Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 50

سورة الأعراف

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۰﴾

And the companions of the Fire will call to the companions of Paradise, "Pour upon us some water or from whatever Allah has provided you." They will say, "Indeed, Allah has forbidden them both to the disbelievers."

اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالٰی نے دونوں چیزوں کی کافروں کے لئے بندش کر دی ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Favors of paradise are Prohibited for the People of the Fire Allah emphasizes the disgrace of the people of the Fire. They will ask the people of Paradise for some of their drink and food, but they will not be given any of that. He says; وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُواْ عَلَيْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ ... And the dwellers of the Fire will call to the dwellers of Paradise: "Pour on us some water or anything that Allah has provided you with." As-Suddi said, "That is food". Ath-Thawri said that Uthman Ath-Thaqafi said that Sa`id bin Jubayr commented on this Ayah, "One of them will call his father or brother, `I have been burned, so pour some water on me.' The believers will be asked to reply, and they will reply, ... قَالُواْ إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ They will say: "Both Allah has forbidden to the disbelievers."" Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that, إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ ("Both Allah has forbidden to the disbelievers)." "Refers to the food and drink of Paradise." Allah says,

جیسی کرنی ویسی بھرنی دوزخیوں کی ذلت و خواری اور ان کا بھیک مانگنا اور ڈانٹ دیا جانا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جنتیوں سے پانی یا کھانا مانگیں گے ۔ اپنے نزدیک کے رشتے کنبے والے جیسے باپ بیٹے بھائی بہن وغیرہ سے کہیں گے کہ ہم جل بھن رہے ہیں ، بھوکے پیاسے ہیں ، ہمیں ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانا دے دو ۔ وہ بحکم الٰہی انہیں جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ کفار پر حرام ہے ۔ ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے ۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے مروی ہے کہ جب ابو طالب موت کی بیماری میں مبتلا ہوا تو قریشیوں نے اس سے کہا کسی کو بھیج کر اپنے بھتیجے سے کہلواؤ کہ وہ تمہارے پاس جنتی انگور کا ایک خوشہ بھجوا دے تاکہ تیری بیماری جاتی رہے ۔ جس وقت قاصد حضور کے پاس آتا ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پاس موجود تھے ۔ سنتے ہی فرمانے لگے اللہ نے جنت کی کھانے پینے کی چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں ۔ پھر ان کی بد کرداری بیان فرمائی کہ یہ لوگ دین حق کو ایک ہنسی کھیل سمجھے ہوئے تھے دنیا کی زینت اور اس کے بناؤ چناؤ میں ہی عمر بھر مشغول رہے ۔ یہ چونکہ اس دن کو بھول بسر گئے تھے اس کے بدلے ہم بھی ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے جو کسی بھول جانے والے کا معاملہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ بھولنے سے پاک ہے اس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں سکتی ۔ فرماتا ہے آیت ( لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى 52؀ۡ ) 20-طه:52 ) نہ وہ بہکے نہ بھولے ۔ یہاں جو فرمایا یہ صرف مقابلہ کیلئے ہے جیسے فرمان ہے آیت ( نسو اللہ فنسیھم ) اور جیسے دوسری آیت میں ہے ( قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى ١٢٦؁ ) 20-طه:126 ) فرمان ہے ( الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 34؀ ) 45- الجاثية:34 ) تیرے پاس ہماری نشانیاں آئی تھیں جنہیں تو بھلا بیٹھا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا وغیرہ ۔ پس یہ بھلائیوں سے بالقصد بھلا دیئے جائیں گے ۔ ہاں برائیاں اور عذاب برابر ہوتے رہیں گے ۔ انہوں نے اس دن کی ملاقات کو بھلایا ہم نے انہیں آگ میں چھوڑا رحمت سے دور کیا جیسے یہ عمل سے دور تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیئے تھے؟ کیا عزت آبرو نہیں دی تھی ؟ کیا گھوڑے اور اونٹ تیرے مطیع نہیں کئے تھے؟ اور کیا تجھے قسم قسم کی راحتوں میں آزاد نہیں رکھا تھا ؟ بندہ جواب دے گا کہ ہاں پروردگار بیشک تو نے ایسا ہی کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر کیا تو میری ملاقات پر ایمان رکھتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس میں بھی آج تجھے ایسا ہی بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھول گیا تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 جس طرح پہلے گزر چکا ہے کہ کھانے پینے کی نعمتیں قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہونگی (خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ) 7 ۔ الاعرف :32) یہاں اس کی مزید وضاحت جنتیوں کی زبان سے کردی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٩] دوزخی جب آگ میں جل رہے ہوں گے تو اپنے دنیا کے شناسا اہل جنت سے فریاد کریں گے کہ ہم پر کچھ پانی ہی گرا دو تاکہ ہمیں کچھ آرام مل سکے یا کچھ کھانے کے لیے ہی گرا دو ۔ اہل جنت اس کا یہ جواب دیں گے کہ یہ چیزیں تم پر حرام کردی گئی ہیں لہذا ہم اللہ کی نافرمانی کر کے خود گناہ گار نہیں بننا چاہتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ : جیسا کہ پہلے گزرا کہ جنت کی نعمتیں اہل ایمان کے لیے خالص ہوں گی، جنتی انھیں جواب دیں گے کہ جنت کا پانی اور رزق اللہ تعالیٰ نے کافروں پر حرام کردیا ہے، لہٰذا ہم تم سے کوئی ہمدردی کا سلوک کر کے اس کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اصحاب اعراف کے جنت میں داخل ہونے کے بعد کفار، یعنی جہنمی لوگ یہ فریاد کریں گے۔ (شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور (جس طرح اوپر جنت والوں نے دوزخ والوں سے گفتگو کی اسی طرح) دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ (ہم مارے بھوک اور پیاس اور گرمی کے بےدم ہوئے جاتے ہیں، خدا کے واسطے) ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو (شاید کچھ تسکین ہوجائے) یا اور ہی کچھ دیدد، جو اللہ تعالیٰ نے تم کو دے رکھا ہے (اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ امید کرکے مانگیں گے، کیونکہ غایت اضطراب میں بعید از توقع باتیں بھی منہ سے نکلا کرتی ہیں) جنت والے (جواب میں) کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی (یعنی جنت کے کھانے اور پینے کی) کافروں کے لئے بندش کر رکھی ہے، جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو (جس کا قبول کرنا ان کے ذمہ واجب تھا) لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیوی زندگانی نے دھوکہ (اور غفلت) میں ڈال رکھا تھا (اس لئے دین کی کچھ پرواہی نہ کی، اور یہ دار الجزاء ہے، جب دین نہیں اس کا ثمرہ کہاں، آگے حق تعالیٰ اہل جنت کے اس جواب کی تصدیق و تائید میں فرماتے ہیں) سو (جب ان کی دنیا میں یہ حالت تھی تو) ہم بھی آج (قیام) کے روز ان کا نام نہ لیں گے (اور کھانا پینا خاک نہ دیں گے) جیسا انہوں نے اس (عظیم الشان) دن کا نام نہ لیا، اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے، اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے (یعنی قرآن) جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت ہی واضح واضح کرکے بیان کردیا ہے (اور یہ بیان سب کے سنانے کو کیا ہے لیکن) ذریعہ ہدایت اور رحمت ان (ہی) لوگوں کے لئے (ہوا) ہے جو (اس کو سن کر) ایمان لے آتے ہیں (اور جو باوجود اتمام حجت کے ایمان نہیں لاتے، ان کی حالت سے ایسا مترشح ہوا ہے کہ) ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس (قرآن) کے بتلائے ہوئے اخیر نتیجہ (یعنی وعدہ سزا) کا انتظار ہے (یعنی قبل از عذاب وعید سے نہیں ڈرتے تو خود عذاب کا وقوع چاہتے ہوں گے سو) جس روز اس کا (بتلایا ہوا) اخیر نتیجہ پیش آئے گا (جس کی تفصیل دوزخ وغیرہ کی اوپر مذکور ہوئی) اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے (مضطر ہو کر یوں کہنے) لگیں گے واقعی ہمارے رب کے پیغمبر (دنیا میں) سچی سچی باتیں لائے تھے (مگر ہم سے حماقت ہوئی) سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر (دنیا میں) واپس بھیجے جاسکے ہیں، تاکہ ہم لوگ (پھر دنیا میں جاکر) ان اعمال (بد) کے جن کو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال (نیک) کریں (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب کوئی صورت نجات کی نہیں) بیشک ان لوگوں نے اپنے کو (کفر کے) خسارے میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے (اس وقت) سب گم ہوگیا (اب بجز سزا کے اور کچھ نہ ہوگا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَہُمْ لَہْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ فَالْيَوْمَ نَنْسٰـىہُمْ كَـمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِہِمْ ھٰذَا۝ ٠ ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۝ ٥١ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ لهو [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا . ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم . ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠۔ ٥١) پھر اللہ تعالیٰ اصحاب اعراف سے فرمائے گا، جنت میں داخل ہوجاؤ آج عذاب کا تم پر کوئی خوف نہیں اور دوزخی جنتیوں سے کہیں گے کہ ہم پر کچھ پانی ڈالو اور کچھ جنت کے میوے دے دو ، اہل جنت کہیں گے کہ جنت کے میوے ایسے لوگوں پر، جنہوں نے دین کو مذاق بنا لیا تھا حرام کردیے گئے ہیں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے حرام کردیئے ہیں) اور جو دنیاوی فراخیوں میں مست تھے، قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو دوزخ میں اسی طرح چھوڑتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اس دن کے اقرار کو چھوڑ دیا تھا اور وہ ہمارے رسولوں کی تکذیب کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَنَادآی اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ اَفِیْضُوْاعَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ط) (قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ) اہل جنت جواب دیں گے کہ ہم تو شاید یہ چیزیں تم لوگوں کو دینا بھی چاہتے ‘ کیونکہ ہماری شرافت سے تو یہ بعید تھا کہ تمہیں کو را جواب دیتے ‘ لیکن کیا کریں ‘ اللہ نے کافروں کے لیے جنت کی یہ سب چیزیں حرام کردی ہیں ‘ لہٰذا ہم یہ نعمتیں تمہاری طرف نہیں بھیج سکتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(50 ۔ 51) ۔ دوزخ والے جنت والے سے بھیک کی طرح جنت کی نعمتیں مانگے گیں تو جنتی صاف جواب دیں گے کہ جنت کے یہ دونوں چیزیں خدا تعالیٰ نے تمہارے اوپر حرام کردی ہیں اس لئے تم کو کوئی چیز نہیں مل سکتی تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کسی نے دریافت کیا کہ بہتر صدقہ کونسا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے جواب دیا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ بہتر صدقہ پانی ہے کہا پھر تجھ کو معلوم نہیں کہ دوزخی لوگ بہشتیوں سے فریاد کر کے کہیں گے کہ تھوڑا پانی اور تم کو جو اللہ نے رزق دیا ہے اس میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس آیت میں طعام و شراب سے جنت کا کھانا پینا مقصود ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ یہ مانگنے والے پانی اور کھانے کے وہ لوگ ہوں گے جن کو دنیا میں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا تو وہ ہنستے اور ٹھٹھا کرتے تھے یا جن کو شیطان نے ان کے برے عمل ان کو اچھے دکھلائے تھے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس سائل کے جواب میں مبہم طور پر ایک حدیث کا حوالہ جو دیا ہے یہ حدیث سعد بن عبادہ (رض) کے قصے کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا انہوں نے اپنی ماں کے نام پر کچھ خیرات کے دینے کا مسئلہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام طور پر مردوں کے نام پر خیرات دینے کا حکم دیا سعد بن عبادہ (رض) نے پھر پوچھا کہ حضرت افضل خیرات کیا ہے آپ نے فرمایا لوگوں کے پانی پینے کا کوئی ذریعہ قائم کردیا جائے سعد بن عبادہ (رض) نے اس کے بعد ایک کنواں کھودوا دیا یہ حدیث خود سعید بن عبادہ (رض) کی روایت سے ابوداؤدو نسائی ابن ماجہ ‘ صحیح ابن خزیمہ صحیح ابن حبان اور مستدرج حاکم میں ہے اگرچہ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں اعتراض ہے کہ اس کو سعید بن مسیب اور حسن بصر نے سعد بن عبادہ (رض) سے روایت کیا ہے اگر سعید بن مسیب اور حسن بصری دونوں کو سعد بن عبادہ (رض) سے ملاقات اور روایت کا موقعہ نہیں ملاہاں اوسط طبرانی میں یہ حدیث انس بن مالک (رض) کی روایت سے بھی ہے جس کی سند اچھی ہے اس لئے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے۔ معتبر سند سے صحیح ابن حبان میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی روایت ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن پانسو برس کے فاصلہ تک جنت کے میووں کی خوشبو آوے گی مگر جن لوگوں کو جنت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کو منطور نہیں ہے ان کی ناک میں خوشبو نہیں آوے گی۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا جنت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے ان کو جنت کے کھانے پانی کا میسر آنا تو درکنار بلکہ ایسے لوگوں کی ناک میں بھی جنت کے میووں کی خوشبو نہیں آسکتی صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان منکر قیامت لوگوں کو دنیا کی اپنی طرح طرح کی نعمتیں یاد دلاوے گا اور جب یہ لوگ ان نعمتوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرماویگا کہ ان نعمتوں کی شکر گذراری میں تم لوگوں نے آج کے دن کی سرخرئی کے لئے کچھ میری یاد بھی کی تھی وہ لوگ کہویں گے کہ نہیں ہیں پر اللہ تعالیٰ فرماویگا جس طرح دنیا میں تم لوگوں نے مجھ کو بھلا دیا اسی طرح آج میں بھی بھولے بسروں کی طرح تم لوگوں کو اپنی نظر رحمت سے دور ڈال دیتا ہوں قرآن اور عقبے کے جن منکر لوگوں کا آخرت میں ذکر ہے قیامت کے دن ان لوگوں کا جو کچھ انجام ہوگا اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:50) افیضوا علینا من المائ۔ افیضوا۔ تم بہاؤ۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ افاضۃ سے۔ افاض المائ۔ کسی جگہ سے پانی کا اچھل کر بہ نکلنا۔ آنسؤں کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے فرمایا تری اعینھم تفیض من الدمع (5:83) تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ قرآن میں آیا ہے ثم افیضوا من حیث افاض الناس (2:199) پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو۔ یہاں افاضۃ کے معنی مجمع کثیر کے یکبار گی لوٹنے کے ہیں۔ اور یہ فیضان الماء (یعنی پانی کا زور سے بہ نکلنا) کے ساتھ تشبیہ سے کر بولا جاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 لہذا ہم تم سے کوئی ہمدردی کا سلوک کرکے اس کی نافرمانی کریں گے۔ (وحیدی) بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اصحاب اعراف کے جنت میں داخل ہونے کے بعد کفار جہنمی لوگ یہ فریاد کریں گے ( شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (50 تا 53 ) ۔ افیضوا (بہائو ) ۔ الماء (پانی ) ۔ حرم (حرام کردیا۔ روک دیا ) ۔ غرت (دھوکے میں ڈال دیا) ۔ ننسی (ہم نے بھلا دیا ) ۔ یجحدون (وہ انکار کرتے ہیں ) ۔ فصلنا (ہم نے تفصیل بتا دی ) ۔ تاویل (انجام ۔ پھیرنا ) ۔ شفعاء (شفیع) ۔ سفارشی) ۔ نرد (ہم لوٹائے جائیں) ۔ نعمل (ہم کام کریں گے ) ۔ تشریح : آیت نمبر (50 تا 53 ) ۔” جس طرح جنت والوں نے جہنم والوں سے کلام کیا تھا۔ اسی طرح اب جہنم والے اہل جنت سے اپنی شدید پیاس اور تڑپادینے والی بھوک کا حوالہ دے کر رحم و کرم کی بھیک مانگیں گے۔ کفار مکہ جنت ، جہنم، قیامت کے دن اور اللہ کے انصاف کو اہمیت نہیں دیتے تھے وہ دنیا کے رزق اقتدار اور لالچ میں اس طرح الجھے ہوئے تھے کہ ان کے لئے دین اور اسکی سچائیاں کھیل کود سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ اس سورة کی یہ آیات جنت ، جہنم قیامت اور کفار کی بےبسی کی ایک تصویر کے ایک حصے کو ہماری بصیرت اور بصارت کیلئے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔ کچھ اس طرح کہ ہماری فکر میں انقلاب اور ہمارے دل و دماغ میں ارتعاش سا آجاتا ہے۔ ہم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ اگر ہم عقل و فکر سے بالکل ہی عاری نہیں ہوگئے ہیں تو یہ سوال اپنی پوری قوت سے ہمارے ذہن و فکر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ موت کے بعد ہمارا انجام کیا ہوگا۔ ؟ ہم جنت والے بنیں گے یا جہنم والے۔ جنت ہماری ملکیت ہوگی یا ہم جہنم کا ایندھن بنیں گے ؟ یہ فیصلہ آج ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یا ہم دنیا کی نعمتوں میں مست ہو کر اللہ کے دین کو ہنسی مذاق بنا لیں یا ایمان لا کر اس صراط مستقیم کو اختیار کرلیں جو ہدایت اور رحمت ہی رحمت ہے۔ کفار عرب اور آج کفار عالم کے سامنے اللہ تعالیٰ کی تین تین نشانیاں اپنی پوری روشنی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ 1) اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب۔ (2) اللہ کے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قولی اور عملی زندگی۔ (3) پیغمبر اسلام کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) اور دیگر مومنین کی زندگیاں۔ دین اسلام نے نہ صرف ذہن و فکر میں طوفان برپا کیا بلکہ مادی اور سیاسی دنیا میں بھی تاریخی انقلابات برپا کئے ہیں۔ اس سے زیادہ بےعقل ناسمجھ اور بد نصیب کون ہوگا۔ جو اسے نہ پڑھے، نہ سمجھے اور نہ عمل کرے۔ دین اسلام میں علم کا مقام بنیادی ہے۔ قرآنی وحی کا پہلا لفظ ” اقراء باسم ربک “ کی شرط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سورة فاتحہ کے بعد قرآن مجید ” ذلک الکتب “ سے شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔ پہلے انسان اور پہلے نبی حضرت آدم (علیہ السلام) جب دنیا میں تشریف لائے تو تمام اسماء کے علوم سے مسلح اور مزین ہو کر تشریف لائے۔ اسی علم کے سامنے تمام فرشتے ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ضروری علم کی تفصیل موجود ہے۔ یہ علم وہ ہے جو عمل کی راہیں آسان کرتا ہے۔ یہ صرف معلومات کا ایک ڈھیر نہیں ہے۔ اس علم کا ایک مقصد ہے ایک متعین سمت ہے۔ ایک خصوصی رہنمائی ہے۔ یہ نہ صرف ہدایت ہے بلکہ رحمت بھی ہے۔۔۔۔ جو اس ہدایت کی روشنی میں چلے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو اس راستے کو چھوڑ کر جہالت کی اندھیریوں میں بھٹک جائے گا وہ جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ اس پر عمل تو بہت بڑی بات ہے اس قرآن کریم کی تلاوت بھی رحمت ہے۔۔۔۔ جلد اور اوراق میں تنگ نظروں کو یہ صرف ایک کتاب نظر آتی ہے لیکن جلد اور اوراق سے باہر یہ ایک انقلاب ہے۔ فرد ساز ہے، جماعت ساز ہے، تاریخ ساز ہے ، تمام علوم و فنون کا سر چشمہ ہے۔ تمام اصول و عقول کا بنیادی پتھر ہے۔ قرآن حکیم تقویٰ ، پرہیز گاری اور جنت کا راستہ ہے زندگی کے بعد موت کا اور موت کے بعد زندگی کی روشنی ہے۔ یہاں ہدایت اور رحمت، کے الفاظ سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے درحقیقت ہدایت اور رحمت ایک تسلسل کا نام ہے جس طرح سورج کا نکلنا، چاند کا آنا، ہوا کا چلنا، بارش کا برسنا، رزق کا پیدا ہونا اور خرچ ہونا، مرنا اور جینا وغیرہ جس طرح یہ چیزیں ایک ساتھ اور ایک ہی قسط میں نہیں آتیں اسی طرح ہدایت اور رحمت بھی ایک ہی قسط میں نہیں آجاتیں ۔ ان کی مسلسل بارش کی ضرورت ہے۔ اسلئے ہمیں ” اھدنا الصراط المستقیم “ (ہمیں سیدھا راستہ دکھایئے) ” واعف عنا “ (ہمیں معاف کر دیجئے) ” واغفرلنا “ (ہماری مغفرت کر دیجئے) ” وارحمنا “ (ہم پر رحم کیجئے) جیسی دعاؤں کو مانگنے کا شب روز اور پانچ وقت کی نمازوں میں حکم دیا گیا ہے تاکہ اللہ کی رحمتیں مسلسل نازل ہوتی رہیں۔ کتاب الہٰی وہ کتاب نہیں ہے جس کو ایک بار یا دو بار پڑھ کر ساری باتیں سمٹ کر سمجھ میں آجائیں گی بلکہ اس کو مسلسل پڑھنا ہے۔ پڑھنا پڑھنا اور پڑھتے چلے جانا ہے ہر بار نیا لطف ۔ نئی ہدایت اور نئی رحمت نصیب ہوتی چلی جائے گی۔ آیت نمبر 53 کا خلاصہ یہ ہے کہ : جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب سے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قولی اور عملی زندگی سے اور صحابہ کرام (رض) کی تاریخی زندگی سے روشنی حاصل نہ کرے وہ درحقیقت جہنم کی طرف بڑی تیزی سے دوڑرہا ہے۔ اس کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب جہنم کا عذاب اس کے سامنے آکھڑا ہوگا۔ اس وقت وہ لوگ بچنے کے لئے طرح طرح سے ہاتھ پیر ماریں گے۔ سفارشیں ڈھونڈیں گے، دنیا میں واپس جانے کے جتن کریں گے، بہانے گھڑیں گے۔ وہ امید کی نظروں سے اپنے جھوٹے معبودوں کو تلاش کریں گے مگر ان کو ہر طرف سے مایوسی ہی مایوسی ہوگی۔۔۔۔ کیونکہ جو عمل کرنے کا وقت تھا وہ گذر گیا۔ ۔۔ ۔ اب ان کو اپنے برے انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں برے لوگوں کی راہوں پر چلنے سے محفوظ فرمائے ” آمین “

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوزخیوں کا اہل جنت سے پانی طلب کرنا اور دنیا میں واپس آنے کی آرزو کرنا اہل جنت اور اہل اعراف جو دوزخیوں سے خطاب کریں گے۔ گزشتہ آیات میں اس کا تذکرہ فرمایا۔ اس آیت میں اہل دوزخ کے خطاب کا ذکر ہے وہ اہل جنت سے اپنے عذاب کی تخفیف کے لیے سوال کریں گے اور ان سے اپنے لیے کچھ مانگیں گے، وہ کہیں گے کہ ہمارے اوپر کچھ پانی بہا دو ۔ یا دوسری چیزیں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہیں ان میں سے کچھ ہماری طرف بھی بھیج دو ۔ اہل جنت جواب دیں گے کہ جنت کا پانی اور جنت کی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر حرام کردی ہیں۔ ہم تمہارا سوال کیسے پورا کرسکتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56: یہ مکالمہ جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان ہوگا۔ “ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰهُ ” ای القوا علینا مما رزقکم اللہ۔ یعنی یہاں القو فعل محذوف ہے۔ اور یہ علفتہا تبنا و ماء بارداً کے قبیل سے ہے یعنی ہم پر تھوڑٓ سا پانی ہی گرا دو یا اور جو نعمتیں اللہ نے تم کو دی ہیں ان میں سے کچھ ہماری طرف پھینک دو ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50 اوراہل دوزخ جنت والوں سے پکار کر یوں کہیں گے کہ اے اہل جنت ہم آگ میں جھلس رہے ہیں تم ہم پر کچھ پانی ہی ڈال دو یا تم کو اللہ تعالیٰ نے جو روزی عطا فرمائی ہے اس میں سے کچھ ہم کو دیدو اہل جنت جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں چیزیں بند کردی ہیں اور ممانعت فرمادی ہے اور ان منکروں کے لئے ان دونوں چیزوں کی بندش کردی گئی ہے۔