Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 36

سورة الأعراف

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۳۶﴾

But the ones who deny Our verses and are arrogant toward them - those are the companions of the Fire; they will abide therein eternally.

اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وہ لوگ دوزخ والے ہونگے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا ... on them shall be no fear nor shall they grieve. But those who reject Our Ayat and treat them with arrogance, meaning, their hearts denied the Ayat and they were too arrogant to abide by them, ... أُوْلَـَيِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ they are the dwellers of the Fire, they will abide therein forever. without end to their dwelling in it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اس میں اہل ایمان کے برعکس ان لوگوں کا برا انجام بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے احکام کو جھٹلاتے اور ان کے مقابلے میں استکبار کرتے ہیں۔ اہل ایمان اور اہل کفر دونوں کا انجام بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کردار کو اپنائیں جس کا انجام اچھا ہے اور اس کردار سے بچیں جس کا انجام برا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يَنَالُہُمْ نَصِيْبُہُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَہُمْ۝ ٠ ۙ قَالُوْٓا اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ۝ ٣٧ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ نيل النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج/ 37] . ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔ نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ أين أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن . وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله . قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک . وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ : ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته . والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان . وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم . قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین . این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) اور جو ہماری کتاب اور رسولوں پر ایمان لانے سے تکبر کریں یہی لوگ جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں کبھی موت آئے گی اور نہ اس سے کبھی نجات ملے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. Reference to the continuous unremitting punishment of the unbelievers occurs invariably on occasions where the Qur'an narrates the coming down of Adam and Eve from Paradise. (See al-Baqarah 2: 38-9 ; Ta Ha 20: 123-4.) What has been said here should be considered in relation to the fact that at the very start of man's earthly life he was informed of the evil results of unbelief. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. 1, AI 'Imran 3: n.69, pp.268-9 - Ed.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :28 یہ بات قرآن مجید میں ہر جگہ اس موقع پر ارشاد فرمائی گئی ہے جہاں آدم وحوّا علیہما السلام کے جنت سے اتارے جانے کا ذکر آیا ہے ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، آیات۳۸ ۔ ۳۹ ۔ طٰہٰ ۔ آیات ١۲۳ ۔ ١۲٤ ) لہٰذا یہاں بھی اس کو اسی موقع سے متعلق سمجھا جائےگا ، یعنی نوعِ انسانی کی زندگی کا آغاز جب ہو رہا تھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی ( ملاحظہ ہو سورہ آل عمران ، حاشیہ ٦۹ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اور پر بیان فرمایا کہ ہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی اب یہاں بتایا گیا جو لوگ فرماں بردار ہوں گے مرنے کے بعد ان پر کسی قسم کا خوف وحزن نہ ہوگا مگر جو سرکش ہوں گے وہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اسی قسم کا خطاب سورة بقرہ میں حضرت آدم ( علیہ السلام) کے قصہ کے آخر میں بھی مذکو رہے، ( دیکھئے بقرہ آیت 36)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُواْ عَنْہَا أُوْلَـَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (36) ” اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ کیونکہ اللہ کے عہد ونصیحت کو فراموش کرنے اور استکبار اور تکذیب کی وجہ سے یہ لوگ اپنے دوست شیطان سے مل چکے ہیں اور ان پر اللہ کا یہ فیصلہ نافذ ہوگیا ہے کہ ” جو لوگ تم میں سے اس کی اطاعت کریں گے تو ان سب سے میں جہنم کو بھر دوں گا ۔ “ اب یہاں سے اللہ کے سامنے پیشی کا منظر شروع ہوتا ہے ۔ جس کی طرف سابقہ سبق کے آخر میں اشارہ کیا گیا تھا ۔ آیت ” وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاء أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُونَ (34) ” ہر قوم کے لئے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے ‘ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر وتقدیم بھی نہیں ہوتی ۔ “ اس کے بعد یوم و حساب کا منظر شروع ہوتا ہے ‘ فیصلے اور سزا وجزاء کے مناظر آتے ہیں ۔ گویا یہ متقین اور مستکبرین کے انجام کی تفصیل ہے ۔ یہ منظر اسی طرح ہے جس طرح قرآن کریم مناظر قیامت کو پیش کرتا ہے ،۔ قارئین کو یوں نظر آتا ہے کہ واقعات عملا رونما ہو رہے ہیں ۔ قرآن کریم نے مناظر قیامت کے بیان میں ایک خاص اسلوب اپنایا ہے ۔ حشر ونشر ‘ حساب و کتاب ‘ انعام واکرام اور عذاب اور سزا کے بیان میں نہایت ہی موثر اسلوب اپنایا ہے ۔ یہاں صرف یہ نہیں ہے کہ قرآن نے موجودہ دنیا کے بعد آنے والے جہان کچھ اوصاف گنوا دیئے ہیں بلکہ اس کے مناظر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ وہ مناظر محسوس اور مجسم نظر آتے ہیں ۔ انکے اندر افراد چلتے پھرتے اور زندہ نظر آتے ہیں اور نہایت ہی واضح شکل و صورت میں ۔ قرآن کریم کی دنیا میں جب ایک مسلم زندگی بسر کرتا ہے تو وہ ان مشاہدات اور مناظر کو اپنی آنکھوں سے جگہ جگہ دیکھتا ہے ۔ وہ ان سے متاثر ہوتا ہے ۔ کبھی اس کا دل دھڑکتا ہے ‘ کبھی اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ کبھی وہ بری طرح خوفزدہ ہوجاتا ہے ۔ کبھی وہ پوری طرح مطمئن اور ہشاش وبشاش ہوجاتا ہے ۔ کبھی اسے آگے کے شعلہ ہائے جو الہ نظر آتے ہیں ۔ اور کبھی اسے جنت کی باد نسیم محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں زندہ رہنے والا مومن اس دن سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اور جو لوگ ان مناظر کے بارے میں آیات کو غور سے پڑھتے ہیں ‘ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس دنیا کے مقابلے میں درحقیقت میدان حشر میں زندہ رہ رہے ہیں ۔ وہ قرآن کی دنیا میں اس طرح گم ہوجاتے ہیں جس طرح کوئی انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے ۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں چلا جاتا ہے اور یہ انتقال محسوس طور پر ہوتا ہے۔ غرض اس کے احساس و شعور میں عالم آخرت آنے والا مستقبل نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا حال ہوتا ہے جس کا وہ مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے ۔ یہاں جن مناظر کو پیش کیا گیا ہے وہ طویل ترین مناظر میں سے ہیں اور ان میں زندگی بھرپور نظر آتی ہے ۔ یہ مسلسل مناظر ہیں اور ان لوگوں کے ڈائیلاگ بھی موجود ہیں اور زندہ اور بھرپور مکالمات کو حیرت انگیز الفاظ میں منتقل کیا گیا ہے ۔ اس طرح مکمل طور پر جس طرح آنکھوں سے دیکھ کر کوئی کسی منظر کو محفوظ کرلیتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل کہا یہ مناظر قصہ آدم پر تبصرے کے بعد آئے ہیں جبکہ آدم جنت سے نکال دیئے گئے تھے ۔ انکے ساتھ بیوی کا اخراج بھی ہوگیا تھا اور یہ اخراج شیطان کی وسوسہ اندازی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا ۔ اس کے بعد بنی آدم کو یہ تنبیہ بھی کردی گئی تھی کہ شیطان کے فتنوں سے بچو وہ تمہیں اس طرح نقصان نہ پہنچا دے جس طرح تمہارے باپ کو اپنی دیسہ کاریوں سے جنت سے نکلوایا ۔ اس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر انہوں نے آنے والے رسولوں کو چھوڑ کر شیطان کا اتباع اختیار کیا تو وہ جہنم کی سزا کے مستحق ہوں گے ۔ ان باتوں کے بعد قیامت کے دن اللہ کے سامنے حضوری کے شاہد پیش کئے گئے ۔ یہ شاہد اس طرح پیش کئے گئے کہ گویا یہ قصہ آدم کے متصلا پیش آ رہے ہیں ۔ اچانک رسولوں کی بعثت اور ان کے مقاصد سامنے آجاتے ہیں ‘ اچانک ان لوگوں کا منظر سامنے آجاتا ہے جو شیطان کے پیروکار ہیں ‘ اچانک وہ لوگ سامنے آجاتے ہیں جو شیطان کے مخالف ہیں اور جنت کے وارث ہیں ۔ وہ عالم بالا سے یہ پکار سنتے ہیں ” کہ یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث ہو ‘ اس لئے کہ تمہارے عمل اچھے تھے ۔ “ آیت ” ان تلکم الجنۃ التی “ ۔ یوں نظر آتا ہے کہ مسافر گھروں کو واپس آرہے ہیں ‘ مہاجر اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور اب انہوں نے اس دارالنعیم میں ہمیشہ رہنا ہے ۔ اس قصے اور اس تبصرے کے اندر جو ہم آہنگی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے قصہ آتا ہے اور اس کے مناظر عالم بالا میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اس پر تبصرہ اور شاید قیامت آئے اس ہم آہنگی میں جو خوبصورتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ یہ کہانی عالم بالا میں فرشتوں کے سامنے شروع ہوتی ہے ۔ اس وقت آدم وحوا کی تخلیق کی تقریب سعید تھی ۔ آدم اور حوا کو جنت میں رکھا گیا تھا ‘ اور شیطان کی وسوسہ اندازی سے جنت سے ان کے اخراج کے واقعات پیش آئے اخراج اس لئے ہوا کہ انہوں نے مکمل اطاعت اور بندگی نہ کی اور عالم بالا ہی میں یہ مناظر آغاز و انجام یکجا ہوجاتے ہیں اور انکے درمیان انسانی زندگی کے طویل مناظر پیوست ہیں۔ گویا ایک ہی اسٹیج پر یہ تمام مناظر آغاز ‘ درمیان اور انجام پیش ہوگئے ۔ نہایت ہی ہم آہنگی اور مناسب انداز وپیرائے ہیں۔ اب ہم میدان حشر میں آگئے ہی اور اس میں اللہ کے سامنے ان لوگوں کو پیش کیا گیا ہے جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں۔ ان لوگوں کا افتراء اور بہتان یہ ہے کہ انہوں نے آباؤ اجداد سے کچھ رسومات اور ضابطے ورثے میں پائے ہیں اور کچھ ضابطے اور قوانین خود انہوں نے اپنی جانب سے وضع کئے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ من جانب اللہ ہیں۔ ان لوگوں کی بھی پیشی ہے جن لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ وہ یقینی شریعت کر آئے تھے ۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے ظن وتخمین سے کام لے کر علم ویقین کو رد کردیا ‘ یہ لوگ دنیا میں عیش و عشرت کرتے رہے اور زمانہ ابتلاء خوب مستی سے گزارا اور رسولوں نے انکے سامنے جو پیغام پیش کیا وہ بھی ان تک پہنچا جسے قبول کرنا انکی قسمت میں نہ تھا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں، متکبروں کے لیے عذاب : (وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے اعراض کیا اور ان کے قبول کرنے میں اپنی ہتک سمجھی اور اپنے کو بڑا سمجھا تو یہ لوگ دوزخ والے ہیں اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔ (وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا) جو فرمایا اس میں ان کافروں کی شرارت نفس کا بیان ہے جو اللہ پر ایمان لانے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرنے اور اس کے احکام ماننے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں اور نہ ماننے میں اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ سورۂ الصافات میں فرمایا (اِنَّھُمْ کَانُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ) (بلاشبہ ان کا یہ حال تھا کہ جب ان کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی دعوت دی جاتی تھی تو تکبر کرتے تھے) اور سورة قیامہ میں فرمایا (فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی وَلٰکِنْ کَذَّبَ و تَوَلّٰی ثُمَّ ذَھَبَ الآی اَھْلِہٖ یَتَمَطّٰی) سو نہ اس نے تصدیق کی نہ نماز پڑھی لیکن جھٹلایا اور منہ پھیر کر چل دیا پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چلا گیا۔ بڑا بننے والوں کا تکبر نے ناس کھویا اور ان کے متبعین کو بھی لے ڈوبا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 اور جو لوگ ہمارے احکام کی تکذیب کریں گے اور ہماری آیات کے مقابلہ میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کریں گے تو یہی لوگ اصحابِ جہنم ہوں گے۔ وہ اس جہنم کے عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔