Commentary Described from the beginning of Surah al-A` raf upto this point were the subjects of Tauhid, Risalah and &Akhirah, the basic principles of Islam. These were proved and affirmed in different ways, people were persuaded to follow them and warned against taking opposing stands. Then, as a corollary, the guiles of Satan which make people go astray were mentioned. Now, from the eighth Ruku` (section) to almost the end of the Surah, there is a description of some prophets, may peace be upon them, and of their communities. The subject dealt with here con¬sists of the commonly pursued principles of Tauhid, Risalah and &Akhirah. They all invited their respective communities towards these universal principles, gave them the good news of rewards for those who believed in them, and warned them of punishments for refusing to believe and the sad end they would have for doing so. This description takes about fourteen sections, where hundreds of basic and subsidiary rulings appear as a corollary. Thus, the present communities were given an opportunity to learn a lesson from the sad end of past communi¬ties - and, for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) this became a source of comfort that this was how things have been with all other prophets. The verses appearing above take a whole Ruku` of Surah al-A` raf. It describes the mission of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and the state of the community to which he was sent. Though, in the chain of prophets, the first prophet is Sayyidna Adam (علیہ السلام) ، but his was not the time for confrontation against disbe¬lief and error. In the religious code given to him, most of the injunc¬tions were related to habitation of the land and management of human needs. Disbelief and disbelievers just did not exist. The confrontation against Kufr (disbelief) and Shirk (associating partners in the Divinity of Allah) began with Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . He is, in terms of the mis¬sion of prophethood and a code of religious laws, the first rasul of Al¬lah. In addition to that, people who survived after the drowning of the whole world during the great flood or deluge, were Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and those with him in the Ark. It was through him that the new world was populated. Therefore, he is also referred to as the junior Adam. This is the reason why he appears first in this story of prophets which has a description of his nine hundred and fifty year long pro¬phetic struggle in contrast to the crooked ways of the majority in his community, as a result of which, all except a few believers were drowned. Details follow. The first verse begins with the words: لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ (Surely We sent Nuh to his people). Sayyidna Nuh (علیہ السلام) is in the eighth generation of Sayyidna Adam (علیہ السلام) . According to a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) appearing in Mustadrak of Hakim, there is an interval of ten Qarn between Sayyidna Adam (علیہ السلام) and Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . The same has been reported by Tabarani as based on a Hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) narrated by Sayyidna Abu Dharr (رض) (Tafsir Mazhari). A Qarn generally means one hundred years. Therefore, the interval of time between these two comes to be one thousand years according to this narration. Ibn Jarir has reported that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was born eight hundred and twenty six years after the death of Sayyidna Adam (علیہ السلام) ، and according to a clear statement of the Qur&an, he reached an age of nine hundred and fifty years - and according to a Hadith, the age of Sayyidna Adam علیہ السلام is nine hundred and sixty years. Thus, the time from the birth of Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the death of Sayyidna N-uh (علیہ السلام) comes to be a total of two thousand eight hundred and fifty six years. (Mazharl) In some narrations, the real name of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) appears as Shakir while in some others it has been given as Sakan, and ` Abd al-Ghaffar, in still others. Whether his time is before or after Sayyidna Idris (علیہ السلام) - Enoch - has been debated. The majority of the Sahabah have said that Sayyidna Nuh علیہ السلام has appeared before Sayyidna Idris (علیہ السلام) (A1-Bahr Al Muhit) Based on a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) عنہما reports Mustadrak of Hakim that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Nuh (علیہ السلام) was invested with prophethood at the age of forty years and, after the Flood, he lived for sixty years. The verse of the Qur&an: لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ (Surely, We sent Nuh to his people) proves that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was sent as a prophet only to his people. It was not common to the whole world. His people lived in Iraq. They were outwardly civilized but were involved in Shirk. The call given by Sayyidna Nuh (علیہ السلام) to his people was: اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (0 my people, worship Allah. For you there is no god other than Him. I fear for you the punishment of a great Day). In the first sentence, the invitation given is to worship Allah Ta` ula, which is the essence of the principle. In the second sen¬tence, people have been persuaded to shun Shirk and Kufr, something which had spread out like some epidemic among these people. In the third sentence, the purpose is to warn people against the danger of that great punishment which they would have to face in the event they were to do otherwise. This ` great punishment& could mean the punish¬ment of the Hereafter, and the punishment of the Flood in the present world too. (Tafsir Kabir)
خلاصہ تفسیر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے (اس قوم سے) فرمایا کہ اے میری قوم تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اور بتوں کی پرستش چھوڑ دو جن کا نام سورة نوح میں ہے وَد اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر) مجھ کو تمہارے لئے (در صورت میرا کہنا نہ ماننے کے) ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (کہ وہ یوم قیامت ہے یا یوم طوفان) ان کی قوم کے آبرودار لوگوں نے کہا کہ ہم تم کو صریح غلطی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں (کہ توحید کی تعلیم کر رہے ہو اور عذاب کا ڈراوا دکھلا رہے ہو) انہوں نے (جواب میں) فرمایا کہ اے میری قوم مجھ میں تو ذرا بھی غلطی نہیں لیکن ( چونکہ) میں پروردگار عالم کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں (انہوں نے مجھ کو توحید پہنچانے کا حکم کیا ہے اس لئے اپنا منصبی کام کرتا ہوں کہ) تم کو اپنے پروردگار کے پیغام (اور احکام) پہنچاتا ہوں (اور اس پہنچانے میں میری کوئی دنیوی غرض نہیں بلکہ محض) تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں (کیونکہ توحید میں تمہارا ہی نفع ہے) اور (عذاب یوم عظیم سے جو تم کو تعجب ہوتا ہے تو تمہاری غلطی ہے کیونکہ) میں خدا کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں (تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلا دیا ہے کہ ایمان نہ لانے سے عذاب یوم عظیم واقع ہوگا) اور (تم کو جو میرے رسول ہونے پر بوجہ میرے بشر ہونے کے انکار ہے جیسا سورة مومنون میں تصریح ہے (آیت) ما ھذا الا بشر مثلکم یرید تا ملئکۃ الخ) کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا (بشر) ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی (وہ نصیحت کی بات یہی ہے جو مذکور ہوئی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ الی قولہ انی اخاف) تاکہ وہ شخص تم کو (بحکم خداوندی عذاب سے) ڈراوے اور تاکہ تم (اس کے ڈرانے سے) ڈر جاؤ اور تاکہ (ڈرنے کی وجہ سے مخالفت چھوڑ دو جس سے) تم پر رحم کیا جائے سو (باوجود اس تمام تر فہائش کے) وہ لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے (طوفان کے عذاب سے) بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے (طوفان میں) غرق کردیا بیشک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے (حق و باطل، نفع نقصان کچھ نہ سوجھتا تھا) ۔ معارف و مسائل سورة اعراف کے شروع سے یہاں تک اصول اسلام توحید، رسالت، آخرت کا مختلف عنوانات اور دلائل سے اثبات اور لوگوں کو اتباع کی ترغیب اور اس کی مخالفت پر وعید اور ترہیب اور اس کے ضمن میں شیطان کے گمراہ کن مکر و فریب وغیرہ کا بیان تھا اب آٹھویں رکوع سے تقریباً آخر سورت تک چند انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کا ذکر ہے جس میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کا متفقہ طور پر اصول مذکورہ توحید، رسالت، آخرت کی طرف اپنی اپنی امتوں کو دعوت دینا اور ماننے والوں کے اجر وثواب اور نہ ماننے والوں پر طرح طرح کے عذاب اور ان کے انجام بد کا مفصل بیان تقریباً چودہ رکوع میں آیا ہے۔ جس کے ضمن میں سینکڑوں اصولی اور فروعی مسائل بھی آگئے ہیں، اور موجودہ اقوام کو پچھلی قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی کا سامان ہوگیا کہ پہلے سب رسولوں کے ساتھ ایسے ہی معاملات ہوتے رہے ہیں۔ آیات مذکورہ سورة اعراف کا آٹھواں رکوع پورا ہے، اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت کے حالات و مقالات کا بیان ہے۔ سلسلہ انبیاء میں سب سے پہلے ہی اگرچہ آدم (علیہ السلام) ہیں، لیکن ان کے زمانہ میں کفر و ضلالت کا مقابلہ نہ تھا ان کی شریعت میں زیادہ تر احکام بھی زمین کی آباد کاری اور انسانی ضرورت کے متعلق تھے۔ کفر اور کافر کہیں موجود نہ تھے۔ کفر و شرک کا مقابلہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہوا۔ اور رسالت و شریعت کی حیثیت سے دنیا میں وہ سب سے پہلے رسول ہیں، اس کے علاوہ طوفان میں پوری دنیا غرق ہوجانے کے بعد جو لوگ باقی رہے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء سفینہ تھے انھیں سے نئی دنیا آباد ہوئی اسی لئے ان کو آدم اصغر کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصص انبیاء کا آغاز بھی انہیں سے کیا گیا ہے جس میں ساڑھے نو سو برس کی طویل عمر میں ان کی پیغمبرانہ جدوجہد اور اس پر اکثر امت کی کجروی اور اس کے نتیجہ میں بجز تھوڑے سے مؤمنین کے باقی سب کا غرق ہونا بیان ہوا ہے، تفصیل اس کی یہ ہے۔ پہلی آیت میں رشاد ہے لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت میں ہیں۔ مستدرک حاکم میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرن گزرے ہیں، اور یہی مضمون طبرانی نے بروایت ابی ذر (رض) علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (تفسیر مظہری) قرن عام طور پر ایک سو سال کو کہا جاتا ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان اس روایت کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ ہوگیا، ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی ولادت حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات سے آٹھ سو چھبیس سال بعد ہوئی ہے اور بتصریح قرآن ان کی عمر نو سو پچاس سال ہوئی، اور آدم (علیہ السلام) کی عمر کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ چالیس کم ایک ہزار سال ہے اس طرح آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے نوح (علیہ السلام) کی وفات تک کل دو ہزار آٹھ سو چھپن سال ہوجاتے ہیں (مظہری) نوح (علیہ السلام) کا اصلی نام شاکر اور بعض روایات میں سَکَن اور بعض میں عبدالغفار آیا ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ ان کا زمانہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سے پہلے ہے یا بعد میں اکثر صحابہ کا قول یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ادریس (علیہ السلام) سے پہلے ہیں (بحر محیط) مستدرک حاکم میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ اور طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے۔ آیت قرآن لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ ، سے ثابت ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعثت و نبوت صرف اپنی قوم کے لئے تھی ساری دنیا کے لئے عام نہ تھی اور ان کی قوم عراق میں آباد بظاہر مہذب مگر شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جو دعوت دی وہ یہ تھی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ یعنی اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے۔ اس کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت ہے جو اصل اصول ہے، دوسرے جملہ میں شرک و کفر سے پرہیز کرنے کی تلقین ہے جو اس قوم میں وباء کی طرح پھیل گیا تھا۔ تیسرے جملہ میں اس عذاب عظیم کے خطرہ سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور دنیا میں طوفان کا عذاب بھی۔ (کبیر)