Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 37

سورة الأعراف

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یَنَالُہُمۡ نَصِیۡبُہُمۡ مِّنَ الۡکِتٰبِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوۡنَہُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ ﴿۳۷﴾

And who is more unjust than one who invents about Allah a lie or denies His verses? Those will attain their portion of the decree until when Our messengers come to them to take them in death, they will say, "Where are those you used to invoke besides Allah ?" They will say, "They have departed from us," and will bear witness against themselves that they were disbelievers.

سو اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وہ ان کو مل جائے گا یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے وہ کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Idolators enjoy Their destined Share in This Life, but will lose Their Supporters upon Death Allah said, فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِأيَاتِهِ ... Who is more unjust than one who invents a lie against Allah or rejects His Ayat, meaning, none is more unjust than whoever invents a lie about Allah or rejects the Ayat that He has revealed. ... أُوْلَـيِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ ... For such their appointed portion will reach them from the Book, Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi said that, it refers to each person's deeds, allotted provisions and age. Similar was said by Ar-Rabi bin Anas and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. Allah said in similar statements, قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ مَتَـعٌ فِى الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ Verily, those who invent a lie against Allah, will never be successful. (A brief) enjoyment in this world! And then unto Us will be their return, then We shall make them taste the severest torment because they used to disbelieve. (10:69-70) and, وَمَن كَفَرَ فَلَ يَحْزُنكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّيُهُم بِمَا عَمِلُواْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلً And whoever disbelieves, let not his disbelief grieve you. To Us is their return, and We shall inform them what they have done. Verily, Allah is the All-Knower of what is in the breasts (of men). We let them enjoy for a little while. (31:23-24) Allah said next, ... حَتَّى إِذَا جَاءتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ ... until when Our messengers come to them to take their souls. Allah states that when death comes to the idolators and the angels come to capture their souls to take them to Hellfire, the angels horrify them, saying, ... قَالُواْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ ... they (the angels) will say: "Where are those whom you used to invoke and worship besides Allah," "Where are the so-called partners (of Allah) whom you used to call in the life of this world, invoking and worshipping them instead of Allah Call them so that they save you from what you are suffering." However, the idolators will reply, ... قَالُواْ ضَلُّواْ عَنَّا ... they will reply, "They have vanished and deserted us." meaning, we have lost them and thus, we do not hope in their benefit or aid, ... وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ ... And they will bear witness against themselves, they will admit and proclaim against themselves, ... أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ that they were disbelievers.

اللہ پر بہتان لگانے والا سب سے بڑا ظالم ہے واقعہ یہ ہے کہ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے اور وہ بھی جو اللہ کے کلام کی آیتوں کو جھوٹا سمجھے ۔ انہیں ان کا مقدر ملے گا اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ انہیں سزا ہو گی ، ان کے منہ کالے ہوں گے ، ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا ۔ اللہ کے وعدے وعید پورے ہو کر رہیں گے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان کی عمر ، عمل ، رزق جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے وہ دنیا میں تو ملے گا ۔ یہ قول قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد کا جملہ اس کی تائید کرتا ہے ۔ اسی مطلب کی آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ116 ) 16- النحل ) ہے کہ اللہ پر جھوٹ باتیں گھڑ لینے والے فلاح کو نہیں پاتے ، گو دنیا میں کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر کار ہمارے سامنے ہی پیش ہوں گے ، اس وقت ان کے کفر کے بدلے ہم انہیں سخت سزا دیں گے ۔ ایک آیت میں ہے کافروں کے کفر سے تو غمگین نہ ہو ، ان کا لوٹنا ہماری جانب ہی ہو گا ، پھر ہم فرمایا کہ ان کی روحوں کو قبض کرنے کیلئے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آتے ہیں تو ان کو بطور طنز کہتے ہیں کہ اب اپنے معبودوں کو کیوں نہیں پکارتے کہ وہ تمہیں اس عذاب سے بچا لیں ۔ آج وہ کہاں ہیں؟ تو یہ نہایت حسرت سے جواب دیتے ہیں کہ افسوس وہ تو کھوئے گئے ، ہمیں ان سے اب کسی نفع کی امید نہیں رہی پس اپنے کفر کا آپ ہی اقرار کر کے مرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 اسکے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی عمل، رزق اور عمر کے کئے گئے ہیں۔ یعنی ان کے مقدر میں جو عمر اور رزق ہے اسے پورا کرلینے اور جتنی عمر ہے، اس کو گزار لینے کے بعد بالآخر موت سے ہمکنار ہونگے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیت ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَاب الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ 70؀ ) 10 ۔ یونس :70-69) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونگے، دنیا کا چند روزہ فائدہ اٹھا کر، بالآخر ہمارے پاس ہی انہیں لوٹ کر آنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] افتراء علی اللہ کی اقسام :۔ اس آیت میں قبول ہدایت کے لحاظ سے لوگوں کی اقسام بیان فرمائیں : ایک تو ایسے لوگ ہیں جو خود جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے یا وہ نبوت کا دعویٰ تو نہیں کرتے تاہم اپنے آپ کو اسی مقام پر سمجھتے ہیں باتیں خود گھڑتے ہیں پھر انہیں اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو سچے رسولوں کی تصدیق بھی نہیں کرتے اور ان پر نازل شدہ آیات سے انکار بھی کردیتے ہیں یہ سب طرح کے لوگ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں کیونکہ یہ صرف خود گمراہ نہیں ہوتے بلکہ بیشمار مخلوق کو گمراہ کرنے میں حصہ دار بنتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی اس دنیا میں رزق جتنا ان کے مقدر میں ہے وہ ملتا ہی رہے گا کیونکہ انسانوں کی آزمائش صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ کون رسولوں کا تابع فرمان بنتا ہے اور کون ابلیس اور اس کے چیلوں کا۔ [٣٧] قبر میں سوال و جواب :۔ اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات سے واضح ہوتا ہے کہ موت کے وارد ہوتے ہی ایسے مجرموں کو اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے ایک اپنے انجام بد کی ہولناکی، دوسرے جان قبض کرنے والے فرشتوں کا کرخت لہجہ اور گفتگو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شرکیہ افعال بھول جاتے ہیں اور احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں جب سوال و جواب ہوتا ہے تو ایمان دار آدمی فرشتوں کے سب سوالوں کے صحیح صحیح جواب دیتا ہے مگر کفار اور مشرکین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا پروردگار کون ہے ؟ تمہارا دین کیا تھا اور رسول کون تھا ؟ تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ افسوس ! میں ان سوالوں کا جواب نہیں جانتا میں تو وہی کچھ کہہ دیا کرتا تھا (دنیوی زندگی میں) جو کچھ لوگ کہا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ ابو اب الکسوف۔ باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف) ایک دفعہ سیدنا عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قبر میں ہم سے سوال و جواب ہوگا تو اس وقت ہمارے حواس اور ہوش ٹھیک ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا && ہاں۔ && سیدنا عمر (رض) کہنے لگے پھر ہم ان سوالوں کا جواب دے لیں گے۔ (مسلم۔ کتاب صفہ الجنۃ و نعیمھا باب مقعد المیت من الجنۃ والنار) لیکن جن لوگوں نے کفر و شرک میں زندگی بسر کی ہوگی اور اپنی سستی نجات کے لیے کئی سہارے تجویز کر رکھے ہوں گے ان کو سب کچھ بھول جائے گا اور ان کا کچھ جواب نہ دینا ہی ان کے کفر پر دلیل بن جائے گا بلکہ زبان سے بھی اقرار کرلیں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کفر و شرک ہی میں گزار دی (تفصیل سورة ابراہیم کے حاشیہ ٣٥ میں دیکھیے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا : اس کا تعلق اوپر کی آیت : (وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا) سے ہے، یعنی یہ دو قسم کے لوگ تو بہت ہی بڑے ظالم ہیں، پہلی قسم میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے یا اللہ کا شریک بنانے والے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف کسی حکم کی جھوٹی نسبت کرنے والے، (اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرنے والے بھی شامل ہیں) اور دوسری قسم میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو قرآن کے کتاب الٰہی ہونے سے انکار کرتے ہیں، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکر ہیں۔ اُولٰۗىِٕكَ يَنَالُهُمْ نَصِيْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ ۭ: یعنی اللہ تعالیٰ نے کتاب ” لوح محفوظ “ میں ان کا جو حصہ عمر، رزق، راحت یا رنج وغیرہ کا لکھا ہے وہ انھیں ملے گا اور ان کے ظلم اور بدکاری کے باوجود اس میں کمی نہیں کی جائے گی کہ شاید توبہ کرلیں، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو انھیں ڈانٹتے ہوئے کہیں گے کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے گم ہوگئے اور وہ اپنے آپ پر شہادت دیں گے کہ واقعی وہ کافر تھے۔ یہ آیت صریح نص ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی پکارنا، اس سے مدد مانگنا، فریاد کرنا، استغاثہ کرنا، اسے غوث یا مشکل کشا کہنا یا سمجھنا کفر ہے، خواہ وہ اللہ کے سوا کتنی بڑی ہستی کوئی فرشتہ یا رسول یا ولی ہو۔ قیامت کے دن وہ حضرات ان کو منہ بھی نہیں دکھائیں گے اور اللہ کے سوا کسی کو پکارنے والے خود اپنے آپ پر شہادت دیں گے کہ واقعی ہم کافر تھے اور ایمان سے محروم تھے۔ ایک دفعہ غیر اللہ کو پکارنے والوں سے گفتگو کے موقع پر مولانا احمد دین گکھڑوی (رض) نے ندائے غیر اللہ کے کفر ہونے کی دلیل کے لیے یہ آیت پڑھی اور آخر گفتگو تک اسی پر قائم رہے۔ غیر اللہ کو پکارنے والوں میں سے کوئی بھی اس آیت کا جواب نہیں دے سکا تھا۔ افسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ایسی واضح آیات کے ہوتے ہوئے مسلمان کہلانے والے بعض علماء اور ان کے پیروکار غیر اللہ کو پکارتے ہیں، ان سے مدد طلب کرتے ہیں، کوئی ” یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ! اَغِثْنِیْ “ کہتا ہے، کوئی یا علی مدد کہتا ہے، کوئی شیخ عبد القادر کو مدد کے لیے پکارتا ہے، پھر بھی ایسے لوگ اپنے آپ کو مسلمان اور موحدین کو کافر قرار دیتے ہیں۔ بہرحال قیامت کچھ دور نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ ادْخُلُوْا فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّارِ۝ ٠ ۭ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَہَا۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْہَا جَمِيْعًا۝ ٠ ۙ قَالَتْ اُخْرٰىہُمْ لِاُوْلٰىہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝ ٠ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝ ٣٨ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة/ 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود/ 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران/ 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف/ 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف/ 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل/ 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی. الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ { كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ { وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ } ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ { إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ } ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ } ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا } ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ { لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ } ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) اس شخص سے بڑھ کر سرکش اور ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتا ہے، اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے۔ تو کتاب اللہ میں سیاہ چہرے والوں اور نیلی آنکھوں سے جو ان کو ڈرایا گیا ہے، وہ ان کے سامنے آجائے گا، لہٰذا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے دور رہیے یہاں تک کہ ملک الموت (موت کا فرشتہ) اور ان کے مددگار ان کی ارواح قبض کرلیں، وہ ان کی ارواح قبض کرلیں، وہ ان کی ارواح کے قبض کے وقت کہیں گے کہ تمہارے معبودان باطل کہاں ہیں تمہاری حفاظت کیوں نہیں کرتے۔ کافر کہیں گے انکو خود اپنی فکر دامن گیر ہے، چناچہ دنیا میں اللہ تعالیٰ اور رسول کا جو انکار کرتے تھے اس کا اقرار واعتراف کرلیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اُولٰٓءِکَ یَنَالُہُمْ نَصِیْبُہُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ ط) دنیا میں رزق وغیرہ کا جو معاملہ ہے وہ ان کے کفر کی وجہ سے منقطع نہیں ہوگا ‘ بلکہ دنیوی زندگی میں وہ انہیں معمول کے مطابق ملتا رہے گا۔ یہ مضمون سورة بنی اسرائیل میں دوبارہ آئے گا۔ (حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَہُمْ لا قالُوْٓا اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط) اب کہاں ہیں وہ تمہارے خود ساختہ معبود جن کے سامنے تم ماتھے رگڑتے تھے اور جن کے آگے گڑ گڑاتے ہوئے دعائیں کیا کرتے تھے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29, All men, whether good or bad, have been granted a definite term in this world which they will spend and obtain their share of worldly happiness and misery.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :29 یعنی دنیا میں جتنے دن ان کی مہلت کے مقرر ہیں یہاں رہیں گے اور جس قسم کی بظاہر اچھی یا بری زندگی گزارنا ان کے نصیب میں ہے گزار لیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: یہاں یہ واضح کردیا گیا کہ دنیا میں رزق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مومن اور کافر میں تفریق نہیں فرمائی ہے ؛ بلکہ ہر ایک کے لئے رزق کا ایک حصہ مقرر فرمادیا ہے جو اسے ہرحال میں پہنچتا رہے گا، چاہے وہ کتنا بڑا کافر کیوں نہ ہو ؛ لہذا اگر کسی کو دنیا میں رزق کی فراوانی حاصل ہے تو اسے یہ نہ سمجھ بیٹھنا چاہئے کہ اس کا طریقہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، جیسا کہ یہ کفار مکہ سمجھ رہے ہیں، ان کو اصل حقیقت کا پتہ اس وقت چلے گا جب موت کا منظر ان کے سامنے آجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کے نصیب کا لکھایوں ملے گا کہ نیکی کرنیوالے کو اس کی نیکی اور اور بد ی کرنے والے کو اس کی بدی کا بدلا ملے گا حاصل مطلب یہ ہے کہ علم ازلی کے موافق لوح محفوظ اور نامہ ( علیہ السلام) اعمال میں جو نیکی بدی لکھی گئی ہے اس کے موافق جزا سزا کا فیصلہ ہوگا یہاں اس تفسیر کے موافق رسولوں سے مقصود وہ فرشتے ٹھہریں گے جو روحوں کو دوزخ میں ڈالنے پر تعینات ہیں یا رسولوں سے مقصود ملک الموت اور ان کے مددگار ہیں کیونکہ مرنے کے وقت فرشتے مشرکوں کو عذاب سے ڈراتے ہیں جس سے مرتے وقت ان مشرکوں کو بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے فرشتے جھڑک کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ جن کو تم خدا کے سوا دنیا میں پکارتے اور پوجتتے تھے وہ اب کہاں ہیں ان کو بلاؤ کہ تم کو اس عذاب سے بچادیں وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم کو معلوم نہیں کہ وہ کدھر گم ہوگئے وقت پر ہمارے کچھ کام نہ آئے ہم کو ان سے کچھ توقع وامید نہیں ہے یہ ان کا موت کے وقت اپنی جانوں پر کفر کا اقرار ہوگا نافرمان لوگوں کو موت کے وقت جو فرشتے عذاب سے ڈراتے ہیں ان کا ذکر لباء بن عازب (رض) کی صحیح حدیث کے حوالہ سے ایک جگہ گذر چکا ہے دوزخ پر جو فرشتے تعینات ہیں ان کا حال بھی حضرت عمر (رض) کی حدیث کے حوالہ سے گذر چکا ہے اس لئے رسولوں کی تفسیر دونوں طرح کے فرشتوں سے ہوسکتی ہے دوزخ پر جو فرشتے تعینات ہیں ان کا ذکر سورة تحریم ہیں تفصیل سے آویگا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:37) ینالہم۔ مضارع واحد مذکر غائب ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ نیل مصدر۔ (باب سمع) پہنچ جائے گا ۔ پہنچتا رہے گا۔ نصیبھم۔ ان کا حصہ۔ یعنی خوراک۔ عمر۔ صحت۔ بیماری۔ اچھا یا برا کام کرنے کے مواقع گناہ کرنے یا توبہ کرنے کے مواقع ۔ وغیرہ وغیرہ۔ من الکتاب۔ (جو ان کی قسمت میں) لکھا ہوا ہے ۔ الکتاب۔ نوشتہ تقدیر۔ حتی اذا۔ یہاں تک کہ جب۔ یتوفونھم۔ مضارع جمع مذکر غائب ہم ضمیر مفعول ۔ جمع مذکر غائب۔ یہ ان اشخاص کی طرف راجع ہے جو زندگی میں اللہ تعالیٰ کے خلاف جھوٹی بہتان بازی کرتے تھے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے تھے۔ یتوفون حال ہے رسلنا سے بمعنی درآنحالیکہ وہ (یعنی اللہ کے فرستارہ فرشتے) ان کی روحیں قبض کر رہے ہوں گے۔ یا قبض کریں گے۔ وہ جان نکالتے ہیں یا نکالیں گے۔ یا ان کی جان لینے کے لئے یتوفون (باب تفعیل) ۔ قالوا۔ اذا کا جواب۔ اینما۔ یہاں۔ این (کہاں ۔ ظرف۔ مکان) اور ما موصولہ کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے ۔ این الالہۃ التی کنتم تدعونھا۔ ای تعبدونھا۔ کہاں ہیں وہ جن کو تم معبود پکارتے تھے (اللہ کے سوا) اینما بمعنی جہاں کہیں ۔ جس طرف۔ اینما تکونوا یدرکم الموت (4:78) جہاں کہیں بھی تم ہو گے موت تم کو آلے گی۔ ضلواعنا۔ ہم جو چھوڑ گئے۔ ہم سے گم ہوگئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس کا تعلق اوپر کی آیت والذین کذبو وبایتنا سے ہے یعنی دو قسم کے لوگ تو بہت ہے بڑے ظالم ہیں۔ پہلی قسم کے جو ٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والی یا اللہ تعالیٰ کی طرف کسی حکم کی چھوٹی نسبت کرنے والے آجاتے ہیں اور دوسری قسم میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو قرآن کے کتاب الہی ٰ ہونے سے انکار کرتے ہیں یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کر منکر ہیں۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جو بات خدا کی کہی ہوئی ہو اس کے بےکہی بتلادے۔ 3۔ یعنی واقعی کوئی کام نہ آیا۔ 4۔ لیکن اس وقت کا اقرار محض بےکار ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے ساتھ ان لوگوں کا انجام بھی بیان کردیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ جھوٹ باندھتے ہیں۔ گویا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں اِفْتَرَیٰ عَلَی اللّٰہِ کے الفاظ مختلف موقعوں پر ٩ دفعہ استعمال ہوئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا۔ ٣۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے دین کے حوالے سے جھوٹ بولنا۔ ٤۔ اپنے آپ پر وحی نازل ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔ ٥۔ حق بات کو جھٹلانا۔ ٦۔ نبی کی نبوت کا انکار کرنا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہاں اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنا ہے۔ مشرک کا یہ عقیدہ ہوتا ہے یہ مورتیاں اللہ تعالیٰ کا اوتار ہیں اور مزارات میں دفن بزرگ اللہ کے مقرب بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ یہ عقیدہ من گھڑت اور بلا دلیل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے فرشتے ان کی موت کے وقت ان سے سوال کرکے سزا دیں گے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر افترأ بازی کرتے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو سزا بیان کی گئی ہے وہ ہر صورت دنیا اور آخرت میں ان کو مل کر رہے گی۔ بعض مفسرین نے کتاب میں حصہ ملنے سے مراد لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تقدیر لی ہے جو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ رکھی ہے۔ جس میں دوسری تفصیلات کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ انسان جو کرے گا وہی بھرے گا مجرموں کو عذاب صرف آخرت میں نہیں بلکہ موت کے لمحات سے شروع ہوجاتا ہے۔ روح نکالنے والے فرشتے ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے کے ساتھ انہیں حاجت روا، مشکل کشا کیوں سمجھتے تھے دوسرے لفظوں میں ملائکہ ان سے کہیں گے کہ اگر وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو اپنے مشکل کشاؤں کو بلاؤ۔ جس کے جواب میں وہ موت کے وقت زبان حال اور قیامت کے دن بول، بول کر کہیں گے کہ آج تو ان میں سے ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ اس طرح ظالم اپنی موت کے وقت اور قیامت کے دن اقرار کریں گے کہ واقعی ہم اللہ کی ذات کا انکار اور اس کی آیات کا کفر کرتے تھے لیکن یہ اقرار انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے ہم قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے خبیث نفس ! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر اس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے لاش کی گندی بدبو نکلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں وہ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے۔ “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں “ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ تو آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو ۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ رسوا کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو کون ہے اس طرح کی شکل والا جو اتنی بری بات کے ساتھ آیا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت نہ قائم کرنا۔ “ [ مسند احمد ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے یا اس کی ذات کے بارے میں جھوٹ گھڑنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ ظالموں کو اللہ کی کتاب کے مطابق سزا دی جائے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے جھوٹی بات لگانے والا اپنی موت کے وقت اپنے ظلم اور کفر کا اقرار کرتا ہے۔ ٤۔ مشرک اپنی موت کے وقت اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں۔ تفسیر بالقرآن ظالم کون ؟ ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر : ٣٢) ٥۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٣٧۔ دیکھئے اب ہم ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے اللہ پر بہتان باندھا اور اللہ کی آیات کو جھٹلایا ۔ حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے رسول آچکے تھے ۔ اس منظر میں پہلے تو ان کی روح قبض کی جاتی ہے گویا ملزم گرفتار ہوتے ہیں ۔ پھر ان کے درمیان یہ مکالمہ ہوگا : فرشتے کہیں گے ” بتاؤ اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم خدا کے بجائے پکارتے تھے ؟ “ وہ کہیں گے کہ ” وہ سب ہم سے گم ہوگئے ۔ “ اب تمہارے وہ دعوے کہاں ہیں جن کے ذریعے تم اللہ پر افتراء باندھتے تھے ‘ اور وہ الہ کہاں ہیں جن کو تم نے دنیا میں دوست بنا رکھا تھا ‘ جن کی وجہ سے تم فتنے میں پڑگئے اور رسولوں کی لائی ہوئی دعوت کو چھوڑ دیا ۔ یہ قوتیں اس آڑے وقت میں تمہاری مدد کو کیوں نہیں آرہی ہیں کہ اب تمہاری جان لی جارہی ہے اور تمہیں کوئی ایسا مددگار نہیں مل رہا جو اس وقت سے لمحہ بھر کے لئے موت کو مؤخر کردے ۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ ان یہی جواب ہو سکتا ہے ۔ آیت ” قالوا ضلوا عنا “۔ (٧ : ٣٧) ” وہ سب ہم سے گم ہوگئے ۔ “ وہ ہم سے اس طرح گم ہوگئے اور اس طرح غائب ہوگئے کہ ہمیں ان کا کوئی اتاپاتا نہیں مل رہا ۔ اب وہ ہماری طرف نہیں آ رہے ۔ غرض وہ لوگ اس قدر بدحال ہوں گے کہ ان کے خدا بھی انکی طرف متوجہ نہ ہو سکیں گے اور نہ وہ ایسے برے حالات میں ان کوئی مدد کرسکیں گے اور ایسے خداؤں سے زیادہ گھاٹے میں اور کون ہوگا جو اپنے بندوں تک نہ پہنچ سکتے ہوں اور ایسے مشکل حالات میں ۔ آیت ” وشھدوا علی انفسھم “۔ (٧ : ٣٧) ” وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکر حق تھے ۔ “ اس سے قبل جب ان پر دنیا میں عذاب آیا تھا تو بھی انہوں نے یہی اعتراف کیا تھا ۔ (فما کانت دعوھم) ” جب ہمارا عذاب آیا تو انکی پکار صرف یہی تھی کہ حقیقت میں ہم ظالم تھے ۔ “۔ اب حاضری دو بار الہی کا منظر ختم ہے اور اس کے بعد دوسرا منظر سامنے آتا ہے ۔ یہ مجرم اب جہنم کی آگ میں ہیں ۔ ان دونوں مناظر کی درمیان کڑیاں غائب ہیں ۔ موت کے واقعات ‘ نشر وحشر کے واقعات درمیان میں سے غائب ہیں گویا ان کو پکڑ کر سیدھا جہنم میں ڈال دیا گیا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38: یہ زجر ہے۔ “ اِفْتَرٰي عَلَیْ اللّٰهِ کذبًا ” اللہ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق میں سے اس کا شریک بنانا اور کسی کو اس کا ولد یا نائب ٹھہرانا یعنی “ فمن اعظم ظلما ممن یقول علی اللہ ما لم یقله او یجعل له شریکا من خلقه وھو منزه عن الشریک والولد ”(خازن) ۔ “ یَنَالُھُمْ نَصِیْبُھُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ ” یعنی لوح محفوظ اور علم الہی میں ان کے لیے جو سزا مقدر ہے وہ ضرور ان کو مل کر رہے گی۔ 39 یہ تخویف اخروی ہے۔ “ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ ” اس سے معلوم ہوا کہ جان قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں بلکہ زیادہ ہیں جن کی تعداد کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ لہذا اس سے بھی اہل بدعت کا استدلال باطل ہوگیا کہ اگر ایک فرشتہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہو کر مختلف علاقوں میں ایک ہی وقت میں کئی انسانوں کی جان قبض کرسکتا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں حاضر و ناظر نہیں ہوسکتے۔ یہاں ایک شبہ ہوسکتا ہے وہ یہ کہ سورة سجد ع 1 میں ہے “ قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُکِّلَ بِکُمْ ” اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جان قبض کرنے والا فرشتہ ایک ہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں “ مَلَکُ الْمَوْت ” اسم جنس ہے اور اس سے جان قبض کرنے والے فرشتوں کی جنس مراد ہے۔ یا اس سے اس جنس کا رئیس مراد ہے جس کے حکم سے ماتحت فرشتے جان قبض کرتے ہیں اور ماتحتوں کا فعل عام طور پر سردار کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ بادشاہ نے قلعہ فتح کرلیا حالانکہ قلعہ اس کی فوج نے فتح کیا ہوتا ہے۔ “ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَدْعُوْنَ ”۔ مَا سے وہ معبود مراد ہیں جن کو مشرکین دنیا میں مصائب و مشکلات کے وقت پکارتے اور ان سے مدد مانگتے تھے۔ ای این الالہۃ التی کنتم تعبدونہا فی الدنیا و تستعینون بھا فی المہمات (روح ج 8 ص 115) ۔ “ ضَلُّوْا عَنَّا ” مشرکین جواب میں کہیں گے وہ تو آج غائب ہوگئے ہیں اور آج جبکہ ہمیں ان کی سخت ضرور تھی انہوں نے ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچایا۔ غابوا فلا نراھم ولا ننتفع بہم (جامع البیان ص 134) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 پھر اب اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر کذب اور افترا کرے اور بہتان باندھے یا اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی آیات کو جھٹلائیں یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے یا کسی سچے پیغمبر کی تکذیب کرے اور اس کو جھوٹا بتائے ایسے لوگوں کو وہ حصہ ملتا رہے گا جو کتاب میں لکھا ہوا ہے یعنی عمر اور رزق اور ذلت و رسوائی وغیرہ ج مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ ان کو ملتا رہے گا یہاں تک کہ جب ہمارے فرشتے ان کی جان نکالنے کو ان کے پاس پہنچیں گے تو ان ظالموں سے دریافت کریں گے وہ غیر اللہ کہاں ہیں جن کو تم اللہ تعایلٰ کے سوا پکارا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کیا کرتے تھے یعنی وہ کہاں چلے گئے اس وقت تمہاری کچھ مدد نیں کرتے وہ ظالم ان فرشتوں کو جواب دیں گے کہ وہ تو کہیں گم ہوگئے اور ہم کو چھوڑ کر کہیں غائب ہوگئے اور یہ ظالم اپنے خلاف خود گواہی دیں گے اور اس امر کا اعتراف کریں گے کہ بیشک وہ کافر اور منکر تھے یعنی ایسے شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کہی ہوئی کی تکذیب کرے اور جو اس نے نہ کہی ہو وہ اس کی طرف منسوخ کردی جائے اور اس پر افترا کیا جائے بہرحال یہ لوگ اچھا برا کمتی بڑھتی جو کچھ مقدر میں لکھوا لائے ہیں اور جو لوح محفوظ میں ان کا حصہ مقرر ہوچکا ہے اس حصہ کو تو یہ لوگ حاصل ہی کریں گے اور دنیوی زندگی سے متمتع ہوتے رہیں گے لیکن برزخ میں جو مرتے وقت سے شروع ہوجاتا ہے اور محشر میں جو ان سے سلوک ہوگا وہ یہ ہے کہ جن کی پرستش کیا کرتے تھے وہ ان سے غائب ہوجائیں گے اور یہ اپنے نافرمان اور منکرہونے کا اقرار کریں گے۔