Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 59

سورة الأعراف

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۵۹﴾

We had certainly sent Noah to his people, and he said, "O my people, worship Allah ; you have no deity other than Him. Indeed, I fear for you the punishment of a tremendous Day.

ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Nuh and His People After Allah mentioned the story of Adam in the beginning of this Surah, He started mentioning the stories of the Prophets, the first then the latter of them. Allah mentioned the story of Nuh, because he was the first Messenger Allah sent to the people of the earth after Adam. His name was Nuh bin Lamak bin Matushalakh bin Khanukh. And Khanukh was, as they claim, the Prophet Idris. And Idris was the first person to write letters using pen, and he was the son of Barad bin Mahlil, bin Qanin bin Yanish bin Shith bin Adam, upon them all be peace. This lineage is mentioned by Muhammad bin Ishaq and other Imams who document lineage. Abdullah bin Abbas and several other scholars of Tafsir said that; the first idol worship began when some righteous people died and their people built places of worship over their graves. They made images of them so that they could remember their righteousness and devotion, and thus, imitate them. When time passed, they made statues of them and later on worshipped these idols, naming them after the righteous people: Wadd, Suwa, Yaghuth, Ya`uq and Nasr. After this practice became popular, Allah sent Nuh as a Messenger, all thanks are due to Him. Allah tells; لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ ... Indeed, We sent Nuh to his people and he said: Nuh commanded his people to worship Allah alone without partners, saying, ... يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ إِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ "O my people! Worship Allah! You have no other god but Him. Certainly, I fear for you the torment of a Great Day!" the torment of the Day of Resurrection, if you meet Allah while associating others with Him.

پھر تذکرہ انبیاء چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے ۔ آپ نوح بن ملک بن مقوشلخ بن اخنوخ ( یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔ ائمہ نسب جیسے امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا ۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے ۔ انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے ۔ حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گذرے تھے ۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہوگئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے ۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر وغیرہ ۔ جب بت پرستی کا رواج ہو گیا ، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوح کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو ۔ قوم نوح کے بڑوں نے ، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو ۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں ۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔ ہر رسول مبلغ ، فصیح ، بلیغ ، ناصح ، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے ۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ ، اے اللہ تو شاہد رہ ، یا اللہ تو گواہ رہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] سیدنا نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے شرک کا آغاز کیسے ہوا تھا ؟ سیدنا آدم (علیہ السلام) کی وفات کے بعد مدتوں ان کی اولاد راہ ہدایت پر قائم رہی پھر آہستہ آہستہ ان میں بگاڑ پیدا ہونے لگا اور یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ فساد فی الارض کی بنیاد شرک پر ہی اٹھتی ہے۔ ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اس شرک کا آغاز اس طرح ہوا کہ اس قوم میں سے وقتاً فوقتاً پانچ بزرگ اور صالح قسم کے لوگ وفات پا گئے جنہیں دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگتی تھی جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو عبادت گزار لوگوں نے ان کے خلا کو بری طرح محسوس کیا شیطان نے انہیں پٹی پڑھائی کہ اگر تم ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر سامنے رکھ لو تو تمہیں مطلوبہ فائدہ ہوسکتا ہے تمہارا اللہ کی عبادت میں اسی طرح دل لگا کرے گا جس طرح ان کی موجودگی میں لگا کرتا تھا۔ سادہ لوح لوگ شیطان کے اس فریب میں آگئے اور انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے بنا کر مسجدوں میں اپنے سامنے رکھ لیے۔ یہ لوگ تو ان مجسموں کو دیکھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے رہے مگر بعد میں آنے والی نسلوں نے انہی مجسموں کی پرستش شروع کردی اور جب سیدنا نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو ان کی قوم بری طرح ان پانچ بزرگوں، جن کے نام ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر سورة نوح میں مذکور ہیں کی پرستش میں پھنس چکی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نوح) سیدنا نوح (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ :۔ نوح (علیہ السلام) کا مرکز دعوت عراق کا علاقہ تھا اور غالباً اس وقت دنیا کا صرف یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا اور ابتداًء دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز بنا۔ ماسوائے سیدنا آدم (علیہ السلام) کے باقی تمام انبیاء کی دعوت کا آغاز شرک سے امتناع اور خالص اللہ کی پرستش سے ہوتا ہے اور ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا آغاز سیدنا نوح (علیہ السلام) نے بھی اسی دعوت سے کیا اور ساتھ ہی اس بات پر متنبہ کردیا کہ اگر تم شرک سے باز نہ آئے تو تم پر سخت قسم کا عذاب واقع ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ : اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک پاکیزہ فطرت (طیب) جو ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم و عمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، دوسرے وہ جو شرارت پسند اور بد فطرت ہوتے ہیں، یہ لوگ ہدایت کی بارش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹے جھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے، اس لیے ان پر رحمت کی بارش اتنی فائدہ بخش نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں۔ (کبیر) نوح (علیہ السلام) چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت کبریٰ (بخاری : ٤٧١٢) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انھی کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (سورۂ نوح میں مذکور بت) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ ان کی مجالس میں، جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے مجسمے نصب کر دو اور ان کے نام پر ان کے نام رکھ دو ، یہاں تک کہ جب وہ نسل فوت ہوگئی اور علم مٹ گیا تو ان کی عبادت شروع ہوگئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( ودا ولا سواعا ولا یغوث و یعوق ) : ٤٩٢٠ ] تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عراق میں آباد تھی، ان کا زمانہ ٣٨٠٠ تا ٢٨٠٠ قبل مسیح ہے، مگر اس زمانے کی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Described from the beginning of Surah al-A` raf upto this point were the subjects of Tauhid, Risalah and &Akhirah, the basic principles of Islam. These were proved and affirmed in different ways, people were persuaded to follow them and warned against taking opposing stands. Then, as a corollary, the guiles of Satan which make people go astray were mentioned. Now, from the eighth Ruku` (section) to almost the end of the Surah, there is a description of some prophets, may peace be upon them, and of their communities. The subject dealt with here con¬sists of the commonly pursued principles of Tauhid, Risalah and &Akhirah. They all invited their respective communities towards these universal principles, gave them the good news of rewards for those who believed in them, and warned them of punishments for refusing to believe and the sad end they would have for doing so. This description takes about fourteen sections, where hundreds of basic and subsidiary rulings appear as a corollary. Thus, the present communities were given an opportunity to learn a lesson from the sad end of past communi¬ties - and, for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) this became a source of comfort that this was how things have been with all other prophets. The verses appearing above take a whole Ruku` of Surah al-A` raf. It describes the mission of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and the state of the community to which he was sent. Though, in the chain of prophets, the first prophet is Sayyidna Adam (علیہ السلام) ، but his was not the time for confrontation against disbe¬lief and error. In the religious code given to him, most of the injunc¬tions were related to habitation of the land and management of human needs. Disbelief and disbelievers just did not exist. The confrontation against Kufr (disbelief) and Shirk (associating partners in the Divinity of Allah) began with Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . He is, in terms of the mis¬sion of prophethood and a code of religious laws, the first rasul of Al¬lah. In addition to that, people who survived after the drowning of the whole world during the great flood or deluge, were Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and those with him in the Ark. It was through him that the new world was populated. Therefore, he is also referred to as the junior Adam. This is the reason why he appears first in this story of prophets which has a description of his nine hundred and fifty year long pro¬phetic struggle in contrast to the crooked ways of the majority in his community, as a result of which, all except a few believers were drowned. Details follow. The first verse begins with the words: لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ (Surely We sent Nuh to his people). Sayyidna Nuh (علیہ السلام) is in the eighth generation of Sayyidna Adam (علیہ السلام) . According to a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) appearing in Mustadrak of Hakim, there is an interval of ten Qarn between Sayyidna Adam (علیہ السلام) and Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . The same has been reported by Tabarani as based on a Hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) narrated by Sayyidna Abu Dharr (رض) (Tafsir Mazhari). A Qarn generally means one hundred years. Therefore, the interval of time between these two comes to be one thousand years according to this narration. Ibn Jarir has reported that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was born eight hundred and twenty six years after the death of Sayyidna Adam (علیہ السلام) ، and according to a clear statement of the Qur&an, he reached an age of nine hundred and fifty years - and according to a Hadith, the age of Sayyidna Adam علیہ السلام is nine hundred and sixty years. Thus, the time from the birth of Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the death of Sayyidna N-uh (علیہ السلام) comes to be a total of two thousand eight hundred and fifty six years. (Mazharl) In some narrations, the real name of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) appears as Shakir while in some others it has been given as Sakan, and ` Abd al-Ghaffar, in still others. Whether his time is before or after Sayyidna Idris (علیہ السلام) - Enoch - has been debated. The majority of the Sahabah have said that Sayyidna Nuh علیہ السلام has appeared before Sayyidna Idris (علیہ السلام) (A1-Bahr Al Muhit) Based on a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) عنہما reports Mustadrak of Hakim that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Nuh (علیہ السلام) was invested with prophethood at the age of forty years and, after the Flood, he lived for sixty years. The verse of the Qur&an: لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ (Surely, We sent Nuh to his people) proves that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was sent as a prophet only to his people. It was not common to the whole world. His people lived in Iraq. They were outwardly civilized but were involved in Shirk. The call given by Sayyidna Nuh (علیہ السلام) to his people was: اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (0 my people, worship Allah. For you there is no god other than Him. I fear for you the punishment of a great Day). In the first sentence, the invitation given is to worship Allah Ta` ula, which is the essence of the principle. In the second sen¬tence, people have been persuaded to shun Shirk and Kufr, something which had spread out like some epidemic among these people. In the third sentence, the purpose is to warn people against the danger of that great punishment which they would have to face in the event they were to do otherwise. This ` great punishment& could mean the punish¬ment of the Hereafter, and the punishment of the Flood in the present world too. (Tafsir Kabir)

خلاصہ تفسیر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے (اس قوم سے) فرمایا کہ اے میری قوم تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اور بتوں کی پرستش چھوڑ دو جن کا نام سورة نوح میں ہے وَد اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر) مجھ کو تمہارے لئے (در صورت میرا کہنا نہ ماننے کے) ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (کہ وہ یوم قیامت ہے یا یوم طوفان) ان کی قوم کے آبرودار لوگوں نے کہا کہ ہم تم کو صریح غلطی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں (کہ توحید کی تعلیم کر رہے ہو اور عذاب کا ڈراوا دکھلا رہے ہو) انہوں نے (جواب میں) فرمایا کہ اے میری قوم مجھ میں تو ذرا بھی غلطی نہیں لیکن ( چونکہ) میں پروردگار عالم کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں (انہوں نے مجھ کو توحید پہنچانے کا حکم کیا ہے اس لئے اپنا منصبی کام کرتا ہوں کہ) تم کو اپنے پروردگار کے پیغام (اور احکام) پہنچاتا ہوں (اور اس پہنچانے میں میری کوئی دنیوی غرض نہیں بلکہ محض) تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں (کیونکہ توحید میں تمہارا ہی نفع ہے) اور (عذاب یوم عظیم سے جو تم کو تعجب ہوتا ہے تو تمہاری غلطی ہے کیونکہ) میں خدا کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں (تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلا دیا ہے کہ ایمان نہ لانے سے عذاب یوم عظیم واقع ہوگا) اور (تم کو جو میرے رسول ہونے پر بوجہ میرے بشر ہونے کے انکار ہے جیسا سورة مومنون میں تصریح ہے (آیت) ما ھذا الا بشر مثلکم یرید تا ملئکۃ الخ) کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا (بشر) ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی (وہ نصیحت کی بات یہی ہے جو مذکور ہوئی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ الی قولہ انی اخاف) تاکہ وہ شخص تم کو (بحکم خداوندی عذاب سے) ڈراوے اور تاکہ تم (اس کے ڈرانے سے) ڈر جاؤ اور تاکہ (ڈرنے کی وجہ سے مخالفت چھوڑ دو جس سے) تم پر رحم کیا جائے سو (باوجود اس تمام تر فہائش کے) وہ لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے (طوفان کے عذاب سے) بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے (طوفان میں) غرق کردیا بیشک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے (حق و باطل، نفع نقصان کچھ نہ سوجھتا تھا) ۔ معارف و مسائل سورة اعراف کے شروع سے یہاں تک اصول اسلام توحید، رسالت، آخرت کا مختلف عنوانات اور دلائل سے اثبات اور لوگوں کو اتباع کی ترغیب اور اس کی مخالفت پر وعید اور ترہیب اور اس کے ضمن میں شیطان کے گمراہ کن مکر و فریب وغیرہ کا بیان تھا اب آٹھویں رکوع سے تقریباً آخر سورت تک چند انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کا ذکر ہے جس میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کا متفقہ طور پر اصول مذکورہ توحید، رسالت، آخرت کی طرف اپنی اپنی امتوں کو دعوت دینا اور ماننے والوں کے اجر وثواب اور نہ ماننے والوں پر طرح طرح کے عذاب اور ان کے انجام بد کا مفصل بیان تقریباً چودہ رکوع میں آیا ہے۔ جس کے ضمن میں سینکڑوں اصولی اور فروعی مسائل بھی آگئے ہیں، اور موجودہ اقوام کو پچھلی قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی کا سامان ہوگیا کہ پہلے سب رسولوں کے ساتھ ایسے ہی معاملات ہوتے رہے ہیں۔ آیات مذکورہ سورة اعراف کا آٹھواں رکوع پورا ہے، اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت کے حالات و مقالات کا بیان ہے۔ سلسلہ انبیاء میں سب سے پہلے ہی اگرچہ آدم (علیہ السلام) ہیں، لیکن ان کے زمانہ میں کفر و ضلالت کا مقابلہ نہ تھا ان کی شریعت میں زیادہ تر احکام بھی زمین کی آباد کاری اور انسانی ضرورت کے متعلق تھے۔ کفر اور کافر کہیں موجود نہ تھے۔ کفر و شرک کا مقابلہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہوا۔ اور رسالت و شریعت کی حیثیت سے دنیا میں وہ سب سے پہلے رسول ہیں، اس کے علاوہ طوفان میں پوری دنیا غرق ہوجانے کے بعد جو لوگ باقی رہے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء سفینہ تھے انھیں سے نئی دنیا آباد ہوئی اسی لئے ان کو آدم اصغر کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصص انبیاء کا آغاز بھی انہیں سے کیا گیا ہے جس میں ساڑھے نو سو برس کی طویل عمر میں ان کی پیغمبرانہ جدوجہد اور اس پر اکثر امت کی کجروی اور اس کے نتیجہ میں بجز تھوڑے سے مؤمنین کے باقی سب کا غرق ہونا بیان ہوا ہے، تفصیل اس کی یہ ہے۔ پہلی آیت میں رشاد ہے لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت میں ہیں۔ مستدرک حاکم میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرن گزرے ہیں، اور یہی مضمون طبرانی نے بروایت ابی ذر (رض) علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (تفسیر مظہری) قرن عام طور پر ایک سو سال کو کہا جاتا ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان اس روایت کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ ہوگیا، ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی ولادت حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات سے آٹھ سو چھبیس سال بعد ہوئی ہے اور بتصریح قرآن ان کی عمر نو سو پچاس سال ہوئی، اور آدم (علیہ السلام) کی عمر کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ چالیس کم ایک ہزار سال ہے اس طرح آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے نوح (علیہ السلام) کی وفات تک کل دو ہزار آٹھ سو چھپن سال ہوجاتے ہیں (مظہری) نوح (علیہ السلام) کا اصلی نام شاکر اور بعض روایات میں سَکَن اور بعض میں عبدالغفار آیا ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ ان کا زمانہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سے پہلے ہے یا بعد میں اکثر صحابہ کا قول یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ادریس (علیہ السلام) سے پہلے ہیں (بحر محیط) مستدرک حاکم میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ اور طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے۔ آیت قرآن لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ ، سے ثابت ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعثت و نبوت صرف اپنی قوم کے لئے تھی ساری دنیا کے لئے عام نہ تھی اور ان کی قوم عراق میں آباد بظاہر مہذب مگر شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جو دعوت دی وہ یہ تھی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ یعنی اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے۔ اس کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت ہے جو اصل اصول ہے، دوسرے جملہ میں شرک و کفر سے پرہیز کرنے کی تلقین ہے جو اس قوم میں وباء کی طرح پھیل گیا تھا۔ تیسرے جملہ میں اس عذاب عظیم کے خطرہ سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور دنیا میں طوفان کا عذاب بھی۔ (کبیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٦٠ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩۔ ٦٠۔ ٦١۔ ٦٢) حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرو، اس کے سوا جن کو تم لوگ پکارتے ہو وہ کچھ نہیں، میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاتے تو تم پر بڑے دن کے عذاب کا خدشہ ہے۔ سردار کہنے لگے نوح (علیہ السلام) تم تو ایک صریح غلطی میں مبتلا ہو، حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہیں اوامرو نواہی کی تبلیغ کرتا اور اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور ایمان اور توبہ کی طرف بلاتا ہوں اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر عذاب نازل ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس رکوع سے التذکیر بِاَ یَّام اللّٰہ کے اس سلسلے کا آغاز ہو رہا ہے جسے قبل ازیں اس سورت کے مضامین کا عمود قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس سلسلے کا بہت بڑا حصہ انباء الرّسل پر مشتمل ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں نبیوں کا ذکر آتا ہے تو اس کا مقصد ان کی سیرت کے روشن پہلوؤں مثلاً ان کا مقام ‘ تقویٰ اور استقامت وغیرہ کو نمایاں کرنا ہوتا ہے ‘ جبکہ رسولوں کا ذکر بالکل مختلف انداز میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی رسول ( علیہ السلام) آیا تو وہ کسی قوم کی طرف بھیجا گیا ‘ لہٰذا قرآن مجید میں رسول ( علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ لازماً متعلقہ قوم کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پھر رسول کی دعوت کے جواب میں اس قوم کے رویے اور ردِّ عمل کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ چناچہ پہلی قسم کے واقعات کو قصص الانبیاء کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال سورة یوسف ہے ‘ جس میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے حالات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ‘ مگر کہیں بھی آپ ( علیہ السلام) کی طرف سے اس نوعیت کے اعلان کا ذکر نہیں ملتا کہ لوگو ! مجھ پر ایمان لاؤ ‘ میری بات مانو ‘ ورنہ تم پر عذاب آئے گا اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے کہ اس قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو ردّ کردیا اور پھر ان پر عذاب آگیا اور انہیں ہلاک کردیا گیا۔ دوسری قسم کے واقعات کے لیے انباء الرسل کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ( انباء جمع ہے نبأ کی ‘ جس کے معنی خبر کے ہیں ‘ یعنی رسولوں کی خبریں۔ ) اِن واقعات سے ایک اصول واضح ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف آیا تو وہ اللہ کی عدالت بن کر آیا۔ جن لوگوں نے اس کی دعوت کو مان لیا وہ اہل ایمان ٹھہرے اور عافیت میں رہے ‘ جبکہ انکار کرنے والے ہلاک کردیے گئے۔ انباء الرسل کے سلسلے میں عام طور پر چھ رسولوں ( علیہ السلام) کے حالات قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ رسول صرف چھ ہیں ‘ بلکہ یہ چھ رسول ( علیہ السلام) وہ ہیں جن سے اہل عرب واقف تھے۔ یہ تمام رسول ( علیہ السلام) اسی جزیرہ نمائے عرب کے اندر آئے۔ یہ رسول ( علیہ السلام) جن علاقوں میں مبعوث ہوئے ان کے بارے میں جاننے کے لیے جزیرہ نمائے عرب (Arabian Peninsula) کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھیے۔ نیچے جنوب کی طرف سے اس کی چوڑائی کافی زیادہ ہے ‘ جبکہ یہ چوڑائی اوپر شمال کی طرف کم ہوتی جاتی ہے۔ اس جزیرہ نما علاقہ کے مشرقی جانب خلیج فارس (Persian Gulf) ہے جب کہ مغربی جانب بحیرۂ احمر (Read Sea) ہے جو شمال میں جاکر دو کھاڑیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک (شمال مغرب کی طرف ) خلیج سویز ہے اور دوسری طرف (شمال مشرق کی جانب) خلیج عقبہ۔ خلیج عقبہ کے اوپر (شمال) والے کونے سے خلیج فارس کے شمالی کنارے کی طرف سیدھی لائن لگائیں تو نقشے پر ایک مثلث (triangle) بن جاتی ہے ‘ جس کا قاعدہ (base) نیچے جنوب میں یمن سے سلطنت عمان تک ہے اور اوپر والا کونہ شمال میں بحیرۂ مردار (Dead Sea) کے علاقے میں واقع ہے۔ موجودہ دنیا کے نقشے کے مطابق اس مثلث میں سعودی عرب کے علاوہ عراق اور شام کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ مثلث اس علاقے پر محیط ہے جہاں عرب کی قدیم قومیں آباد تھیں اور یہی وہ قومیں تھیں جن کی طرف وہ چھ رسول مبعوث ہوئے تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ ان میں سے جو رسول سب سے پہلے آئے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) تھے۔ آپ ( علیہ السلام) کے زمانے کے بارے میں یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن مختلف اندازوں کے مطابق آپ ( علیہ السلام) کا زمانہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے کوئی دو ہزار سال بعد کا زمانہ بتایا جاتا ہے (واللہ اعلم) ۔ اس وقت تک کل نسل انسانی بس اسی علاقے میں آباد تھی۔ جب آپ ( علیہ السلام) کی قوم آپ ( علیہ السلام) کی دعوت پر ایمان نہ لائی تو پانی کے عذاب سے انہیں تباہ کردیا گیا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں وہ تباہ کن سیلاب آیا تھا جو طوفان نوح سے موسوم ہے اور یہیں کوہ جودی میں ارارات کی وہ پہاڑی ہے جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں سے دوبارہ نسل انسانی چلی۔ آپ ( علیہ السلام) کا ایک بیٹا جس کا نام سام تھا ‘ اس کی نسل جنوب میں عراق کی طرف پھیلی۔ اس نسل سے جو قومیں وجود میں آئیں انہیں سامی قومیں کہا جاتا ہے۔ انہی قوموں میں ایک قوم عاد تھی ‘ جو جزیرہ نمائے عرب کے بالکل جنوب میں آباد تھی۔ آج کل یہ علاقہ بڑا خطرناک قسم کا ریگستان ہے ‘ لیکن اس زمانے میں قوم عاد کا مسکن یہ علاقہ بہت سر سبز و شاداب تھا۔ اس قوم کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو اس قوم نے رد کیا تو یہ بھی ہلاک کردی گئی۔ اس قوم کے بچے کھچے لوگ اور حضرت ہود (علیہ السلام) وہاں سے نقل مکانی کر کے مذکورہ مثلث کی مغربی سمت جزیرہ نمائے عرب کے شمال مشرقی کونے میں خلیج عقبہ سے نیچے مغربی ساحل کے علاقے میں جاآباد ہوئے۔ ان لوگوں کی نسل کو قوم ثمود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ اس قوم نے بھی اپنے رسول ( علیہ السلام) کی دعوت کو رد کردیا ‘ جس پر انہیں بھی ہلاک کردیا گیا۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر عالی شان عمارات بنانے میں ماہر تھے۔ پہاڑوں کے اندر کھدے ہوئے ان کے محلات اور بڑے بڑے ہال آج بھی موجود ہیں۔ قوم ثمود کے اس علاقے سے ذرا اوپر خلیج عقبہ کے داہنی طرف مدین کا علاقہ ہے جہاں وہ قوم آباد تھی جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ مدین کے علاقے سے تھوڑا آگے بحیرۂ مردار (Dead Sea) ہے ‘ جس کے ساحل پر سدوم اور عامورہ کے شہر آباد تھے۔ ان شہروں میں حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ بہرحال یہ ساری اقوام جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے مذکورہ مثلث کے علاقے میں ہی آباد تھیں۔ صرف قوم فرعون اس مثلث سے باہر مصر میں آباد تھی جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ ان چھ رسولوں کے حالات پڑھنے سے پہلے ان کی قوموں کے علاقوں کا یہ نقشہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے۔ زمانی اعتبار سے حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے رسول ہیں ‘ پھر حضرت ہود (علیہ السلام) ‘ پھر حضرت صالح (علیہ السلام) ‘ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں انباء الرسل کے انداز میں نہیں بلکہ قصص الانبیاء کے طور پر آیا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا نام مدین تھا ‘ جن کی اولاد میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حجاز (مکہ) میں آباد ہوئے اور پھر حجاز میں ہی نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے جن کو آپ ( علیہ السلام) نے فلسطین میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی۔ قرآن حکیم میں جب ہم انبیاء و رسل کے تذکرے پڑھتے ہیں تو یہ ساری تفصیلات ذہن میں ہونی چاہئیں۔ آیت ٥٩ (لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ) یعنی مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم لوگ یونہی مشرکانہ افعال اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے رہو گے تو بہت بڑے عذاب میں پکڑے جاؤ گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. This historical narrative opens with an account of the Prophet Noah and his people. For the people of Noah were the first to drift away from the right way of life which was followed by the Prophet Adarn and his descendants. God, therefore, sent Noah to guide and reform them. In light of the Qur'anic allusions and Biblical statements it seems certain the people of Noah inhabited the land presently known as Iraq. This view is also supported by inscriptions of pre-Biblical times discovered in the course of archaeological excavations in Babylonia. Those inscriptions contain almost the same account which is recounted in the Qur'an and the Torah. The locale of the event is the vicinity of Mosul. Kurdish and Armenian traditions also corroborate this account insofar as they mention that it was in this area that Noah's Ark anchored. Some relies ascribed to Noah are still found in Jazirat Ibn 'Urnar, situated to the north of Mosul and on the frontiers of Armenia in the vicinity of the Ararat mountain mass. The inhabitants of Nakhichevan believe to this day that their town was founded by Noah. Traditions similar to the story of Noah are also found in classical Greek Egyptian, Indian and Chinese literature. Moreover, stories of identical import have been popular since time immemorial in Burma, Malaya, the East Indies, Australia, New Guinea and various parts of Europe and America. This shows clearly that the event took place at some point in the dim past when men lived together in one region and it was after Noah's Flood that they dispersed to different parts of the world. This is why traditions of all nations mention the Flood of the early time. This is notwithstanding the fact that the actual event has increasingly been shrouded in mystery, and the authentic elements of the event overlaid with myth and legend. 48. It is evident from the above verse and from other Qur'anic descriptions of the people of Noah that they were neither ignorant of, nor denied the existence of God, nor were they opposed to the idea of worshipping Him. Their real malady was polytheism. They had associated others with God in His godhead, and considered them akin to God in their claim that human beings should worship them as well. This basic error gave rise to a number of evils among them. There had arisen among them a class of people representing the false gods they themselves had contrived. Gradually this class of people virtually monopolized all religious, economic and political authority. This class also introduced a hierarchical structure of society which led to immense corruption and injustice. The moral degeneration which this system promoted sapped the roots of mankind's higher characteristics. When corruption reached a high peak, God sent Noah to improve the state of affairs. For long, Noah strove with patience and wisdom to bring about reform. All his efforts, however, were thwarted by the clergy which craftily kept people under its powerful hold. Eventually Noah prayed to God not to spare even a single unbeliever on the face of the earth, for they would go about misguiding human beings, and their progeny would likewise be wicked and ungrateful. (For a detailed discussion see Hud 11: 25-48, al-Shu'ara' 26: 105-22 and Nuh 71: 1-28.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :47 اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم سے کی گئی ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام ِ زندگی پر حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا ۔ قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، ان میں تقریباً اسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آرہی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی ۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے انواح میں نوح علیہ السلام کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اس شہر کی نبا حضرت نوح علیہ السلام نے ڈالی تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر ، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما ، ملایا ، جزائر شرق الہند ، آسٹریلیا ، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی ۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں ، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھادیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :48 یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی ، نہ اس سے ناواقف تھی ، نہ اسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا ، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہو گئی تھی ، شرک کی گمراہی تھی ۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے دیا تھا ۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمار خرابیاں اس قوم میں رونما ہوگئیں ۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھیرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہوگیا جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اُونچ اور نیچ کی تقسیم پیدا کر دی ، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا اور اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زمانہ دراز تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامتہ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ آخرکار حضرت نوح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین نہ چھوڑ ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور نمک حرام ہی پیدا ہو گا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود ، رکوع۳ ۔ سورہ شعراء رکوع٦ ۔ اور سورہ نوح مکمل ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات کے درمیان ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہے لیکن محقق علماء نے ان روایات کو مستند نہیں سمجھا۔ حقیقی فاصلے کا یقینی علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات قرآن کریم سے واضح ہوتی ہے کہ اس طویل عرصے کے دوران بت پرستی کا رواج بہت بڑھ گیا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی بہت سے بت بنا رکھتے تھے، جن کے نام سورۃ نوح میں مذکور ہیں۔ سورۃ عنکبوت (14:29) میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اس قوم کو حق کی تبلیغ فرمائی۔ اور سمجھانے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا۔ کچھ نیک بخت ساتھی جو زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ان پر ایمان لائے، لیکن قوم کی اکثریت نے کفر ہی کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے، لیکن جب وہ نہ مانے، تو انہوں نے بد دعا دی۔ اور پھر انہیں ایک شدید طوفان میں غرق کردیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعے اور ان کی قوم پر آنے والے طوفان کی سب سے زیادہ تفصیل سورۃ ہود (25:11 تا 49) اور سورۃ نوح (سورت نمبر 71) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورۃ مومنون (23:23) سورۃ شعراء 105:26) اور سورۃ قمر (9:54) میں ان کا واقعہ اختصار سے بیان ہوا ہے دوسرے مقامات پر ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(59 ۔ 64) ۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب ( علیہ السلام) تک چند صاحب شریعت انبیاء کے قصے ان رکوعوں میں آنحضرت کی تسکین اور تشفی کے ارادہ سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تاکہ آپ کو یہ اطمینان ہوجاوے کہ سرکش قوموں پر انبیاء کے جھٹلانے کا ہمیشہ سے جس طرح وبال پڑا ہے اگر اہل مکہ ایمان نہ لاویں گے تو یہی انجام ان کا ہوگا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ اہل مکہ میں اکثر سرکش لوگ بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور آپ نے ان کی لاشوں پر ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ خدا کے وعدے کو تم نے دیکھ لیا اور بقیہ اہل مکہ فتح مکہ پر اسلام لے آئے اگر قضا وقدر میں ان کا ایمان لانا نہ ٹھہرا ہوتا تو پچھلی امتوں کی طرح ضرور سب اہل مکہ ہلاک ہوجاتے سوا اس تشفی کے ان قصوں میں آنحضرت کی نبوت کی بھی دلیل ہے کیونکہ ان پڑھ شخص بغیر تائید غیبی کے اس طرح سینکڑوں برس کا تاریخی حال ممکن نہیں کہ بیان کرچکے پھر تاریخی حال بھی ایسا کہ اس تاریخی حال سے آئندہ کا نتیجہ بھی جو بیان کیا گیا وہی واقعہ ہوا بھلا یہ غیب دانی بغیر تعلیم غیب دان حقیقی کے کس طرح حاصل ہوسکتی ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے قصہ میں امام بخاری نے وہ شفاعت کی حدیث ذکر کی ہے جس میں لوگوں کا سب انبیاء کے پاس شفاعت کے لئے جانے اور ہر ایک سے شفاعت کی درخواست کا تذکرہ ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے اوصاف میں یہ تذکرہ جو آیا ہے کہ تم زمین پر پہلے نبی ہو اس پر بعضے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ پہلے نبی حضرت آدم ( علیہ السلام) تھے پھر حضرت نوح ( علیہ السلام) کو پہلا نبی اس حدیث میں کس مطلب سے کہا گیا ہے جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ بت پرستی اور شرک پہلے پہل حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت میں پھیلا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کے مابین دس عہد جو گذرے ہیں وہ مسلمان لوگ تھے ان پر جتنے نبی آئے کچھ عبادت کے طریقہ اور نصیحت سکھاتے تھے توحید کی تعلیم اور شرک کا مٹانا حضرت نوح ( علیہ السلام) کی نبوت سے شروع ہوا ہے اس واسطے ان کو پہلا نبی اللہ تعالیٰ نے آیت شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الَدِیَنَ مَاوَصَّی بہٖ نَوْحًا (٤٢: ١٣) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں قرار دیا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے پر پوتے ہیں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کی وفات میں ایک سوچھبیس ١٢٦ برس کا فاصلہ ہے طوفان کے بعد تین سو برس حضرت نوح ( علیہ السلام) زندہ رہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایت الہی اور اس کے برکات سے مستفیض ہونے یا نہ ہونے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں ایک پاکیزہ فطرت ( طیب) جو ہدایت الہیٰ اور اس برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم وعمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے دوسرے وہ جو شررت پسند اربد فرطرت ہوتے ہیں یہ لوگ باران ہدایت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹے چھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے اس یے ان پر باراب رحمت چنداں فائدہ بخش نہیں ہوسکتی اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے وقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں ( از ماخوذ ابن کثیر) حضرت نوح چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طر بھیجے گئے جیسا کہ حدیث شفاعتہ کبری اور بعض دوسری رایات سے معلوم ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انہی کا قصہ بیان فرمای ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آدم ( علیہ السلام) سے لے کر دن قرن ایسے گزرے ہیں بنی آدم توحید پر قائم رہے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم سب سے پہلی قوم ہے جس نے اپنے بعض نیک لوگوں کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے مجسمے بنائے اور پھر انکی پوجا کرنے لگی ان مجسموں کے نام سورة نوح میں مذکور ہیں قوم نوں ملک عراق میں آباد تھی جو حضرت ابراہیم کا مو لد ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کا زمانہ تقریبا 3800 ق م تا 2850 ق م ہے۔ ( ابن کثیر، ابو الفدار )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 8 ۔ آیات 59 ۔ تا۔ 64 ۔ اسرار و معارف : اس تمام بحثت کی علمی صورت جو انسانی زندگی میں پیدا ہوگی ہے وہ بھی انسان کے سامنے ہے جیسے نوح (علیہ السلام) کا قصہ کہ ان کی قوم اللہ کی نافرمانی پہ کاربند ہوگئی مگر اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم نہیں فرمایا بلکہ ان میں اپنا رسول مبعوث فرمایا جیسے مردہ زمین پہ ابر رحمت۔ تفسیر مظہری کے مطابق نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت میں تھے اور ان سے پہلے زیادہ تر احکام انسانی ضروریات کے متعلق ہی تھے ان کے زمانے تک کفر و شرک بھی پھیل گیا اسی طرح وہ پہلے رسول تھے جنہیں کفر و شرک سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ حدیث شریف میں واد ہے کہ انہیں چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے بعثت سے طوفان بپا ہونے تک ساڑھے نو سو سال تبلیغ فرمائی۔ بعض حضرات نے آپ کا اصلی نام سکن اور بعض نے عبدلاغفار بھی لکھا ہے۔ آپ ہی کے زمانہ میں طوفان نے ساری انسانیت کو غرق کردیا صرف وہ لوگ باقی رہے جو آپ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے لہذا بعد کی سب آبادی انہی کی اولاد ہے اس لیے آپ کو آدم ثانی یا آدم اصغر بھی کہا گیا ہے۔ مشرک کی ابتدا : لوگ مال و اولاد کی کثرت پہ نازاں اپنے اپنے خیال کے مطابق زندگی کے مزے لوٹنے لگے اور ساتھ ساتھ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے اس لیے کہ مذہب انسانی مزاج میں ہے جب وہ اللہ کی عظمت سے آنکھیں بند کرلیتا ہے تو کوئی دوسرا کسی بھی نام سے اللہ کی جگہ مقرر کرلیتا ہے یہاں سے شرک کی ابتدا ہوتی ہے مشرک اللہ کے حکم سے تو محروم ہوتا ہے لہذا اپنی خواہشات کے مطابق رسومات کفریہ کو مذہب کا درجہ دے کر اختیار کرتا ہے یہی صورت حال تھی جب نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور فرمایا لوگو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جس کی عبادت کی جائے اور غیر اللہ کی عبادت تمہیں تباہی سے دو چار کرے گی تمہارے عقائد و اعمال کے نتیجے میں تو تباہی کا بہت بڑا خطرہ ہے۔ رسومات کا نفع اٹھانے والے : جس قدر رسومات دین کے نام پر قائم کی جاتی ہیں قوم کا ایک خاص طبقہ ان سے ذاتی نفع حاصل کرتا ہے سیادت و قیادت کی صورت میں بھی اور مال و دولت کی شکل میں بھی لہذا وہ طبقہ امیر یا چودھری یا پیشوا اور پیر وغیرہ بن جاتا ہے جب ان رسومات پہ زد پڑتی ہے تو سب سے پہلے ہی لوگ واویلا شروع کرتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ ان کا رد کرنے والا گمراہ ہوگیا ہے۔ یہی جواب روسائے قوم نے نوح (علیہ السلام) کو دیا کہ آپ گمراہ ہوگئے ہیں اور باپ دادا کی روش کا انکار کر رہے ہیں انہوں نے فرمایا ایسی بات نہیں میں ہرگز گمراہ نہیں ہوں بلکہ مجھے تو رب العلمین نے اپنا رسول اور فرستادہ بنایا ہے۔ رسالت و نبوت تقاضائے ربوبیت ہے : اللہ رب العلمین ہیں اور تمام جہانوں کی تخلیق اور حیات کا حاصل صرف وہ مخلوق ہے جو اللہ کی معرفت پائے اور نعمت عظمی پانے کے لیے نبوت کی ضرورت ہے لہذا اللہ رب العزت نے مجھے یہ بہت ہی اہم فریضہ سونپا ہے میں اپنی بات نہیں منوانا چاہتا اس فکر میں نہ پرو کہ ہماری یا ہمارے باپ دادا کی بات کو رد کرکے اپنی بات کو ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے ہرگز نہیں میں تو بات پہنچانے والا ہوں اور تم تک تمہارے رب کی باتیں پہنچانا میرا فرض منصبی ہے اس لیے کہ جو علم نبی کو براہ راست عطا ہوتا ہے امت اس کو صرف نبی سے حاصل کرسکتی ہے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں یہ ایسے حقائق اور معرفت کے خزینے ہیں جو مجھے عطا ہوئے ہیں تم کو ان کی ضرورت ہے لہذا میں تمہیں پہنچانا چاہتا ہوں اس میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ تم ہی میں سے ایک شخص کو اللہ نے نبی بنا دیا یہ تو اس کی اپنی عطا ہے مگر یہ بھی یاد رکھو کہ جب مبعوث انسانوں کی طرف فرمائے جاتے ہیں تو نبی بنائے بھی انسانوں ہی میں سے جاتے ہیں تاکہ انسان استفادہ کرسکیں اور یہ نبی کا کام ہے کہ خطرات سے ہر وقت مطلع کردے یعنی عقاید و اعمال کے وہ اثرات جو تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور وہ بھی جو آخرت کو ظاہر ہوں گے اور یہ سب صرف اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ اللہ کی رحمت کو پا لیں اپنے عقائد و اعمال میں ایسا طریقہ اختیار کریں جو اللہ کو پسند ہو اور اللہ کی طرف سے ہو کہ یہی تقوی ہے اور یہی راستہ دائمی مسرتوں سے ہمکنار کرتا ہے ۔ جس طرح مردہ زمین تک آب حیات سے بھرے بادل پہنچاتا ہے ویسے ہی مردہ دلوں تک نور نبوت کی کرنیں بکھیرتا ہے مگر جو زمین فاسد اور شور ہوچکی ہو اسے بارش سے فائدہ نہیں ہوتا ایسے ہی اعمال کی غلاظت بھی ایک حد پر پہنچ کر دل کی زمین کو شور بنا دیتی ہے پھر نور نبوت سے اس میں اجالے نہیں ہوتے لہذا ان لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی ساڑھے نو سو سال اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے مگر صرف اسی مرد و زن ایمان لائے بالآخر اعمال کی جزا میں گرفتار ہوئے اور غرق کے عذاب نے آ پکڑ صرف ایمان لانے والے بچ سکے جو نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کے علاوہ سب غرق ہو کر تباہ ہوگئے اور وہ لوگ واقعی اندھے ہو رہے تھے آنکھیں تھیں مگر حقائق کو دیکھنا نصیب نہ تھا اپنی خواہشات اور نفس کی لذات نے اندھا کردیا تھا یعنی یہ لوگ دل کے اندھے تھے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (59 تا 64 ) ۔ الملا (سردار ) ۔ لنرک (البتہ ہم تجھے دیکھتے ہیں ) ۔ ضللتہ (گمراہی) ۔ ابلغ (میں پہنچاتا ہوں) ۔ انصح (نصیحت کرتا ہوں) ۔ عجبتم (تم نے تعجب کیا) ۔ لینذر (تاکہ وہ ڈرائے) ۔ انجینا (ہم نے نجات دی) ۔ الفلک (کشتی۔ جہاز) ۔ اغرقنا (ہم نے غرق کردیا) ۔ عمین (اندھے (بن گئے) ۔ تشریح : آیت نمبر (59 تا 64 ) ۔ ” ہر پیغمبر اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے اور جیسا کہ سورة ابراہیم میں ارشاد ہے کہ وہ ان ہی کی زبان میں کلام کرتا ہے تاکہ دل کی بات دل تک آسانی سے پہنچ سکے۔ وہ ان ہی کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ ان ہی کے درمیان بچپن، نوجوانی اور جوانی کی منزلیں طے کرتا ہے اور اس کی شخصیت صادق ، امین، قابل اعتماد اور نیک نام ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے کردار کو دلیل کے طور پر پیش کرسکے۔۔۔۔ ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم صرف کافر نہ تھی بلکہ مشرک بھی تھی اور کسی قوم کا کفر کے ساتھ شرک میں مبتلا ہونا یہ بہت خطرناک ہے ۔ ۔۔ ۔ وہ کیا چیز ہے جو کسی قوم کو کافر اور مشرک بناتی ہے ؟ وہ ہے اس دنیا کا مادی مفاد، وقتی فائدہ، دنیا کی بےجا حرص اور لالچ۔۔۔۔ جب ہم اور ہمارا جسم مادی اور مادی ضروریات اور خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے لپکتا ہے جب ہم آخرت میں جسم کے ساتھ موجود ہوں گے۔ اور جہنم میں مادی عذاب بھی ہوگا ۔ جنت میں مدی نعتیں بھی ہوں گی تو مادی مفادات کی طلب بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔۔۔۔ مگر اس دنیا کے مفادات عارضی ہیں فانی ہیں مختصر ہیں اور ہزاروں چپقلشوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کفار و مشرکین کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کی آنکھیں اس سے آگے نہیں دیکھتیں۔ چناچہ وہ اس کے حصول کے لئے ہر قسم کے سماجی ، سیاسی اور معاشی جرائم کرنے میں شرم اور لحاظ نہیں کرتے ۔ اس کے برخلاف ایک مسلم کی آنکھیں اس سے آگے ان لافانی ابدی اور عظیم مفادات کو دیکھتی ہیں جن کا نام جنت اور اس کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں۔ جن کی قیمت اخلاق ایمان ، اطاعت اور دیانت وامانت ہے۔۔۔۔ ۔۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو یہی سمجھاتے رہے کہ اے میری قوم اپنی روحانی آنکھوں اور بصیرت کو کھول کر دیکھو تو یہ دنیا کے فنا ہوجانے والے جن کی وجہ سے تم اپنے خالق ومالک سے بہت دور جا چکے ہو یہ بہت جلدختم ہوجائیں گے مگر کچھ لوگوں کے سوا کسی نے آپ کی اس پکار کو نہیں سنا۔ جنہوں نے اس کو سنا اور عمل کیا اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان صاحبان ایمان لوگوں کو نجات عطا فرما دی۔ جس وقت یہ آیات نازل ہوئیں اس وقت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان ہی جیسے حالات سے دوچار تھے۔ مکہ کے کفار اور مشرکین کی آنکھیں ، فوری اور لافانی فوائد سے آگے نہیں دیکھ رہی تھیں بلکہ ان کے مذہبی ٹھیکہ دار اور اجارہ دارعوام کی نگاہوں پر زبردستی کالی پٹیاں باندھے ہوئے تھے جن کالی پٹیوں کے خلاف نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد فرما رہے تھے۔۔۔۔ ۔ ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی طرف اشارہ کر کے مکہ کے کفار و مشرکین اور قیامت تک آنے والے ایسے ہی غلط کار لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کی سنت اور طریقہ تبدیل نہیں ہوتا جس طرح نوح (علیہ السلام) کے ساتھ لوگوں نے معاملہ کیا اور ان لوگوں کا بھیانک انجام ہوا۔۔۔۔ ۔۔ فرمایا جارہا ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تمہیں آج جو کچھ بتا اور سمجھا رہے ہیں اگر تم نے اس کو نہ سمجھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی طرح تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا ۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقے آج ہم ان بہت سے عذابوں سے محفوظ ہیں جو ہم سے پہلے والی قوموں پر آئے۔۔۔۔ لیکن یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ برائی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ یہی اصول فطرت ہے۔ اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ ظالم اقوام پر اس قسم کے فطری عذاب اب کیوں نہین آتے جو قوم نوح (علیہ السلام) قوم عاد قوم ثمود اور قوم لوط پر آئے تھے تو اس کا ایک جواب تو ابھی دیا گیا ہے کہ یہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت و برکت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب فطری عذاب کی ضرورت نہیں ہے۔ اب امت مسلمہ کے ہاتھ میں تبلیغ، تنظیم اور جہاد و قتال کے ہتھیار ہیں۔ اگر ان کو صحیح استعمال کیا جائے تو یہ کافروں کے حق میں طوفان، آندھی اور زلزلوں سے بڑھ کر ہیں۔ جہاد جو قیامت تک جاری رہے گا۔ کیوں، کیسے، کہاں اور کب ہوگا۔ وہ خاص الخاص چیز ہے جس نے امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تاریخ میں ایک اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ جس نے شریعت محمدی کو سابق شریعتوں سے ممتاز کیا ہے جس نے ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیگر تمام پیغمبروں پر ایک خاص عظمت بخشی ہے۔ قرآن کریم اور دیگر صحیفوں میں یہی وجہ امتیاز ہے کہ یہاں تبلیغ، تنظیم اور جہاد ہے اور یہاں ایک پیغمبر جہاد ہے جس کی عملی مثالیں رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن حضرت نوح (علیہ السلام) : آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے نوح (علیہ السلام) بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ ( ادریس (علیہ السلام) بن یرد بن مھلا ییل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام) ۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ کیا آدم (علیہ السلام) نبی تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ پھر اس نے یہ سوال کیا کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا دس قرن (صحیح ابن حبان : ٦١٥٧) قرن سے مراد اہل علم نے ایک نسل یا ایک صدی لی ہے اگر ایک نسل مراد لی جائے تو آدم (علیہ السلام) کی وفات اور نوح (علیہ السلام) کی پیدائش کے درمیان ہزاروں سال کی مدت بنتی ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی عمر صدیوں پر محیط ہوا کرتی تھی جس بنا پر حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ثابت ہوتا ہے، بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے جس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمہارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ چناچہ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کی بالواسطہ عبادت اور ان کے حضور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورة نوح میں ودّ ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر ٤٩٢٠، طبری تفسیر سورة نوح، آیت : ٢٣، ٢٤) سورۃ العنکبوت آیت ١٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورة نوح میں یہ وضاحت فرمائی گئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بھرپور کوشش کے باوجود یہ قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے برھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ان سے بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح ! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بےبس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ “ (القمر : ١٠) حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ برا اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ ( نوح ٢٥ تا ٢٧) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) فقط انھیں یہی فرماتے آج تم مجھے استہزاء کا نشانہ اور تماشا بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ (ھود آیت ٣٧ تا ٣٩) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورة القمر آیت ١١، ١٢ اور سورة المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اس قدر غضب ہوا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا بیٹا پانی میں ڈبکیاں لے رہا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو بحیثیت باپ ترس آیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہا، میرے رب میرا بیٹا بھی ڈوب رہا ہے حالانکہ تیرا فرمان تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا۔ الٰہی تیرا وعدہ برحق ہے۔ جواب آیا اے نوح تیرا بیٹا صالح نہ ہونے کی وجہ سے تیرے اہل میں شمار نہیں۔ اب مجھ سے ایسا سوال نہ کرنا ورنہ تجھے جاہلوں میں شمار کروں گا۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے معافی طلب کی اور درخواست کی مجھ پر مہربانی کی جائے ورنہ میں بھی خسارہ پانے والوں میں ہوجاؤں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے سلامت اور محفوظ رہے اور باقی قوم کو غرقاب کردیا گیا۔ کیونکہ ان کی قوم کفر و شرک میں اندھی ہوچکی تھی۔ ( ھود : ٤٥ تا ٤٨) قوم کا جواب اور الزامات : اے نوح (علیہ السلام) تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ تیرے ماننے والے عام اور سطحی قسم کے لوگ ہیں۔ تمہیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا خطاب اور قوم کا جواب : اے میری قوم مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں۔ تم ہدایت کو پسند نہیں کرتے تو میں تم پر ہدایت کس طرح مسلط کرسکتا ہوں۔ میں تم سے تبلیغ کا اجر نہیں مانگتا۔ نہ میں ایمان والوں کو اپنے سے دھتکارنے والا ہوں۔ ہوش کرو اگر میں انھیں دھتکاردوں تو اللہ کے ہاں میری کون مدد کرے گا ؟ میں غیب دان ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ نہ میں اپنے آپ کو فرشتہ کہتا ہوں نہ میں کہتا ہوں جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو کہ اللہ انھیں بھلائی سے نہیں نوازے گا۔ اگر ایسی باتیں کہوں تو میں ظالموں میں شمار ہوں گا۔ (ھود : ١٢٣) قوم : تم ہماری طرح کے انسان ہو کر ہم پر برتری چاہتے ہو۔ ہم نے باپ دادا سے یہ باتیں کبھی نہیں سنیں۔ نوح دیوانہ ہوگیا ہے۔ بس انتظار کرو ختم ہوجائے گا۔ (المؤمنوں : ٢٤، ٢٥) ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تجھے ماننے والے گھٹیا لوگ ہیں (الشعراء : ١١٢) ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) قوم سے خطاب : اے میری قوم میں تمہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کر رہا ہوں صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ شرک اور اللہ کی نافرمانی سے بچو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما کر تمہیں مہلت دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی اجل کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ کاش تم جان جاؤ۔ (نوح : ٢ تا ٤) قوم کا جواب : ہم اپنے معبودوں اور ود، سواع، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ( نوح، آیت : ٢٤) حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد : میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن اور رات خفیہ اور اعلانیہ، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھایا میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی۔ اپنے چہرے چھپا لیے اور تکبر کرنے کی انتہا کردی۔ میرے رب انھوں نے میری ہر بات کو ٹھکرایا اور نافرمانی کی۔ ان کی اولاد اور مال نے تیری نافرمانی میں انھیں بہت زیادہ بڑھایا دیا ہے انھوں نے زبردست قسم کی سازشیں اور شرارتیں کیں۔ (نوح : ٥ تا ٩) قوم کا عذاب الٰہی کو چیلنج کرنا : اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا اور اب اس کی انتہا ہوگئی ہے بس ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر واقعی تو سچے لوگوں میں ہے۔ ( ھود : ٣٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب : اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عذاب تم پر ضرور آئے گا اور تم اسے ہرگز نہیں ٹال سکو گے۔ (ھود : ٣٣) نوح (علیہ السلام) کی بد دعا : حضرت نوح نے اپنے رب سے فریاد کی اے باری تعالیٰ میں ان کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بےبس ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ (القمر : ١٠) اے میرے رب اب زمین پر کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اب ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ نافرمان اور ناشکرگزار ہوگا۔ (نوح : ٢٥، ١٠، ٢٧) اللہ تعالیٰ کا فرمان : اے نوح ظالموں کے بارے میں اب ہم سے فریاد نہ کرنا یقین رکھ کہ اب یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ (ھود : ٣) عذاب الٰہی سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم : اے نوح ! جو کچھ یہ کر رہے ہیں ان پر غم نہ کرو اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناؤ۔ اب ان کے بارے میں ہمارے ساتھ بات نہ کرنا کیونکہ یہ غرق ہونے والے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جب کشتی بنا رہے تھے۔ تو قوم ان سے مسلسل مذاق کرتی رہی جس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) ان سے فرماتے کہ آج تم مجھے ہنسی مذاق کرتے ہو کل ہم تمہیں اس طرح ہی مذاق کریں گے عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ہمیشہ کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ (ھود : ٣٧ تا ٤٠) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بےانتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) عذاب کی ہو لناکیاں : ہم نے موسلا دھار بار ش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ اور ہم نے زمین سے ابلتے چشمے جا ری کیے۔ (القمر : ١١، ١٢) جب ہمارا حکم صادر ہوا تو تنور جوش مارنے لگا۔ (المؤمنون : ٢٧) جب پانی پوری طغیانی پر آیا۔ (احقاف : ١١) مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے ١٥ فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ امام طبری سورة الحاقۃ آیت ١١ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سیلاب اس قدر بےانتہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک کوئی جاندار چیز باقی نہ رہی۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (المومنون : ٢٣) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی نازل فرمائی۔ (الصٰفٰت : ٧٩) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی کا نزول فرمایا۔ (النساء : ١٦٣) ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔ (مریم : ٥٨) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا۔ (الانعام : ٨٤) ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ستائیس بار تذکرہ ہوا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٧٧ تشریح آیات : ٥٩۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٩٣۔ انسانی تاریخ میں قافلہ انسانیت کے اس سفر کے بیان سے پہلے ‘ ایسے ہی ایک کائناتی مومن قافلے کا ذکر تھا ‘ جو اس کائنات میں رواں دواں نظر آتا ہے ۔ اس سے پہلے سبق کے آخر میں ایسے مومنین کا ذکر جو امر الہی سے ذرا بھی سرتابی نہیں کرتے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے ۔ آیت ” إِنَّ رَبَّکُمُ اللّہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِیْ اللَّیْْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیْثاً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ (54) ۔ ” درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کئے ۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔ خبردار رہو اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ‘ رب العالمین “۔ قرآن کریم میں بسا اوقات اس حقیقت کو کہ یہ پوری کائنات اللہ کی مطیع فرمان ہے اور یہ حقیقت کہ تمام انسانوں پر اللہ کا امر جاری ہونا چاہئے ایک ساتھ لایا جاتا ہے ۔ یعنی جس طرح وہ کائنات مطیع فرمان ہے جس میں انسان بستے ہیں اسی طرح انہیں بھی اللہ کا مطیع فرمان ہونا چاہئے ۔ تمہارا اسلام اس طرح ہونا چاہئے جس طرح کا اس پوری کائنات کا ہے ۔ اور جس کے قوانین میں وہ جکڑی ہوئی ہے ۔ اس طرح اس پوری کائنات کے مسلم ہونے کے اثرات قلب مومن پر پڑتے ہیں ‘ اسے خوب جھنجوڑتے ہیں اور اسے آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی اطاعت کے لئے آمادہ ہوجائے اور یہ کہ اس کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے اردگرد یہ پھیلی ہوئی کائنات تو اللہ کی مطیع فرمان ہو اور اس کائنات میں وہ اللہ وحدہ کے مقابلے میں سرکشی کرے ۔ غرض رسولوں کی دعوت کوئی ایسی دعوت نہیں ہے جو انوکھی ہو ‘ بلکہ وہ تو اس حقیقت کی طرف بلاتے ہیں جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے ‘ اس پوری کائنات کے ضمیر میں رچی بسی ہے اور یہی حقیقت خود انسان کی فطرت کے اندر بھی موجود ہے ۔ جب بھی انسان کی فطرت پر شہوات اور خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے یہ فطرت ضمیر کے اندر اسے پکارتی ہے اور اس طرح شیطان انسان کو گمراہ کر کے اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو اس سبق کے تمام قصوں میں مختلف پیرائیوں میں بیان کی گئی ہے ۔ آیت ” نمبر ٥٩ تا ٦٤۔ یہاں اس قصے کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے ‘ جبکہ دوسرے مقامات پر جہاں تفصیلات کی ضرورت تھی اس کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔ مثلا سورة ہود اور سورة نوح میں ‘ اس لئے کہ یہاں صرف ان نشانات راہ کی طرف اشارہ کرنا مطلوب تھا جن کے بارے میں ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ۔ یعنی اسلامی نظریہ حیات کا مزاج کیا ہے اور اور اس کے پھیلانے اور دعوت اسلامی کا طریقہ تفہیم کیا ہے اور اس دعوت کے آغاز کے بعد لوگوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے ؟ اس کے داعی کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہاں ہم صرف انہی نشانات رہ کی طرف اشارہ کریں گے جن کے لئے اس قصے کو یہاں لایا گیا ہے ۔ آیت ” لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً إِلَی قَوْمِہِ “۔ (٧ : ٥٩) ” ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا “۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ اللہ ہر قوم کی طرف رسول اس کی قوم سے بھیجتے ہیں ۔ وہ ان سے ان کی زبان میں بات کرتا ہے ۔ یہ رعایت اللہ نے ہر قوم کی تالیف قلب کے لئے دی ہے اور اس لئے دی ہے کہ ان کے پیغام کو سمجھنا آسان ہو اور ان کا باہم تعارف ہو لیکن یہ سہولتیں بھی ان لوگوں کے لئے مفید ہوتی ہیں کی فطرت بگڑ نہ چکی ہو ۔ رہے وہ لوگ جن کی فطرت بگڑی ہوئی ہوتی ہے انہیں یہ انتظام بھی عجیب لگتا ہے ۔ وہ دعوت کو قبول نہیں کرتے اور اپنے آپ کو اس مقام سے اونچا سمجھتے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور اطاعت کریں ‘ اس لئے وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ملائکہ اور فرشتے آکر انہیں تبلیغ کریں ۔ یہ بات محض بہانہ سازی ہے ۔ اگر فرشتے بھی آتے تب بھی یہ لوگ مان کر نہ دیتے ۔ چاہے جو بھی طریقہ اختیار کیا جاتا وہ ماننے والے نہ تھے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب رسول بنا کر بھیجا گیا تو انہوں نے دعوت کا آغاز انہی کلمات سے کیا جن کے ساتھ بعد میں آنے والے تمام رسولوں نے کیا ۔ آیت ” فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَـہٍ غَیْْرُہُ “۔ (٨ : ٥٩) ” اس نے کہا ” اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ “ یہ کلمات آخر تک نہیں بدلتے ۔ یہ وہ اصولی قاعدہ ہے جس کے سوا اسلام متحقق نہیں ہو سکتا ۔ یہ انسانی زندگی کا بنیادی پتھر ہے اور اس کے بغیر انسانیت کی عمارت کھڑی ہی نہیں ہو سکتی ۔ یہی قاعدہ کلیہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ لوگوں کا نقطہ نظر ایک ہو ‘ ان کے مقاصد ایک ہوں اور ان کے درمیان رابطہ ایک طرح کا ہو ‘ یہی اصول ہے جس کے ذریعے کوئی انسان ہوا وہوس کی غلامی سے آزاد ہو سکتا ہے اور خود اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے بھی آزاد ہو سکتا ہے ۔ اسی کے ذریعے انسان بےپناہ انسانی خواہشات کو کنٹرول کرسکتا ہے اور انعام وسزا کو منضبط کرسکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ۔ اس کا اساسی قاعدہ یہ ہے کہ انسانوں کی پوری زندگی کے اندر اللہ کی حاکمیت اور بادشاہت کو قائم کیا جائے ۔ یہی ہے مفہوم اس بات کا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور یہی مفہوم ہے اس فقرے کا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ (حاکم) نہیں ہے ۔ اللہ کی بادشاہت جس طرح کائنات کی تخلیق میں ہے ‘ اس کی ربوبیت ‘ تدبیر اور تقدیر میں ہے اور جس طرح یہ بادشاہت انسان کی تخلیق ربوبیت اور اس کی تقدیر اس کے عناصر ترکیبی میں ہے اسی طرح یہ بادشاہت انسان کی عملی زندگی میں بھی قائم ہونا چاہیے اور اس کی عملی زندگی کو اللہ کی شریعت کے مطابق استوار ہونا چاہئے ۔ مثلا مراسم عبودیت میں اور زندگی کے تمام دوسرے معاملات میں بطور پیکیج اللہ کی بندگی ہونا چاہئے ۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو پھر انسان شرک کا مرتکب ہوگا اور عملا وہ اس بات کا قائل ہوگا کہ اللہ کے سوا کوئی اور حاکم بھی ہیں ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ مختصر بات کی اور انہیں ان کے انجام بد سے ڈرایا ۔ انہوں نے اس طرح نصیحت کی جس طرح ایک مشفق بھائی بھائی کو کرتا ہے ‘ اور جس طرح ایک مشفق سربراہ اپنی قوم اور خاندان کو کرتا ہے کہ اگر تم نے تکذیب کی تو انجام بہت ہی بھیانک ہوگا ۔ آیت ” إِنِّیَ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (59) ” میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ “ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ترین دین دین نوح میں بھی تصور آخرت اپنی مکمل شکل میں موجود ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں یوم الحساب میں تمہارے برے انجام سے کانپ رہا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی اور دینی عقائد کے بارے میں قرآن کا تصور کیا ہے اور ان نام نہاد ماہرین ادیان کا کیا تصور ہے جو تاریخ ادیان کو بھی ارتقائی انداز میں مرتب کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قرآنی منہاج سے بیخبر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ فرمانا اور قوم کا سر کش ہو کر ہلاک ہونا امت حاضرہ کی یاد دلانی اور عبرت دلانے کے لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کے اور ان کی امتوں کے واقعات ذکر فرمائے ہیں کہیں ایک ہی نبی کا تذکرہ فرمایا اور کہیں متعدد انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا۔ کہیں تذکرے مختصر ہیں کہیں مفصل ہیں۔ یہاں سورة اعراف میں حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی تبلیغ و تذکیر اور ان کی امتوں کے انکار و تکذیب پھر اس پر ان کی سزا و تعذیب کا تذکرہ فرمایا ہے، اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے دشمن فرعون کا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کا تذکرہ فرمایا۔ سورۂ ہود میں بھی اسی ترتیب سے ان حضرات کے واقعات ذکر فرمائے ہیں پھر اسی ترتیب سے سورة شعراء میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے چونکہ عبرت دلانا مقصود ہے اس لیے یہ تکرار نہایت ہی مفید ہے منکرین کی یہ نادانی ہے کہ ان واقعات سے عبرت لینے کے بجائے یوں سوال کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں تکرار کیوں ہے جسے شفقت ہوتی ہے بار بار تنبیہ و تذکیر کرتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ارحم الراحمین ہے اس نے اپنے غافل بندوں کی بار بار تذکیر فرمائی تو اس پر اعتراض کرنا جہالت و حماقت نہیں ہے تو کیا ہے۔ پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تذکیر و تبلیغ کا تذکرہ فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ صرف اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا واقعی اور حقیقی معبود کوئی نہیں۔ ان لوگوں نے بت بنا رکھے تھے جن میں سے بعض کے نام سورة نوح میں مذکور ہیں۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی تو آپس میں کہنے لگے۔ (لاَ تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوْثَا وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا) (کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو اور مت چھوڑ ووَدْ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق اور نسر کو) حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے اندر ساڑھے نو سو سال رہے (جیسا کہ سورة عنکبوت کے دوسرے رکوع میں بیان فرمایا ہے) اور ان لوگوں کی تفہیم و تذکیر میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی۔ وہ لوگ بہت بری طرح پیش آتے تھے طرح طرح کے طنز کرتے تھے اور ان کے سردار اور چودھری ان باتوں میں پیش پیش تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو اور جو تمہارے ساتھ لگے ہیں وہ تو ہماری نظر میں گھٹیا قسم کے لوگ ہیں۔ (سورۂ ہود) کبھی آپس میں یوں کہتے تھے کہ یہ ہمارے جیسا آدمی ہے یہ تم پر سرداری کرنا چاہتا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے مقابلہ میں بڑا بن کر رہے۔ (جیسا کہ سورة مومنون میں ہے (یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ) نیز حضرت نوح (علیہ السلام) دعوت دیتے تھے تو یہ لوگ کپڑے اوڑھ لیتے تھے اور کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ (جیسے کہ سورة نوح میں مذکور ہے) اور نہ صرف یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے دور بھاگتے تھے بلکہ الٹا انہیں گمراہ بتاتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ میں گمراہ نہیں ہوں میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور مجھے ان باتوں کا پتہ ہے جن کا تمہیں پتہ نہیں تمہیں اس بات سے تعجب ہو رہا ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نصیحت آگئی اور اس کا واسطہ تم میں کا ایک شخص بن گیا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ جس شخص کے واسطہ سے تمہارے پاس یہ نصیحت آئی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں پروردگار کے عذاب سے ڈرائے جو تکذیب کرنے والوں اور نافرمانوں کے لیے مقرر ہے۔ تم ڈرو اور کفر سے بچو اس میں تمہاری بھلائی ہے رب العالمین جل مجدہ تم پر رحم فرمائے گا۔ ان لوگوں نے جو عذاب آنے کی بات سنی تو اس کے ماننے کی بجائے یوں ہی دھمکی سمجھی اور کہنے لگے کہ (فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) (جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو) ان کی تکذیب ضد اور عناد کے باعث پانی کا زبردست طوفان آیا، حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی جو اہل ایمان تھے اور تعداد میں تھوڑے تھے اور کشتی میں سوار ہوگئے تھے وہ نجات پا گئے اور سب کافر غرق کردیئے گئے۔ ان لوگوں نے ہدایت کو نہ مانا۔ نصیحت پر کان نہ دھرا۔ گمراہی کو ہی اختیار کیا۔ اندھے بنے رہے۔ عقل و فہم کو بالائے طاق رکھ کر ضد اور عناد پر تلے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی کا مفصل قصہ انشاء اللہ العزیز سورة ہود (ع ٤) میں آئے گا۔ فائدہ : تفسیر درمنثور ج ١ ص ٢١٢ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرنیں تھیں (ہر قرن سو سال کی ہوتی ہے) اور یہ قرون سابقہ سب ملت اسلام پر تھیں بعد میں اختلاف ہوا۔ اور کفر و شرک کی راہیں لوگوں نے اختیار کرلیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت پہلی امت ہے جس نے کفر اختیار کیا اور بت پرستی شروع کی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

70 یہ پہلا قصہ، حضرت نوح (علیہ السلام) کا ہے جو تیسرے دعوے سے متعلق ہے۔ کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا سب سے پہلا اعلان ہی یہی ہے۔ “ اُعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ ” صرف اللہ کی عبادت کرو اور حاجات میں صرف اسی کو پکارو اس کے سوا کوئی تمہارا کارساز نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59 بالتحقیق ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے پاس رسول بناکر بھیجا پھر اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم فقط اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں ہے میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں یعنی اگر تم غیر اللہ کی پرستش سے بازنہ آئوگے اور بتوں کی پوجا کو ترک نہ کروگے تو مجھ کو تم پر قیامت کے دن عذاب کا ڈر ہے۔