Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 74

سورة الأعراف

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ ﴿۷۴﴾

And remember when He made you successors after the 'Aad and settled you in the land, [and] you take for yourselves palaces from its plains and carve from the mountains, homes. Then remember the favors of Allah and do not commit abuse on the earth, spreading corruption."

اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالٰی نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو سو اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And remember when He made you successors (generations) after `Ad and gave you habitations in the land, you build for yourselves palaces in plains, and carve out homes in the mountains. So remember the graces (bestowed upon you) from Allah, and do not go about making mischief on the earth. قَالَ الْمَلُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِمَنْ امَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ قَالُواْ إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُوْمِنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ نرم زمین سے مٹی لے لے کر اینٹیں تیار کرتے ہو اور اینٹوں سے محل، جیسے آج بھی بھٹوں پر اسی طرح مٹی سے اینٹیں تیار کی جاتی ہیں۔ 74۔ 2 یہ ان کی قوت، صلاحیت اور مہارت فن کا اظہار ہے۔ 74۔ 3 یعنی ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کا راستہ اختیار کرو، نہ کہ کفران نعمت اور معصیت کا ارتکاب کرکے فساد پھیلاؤ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] قوم ثمود کے گھروں کی ساخت :۔ ان لوگوں کے قد و قامت بھی بہت بڑے اور عمریں بھی بہت لمبی ہوتی تھیں اور اگر وہ عام لکڑی کی چھت والے مکان بناتے تو بنانے والے کی زندگی ہی میں کئی بار بوسیدہ ہو کر گرپڑتے تھے۔ عام روایت کے مطابق اس دور میں ان کی عمریں تین سو سے چھ سو سال کے درمیان ہوتیں اور لکڑی کے مکان زیادہ سے زیادہ ایک سو سال چلتے پھر بوسیدہ اور کمزور ہو کر گرپڑتے تھے اس لیے وہ اپنے مکان پہاڑوں میں بناتے۔ اعلیٰ درجے کے سنگ تراش اور انجینئر تھے۔ پہاڑوں کو اندر سے تراش تراش کر مکان بنا لیتے جن میں کھڑکیاں دروازے سب کچھ موجود ہوتا تھا اور ان کی پائیداری کی وجہ سے ایک طویل عرصہ وہاں گزار سکتے تھے اور کسی ہموار زمین پر مکان بناتے تو وہ بھی اتنا مضبوط ہوتا جیسے کوئی محل کھڑا کردیا گیا ہو۔ [٧٩] قوم ثمود کا فساد فی الارض :۔ جب ان لوگوں کی اکثریت اپنا مطلوبہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی تو صالح (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے احسانات یاد کرائے اور فرمایا : قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی تو ان کا حشر تم نے دیکھ لیا پھر اللہ نے تمہیں ان کا قائم مقام بنایا تمہیں قوت دی اور اتنی طاقت اور خوش حالی دی کہ تم رہنے کے لیے معمولی گھروں کے بجائے محل بنا کر رہتے ہو تو اللہ کے ان احسانات کا شکریہ ادا کرو اور فساد فی الارض کے موجب نہ بنو۔ یہاں فساد فی الارض سے مراد کفر و شرک کو اختیار کرنا، انبیاء کی دعوت ہدایت کو ازراہ تکبر ٹھکرا دینا۔ دعوت قبول کرنے والوں کا استہزاء اور ان پر سختیاں روا رکھنا، اور ان سے محاذ آرائی ہے اور ان سب باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کی اپنی سرداریاں ختم نہ ہوجائیں۔ پھر اس قسم کے معاشرے میں یہ متکبر قسم کے بڑے لوگ غریبوں کا جس طرح استحاصل کرتے ہیں اور ان پر ظلم روا رکھتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور یہ سب باتیں فساد فی الارض کے ضمن میں آتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا۔۔ : یعنی ہموار علاقہ ہو تو اینٹوں سے عالی شان محل بنا لیتے ہو اور پہاڑ ہوں تو انھیں کھود اور تراش کر سردی، گرمی اور طوفان سے محفوظ مکان بنا لیتے ہو۔ اٰلَاۗءَ ‘ یہ ” اِلًی “ کی جمع ہے جو اصل میں ” اِلَیٌ“ تھا، جیسے اَمْعَاءٌ ( انتڑیاں) ” مِعًی “ کی جمع ہے۔ ” ِ وَلَا تَعْثَوْا “ یہ ” عَثِیَ یَعْثَی “ (س ) سے نہی کا صیغہ ہے، اس کا معنی سخت فساد کرنا ہوتا ہے، ” مُفْسِدِيْنَ “ تاکید کے لیے حال ہے، اس لیے ترجمہ میں ” وَلَا تَعْثَوْا “ کا معنی ” دنگا نہ مچاؤ “ اور ” مُفْسِدِيْنَ “ کا معنی ” فساد کرتے ہوئے “ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (74), concern has been shown for these pledge-breaking and contumacious people lest they find themselves subjected to Divine punishment. For this purpose they have been reminded of the favours and blessings of Allah Ta` ala upon them in the hope that they would alter their uncompromising stance and abandon their dog¬gedness and rebellion. It was said: وَاذْكُرُ‌وا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورً‌ا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا (And remember when He made you successors after ` Ad and lodged you on earth [ whereby ] you make castles in its plains and hew out the mountains into houses). Here, the word: خُلَفَاءَ (khulafa& ) is the plural of khalifah which means deputy or vice-regent and: قُصُور (qusur) is the plural of قَصر qasr which means a palace or palatial building. The word: تَتَّخِذُونَ (tanhituna) is a derivation from naht which means sculpture or stone-carving. جِبَال ` Jibal& is the plural of jabal meaning a mountain. ` Buyut& is the plural of bayt which denotes a house or rooms in it. The sense of the verse is that they should remem¬ber the blessing of Allah Ta` ala that He, after the destruction of the people of ` Ad, brought them to settle in their place, gave their lands and homes to them as the new owners, and bestowed on them the skill with which they could raise big palaces on open surfaces and hew out mountains to make rooms and apartments inside them. Then, at the end of the verse, it was said فَاذْكُرُ‌وا آلَاءَ اللَّـهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْ‌ضِ مُفْسِدِينَ (So be mindful of the bounties of Allah, and do not go about the earth spreading disorder). Injunctions and Rulings Some fundamental and subsidiary rulings emerge from the cited verse. These are as follows: (1) There is a unanimous agreement of all prophets, may peace be upon them all, on fundamental articles of faith and, similarly, united stand their religious codes or Shari&ahs. All of them invite towards Tauhid or absolutely pure monotheism as the basis of worshiping Al¬lah, and they all warn against contravention of this concept which brings punishment in this world and in the Hereafter. (2) It has happened in past communities too that the wealthy and the traditional holders of social prestige have not said yes to the call of prophets as a result of which they were disgraced and destroyed in this world and became deserving of punishment in the Hereafter as well. (3) According to Tafsir al-Qurtubi, this verse tells us that the bless¬ings of Allah in this world are directed to and shared by disbelievers as well - as was the case with the people of ` Ad and Thamud to whom Al¬lah Ta` ala had given great wealth and power. (4) According to Tafsir al-Qurtubi, once again, this verse tells us that palaces and mansions are blessings of Allah Ta` ala and their making is permissible. However, this is an entirely different matter that the noble proph¬ets and the men of Allah have not favoured them as they make people heedless. The sayings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about high rising buildings are of this nature.

دوسری آیت میں اس وعدہ فراموش قوم کی خیر خواہی اور ان کو عذاب الٰہی سے بچانے کے لئے پھر ان کو اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد دلائے کہ اب بھی یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آجائیں فرمایا (آیت) وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا ۚ اس میں خلفاء خلیفہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں قائمقام اور نائب اور قصود قصر کی جمع اونچی علیشان عمارت اور محل کو کہا جاتا ہے تنحتون، نحت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سنگ تراشی۔ جبال جبل کی جمع ہے بمعنی پہاڑ بیوتا بیت کی جمع ہے جو گھر کے کمرے کے لئے بولا جاتا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے قوم عاد کو ہلاک کرکے ان کی جگہ تم کو بسایا۔ ان کی زمین اور مکانات تمہارے قبضہ میں دے دیئے اور تم کو یہ صنعت سکھلا دی کہ کھلی زمین میں بڑے بڑے محلات بنا لیتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں کمرے اور مکانات بنا لیتے ہو۔ آخر آیت میں فرمایا فاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ ، یعنی اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور ان کا احسان مانو، اس کی اطاعت اختیار کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔ احکام و مسائل آیات مذکورہ سے چند اصولی اور فروعی مسائل معلوم ہوئے۔ اول یہ کہ اصول عقائد میں تمام انبیاء (علیہم السلام) متفق ہیں اور ان کی شریعتیں متحد ہیں سب کی دعوت توحید کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی خلاف ورزی پر عذاب دنیا و آخرت سے ڈرانا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام پچھلی امتوں میں ہوتا بھی رہا ہے کہ قوموں کے بڑے دولت مند آبرو دار لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور اس کے نتیجہ میں دنیا میں بھی ہلاک و برباد ہوئے اور آخرت میں بھی مستحق عذاب ہوئے۔ تیسرے تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دنیا میں کافروں پر بھی مبذول ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قوم عاد وثمود پر اللہ تعالیٰ نے دولت و قوت کے دروازے کھول دئیے تھے۔ چوتھے تفسیر قرطبی ہی میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بڑے بڑے محلات اور عالیشان مکانات کی تعمیر بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور ان کا بنانا جائز ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ انبیاء و اولیاء اللہ نے اس کو اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ یہ چیزیں انسان کو غفلت میں ڈال دینے والی ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو اونچی تعمیرات کے بارے میں ارشادات منقول ہیں وہ اسی انداز کے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ ٠ ۭ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۝ ٧٥ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ اسْتَضْعَفْ واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص/ 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور وہ وقت بھی یاد کرو جب قوم عاد کے ہلاک کرنے کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں آباد کیا اور یہ لوگ گرمیوں کے لیے نرم زمین میں اور سردیوں کے لیے پہاڑوں پر مکانات بناتے تھے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرکے اس پر ایمان لاؤ اور زمین میں غیر اللہ کی پرستش اور دیگر گناہ کے کاموں کو مت کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْم بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُہُوْلِہَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا ج) ۔ میدانی علاقوں میں وہ عالی شان محلات تعمیر کرتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر بڑے خوبصورت گھر بناتے تھے۔ اب ان محلات کا تو کوئی نام و نشان اس علاقے میں موجود نہیں ‘ البتہ پہاڑوں سے تراش کر بنائے ہوئے گھروں کے کھنڈرات اس علاقے میں آج بھی موجود ہیں۔ قوم ثمود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے گزری ہے اور قوم عاد اس سے بھی پہلے تھی۔ اس طرح قوم ثمود کا زمانہ آج سے تقریباً چھ ہزار سال پہلے کا ہے جبکہ قوم عاد کو گزرے تقریباً سات ہزار سال ہوچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. The Thamud were highly skilful in rock-carving, and made huge mansions by carving the mountains, as we have mentioned earlier (see n. 57 above). In this regard the works of the Thamud resemble the rock-carvings in the Ajanta and Ellora caves in India and several other places. A few buildings erected by the Thamud are still intact in Mada'in Salih and speak of their tremendous skills in civil engineering and architecture. 60. The Qur'an asks people to draw a lesson from the tragic end of the 'Ad. For just as God destroyed that wicked people and established Muslims in positions of power and influence previously occupied by them, He can also destroy the Muslims and replace them by Others if they should become wicked and mischievous. (For further elaboration see n. 52 above.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :59 ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا ، ایجنٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے ، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جوں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نے انجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :60 یعنی عاد کے انجام سے سبق لو ۔ جس خدا کی قدرت نے اس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا ، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:74) بوأکم۔ تم کو جگہ دی۔ تبویۃ (تفعیل) سے جس کے معنی ٹھکانا دینے اور من اس جگہ فروکش کرنے کے ہیں۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ البواء کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزاء کا مساوی (سازکار، موافق) ہونے کے ہیں۔ مکان بواء اس جگہ کو کہتے ہیں جو اس جگہ پر اترنے والے کے سازگار اور موافق ہو۔ بوات لہ مکانا۔ میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا۔ آیۃ ہذا میں معنی یہ ہوگا۔ تم کو ٹھکانہ کے لئے عمدہ اور مناسب جگہ دی۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ ولقد بوأنا بنی اسرائیل سبوأ صدق (10:93) اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے عمدہ جگہ دی۔ یا تبوی المؤمنین مقاعلہ للقتال (3:121) ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر (مناسب جگہ) متعین کرنے لگے تتخذون من سھولہا۔ ای تتخذون قصودا من سھولہا۔ اس کے میدانی علاقوں میں عالیشان محل بناتے ہو۔ سہول سہل کی جمع ہے جس کے معنی نرم زمین کے ہیں جملہ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم نرم زمین سے (مٹی لے کر) محل تعمیر کرتے ہو۔ لیکن رجل سہلی کے معنی ہیں میدانی علاقہ کے رہنے والا آدمی۔ تنحتون۔ نحت (باب ضرب) سے۔ تم تراشتے ہو۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ لا تعثوا۔ تم فساد نہ کرو۔ العیث والعثی (سخت سفاد پیدا کرنا) دونوں تقریباً ہم معنی ہیں لیکن عیث کا لفظ زیادہ تر فساد حسی کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور العثی حکمی یعنی ذہنی یا فکری فساد کے لئے آتا ہے۔ آیۃ ہذا میں دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ آیۃ (2:60) میں بھی یہ جملہ انہی معنوں کے لئے آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” وَاذْکُرُواْ إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاء مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَکُمْ فِیْ الأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُہُولِہَا قُصُوراً وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتاً فَاذْکُرُواْ آلاء اللّہِ وَلاَ تَعْثَوْا فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (74) ” یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین یہ منزلت بخشی کہ آج تم ان کے ہموار میدانوں میں عالیشان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو ۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ “ یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ قوم ثمود کا مسکن کہاں تھا ؟ لیکن دوسری سورة میں ہے کہ یہ الحجر میں رہتے تھے ‘ جو حجاز اور شام کے درمیان کا علاقہ ہے حضرت صالح (علیہ السلام) ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ذرا دیکھو کہ اللہ نے تم پر کس قدر انعام کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین پر نہایت ہی ترقی یافتہ اور سیاسی اعتبار سے ایک قوت تھے ۔ ان کے جغرافیہ کی طرف جو اشارہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پہاڑ بھی تھے اور ہموار علاقے بھی تھے ۔ وہ ہموار علاقوں میں عالیشان محل بناتے تھے اور پہاڑوں کو بھی تراش کر مکانات بناتے تھے ۔ گویا اس مختصر آیت میں ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) یہ بھی بتاتے تھے ۔ گویا اس مختصر آیت میں ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) یہ بھی بتاتے ہیں کہ عاد کے بعد قوم ثمود کو عروج حاصل ہوا ۔ اگرچہ یہ لوگ قوم کی سر زمین میں نہ رہتے تھے ۔ ہاں یہ حقیقت واضح ہے کہ وہ عاد کی تہذیب کے بعد نمودار ہونے والی تہذیب کے حامل تھے اور حجر سے باہر بھی دور دراز علاقوں تک ان کی مملکت پھیلی ہوئی تھی ۔ اس طرح وہ خلیفۃ اللہ فی الارض کے منصب پر فائز تھے اس لئے حضرت صالح ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ تمہارا کام فساد فی الارض نہیں ہے اور تمہیں اپنی شان و شوکت پر غرور نہیں کرنا چاہئے ۔ تمہیں چاہیے کہ ذرا پچھلی اقوام کے انجام کو نگاہ میں رکھو ۔ یہاں سیاق قصہ میں ایک دوسرا خلا بھی ہے جس کا ذکر نہیں ہوا ‘ یہ کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت کو بعض لوگوں نے قبول کرلیا اور مطیع فرمان لوگ تھے اور بعض لوگوں نے تکبر کرکے اسے رد کردیا ۔ کسی علاقے کے بااثر لوگ ہمیشہ دعوت اسلامی کو سب سے آخر میں قبول کرتے ہیں کیونکہ اس دعوت کا منشا یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی بڑائیاں اور خدائیاں چھوڑ کر صرف الہہ واحد کو بڑا اور بادشاہ تسلیم کرلیں جو رب العالمین ہے ۔ اس سے قبل یہ بڑے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جن ضعفاء نے اپنی گردنوں سے طاغوت کی غلامی کا جوا اتار پھینکا ہے اور اللہ کے سوا تمام غلامیوں سے آزاد ہوگئے ہیں ان پر تشدد کریں ۔۔۔۔۔۔۔ چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے اور بااثر لوگ ان ضعفاء پر تشدد کرتے ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے نئے قسم قسم کا فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت صالح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ کرنا اور سر کشی اختیار کر کے قوم کا ہلاک ہونا حضرت صالح (علیہ السلام) جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے وہ قوم ثمود تھی۔ عاد اور ثمود دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں۔ یہ دونوں دو شخصوں کے نام تھے۔ بنو عاد قوم عاد کے نام سے اور بنو ثمود قوم ثمود کے نام سے معروف و موسوم ہوئے۔ قوم ثمود عرب کے شمال مغرب میں رہتے تھے ان کے مرکزی شہر کا نام حجر تھا۔ جس کو سورة حجر کے چھٹے رکوع میں بیان فرمایا ہے۔ قوم عاد کی بربادی کے بعد یہ لوگ زمین میں بسے اور پھلے پھولے۔ یہ لوگ بھی قوت اور طاقت والے تھے۔ زمین پر بڑے بڑے مکانات بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر اپنے لیے گھر بنا لیتے تھے جس کو (تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا) میں بیان فرمایا ہے۔ ان لوگوں کے تراشے ہوئے پہاڑ اور پہاڑوں کے اندر بنائے ہوئے گھر آج تک موجود ہیں۔ جو مدائن صالح کے نام سے معروف و مشہور ہیں اور شہر العلاء سے چند میل کے فاصلہ پر ہیں۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے (جو انہی کی قوم میں سے تھے) ان کو تبلیغ کی اور توحید کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اور فرمایا (یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ) (اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے) قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بےت کے جواب دیئے، سورة قمر میں ہے کہ وہ یوں کہنے لگے۔ (اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُہٗ اِِنَّا اِِذًا لَّفِیْ ضَلاَلٍ وَّسُعُرٍ ءَ اُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ھُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ) (کیا ایک ایسے شخص کا ہم اتباع کرلیں جو ہمیں میں سے ہے اگر ہم ایسا کرلیں تو کھلی گمراہی میں اور دیوانگی میں پڑجائیں گے کیا ہم سب کے درمیان سے اس پر نصیحت نازل کی گئی ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے شیخی بگھارتا ہے) سورۂ ہود میں فرمایا کہ جب حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم ثمود کو توحید کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے (قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ) (اے صالح اس سے پہلے تم ہمارے اندر بڑے ہونہار تھے) تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ (اَتَنْھٰنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ ) (کیا تو ہم کو اس سے منع کرتا ہے کہ پرستش کریں جن کی پرستش کرتے رہے ہمارے باپ دادے اور ہم کو اس میں شبہ ہے جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے یہ شبہ تردُّدْ میں ڈالنے والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 اور تم اللہ تعالیٰ کے وہ احسانات یاد کرو کہ جب تم کو قوم عاد کے بعد اس نے جانشین مقرر کیا اور تم کو روئے زمین پر آباد کیا اور تم کو زمین میں بسنے کو اس طور پر ٹھکانا دیا کہ نرم نرم زمین پر بڑے بڑے محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو بھی تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو لہٰذا تم انعامات خداوندی اور اس کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد برپا نہ کرتے پھرو۔