہے۔ اور نشانیاں بھی۔ لعلکم یذکرون۔ تاکہ وہ (انسان) نصیحت پکڑیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 آسمان سے پانی اتارا جس سے روئی اگتی ہے اور تم اس سے کپڑ بنتے ہو ( قر طبی) یہاں انزل بمعنی خلق ہے یعنی پیدا کیا۔ ( مفر دات حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے پھر ہم نے تم کو دنیا میں لباس کی تدبیر سکھا دی۔ ( مو ضح)4 یعنی اس ظاہر لباس کے علاوہ جس سے تم صرف بد ن ڈھانکتے ہو یا زینت کا کام لیتے ہو ایک اور معنی لباس بھی ہے جو ہر لبا س بہتر ہے لہذا تمہیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور وہ ہے پرہیز گاری یعنی خوف خدا، ایمان اور عمل صالح، کا لباس بعض نے کہا ہے کہ لباس صوفی لوگ پہنتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سے سلف صالح جن کی پرہیز گاری ضرب المثل تھی عمدہ قسم کے لباس پہنا کرتے تھے بعض نے زرہ وغیرہ فوجی لباس مراد لیا ہے جو دشمن سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے ( قر طبی، روح) ہاں یہ ضرور ہے کہ جس لباس کی ممانعت آئی ہے وہ نہ پنا جائے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں اب وہی لباس پہنو جس میں پرہیز گا ری ہو یعنی م دیہ ریشمی لباس نہ پہنے اور دامن دراز نہ رکھے اور جو منع ہوا ہے سو نہ کرے اور عورت بہت پاریک نہ پہنے کہ لوگوں کو بد ن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھا وے۔ ( از مو ضح)5 اور اللہ تعالیٰ کی اس بہت بڑٰی نعمت کی قدر کریں یا نصیحت حاصل کریں اور قبائح سے اجتناب کریں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 26 تا 31: اسرار و معارف : گناہ اور خطا کی نسبت اپنی طرف کرکے اللہ سے توبہ کی جائے : اے اولاد آدم (علیہ السلام) ہم تمہیں لباس عطا فرمایا ہے جو تمہارے لیے ستر عورت کا کام بھی کرتا ہے اور زینت کا باعث بھی ہے یعنی ایسی اشیا پیدا فرمائیں جن سے لباس تیار ہوسکتا ہے اور تمہیں یہ شعور عطا فرمایا کہ طرح طرح کے لباس بناتے ہو جس سے تمہارے جسم کے پردے کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور تمہیں سجتا بھی ہے باعث زینت بھی ہے۔ اگر انسانیت فنا نہ ہوچکی ہو اور انسان محض ایک حیوان کی سطح پر نہ گر جائے تو جسم کے پوشیدہ حصوں کو کھولنا گوارا نہیں کرتا جانوروں اور پرندوں میں تو اعضا ہی ایسے طریقے سے پیدا فرمائے کہ ان کا قدرتی لباس ہی انہیں ڈھانک لیتا ہے مگر انسان کو علیحدہ سے لباس عطا فرمادیا کہ اپنی مرضی اور پسند سے طرح طرح کے لباس تیار کرتا ہے جن کا بنیادی مقصد تو جسم کی ستر پوشی ہے مگر ساتھ میں موسموں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں انسان ہر موسم اور ہر موقع کی مناسبت سے لباس بناتا ہے اور ایسے بنتا ہے جن سے اس کے وقار اور سنجیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لباس کا مقصد اور ضرورت : حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرما کر تنبیہ فرما دی کہ کہیں کہیں ابلیس تمہیں بھی بےلباس نہ کردے تہذیب جدید کے برہنہ کلب اور بےلباس شہر در اصل اس بات کی علامت ہیں کہ یہ لوگ شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں اگر کسی انسان کو ستر پوشی کا خیال بھی نہ رہے تو دنیا کے کسی بھی برے کام پر ندامت محسوس نہیں کرے گا اسی لیے ایمان کے بعد پہلا فرض ستر پوشی ہے عبادات اس کے بعد ہیں اور جو لوگ ہوش و حواس رکھتے ہوئے بےلباس رہنا شروع کردیتے ہیں ابلیس کے پیروکار بن جاتے ہیں جہلا انہیں ولی کامل تصور کرتے ہیں اور یا پھر پاگل اور حواس سے بیگانہ حرکت کرسکتا ہے ورنہ انسانی مزاج میں پوشیدہ حصوں کو ڈھانپ کر رکھنا شامل ہے نیز لبا س تفاخر اور اظہار تکبر کے لیے بھی نہیں حدیث شریف میں اس فعل کی بہت شدت سے مذمت کی گئی ہے بلکہ نئے لباس پر دعا تعلیم فرما کر پرانا لباس غربا کو صدقہ کرنے کا بہت ثواب ہے۔ اور اصل لباس تو کردار ہے جس سے اللہ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہو صرف رنگ برنگے اور قیمتی کپڑوں سے جسم کو ڈھانپنا ہی لباس نہیں بلکہ ذات باری کے ساتھ اطاعت اور عبادت کا تعلق جو خلوص دل سے ہو ایسا لباس ہے جو دو عالم کی رسوائی سے بچاتا ہے اور ابدی عظمت و کامرانی نصیب ہوتی ہے چونکہ برہنگی کو عبادت کا حصہ بنا لیا گیا تھا اور اسی حال میں طواف تک کرتے تھے لہذا ارشاد ہوا ایسا نہ ہو کہ ابلیس نے جس طرح تمہارے والدین حضرت آدم (علیہ السلام) کو دھوکا دے کر انہیں جنت میں بےلباس کردیا اور فوراً زمین پر اترنے کا سبب بنا تمہیں بھی بےلباس کردے اور تم اخلاقی پستیوں میں غرق ہوجاؤ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابلیس اور اس کی اولاد تو تمہیں دیکھتے ہیں مگر تمہاری مادی آنکھیں انہیں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں تم بہت خطرے میں ہو مگر اللہ کریم نے اس کا بھی اہتمام کردیا ہے کہ اس کی دوستی ان لوگوں سے مھدود کردی ہے جو ایمان قبول نہیں کرتے دوستی سے مراد ایمان نصیب ہو تو ابلیس کی چالوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے نیز ہر گناہ دل پر ابلیس کے لیے جگہ بناتا ہے مگر نیکی اور اطاعت دل کو روشن کردیتی ہے جس پر شیطانی وسواس اثر نہیں کرتے۔ کفر کی مصیبت : اور اگر دل پہ ابلیس قابض ہوجائے تو پھر بدکار بھی کہتے ہیں کہ ہم نے جب سے آنکھ کھولی دنیا میں یہی ہوتا تھا اور ہوتا آیا ہے اللہ نے ہی سب کچھ بنایا ہے لہذا اس عمل میں قباحت کیسی یعنی بجائے گناہ پر ندامت کے اس کا جواز ثابت کرتے ہیں اور یہی نئی تہذیب کا کرشمہ ہے جو سامنے نظر آ رہا ہے آپ فرما دیجئے کہ اللہ کریم نے کبھی بےحیائی کا حکم نہیں دیا یہ جہالت کی بات ہے کہ تم برائی کرکے اسے اللہ کا حکم بتانے پہ بھی مصر ہو۔ کفر کی سب سے بڑی مصیبت یہی ہے کہ خوف خدا نہیں رہتا پھر محض لوگوں کے روبرو سچا ہونے کے لیے جواز تلاش کیے جاتے ہیں اللہ کے احکام پورے پورے انصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ یعنی احکام شرعی میں نہ تو اس قدر تنگی ہوتی ہے کہ مفید اشیاء سے بھی روک دیا جائے اور نہ بےجا آزادی کہ جو جی میں آئے کرو لہذا زندگی میں اعتدال کمال کی دلیل ہے غیر ضروری طور پر کم کھانا یا بات نہ کرنا یا جان بوجھ کر پھٹے ہوئے میلے لباس میں رہنا ریا کا سبب تو ہوسکتا ہے نیکی کا نہیں اور اپنی حیچیت سے بڑھ کر نظر آنا بیہودہ اور لغو باتیں کرنا یا جانوروں کی طرح بےانداز کھانا بھی سخت نا مناسب ہے لہذا ہر کام میں اعتدال شرط ہے اور دین اسلام سب کاموں میں اعتدال ہی پر حکم پر دیتا ہے۔ زندگی میں اعتدال ہی دلیل کمال ہے : مثال کے طور پر دو چیزیں جو بنیادی ہیں ارشاد فرمائیں کہ ہر نماز میں اپنا رخ سیدھا کرلو یعنی اعمال ظاہری میں بھی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو عند کل مسجد سے نماز کے علاوہ ہر کام جو اطاعت میں کیا جائے مراد ہوسکتا ہے لہذا اعمال میں راستی شرط ہے اور دوسرا حکم قلب اور اس کی کیفیات باطنی متعلق ہے کہ دل اور باطن بھی درست رکھو صرف اور خالصۃً اللہ ہی کو پکارو نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ اور نہ کسی دوسرے سے شاباش لینے کے لیے عبادات اختیار کرو کہ یہ بھی ریا ہے ایک پہلو کو چھوڑ دیں تو دوسرا بھی بےاثر ہوجاتا ہے اگر کوئی کہے کہ ظاہر اعمال کی ضرورت نہیں میرا باطن درست ہے تو جھوٹ کہتا ہے اگر باطن واقعی روشن ہو تو ظاہر نافرمانی اختیار نہیں کرسکتا یا کوئی بظاہر بڑا متقی نظر آئے مگر دل میں حصول دنیا ہو اور سارے وظیفے اور لمبے لمبے سجدے اسی کی خاطر ہوں تو سخت نقصان دہ ہوں گے لہذا طریقت یہ ہے کہ ظاہراً عمل شریعت کے مطابق ہو اور باطناً خلوص نیب ہوجائے یاد رکھو جس طرح تمہیں عدم سے وجود عطا کردیا ویسے ہی قیامت کو موت کی گھاٹیوں سے واپس زندہ کردے گا یہ نہ سوچہ کہ مر کر وجود فنا ہوگیا تو پھر کیسے زندہ ہوسکے گا۔ شریعت کے دونوں پہلو لازم و ملزوم ہیں : دنیا میں فریق اور جماعتیں تو ہمیشہ دو ہی ہوتی ہیں اور رہیں گی ایک جماعت اہل حق اور اطاعت شعاروں کی دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کی بد اعمالی کے نتیجہ میں ان پر گمراہی مسلط کردی گئی انہوں نے ظلم بھی تو بہت کیا ہے کہ اللہ کریم کو چھوڑ کر شیطان کی پناہ میں چلے گئے اور اس کی غلامی اختیار کرلی۔ اور برائی میں اس قدر مستغرق ہوئے کہ اب اسی کو راہ راست خیال کرنے لگے یعنی حق تو یہ تھا کہ انبیاء اور رسل کی اطاعت کرتے اللہ کی کتاب پر ایمان لاتے مگر انہوں نے خود ساختہ رسومات کو دین سمجھ لیا۔ نماز کے لیے لباس : چونکہ نزول قرآن کے وقت بھی برہنگی اور بےحیائی بہت زیادہ تھی پھر عرب میں تو ننگا ہو کر طواف کرنا عبادت سمجھا جاتا تھا اسلام نے آج سے چودہ صدیاں قبل اس برائی کو للکار اور مٹا کر دکھا دیا اور نماز کے لیے اچھا لباس پہنو ستر پوشی تو ویسے ہی فرض ہے اس کے بغیر تو نماز نہ ہوگی بلکہ بالغ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر بھی نہ ہوگی یہاں زینت اختیار کرنے کا حکم ہے جیسے آپ دفتر جانے کے لیے یا کسی سے ملاقات کے لیے لباس کا اہتمام کرتے ہیں تو اللہ کریم اس بات کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے لباس اچھا اور ناسب ہو لہذا ایسے لباس میں جس میں آپ دوستوں میں جانا پسند نہیں کرتے نماز بھی مکروہ ہوگی اگرچہ محض ستر عورت سے ادا ہوجائے گی مگر عام سی دھوتی اور ساتھ بنیان پہن لینا یا جیب سے رومال لے کر سر پہ رکھ لینا وغیرہ سب حالتوں میں نماز مکروہ ہے لباس کے مناسب ہونے کا حکم ہے اور کھاؤ پیو کہ صحت مند رہنا اور ضرورت کے لیے کھانا پینا فرض ہے اگر کوئی جان بوجھ کر فاقہ کشی شروع کردے اور خود کو اس قدر کمزور کرلے کہ احکام شرعی کی تعمیل اور فرائض منصبی کی ادائیگی دشوار ہوجائے تو سخت گناہگار ہوگا۔ علماء نے اسی آیت سے دلیل اختیار کی ہے کہ ہرچیز حلال ہے جب تک کسی چیز کی حرمت شریعت سے ثابت نہ ہو یعنی اصل اشیاء میں حلت ہے۔ بقدر حاجت کھانا پینا فرض ہے۔ مگر کھانے پینے میں بھی اعتدال کو ہاتھ سے نہ دو اسراف نہ کرو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھاؤ یا اس قدر بڑھتے نہ جاؤ کہ حلال سے گزر کر حرام کھانے لگو حلال کو حرام سمجھ لینا یا حرام کو حلال کی طرح کھانا سب ہی تو اللہ کی نافرمانی میں داخل ہے۔ لہذا غذا میں اعتدال صح تبخشتا ہے صحت مند جسم میں صحت مند ذہن ہوتا ہے جو امور دنیا کو بھی بہتر سمجھ سکتا ہے اور اطاعت الہی بن کر قلبی کیفیات عطا کفرتا ہے توفیق عمل ارزاں ہوتی ہے علماء کرام نے اس موضوع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے ارشادات نقل فرمائے ہیں روح المعانی۔ ابن کثیر اور مظہری میں خصوصاً دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسراف کسی بھی کام میں اختیار کرنا جائز نہیں نمائشی دعوتیں اور حیثیت سے بڑھ کر لباس یا ادھار لے کر دھوم دھام سے شادیاں کرنا حتی کہ وضو میں ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرنا بھی اسراف ہے خواہ لب دریا ہی کیوں نہ وضو کر رہا ہو اسراف کا ظاہری نقصان تو واضح ہے اصلی نقصان یہ ہے کہ اللہ کریم ایسے لوگوں کو پسند نہیں فرماتے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (26 تا 27 ) ۔ انزلنا (ہم نے اتارا ) ۔ ریش (پرندوں کے پر) ۔ زیب وزینت کا سامان) ۔ لا یفتنن (ہرگز نہ بہکانے پائے) ۔ ینزع (وہ کھینچتا ہے۔ اترواتا ہے) ۔ یری کم (وہ تمہیں دیکھتا ہے ) ۔ لا ترون (تم نہیں دیکھتے ہو ) ۔ تشریح : آیت نمبر (26 تا 27 ) ۔ ” گذشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا جنت میں بھی لباس کی ضرورت رکھتے تھے، جب ان سے لغزش ہوگئی تو جنت کا یہ لباس ان کے جسموں سے اتر گیا اور وہ جنت کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانپنے لگے۔۔۔۔ اس سے یہ بات بالکل واضح طور سے سامنے آتی ہے کہ جہاں اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو ایک دوسرے سے چھپانا انسانی فطرت میں شامل ہے وہیں مرد وعورت کے جسم پر لباس کا ہونا بھی ایک لازمی بات ہے۔ اور آدم (علیہ السلام) و حوا میاں بیوی ہونے کے باوجود ننگے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ شرم و حیا کا اتنا غلبہ تھا کہ وہ جنت کے پتوں سے اپنا جسم چھپانے لگے، یہ اس کائنات کے سب سے پہلے مرد اور عورت کا حال ہے۔ یہاں ڈارون اور اس کے اندھے مقلدوں کا فلسفہ غلط اور جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے کہ ہزاروں سال تک ابتدائی انسان روئے زمین پر بندروں اور گوریلوں کی صورت میں مادرز اوننگا پھرتا رہا۔۔۔۔ شرم و حیا اور لباس بہت بعد کی چیز ہے سنا ہے کسی مغربی عقل مند نے اب یہ نعرہ بلند کردیا ہے کہ انسان کو پھر اپنی ننگی فطرت کی طرف لوٹ جانا چاہئے (بلکہ عملی طور پر مغربی تہذیب تو لوٹ چکی ہے) جب حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا اس کرئہ ارض پر آئے تو یقینا لباس، احساس ضرورت۔ احساس حیا اور احساس زینت کے ساتھ آئے۔ یعنی وہ نہ صرف جنت سے اپنے اپنے لباس لے کر آئے بلکہ اللہ نے انہیں الہام کیا کہ لباس بنانے کا سامان اور طریقہ کیا ہے۔ اور وہ یہاں لباس بنا کر پہننے لگے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا یہی مطلب ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ” ہم نے تمہارے اوپر لباس کو نازل کیا “ اور یہ بھی فرمادیا کہ لباس کا مقصد ستر ڈھانپنا، حفاظت اور زینت ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ سب سے بہتر لباس ” تقویٰ کا لباس ہے۔ تقویٰ کا لباس کیا ہے ؟ وہ لباس جس میں تن ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کا ہر پہلونمایاں ہو۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دادا دادی حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا کی پوشاک ان تقاضوں کو پورا کرتی تھی۔۔۔۔ اور کیون نہ ہو حضرت آدم (علیہ السلام) پہلے انسان بھی تھے اور پہلے نبی بھی جو خلافت و نبوت کا تاج سر پر رکھ کر دنیا میں تشریف لائے۔ یہ تصور بلکل غلط اور بےبنیاد ہے کہ پہلے مرد وزن وحشی بےشعور بندر تھے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ وہ مکمل انسان تھے، ملبوس، مہذب، شرم و حیا کے پیکر، صاحب تقویٰ اور ذمہ داریوں کا بارگراں لیکر آئے تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس باقاعدہ شریعت تھی۔ یہاں لباس سے مراد محض تن کی پوشاک نہیں ہے بلکہ شرم و حیا کے ساتھ اوڑھنا استعمال کرنا بھی ہے۔ یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا غذا۔ لباس کے تین بڑے مقاصد بیان کئے گئے ہیں (1) ستر پوشی (2) موسم سے حفاظت (3) ظاہری زیب وزینت۔۔۔۔ دین اسلام ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن پر بھی زور دیتا ہے اور وہ ہے ذہنی واخلاقی نفسیاتی جذبہ۔۔۔۔ یعنی تقویٰ پرہیز گاری ، خوف الہٰی۔ معلوم ہوا کہ لباس جسم کے ساتھ ساتھ لباس روح بھی ضروری ہے کیونکہ اندر کی روح شیطان کے قبضے میں ہو تو قیمتی سے قیمتی اور جدید سے جدید لباس بھی بیکار ہے۔ لباس تقویٰ :۔ جو لباس شریعت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو۔ جس میں ظاہری نفاست، صفائی اور ستھرائی ہو اور نفاست باطنی بھی موجود ہو۔ جو شخصیت باہر ہو۔ وہی شخصیت بلکہ اس سے زیادہ بہتر شخصیت اس کے اندر ہو۔ اس میں بےشرمی نہ ہو، فضول خرچی نہ ہو، فخر و غرورنہ ہو، کسی کو نیچا دکھانے کا جذبہ نہ ہو۔ نہ تو مرد عورتوں کا لباس پہننے والے ہوں اور نہ عورتیں مردوں کا جیسا لباس پہننے والی ہوں۔ یونی فارم یعنی سرکاری لباس۔۔۔۔ لباس جو کسی بھی جماعت کو دوسری جماعت اور افراد سے، کسی فوج کو دوسری فوج سے ممتازو متعین کر دے۔ آج تمام مہذب اور غیر مہذب سوسائٹی مین یہ لازم ہے۔ چینی ایک خاص لباس پہنتے ہیں، افریقیوں کا اپنا لباس ہے یورپین اور امریکی اپنے طرز کا لباس زیب تن کرتے ہیں لیکن اسلام کی سرکاری وردی جغرافیہ، آب و ہوا، رسم و رواج اور پیشہ کے تحت نہیں ہے بلکہ اندرونی ذہنیت اور جذبہ یعنی تقویٰ کے تحت ہے ایک مسلم کا لباس ایسا ہونا چاہئے کہ وہ دور سے پہچانا جائے اور غیر مسلموں سے ممتاز ہو۔ اس لئے غیر مسلموں کی اندھی تقلید سے منع کیا گیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جو آدمی کسی دوسری قوم کا انداز و مشابہت اختیار کرے گا اس کا انجام اس کے ساتھ ہوگا ۔ ایک جگہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” جو اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے اس کو چھوڑ دو یعنی کسی معاملے میں بھی کسی قوم کی اندھی تقلید اور نقالی جائز نہیں ہے۔ اچھی باتیں اختیار کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن اس میں بھی اسلامی روح ہونی چاہیے۔ آپ نے فرمایا ” جو شخص نیا لباس پہننے کے بعد پرانے لباس کو غریبوں اور مسکینوں پر صدقہ کردے تو وہ اپنی حیات و موت کے ہر حال مین اللہ کی پناہ میں ا ا گیا (ابن کثیر عن مسنداحمد) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (بحوالہ حضرت فاروق اعظم (رض) مسلم کو چاہئے کہ نیا لباس پہننے کے بعد یہ دعا پڑھے : اس ذات پاک کا شکر ہے جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعہ میں اپنے ستر کو چھپا کر زینت حاصل کرسکا ہوں۔ ننگا پن اور برہنگی دور جہالت میں عربوں کی خاص چیز تھی اس سلسلہ میں مردوں سے آگے ان کی عورتیں تھیں اس ننگے پن کو وہ اپنے بتوں کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھتے تھے خاص طور پر حج کے موقع پر اس کا عام مظاہرہ اسی طرح کیا جاتا تھا جس طرح آج بھی یورپ کو سوسائٹی میں کرسمس اور دیگر موقع پر شراب ، کباب اور شباب کا طوفانی مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ شیطان کا حملہ سب سے پہلے لباس تقویٰ پر ہوتا ہے ” شکار “ کی شرم و حیا گھٹنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ لباس پہنتا بھی ہے تو اس کا ” جوہر پردہ “ گم ہو کر وہ جاتا ہے۔ جس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” قیامت کے قریب عوتیں ایسا لباس پہنیں گی کہ لباس پہن کر بھی وہ اپنے لباس میں ننگی ہی رہیں گی۔ یعنی ان کے جسموں پر کہنے کو لباس ہوگا۔ لیکن ایسا چست اور بھڑک دار کہ جس میں جسم کا ہر عضو انسانوں کو دعوت گناہ دیتا نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسی لئے حضرت آدم و حوا کی مثال دے کر فرمادیا ہے کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے وہ ہمیشہ بےحیائی اور ننگے پن کے راستے سے ایمان اور اعمال صالحہ پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ ان آیات میں اللہ نے لباس کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے یعنی ہر انسان کا لباس اس کی بنیادی ذہنیت کا اظہار اور چلتا پھر تا اشتہار ہے کہ وہ کہاں تک تقویٰ رکھتا ہے اور کہاں اس کے قدم حدود سے باہر نکل رہے ہیں۔ ان آیات میں اس سے بیح ہوشیار کردیا گیا ہے کہ شیطان اور اس کی ذریات تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن تم ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہو۔ شیاطین مادی جسم نہیں رکھتے ہیں بلکہ غیر مرئی ہیں ہوا کی طرح ایک خاص جسم رکھتے ہیں جو انسان کے پانچوں حواس کی گرفت سے باہر ہیں۔ اسکے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ لاشعور اور نیم شعور کے محاذ پر عموما حملہ کرتے ہیں، وسوسہ ، شک ، فوری فائدہ کا لالچ، اندھیرا، مزا، موقع، نشہ، اور بہکنے کا مادہ وغیرہ شیطان کے خاص حربے ہیں۔ ” بلس اور شطن “ لگ بھگ ایک ہی معنی کے لفظ ہیں۔ ابلیس اور شیطان دونوں لفظ ملے جلے استعمال ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم میں ابلیس عام طور پر اس کے لئے مخصوص ہے کہ وہ فرد جس نے حوا اور آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا ” تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے “ اور شیطان کا لفظ اس کے عمل اور طریقہ عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں ” شیاطین “ فرماکرواضح کردیا ہے کہ یہ لشکر ہر وقت حملہ کرنے کے لئے اپنے دائوگھات میں چھپا ہوا اپنا کام کر رہا ہے اور اس کے شکاروہی لوگ ہیں جو ایمان اور عمل صالح سے محروم ہیں ایمان اور گمراہی کا ایک ساتھ جمع ہونا محال ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کیونکہ اس ظاہری لباس کا مطلوب شرعی ہونا اسی تقوی کے وجوب کی فرع ہے پس اصلی مقصود جو ہر حالت میں ضروری ہے وہ یہ لباس ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ شجرِممنوعہ کو چکھنے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) اور ان کی رفیقہ حیات کا لباس اتر گیا جس کی وجہ سے شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپ رہے تھے۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ لباس کی افادیت کا بیان کردیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ سے خطا سرزد ہونے کی وجہ سے ان کا لباس اتر گیا جس کی بناء پر اولاد آدم کو لباس پہننے اور گناہوں سے بچنے کا حکم دے کر فرمایا ہے کہ لباس پہننے اور گناہوں سے پرہیزگاری اختیار کرنے میں تمہاری خیر ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس سے نصیحت حاصل کرو۔ خیر سے مراد ظاہری کثافت، یا موسم کی حدّت وبرودت سے بچاؤ اور بےحیائی سے بچنا ہے۔ لباس کی فرضیت کے لیے انزلنا اور اسے آیت اللہ قرار دیا ہے۔ جس لباس سے انسان کی حیا، عفّت اور عزت و وقار پامال ہو وہ نہیں پہننا چاہیے لباس کو ظاہری زینت اور شرافت نفس کا ضامن قرار دے کر اس کی اہمیت وفرضیت کو انزلنا کے ساتھ بیان فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا۔ لفظ انزلنا میں لباس کی فرضیت کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اون، روئی اور چمڑا پیدا کرنے کے ساتھ تمہیں لباس سینے اور پہننے کا سلیقہ سمجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے صرف مسلمان یا کسی خاص قبیلے اور قوم کو ہی مخاطب نہیں فرمایا بلکہ لباس کی مقصدیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لباس آدمی کی زینت اور ستر پوشی کا مظہر ہے۔ (یَا بَنِیْٓ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِی سَوْءَ اتِکُمْ وَرِیشًا وَلِبَاس التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ) [ الأعراف : ٢٦] ” اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے جسموں کو ڈھانپنے کے ساتھ تمہارے وجود کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ ہے۔ بہترین لباس پرہیزگاری کا لباس ہے۔ “ ریش : ریش پرندے کے پروں کو بھی کہا جاتا ہے جو اس کا لباس ہونے کے ساتھ ساتھ حسن و زیبائی کا باعث اور پھر اس کی اڑان اور پروان کا ذریعہ بھی ہیں۔ انسان کیونکہ پوری مخلوق میں ظاہری اور معنوی اعتبار سے خوبصورت ترین پیدا کیا گیا ہے۔ “ (لَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ) [ التین : ٤) ” بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ “ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس زیب تن کرے جو وضع قطع اور رنگ و ڈیزائن کے اعتبار سے اس کی قدوقامت نکھارو سنوار میں اضافہ کرے۔ لباس کا دوسرا مقصد تقویٰ قرار پایا۔ یہاں تقویٰ کے دونوں معنی لینے چاہییں۔ ظاہری کثافت و نجاست اور موسموں کی حدت و برودت، ہوا اور فضا کے برے اثرات سے اپنے آپ کو بچانا اسی کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ موسم کے مطابق لباس زیب تن فرماتے۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ گرمیوں میں آپ کھلا کرتا پہنتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو بسا اوقات سامنے بیٹھا ہوا آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آستینوں سے بغلوں کے قریب بازوؤں کی سفیدی دیکھ لیتا تھا۔ (وَاِنَّہُ یَرفَعُ حَتّٰی یُریٰ بَیَاضُ اِبْطَیْہٖ ) [ مشکوٰۃ : کتاب الاستسقاء ] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قدر ہاتھ بلند کیے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ “ اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردیوں میں نسبتاً چست لباس استعمال فرماتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ وضو کرنے لگے تو کہنیوں کو دھونے کے لیے آستینیں چڑھانا چاہیں، جب اوپر نہ ہو پائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچکن اتارنا پڑی۔ (اَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَبِسَ جُبَّۃً رُومِیَۃً ضَیِّقَہَ الْکُمَّیْنِ )[ رواہ البخاری و مسلم : کتاب اللباس ] ” بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔ “ لباس کا دوسرا مقصد شرم و حیا کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔ قرآن کریم اس کو تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر لباس موسم کے مطابق نہیں تو صحت کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر شریعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو حیا کے رخصت ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی بنا پر خاص کر عورت کو شرم و حیا کی تلقین فرماتے ہوئے پردے کا حکم دیا ہے۔ ” جناب عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی عورت بےپردہ باہر نکلتی ہے تو شیطان صفت لوگ اس کو اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔ “ [ رواہ الترمذی :] اور یہ بھی فرمایا کہ عورتیں زیادہ باریک لباس نہ پہنیں۔ جس سے ان کا جسم نظر آئے۔ لباس پہننے کے باوجود برہنہ دکھائی دینے والی عورتوں پر پھٹکار کے الفاظ استعمال کیے۔ ” حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں (میری بہن) اسماء بنت ابی بکر (رض) رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف سے چہرہ پھیرلیا اور فرمایا کہ اے اسماء ! جب عورت جوان ہوجائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔ “ [ مشکوۃ، کتاب اللباس ] دوسری روایات میں یہ وضاحت موجود ہے کہ چہرے کا ڈھانپنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر چہرہ ننگا ہو تو پردے کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ غرور اور تکبر سے بچیے : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَااَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فِیْ النَّارِ ) [ مشکوۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ٹخنوں سے نیچے تہبند رکھے گا اس کے ٹخنوں کو آگ میں جلایا جائے گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ملبوسات کے رنگ وڈیزائن : (عَن سَمُرَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِلْبَسُوا الثِّےَابَ الْبِےْضَ فَاِنَّھَا اَطْہَرُ وَاَطْےَبُ وَکَفِّنُوْا فِےْھَا مَوتَاکُمْ ) ” حضرت سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ زیا دہ صاف ستھرے اور نفیس ہوتے ہیں۔ اور اپنے فوت ہونے والوں کو سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔ “ [ مشکوٰۃ : کتاب اللباس ] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفید لباس پسند کرنے کے باوجود رنگ دار لباس بھی زیب تن کرتے تھے۔ خصوصاً وفود سے ملاقات کرتے ہوئے گیرورنگ کا لباس پہنتے۔ بالکل کالا، سبز اور سرخ رنگ کا لباس کبھی بھی استعمال نہیں کیا۔ مخصوص لباس اور ہمیشہ ایک ہی رنگ اختیار کیے رکھنا نیکی کی نمائش اور جاہل صوفیا کا طریقہ ہے۔ احادیث کی مقدس دستاویز ات میں کالے یا سرخ رنگ کے لباس کے جو اشارات ملتے ہیں اس سے مراد سرخی یا سیاہی مائل کپڑے ہیں۔ حافظ ابن قیم (رض) نے لکھا ہے کہ بالکل سیاہ، سبز اور سرخ لباس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں پہنا۔ حدیث میں ایسے رنگوں سے مراد ان رنگوں کا غالب ہونا ہے۔ البتہ دستار مبارک اور سردیوں میں اوپر لینے والی چادر خالص کالے رنگ کی استعمال فرمائی۔ (عَنْ عَمْرِ وبْنِ حُرَےْثٍ (رض) قَالَ رَأَےْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الْمِنْبَرِ وَعَلَیْہِ عَمَامَۃٌ سَوْدَآءَ ) ” حضرت عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر تشریف فرما دیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیاہ پگڑی سجائے ہوئے تھے۔ “ [ مشکوٰۃ : کتاب اللباس ] وضع قطع کے اعتبار سے چند معمولی تبدیلیوں کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہی لباس استعمال فرمایا جو اس زمانے میں لوگ پہنا کرتے تھے۔ اس دور میں لوگ اکثر قمیص کے ساتھ تہبند اور سر پر دستار سجایا کرتے تھے۔ یہی بڑے اور معزز لوگوں کا لباس ہوا کرتا تھا۔ البتہ معاشرے میں پاجامہ اور شلوار بھی لوگوں کے زیراستعمال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن قیم (رض) نے اس بات کی طرف اشارے دیے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شلوار بھی پہنا کرتے تھے۔ جبکہ صحابہ کرام (رض) سے شلوار یا پاجامہ اور سروں پر ٹوپیاں پہننے کے تو کافی ثبوت موجود ہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَکَلَ طَعَامًا ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَطْعَمَنِی ہٰذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِیہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ وَمَنْ لَبِسَ ثَوْبًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی کَسَانِی ہٰذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِیہٖ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ )[ رواہ ابو داؤد : کتاب اللباس ] ” حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کھانا کھائے تو کہے تمام تعریفات اس اللہ کے لیے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے بغیر مشقت کے عنایت فرمایا تو اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ جو کوئی کپڑا پہنے تو کہے تمام تعریفات اس اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنا یا اور مجھے بغیر کسی مشقت کے عنایت فرمایا تو اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لباس اس لیے نازل فرمایا تاکہ لوگ اس کے ساتھ جسم اور اپنی شرافت کی حفاظت کریں۔ ٢۔ لباس پہننے میں ہی بہتری ہے بشرطیکہ انسان اس کی حقیقت سمجھ جائیں۔ ٣۔ لباس پہننے کا مقصدزینت اور تقویٰ کا حصول ہے تفسیر بالقرآن نصیحت حاصل کرو : ١۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا۔ (آ : ٢٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے (نرومادہ) بنادیے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الذاریات : ٤٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ : ٢٢١) ٧۔ صاحب عقل و دانش ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٢٦۔ یہ اللہ کی جانب سے انسانوں کے نام ایک درد انگیز پکار ہے اور یہ پکار تخلیق انسانیت کی کہانی کے منظر کے بعد آئی ہے ۔ خصوصا اس کے اس حصے کے بعد جس میں شیطان کی سازش سے حضرت آدم اور حوا کے جسموں سے جنت کا لباس اتار دیا گیا اور جس میں دونوں اس طرح دکھائی دیتے تھے کہ وہ اپنے جسموں کے اوپر جنت کے پتوں کو چسپاں کر رہے تھے ۔ یہ دن انہیں اللہ کی حکم عدولی کرنے کی وجہ سے دیکھنے پڑے تھے کیونکہ انہیں ایک خاص درخت کا پھل کھانے کی صریح ممانعت کی گئی تھی ۔ یہ ایک لغزش تھی اور اس کی نوعیت ایسی نہ تھی جس کی تفصیلات اہل کتاب کی منحرف کتابوں تورات وانجیل کے اندر موجود ہیں اور جن کا پر تو آج مغرب کے تمام علوم وفنون پر صاف صاف نظر آتا ہے ۔ دور جدید میں فرائڈ کے افکار اس پر مستزاد ہیں ۔ ان اساطیر اور فضول قصوں میں یہ کہا گیا ہے کہ شجر ممنوعہ شجر علم تھا اور شجر حیات تھا اور اگر آدم وحوا اس کا پھل کھالیتے تو اللہ کو یہ ڈر تھا کہ وہ بھی خدا کی طرح الہ بن جاتے ۔ نہ یہ ممانعت جنسی ملاپ کی ممانعت تھی جس طرح فرائڈ اور مغربی علوم وفنون اور مغربی ارٹ اس بات کا انعکاس کرتے ہیں اور انہوں نے ان کہانیوں کی اساس پر جنسی بےراہ روای کا فلسفہ فرائڈ کے خیالات کی شکل میں اپنا رکھا ہے ۔ غرض حضرت آدم (علیہ السلام) کی لغزش کے نتیجے میں ان کے لباس کے اتر جانے کے منظر اور پھر دور جاہلیت میں عریانی کی حالت میں طواف کرنے کی صورت حال کے پیش نظریہ پکار آتی ہے کہ اے انسان اللہ نے تم پر کس قدر رحمت اور شفقت کی ہے کہ تمہاری زینت اور شرمگاہوں کو چھپانے کے لئے لباس کا انتظام کیا اور اسے تمہارے ستر کے لئے ایک لازمی قانون کی شکل دی ۔ اگر لباس نہ ہوتا تو تم برہنگی کی حالت میں نہایت ہی مکروہ نظر آتے ۔ (انزلنا) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس بطور قانون لازم ہے ۔ لباس کا اطلاق کبھی تو ستر پر ہوتا ہے یعنی داخل ستر اور ریاش کا اطلاق اس لباس پر ہوتا ہے جو زیب وزینت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی ظاہری لباس ۔ لفظ ریاش کے معنی میں عیش و عشرت اور مال و دولت ہے ان سب معانی کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور یہ لازم وملزوم ہیں ۔ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً “۔ (٧ : ٢٦) ” اے اولاد آدم ‘ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو “۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ تقوی کے لباس کا ذکر فرماتے ہیں اور ساتھ یہ اضافہ بھی کردیتے ہیں کہ لباس تقوی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ عبدالرحمن ابن اسلم نے یہ کہا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اپنی شرمگاہ کو چھپائے تو یہ لباس تقوی ہے ۔ “ لباس ستر اور لباس تقوی شریعت میں لازم وملزوم ہیں ۔ لباس ستر جسم کو چھپانے اور زینت کے لئے ہے اور لباس تقوی دل کے قابل شرم حالات کو چھپاتا ہے اور قلب کی زیب وزینت بنتا ہے ۔ دونوں لازم وملزوم ہیں اس لئے کہ خدا کے خوف اور خدا سے حیاء کرنے کے شعور کے نتیجے ہی میں انسان جسم کے قابل شرم حصوں کو کھلا رکھنا قبیح سمجھتا ہے اور جو شخص اللہ سے حیا نہیں کرتا اور اس نہیں ڈرتا ‘ اس کے لئے جسمانی عریانی کوئی قابل ملامت بات نہیں ہوتی ۔ چناچہ اسلام کی نظر میں تقوی اور حیا سے عاری ہونا اور لباس کو اتار دینا ایک ہی جیسا قبیح فعل ہے ۔ جسم کا چھپانا فطری حیاء ہے اور اس کا تعلق محض کسی خاندان اور سوسائٹی کے رواج کے ساتھ نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض اور لوگ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جو اسلامی معاشرے سے حیاء کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہو امسلمانوں کی انسانیت کو ختم کردیں اور یہ عین اس منصوبے کے مطابق ہے جو صہیونی لیڈروں نے انسانیت کی تباہی کے لئے بنایا تھا ۔ بلکہ یہ ایک فطری داعیہ ہے جس اللہ نے انسان کے اندر ودیعت کر رکھا ہے ۔ پھر یہ ایک شرعی اور قانون تقاضا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ دنیا میں اس قانون کو نافذ کریں کیونکہ یہ زمین اللہ نے انسانوں کے اختیار میں دی ہے اور اسے انکے لئے جائے رزق بنا دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ اس لباس اور ستر پوشی کا قانون دے کر تم پر عظیم رحمت کی گئی ہے ۔ اس طرح اللہ نے ان کی ۔۔۔۔ متاع انسانیت کو اس انجام سے بچایا کہ وہ حیوانات کی سطح تک نیچے چلی جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں وہ تمام مسائل یاد دلا کر ان سے توقع کرتے ہیں کہ آیت ” لعلھم یذکرون “۔ (٧ : ٢٦) ” شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں “۔ اس مقام پر آ کر ایک مسلمان اچھی طرح معلوم کرسکتا ہے کہ زیب وزینت ‘ فیشن ‘ ترقی پسندی اور محبت کے نام پر انسانوں کے اخلاق کو بگاڑنے اور انہیں جسمانی طور پر ننگا کرنے کے لئے جو عظیم کوشش ہو رہی ہے وہ اس یہودی سازش کے عین مطابق ہے جو انہوں نے انسانیت کی تباہی کے لئے تیار کر رکھی ہے ۔ یہ سازش یہودیوں نے اس لئے تیار کی ہے کہ مسلمانوں کی قوت جلدی سے تباہ ہوجائے اور انہیں جلدی سے غلام بنایا جاسکے ، نیز دین اسلام کے ساتھ لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں جو محبت ابھی تک باقی ہے یہ منصوبہ اس کی مکمل بیخ کنی کے لئے بھی بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لئین یہ یہودیوں اور ان کے ایجنٹوں کی قلمیں ‘ فلمیں ‘ تمام تعلیمی ادارے اور میڈیا مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں حالانکہ انسان کے لئے زینت عریانی میں نہیں ستر میں پوشیدہ ہے ۔ یہ حیوانات کی زینت ہے کہ وہ ننگے رہیں ‘ لیکن آج کا انسان جاہلیت اور پسماندگی کی طرف لوٹ رہا ہے اور انسان کے بجائے حیوان بنا رہا ہے ۔ کیا انسان اس نعمت کو یاد نہیں کر رہا ہے جو اللہ نے اسے انسان بنانے کے حوالے سے کی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لباس اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس سے پردہ پوشی بھی ہے اور زینت بھی گزشتہ رکوع میں شیطان کی انسان دشمنی کا ذکر ہوا اس نے بہت جم کر یہ اعلان کیا تھا کہ میں اولاد آدم کو بہکاؤں گا اور ورغلاؤں گا اور ان میں سے بہت تھوڑے ہی بندے خدائے پاک کے شکر گزار ہوں گے اور اس کا بھی ذکر ہے کہ اس نے حضرت آدم و حواء ( علیہ السلام) کو جنت سے نکلوا دیا۔ اب حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے خطاب ہو رہا ہے۔ جس میں انعامات خدا وند یہ کا بھی ذکر ہے اور اولاد آدم کو تنبیہ بھی ہے کہ شیطان کی طرف سے چوکنے رہیں۔ اول تو اولاد آدم کو اللہ جل شانہٗ نے اپنی ایک بہت بڑی نعمت یاد دلائی اور وہ نعمت لباس ہے، اس کو لفظ اَنْزَلْنَا سے تعبیر فرمایا، لباس کا مادہ روئی وغیرہ محض اللہ کا عطیہ ہے جیسے بحکم خداوندی آسمان سے بارش اترتی ہے ایسے یہ لباس کا مادہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے پیدا ہوتا ہے اگر وہ پیدا نہ فرمائے تو بندے کچھ نہیں کرسکتے۔ پھر لباس کے دو فائدے بتائے اول یہ کہ وہ شرم کی جگہوں کو ڈھانکتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ بتایا کہ لباس سے انسان کو زینت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ذریعے انسان حسین اور جمیل بن جاتا ہے۔ سورۂ نحل میں لباس کا فائدہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ (وَ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّوَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ ) کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے تمہاری حفاظت کرتے ہیں اور ایسے کرتے بنائے جو تمہاری لڑائی میں تمہاری حفاظت کرتے ہیں۔ علماء نے فرمایا ہے کہ (تَقِیْکُمُ الْحَرَّ ) جو فرمایا یہ برسبیل کفایت ہے یعنی گرمی کا ذکر فرما دیا چونکہ سردی اس کی مقابل ہے اس لیے ایک کے ذکر کرنے سے دوسرے کا تذکرہ بھی ہوگیا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ سردی سے بچنے کا ذکرسورۂ نحل کے شروع میں فرمایا ہے۔ وَ ھُوَ قَولُہٗ تَعَالٰی (وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَکُمْ فِیْھَا دِفْ ءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْھَا تَأْکُلُوْنَ ) اسی لیے دوسری جگہ ذکر نہیں فرمایا۔ بہر حال لباس اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اس سے ستر بھی چھپتا ہے سردی گرمی سے بھی حفاظت ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ انسان حسین و جمیل بھی نظر آتا ہے۔ یہ لباس پہلے تو روئی اور اون تک ہی منحصر تھا لیکن اب تو بہت سی چیزوں سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سب اشیاء و اجناس اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتیں ہیں جن سے لباس بھی بنایا جاتا ہے اور دوسرے کاموں میں بھی آتی ہیں۔ جسم چھپانے والے لباس کی نعمت کا ذکر فرمانے کے بعد ایک عظیم لباس کی طرف توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا۔ (وَ لِبَاس التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ) اور تقویٰ کا لباس یہ بہتر چیز ہے۔ تقویٰ گناہوں سے بچنے کا نام ہے جو شخص گناہوں سے بچے اور اعمال صالحہ فرائض و واجبات کی بجا آوری کرے منکرات سے بچے۔ وہ شخص تقویٰ والا ہے انسان میں جتنے عیوب ہیں ان سے تقویٰ بچاتا ہے۔ فواحش و منکرات سے دور رکھتا ہے۔ بےحیائی سے باز رکھتا ہے۔ جس میں تقویٰ ہوگا وہ ستر ڈھانکنے کی بھی کوشش کرے گا اور جس میں تقویٰ نہیں وہ زینت کے لیے لباس پہنے گا لیکن ستر عورت کا اس میں کوئی جذبہ نہ ہوگا اسی لیے دیکھا جاتا ہے کہ جن قوموں میں ایمان نہیں ان میں تقویٰ بھی نہیں تقویٰ نہیں تو ستر پوشی کا بھی اہتمام نہیں۔ حیاء انسان کا فطری تقاضا ہے : چونکہ تقویٰ ہی ستر پوشی کرواتا ہے۔ اس لیے تقویٰ کے لباس کی اہمیت بیان فرما دی پہلے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ستر ڈھانکنا انسانیت کا فطری تقاضا ہے اس لیے تو حضرت آدم اور حوا ( علیہ السلام) نے جب شجرہ ممنوعہ کھالیا اور ان کے جسم سے کپڑے گرگئے تو فوراً جنت کے پتے جوڑ کر ستر ڈھانکنے لگے حالانکہ دونوں آپس میں میاں بیوی تھے۔ شیطان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ انسانوں کو فواحش و منکرات میں مبتلا کرے اور ننگا پہناوا پہننے کی ترغیب دے اس نے ننگوں کے کلب کھلوا ہی دیے اور ایسے لباس رواج پا گئے جس میں عریانی ہے اور جن اعضاء کو چھپانا چاہیے تھا ان کا ابھار ہے اگر کسی کی کسی ہوئی پتلون نہ ہو تو اس بات سے شرماتا ہے کہ اپنی سوسائٹی میں جاؤں گا تو لوگ یہ سوچیں گے کہ دیکھو یہ کیسا دقیانوسی ہے اس کا دھڑ بھی ظاہر نہیں ہو رہا ہے۔ عورتوں کا عریاں لباس، چست لباس اور باریک لباس اسی بےحیائی کا نتیجہ ہے جسے شیطان اور ان کے اہل کار رواج دینے پر کمر باندھے ہوئے ہیں۔ باریک لباس جس سے جسم نظر آئے اس کا پہننا نہ پہننا برابر ہے۔ جو مرد، عورت ایسا لباس پہنے وہ شرعاً ننگوں میں شمار ہے اور خاص کر عورتوں کے لیے اس بارے میں وعید شدید وارد ہوئی ہے۔ ان عورتوں کے لیے وعید جو کپڑا پہنے ہوئے بھی ننگی ہوں : حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دوزخیوں کی دو جماعتیں ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا (کیونکہ وہ میرے بعد ظاہر ہونگے) اول تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے ان سے لوگوں کو ماریں گے۔ اور دوسری جماعت ایسی عورتوں کی جو کپڑے پہنے ہوئے بھی ننگی ہونگی، مردوں کو مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہونگی۔ ان کے سر خوب بڑے بڑے اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے جو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھیں گی۔ (رواہ مسلم ص ٢٠٥) اس حدیث میں ایسی عورتوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی جو کپڑے پہنے ہوئے ہونگی پھر بھی ننگی ہوں گی یعنی ایسے باریک کپڑے پہنے ہوئے ہونگی جس سے کپڑے پہننے کا فائدہ نہ ہو۔ اور ایسا چست کپڑا جو بدن کی ساخت پر کس جائے یہ بھی ایک طرح سے ننگا پن ہے۔ عریاں لباس کی مذمت : نیز بدن پر کپڑا ہوتے ہوئے ننگے ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ بدن پر صرف تھوڑا سا کپڑا ہو اور بدن کا بیشتر حصہ خصوصاً وہ اعضاء کھلے رہیں جن کو باحیاء عورتیں چھپاتی ہیں۔ بہت سی عورتیں یورپ اور امریکہ کی بےدین لیڈیوں کی تقلید میں ایسے لباس میں باہر آجاتی ہیں جو عریانی والا لباس ہوتا ہے۔ گھٹنوں تک فراک جس میں آستین بھی نہیں پنڈلیاں ننگی سر پر دوپٹہ نہیں اور فراک کا ایسا کاٹ کہ نصف کمر اور نصف سینہ کھلا ہوا ہوتا ہے یہ سب عریانی ہے۔ قرآن مجید میں تو لباس کی صفت بتاتے ہوئے یوں فرمایا (لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَّرِیْشًا) یعنی ایسا لباس جو شرم کی جگہوں کو ڈھانک دے اور زینت ہو۔ اب تو ننگا ہونے کو زینت سمجھا جاتا ہے۔ اور ننگے پہناوے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ قرآن پر ایمان لانے والے مرد اور عورتیں غور کریں کہ قرآن کیا بتاتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں۔ اسلام میں ستر کے ڈھانکنے کی اس قدر تاکید فرمائی ہے کہ تنہائی میں بھی ننگا رہنے کی اجازت نہیں سنن ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ننگے ہونے سے بچو کیونکہ تمہارے ساتھ ایسے افراد ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی فرشتے) لہٰذا تم ان سے شرم کرو، ان کا اکرام کرو۔ البتہ بیت الخلاء میں جانے کے وقت اور جب انسان اپنی بیوی کے پاس جائے اس وقت (بقدر ضرورت) برہنہ ہونے کی اجازت ہے) سنن ترمذی میں یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تو اپنی شرم کی جگہ کی حفاظت کر۔ الایہ کہ اپنی بیوی یا مملوکہ (یعنی حلال باندی) سے استمتاع کے لیے استعمال کرے۔ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر کوئی شخص تنہائی میں ہو تو شرم کی جگہ کھولنے میں کیا حرج ہے اس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔ مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے کتنا پردہ ہے اور عورت کا اپنے محرموں سے کتنا پردہ ہے۔ اور مرد کا اپنی محرم عورتوں سے کتنا پردہ ہے۔ یہ سب تفصیلات کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ اور عورت کا نا محرموں سے جو پردہ ہے وہ تو سب کو معلوم ہی ہے۔ پھر فرمایا (ذٰلِکَ مِنْ اٰیاَتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ) کہ یہ لباس کا پیدا فرمانا اللہ کی نشانیوں میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم اور کرم عمیم کا پتہ چلتا ہے لوگ اگر اس میں غور کریں تو اللہ کی نعمتوں کو پہچان سکتے ہیں اور نصیحت حاصل کرسکتے ہیں اس کے بعد بنی آدم کو متنبہ فرمایا کہ شیطان کے بہکانے میں نہ آجانا۔ ارشاد ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23: تمہید کے بعد یہاں سے اصل مقصد یعنی دوسرا دعویٰ شروع ہوتا ہے جسے رکوع 3، 4 میں چار دفعہ “ يٰبَنِیْ آدَمَ ” کے عام خطاب سے بیان کیا گیا ہے۔ “ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا ” یعنی ہم نے لباس اس لیے بنایا ہے تاکہ تم اپنے قابل ستر اعضاء کو ڈھانپ سکو اور لباس سے زینت و آرائش کا کام بھی لو۔ “ رِيْشًا ” ای زینۃ۔ 24:“ لِبَاسُ التَّقْويٰ ” سے ایمان، عمل صالح اور دلی حیاء مراد ہے مطلب یہ کہ ظاہری لباس کے ساتھ یہ تقوی کا لباس بھی پہننا چاہئے جو پہلے سے کہیں زیادہ ضرور اور اہم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 اے اولادِ آدم (علیہ السلام) ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہارے جسم کے قابل شرم مقامات کو ڈھانکتا اور چھپاتا ہے اور وہ لباس تمہارے لئے موجبِ زینت و آرائش بھی ہے یعنی اس لباس سے جو ہم نے پیدا کیا ہے اور اس کے اسباب کو آسمان سے اتارا ہے دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں ستر بھی اور تزین بھی اسباب کا اتارنا یہ کہ اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو روئی پیدا نہ ہو اور لوگوں کو لباس میسر نہ آئے اور دینداری اور پرہیزگاری کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے یعنی تقویٰ اصل مقصود ہے اور سب چیزوں کا مدار تقویٰ ہی پر ہے۔ یہ لباس کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کے فضل کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر غور کریں اور اس کے اس احسان کو یاد رکھیں یعنی اس احسان کا حق ادا کیا کریں۔