Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 3

سورة الأعراف

اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾

Follow, [O mankind], what has been revealed to you from your Lord and do not follow other than Him any allies. Little do you remember.

تم لوگ اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ... Follow what has been sent down unto you from your Lord, meaning, follow and imitate the unlettered Prophet, who brought you a Book that was revealed for you, from the Lord and master of everything. ... وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء ... and follow not any Awliya', besides Him (Allah), meaning, do not disregard what the Messenger brought you and follow something else, for in this case, you will be deviating from Allah's judgment to the decision of someone else. Allah's statement, ... قَلِيلً مَّا تَذَكَّرُونَ Little do you remember! is similar to, وَمَأ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِينَ And most of mankind will not believe even if you desire it eagerly. (12:103) and; وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِى الاٌّرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ And if you obey most of those on the earth, they will mislead you far away from Allah's path. (6:116) and, وَمَا يُوْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ And most of them believe not in Allah except that they attribute partners unto Him. (12:106)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، یعنی قرآن، اور جو رسول اللہ نے فرمایا یعنی حدیث، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ ' میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں۔ ' ان دونوں کی پیروی ضروری ہے ان کے علاوہ کسے کا اتباع (پیروی) ضروری ٰ نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیسے کہ اگلے فقرے میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو۔ جس طرح زمانہء جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی تھی حتیٰ کہ حلال اور حرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] اسلام میں باہر سے کوئی نظریہ :۔ یہاں اولیاء سے مراد پیشوا اور قائدین ہیں یعنی انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں مذکور ہیں آپ صرف انہیں کا اتباع کیجئے۔ آج بھی غیرمسلم قائدین سے مسلمانوں کو کسی طرح کے قواعد و احکام اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ مسائل شرعیہ علمائے یہود سے پوچھیں، زہد اور رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفہ کے محتاج ہوں اپنا معاشی نظام لینن اور کارل مارکس سے حاصل کریں یا روس اور چین سے درآمد کریں۔ سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت کو اسلام کے اندر لا گھسائیں بلکہ انسانی زندگی کی ہر طرح کی ضرورت کے لیے انہیں یہ کتاب اور رسول کی سنت کافی ہے مگر آج کے مسلمان یہ بات ذرا کم ہی سوچتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ : رسالت ( پیغام پہنچانے) کا معاملہ تین افراد کے درمیان ہوتا ہے : ” مُرْسِلٌ“ پیغام بھیجنے والا، یعنی اللہ تعالیٰ ، ” مُرْسَلْ “ جسے پیغام دے کر بھیجا جائے، یعنی رسول اور ” مُرْسَلٌ اِلَیْہِ “ ” جس کی طرف پیغام بھیجا جائے، یعنی امت۔ پچھلی آیت میں رسول کو انذار (ڈرانے) اور تذکیر (نصیحت کرنے) کا حکم ہے، اس آیت میں امت کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکام کی پیروی کا اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے کی پیروی نہ کرنے کا حکم ہے، کیونکہ اللہ کے نازل کردہ کے سوا کسی بھی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے مقابلے میں غیر اللہ (من دون اللہ) کو اولیاء بنانا ہے۔ حکم صرف اللہ کا حق ہے، جسے پہنچانا رسول کی ذمہ داری ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف قرآن اور حدیث دونوں وحی کے ذریعے سے نازل ہوئے، اس لیے رسول کا ہر حکم اللہ کا حکم ہے، سو اسی کی پیروی کرو، قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی کی بات مت مانو، خواہ وہ کتنا ہی بڑا امام، بزرگ، محقق یا دانش ور ہو، ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ (اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ) [ المائدۃ : ٣ ] کے مطابق دین کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اگر کوئی بات قرآن و حدیث میں صریح الفاظ میں نہ ملے تو کسی آیت یا حدیث میں اس کی طرف اشارہ ضرور ہوگا، اس کے لیے کسی بھی بڑے عالم سے پوچھ سکتے ہیں۔ کسی ایک ہی کی ہر بات کی تقلید، خواہ وہ صحیح ہو یا غلط، تو یہ ” مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ“ کی طرف لے جائے گی، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝ ٠ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٣ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

پیروی قرآن قول باری ہے اتبعواماانزل الیکم من ربکم۔ لوگوں جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو) اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندوں کے تمام تصرفات کا دائرہ اللہ کے حکم کی مراد تک محدود ہو یعنی اس کے حکم کی جو مراد ہو اس کے بندے اس کے مطابق عمل کریں۔ یہ اہتمام یعنی اقتداء کی نظیر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی مراد کی اتباع اور اس پر عمل میں اس کی اس طرح اقتداء کی جائے کہ وہ اس کے دائرہ تدبیر سے خارج نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیا مباح پر عمل کرنے والا اللہ کے حکم کا متبع ہوتا ہے ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا شخص اس وقت اللہ کے حکم کا متبع ہوتا ہے جب وہ اللہ کے حکم کی اتباع کا بایں معنی ارادہ کرے کہ وہ اس فعل کی اباحت کا اعتقاد بھی رکھتا ہو اگرچہ اس فعل کو بروئے کار لانا اس سے مطلوب نہیں ہوتا لیکن جو شخص واجب کو ادا کرتا ہے تو وہ وجوہ کی بنا پر وہ اتباع اور پیروی کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اول یہ کہ وہ اس کے وجوب کا اعتقاد رکھتا ہے۔ دوم یہ کہ وہ اس فعل کو اس طرح بروئے کار لاتا ہے جس طرح اسے حکم دیا جاتا ہے۔ جب اعتقاد کرنے کے لحاظ سے فعل مباح فعل واجب کے مماثل ہوگیا کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے اندر ایک چیز کی اباحت یا ایجاب کے لحاظ سے جو ترتیب اور نظام ہو اس کا اعتقاد کرنا ضروری ہوتا ہے تو قول باری اتبعواما انزل الیکم) کا مباح اور واجب دونوں پر مشتمل ہونا درست ہوگیا۔ درج بالا قول باری ہر احلت میں قرآن کی اتباع کے وجوب کی دلیل ہے۔ خبر واحد بمقابلہ قرآن نیز یہ کہ خبر آحاد کے ذریعے قرآن کے احکام کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ قرآن کی اتباع کا حکم نص تنزیل کے ذریعے ثابت ہوگیا جبکہ خبر واحد کو قبول کرلینے کا حکم نص تنزیل کے ذریعے ثابت نہیں ہوا اس لئے پہلے حکم کا ترک درست نہیں ہوگا اس لئے کہ قرآن کی اتباع کا لزوم ایسے طریقے سے ثابت ہوگیا جو علم کا موجب ہے جبکہ خبر واحد عمل کا موجب ہے اس لئے قرآن کے حکم کو چھوڑنا درست نہیں ہوگا اور خبر واحد کے ذریعے قرآن کے حکم کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اخبار آحاد کی صورت میں خلاف قرآن کوئی بات نقل کرے گا اس کا قول قبول نہیں ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ماجاء کم منی ناعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق کتاب اللہ فھوعنی وما خالف کتاب اللہ فلیس عنی۔ میری طرف سے روایت کے ذریعے جو بات تم تک پہنچے اسے کتاب اللہ پر پیش کرو یعنی کتاب اللہ کی روشنی میں اسے جانچو، اس کے بعد جو بات کتاب اللہ کے مطابق ہو اسے تو میری طرف سے سمجھ لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہوا سے میری بات نہ سمجھو) ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ باتیں ہیں جو اخبار آحاد کی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوئی ہیں۔ خبر متواتر ناسخ قرآن ہوسکتی ہے لیکن اگر کوئی بات خبر متواتر کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہو تو اس کی بنا پر قرآن کے حکم کی تخصیص بلکہ نسخ بھی درست ہے ارشاد باری ہے مااتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا۔ رسول جو حکم تمہیں دیں اسے قبول کرلو اور جس بات سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو) اس لئے جس حکم کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہو کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے تو ایجاب حکم کے لحاظ سے اس کی حیثیت قرآن کے حکم کی طرح ہوتی ہے اس لئے اس کے ذریعے قرآن کے حکم کی تخصیص بلکہ اس کا نسخ بھی جائز ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٤۔ ٥۔ ٦۔ ٧) اور بہت سے بستیوں والوں کو ہم نے عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا ہے، ہمارا عذاب رات کو یا دن کو یا دوپہر کے وقت جب کہ وہ آرام میں تھے پہنچا تو جس وقت ان کی ہلاکت کے لیے ہمارا عذاب نازل ہوا تو ماسوا پنے مشرک ہونے کے اقرار کے اور کچھ ان کی زبان سے نہیں جاری ہوا تو ان قوموں سے پیغمبروں کی اطاعت اور پیغمبروں سے تبلیغ رسالت کے بارے میں ہم ضرور پوچھیں گے، ہم ان کے سامنے پیغمبروں کی تبلیغ اور ان کی قوموں کی اطاعت کو بیان کردیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ) پچھلی آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صیغہ واحد میں خطاب تھا (فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ ) جب کہ یہاں اِتَّبِعُوْا جمع کا صیغہ ہے۔ یعنی یہاں خطاب کا رخ عام لوگوں کی طرف ہے اور انہیں وحئ الٰہی کی پیروی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ (وَلاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَط قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ ) ۔ یعنی اپنے رب کو چھوڑ کر کچھ دوسرے اولیاء (دوست ‘ سرپرست) بنا کر ان کی پیروی مت کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4. The central theme of the whole surah, and of the present discourse, is the guidance which man needs in order to live a wholesome life, the knowledge which he requires in order to understand the reality of the universe and his own being and the purpose of his existence; the principles which he needs to serve as the basis for morality and social life as well as culture and civilization. In this regard man should look to God alone and follow exclusively, the Guidance which He has communicated to mankind through His Messenger. To look to anyone other than God is dangerous for it has always spelled disaster in the past, and will always spell disaster in the future. In this verse the word awliya' (masters) refers to those whom one follows, regardless of whether one idolizes or curses them, and whether one acknowledges their patronship or strongly, denies it. For further explanation see Tafhim al-Qur'an, al-Shurai 42, n.6.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :4 یہ اس سورة کا مرکزی مضمون ہے ۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے ، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے ، اور اپنے اخلاق ، تہذیب ، معاشرہ اور تمدّن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے ، اُن سب کے لیےاُسے صرف اللہ رب العالمٰین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے ۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا ۔ یہاں”اولیاء“ ( سر پرستوں ) کا لفظ اس معنی میں استعمال ہُوا ہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو ، خواہ اس کی سر پرستی کا معترف ہو یا بہ شدّت اس سے انکار کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشوریٰ ، حاشیہ ٦ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:3) اتبعوا۔ تم پیروی کرو۔ اتباع سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) اس سے قبل لفظ قل محذوف ہے۔ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہہ دے لوگوں سے۔ (2) یہ بلاواسطہ لوگوں سے خطاب ہے۔ ولا تتبعوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ بمعنی لا تتخذوا۔ تم مت نباؤ۔ تم مت پکڑ دیا لاتتبعوا سے مراد لاتقربوا ہے۔ تم مت کہو قلیلا ما تذکرون۔ تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ قلت۔ قلت زمانی بھی ہوسکتی ہے یعنی قلیل عرصہ کے لئے نصیحت پکڑتے ہو اور پھر فراموش کردیتے ہو۔ ما عملا زائد ہے لیکن قلت کی تاکید کرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی صرف کتاب وسنت کی ا اتباع کرو۔ (قرطبی) امام رازی فرماتے ہیں کہ رسالتہ کام معاملہ امور سے پورا ہوتا ہے مو سل یعنی خدا اور مرسل یعنی رسول اور مرسل الیہ یعنی امت اوپر کی آیت میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ والذار کا حکم دیا ہے اور اب اس آیت میں امت کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متابعت کا ، (کبیر ) 11 ایعنی اللہ تعالیٰ کے سوال کسی کی بندگی نہ کردیا قرآن وسنت کے سوا کسی کی بات نہ مانو خواہ وہ کتنا ہی بڑا امام بزرگ محقق یا دانشور ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث کو کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر کسی بات پر قرآن و حدیث سے تصریح نہیں ملے گی تو اجماع اور اجتہاد کی طر رجوع کیا جائے گا کیونکہ یہ دونوں بھی کتاب وسنت کے فروغ میں سے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اتباع یہ کہ تصدیق بھی کرو عمل بھی کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہدایت کے متلاشی لوگوں کے لیے نہایت ہی لازم بات ہے کہ وہ ادھر ادھر سے راہنمائی لینے کی بجائے صرف اور صرف قرآن مجید کی اتباع کریں۔ قرآن مجید کے انتباہ سے ڈرنے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آدمی اس بات کی پیروی کرے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انسان کا نہ کوئی خیر خواہ ہوسکتا ہے اور نہ اس کے کاموں کا والی اور ذمہ دار بن سکتا ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے جس کا معنٰیہے دوست اور خیر خواہ۔ یہ لفظ لاکر انسان کی اس فطری کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس بناء پر آدمی کسی سے دھوکا کھاتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھی اس فطری کمزوری کی بناء پر شیطان سے دھوکا کھاگئے۔ جب شیطان نے ان کے قریب آکر باربار قسمیں کھا کر کہا کہ جناب آدم ! میں خیرخواہی کے لیے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس درخت کا پھل کھالیں تاکہ ہمیشہ جنت میں رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کلی علم رکھنے والا ہے اس کو معلوم تھا اور ہے کہ شیطان ان لوگوں کو اولیاء کے نام پر گمراہ کرے گا لہٰذا حکم دیا کہ اولیاء کی پیروی نہ کرنا۔ بیشک اولیاء کا اللہ کے ہاں ایک مرتبہ اور مقام ہے ہمارے لیے ان کا احترام ومقام لازم ہے لیکن دین اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے نہ کہ اولیاء پر۔ اس لیے اتباع صرف اور صرف نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوگی کیونکہ آپ پر رب کا قرآن نازل ہوا۔ یہاں انسانوں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت قلیل لوگ ہیں جو اس اصول کا خیال رکھتے ہوئے صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس اصول کو چھوڑنے اور محبت میں غلو کا نتیجہ تھا اور ہے کہ امت پہلے آئمہ کرام کے نام پرچار فرقوں میں تقسیم ہوئی اور پھر ہر فرقے کے کئی کئی گروہ وجود میں آئے اور آتے جا رہے ہیں صرف ایک فرقہ کا حال دیکھیں پہلے امام ابوحنیفہ (رض) کی نسبت سے حنفی کہلائے اور اس کے بعد سہروردی، چشتی، قادری، نقشبندی، نظامی، گیلانی اور جیلانی۔ نہ معلوم یہ سلسلہ کہاں تک پہنچا اور پہنچ جائے گا۔ ایسے بھائیوں کو قرآن و حدیث کا حوالہ پیش کیا جائے تو فوراً کہتے ہیں کہ کیا امام صاحب کو یہ حدیث یاد نہ تھی۔ کیا تم بزرگوں سے زیادہ قرآن و حدیث سمجھنے والے ہو۔ کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر بات کرتے ہیں کہ کیا پہلے بزرگ گمراہ تھے ؟ نعوذ باللہ من ذالک۔ حالانکہ یہ حضرات غور کریں تو ان کا رویہ خود آئمہ کرام کی توہین کے مترادف ہے۔ اگر واقعتا امام موصوف کو زیر بحث مسئلہ کا علم تھا تو، پھر انھوں نے اس پر عمل کیوں نہ کیا۔ کیا اس میں امام صاحب کی توہین ہے یا تکریم ؟ جہاں تک اولیاء اللہ کا مقام اور احترام ہے اس کا خیال رکھنا ہمارے لیے فرض ہے۔ لیکن دین اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کا نام ہے۔ مسلمان کو صرف قرآن و سنت کی پیروی کا حکم ہے۔ مسائل ١۔ قرآن و سنت کی ہی پیروی کرنی چاہیے۔ ٢۔ قرآن و حدیث کے علاوہ باقی تمام راستے گمراہی کے ہیں۔ ٣۔ گمراہ لوگوں کی اکثریت سے متاثر نہیں ہونا چاہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (الاحزاب : ٢) ٢۔ میں اتباع کرتا ہوں اس کی جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (الاحقاف : ٩) ٣۔ مجھے قرآن وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں ڈراؤں۔ (الانعام : ١٩) ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے مگر آپ کو جو وحی کی جاتی ہے۔ (النجم : ٣ تا ٤) ٥۔ میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (یونس : ١٥۔ الاعراف : ٢٠٣) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (یونس : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٣۔ یہ اس دین کا اساسی مسئلہ ہے ‘ یہ کہ یا تو اس وحی کی پیروی ہوگی تو یہ اسلام ہوگا اور اس میں اللہ کی ربوبیت کا اعتراف ہوگا ۔ اس میں اللہ وحدہ کی حاکمیت کا اعتراف ہوگا ‘ اللہ حکم دے گا اور لوگ اطاعت کریں گے ۔ اللہ نہیں کرے گا اور لوگ رک جائیں گے یا اگر لوگ اپنے لئے کچھ اور لوگوں کو سرپرست بنا لیں گے تو یہ شرک ہوگا اور شرک کے معنی یہ ہوں گے کہ لوگ صرف اللہ کو رب تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ ربوبیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ کا ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے وقت یہ فرمایا گیا کہ (کتب انزل الیک) (٧ : ٢) یعنی نزول آپ کی ذات پر ہوا ہے اور جب لوگوں کو خطاب ہوا تو فرمایا آیت ” اتبعوا ماانزل الیکم ) (٧ : ٣) رسول کی طرف تو کتاب نازل ہوئی کہ آپ اس پر ایمان لائیں اور اسے لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں انجام بد سے ڈرائیں اور لوگوں کی طرف کتاب کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور عمل کریں اور اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں ۔ دونوں صورتوں میں الیک اور الیکم کے ذریعے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی عزت افزائی کی گئی ہے اور ان کے حوصلے بڑھائے گئے ہیں اس لئے کہ جس کی طرف اللہ کتاب بھیج دے اور اسے اس عظیم کام کے لئے چن لے اور اس پر یہ کرم کردے کہ وہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ اس کا شکر بھی بجا لائے ۔ اس فریضے کو اچھی طرح سرانجام دے اور اس میں سستی نہ کرے ۔ چونکہ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے ‘ اس میں پیش نظریہ ہے کہ جاہلیت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔ اس کے تصورات اس کے افکار اس کی اقدار اس کی عادات ‘ اس کی رسومات ‘ اس کے انتظامات ‘ اور اس کی اجتماعی عادات واطوار ‘ اقتصادی نظام کو اور اس کائنات اور انسانوں کے ساتھ اس کے روابط کو یکسر ختم کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے اس لئے یہاں انسانوں کے ضمیر کو خوب جھنجوڑا جاتا ہے اور انسانی اعصاب کو حساس بنایا جاتا ہے ۔ انہیں بلا مارنا اور ان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگانا ‘ جو زمانہ جاہلیت میں جاہلی تصورات اور اطوار میں ڈوبی ہوئی تھی ‘ مقصود ہے چناچہ اس مقصد کے لئے لوگوں کے سامنے ازمنہ ماضی کے مکذبین کے انجام کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ آج دنیا کی خواری کے بعد آخرت میں وہ زیادہ برباد ہوں گے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4: دوسرا دعوی۔ یہاں سے دوسرے دعوی کے ابتداء ہوتی ہے اس آیت میں دوسرا دعوی بالاجمال مذکور ہے۔ یعنی اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو اور شیاطین کی پیروی نہ کرو۔ رکوع 3 اور 4 میں یعنی از “ يٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا ” تا “ فَذُوْقُوْا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُونَ ” یہ دعویٰ تفصیل سے مذکور ہے اس سے پہلے رکوع 2 یعنی “ وَ لَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ” تا “ وَ مِنْھَا تُخْرَجُوْنَ ” میں اس کی تمہید کا ذکر ہے۔ “ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اَوْلِیَاءَ ” اولیاء سے یہاں شیاطین الانس والجن مراد ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے، ان سے شرک کراتے اور ان کو خود ساختہ تحریمات پر آمادہ کرتے ہیں۔ اراد بالاولیاء الشیاطین شیاطین الانس والجن وانھم الذین یحملون علی عبادۃ الاوثان والاھواء والبدع و یضلون عن دین اللہ تعالیٰ (بحر ج 4 ص 297 و کذا فی الکبیر ج 4 ص 262) جیسا کہ اسی سورت کے تیسرے رکوع میں ارشاد ہے۔ “ اِنّا جَعَلْنَا الشَّیٰاطِیْنَ اَوْلِیَاء لِلَّذِینَ لَا یُوْمِنُوْنَ ”۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 اے وہ لوگو ! جو مکلف ہو تم اس کتاب یعنی قرآن کریم کی پیروی کرو جو تمہارے پروردگار کی جانب سے تمہاری ہدایت کے اتاری گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کے کہنے پر نہ چلو یعنی شیاطین کی خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے جن کو تم نے اپنا رفیق اور دوست بنارکھا ہے ان کے کہنے پر نہ چلو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے اور قبول کرتے ہو۔