Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 5

سورة الأعراف

فَمَا کَانَ دَعۡوٰىہُمۡ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾

And their declaration when Our punishment came to them was only that they said, "Indeed, we were wrongdoers!"

سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی واقعی ہم ظالم تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No cry did they utter when Our torment came upon them but this: "Verily, we were wrongdoers." This means, when the torment came to them, their cry was that they admitted their sins and that they deserved to be punished. Allah said in a similar Ayah, وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَـلِمَة How many a town given to wrongdoing, have We destroyed, (21:11), until, خَـمِدِينَ (Extinct). (21:15) Allah's saying.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 لیکن عذاب آجانے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) 40 ۔ غافر :85) جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا، ان کے لئے نفع مند نہیں ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی اللہ کی گرفت ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب انسان اللہ کی تنبیہات سے بےنیاز ہو کر غفلت کی نیند سو جاتا ہے پھر جب اللہ کی گرفت یا اس کا عذاب واقع ہوجاتا ہے تو اس وقت یہ اعتراف کرنے لگتا ہے کہ یہ ہمارا ہی قصور تھا جو ہم غفلت میں پڑے رہے مگر وقت گزرنے کے بعد ایسا اعتراف کوئی فائدہ نہیں دیتا، بلکہ حسرت و یاس کا سبب بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرما یہ رہے ہیں کہ تمہارے سامنے بیسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ تم اسی وقت عبرت حاصل کرو جب تم خود عذاب میں گرفتار ہوجاؤ ؟ آخر تم گزشتہ اقوام کے انجام سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ : ” دعویٰ “ کا معنی دعا بھی ہوتا ہے اور ادّعا بھی، یعنی اس وقت ان سے سوائے گناہ کے اعتراف کے کچھ بن نہ پڑا اور وہ اپنے بنائے ہوئے اولیاء، یعنی جھوٹے معبودوں کو بھول گئے اور اپنے تمام دعوے بھی، مثلاً یہ کہ آخرت کو بھی ہم ہی مقرب ہوں گے، مگر اس وقت کا اعتراف گناہ ان کے کس کام آسکتا تھا ؟ جب گناہ سے توبہ کا وقت تھا اس وقت تو غفلت کی نیند سوتے رہے۔ ایسے وقت میں ان کے منہ سے بےساختہ یہ الفاظ نکلنے سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے بھی ان کے دماغ میں یہ بات ہر وقت رہتی تھی کہ تم شرک کر کے اور اللہ کے رسول کو جھٹلا کر ظلم کر رہے ہو، مگر ان کے تکبر اور عناد نے انھیں اقرار نہیں کرنے دیا۔ دیکھیے سورة انبیاء (١١ تا ١٥) اور سورة مومن ( ٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا كَانَ دَعْوٰىہُمْ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا ظٰلِـمِيْنَ۝ ٥ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (فَمَا کَانَ دَعْوٰٹہُمْ اِذْ جَآءَ ہُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ ) واقعتا ہمارے رسولوں نے تو ہماری آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی تھی مگر ہم نے ہی اپنی جانوں پر زیادتی کی جو ان کی دعوت کو نہ مانا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. People can learn a lesson from the tragic fate of those nations that spurned God's Guidance. and instead followed the guidance of others; and they became so degenerate that their very existence became an intolerable burden on the earth. Eventually, God's scourge seized them. and the earth was cleansed of their filthy existence. The words uttered by, the evil-doers: 'We are indeed transgressors', emphasizes two points, First, that it is pointless for one to realize and repent of one's wrong-doing after the time for such repentance is past. Individuals and communities who allow the term granted to them to be wasted in heedlesness and frivolity, who turn a deaf car to those who invite them to the truth, have so often been overtaken in the past by God's punishmet. Second, there are numerous instances of individuals as well as communities which incontrovertibly prove that when the wrong-doings of a nation exceed a certain limit, the term granted to it expires and God's punishment suddenly overtakes it. And once a nation is subjected to God's punishment, there is no escape from it. Since human history abounds in such instances, there is no reason why people should persist in the same iniquity, and repent only when the time for repentance has passed.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :5 یعنی تمہاری عبرت کے لیے ان قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہو کر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابلِ برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کر دیا ۔ آخری فقرے سے مقصد دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے ۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں نہ آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے ۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سُنے جائے اور ہوش میں صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑ چکا ہو ۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میں بھی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں تمہارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہو چکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے ، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی ۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہو چکا ہے تو آخر کیا ضرور ہے کہ انسان اسی غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں آنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں نہ آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی سوائے اعتراف گناہ کے کچھ بن نہ پڑا اور اپنے تمام جھوٹے معبودوں کو بھول گئے مگر اس وقت کا عتراف گناہ ان کے کس کام آسکتا تھا ؟ جب گناہ سے توبہ کرنے کا وقت تھا اس وقت تو غفلت کی نید سونے ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی اس وقت اپنے جرم کا اقرار کیا جب کہ اقرار کا وقت گزر گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” فَمَا کَانَ دَعْوَاہُمْ إِذْ جَاء ہُمْ بَأْسُنَا إِلاَّ أَن قَالُواْ إِنَّا کُنَّا ظَالِمِیْنَ (5) ” اور جب ہمارا عذاب ان پر آگیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے ۔ “ انسان ہر قسم کے بہانے تلاش کرتا ہے لیکن اعتراف اس کے لئے مشکل کام ہوتا ہے ۔ وہ آخری وقت تک اقرار نہیں کرتا ۔ لیکن ان لوگوں کو عذاب الہی نے اس قدر اچانک آلیا تھا کہ ماسوائے اقرار کے ان میں اور کوئی حجت نہی رہی تھی اس لئے کہ وہ نہایت ہی خوفناک اور مرعوب کن پوزیشن میں ڈال دیئے گئے تھے ایسی پوزیشن میں جہاں اقرار و اعتراف آخری کوشش ہوتی ہے ۔ یہاں انہوں نے ظلم یعنی شرک کا اقرار کیا ۔ یہاں ظلم سے مراد وہ شرک لیتے ہیں ۔ قرآن کریم کی تعبیرات میں سے بیشتر میں ظلم سے مراد شرک ہی ہے ۔ ظاہر ہے شرک ظلم ہے اور ظلم شرک ہے اس لئے کہ جو شخص اپنے خالق کے ساتھ کسی کو شریک کرے اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے ۔ ؟ اب ذرا دیکھئے کہ دنیا کے عذاب کا منظر نظروں کے سامنے ہے ‘ جھٹلانے والے عذاب الہی کی گرفت میں ہیں اور وہ اعتراف کررہے ہیں کہ بیشک وہ ظالم تھے ‘ حق ان کے سامنے واضح ہوجاتا ہے اور وہ حق کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں لیکن اب یہ اعتراف ان کے لئے مفید مطلب نہیں ہے ۔ یہ عذاب اب ندامت اور اعتراف کی وجہ سے نہیں ٹل سکتا ‘ نہ اب توبہ مفید ہے اس لئے کہ توبہ وندامت کا وقت چلا گیا ہے اور توبہ کا دروازہ بند ہے ۔ یہ منظر ابھی چل رہا ہے اور دنیا کی سطح پر وہ عذاب الہی سے کچلے جا رہے ہیں ‘ کہ اچانک دیکھنے والے اپنے آپ کو میدان حشر میں پاتے ہیں ‘ کوئی وقفہ درمیان میں نہیں ہے ۔ سیاق کلام ایک ریل پر چل رہا ہے جو جڑی ہوئی ہے اور منظر کے بعد منظر سامنے آتا ہے ۔ زمان ومکان کی طنابیں کھنچ جاتی ہیں اور دنیا وآخرت باہم مل جاتے ہیں ۔ عذاب دنیا ابھی ختم نہیں ہوا کہ آخرت کا عذاب شروع ہوجاتا ہے ۔ اچانک دوسرا منظر سامنے ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 پھر جب ہمارا عذاب ان پر آپہنچا تو پھر ان کے منہ سے سوائے اس کے کچھ نہ نکلتا تھا اور ان کی چیخ و پکار بجز اس کے کچھ نہ تھی کہ وہ کہتے تھے بیشک ہم ہی ظالم تھے۔ یعنی اپنے جرم کا اقرار کرنے لگے۔