Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 63

سورة الأعراف

اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۶۳﴾

Then do you wonder that there has come to you a reminder from your Lord through a man from among you, that he may warn you and that you may fear Allah so you might receive mercy."

اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آ گئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے اور تاکہ تم ڈر جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said that Nuh proclaimed to his people, أَوَعَجِبْتُمْ ... "Do you wonder...," do not wonder because of this. ... أَن جَاءكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُواْ ... ...that there has come to you a Reminder from your Lord through a man from among you, that he may warn you, so that you may fear Allah, Surely, it is not strange that Allah sends down revelation to a man among you as mercy, kindness and compassion for you, so that he warns you that you may avoid Allah's torment by associating none with Him, ... وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "and that you may receive (His) mercy." Allah said,

نوح علیہ السلام پر کیا گزری؟ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہو شیار کر دے پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پا لو اور تم پر گونا گوں رحمتیں نازل ہوں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں نے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ کیا یہ انہیں جھٹلاتے رہے مخالفت سے باز نہ آئے ایمان قبول نہ کیا صرف چند لوگ سنور گئے ۔ پس ہم نے ان نیک لوگوں کو اپنے نبی کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہ آب غرق کر دیا ۔ جیسے سورۃ نوح میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کر دیئے گئے پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے اور کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی کسی قسم کی مدد کرتا ۔ یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے ، نابینا ہوگئے تھے ، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی ۔ پس اللہ نے اپنے نبی کو اپنے دوستوں کو نجات دی ۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہ آب برباد کر دیا ۔ جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں ۔ دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے ان پرہیز گاروں کیلئے ہی عافیت ہے ۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے ۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئے گئے ۔ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی آدمیوں نے نجات پائی ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی ۔ ابن ابی حاتم میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے متصلاً مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے درمیان دس قرنوں یا دس پشتوں کا فاصلہ ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے پھر سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالحین فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں (عبادت خانے) قائم کردیں اور ان کی تصویریں بھی وہاں لٹکا دیں، مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح ان کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکر الٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے۔ جب کچھ وقت گزرا تو انہوں نے تصویروں کے مجسمے بنا دیئے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ مجسمے بتوں کی شکل اختیار کر گئے اور ان کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی اور قوم نوح کے یہ صالحین معبود بن گئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان میں نبی بنا کر بھیجا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا، کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا بالآخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ قوم نوح نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان ہی میں کا ایک آدمی نبی بن کر آگیا جو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے ؟ یعنی ان کے خیال میں نبوت کے لئے انسان موزوں نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے جواب میں منکرین کی طرف سے ایک ہی جیسے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں ایسے ہی اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے ہوسکتے ہو۔ اس مقام پر گو اس اعتراض کا جواب نہیں دیا گیا تاہم بہت سے مقامات پر اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انسانوں کی ہدایت کا اس کے سوا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں کہ انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جائے جو انہی کی زبان میں انہیں اللہ کا پیغام پہنچا سکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ۔۔ : تمام کافر اقوام کا اعتراض یہی تھا کہ ہمیں میں سے ایک شخص یعنی کوئی انسان رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ جیسا کہ آج کل کے کئی کلمہ گو کہتے ہیں کہ جو نبی ہو وہ انسان کیسے ہوسکتا ہے ؟ دونوں کی اصل مشکل ایک ہی ہے۔ نوح (علیہ السلام) کا جواب یہ تھا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہاری طرف نصیحت بھیجی، تاکہ وہ نمونہ بنے، تمہیں خبردار کرے اور تم اللہ سے ڈرو اور تم پر رحم ہوجائے۔ فرشتے یا کسی اور مخلوق کو بھیجنے سے یہ مقصد کبھی حاصل نہ ہوتا۔ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ : اشارہ فرمایا کہ انبیاء کی دعوت قبول کرلینے سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ آخرت میں رحمت کا سبب بنے گا۔ (رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Here, the answer given was: أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ‌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَ‌كُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٦٣﴾ (Do you wonder that an advice from your Lord has come to you through a man from among you, so that he may warn you and that you may fear Allah, and that you may be blessed with mercy?) [ that is, his warning may lead you to stop opposing him as a result of which you may be blessed with mercy ] The substance of the argument is that the making of a human be¬ing a messenger of Allah is not a matter of surprise. First of all, Allah Ta` ala is the Absolute Master. Bestowing on someone the status of a prophet or messenger is His exclusive domain. It is He who does it at His will. No one is in a position to dare have it otherwise. In addition to that, a little deliberation will make it clear that the purpose of send¬ing a prophet or messenger to guide human beings can only be achieved through a human being. This is a mission angels cannot perform. The reason is that the purpose of prophethood is to bring people round to believe in and obey Allah Ta` ala and save them from harsh consequences of their opposition to His injunctions - and this can only be possible when a person from their own kind presents before them a model of the desired conduct and shows before them that it is quite possible to worship Allah and obey His injunctions even with the ful¬fillment of inherent human needs and desires. If this call was brought forth by angels and they were to put their model before people, it is ob¬vious that people would have found it fairly convenient to say that an-gels are free of human desires, they are never hungry or thirsty, they never sleep, or get tired. How could they ever become like them? But, when one of their own kind, despite having common human character¬istics and desires, walks amongst them as a perfect model of obedience to Divine injunctions, they would be left with no excuse. It was to point out in this direction that it was said: لِيُنذِرَ‌كُمْ وَلِتَتَّقُوا (so that he may warn you and that you may fear Allah). In other words, it means that a person whose warning can make people have fear could only be the one who is of their kind and is an epitome of human traits like them. This is not an unusual doubt for the disbelievers of many communities who have questioned the propriety of having a human be¬ing as prophet or messenger. This is the answer given by the Qur&an to all such doubts. It is certainly regrettable that, despite so many clarifi¬cations of the Qur&an, there are people who would dare going to the limit of denying the ` humanness& of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . But, the problem with the ignorant among human beings is that they would not understand this reality and would simply refuse to accept the superiority of anyone from their own kind. This is why they would nurse hatred for their contemporary Awliya& (men of Allah) and ` Ulama& (highly trained and trustworthy religious scholars who prac¬tice what they teach) and look down upon them because of their contemporaneousness. This has always been the trademark of the ignor¬ant. When this paternal and well-wishing approach of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) in reply to the heart-rending words said by his addressees made no effect on these unfeeling people who turned blind to truth and kept belying it, then, Allah Ta` ala sent down upon them the punishment of Flood

اس کے جواب میں فرمایا (آیت) اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ یعنی کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ تمہارے رب کا پیغام تمہاری طرف ایک ایسے شخص کی معرفت آیا جو تمہاری ہی جنس کا ہے تاکہ وہ تمہیں ڈراوے اور تاکہ تم ڈرجاو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یعنی اس کے ڈرانے سے تم متنبہ ہو کر مخالفت چھوڑ دو جس کے نتیجہ میں تم پر رحمت نازل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بشر کو رسول بنایا جائے۔ اول تو حق تعالیٰ مختار مطلق ہیں جس کو چاہیں اپنی نبوت و رسالت عطا فرمائیں اس میں کسی کو چوں چرا کی مجال نہیں۔ اس کے علاوہ اصل معاملہ کرو تو واضح ہوجائے کہ عام انسانوں کی طرف رسالت و نبوت کا مقصد بشر ہی کے ذریعہ پورا ہوسکتا ہے فرشتوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اصل مقصد رسالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور عبادت پر لوگوں کو قائم کردیا جائے اور اس کے احکام کی مخالفت سے بچایا جائے۔ اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان کی جنس بشر کا کوئی شخص نمونہ عمل بن کر ان کو دکھلائے کہ بشری تقاضوں اور خواہشوں کے ساتھ بھی احکام الٰہیہ کی اطاعت اور اس کی عبادت جمع ہو سکتی ہے۔ اگر فرشتے یہ دعوت لے کر آتے اور اپنی مثال لوگوں کے سامنے رکھتے تو سب لوگوں کا یہ عذر ظاہر تھا کہ فرشتے تو بشری خواہشات سے پاک ہیں نہ ان کو بھوک پیاس لگتی ہے نہ نیند آتی ہے نہ تھکان ہوتا ہے ان کی طرح ہم کیسے بن جائیں۔ لیکن جب اپنا ہی ایک ہم جنس بشر تمام بشری خواہشات اور خصوصیات رکھنے کے باوجود ان احکام الٰہیہ کی مکمل اطاعت کرکے دکھلائے تو ان کے لئے کوئی عذر نہیں رہ سکتا۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرمایا لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوْا، مطلب یہ ہے کہ جس کے ڈرانے سے متاثر ہو کر لوگ ڈر جائیں وہ وہی ہوسکتا ہے جو ان کا ہم جنس اور ان کی طرح بشری خصوصیات کا جامع ہو۔ یہ شبہ اکثر امتوں کے کفار نے پیش کیا کہ کوئی بشر نبی اور رسول نہیں ہونا چاہئے اور قرآن نے سب کا یہی جواب دیا ہے۔ افسوس ہے کہ قرآن کی اتنی تصریحات کے باوجود آج بھی کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ مگر جاہل انسان اس حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ کسی اپنے ہم جنس کی برتری کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہمعصر اولیاء اور علماء سے ان کی معاصرت کی بنا پر نفرت و حقارت کا برتاؤ جاہلوں کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے۔ قوم نوح (علیہ السلام) کے دل خراش کلام کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ مشفقانہ اور ناصحانہ رویہ بھی ان کی بےحس قوم پر اثر انداز نہ ہوا بلکہ اندھے بن کر جھٹلانے ہی میں لگے رہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفان کا عذاب بھیج دیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَذَّبُوْہُ فَاَنْجَيْنٰہُ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ فِي الْفُلْكِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ۝ ٦٤ ۧ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) بلکہ تمہیں اس سے تعجب ہورہا ہے کہ تمہارے جیسے انسان پر نبوت آگئی ہے کہ وہ تمہیں ڈرائے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور غیر اللہ سے بچو، تاکہ اس کی وجہ سے تم پر رحم کیا جائے اور عذاب سے نجات ملے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. There were striking similarities between Muhammad and Noah (peace be on them). The Prophet Muhammad (peace be on him) received the same treatment from his people as did Noah from his. The message that each of them sought to preach was also the same. Likewise, the doubts and objections raised by the people of Muhammad (peace be on him) with regard to his prophethood were the same as those raised by Noah's people several thousand years ago. Again, what Muhammad (peace be on him) said in response to the doubts and objections raised against him were exactly the same as what Noah had said. The Qur'anic narration of the stories of the Prophets makes it amply clear that the attitude of the nations to whom the Prophets were sent had always been the same as that of the Makkans towards the Message of Muhammad (peace be on him). Apart from this, the accounts of the various Prophets and their people, display the same striking resemblances. Likewise, the Prophet Muhammad's (peace be on him) vindication of his teaching in response to the Makkans is identical with similar attempts by other Prophets to vindicate their teachings. So doing, the Qur'an seeks to emphasize that in the same way as the error and misguidance of which men become victims have remained essentially the same throughout the ages, the Message of God's Messengers has also been the same in all places and at all times. Again, there is a striking resemblance in the ultimate fate of all those peoples who reject the message of the Prophets and who persist in their erroneous and evil ways. This too has also been the same, namely utter destruction.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :49 یہ معاملہ جو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان پیش آیا تھا بعینہ ایسا ہی معاملہ مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا ۔ جو پیغام حضرت نوح علیہ السلام کا تھا وہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ جو شہبات اہل مکّہ کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں ظاہر کیے تھے ۔ پھر ان کے جواب میں جو باتیں حضرت نوح علیہ السلام کہتے تھے بعینہ وہی باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتے تھے آگے چل کر دوسرے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے جو قصے مسلسل بیان ہو رہے ہیں ان میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویّہ اہل مکہ کے رویّہ سے اور ہر نبی کی تقریر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے ہُو بہُو مشابہ ہے ۔ اس سے قرآن اپنے مخاطبوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے ، اور خدا کے بھیجے ہوئے معلّموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سر زمین میں یکساں رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح ان لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے اور ہوگا جنہوں نے انبیاء کی دعوت سے منہ موڑا اور اپنی گمراہی پر اصرار کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:63) علی رجل ۔ علی لسان رجل۔ (تم میں سے) ایک شخص کی زبان سے یا اس کے ذریعہ سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اشارہ فرمایا کہ انبیا کی دعوت قبول کرن لینے سے دلوں میں تقوی ٰ پیدا ہوتا ہے اویہی تقوٰ آخرت میں جالب رحمت بنے گا۔ (رازی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73: یہ مشرکین کی غلطی کے اصل منشا کا رد ہے یعنی تم صرف اس بات پر حیران و متعجب ہو کہ تمہاری ہدایت کے لیے تمہاری جنس ہی کے ایک بشر پر اللہ کی طرف سے وحی آگئی۔ “ فَکَذَّبُوْہُ الخ ” ماضی استمرار کیلئے ہے یعنی وہ ہمیشہ ان کی تکذیب کرتے رہے اور مسلسل شرک پر ڈٹے رہے۔ ای استمروا علی تکذیبہ واصروا بعد ان قال لھم ما قال و دعاھم الی اللہ تعالیٰ لیلاً و نہاراً (روح ج 8 ص 153) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi