Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 53

سورة الأعراف

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِیۡلَہٗ ؕ یَوۡمَ یَاۡتِیۡ تَاۡوِیۡلُہٗ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ نَسُوۡہُ مِنۡ قَبۡلُ قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ۚ فَہَلۡ لَّنَا مِنۡ شُفَعَآءَ فَیَشۡفَعُوۡا لَنَاۤ اَوۡ نُرَدُّ فَنَعۡمَلَ غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ قَدۡ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿٪۵۳﴾  13

Do they await except its result? The Day its result comes those who had ignored it before will say, "The messengers of our Lord had come with the truth, so are there [now] any intercessors to intercede for us or could we be sent back to do other than we used to do?" They will have lost themselves, and lost from them is what they used to invent.

ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ہے جس روز اس کا اخیر نتیجہ پیش آئے گا اور اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے جن کو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے سب گم ہوگئیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ تَأْوِيلَهُ ... Await they just for the final fulfillment of the event, in reference to what they were promised of torment, punishment, the Fire; or Paradise, according to Mujahid and several others. ... يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ ... On the Day the event is finally fulfilled, According to Ibn Abbas, on the Day of Resurrection, ... يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ ... those who neglected it before will say, those who ignored it in this life and neglected abiding by its implications will say, ... قَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاء فَيَشْفَعُواْ لَنَا ... "Verily, the Messengers of our Lord did come with the truth, now are there any intercessors for us that they might intercede on our behalf!" so that we are saved from what we ended up in. ... أَوْ نُرَدُّ ... "Or could we be sent back," to the first life, ... فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ... "So that we might do (good) deeds other than those (evil) deeds which we used to do." This part of the Ayah is similar to Allah's statement, وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ If you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! They will say: "Would that we were but sent back! Then we would not deny the Ayat of our Lord, and we would be of the believers!" Nay, it has become manifest to them what they had been concealing before. But if they were returned (to the world), they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars. (6:27-28) Allah said here, ... قَدْ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ ... Verily, they have lost themselves, meaning, they destroyed themselves by entering the Fire for eternity, ... وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ And that which they used to fabricate has gone away from them. What they used to worship instead of Allah abandoned them and will not intercede on their behalf, aid them or save them from their fate.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 تاویل کا مطلب ہے کسی چیز کی اصل حقیقت۔ یعنی کتاب الٰہی کے ذریعے سے وعدے، وعید اور جنت و دوزخ وغیرہ کا بیان تو کردیا تھا، لیکن یہ اس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے منتظر تھے، سو اب وہ انجام ان کے سامنے آگیا۔ 53۔ 2 یعنی جس انجام کے منتظر تھے اس کے سامنے آجانے کے بعد اعتراف حق کرنے یا دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی آرزو اور کسی سفارش کی تلاش، یہ سب بےفائدہ ہونگی۔ وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وہ ان کی مدد کرسکیں گے نہ سفارش اور نہ عذاب جہنم سے چھڑا ہی سکیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] اہل دوزخ کی دوبارہ دنیا میں آنے کی درخواست اور اس کا جواب :۔ تاویل سے مراد کسی خبر کا مصداق یا اس کے واقع ہونے کا وقت ہے اور یہاں مراد قیامت کا واقع ہونا ہے یعنی جب قیامت واقع ہوجائے گی تو اس وقت کافر کہیں گے کہ وہ بات تو سچ نکلی جو رسول کہا کرتے تھے۔ اب کیا کیا جائے ؟ اب تو ہمیں یقیناً سزا ملے گی پہلے وہ عذاب سے بچاؤ کے لیے کوئی سفارشی دیکھیں گے جب وہ نہ ملے گا تو دنیا میں دوبارہ آنے اور دوبارہ امتحان دینے کی درخواست کریں گے اور کہیں گے کہ اب کی بار ہم یقیناً اللہ کے فرمانبردار بن کے رہیں گے اور یقیناً اس امتحان میں کامیاب اتریں گے۔ اللہ نے اس مقام پر ان کی اس درخواست کا جواب ذکر نہیں فرمایا تاہم بعض دوسرے مقامات پر انہیں دو طرح کے جواب دیئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جب انہوں نے حقیقت کا مشاہدہ کرلیا اور غیب کے پردے اٹھ گئے تو پھر اب ایمان کیسا اور فرمانبرداری کیسی ؟ کیونکہ ایمان کی صفت ہی غیب پر ایمان لانا ہے اور آنکھوں دیکھی چیزوں پر تو کافر بھی یقین کرلیتے ہیں لہذا اس وقت ایمان لانے کا کچھ مطلب ہی نہیں اور نہ ایسا ایمان کچھ فائدہ ہی دے سکتا ہے اور دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت دنیا کی رنگینیوں میں پھر بھی ایسے ہی محو ہوجائیں گے اور اسی طرح کے نافرمان بن جائیں گے جیسے پہلے تھے اور انہیں یہ وعدہ یاد تک نہ رہے گا جیسے دنیا میں جو کچھ یہ لوگ باتیں بنایا کرتے تھے آج انہیں ان میں سے کچھ یاد نہیں پڑتا۔ اسی طرح دوبارہ دنیا میں جا کر اس وقت کے وعدہ کو بھی بھول جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ ۭ: تاویل کا معنی کسی چیز کی اصل حقیقت یا اس کا انجام ہے۔ اس میں جھٹلانے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ قرآن میں جس عذاب (دنیوی یا اخروی) کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، کیا وہ اس کے پیش آنے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ ۔۔ : شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی کافر راہ دیکھتے ہیں کہ اس کتاب میں خبر ہے عذاب کی۔ ہم دیکھ لیں کہ ٹھیک پڑے ( درست نکلے) تب قبول کرلیں۔ سو جب ٹھیک پڑے گی تو خلاصی کہاں ملے گی۔ خبر اس لیے ہے کہ آگے ( پہلے) سے بچاؤ پکڑیں۔ “ (موضح) یعنی جس انجام کے یہ منتظر تھے اس کے سامنے آجانے کے بعد حق کا اعتراف یا دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی آرزو اور کسی سفارشی کی تلاش، یہ سب چیزیں بےفائدہ ہوں گی، وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وہ ان کی مدد کرسکیں گے نہ سفارش اور نہ جہنم کے عذاب سے چھڑا سکیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۝ ٠ ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيْثًا۝ ٠ ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۝ ٠ ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝ ٠ ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٥٤ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ طلب الطَّلَبُ : الفحص عن وجود الشیء، عينا کان أو معنی. قال تعالی: أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً [ الكهف/ 41] ، وقال : ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ [ الحج/ 73] ، وأَطْلَبْتُ فلاناً : إذا أسعفته لما طَلَبَ ، وإذا أحوجته إلى الطَّلَبِ ، وأَطْلَبَ الكلأُ : إذا تباعد حتی احتاج أن يُطْلَبَ. ( ط ل ب ) الطلب ( ن ) کے معنی کسی شے کے پانے کی تلاش اور جستجو کرنا کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیز اعیان و اجسام سے تعلق رکھتی ہو یا معانی سے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً [ الكهف/ 41] تم اسے تلاش کے باوجود حاصل نہیں کرسکو گے ۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ [ الحج/ 73] ضعف الطالب والمطلوب طلب کرنے والا اور جسے طلب کیا جائے ( یعنی عابد معبود دونوں کمزور ہیں ۔ الطلب فلانا کسی کی حاجت راوائی کرنا کسی کو محتاج کرنا اور جو گھاس پانی سے بہت دور ہو اور اس تک پہنچنے کے لئے تکلیف اٹھانا پڑے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے اطلب الکلاء حث الحثّ : السرعة، قال اللہ تعالی: يَطْلُبُهُ حَثِيثاً [ الأعراف/ 54] . شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اہل مکہ کو کسی اور بات کا انتظار نہیں کہ وہ جو ایمان نہیں لاتے مگر اس چیز کے انجام کا انتظا رہے جس کا ان سے قرآن حکیم میں وعدہ کیا گیا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے، جب اس وعدہ کا انجام ان کے سامنے آئے گا تو وہ لوگ جو اس دن کے اقرار کو پہلے ہی سے دنیا میں بھولے بیٹھے تھے کہیں گے بیشک رسول (بعث بعد الموت) جنت اور دوزخ کے بیان لے کر آئے، مگر ہم نے ان کو جھٹلایا تو اب عذاب سے نجات دلانے والا کوئی ہے یا دنیا ہی میں ہم کو لوٹا دیا جائے تو ہم شرک کو چھوڑ کر ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں، ان لوگوں نے خود جنت کے ضائع کرنے اور دوزخ کو اپنے اوپر لازم کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے ان کو جھوٹے معبدوں نے انکو اس چیز سے منع کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (ہَلْ یَنْظُرُوْنَ الاَّ تَاْوِیْلَہٗ ط) یعنی کیا یہ لوگ آیات عذاب کے عملی ظہور کا انتظار کر رہے ہیں ؟ کیا یہ انتظار کر رہے ہیں کہ وقفۂ مہلت کا یہ بند ٹوٹ جائے اور واقعتا ان کے اوپر عذاب کا دھارا چھوٹ پڑے۔ کیا یہ لوگ اس انجام کا انتظار کر رہے ہیں ؟ (قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ A اس دن وہ لوگ دوبارہ دنیا میں جانے کی خواہش کریں گے ‘ لیکن تب انہیں اس طرح کا کوئی موقع فراہم کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. The position of the people in question is as follows. The difference between good and evil was first explained to them, and yet they turned a deaf ear to it. Then some people established a good example by following the right path notwithstanding the dominant trend towards error. The wholesome effect of righteous conduct became evident from the lives of such people, but it made no impression on the people concerned. Their persistence in error could only mean one thing: that they would only learn the lesson the hard way when they saw the painful effects of their error. Such people are like stupid patients who neither follow the directions of the physician, nor learn any lesson from their own observations of the many patients who have been cured of their diseases by following the directions of physicians. Thesc people will realize - if they realize at all - on their death-bed that their ways were foolish and fatal. 39. Such people will long to return to the world, pleading that they will believe in the truth which they had rejected since they have now witnessed it. They will also ensure that their attitude will be different from that which had been before. For a fuller discussion of this plea and the rejoinder to it see al-An'am 6: 27-8; Ibrahim 14: 44 and 45; al-Sajdah 32: 12-13; al-Fatir 35: 37; al-Zumar 39: 56-9; and al-Mu'min 40: 11-12.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :38 دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ جس شخص کو صحیح اور غلط کا فرق نہایت معقول طریقہ سے صاف صاف بتایا جاتا ہے مگر وہ نہیں مانتا ، پھر اس کے سامنے کچھ لوگ صحیح راستہ پر چل کر مشاہدہ بھی کرا دیتے ہیں کہ غلط روی کے زمانے میں وہ جیسے کچھ تھے اس کی بہ نسبت راست روی اختیار کر کے ان کی زندگی کتنی بہتر ہو گئی ہے ، مگر اس سے بھی وہ کوئی سبق نہیں لیتا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ صرف اپنی غلط روی کی سزا پا کر ہی مانے گا کہ ہاں یہ غلط روی تھی ۔ جو شخص نہ حکیم کے عاقلانہ مشوروں کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنے جیسے بکثرت بیماروں کو حکیم کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے شفایاب ہوتے دیکھ کر ہی کوئی سبق لیتا ہے ، وہ اب بستر مرگ پر لیٹ جانے کے بعد ہی تسلیم کرے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ اس کے لیے واقعی مہلک تھے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :39 یعنی وہ دوبارہ اس دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے اور کہیں گے کہ جس حقیقت کی ہمیں خبر دی گئی تھی اور اس وقت ہم نےنہ مانا تھا ، اب وہ مشاہدہ کر لینے کے بعد ہم اس سے واقف ہو گئے ہیں ، لہٰذا اگر ہمیں دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تو ہمارا طرز عمل وہ نہ ہو گا جو پہلے تھا ۔ اس درخواست اور اس کےجوابات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات۲۷ ۔ ۲۸ ابراہیم ٤٤ ۔ ٤۵ السجدہ ١۲ ۔ ١۳ فاطر ۳۷ ۔ الزمر ۵٦ تا۵۹ ۔ المومن ۔ ١١ ۔ ١۲ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: اس آخری انجام سے مراد قیامت ہے۔ یعنی کیا یہ لوگ ایمان لانے کے لیے قیامت کا انتظار کر رہے ہیں، حالانکہ اس وقت ایمان قبول ہی نہیں ہوگا، اور جب وہ آجائے گی تو ان کو حسرت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:53) ینظرون۔ ای ینظرون۔ وہ انتظار کرتے ہیں۔ یا انتظار کر رہے ہیں۔ ہل۔ یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے۔ قل ہل عندکم من علم فتخرجوہ لنا (6:149) کہہ دو تمہارے پاس کوئی سند ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے لاؤ۔ اور کبھی تنبیہ۔ تبکیت یا نفی کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے ہل تعلم لہ سمیا (9: 65) بھلا تم اس کا کوئی ہمنام جانتے ہو۔ (نفی) ہل تری من فطور (37:3) کیا تجھے کوئی شگاف نظر آیا۔ (نفی) ہل ھذا الابشر مثلکم (21:3) ہل ھذا الا بشر مثلکم۔ یہ شخص (کچھ بھی) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت پر تخویف۔ ہل ینظرون الا تاویلہ ان کو کسی بات کا انتظار نہیں مگر صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ۔ کیا یہ اس کی دھمکی یا اس کی تعبیر کے سچ مچ وقوع پذیر ہوجانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یعنی یہ کس بات کے منتظر ہیں۔ کیا یہ انتظار کر رہے ہیں کہ قرآن میں جو وعید آئی ہیں وہ فی الواقع انجام کار ٹھیک بیٹھتی ہیں یا نہیں (تنبیہ) یوم یاتی تاویلہ۔ جس روز آجائے گا اس کا انجام ۔ یعنی جس دن اس کتاب کے وعدے وعید کے عواقب اور نتیجے ظاہر ہوں گے نرد۔ ہم لوٹائے جائیں۔ مضارع مجہول رد مصدر۔ (باب نصر) فتعمل۔ تاکہ ہم عمل کریں۔ مضارع منصوب بوجہ جواب استفہام صیغہ جمع متکلم۔ خسروا انفسہم۔ ملاحظہ ہو (7:9) ضل عنہم۔ گم ہوگئے ان سے۔ چھوڑ گئے ان کو۔ (یعنی جو بہتان بازی وہ کیا کرتے تھے اور جن معبودان باطل کی وہ پرستش کیا کرتے تھے وہ ان کو چھوڑ گئے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کافر راہ دیکھتے ہیں کہ اس کتاب میں خبر ہے عذاب کی ہم دیکھ لیں کہ ٹھیک پڑے تب قبول کرلیں سو جب ٹھیک پڑے گی تو خلاص کہا ملے گی خبر اس لیے ہے کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جن کو ہم اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رہے ہیں وہ کسی آڑے وقت ہمارے کام آئیں مگر اب ان کا کچھ پتہ نہیں (شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی وعدہ سزا۔ 4۔ اوپر معاد کی تفصیل تھی چونکہ مشرکین دوبارہ زندہ ہونے کو مستبعد سمجھتے تھے اس لیے آگے اپنی قدرت اور تصرف کامل کا بیان فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی ہدایت سے روگردانی کرنے اور آخرت کو بھول جانے کا انجام اور جہنمیوں کی حسرتوں کا بیان۔ قرآن مجید میں لفظ تاویل سترہ آیات میں آیا ہے ان مقامات کی تلاوت سے یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورة آل عمران آیت ٧ میں تفسیر اور تشریح کے لیے استعمال ہوا۔ سورة النساء، آیت : ٥٩ میں نتیجہ اور انجام مراد ہے۔ الاعراف، آیت : ٥٣ سورة یونس، آیت : ٣٩ میں ایسے واقعہ کا ظہور پذیر ہونا جس کی کسی رسول یا نبی نے خبر دی ہو۔ سورة یوسف میں تین دفعہ خواب کی تعبیر کے معنی میں آیا ہے، سورة الکہف، آیت : ٧٨ اور ٨٣ میں کسی کام کے محرک اور سبب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مندرجہ بالا حوالہ جات میں اس آیت کا حوالہ بھی شامل ہے یہاں دو مرتبہ تا ویل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انبیاء (علیہ السلام) بیان کیا کرتے تھے۔ اس کا من و عن سچا ثابت ہونا۔ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کی ہوس میں مدہوش ہو کر آخرت کو بھول جانے والے قیامت کے دن جب کھلی آنکھوں سے اپنا انجام اور جہنم کی ہولناکیاں دیکھیں گے تو اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ واقعی ہمارے رب کے فرستادہ رسول قیامت کے بارے میں حق اور سچ فرماتے تھے۔ لیکن ہماری بدبختی کہ ہم نے انکار کردیا۔ اس اعتراف کے باوجود مجرموں کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا پھر وہ بڑی حسرت اور آہ وزاری کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں گے کہ کاش آج کوئی سفارش کرنے والا ہماری سفارش کرے تاکہ ہم جہنم سے نجات پائیں یا ہمیں ایک دفعہ دنیا میں واپس لوٹایا جائے تاکہ ہم برے اعمال کے بجائے صالح اعمال کرسکیں۔ یہ فریاد بھی مسترد کردی جائے گی۔ سورة الانعام آیت ٢٧، ٢٨ میں بیان ہوا ہے کاش آپ دیکھیں جب یہ لوگ جہنم کی آگ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو وہ فریاد کریں گے۔ کاش ہمیں واپس لوٹایاجائے اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب ہرگز نہ کریں گے اگر انھیں دنیا میں ایک دفعہ لوٹا بھی دیا جائے تو یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ بڑے جھوٹے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچانے والے ہیں اور دنیا میں جو دعوے کیا کرتے اور جن کو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے تھے سب کو بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ مجرم اپنا انجام دیکھ کر قیامت کے دن اعترافِ حق کریں گے۔ ٢۔ مجرم خواہش کے باوجود کسی کو اپنا سفارشی نہیں پائیں گے۔ ٣۔ مجرم دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے جو کبھی قبول نہ ہوگی۔ ٤۔ کافر اور مشرک ایک دوسرے سے کیے ہوئے وعدے بھول جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کا افسوس کرنا : ١۔ عذاب کے وقت کفار کا حسرت و افسوس کرنا۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٢۔ موت کے وقت آہ و زاریاں کرنا۔ (المومنون : ٩٩) ٣۔ محشر کے میدان میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا۔ (النباء : ٤٠) ٤۔ جہنم میں ان کا آہ و بکا کرنا۔ (فاطر : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٧٦ ایک نظر میں : پہلے دو اسباق میں ہم نے قصہ آغاز انسانیت ‘ جنت سے اس کے نزول اور پھر حشر ونشر کے میدان اور جنت اور دوزخ کے مناظر کی سیر کی ۔ اب اگلے سبق میں ملکوت السموات والارض کی سیر ہے ۔ اس پھیلی ہوئی کائنات کے ضمیر کی سیر مطلوب ہے ۔ انسان کی تخلیق سے ذرا پیچھے جا کر اس پوری کائنات کی تخلیق کی روئیداد بھی سن لیجئے ۔ متوجہ کیا جاتا ہے کہ ذرا اس کائنات کے اسرار و رموز پر بھی غور کرو اور یہ سمجھو کہ اس کا قصہ تخلیق کیا ہے ؟ ذرا اس کے مناظر ومظاہر پر بھی غور کرو ۔ گردش افلاک میں مناظر لیل ونہار کی دوڑ پر غور کرو۔ سورج اور چاند کو دیکھو اور فضا کی وسعتوں میں سیاروں اور ستاروں کی بندش کو ملاحظہ کرو۔ فضا میں ہواؤں کی گردش اور ان کے اثرات ‘ بادل اور بارش اور پھر مردہ زمین اور باران رحمت کے بعد اس کی تازگی اور روئیدگی ‘ ایک لمحہ مردہ اور ایک لمحہ فصلوں اور پھلوں سے بھرپور۔ اللہ کی بادشاہت کی وادیوں سے قبل قصہ تخلیق انسانیت بیان ہوچکا ہے ۔ اس کے بعدانسانیت کے اس طویل سفر کا آغاز و انجام بیان ہوچکا ہے اور اس سے قبل یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ اتباع شیطان اور اللہ کی آیات اور احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے استکبار کا انجام کیا ہوگا ۔ نیز یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ جاہلی تصورات ورسومات کیا ہیں اور انسان کی جانب سے اپنے لئے شریعت ساری اللہ کی نظر میں کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان موضوعات کے بعد انسان کو کائنات کی وسعتوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے اس رب کی طرف لوٹ سکے جو ان وسعتوں کا خالق ہے اور پھر ان کو مسخر کرنے والا ہے ‘ جو اس وسیع و عریض کائنات کو اپنے نظام قضاوقدر سے چلاتا ہے ‘ اس کے لئے اس نے ایک ناموس تجویز کر رکھا ہے ۔ لہذا وہی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا اور وہی ہے جو سیاسی اقتدار اعلی کا مالک ہے ۔ ملکوت السموات کی اس سیر کے ذریعے یہ گہرا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ پوری کائنات رب کائنات کی مطیع ہے ‘ لہذا اس ناقابل تصور طویل و عریض کائنات کے اندر اس چھوٹے سے انسان کی سرکشی اور استکبار فطرت کائنات سے نافرمانی ہے ۔ اس طرز عمل سے انسان ناموس فطرت اور ناموس شریعت سے بیک وقت سرکشی اختیار کرتا ہے لہذا انسان کو اس کائنات کے اندر رہتے ہوئے یہ رویہ اختیار نہ کرنا چاہئے ۔ آیت ” ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (55) وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (56) ” اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ‘ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے ۔ اور خدا ہی کو پکار وخوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں کے قریب ہے ۔ “ دین کو اللہ کے لیئے خالص کردینا ‘ اور تمام انسانوں کی جانب سے اللہ کی بندگی اختیار کرنا اس عظیم بندگی اور سرنگونی کا ایک معمولی سا جزء اور ایک چھوٹی سی شاخ ہے جو اس عظیم اور بیکران کائنات کی طرف سے رب ذوالجلال کے حضور کی جاری ہے ۔ یہ ہے وہ سوچ اور وہ تصور جسے پورا قرآن کریم انسان کے دل و دماغ اور اس کی نظریات و تصورات میں نہایت ہی عمدگی سے بٹھانا چاہتا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ جو دل و دماغ بھی سوچ اور ادراک کے دروازے کھول کر اس پوری کائنات اور اس کے ان نوامیس کی طرف متوجہ ہوگا جو اس کائنات میں پوشیدہ ہیں یا بالکل ظاہر ہیں تو لابدی ہے کہ وہ نہایت ہی پختہ انداز میں اور نہایت ہی گہرائی کے ساتھ اس سے متاثر ہوگا اور دل کی گہرائیوں سے یہ شعور پائے گا کہ وہ نہایت ہی عظیم ہے جس نے اس کائنات اور اس کے نوامیس کو بنایا ہے اور وہی بنانے والی ذات سیاسی اقتدار اعلی کی بھی سزاوار ہے ۔ یہ غور وفکر وہ پہلا قدم ہے جو انبیاء کی دعوت کی قبولیت کی طرف انسان کو لے جاتا ہے اور پھر انسان پوری طرح اللہ رب العالمین کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے جس طرح سے پوری کائنات سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور پھر انسان کائنات کا ہم قدم ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم حقیقت الوہیت کو سمجھانے کے لئے حقیقت کائنات کے ادراک کو پہلا زینہ قرار دیتا ہے اور اس طرح پوری انسانیت کو اللہ وحدہ کی غلامی کے لئے تیار کرتا ہے ۔ اس طرح انسانی شعور اور انسانی شخصیت کو حقیقت عبودیت سے روشناس کراتا ہے ۔ انسان بڑے اطمینان سے ذوق بندگی پاتا ہے اور وہ یقین کرلیتا ہے کہ وہ اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی یہ کائنات دونوں ہم قدم ہو کر بندگی رب کی راہ پر چل رہے ہیں ۔ پوری کائنات کی جانب سے اللہ کی بندگی کے ثبوت کا مقصد قرآن کے پیش نظر محض عقلی استدالال ہی نہیں ہے کہ چونکہ کائنات اللہ کے ہاتھ میں مسخر ہے ‘ وہ پوری طرح مطیع فرمان ہے ‘ اور نہایت ہی فرمانبرداری سے ‘ نہایت ہی گہرائی اور مکمل طور پر اللہ کے حکم اور امر کی پابند ہے لہذا انسان کو بھی ایسا ہونا چاہئے ۔ صرف عقلی استدلال ہی پیش نظر نہیں بلکہ اس سے ایک دوسرا ذوق بھی انسان کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہے ۔ وہ یہ ذوق واحساس ہے کہ انسان اور یہ پوری کائنات اس بندگی اور غلامی میں باہم شریک ورفیق ہیں اور نہایت ہی اطمینان کے ساتھ انسان یہ بندگی کرسکتا ہے گویا اس طرح انسان اس قافلہ کائنات کا ایک فرد ہوگا جو مطیع رب ہوگا ۔ گویا ہر انسان راضی برضا بندگی کر رہا ہے ۔ کوئی امر اسے مجبور نہیں کر رہا ہے ‘ وہ جبر کے تحت نہیں بلکہ محبت اور اطمینان کی وجہ سے بندگی کر رہا ہے ۔ اس بندگی کی وجہ سے وہ اس پوری کائنات سے ہم آہنگ ہو رہا ہے ۔ لہذا ایسا انسان بندگی سے فرار کی راہیں تلاش نہیں کرتا ‘ نہ اس جبر سے اپنے آپ کو آزاد کرنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ اس تصور سے بندگی ‘ اس کی فطرت قرار پاتی ہے اور اس کے لئے خوشی کا باعث ہوتی ہے ۔ یہ ایسی بندگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان تمام غیر اللہ کی بندگیوں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اور رب رفیع وذوالجلال ہی کا بندہ بن جاتا ہے جو رب العالمین ہے ۔ یہی بندگی ایمان کی تمثیل ہوتی ہے اور اسے پر ذائقہ بناتی ہے ۔ اسی بندگی سے اسلام کا مفہوم ظہور پذیر ہوتا ہے اور اسلام کے اندر روح اور زندگی اور تروتازگی پیدا ہوتی ہے ۔ یہ وہ اساس ہے جس پر اسلام کو قائم ہونا چاہئے اس اساس کو اچھی طرح پختہ کرنا چاہئے اور اس کے بعد کسی بندے کو احکام و شریعت دینا چاہئے ۔ اس کے بعد ہی قوانین و ضوابط کا اقرار ہونا چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کا منہاج اور اسلوب سب سے پہلے انسان کے اندر یہ شعور اور ذوق پیدا کرتا ہے ۔ اسے پختہ کرتا ہے اور یہ نہایت ہی متین اور پختہ منہاج ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ ) (الآیۃ) قرآن مجید میں مومن بندوں کا ثواب بتایا ہے ان کو بشارتیں دی ہیں اور اہل کفر کو عذاب سے ڈرایا ہے اور یوم قیامت میں جو ان کو عذاب ہوگا اس کی وعیدیں سنائی ہیں۔ مومنین کے حق میں قرآن مجید کے بتائے ہوئے اعمال خیر کا نتیجہ ہوگا کہ وہ قیامت کے دن نجات پائیں گے اور جنت میں جائیں گے اور کافروں کو جو قرآن مجید نے وعیدیں سنائی ہیں وہ ان وعیدوں کے مطابق اپنا انجام دیکھ لیں گے۔ اسی عاقبت اور انجام کو لفظ تاویل سے تعبیر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اور دعوت حق کو قبول نہیں کرتے ان کی حالت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بس یہی انتظار ہے کہ قرآن نے کافروں کے بارے میں جو وعیدیں بتائی ہیں یعنی عذاب کی خبریں دی ہیں ان کے مطابق ان پر عذاب آجائے۔ جب عذاب میں مبتلا ہوں گے تو وہ لوگ جو قرآن کی دعوت کو بھولے ہوئے تھے اور ایمان سے منحرف تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر ہمارے پاس حق لے کر آئے تھے دنیا میں ہم نے حق قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے یہاں عذاب میں مبتلا ہوئے۔ اب عذاب سے نکلنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ہماری کوئی سفارش کر دے جس کی سفارش قبول ہوجائے اور ہم عذاب سے بچ جائیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہم دنیا میں واپس بھیج دیئے جائیں اور اب وہاں جا کر ان کاموں کے علاوہ دوسرے کام کریں جو گزشتہ زندگی میں کیا کرتے تھے۔ یعنی کفر اور شرک کے عقائد اور اعمال سے پرہیز کریں۔ اور ایمان و ایمانیات میں مشغول ہوں۔ (قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ) (انہوں نے اپنی جانوں کو تباہ کر ڈالا) (وَ ضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) اور جو جھوٹی باتیں جھوٹے وعدے لیے پھرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے لیے شریک تجویز کرتے تھے اور ان شرکاء کو بار گاہ خداوندی میں شُفَعَاء یعنی سفارشی سمجھتے تھے یہ سب غائب ہوجائے گا اور اس کا باطل ہونا ظاہر ہوگیا۔ سورۂ فاطر میں ہے کہ جب دوزخ میں یہ درخواست کریں گے کہ اے رب ! ہمیں دوزخ سے نکال دیجیے اب ہم ان اعمال کے علاوہ دوسرے اعمال کریں گے جو اس سے پہلے کیا کرتے تھے۔ تو اس کے جواب میں ارشاد ہوگا۔ (اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ) (کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا وہ نصیحت حاصل کرلیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے لہٰذا تم چکھ لو، سو ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں) چونکہ موت کے بعد برزخ سے اور میدان حشر سے دنیا میں واپس آنے کا قانون نہیں ہے اس لیے واپس نہیں ہوسکتے اور کافروں کو ابدلآباد تک عذاب چکھنا ہی ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61: اب کفار ومشرکین اللہ کی کتاب پر ایمان کیوں نہیں لاتے کیا وہ اس کتاب میں مذکور وعد و وعید کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ لیکن یہ چیز ان کے لیے مفید نہیں ہوگی جس دن (یعنی قیامت کے دن) مومنین سے کیے گئے انعام واکرام کے وعدے اور مشرکین اور کفار کو سنائی گئی عذاب جہنم کی وعیدیں پوری ہوجائیں گی وہ دن منکرین کے لیے انتہائی حسرت و یاس اور تاسف کا دن ہوگا اس دن وہ نہایت افسوس سے کہیں گے کہ اللہ کے پیغمبر تو بلا شبہ پیغام حق لے کر ہمارے پاس آئے مگر وائے بد قسمتی کہ ہم نے ان کی ایک نہ سنی۔ کیا آج کوئی ایسی ہستی ہے جو ہماری سفارش کر کے آج ہمیں عذاب سے چھڑا لے یا کوئی ایسی صورت ممکن ہے کہ ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیک اعمال بجا لائیں “ شُفَعَاء ” سے یہاں وہ اللہ کے نیک بندے مراد ہیں جن کو مشرکین متصرف و کارساز اور خدا کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔ 62: وہ اپنی عمریں شرک و معاصی میں صرف کر کے خسارے میں رہے اور جن معبودوں کو انہوں نے سفارشی اور کارساز سمجھ رکھا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کے کام نہ آیا۔ “ مَا ” موصولہ سے معبودان باطلہ مراد ہیں۔ “ قَدْ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ ” بصرف اعمارھم التیھی راس مالھم الی الشرک و المعاصی “ وَ ضَلَّ عَنْھُمْ ” غاب و فقد “ مَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ” ای الذی کانوا یفترونہ من الاصنام شرکاء للہ سبحانہ و شفعاءھم یوم القیمۃ والمراد انہ ظھر بطلانہ ولم یفدھم شیئا (روح ج 8 ص 128) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 یہ منکر اب صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قرآن کریم نے جو وعدے اور وعید کئے ہیں ان کا انجام کیا ہوتا ہے جس دن قرآنی وعدے یا وعید کا انجام ظاہر ہوجائے گا تو اس دن وہ لوگ جو پہلے سے اس وقت کو فراموش کئے ہوئے بیٹھے ہیں یوں کہیں گے کہ بیشک ہمارے پروردگار کے فرستادے سچے اور حق لے کر آئے تھے اور وہ جو کچھ کہتے تھے واقع کے مطابق تھا تو پھر اب سفارش کرنے والوں میں سے کچھ ایسے سفارشی ہیں جو ہماری سفارش کردیں اور آج ہم کو عذاب سے بچالیں یا ہم دنیا کی طرف دوبارہ لوٹا دیئے جائیں تاکہ ہم اب تک جو عمل کرتے رہے تھے ان کی بجائے اور ان کے علاوہ اب کی دفعہ دوسرے عمل کریں بلاشبہ ان لوگوں نے اپنے کو سخت نقصان میں ڈال لیا اور اپنے آپ کو تباہ کرلیا اور جو افتراء پردازیاں وہ کیا کرتے تھے وہ سب آج ان سے گم ہوگئیں اور وہ سب غائب ہوگئیں یعنی ان منکرین کے طرز عمل سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس اب اسلام قبول کرنے سے ان کو صرف یہی بات مانع ہے کہ یہ قرآن کریم کے وعدئہ حشر ونشر اور جہنم کے عذاب کی وعید کے انجام کا انتظار کررہے ہیں اور اس دن کو بھلا چکے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو باتیں یہ پیغمبر کہتا ہے ان کا انجام دیکھو کہ کیا ہوتا ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ دن جب آئے گا اور پروردگار کے نشانات ظاہر ہوجائیں گے تو وہ لوگ جو ان باتوں کو پہلے بھلائے بیٹھے تھے وہ بھی پیغمبروں کی باتوں کو حق کہنے لگیں گے اگرچہ ان کا یہ ایمان لانا ان کے لئے مفید اور نافع نہ ہوگا اور یہی نہیں بلکہ سفارشی ڈھونڈھتے پھریں گے جو اپنی سفارش سے ان کو سزا سے بچالیں اور یہ بھی خواہش کریں گے کہ ان کو دنیا ہی میں واپس کردیا جائے تاکہ جو ناشائستہ عمل اب تک کرتے رہے تھے ان کو چھوڑ کر نیک اعمال اختیار کریں۔ ربنآ اخرجنانعمل صالحاً غیر الذی کنا نعمل حالانکہ اس وقت یہ خواہشات اور تمنائیں بالکل بےکار ہوں گی۔ ایمان اب لانا چاہئے نہ کہ قرآن کریم کی باتوں کا انجام دیکھ کر ایمان لائوگے۔