Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 39

سورة الأعراف

وَ قَالَتۡ اُوۡلٰىہُمۡ لِاُخۡرٰىہُمۡ فَمَا کَانَ لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ ﴿٪۳۹﴾  11

And the first of them will say to the last of them, "Then you had not any favor over us, so taste the punishment for what you used to earn."

اور پہلے لوگ پچھلے لوگوں سے کہیں گے کہ پھر تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہیں سو تم بھی اپنی کمائی کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَتْ أُولاَهُمْ لاُخْرَاهُمْ ... The first of them will say to the last of them, meaning, the followed will say to the followers, ... فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ ... "You were not better than us. .." meaning, you were led astray as we were led astray, according to As-Suddi. ... فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ "So taste the torment for what you used to earn." Allah again described the condition of the idolators during the gathering (of Resurrection), when He said; قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ أَنَحْنُ صَدَدنَـكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ جَأءَكُمْ بَلْ كُنتُمْ مُّجْرِمِينَ وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَأ أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَاداً وَأَسَرُّواْ النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُاْ اْلَعَذَابَ وَجَعَلْنَا الاٌّغْلَـلَ فِى أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُواْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ And those who were arrogant will say to those who were deemed weak: "Did we keep you back from guidance after it come to you! Nay, but you were criminals." Those who were deemed weak will say to those who were arrogant: "Nay, but it was your plotting by night and day, when you ordered us to disbelieve in Allah and set up rivals to Him!" And each of them (parties) will conceal their own regrets, when they behold the torment. And We shall put iron collars round the necks of those who disbelieved. Are they requited aught except what they used to do! (34:32-33)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ : یعنی اگر ہم مجرم و بدکار تھے تو تمہارا حال ہم سے کون سا بہتر تھا، تم نے بھی اپنی مرضی سے کفر کی روش اختیار کی اور اگر ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا تو تم نے بھی کتنے لوگوں کا بیڑا غرق کیا، اب تمہیں ہم پر کون سی برتری حاصل رہی ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰي يَـلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ۝ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٤٠ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ ولج الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج/ 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها . ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج/ 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔ جَمَلُ يقال للبعیر إذا بزل وجمعه جِمَال وأَجْمَال وجِمَالة قال اللہ تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، وقوله : جِمالَتٌ صُفْرٌ [ المرسلات/ 33] ، جمع جِمَالة، والجِمَالَة جمع جَمَل، وقرئ : جمالات بالضم، وقیل : هي القلوص، والجَامِل : قطعة من الإبل معها راعيها، کالباقر، وقولهم : اتّخذ اللیل جملا فاستعارة، کقولهم : رکب اللیل، وتسمية الجمل بذلک يجوز أن يكون لما قد أشار إليه بقوله : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ [ النحل/ 6] ، لأنهم کانوا يعدّون ذلک جمالا لهم . وجَمَلْتُ الشحم : أذبته، والجَمِيل : الشحم المذاب، والاجتمال : الادهان به، وقالت امرأة لبنتها : تَجَمَّلِي وتعفّفي «5» ، أي : كلي الجمیل، واشربي العفافة ۔ الجمل جو ان اونٹ جو کم از کم پانچ سال کا ہو ۔ اس کی جمع جمال و اجمال وجمالۃ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی گے ناگے میں سے نہ نکل جائے ۔ اور آیت کریمہ :۔ جِمالَتٌ صُفْرٌ«2» [ المرسلات/ 33] گو یا زردہ رنگ کے اونٹ ہیں ۔ میں جملت جمالۃ کی جمع ہے اور جمالۃ جمل کی اور ایک قرآت میں جمالات بضمہ جیم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی جو ان اونٹنیوں کے ہیں ۔ الحامل اونٹوں کا گلمہ جن کے ساتھ ان کا چرواہا بھی ہو یہ باقر کی طرح ہے اور اتخذاللیل جملا ( کہ اس نے رات کو اونٹ بنالیا ) محاورہ مجاز پر محمول ہے جس کے معنی ہیں اپنے ساری رات سفر کیا ۔ جیسا کہ رکب اللیل کا محاورہ ہے اور اونٹ کو جمل کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ عرب لوگ اونٹ کو اپنے لئے باعث زینت اور فخر سمجھتے تھے جیسا کہ آیت :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ [ النحل/ 6] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ حملت الشحم چربی بگھلانا اور بگھلائی ہوئ چربی کو الجمیل کہا جاتا ہے اور اجمال کے معنی چربی کو بطور تیل ملنے کے ہیں ۔ ایک عورت نے اپنی لڑکی سے کہا ۔ تجملی وتعففی یعنی چربی پگھلا کر کھا یا کرو اور عفافہ یعنی تھنوں میں باقی ماندہ دودھ پیاکر و۔ سمم السَّمُّ والسُّمُّ : كلّ ثقب ضيّق کخرق الإبرة، وثقب الأنف، والأذن، وجمعه سُمُومٌ. قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، وقد سَمَّهُ ، أي : دخل فيه، ومنه : السَّامَّةُ «3» للخاصّة الذین يقال لهم : الدّخلل «4» ، الذین يتداخلون في بواطن الأمر، والسّمّ القاتل، وهو مصدر في معنی الفاعل، فإنه بلطف تأثيره يدخل بواطن البدن، والسَّمُومُ : الرّيح الحارّة التي تؤثّر تأثير السّمّ. قال تعالی: وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور/ 27] ، وقال : فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة/ 42] ، وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] . ( س م م ) السم ( بفتحہ سین وضمہ آں ) کے معنی تنگ سوارخ کے ہیں جیسے سوئی کا ناکہ یا ناک اور کان کا سوراخ ہوتا ہے ۔ اس کی جمع سموم آتی ہے قرآن میں ہے ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یاہں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے ۔ اور سمہ ( ن ) کے معنی کسی چیز میں گھس جانا کے ہیں ۔ اور اسی سے السامۃ ہے یعنی وہ خاص لوگ جو ہر معاملہ میں گھس کر اس کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں دخل بھی کہا جاتا ہے ۔ السم ۔ زہر قاتل کو کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے لطف تاثیر سے بدن کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور یہ اصل میں مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ السموم ( لو ) گرم ہوا جو زہر کی طرح بدن کے اندر سرایت کی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور/ 27] اور ہمیں لو کے عذاب سے بچالیا ۔ فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة/ 42]( یعنی دوزخ کی ) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں ۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جنوں کو اس سے بھی پہلے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ خيط الخَيْطُ معروف، وجمعه خُيُوط، وقد خِطْتُ الثوب أَخِيطُهُ خِيَاطَةً ، وخَيَّطْتُهُ تَخْييطاً. والخِيَاطُ : الإبرة التي يخاط بها، قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ [ البقرة/ 187] ، أي : بياض النهار من سواد اللّيل ( خ ی ط ) الخیط ۔ تا گا ۔ والجمع الخیوط ۔ خاط ( ض ) خیاطۃ وخیط الثوب کے معنی کپڑا سینے کے ہیں اور کپڑا سینے کی سوئی کو الخیاط کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہ :َ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائے ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری ( رات ) کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔ میں خیط ابیض اور اسود سے صبح کی سفیدی اور رات کی تاریکی مراد ہے جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) اور پہلی جماعت بعد میں آنے والوں سے کہے گی، ہم کو دوہرا عذاب کیوں ہو، تم نے بھی ہماری طرح کفر کیا اور تم نے بھی غیر اللہ کی، عبادت کی جیسا کہ ہم نے کی، سو تم بھی اپنے اقوال و اعمال شرکیہ کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. In addition to the above verse, the Qur'an elsewhere recounts the mutual incriminations of the dwellers of Hell. For example, it occurs in Sarah al-Saba' in the following words: 'Could you but see when the wrong-doers will be made to stand before their Lord, throwing back the word (of blame) on one another! Those who had been abased will say to the arrogant ones: "Had it not been for you, we should certainly have been believers!" The arrogant ones will say, to those who had been abased: "Was it we who kept you back from Guidance after it reached you? Nay, rather it was you yourselves who transgressed" ' (al-Saba' 34: 31-2). This means that since the misguided people themselves were not keen on receiving the right guidance, they fell victims even more to the forces of misguidance. Out of their own excessive worldliness they chose to follow their ungodly leaders. Granted that it was the forces of misguidance which had invented ideologies such as materialism, excessive worldliness, and nationalism. But when people were attracted to these false ideologies, they did so out of their own weaknesses. These forces of evil achieved success because what they offered was to the utmost liking of the people. Again, the people who were tempted to embrace counterfeit religious ideologies were themselves to blame for falling prey to them since there was an inner urge in them to accept such ideologies. Rather than submitting to the One True God and to rigorous moral discipline, they looked for deities that would help them to achieve their worldly purposes. Naturally, they invented deities of their own liking. They also desired the intercession of those who would let them grow in worldiness and godlessness, and yet who would also ensure their redemption in the Next World. As they preferred a religion that would not make their life a bit dry, permissive religious cults which did not object to any kind of self-indulgence were developed. This establishes clearly that the external forces of evil alone are not to blame. The people who succumb to evil and error equally share the blame. This neither condones the role of those who seek to mislead others, nor detracts from the responsibility of those who choose to be misled.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :31 اہل دوزخ کی اس باہمی تکرار کو قرآن مجید میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ سبا آیات ۳١ ۔ ۳۳ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”کاش تم دیکھ سکو اس موقع کو جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے پر باتیں بنا رہے ہوں گے ۔ جو لوگ دنیا میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے ، کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے ۔ وہ بڑے بننے والے ان کمزور بنائے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ہم نے تم کو ہدایت سے روک دیا تھا جب کہ وہ تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں ، بلکہ تم خود مجرم تھے ۔ “ مطلب یہ ہے کہ تم خود کب ہدایت کے طالب تھے؟ اگر ہم نے تمہیں دنیا کے لالچ دے کر اپنا بندہ بنایا تو تم لالچی تھے جب ہی تو ہمارے دام میں گرفتار ہوئے ۔ اگر ہم نے تمہیں خریدا تو تم خود بکنے کے لیے تیار تھے جب ہی تو ہم خرید سکے ۔ اگر ہم نے تمہیں مادہ پرستی اور دنیا پرستی اور قوم پرستی اور ایسی ہی دوسری گمراہیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا کیا تو تم خود خدا سے بے زار اور دنیا کے پرستار تھے جب ہی تو تم نے خدا پرستی کی طرف بلانے والوں کو چھوڑ کر ہماری پکار پر لبیک کہا اگر ہم نے تمہیں مذہبی قسم کے فریب دیے تو ان چیزوں کی مانگ تو تمہارے ہی اندر موجود تھی جنہیں ہم پیش کرتے تھے اور تم لپک لپک کر لیتے تھے ۔ تم خدا کے بجائے ایسے حاجت روا مانگتے تھے جو تم سے کسی اخلاقی قانون کی پابندی کا مطالبہ نہ کریں اور بس تمہارے کام بناتے رہیں ۔ ہم نے وہ حاجت روا تمہیں گھڑ کر دے دیے ۔ تم کو ایسے سفارشیوں کی تلاش تھی کہ تم خدا سے بے پرواہ ہو دنیا کے کُتّے بنے رہو اور بخشوانے کا ذمہ وہ لے لیں ۔ ہم نے وہ سفارشی تصنیف کر کے تمہیں فراہم کر دیے ۔ تم چاہتے تھے کہ خشک دبے مزہ دینداری اور پرہیزگاری اور قربانی اور سعی وہ عمل کے بجائے نجات کا کوئی اور راستہ بتایا جائے جس میں نفس کے لیے لذتیں ہی لذتیں ہوں اور خواہشات پر پابندی کوئی نہ ہو ۔ ہم نے ایسے خوش نما مذہب تمہارے لیے ایجاد کر دیے ۔ غرض یہ کہ ذمہ داری تنہا ہمارے ہی اوپر نہیں ہے ۔ تم بھی برابر کے ذمہ دار ہو ۔ ہم اگر کمراہی فراہم کرنے والےتھے تو تم اس کے خریدار تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:39) کنتم تکسبون ۔ جو تم کمایا کرتے تھے۔ جو تم کماتے رہے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اگر ہم مجرم و بدکار تھے تو تمہار احال کونسا بہتر تھا تم نے اپنی مرضی سے کفر کی روش اختیار کی، (ابن کثیر۔ قرطبی) 1 اس سے مقصود تخویف وزجر ہے۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ قَالَتْ اُوْلٰھُمْ لِاُخْرٰیھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ) کہ پہلے لوگ بعد والوں سے کہیں گے کہ جب سب کی سزا کا یہ حال ہے تو پھر تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہ ہوئی نہ عذاب کی تخفیف ہمارے لیے ہے نہ تمہارے لیے۔ (فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ ) (سو تم اپنے اعمال کے بدلے عذاب چکھ لو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43 اللہ تعالیٰ کا مذکورہ ارشاد سن کر متبوعین تابعین سے کہیں گے کہ سزا وار عذاب ہونے میں ہم اور تم برابر ہیں اور تخفیف عذاب کا تمہیں کوئی استحقاق نہیں لہذا اب اپنے کیے کی سزا بھگتو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 اور اس پر پہلے لوگ پچھلوں سے کہیں گے بس اب تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہ رہی کہ ہمارے مقابلہ میں تم کو عذاب کم دیا جائے لہٰذا تم اس کمائی کی پاداش میں جو کمایا کرتے تھے دگنے عذاب کا مزہ چکھتے رہو یعنی جہنم میں پہلے اور پچھلے سب جمع ہوجائیں گے اول تو ہر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت ملامت کرے گا پھر پہلے پچھلوں کیلئے دگنا عذاب طلب کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم سب کو ہی دگنا عذاب ہوگا اول تو دوزخ میں عذاب بڑھتا ہی رہے گا دوسرے یہ کہ پہلوں پر اس لئے کہ انہوں نے کفر کی رسم پیدا کی اور دوسروں کو گمراہ کیا اور پچھلوں پر اس لئے کہ انہوں نے پہلوں کا انجام دیکھ کر سن کر عبرت نہیں پکڑی اور اندھا دھند ان گمراہوں کے پیچھے چل پڑے۔