Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 43

سورة الأعراف

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ نُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡکُمُ الۡجَنَّۃُ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۴۳﴾ الثلٰثۃ

And We will have removed whatever is within their breasts of resentment, [while] flowing beneath them are rivers. And they will say, "Praise to Allah , who has guided us to this; and we would never have been guided if Allah had not guided us. Certainly the messengers of our Lord had come with the truth." And they will be called, "This is Paradise, which you have been made to inherit for what you used to do."

اور جو کچھ ان کے دلوں میں ( کینہ ) تھا ہم اس کو دور کر دیں گے ان کے نیچے نہریں جاری ہونگی ۔ اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا ( لاکھ لاکھ ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالٰی ہم کو نہ پہنچاتا واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے ۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ ... But those who believed, and worked righteousness -- We burden not any person beyond his scope -- such are the dwellers of Paradise. They will abide therein. And We shall remove from their breasts any Ghill; meaning, envy and hatred. Al-Bukhari recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said, إِذَا خَلَصَ الْمُوْمِنُونَ مِنَ النَّارِ حُبِسُوا عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَاقْتُصَّ لَهُمْ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ أَحَدَهُمْ بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ أَدَلُّ مِنْهُ بِمَسْكَنِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا After the believers are saved from entering the Fire, they will be kept in wait by a bridge between Paradise and Hellfire. Then, transgression that occurred between them in the life of this world will be judged. Until, when they are purified and cleansed, they will be given permission to enter Paradise. By He in Whose Hand is my soul! One of them will be able to find his dwelling in Paradise more so than he did in the life of this world. وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الاَنْهَارُ ... And We shall remove from their breasts any Ghill; rivers flowing under them, As-Suddi said, "When the people of Paradise are taken to it, they will find a tree close to its door, and two springs from under the trunk of that tree. They will drink from one of them, and all hatred will be removed from their hearts, for it is the cleansing drink. They will take a bath in the other, and the brightness of delight will radiate from their faces. Ever after, they will never have messy hair or become dirty." An-Nasa'i and Ibn Marduwyah (this being his wording) recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, كُلُّ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ فَيَقُولُ لَوْلاَ أَنَّ اللهَ هَدَانِي فَيَكُونُ لَهُ شُكْرًا وَكُلُّ أَهْلِ النَّارِ يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ لَوْ أَنَّ اللهَ هَدَانِي فَيَكُونُ لَهُ حَسْرَة Each of the people of Paradise will see his seat in the Fire and he will say, `Had not Allah guided me! And this will cause him to be grateful. Each of the people of the Fire will see his seat in Paradise, and he will say, `Might that Allah had guided me!' So it will be a cause of anguish for him. ... وَقَالُواْ ... and they will say: الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللّهُ لَقَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ "All the praises and thanks be to Allah, Who has guided us to this, and never could we have found guidance, were it not that Allah had guided us! Indeed, the Messengers of our Lord did come with the truth." This is why when the believers are awarded seats in Paradise that belonged to the people of the Fire, they will be told, ... وَنُودُواْ أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ And it will be cried out to them: "This is the Paradise which you have inherited for what you used to do." This means, because of your good deeds, you earned Allah's mercy and thus entered Paradise and took your designated dwellings in it, comparable to your deeds. This is the proper meaning here, for it is recorded in the Two Sahihs that the Prophet said, وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَدَكُمْ لَنْ يُدْخِلَهُ عَمَلُهُ الْجَنَّة And know that the good deeds of one of you will not admit him into Paradise. They said, "Not even you, O Allah's Messenger!" He said, وَلاَ أَنَا إِلاّ أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْل Not even I, unless Allah grants it to me out of His mercy and favor.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 اللہ تعالیٰ اہل جنت پر انعام فرمائے گا کہ ان کے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض و عداوت کے جذبات ہوں گے، وہ دور کردے گا، پھر ان کے دل ایک دوسرے کے بارے میں آئینے کی طرح صاف ہوجائیں گے، کسی کے بارے میں دل میں کوئی کدورت اور عداوت نہیں رہے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اہل جنت کے درمیان درجات و منازل کا جو تفاوت ہوگا، اس پر وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ پہلے مفہوم کی تائید ایک حدیث میں ہوتی ہے کہ جنتیوں کو، جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے درمیان آپس کی جو زیادتیاں ہونگی، ایک دوسرے کو ان کا بدلہ دلایا جائے گا، حتّی کہ جب وہ بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت دے دی جائے گی (صحیح بخاری) 43۔ 2 یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی زندگی نصیب ہوئی اور پھر بارگاہ الٰہی قبولیت کا درجہ بھی حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اور اس کا فضل ہے۔ اگر یہ رحمت اور فضل نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ سکتے، اسی مفہوم کی یہ حدیث ہے جس میں نبی نے فرمایا ' یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک کہ رحمت الہی مجھے اپنے دامن میں نہیں سمیٹ لے گی۔ 43۔ 3 یہ تشریح پچھلی بات اور حدیث مذکورہ کے منافی نہیں، اس لئے کہ نیک عمل کی توفیق بھی بجائے خود اللہ کا فضل و احسان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] جنت میں داخلے سے پہلے باہمی کدورتوں کا خاتمہ :۔ یہاں لفظ غل استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں خفگی & میل & کدورت & کینہ & حسد وغیرہ۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جنت میں داخل ہونے والوں میں سے اگر کسی کے دل میں دوسرے کے متعلق کچھ ملال، خفگی، میل و کدورت اس دنیا میں رہی ہوگی اور کسی ناگوار واقعہ کی یاد کسی کے دل میں موجود ہوگی تو جنت میں داخلے سے پیشتر ایسے ملال کو اللہ تعالیٰ دلوں سے محو کردیں گے & انہیں کچھ یاد ہی نہ رہے گا اور وہ ایک دوسرے کے متعلق بالکل صاف دل ہو کر جنت میں داخل ہوں گے اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق درجہ ملے گا اور یہ ممکن ہے کہ نچلے درجے والوں کے دلوں میں اوپر کے درجے والوں کی نسبت حسد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہم ان کے دل سے حسد نکال دیں گے ہر ایک اپنے اپنے درجے پر قانع اور مطمئن ہوگا اور بلند درجات والوں کے لیے اس کے دل میں حسد وغیرہ مطلقاً نہ ہوگا۔ [ ٤٣] اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم کی مثالیں :۔ یہ آیت اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم اور لوگوں کے باہمی معاملات کو استوار اور خوشگوار رکھنے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ متضاد باتیں بھی معلوم ہو رہی ہیں۔ میں پہلے اس کی ایک دو مثالیں بیان کروں گا۔ مثلاً دیکھیے زید بکر سے کچھ رقم ایک مقررہ مدت کے لیے قرض لیتا ہے۔ اب بکر کو یہ حکم ہے کہ اگر زید مقررہ وعدہ کے مطابق قرض ادا نہیں کرسکا یا ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو وہ اسے مزید مہلت دے دے اور اس اضافی مہلت کا ایک ایک دن اس کے لیے صدقے کا ثواب ہوگا اور اگر وہ معاف ہی کر دے تو اس کے لیے اور بھی بہتر ہے (٢ : ٢٨٠) کیونکہ ایسے شخص کو اللہ نے اس کے گناہ معاف کردینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ دوسری طرف مقروض یعنی زید کو یہ تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد کو پورا کرے اور مقررہ وقت پر یا اس سے پہلے قرضہ ادا کر دے اور اگر وہ قرضہ ادا کیے بغیر مرگیا تو اس کی نجات نہ ہوگی تاآنکہ اس کے وارثوں میں سے کوئی شخص اس کے قرضے کی ادائیگی نہ کر دے یا کوئی شخص اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن نہ بن جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے مقروض کی نماز جنازہ اس وقت تک نہیں پڑھاتے تھے جب تک اس کے قرضے کا کوئی ضامن نہ بن جاتا ورنہ آپ صحابہ (رض) اجمعین سے فرما دیتے کہ تم خود ہی اپنے بھائی پر نماز جنازہ پڑھ لو (بخاری۔ کتاب فی الاستقراض۔ باب الصلوۃ علی من ترک دینا ) اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلاً زید بکر پر کوئی احسان کرتا ہے اب بکر کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بھی کسی وقت اس کے اس احسان کا بدلہ دے اور اگر وہ اس پوزیشن میں نہیں تو کم از کم اس کا شکریہ ہی ادا کر دے اور اگر دونوں کام کرے تو اور بھی اچھی بات ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں ہی کا شکریہ ادا نہیں کرتا (جن کا احسان اسے محسوس بھی ہو رہا ہے) تو وہ اللہ کا کیا شکر ادا کرے گا۔ (ترمذی۔ ابو اب البروالصلہ۔ باب فی الشکرلمن احسن الیک) دوسری طرف زید (احسان کرنے والے) کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بکر سے نہ کسی بدلہ احسان کی توقع رکھے اور نہ شکرییے کی (٧٦ : ٩) جنت کا ملنا محض اللہ کی رحمت ہے :۔ بالکل یہی صورت اس آیت میں ہے جنت میں داخل ہونے والے لوگ یہ کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی ہمیں نصیب نہ ہوتی تو ہم اس جنت تک پہنچ ہی نہ سکتے تھے یہ تو محض اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں یہ جنت ملی ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان اہل جنت کی حوصلہ افزائی کی خاطر فرما رہے ہیں کہ یہ جنت تمہارے ہی ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم دنیا میں کرتے رہے اور اس بات کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ذکر کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اس دنیا میں کتنے ہی نیک اعمال کرلے وہ تو اللہ کے سابقہ احسانات کا بدلہ بھی نہیں چکا سکتا پھر جنت کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے اسی حقیقت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ بیان فرمایا تو حضرت عائشہ (رض) کہنے لگیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ بھی اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں نہ جاسکیں گے ؟ فرمایا && میں بھی نہیں && پھر فرمایا (الا ان یتغمدنی اللہ برحمۃ) (الا یہ کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے) (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب القصد والمداومۃ علی العمل ) جنت کی نعمتیں :۔ مزید برآں اس آیت میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جنت تمہیں بطور ورثہ دی جا رہی ہے اور ورثہ پانے کا مدار کسی عمل پر نہیں ہوتا۔ دوسرا اشارہ اس میں یہ پایا جاتا ہے کہ یہ وہی جنت ہے جس سے تمہیں نکالا گیا تھا چونکہ تم نے دنیا کی زندگی اللہ کے فرمانبردار بن کر گزاری ہے اس لیے وہی جنت تمہیں بطور ورثہ عطا کی جا رہی ہے اور اہل جنت کو بن مانگے وہاں نعمتیں میسر ہوں گی۔ ان کا ذکر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) اور ابو سعید خدری (رض) دونوں سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک منادی ندا کرے گا && اے اہل جنت ! تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ جوان رہو گے، تم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، عیش میں زندگی گزارو گے تمہیں کبھی حزن و ملال نہ ہوگا && یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا۔ (وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَات الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ ۝ ۙ ) 8 ۔ الانفال :7) (مسلم۔ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ : ابوہریرہ (رض) سے مروی اہل جنت کے اوصاف میں ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہوگا نہ باہمی بغض۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ٣٢٤٦ ] دنیا میں اگر ان کے درمیان کوئی بغض تھا تو وہ صاف ہونے کے بعد جنت میں داخلہ ہوں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر وہ ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص لیں گے جو دنیا میں ان سے ہوئیں یہاں تک کہ جب وہ تراش خراش کروا کر بالکل صاف ستھرے ہوجائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ “ [ بخاری، المظالم، باب قصاص المظالم : ٦٥٣٥، عن أبی سعید الخدری (رض) ] سینوں میں موجود کینے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کی باہمی رنجشیں بھی شامل ہیں، جو دنیا میں سیاسی یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئیں۔ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا۔۔ : یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا ہوئی، پھر انھیں قبولیت کا شرف حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اس کا فضل ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : یہ باء سببیہ ہے، باء عوض نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ یہ جنت میرے فضل سے تمہارے کسی عوض یا قیمت اداکیے بغیر تمہیں بطور ہبہ دی جا رہی ہے، جیسا کہ میراث بغیر کسی عوض کے دی جاتی ہے اور تمہاری اس عزت افزائی کا سبب دنیا میں تمہارے اعمال صالحہ ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا : ” نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل : ٦٤٦٣، ٦٤٦٤ ] آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت انسانی اعمال کی بنیاد پر ہوگی، یعنی اس کے اعمال صالحہ ہی رحمت کا سبب بنیں گے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

اہل جنت کے دلوں سے باہمی کدورتیں نکال دی جائیں گی چوتھی آیت میں اہل جنت کے دو خاص حال بیان کئے گئے، ایک یہ کہ (آیت) وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْھٰرُ ” یعنی جنتی لوگوں کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی طرف سے کوئی رنجش یا کدورت ہوگی تو ہم اس کو ان کے دلوں سے نکال دیں گے، یہ لوگ ایک دوسرے سے بالکل خوش بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے، اور بسیں گے “۔ صحیح بخاری میں ہے کہ مومنین جب پل صراط سے گزر کر جہنم سے نجات حاصل کرلیں گے تو ان کو جنت دوزخ کے درمیان ایک پل کے اوپر روک لیا جائے گا، اور ان کے آپس میں اگر کسی سے کسی کو رنجش تھی، یا کسی پر کسی کا حق تھا تو یہاں پہنچ کر ایک دوسرے سے انتقام لے کر معاملات صاف کرلیں گے، اور اس طرح حسد، بغض، کینہ وغیرہ سے پاک صاف ہو کر جنت میں داخل ہوں گے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ پل بظاہر پل صراط کا آخری حصہ ہوگا، جو جنت سے متصل ہے، علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اس مقام پر جو حقوق کے مطالبات ہوں گے ان کی ادائیگی ظاہر ہے کہ روپیہ پیسہ سے نہ ہوسکے گی، کیونکہ وہ وہاں کسی کے پاس مال نہ ہوگا، بلکہ بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق یہ ادائیگی اعمال سے ہوگی، حقوق کے بدلہ میں اس کے عمل صاحب حق کو دیدئے جائیں گے، اور اگر اس کے اعمال اس طرح سب ختم ہوگئے اور لوگوں کے حقوق ابھی باقی رہے تو پھر صاحب حق کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو سب سے بڑا مفلس قرار دیا ہے جس نے دنیا میں اعمال صالحہ کئے لیکن لوگوں کے حقوق کی پروا نہیں کی، اس کے نتیجہ میں تمام اعمال سے خالی مفلس ہو کر وہ گیا۔ اس روایت حدیث میں ادائے حقوق اور انتقام کا عام ضابطہ بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب کو یہی صورت پیش آئے، بلکہ ابن کثیر اور تفسیر مظہری کی روایت کے مطابق وہاں یہ صورت بھی ممکن ہوگی کہ بدوں انتقام لئے آپس کے کینے کدورتیں دور ہوجائیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ یہ لوگ جب پل صراط سے گزر لیں گے تو پانی کے ایک چشمہ پر پہنچیں گے اور اس کا پانی پئیں گے، اس پانی کا خاصہ یہ ہوگا کہ سب کے دلوں سے باہمی کینہ و کدورت دھل جائے گی، امام قربطی رحمة اللہ علیہ نے آیت کریمہ (آیت) وسقھم ربھم شرابا طھورا کی تفسیر بھی یہی نقل کی ہے کہ جنت کے اس پانی سے سب کے دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں دھل جائیں گی۔ حضرت علی مرتضیٰ نے ایک مرتبہ یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ہم اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کے سینے دخول جنت سے پہلے کدورتوں سے صاف کردیئے جائیں گے (ابن کثیر) ۔ دوسرا حال اہل جنت کا اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ جنت میں پہنچ کر یہ لوگ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے کہ اس نے ان کے لئے جنت کی طرف ہدایت کی اور اس کا راستہ آسان کردیا، اور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو ہماری مجال نہ تھی کہ ہم یہاں پہنچ سکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی انسان محض اپنی کوشش سے جنت میں نہیں جاسکتا، جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اس پر نہ ہو، کیونکہ کوشش خود اس کے قبضہ میں نہیں وہ بھی محض اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ہدایت کے مختلف درجات ہیں جس کا آخری درجہ دخول جنت ہے امام راغب اصفہانی نے لفظ ہدایت کی تشریح میں بڑی مفید اور اہم بات فرمائی ہے کہ ہدایت کا لفظ بہت عام ہے، اس کے درجات مختلف ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ ملنے کا نام ہے، اس لئے تقرب الی اللہ کے درجات بھی جتنے مختلف اور غیر متناہی ہیں، اسی طرح ہدایت کے درجات بھی بےحد متفادت ہیں، ادنی درجہ ہدایت کا کفر و شرک سے نجات اور ایمان ہے جس سے انسان کا رخ غلط راستہ سے پھر کر اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجاتا ہے، پھر بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جس قدر فاصلہ ہے اس کو طے کرنے کے ہر درجہ کا نام ہدایت ہے، اس لئے ہدایت کی طلب سے کسی وقت کوئی انسان یہاں تک کہ انبیاء اور رسل بھی مستغنی نہیں ہیں، اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخر عمر تک (آیت) اھدنا الصراط المستقیم کی تعلیم جس طرح امت کو دی خود بھی اس دعا کا اہتمام جاری رکھا، کیونکہ تقرب الی اللہ کے درجات کی کوئی انتہا نہیں، یہاں تک کہ جنت کے داخلہ کو بھی اس آیت میں لفظ ہدایت سے تعبیر کیا گیا کہ یہ ہدایت کا آخری مقام ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا۝ ٠ ۭ قَالُوْا نَعَمْ۝ ٠ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَہُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللہِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٤٤ ۙ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ نعم (هاں) و «نَعَمْ» كلمةٌ للإيجابِ من لفظ النِّعْمَة، تقول : نَعَمْ ونُعْمَةُ عَيْنٍ ونُعْمَى عَيْنٍ ونُعَامُ عَيْنٍ ، ويصحُّ أن يكون من لفظ أَنْعَمَ منه، أي : أَلْيَنَ وأَسْهَلَ. نعم یہ کلمہ ایجاب ہے اور لفظ نعمت سے مشتق ہے ۔ اور نعم ونعمۃ عین ونعمیٰ عین ونعام عین وغیرہ ان سب کا ماخز نعمت ہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام مرکبات انعم سے ماخوذ ہوں جس کے معنی نرم اور سہل بنانے کے ہیں ۔ اذن ( تأذين) : كل من يعلم بشیءٍ نداءً ، قال عالی: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ [يوسف/ 70] ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ [ الأعراف/ 44] ، وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ [ الحج/ 27] اذنتہ بکذا او اذنتہ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا اور اعلان کرنے والے کو مؤذن کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ } ( سورة يوسف 70) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو ۔ { فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ } ( سورة الأَعراف 44) تو اس وقت ان ایک پکارنے والا پکارا دیگا ۔ { وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ } ( سورة الحج 27) اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) دنیا میں جو کچھ ان کے دلوں میں بغض، حسد اور دشمنی تھی، سب کو ہم نکال دیں گے، آخرت میں ان کے محلات اور تختوں کے نیچے سے شہد، دودھ، پانی، شراب کی نہریں جاری ہوں گی۔ جب یہ حضرات اپنے مقامات اور حیات جاودانی کے چشمے پر پہنچیں گے تو کہیں گے اللہ کا بہت احسان ہے جس نے اس مقام اور چشمہ پر پہنچایا اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ جب یہ حضرات ایمان کی بدولت اس اعزاز واکرام کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس دین اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور دین اسلام پر ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر ہمیں اللہ تعالیٰ ہدایت نہ فرماتے۔ واقعی پیغمبر سچائی اور ثواب کرامت کی خوشخبری لے کر آئے، ان سے کہا جائے گا تمہارے دنیاوی اعمال صالحہ کی وجہ سے چیزیں تمہیں دی گئی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ ) اہل ایمان بھی آخر انسان ہیں۔ باہمی معاملات میں ان کو بھی ایک دوسرے سے گلے اور شکوے ہوسکتے ہیں اور دلوں میں شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔ دینی جماعتوں کے اندر بھی کسی مامور کو امیر سے ‘ امیر کو مامور سے یا ایک رفیق کو دوسرے رفیق سے شکایت ہوسکتی ہے۔ کچھ ایسے گلے شکوے بھی ہوسکتے ہیں جو دنیا کی زندگی میں ختم نہ ہو سکے ہوں گے۔ ایسے گلے شکو وں کے ضمن میں قرآن حکیم میں کئی مرتبہ فرمایا گیا کہ اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان کے دلوں کو ایسی تمام آلائشوں سے پاک کردیا جائے گا اور وہ لوگ باہم بھائی بھائی بن کر ایک دوسرے کے رو برو بیٹھیں گے : (وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ) (الحجر) اسی لیے اہل ایمان کو سورة الحشر میں یہ دعا بھی تلقین کی گئی ہے : (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ) اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے ‘ بیشک تو رؤف اور رحیم ہے۔ ان مضامین کی آیات کے بارے میں حضرت علی (رض) کا یہ قول بھی (خاص طور پر سورة الحجر ‘ آیت ٤٧ کے شان نزول میں ) منقول ہے کہ یہ میرا اور معاویہ (رض) کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل کرے گا تو دلوں سے تمام کدورتیں صاف کر دے گا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ ( علیہ السلام) کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں تو کتنی کچھ شکایتیں باہمی طور پر پیدا ہوئی ہوں گی۔ ایسی تمام شکایتیں اور کدورتیں وہاں دور کردی جائیں گی۔ (تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ ج) (وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰٹَنا لِھٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لَآ اَنْ ھَدٰٹنَا اللّٰہُج لَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ ط) (وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) بندے کا مقام عبدیت اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اللہ کے انعام و اکرام پر سراپا شکر بن کر پکار اٹھے کہ اے اللہ میں اس لائق نہیں تھا ‘ میرے اعمال ایسے نہیں تھے ‘ میں اپنی کوشش کی بنیاد پر کبھی بھی اس کا مستحق نہیں ہوسکتا تھا ‘ یہ سارا تیرا فضل و کرم ‘ تیری عطا اور تیری دین ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ بندے کے حسن نیت اور اعمال صالحہ کی قدرافزائی کرتے ہوئے ارشاد فرمائے گا کہ میرے بندے ‘ تو نے دنیا میں جو محنت کی تھی ‘ یہ مقام تیری محنت کا انعام ہے ‘ تیری کوشش کا ثمر ہے ‘ تیرے ایثار کا صلہ ہے۔ تو نے خلوص نیت سے حق کا راستہ چنا تھا ‘ اس میں تو نے نقصان بھی برداشت کیا ‘ باطل کا مقابلہ کرنے میں تکالیف بھی اٹھائیں۔ چناچہ بندے کی کوشش و محنت اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دونوں چیزیں مل کر ہی بندے کی دائمی فلاح کو ممکن بناتی ہیں۔ ہم ایک نیک کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نیت کے خلوص کو دیکھتے ہوئے اس کام کی توفیق دے دیتا ہے اور اسے ہمارے لیے آسان کردیتا ہے۔ اگر ہم ارادہ ہی نہیں کریں گے تو اللہ کی طرف سے توفیق بھی نہیں ملے گی۔ اسی طرح اللہ کی توفیق وتیسیر کے بغیر محض ارادے سے بھی ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32. If there develops any rancour or ill-will among good people during the course of their worldly lives, such rancour and will be removed in the Hereafter. Their hearts will be purged of all hostile feelings and they will enter Paradise as cordial friends. They will not feel envious towards those who had formerly been opposed or hostile to them that they share with them the bounties of Paradise. Significantly, 'Ali once recited this very verse and remarked: 'I wish that I and 'Uthman and Talhah and al-Zubayr will be among those about whom God has said: "And We shall take away all rancour from their hearts" ' (verse 43). (See Qurtubi's comments on verse 43 - Ed.) Reflection on the verse leads one to conclude that out of His mercy, God will first purge the righteous of their blemishes. This will be done before admitting them to Paradise. Thus they will enter Paradise in a state of untainted purity. 33. This refers to something of a fine and delicate character that will take place in Paradise. Instead of boasting about their virtuous deeds which led them to Paradise, the righteous will thank and praise God profusely and acknowledge His grace and mercy without which they could never have entered Paradise. On the other hand, God will not impress His bounty upon the righteous; He will rather emphasize that Paradise is granted to them by way of compensation for their righteous conduct, that it is the fruit of their hard labour; that it is not like the crumbs of charity but a fair recompense for their striving. The subtlety involved here is further brought into relief by the fact that the above response will not be made by God. It will rather be just announced to them. What is said above about the Hereafter may be discerned in the attitude of the righteous in the world itself. The wicked and arrogant ones take great pride in their worldly attainments and ascribe them to their own efforts. They firmly, believe that what they have achieved is the fruit of their labour. Swaved by such notions, they continue to act even more haughtily. Conversely the righteous look upon all the bounties which they receive as favours from God. Accordingly, they thank and praise Him out of gratitude. The more they are lavished with worldly favours, the more humble and generous they become. Moreover, they do not suffer from the illusion that their righteousness will certainly earn them their salvation. On the contrary, they consistently repent over their lapses and earnestly turn to God in the hope that He will pardon them out of His grace and mercy. They are always fearful of God's reckoning lest their evil deeds are found to outweigh their good deeds. According to a tradition the Prophet (peace he on him) said: 'Know well that none will he able to enter Paradise by dint of his good deeds.' When asked if that would apply to him as well, the Prophet (peace he on him) replied: 'Yes, in my case as well; unless God covers me with His mercy and favour.' (Bukhari, Kitab al-Riqaq, 'Bab al-Qasd wa a Mudawamah ala al-Amal' - Ed.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :32 یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں ، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی ۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے ۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سےجنت میں داخل ہوں گے ۔ ان میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑا تھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی ، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے ۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمان رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی صفائی کراوے گا ۔ اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :33 یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا ۔ اہل جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد و ثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہے ورنہ ہم کس لائق تھے ۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کے صلہ میں پایا ہے ، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے ، تمہارے کام کی مزدوری ہے ، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے ۔ پھر یہ مضمون اس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی ۔ درحقیقت یہی معاملہ دنیا میں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے ۔ ظالموں کو جو نعمت دنیا میں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے ، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں ، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنے ہی زیادہ متواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسن عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشنے ہی جائیں گے ۔ بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتے ہیں ، اپنے عمل کے بجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچھ دینا ہی نہ نکل آئے ۔ بخاری و مسلم دونوں میں روایت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعلمواان احدکم لن یدخلہ عملہ الجنة ۔ خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمدنی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ، اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: چونکہ جنت میں ہر قسم کی تکلیف سے خالی ہوگی، اس لیے وہاں باہمی عداوت، کینے اور کدورت کا بھی گذر نہیں ہوگا، اور دنیا میں انسانوں کے درمیان جو رنجشیں رہی ہوں، جنت میں اللہ تعالیٰ وہ بالکل دور فرما دیں گے، اور تمام جنتی محبت، دوستی اور بھائی چارے کے ماحول میں رہیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:43) نزعنا۔ ماضی معروف۔ جمع متکلم۔ نزع۔ مصدر۔ (باب فتح) ہم نکال دیں گے ۔ چھین لیں گے۔ ملاحظہ ہو آیت 7:27 غل۔ اسم فعل۔ دلی کدورت۔ قلبی عداوت۔ غل یغل (باب ضرب) کینہ سے سینہ کا پر ہونا۔ غلا و غلیلا مصدر غل یغل غلولا۔ دھوکہ دینا۔ تحتم۔ ان کے نیچے۔ تحت قصورھم۔ ان کے محلوں کے نیچے ۔ یا ان کے حکم پر۔ یعنی نہریں ان کے حکم پر چلیں گئ۔ فرعون نے کہا تھا۔ وھذہ الانھر تجری من تحتی (43:52) بیضاوی نے اس کے معنی لکھے ہیں۔ تحت قصری۔ تحت امری۔ اوبین یدی۔ نوروا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ نداء مصدر۔ باب مفاعلہ۔ ان کو پکارا جائیگا (ماضی بمعنی مستقبل) اور ثتموھا۔ تم اس کے وارث بنائے گئے۔ تمہیں وہ میراث میں دی گئی۔ واؤ اشباع کا ہے۔ اصل میں صیغہ اور ثتم ہے جو ایراث (افعال) سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف اور پاک کردیئے گائیں گے اور ان میں سے کوئی شخص دوسرے کو خلاف نفرت یا حسد کر جذبات نہیں رکھے گا حضرت علی (رض) فرماتے ہیں مجھے امید ہے کہ میں عثمان طلحہ اور زبیران لوگوں میں سے ہوں گے جن کا اس آیت میں ذکر ہے ّکذافی المو ضح)6 حضرت ابوہریر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر جہنمی جنت میں اپنا ٹھکا نہ یکھے گا اوحسرت کرے گا کہ کاش اللہ تعالیٰ مجھے بھی ہدایت دیتا اور ہر جنتی جب جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھے گا شکر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت نہ دیتا تو میرا یہ ٹھکاناہو تا۔ ( ابن جریر۔ نسائی)7 یہ بات اہل جنت کہیں گے کہ وقعی ان کی بات سچی تھی کہ ایمان اور عمل صالح کی جزا جنت ہے۔ ( کبیر)8 نیک اعمال کے بدلے جنت مل جانا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی عمل چاہے وہ کتنا ہی نیک ہو خود کوئی نفع نہیں دے سکتا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا جان لوتم میں سے کسی کا عمل سے جنت میں داخل نہیں کرے گا صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ کا عمل بھی آپ کو جنت میں داخل نہیں کرے گا فرمایا ہاں میرا عمل بھی نہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل و رحمت سے ڈھانک لے (بخاری مسلم) حضرت شاہ صاحب لکھت ہیں جنت کا وارث فرمایا یعنی آدم کی میراث پائی۔ ( مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس میں یہ بھی آگیا یہاں تک پہنچنے کا جو طریقہ تھا ایمان و اعمال وہ ہم کو بتلایا اور اس پرچلنے کی توفیق دی۔ 2۔ یہ نداء کرنے والا ایک فرشتہ ہوگا جیسا درمنثور میں بروایت ابن ابی حاتم کے ابی معاذ بصری سے مرفوعا منقول ہے۔ 3۔ بماکنتم تعملون سے ظاہرا اعمال کا سبب دخول جت ہونا معلوم ہوتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ اعمال کے سبب کوئی جنت میں نہ جائے گا بلکہ رحمت الہی کے سبب جائیں گے اصل یہ ہے کہ آیت میں سبب ظاہری مراد ہے اور حدیث میں سبب حقیقی پس ظاہری کے اثبات سے اور حقیقی کی نفی میں کوئی تعارض نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

ان کے دلوں کو پاک اور صاف کردیا جائے گا۔ یہ آپس میں اس طرح شیروشکر اور الفت و محبت سے رہیں گے جیسے دنیا میں ان کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ جنتی باہمی محبت اور جنت کے انعام وکرام پا کر اپنے رب کے ممنون اور شکر گزار ہوں گے اور کہیں گے کہ سب تعریفات اس ذات باری کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنی ہدایت سے سرشار اور سرفراز فرمایا۔ اگر ذات کبریا ہم کو ہدایت سے سرفراز نہ کرتی تو ہم کبھی ہدایت یافتہ نہ ہوتے۔ یقیناً یہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جدوجہد کا صلہ ہے جو انہوں نے حق بتلانے اور سمجھانے کے لیے فرمائیں۔ جنتی ان خیالات کا اظہار کررہے ہوں گے تو انہیں ایک آواز سنائی دے گی جس میں خوشخبری ہوگی۔ کہ اب تمہیں کوئی فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ تمہارے رب نے تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا وارث بنا دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رض) دونوں سے روایت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا اے اہل جنت ! تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہوگے، زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی، جوان رہو گے تم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، عیش میں زندگی گزاروگے تمہیں کبھی حزن وملال نہ ہوگا۔ یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا۔ مسائل ١۔ ایمان کے ساتھ صالح عمل کرنے والے ہی جنتی ہوں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنین کے دلوں سے رنجشیں دور کردے گا۔ ٣۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے والے جنت کے وارث ہوں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت کی نعمتوں کا اجمالی تذکرہ فرمانے کے بعد ان کے تشکر کا تذکرہ فرمایا کہ جنت میں جنتی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے یوں کہیں گے کہ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰینَا لِھٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لَآ اَنْ ھَدٰینَا اللّٰہُ ) (سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم کو یہاں تک پہنچا دیا اور ہم راہ پانے والے نہ تھے اگر اللہ ہم کو ہدایت نہ دیتا) دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ کی ہدایت دی یہ اس کا فعل ہے۔ اگر وہ ہدایت نہ دیتا تو کسی کو بھی ہدایت نہ ملتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیاوی ہدایت کو دخول جنت کا ذریعہ بنا دیا۔ اللہ کے ذمہ کسی کا کچھ واجب نہیں ہے۔ ایمان اور اعمال صالحہ پر جو اس کی دنیاوی و اخروی عطائیں اور بخششیں ہیں یہ سب اس کا فضل ہے۔ اہل جنت اسی فضل کا مذاکرہ کریں گے اور یوں کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہاں نہ پہنچاتا تو ہم یہاں نہیں پہنچ سکتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں گے (لَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ ) (بلاشبہ ہمارے رب کے پیغمبر حق لے کر ہمارے پاس آئے) ہم نے دنیا میں ان کی تصدیق کی اور اب ان کی باتوں کا سچ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر فرمایا (وَ نُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ندا دی جائے گی کہ یہ جنت تم کو ان اعمال کے بدلہ دی گئی جو تم دنیا میں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اعمال کی قدر دانی فرمائی اور تم کو جنت میں داخل فرمایا۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَ الْمِنَّۃ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48 جنت میں داخل ہونے کے بعد اہل جنت اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد و ثنا کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 اور ہم ان اصحاب جنت کے دلوں میں سے باہمی دنیوی رنجش اور خفگی سلب کرلیں گے ان اہل جنت کی حالت یہ ہوگی کہ ان کے پائیں نہریں بہ رہی ہوں گی اور وہ یوں کہیں گے اس خدا کا شکر ہے اور سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچانے میں ہماری رہنمائی فرمائی ہم کو ایمان اور نیک اعمال کی تعلیم اور توفیق دے کر ہمیں یہاں تک پہنچایا اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم کبھی بھی راہ یافتہ نہ ہوتے اور ہم کو اس مقام تک پہنچنا نصیب نہ ہوتا بیشک ہمارے پروردگار کے فرستادے ہمارے پاس سچی اور حق باتیں لے کر آئے تھے اور جو کچھ وہ پیغمبر فرماتے تھے وہ سب سچ ثابت ہوا اور ان اہل جنت کو آواز دی جائے گی کہ یہ جنت ہے اس کے تم وارث بنادیئے گئے ہو ان نیک اعمال کے صلہ میں جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے یعنی دنیا میں جو بعض دفعہ آپس کی کہن سن کی وجہ سے نیک بندوں کے دلوں میں کچھ رنجش رہ جاتی ہے اس کو جنت میں داخل ہوتے وقت سلب کرلیا جائے گا اور ان کی حالت اہل جہنم کی سی نہ ہوگی کہ باہم طعن وتشنیع اور لعنت و ملامت ہورہی ہے یہ لغویت یہاں نہیں ہوگی۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں میں اور طلحہ (رض) اور زبیر (رض) ان لوگوں میں سے ہیں جن کی باہمی رنجشیں سلب ہوجائیں گی اور سینہ بےکینہ اور دل صاف ہوکر جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس آیت میں حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت عمار بن یاسر (رض) ، حضرت سلمان (رض) اور حضرت ابو ذر (رض) کی طرف اشارہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ عام اہل جنت کی حالت کا اظہار مقصود ہو کہ وہاں کسی پر کسی کو حسد نہیں ہوگا اور نہ آپس میں کوئی جھگڑا ہوگا آواز دی جائے گی یعنی فرشتے یا کوئی خاص فرشتہ اہل جنت سے کہے گا۔ ورثہ اس لئے فرمایا کہ بہرحال جنت آدم کی میراث ہے جو ان کی مسلمان اولاد کو میراث میں دی جائے گی اور نیز اس لئے کہ تملیک کے لئے مضبوط اور بےکھٹکے طریقہ میراث ہی کا ہے۔