4. The central theme of the whole surah, and of the present discourse, is the guidance which man needs in order to live a wholesome life, the knowledge which he requires in order to understand the reality of the universe and his own being and the purpose of his existence; the principles which he needs to serve as the basis for morality and social life as well as culture and civilization. In this regard man should look to God alone and follow exclusively, the Guidance which He has communicated to mankind through His Messenger. To look to anyone other than God is dangerous for it has always spelled disaster in the past, and will always spell disaster in the future. In this verse the word awliya' (masters) refers to those whom one follows, regardless of whether one idolizes or curses them, and whether one acknowledges their patronship or strongly, denies it. For further explanation see Tafhim al-Qur'an, al-Shurai 42, n.6.
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :4
یہ اس سورة کا مرکزی مضمون ہے ۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے ، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے ، اور اپنے اخلاق ، تہذیب ، معاشرہ اور تمدّن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے ، اُن سب کے لیےاُسے صرف اللہ رب العالمٰین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے ۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا ۔
یہاں”اولیاء“ ( سر پرستوں ) کا لفظ اس معنی میں استعمال ہُوا ہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو ، خواہ اس کی سر پرستی کا معترف ہو یا بہ شدّت اس سے انکار کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشوریٰ ، حاشیہ ٦ )