Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 55

سورة الأعراف

اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

Call upon your Lord in humility and privately; indeed, He does not like transgressors.

تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالٰی ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Encouraging supplicating to Allah Allah commands His servants to supplicate to Him, for this will ensure their welfare in this life and the Hereafter. Allah said, ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ... Invoke your Lord Tadarru`an and Khufyah, meaning, in humbleness and humility. Allah said in a similar Ayah, وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ And remember your Lord within yourself. (7:205) It is recorded in the Two Sahihs that Abu Musa Al-Ash`ari said, "The people raised their voices with supplications but the Messenger of Allah said, أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَايِبًا إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ سَمِيعٌ قَرِيب O people! Take it easy on yourselves. Verily, you are not calling one who is deaf or absent, rather, the One you are calling is All-Hearer, Near (to His servants by His knowledge). Ibn Jarir said that, تَضَرُّعًا (Tadarru`an), means obeying Him in humility and humbleness, وَخُفْيَةً (and Khufyah), with the humbleness in your hearts and certainty of His Oneness and Lordship not supplicating loudly to show off. Forbidding Aggression in Supplications Allah's statement, ... إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ He likes not the aggressors. Ata Al-Khurasani narrated from Ibn Abbas, who said about Allah's statement, "In the Du`a and otherwise." Abu Mijlaz commented on, إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (He likes not the aggressors), "Such (aggression) as asking to reach the grade of the Prophets." Imam Ahmad narrated that Abu Ni`amah said that Abdullah bin Mughaffal heard his son supplicating, "O Allah! I ask you for the white castle on the right side of Paradise, if I enter it." So Abdullah said, "O my son! Ask Allah for Paradise and seek refuge with Him from the Fire, for I heard the Messenger of Allah saying, يَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ وَالطَّهُور There will come some people who transgress in supplication and purification." Ibn Majah and Abu Dawud recorded this Hadith with a good chain that there is no harm in, and Allah knows best. The Prohibition of causing Mischief in the Land Allah said next,

انسان دعا مانگے قبول ہوگی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی ، مسکینی اور آہستگی سے پکارو جیسے فرمان ہے آیت ( واذکر ربک فی نفسک ) الخ ، اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکار رہے ہو وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں ( تضرعا ) کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گذاری کے ہیں اور ( خفیتہ ) کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے ، یقین کی صحت سے ، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو نہ کہ ریا کاری کے ساتھ بہت بلند آواز سے ۔ حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا ، لوگ بہت بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں ۔ یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں دعا میں بلند آواز ، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں دعا وغیرہ میں حد سے گذر جانے والون کو اللہ دوست نہیں رکھتا ۔ ابو مجاز کہتے ہیں مثلاً اپنے لئے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ ۔ حضرت سعد نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم ، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گذر جایا کریں گے ۔ ایک سند سے مروی ہے کہ وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ( ابو داؤد ) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں یہ کہہ رہے تھے کہ یا اللہ جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ۔ پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا ، دعا کرنے کا ، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو ۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں جیسے فرمایا آیت ( وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ١٥٦؀ۚ ) 7- الاعراف:156 ) یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دونگا پرہیزگار لوگوں کے لئے ۔ چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے اس لئے قریب کہا قریبتہ نہ کہا یا اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے ۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا ۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] دعا کے آداب :۔ ایسے ہی ہر چیز کے خالق ومالک اور بابرکت اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہیں اپنی حاجات پیش کرنا چاہئیں۔ اسی سے فریاد کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ عجز و انکسار کے ساتھ دعا کرو اور تہہ دل سے اور دل میں کرو اور دعا میں ریاکاری کا دخل نہ ہو اور دعا میں حد ادب سے نہ بڑھنا چاہیے مثلاً ایسی چیزوں کی دعا نہ مانگے جو عادتاً یا شرعاً محال ہوں یا معاصی یا سائل لغو چیزوں کی طلب کرنے لگے یا ایسا سوال کرے جو مانگنے والے کی شان اور حیثیت کے مطابق حال نہ ہو۔ مثلاً کوئی اپنے لیے بادشاہ بننے کی دعا کرے کہ بیٹھے بٹھائے بادشاہت مل جائے تو ایسی دعا کرنا بھی حد سے بڑھنے کے ضمن میں آجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً : ان دو آیات میں چار حکم ہیں، پہلا یہ کہ دعا عاجزی سے گڑ گڑا کر اور خشوع سے ہونی چاہیے اور دعا تنہائی میں کرنا مستحب اور بہتر ہے، کیونکہ اس سے ریا کو راستہ نہیں ملتا اور اخلاص میں خلل نہیں آتا۔ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ : دوسرا یہ کہ حد سے بڑھنا اللہ تعالیٰ کو کسی صورت پسند نہیں۔ اس میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی پر ظلم کرنا بھی شامل ہے اور ایسی چیز کی دعا کرنا جو ناممکن ہو، مثلاً میں ہمیشہ زندہ رہوں، یا مجھے آخرت میں انبیاء کا مرتبہ حاصل ہوجائے، یا ایسی چیز کی دعا کرنا جس کے متعلق علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا مانگنا پسند ہے، جیسے نوح (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کے لیے دعا بھی حد سے تجاوز تھا۔ اسی طرح چیخنا چلاتا اور مسنون دعائیں چھوڑ کر مقفی و مسجع کلام اور اشعار وغیرہ بھی حد سے تجاوز میں شامل ہیں۔ (شوکانی) ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سفر کے دوران میں ہماری آوازیں تکبیر اور لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ بلند ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لوگو ! اپنے آپ پر نرمی کرو (یعنی ذرا آہستہ پکارو) ، کیونکہ تم کسی گونگے یا غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا ہے اور قریب بھی۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ من رفع الصوت فی التکبیر : ٢٩٩٢، ٦٣٨٩ ] وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا : تیسرا یہ کہ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شرک کے کام مت کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور گناہوں کا ارتکاب ہی ” فساد فی الارض “ ہے، فرمایا : (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ) [ الروم : ٤١ ] ” خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔ “ وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا : چوتھا یہ کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور دل میں دعا کی قبولیت کی طمع بھی، اسی طرح جہنم سے خوف بھی ہو اور جنت کی طمع بھی۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی اللہ پر دلیر مت ہو اور ناامید بھی مت ہو۔ “ طمع میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ انسان دعا کے بعد مایوس نہ ہو، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے کسی کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے اور جلدی یہ ہے کہ کہے میں نے اپنے رب سے دعا کی، مگر اس نے قبول نہ کی۔ “ [ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل : ٦٣٤٠ ] کئی صوفیا کہتے ہیں کہ دعا کسی طمع اور خوف کے بغیر محض رب کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جنت کو جلا دوں اور جہنم کو بجھا دوں، تاکہ لوگ کسی خوف اور طمع کے بغیر اللہ کو یاد کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ بس اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے یا جہنم میں پھینک دے۔ یہ بات کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگتے اور جہنم سے پناہ مانگتے تھے۔ زیر تفسیر آیت بھی اس نظریے کے خلاف ہے اور دیگر بہت سی آیات بھی، مثلاً : ( يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ) [ السجدۃ : ١٦ ] ” وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔ “ درحقیقت یہ بات اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے بعض لوگوں نے جنت اور جہنم کو بےوقعت ٹھہرانے کے لیے بنائی ہے۔ جنت کی طمع اور جہنم سے خوف کوئی الگ چیز نہیں ہے، بلکہ جنت اللہ کی رضا ہی سے حاصل ہوگی اور جہنم بھی اسی کے غضب کا نتیجہ ہے جس سے بچنا بھی اس کی رضا ہی سے ممکن ہوگا۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ : اس میں ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اصل حق دار وہی ہیں جو احسان کرنے والے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بہتر سے بہتر انداز میں بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اعمال صالحہ پر دوام کرتے ہیں اور ” قریب “ یہ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے، جب یہ مسافت کے لیے آئے تو اس میں تذکیر و تانیث برابر ہوتی ہے اور اگر نسب کے لیے ہو تو بلا اختلاف ” قَرِیْبَۃٌ“ بولا جاتا ہے۔ یعنی مذکر اور مؤنث میں تاء کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے۔ (شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in previous verses were particular manifestations of the perfect power of Allah Ta` ala, and His major blessings. The present verses lead us to consider: When He is the Master of perfect power, the sender of all blessings, and the Lord of all the worlds, it naturally fol¬lows that He should be the One to be called upon and prayed to under all circumstances, whether in distress or in need. The attitude of by-passing Him and turning towards some other direction is ignorance and failure. Along with it, identified in these verses are some rules of etiquette to be followed when making Du&a& (prayer, supplication). If due consid¬eration is given to these rules, the hope that a prayer will be answered increases. The Meaning and Etiquette of Du` a and Dhikr The word: دُعَاء (Du&a& ), in the Arabic language, means to call upon someone to remove one&s need. It is also used to remember in the absolute sense. Both meanings can be taken here. The verse says: اُدعُوا رَبَّکُم (Supplicate to your Lord) that is, call your Rabb for your needs, or remember your Rabb and worship Him. In the first case, it would mean: Ask Allah alone for what you need. In the second case, the sense would be: Do your Dhikr and ` Ibadah for Him alone. Both these explanations have been reported from Tafsir authorities among the early righteous elders. After that, it was said: تَضَرُّ‌عًا وَخُفْيَةً (humbly and secretly). The word: تَضَرُّ‌عً (tadarru`) means realization of inability, humility, and submission in a refined spirit of self-abasement (not found in the English language and its modern, secular, cultural context). And the word: خُفْيَةً (khufyah) means secret, secluded, or private (as opposed to open and public - as used in English too, but with no relevance to the dominant sense of se¬cret in English bearing on the mysterious, the occult, and the whole field of espionage). In the frame of these two words, described there are two important rules of etiquette which govern Du` a& and Dhikr. First of all, in order that Du&a& be answered, it is necessary that one appears before Allah Ta` ala as weak, helpless and simply unable to hold on his own, modest and humble, and submits to Him with a total negation of what is supposed to be pride, dignity, honour, ego, or self-view - and then makes Du&a&. Du&a& is a thing of the soul which requires that its words match the feebleness and humbleness of the maker of Du` a&, that the manner of saying it remains a mirror of modesty, and that this overall humili¬ty should ooze forth from the very physical approach to this making of Du&a&. Given this anatomy and profile of Du&a&, the common practice of making Du` a& these days cannot really be called the making of Du&a&. It would, rather, be the reading of it. What happens most of the time is that we do not know what we are saying and it has become a routine as we notice in common Masajid. Imams would usually say, rather read, some words of Du` a& in the Arabic language which they have memorized and do this at the end of Salah. Most of the time, in some areas, the Imams themselves do not know the meaning and sense of what they say - and even if they do know it, at least the less-knowing participants of the congregation are virtually unaware of what is being said. They would almost mechanically go on saying &Amin, &Amin& after the words read by the Imam without having any clue as to what was being said there. The outcome of all this stage demonstration is the vocalization of some words. Du` a& has a reality of its own which is just not there. Then, this is an entirely different matter that Allah Ta` ala, in His infinite mercy, may accept these very lifeless words and give them the effect of answered prayers. But, it is necessary that everyone un-derstands that Du` a& is not ` read.& It is ` asked.& Therefore, it is crucial that one asks as one should, properly, as due. Then, there is another aspect of Du&a-&. If a person does know the meanings of the words of his Du` a& - and even understands what he is saying - still, if it is not accompanied by proper approach, manner and physical bearing, the Du` a& stands reduced to a bland claim to which no created servant of Allah is entitled. So, given in the first word was the spirit of Du&a& which requires that one shows his humility and prays to Allah for what he needs. Then, in the second word, the instruction given is that the asking in Du` a& for what one needs should be done secretly and in a lowered voice which is superior in merit and more likely to be answered. The reason is that making Du` a& in a raised voice is not free of three possible drawbacks. Firstly, it is difficult to maintain modesty and humility in doing so. Secondly, there is the danger of hypocrisy and desire for recogni¬tion creeping in through this mode. Thirdly, the manner in which this Du&a is made only goes to show that the person making it almost does not know that Allah Ta` ala is All-Hearing, All-Knowing. He knows what we show on the outside and also that which we conceal inside. He hears everything said quietly or loudly. Therefore, when the voice of the Companions reached a loud pitch during Du&a& made on the occa¬sion of the Battle of Khaybar, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ` You are not calling someone deaf or absent that you say it in such a loud voice. Instead, your addressee is someone Hearing, Near, that is, Allah Ta` ala (so, to raise your voice is redundant). Allah Jalla Sha&nuhu has Himself mentioned the Du` a& of a righteous person in these words: إِذْ نَادَىٰ رَ‌بَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا ﴿٣﴾ (When he called his Rabb calling in a lowered voice - 19:3).& This tells us that the state of Du` a& liked by Allah Ta` a1a is that it be asked of Him in a lowered and subdued voice. Sayyidna Hasan al-Basri (رح) says: There is a difference of seventy de¬grees in making Du` a& openly and loudly when matched by the one made in a lowered voice. It was the habit of early righteous elders that they would exert to their maximum in Dhikr and Du&a which kept them busy most of the time, but their voice was not heard by anyone. In fact, their supplications would remain between them and their Rabb. Many of them would memorize the whole Qur&an and keep engaged in reciting it, but others would not know about it. Then, there would be others engaged in their pursuit of advanced religious knowl-edge, but they would never go about telling others that they were do¬ing so. There would be many others who would return from their homes after having long sessions of Salah but no one would come to know anything about that. He also said that he had seen such blessed people who would never perform ` Ibadat, which they could do in pri¬vate, out in the open where people could see them - and their voices during Du&a& would be very low. (Ibn Kathir, Mazhari) Ibn Jurayj has said that raising voices in Du` a& and making it noisy is Makruh (reprehensible). In his Ahkam al-Qur&an, Imam Abu Bakr al-Jassas (رح) has said: This verse tells us that making Du&a& in a lowered voice is more merit-worthy than making it in a raised voice. It has been reported likewise from Hadrat Hasan Basri (رح) and Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . This verse also tells us that the &Amin& said at the end of Surah al-Fatihah should also be said in a lowered voice, which is more merit-worthy, because &Amin& ( Amen : so be it) is also a Du&a-&. May Allah Ta` ala guide Imams of Masajid in our time who seem to have forgotten this teaching of the Qur&an and Sunnah and the in¬structions of early righteous elders in this matter. After every Salah, what follows as Du` a& has become an artificial procedure. Some words are read out loudly which, besides being contrary to the etiquette and rules of Du` a&, become the source of disturbing the Salah of those who joined the congregation after it had started and were busy completing the missed part after the Imam had finished. The overwhelming influ¬ence of custom has made them incapable of noticing its drawbacks. On a particular occasion where the purpose is to have a whole group make a particular Du&a&, one person may say the words of Du` a& in a reasonably audible voice and others say &Amin& after it, then, it does not matter. However, the condition is that this activity does not become the source of disturbance in the Salah and ` Ibadah of others - and that this does not become a matter of habit and custom whereby common people start believing in it as the standard method of making Du` a&, as hap¬pening so commonly these days. What has been said above concerned the making of Du` a& for one&s needs. If Du&a-& is taken in the sense of Dhikr (remembrance) and ` Ibadah (worship) at his place, then, according to the established posi¬tion of early ` Ulama, low-voiced Dhikr is more merit-worthy than loud Dhikr. As for the practice of Shaykhs in the Chistiah Order who recommend loud Dhikr for beginners, they do so in view of the spiritual condition of the seeker, as a measure of treatment, so that by voicing it any lack of alertness would go away and the heart would learn to become attuned to the Dhikr of Allah - otherwise, raising the voice in Dhikr, as such, is not desirable even with them, though it is permissi¬ble, and its justification stands proved from Hadith as well, of course, subject to the condition that, in it, there be no hypocrisy or the desire to show off (riya& ). Imam Ahmad ibn Hanbal, Ibn Hibban, Al-Baihaqi and others have reported from a narration by Sayyidna Sa&d ibn Abi Waqqas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: خَیرُ الذِّکرِ الخَفِیُّ وخَیرُ الرِّزقِ مَا یَکفِی &The best Dhikr is hidden and the best sustenance is what be-comes & sufficient.& However, under particular conditions and timings, a voiced Dhikr is actually more desirable and merit-worthy. Details of these timings and conditions have been explained by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through his word and deed, for example, calling Adhan and Iqamah with a raised voice, reciting the Qur&an during the voiced prayers with a raised voice, saying the Takbirs of Salah the Takbirs of Tashriq, the Talbiyah in Hajj etc., with a raised voice. Therefore, Muslim jurists, may Allah have mercy on them all, have reached the decision that in particular conditions and places where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, by word or deed, taught us to raise the voice, voices must be raised. Under conditions and situations other than these, voiceless Dhikr is most preferable and beneficial. At the end of the verse, it was said: إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (Surely, He does not like those who cross the limits). The word: الْمُعْتَدِينَ (al-mu` tadin) is a derivation from I` tida& which means to cross the limits. The sense is that Allah Ta` ala does not like those who cross the limits, exactly as given in the translation. This crossing of limits, whether in Du` a& or some other activity, has the same outcome - that Allah Ta` ala does not like that. In fact, if looked at closely, the religion of Islam is the very name of observing limits and restrictions and electing to submit and obey. Take the example of Salah، Sawm, Hajj, Zakah and all dealings and transactions, when limits set by the Shari` ah of Islam are crossed in them, they do not remain acts of worship anymore - instead, they become sin. Crossing the limits in Du` a& may take several forms. Firstly, that literal formalities, such as rhyming and other stylistic devices, are em¬ployed in Du` a& which may spoil its essential ingredients of humility and submission. Secondly, that unnecessary restrictions are intro-duced in Du` a - as it appears in Hadith that Sayyidna ` Abdullah ibn Mughaffal (رض) saw that his son was making Du` a& in the following words: ` 0 Allah, I seek from You the palace in Paradise which is white in colour and located on the right hand side.& He stopped him and said: ` Making such restrictions in Du` a is crossing the limit, which has been prohibited in the Qur&an and Hadith.& (Mazhari from a narration of Ibn Majah and others) The third form of crossing the limits is that someone makes a Du` a& wishing ill of Muslims in general, or asks from Allah something which is harmful for them. Similarly, it is also a form of crossing the limits - as mentioned here - that Du` a& be made in a raised voice without the need to do so. (Tafsir Mazhari, Ahkam al-Qur&an)

خلاصہ تفسیر تم لوگ (ہر حالت میں اور ہر حاجت میں) اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو تذلل ظاہر کرکے بھی اور چپکے چپکے بھی (البتہ یہ بات) واقعی (ہے کہ) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو (دعاء میں) حد (ادب) سے نکل جاویں (مثلاً محالات عقلیہ یا محرمات شرعیہ کی دعا مانگنے لگیں) اور دنیا میں بعد اس کے کہ (تعلیم توحید اور بعثت انبیاء کے ذریعہ) اس کی اصلاح اور درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاو (یعنی امور حقہ توحید وغیرہ کے ماننے اور ان پر چلنے سے جن کی اوپر تعلیم ہے عالم میں امن قائم ہوتا ہے تم تعلیم مذکور کو چھوڑ کر نقض امن مت کرو) اور (جیسا تم کو اوپر خاص دعا کرنے کا حکم ہوا ہے اسی طرح بقیہ عبادات کا حکم کیا جاتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی عبادت (جس طریق سے تم کو بتلا دیا ہے) کیا کرو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے (یعنی عبادت کرکے نہ تو ناز ہو اور نہ مایوسی ہو، آگے عبادت کی ترغیب ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے معارف و مسائل آیات مذکورہ سے پہلی آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کامل کے خاص خاص مظاہر اور اہم انعامات کا ذکر تھا، ان آیات میں اس کا بیان ہے کہ جب قدرت مطلقہ کا مالک اور تمام احسانات و انعامات کا کرنے والا صرف رب العالمین ہے تو مصیبت اور حاجت کے وقت اسی کو پکارنا اور اسی سے دعا کرنا چاہئے، اس کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف متوجہ ہونا جہالت اور محرومی ہے۔ اسی کے ساتھ ان آیات میں دعاء کے بعض آداب بھی بتلا دیئے گئے، جن کی رعایت کرنے سے قبولیت دعاء کی امید زیادہ ہوجاتی ہے۔ لفظ دعا عربی زبان میں کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنے کے معنی میں بھی آتا ہے، اور مطلق یاد کرنے کے معنی میں بھی، اور یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں، آیت میں ارشاد ہے : اُدْعُوْا رَبَّكُمْ یعنی پکارو اپنے رب کو اپنی حاجات کے لئے، یا یاد کرو اور عبادت کرو اپنے رب کی۔ پہلی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اپنی حاجات صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو اور دوسری صورت میں یہ کہ ذکر و عبادت صرف اسی کی کرو، یہ دونوں تفسیریں سلف صالحین ائمہ تفسیر سے منقول بھی ہیں۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ، تضرّع کے معنی عجز و انکسار اور اظہار تذلل کے ہیں، اور خفیہ کے معنی پوشیدہ چھپا ہوا، جیسا کہ اردو زبان میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔ ان دونوں لفظوں میں دعا و ذکر کے لئے دو اہم آداب کا بیان ہے، اول یہ کہ قبولیت دعا کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے عجز و انکسار اور تذلل کا اظہار کرکے دعا کرے، اس کے الفاظ بھی عجز و انکسار کے مناسب ہوں، لب و لہجہ بھی تواضع و انکسار کا ہو، ہیئت دعا مانگنے کی بھی ایسی ہی ہو، اس سے معلوم ہوا کہ آج کل عوام جس انداز سے دعا مانگتی ہیں اول تو اس کو دعا مانگنا ہی نہیں کہا جاسکتا، بلکہ پڑھنا کہنا چاہئے، کیونکہ اکثر یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جو کلمات زبان سے بول رہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے، جیسا کہ آج کل عام مساجد میں اماموں کا معمول ہوگیا ہے کہ کچھ عربی زبان کے کلمات دعائیہ انھیں یاد ہوتے ہیں ختم نماز پر انھیں پڑھ دیتے ہیں، اکثر تو خود ان اماموں کو بھی ان کلمات کا مطلب و مفہوم معلوم نہیں ہوتا اور اگر ان کو معلوم ہو تو کم از کم جاہل مقتدی تو اس سے بالکل بیخبر ہوتے ہیں، وہ بےسمجھے بوجھے امام کے پڑھے ہوئے کلمات کے پیچھے آمین آمین کہتے ہیں، اس سارے تماشہ کا حاصل چند کلمات کا پڑھنا ہوتا ہے، دعا مانگنے کی جو حقیقت ہے یہاں پائی ہی نہیں جاتی، یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان بےجان کلمات ہی کو قبول فرما کر قبولیت دعا کے آثار فرما دیں، مگر اپنی طرف سے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دعا پڑھی نہیں جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مانگنے کے ڈھنگ سے مانگا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے کلمات کے معنی بھی معلوم ہوں اور سمجھ کر ہی کہہ ریا ہو تو اگر اس کے ساتھ عنوان اور لب و لہجہ اور ہیئت ظاہری تواضع و انکسار کی نہ ہو تو یہ دعا نرا ایک مطالبہ رہ جاتا ہے، جس کا کسی بندے کو کوئی حق نہیں۔ غرض پہلے لفظ میں روح دعا بتلا دی گئی کہ وہ عاجزی و انکساری اور اپنی ذلت و پستی کا اظہار کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگنا ہے، دوسرے لفظ میں ایک دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ دعا کا خفیہ اور آہستہ مانگنا افضل اور قرین قبول ہے، کیونکہ بآواز بلند دعا مانگنے میں اول تو تواضع و انکسار باقی رہنا مشکل ہے، ثانیاً اس میں ریاء و شہرت کا بھی خطرہ ہے، ثالثاً اس کی صورت عمل ایسی ہے کہ گویا یہ شخص یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ سمیع علیم ہیں، ہمارے ظاہر و باطن کو یکساں جانتے ہیں، ہر بات خفیہ ہو یا جہر اس کو سنتے ہیں، اسی لئے غزوہ خیبر کے موقع پر صحابہ کرام کی آواز دعا میں بلند ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو جو اتنی بلند آواز سے کہتے ہو، بلکہ اہل سمیع و قریب تمہارا مخاطب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ، (اس لئے آواز بلند کرنا فضول ہے) خود اللہ جل شانہ نے ایک مرد صالح کی دعا کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا ہے (آیت) اذ نادی ربہ نداء خفیا، یعنی ” جب انہوں نے رب کو پکارا آہستہ آواز سے “ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو دعا کی یہ کیفیت پسند ہے کہ پست اور آہستہ آواز سے دعا مانگی جائے۔ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علانیہ اور جہراً دعا کرنے میں اور آہستہ پست آواز سے کرنے میں ستر درجہ فضیلت کا فرق ہے، سلف صالحین کی عادت یہ تھی کہ ذکر و دعا میں بڑا مجاہدہ کرتے اور اکثر اوقات مشغول رہتے تھے مگر کوئی ان کی آواز نہ سنتا تھا، بلکہ ان کی دعائیں صرف ان کے اور ان کے رب کے درمیان رہتی تھیں، ان میں بہت سے حضرات پورا قرآن حفظ کرتے اور تلاوت کرتے رہتے تھے، مگر کسی دوسرے کو خبر نہ ہوتی تھی، اور بہت سے حضرات بڑا علم دین حاصل کرتے، مگر لوگوں پر جتلاتے نہ پھرتے تھے، بہت سے حضرات راتوں کو اپنے گھروں میں طویل طویل نمازیں ادا کرتے مگر آنے والوں کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی، اور فرمایا کہ ہم نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ تمام عبادات جن کو وہ پوشیدہ کرکے ادا کرسکتے تھے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اس کو ظاہر کرکے ادا کرتے ہوں، ان کی آوازیں دعاؤں میں نہایت پست ہوتی تھیں (ابن کثیر، مظہری) ابن جریج نے فرمایا کہ دعاء میں آواز بلند کرنا اور شور کرنا مکروہ ہے، امام ابو جصاص حنفی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کا آہستہ مانگنا بہ نسبت اظہار کے افضل ہے، حضرت حسن بصری اور ابن عباس (رض) سے ایسا ہی منقول ہے، اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں سورة فاتحہ کے ختم پر جو آمین کہی جاتی ہے اس کو بھی آہستہ کہنا افضل ہے، کیونکہ آمین بھی ایک دعا ہے۔ ہمارے زمانہ کے ائمہ مساجد کو اللہ تعالیٰ ہدایت فرما دیں کہ قرآن و سنت کی اس تلقین اور بزرگان سلف کی ہدایت کو یکسر چھوڑ بیٹھے، ہر نماز کے بعد دعا کی ایک مصنوعی سی کاروائی ہوتی ہے، بلند آواز سے کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں جو آداب دعا کے خلاف ہونے کے علاوہ ان نمازیوں کی نماز میں بھی خلل انداز ہوتے ہیں جو مسبوق ہونے کی وجہ سے امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر رہے ہیں، غلبہ رسوم نے اس کی برائی اور مفاسد کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے، کسی خاص موقع پر خاص دعا پوری جماعت سے کرانا مقصود ہو ایسے موقع پر ایک آدمی کسی قدر آواز سے دعا کے الفاظ کہے اور دوسرے آمین کہیں اس کا مضائقہ نہیں، شرط یہ ہے کہ دوسروں کی نماز و عبادت میں خلل کا موجب نہ بنیں، اور ایسا کرنے کی عادت نہ ڈالیں کہ عوام یہ سمجھنے لگیں کہ دعا کرنے کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ آج کل عام طور سے ہو رہا ہے۔ یہ بیان اپنی حاجات کے لئے دعا مانگنے کا تھا، اگر دعا کے معنی اس جگہ ذکر و عبادت کے لئے جاویں تو اس میں بھی علماء سلف کی تحقیق یہی ہے کہ ذکر سر ذکر جہر سے افضل ہے، اور صوفیائے کرام میں مشائخ چشتیہ جو مبتدی کو ذکر جہر کی تلقین فرماتے ہیں وہ اس شخص کے حال کی مناسبت سے بطور علاج کے ہے، تاکہ جہر کے ذریعہ کسل اور غفلت دور ہوجائے، اور قلب میں ذکر اللہ کے ساتھ ایک لگاؤ پیدا ہوجائے، ورنہ فی نفسہ ذکر میں جہر کرنا ان کے یہاں بھی مطلوب نہیں گو جائز ہے اور جواز اس کا بھی حدیث سے ثابت ہے بشرطیکہ اس میں ریا و نمود نہ ہو۔ امام احمد بن حنبل، ابن حیان، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خیر الذکر الخفی وخیر الرزق ما یکفی ” یعنی بہترین ذکر خفی ہے، اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لئے کافی ہو جائے “ ہاں خاص خاص حالات اور اوقات میں جہر ہی مطلوب اور افضل ہے ان اوقات و حالت کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دی ہے، مثلاً اذان و اقامت کا بلند آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرنا، تکبیرات نماز، تکبیرات تشریق، حج میں تلبیہ بلند آواز سے کہنا وغیرہ، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فیصلہ اس باب میں یہ فرمایا ہے کہ کن خاص حالات اور مقامات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قولاً یا عملاً جہر کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں تو جہر ہی کرنا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے حالات و مقامات میں ذکر خفی اولیٰ وانفع ہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ معتدین، اعتداء سے مشتق ہے اعتداء کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے، حد سے آگے بڑھنا خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں سب کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دین اسلام نام ہی حدود وقیود کی پابندی اور فرمانبرداری کا ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور تمام معاملات میں حدود شرعیہ سے تجاوز کیا جائے تو وہ بجائے عبادت کے گناہ بن جاتے ہیں۔ دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قافیہ وغیرہ کے اختیار کئے جائیں جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے، دوسرے یہ کہ دعا میں غیر ضروری قیدیں شرطیں لگائی جائیں، جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) نے دیکھا کہ ان کے صاحبزادے اس طرح دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں، تو موصوف نے ان کو روکا، اور فرمایا کہ دعا میں ایسی قیدیں شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے، جس کو قرآن و حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے (مظہری) تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لئے بددعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لئے مضر ہو، اسی طرح ایک صورت حد سے تجاوز کی یہ بھی ہے جو اس جگہ مذکور ہے کہ دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کی جائے (تفسیر مظہری، احکام القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝ ٠ ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٥٦ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ طمع الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ. قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] ، ( ط م ع ) الطمع کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دعا کا طریقہ قول باری ہے وادعواربکم تضرعاً عاوخفیۃ۔ اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے) آیت میں چپکے چپکے رب کو پکارنے کا حکم ہے حسن کا قول ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تم اپنے رب کو کس طرح پکارو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک عہد صالح کا ذکر فرمایا جس کی پکار کو اس نے پسند فرمایا تھا چناچہ ارشاد ہے اذنادی ربہ نداء خفیا۔ جبکہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا) یعنی حضرت زکریاعلیہ السلام عبداللہ بن المبارک نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ لوگ یعنی صحابہ کرام بڑی عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ دعائیں مانگا کرتے تھے اور صرف سرگوشی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت ابوموسیٰ شعری (رض) نے روایت کی ہے و ہ فرماتے ہیں : ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو بلند آواز سے دعائیں مانگتے ہوئے سنا۔ آپ نے ان سے فرمایا یایھا الناس انکم لاتدعون اصم ولاغائباً ۔ توگو، تم کسی ایسی ذات کو نہیں پکار رہے ہو جو بہری یا غائب ہے) یعنی تمہیں بلند آواز سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت سعد (رض) بن مالک نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خیرالذکر الخفی وخیرالرزق ما یکفی۔ بہترین ذکر ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرتا ہو) بکربن خینس نے ضرار سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا عمل البرکلہ نصف العبادۃ والدعا نصف العبادۃ۔ نیکیوں کے تمام کام آدھی عبادت ہیں اور تنہا دعا آدمی عبادت ہے) دعا کی ہیئت سالم نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو ہاتھ نیچے کرنے سے پہلے انہیں ضرور اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں نیز مذکورہ بالا آثار و روایات میں جو کچھ ذکر ہوا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء میں اخفا اس کے اظہار سے افضل ہے۔ اس لئے کہ خفیہ کے معنی سر یعنی پوشیدگی کے ہیں۔ یہ بات حضرت ابن عباس (رض) اور حسن بصری سے مروی ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ کی قرات کے بعد آہستہ آواز میں آمین کہنا آمین بالجہر سے افضل ہے۔ اس لئے کہ آمین دعا ہے اس پر وہ بات دلالت کرتی ہے جو قول باری قد اجیبت دعوتکما۔ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی) کی تاویل میں کہی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو دعا کرنے والوں کے نام سے موسوم کیا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ چپکے چپکے دعا مانگنا اس لئے افضل ہے کہ اس میں ریاکاری کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ تضرع کے معنی کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ مختلف جہات میں جھکائو کا نام ہے۔ جب کوئی شخص اپنی دو انگلیوں کو خوف یا ذلت کی بنا پر دائیں بائیں جھکائے تو کہا جاتا ہے ضرع الرجل ضرعاً ۔ اسی سے بکری کے تھن کو ضرع کہتے ہیں اس لئے کو دودھ کا جھکائو تھن کی طرف ہوتا ہے۔ مشابہت کو مضارعت کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں ایک چیز اپنی مشابہ چیز کی طرف جھکتی اور مائل ہوتی ہے جس طرح مقاریت میں ہوتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ جب دعا مانگتے تو انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ بھی کرتے تھے حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوم عرفہ کی شام کے وقت ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتے ہوئے دیکھا گیا تھا حتی کہ آپ کے بغلوں کے اندرونی حصے نظر آرہے تھے حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استسقاء یعنی بارش کی دعا مانگتے ہوئے دیکھا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا رکھے تھے حتی کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھ لی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرنے کی جو روایت منقول ہے وہ تضرع کے بارے میں ان حضرات کے قول کی صحت کی دلیل ہے کہ جنہوں نے اس کے معنی انگلیوں کو دائیں بائیں پھیرنا بیان کئے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) ظاہری اور پوشیدہ طور پر یا یہ کہ ڈر اور عاجزی ظاہر کرکے دعا کیا کرو وہ دعا میں ایسی باتوں کو پسند کرتا ہے جو ان کے لیے نیکوکاروں کے خلاف جائز نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ ) گویا زیادہ بلند آواز سے دعا مانگنا اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: اس حد سے گزرنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ بہت اونچی آواز سے دعا مانگی جائے، اور یہ بھی کہ کوئی ناجائز یا ناممکن چیز طلب کی جائے، جو دعا کے بجائے (معاذاللہ) مذاق بن جائے، مثلاً یہ دعا کہ میں ابھی آسمان پر چڑھ جاؤں، کفار بعض اوقات آنحضرتﷺ سے اس قسم کی دعائیں مانگنے کا مطالبہ کرتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(55 ۔ 56) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دعا مانگنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ گڑ گڑا کر چپکے سے دعا مانگو تاکہ ریا نہ ہو وے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ خفیہ کے معنے پوشیدہ کے ہیں ابن جریر نے تضرع کے معنے گرگڑانے کے بیان کئے ہیں۔ دعا کے اندر چلانے اور چیخنے سے منع کیا گیا ہے صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا جبکہ لوگوں نے دعا میں آوازیں بلند کیں تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے ہو جو جتلاتے ہو بلکہ جس کو پکارتے ہو وہ سنتا بھی ہے اور قریب ہے پھر کیوں نہیں چپکے سے دعا مانگتے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ دعا میں حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا دعا میں حد سے بڑھنا یہ کہ پیغمبروں کے درجہ کا سوال نہ کرے اور بڑی بات منہ سے نہ نکالے جہاں تک ہو سکے دعا جامع ومختصر ہو جیسے (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ (٢: ٢٦) قرآن میں ہے معتبر سند سے مسند امام احمد ابن ماجہ وابوداود ‘ میں روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل (رض) نے اپنے بیٹے کو یہ دعا مانگتے سنا کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت کے داہنے طرف سعید محل مانگتا ہوں عبداللہ نے یہ دعا سن کر اپنے بیٹے سے کہا کہ اے بیٹے طلب کر خدا سے بہشت اور دوزخ سے پناہ چاہ کیونکہ میں نے پیغمبر سے سنا فرماتے تھے کہ لوگ دعا میں حد سے بڑھ جاوینگے پھر خدا تعالیٰ نے اصلاح کے بعد زمین میں فساد کرنے سے منع فرمایا مطلب یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے کتابوں اور رسولوں کو بھیج کر زمین کو سنوار دیا تو اب اس زمین کا بگاڑنا کفر اور شرک کی رسمیں اس میں پھیلانی اور قتل و زنا وغیرہ کا پھیلانا قطعی حرام ہے زمین کے اصلاح و فساد سے مطلب زمین پر رہنے والوں کی اصلاح و فساد ہے۔ اس آیت میں یہ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ پکارو اس کو ڈر سے اور لالچ سے دعا کرو مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے کے وقت جس دعا کرنے والے میں حالت خوف اور امید کی ہوگی وہ اپنے مطلب میں کامیاب ہوگا عذاب سے ڈر کر اور ثواب کا امیدوار ہو کر دعا مانگنی چاہئے پھر فرمایا جو اس طریقہ اور آداب سے خلوص کے ساتھ خدا سے دعا مانگتے ہیں وہ نیکو کار ہیں اور اللہ کی رحمت ان نیکو کاروں کے قریب ہے اللہ تعالیٰ کو بندہ کی عاجزی بہت پسند اور بندہ کا تکبرنا پسند ہے۔ عبادت اور دعا دونوں میں بندہ کی عاجزی پائی جاتی ہے اسی واسطے شریعت میں عبادت اور دعا دونوں کی تاکید آئی ہے۔ دعا کی قبولیت کی بڑی شرط یہ ہے کہ آدمی کا کھانا کپڑا حلال کمائی کا ہو چناچہ مسندامام احمد صحیح مسلم اور ترمذی کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہت سے لوگ گڑ گڑا کر دعا مانگتے ہیں لیکن انکا کھانا کپڑا حلال کی کمائی کا نہیں ہوتا اس لئے ان کی دعا کا قبول ہونا تو درکنار ان کی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی دعا کے قبول ہونے کی باقی تشریح سورة بقر میں گذر چکی ہیں اور معتبر سند سے مسند امام احمد مستدرک حاکم مسند ابویعلی وغیرہ میں جو روایتیں چند صحابہ سے ہیں ان کا حاصل بھی گذر چکی ہیں کہ شرائط کے موافق جو دعا کی جاوے یا تو فورا وہ قبول ہوجاتی ہے اور اگر مصلحت الٰہی میں وہ دعا اس شخص کے حق میں فائدہ مند نہیں تو کوئی برائی اس شخص سے ٹل جاتی ہے اور آخرت میں اس شخص کے لئے ایک اجر اس دعا کا مقرر ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:55) ادعوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم پکارو دعوۃ سے ۔ باب نصر۔ تضرعا۔ عاجزی سے۔ گڑگڑاکر۔ بروزن تفعل مصدر ہے۔ خفیۃ۔ پوشیدہ۔ چھپا ہوا۔ یہاں بمعنی چپکے چپکے۔ آہستہ آہستہ۔ معتدین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اعتداء (افتعال) مصدر۔ حد سے آگے بڑھنے والے حد سے تجاوز کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی دعاذات و خشوع کے ساتھ ہونی چاہیے اور دعا میں اخفا مستحب ہے کیونکہ اس سے اخلاص پیداہو تا ہے اور ریاکاری راہ نہیں پاتی اور لایحب المعتدین کے معنی یہ ہیں کہ حدود شریعت سے تجاوز کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور ایسی چیز کی دعا کرنا ممکن ہو۔ مثلام دنیا میں ہمیشہ زندہ رہوں یا یہ کہ آخرت میں انبیا کا مرتبہ حاصل ہوجائے وغیرہ دعا میں حد سے تجاوز ہے اسی طرح چیخا چلایا جائے اور ادعئیہ یا ثورہ کو چھوڑ کر مقفی کلام اور اشعار پڑھ کر دعا کی جائے وغیر بھی اعتدا فی الد عا میں داخل ہے۔ ( شوکانی وغیرہ) ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگ بلند آواز سے دعا کرنے لگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو اپنے تئیں آرام دو ، ( یعنی ذرا آہستہ پکا رو) کیونکہ تم کسی گونگے یا غائب کو نہیں پکار ہے ہو بلکہ جسے پکار رہے وہ سننے والا بھی ہے اور تم قریب بھی ہے۔ ( بخاری ومسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جب زمین و آسمانوں کا خالق، رات اور دن، شمس و قمر اور ہر چیز کا مالک وہی ہے اور ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔ تو کسی دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا کیا معنٰی ؟ لہٰذا حقیقی خالق اور بااختیار مالک سے مانگا کیجیے اس سے نہ مانگنا اور غیروں سے مانگنا اللہ تعالیٰ کی بغاوت ہے جس سے ساری زمین کا نظام بگڑتا ہے۔ دعا کے آداب میں شکرو حمد، درود اور توبہ استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا اور فقیر کی شان یہ ہے کہ مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری اور در ما ندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسکے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے لکھا ہے کہ دعا مانگنے والا اس بےبسی اور بےچارگی کا اظہار کرے جس طرح مردہ غساّل کے ہاتھ میں ہو۔ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرَیٰ کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَا لْمَیِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ ) [ حجۃ اللّٰہ ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت و عظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح بےبس سمجھے جس طرح نہلانے والے کے ہاتھوں میت ہوتی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کو انکساری اس قدر پسند ہے کہ جب انسان پریشانیوں کے ہجوم، مسائل کے گرداب اور مصائب کے طوفانوں میں پھنس جاتا ہے۔ عزیز واقربا، دوست و احباب منہ پھیر چکے ہوتے ہیں، لوگوں کی بےوفائی کے جھٹکوں اور حالات و واردات کے تھپیڑوں نے اسے زمین کی پستیوں پردے مارا ہوتا ہے تمام وابستگیاں ختم اور ہر قسم کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ اب نہ اٹھنے کی ہمت ہے اور نہ بیٹھنے کی سکت ہر دم بستر کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ جسمانی طور پر اس قدر کمزوری کا عالم ! کہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ ہاتھ اٹھانا چاہتا ہے مگر ہمت اور طاقت ختم ہوچکی ہے۔ کیونکہ بیماری اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ معذور یاں، مجبوریاں : ان مجبوریوں اور معذوریوں میں ایک آواز اس کے کانوں کو مس کرتی ہے۔ آواز میں یہ تحریک اور امید دلائی جارہی ہے کہ میرے کمزور، ناتواں اور گناہ گار بندے تجھے اپنی درماندگیوں، لاچاریوں اور کمزوریوں پر نگاہ رکھنے کی بجائے میری رحمت پر امید رکھنی چاہئے کیونکہ میرے بغیر کوئی چارہ گر اور تیرا پر سان حال اور تیری غلطیاں معاف کرنے والا نہیں۔ امید کی اس پکار نے اس کے کمزور جسم میں طاقت، ناتواں ہاتھوں میں سکت اور شکستہ دل میں ایک امیدپیدا کردی ہے۔ وہ کانپتے وجود، لرزتے ہاتھوں کو اس کی بارگاہ اقدس میں پھیلا دیتا ہے۔ اس کی زبان سے نہایت نحیف آواز نکلتی ہے کہ اے رحیم وکریم مالک میں ہر طرف سے ٹھکرایا ہوا اور ہر جانب سے بےآسرا ہو کر تیری بارگاہ پاک میں اپنادامن حاجت پھیلا رہا ہوں۔ تو میری فریاد قبول فرما۔ میں تیرے در کا محتاج اور تیری رحمت کا طلب گار ہوں اس کے جواب میں آواز آتی ہے : (قُلْ ےٰعِبَادِیَ الَّذِےْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِےْعًا إِنَّہُ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِےْمُ ) [ الزمر : ٥٣] ”(اے نبی) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ تو غفورالرحیم ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو عاجزی اور انکساری کے ساتھ پکارنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے خوف اور امید کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ سے نہ مانگنے والے فسادی لوگ ہیں۔ ٤۔ اللہ کی رحمت اس کے نیک بندوں کے قریب تر ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی رحمت : ١۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٢۔ اللہ کی رحمت دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ (الزخرف : ٣٢) ٣۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٤۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٥٥ تا ٥٦۔ یہ ہدایات ایسے وقت میں دی جارہی ہیں جبکہ مطالعہ کرنے والا نفسیانی طور پر ان کو قبول کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ ہوجاتا ہے ۔ وہ دعاء اور رجوع الی اللہ کی حالت میں ہوتا ہے اور اس عظیم کارخانہ قدرت کے مطالعہ کے بعد اللہ کے سامنے عاجزی اور فروتنی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ خفیہ سے مراد یہ ہے کہ چیخ و پکار نہ کرو ‘ دھیمی آواز سے پکارو کیونکہ اللہ کی جلالت شان کے لائق یہ ہے کہ انسان اسے نہایت ہی نرم اور دھیمی آواز میں پکارے اور اس انداز میں جس سے معلوم ہو کہ اللہ قریب ہے اور سن رہا ہے ۔ مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ۔ ایک روایت میں آتا ہے ایک غزوہ میں تھے ‘ لوگوں نے زور زور سے اللہ اکبر کہنا شروع کردیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوذرا نرمی کے ساتھ اور اپنے دل میں پکارو ‘ تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے اور نہ کسی ایسے شخص کو پکار رہے ہو جو غائب ہے ‘ تم تو سننے والی قریب ذات کو پکار رہے ہو جو تمہارے ساتھ ہے ۔ یہاں قرآن کریم کا یہ اسلوب لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کر رہا ہے کہ اللہ کی ذات جلیل القدر ہے اور قریب ہے اور دعا اور پکارنے کے وقت قرآن کریم عملا ایسی ہئیت اور شکل پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ پکارنے والا ذات باری کی برتری کی وجہ سے چیخنے اور چلانے سے حیا کرتا ہے ۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کی جلالت قدر بیٹھی ہوئی ہے وہ اللہ کی جناب میں شور وشغب سے دور رہتے ہیں ۔ غرض اس عاجزانہ دعا اور انکساری اور خشوع و خضوع کی فضا میں ‘ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس بات کی ممانعت کردیتے ہیں کہ وہ اپنے لئے اس حاکمیت کا دعوی کریں جو وہ ایام جاہلیت میں کیا کرتے تھے کیونکہ حاکمیت اور اقتدار اعلی کا حق صرف اللہ کو ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ممانعت بھی آجاتی ہے کہ فساد فی الارض سے باز رہو ‘ جبکہ اسلامی شریعت کے نظام کے ذریعے اللہ نے اس کی اصلاح کردی ہے ۔ جو شخص عاجزی ‘ تضرع اور نہایت ہی خفیہ طریقے سے اللہ کو پکارتا ہے جو قریب بھی ہے اور سننے والا بھی ہے تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہیں پھیلاتا کیونکہ ان دونوں تاثرات کے درمیان ایک گہرا داخلی اور نفسیانی ربط ہے ۔ قرآن کا منہاج اصلاح یہ ہے کہ وہ دلوں کی گہری سوچوں اور نفسیاتی میلانات کو لے کر چلتا ہے اور یہ منہاج وہی ذات اختیار کرسکتی ہے جو لطیف وخبیر ہے ۔ آیت ” ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (55) وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (56) اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ‘ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو ‘ جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ۔ “ خوف اس لئے کہ تم اس کے غضب سے بچ جاؤ اور طمع اس لئے کرو کہ وہ تم سے راضی ہوگا اور اجر دے گا ۔ جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر وہ اسے دیکھ نہیں رہے تو ان کی حالت ایسی ہو کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے ۔ جیسا کہ حدیث کے مضمون میں آتا ہے تو یہ ہے احسان ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف کے مطابق ۔ ایک بار پھر قرآن کریم اس کھلی کائنات کا ایک دوسرا ورق انسان کے مطالعے کیلئے الٹتا ہے ۔ یہ ورق تو ہمارے سامنے ہر وقت کھلا رہتا ہے لیکن ہم غفلت میں اس کے پاس سے گزر جاتے ہیں ہیں ہم اس سے کوئی تاثر نہیں لیتے ‘ ہم اس کی پکار کو نہیں سنتے ۔ یہ وہ صفحہ ہے کہ آیت سابقہ میں رحمت الہیہ کے ضمن میں اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ۔ یہاں رحمت الہیہ کے ایک نمونے کے طور پر اسی صفحے کو کھولا جا رہا ہے ۔ آسمانوں سے پانی گر رہا ہے ‘ زمین سے مختلف قسم کی فصلیں اگ رہی ہیں اور زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے یعنی سرسبز ہوجاتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دعا کرنے کے آداب اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور حاکمیت بیان فرمانے کے بعد حکم فرمایا کہ اسی کی طرف متوجہ رہو اسی کو پکارو، اسی سے مانگو اسی سے اپنی حاجتوں کا سوال کرو۔ ساتھ ہی دعا کا ادب بھی بتادیا اور وہ یہ کہ تضرع یعنی عاجزی کے ساتھ دعا کیا کرو دعا میں اپنی عاجزی اختیار کرو اور دل سے مانو کہ واقعی ہم عاجز ہیں، نیز یہ بھی بتایا کہ چپکے چپکے دعا کرو۔ بعض مواقع میں زور سے دعا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن عام حالت میں چپکے چپکے ہی دعا کرنا چاہئے۔ سورۂ مریم میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اِذْنَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا) (جبکہ زکریا نے اپنے رب کو پکارا پوشیدہ طریقہ پر) بات یہ ہے کہ خفیہ دعا کرنے میں حضوری قلب کا موقع زیادہ ہوتا ہے۔ اگر زور سے دعا کی جائے تو اونچی آواز کرنے کی طرف بھی دھیان رہتا ہے اور اس میں توجہ بٹ جاتی ہے۔ بعض صحابہ (رض) نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ! کیا ہمارا رب قریب ہے اگر ایسا ہے تو ہم اس سے مناجات کریں یعنی خفیہ طریقہ پر مانگیں۔ یا وہ دور ہے جسے ہم زور سے پکاریں اس پر آیت کریمہ (وَ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنّیِْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ) (الآیۃ) نازل ہوئی (درمنثور ج ١ ص ١٩٤) صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انا عند ظن عبدی بی و انا معہ اذا ذکرنی (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٩٦) میں اپنے بندوں کے گمان کے ساتھ ہوں وہ میرے بارے میں جو گمان کرے اور میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ تمہارا رب تم سے اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنی تمہاری سواری والی اونٹنی کی گردن تم سے قریب ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٠١ از بخاری و مسلم) پس جب اللہ جل شانہٗ بندوں سے اس قدر قریب ہے تو دعا میں چیخنے اور پکارنے کی ضرورت نہیں آہستہ دعا کریں اور دل لگا کر مانگیں۔ پھر ارشاد فرمایا (اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ) (بےشک وہ حد سے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں فرماتا) اس میں عمومی طور پر تمام اعمال میں اعتداء اور اسراف اور حد سے آگے بڑھ جانے کی ممانعت فرما دی۔ یہ اعتداء حد سے بڑھ جانا دعا میں بھی ہوتا ہے۔ حضرات مفسرین نے بطور مثال کے لکھا ہے کہ دعا میں ایک اعتداء یہ ہے کہ (مثلاً ) اپنے لیے یہ سوال کرے کہ مجھے جنت میں حضرت انبیاء (علیہ السلام) کی منازل عطا کی جائیں اگر گناہ کرنے یا قطع رحمی کی دعا کی جائے تو یہ بھی اعتداء کی ایک صورت ہے۔ سنن ابو داؤد ج ١ ص ١٣ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) نے اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا اللھمَّ انی اسئلک القصر الابیض عن یمین الجنۃ (اے اللہ ! میں آپ سے جنت کی دائیں جانب سفید محل کا سوال کرتا ہوں) یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) نے فرمایا اے بیٹا ! تو اللہ سے جنت کا سوال کر اور دوزخ سے پناہ مانگ (اپنی طرف سے سفید محل تجویز نہ کر) میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو طہور (وضو، غسل وغیرہ میں) اور دعاء میں اعتداء یعنی زیادتی کریں گے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں جو حدود شرعیہ سے آگے بڑھ جاتے ہیں اس کی ممانعت بھی آیت کریمہ کے عموم الفاظ میں داخل ہے۔ نیکی تو بہت بڑی چیز ہے لیکن شرعاً اس کی بھی حدود مقرر ہیں کوئی شخص راتوں رات نماز پڑھے اپنی بیوی اور مہمانوں کی خبر نہ لے یا رات دن ذکر و تلاوت میں لگا رہے اور بیوی بچوں کی معاش کے لیے فکر مند نہ ہو اور ان کے لیے اتنی روزی نہ کمائے جس سے واجبات ادا ہوں یہ بھی اعتداء اور زیادتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65: چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا خالق ومالک ہے اور وہی متصرف و مختار ہے لہذا غائبانہ حاجات میں اسی کو پکارو “ المعتدین ” غیر اللہ کو پکارنے والے “ وَلَا تُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ ” ای بالشرک بعد التوحید (مدارک ج 2 ص 43) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55 لوگو ! اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر تذلل اور انتہائی عاجزی کے ساتھ بھی دعا کیا کرو اور چپکے چپکے بھی بیشک اللہ تعالیٰ حد سے آگے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ جملہ مخلوقات کا خواہ وہ مجردات ہوں یا مادیات اللہ تعالیٰ ہی مالک ہے تو تم سب اپنی حاجات اور ضروریات اس ہی سے مانگا کرو۔ مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ نہایت خشوع و خضوع اور الحاح وزاری اور خلوص کے ساتھ مانگا کرو اور چپکے چپکے آہستہ آہستہ مانگا کرو۔ کیونکہ نہ تو وہ غائب ہے اور نہ وہ بہرا ہے دعا میں اصل اخفا ہے حد سے بڑھ جانے والے وہ ہیں جو دعا میں ریاکاری کریں یا بلاوجہ غل مچائیں یا مبالغہ سے کام لیں یا دعا کے الفاظ میں قافیہ بندی کریں یا غیر اللہ سے حاجتیں مانگیں یا محال عقلی یا محال شرعی کی دعا کرنا وغیرہ۔