Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 75

سورة الأعراف

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِمَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۷۵﴾

Said the eminent ones who were arrogant among his people to those who were oppressed - to those who believed among them, "Do you [actually] know that Salih is sent from his Lord?" They said, "Indeed we, in that with which he was sent, are believers."

ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح ( علیہ السلام ) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بیشک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The leaders of those who were arrogant among his people said to those who were counted weak -- to such of them as believed: "Know you that Salih is one sent from his Lord." They said: "We indeed believe in that with which he has been sent." قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِيَ امَنتُمْ بِهِ كَافِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یعنی جو دعوت توحید وہ لے کر آئے ہیں، وہ چونکہ فطرت کی آواز ہے، ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں، باقی رہی یہ بات کہ صالح واقعی اللہ کے رسول ہیں ؟ جو ان کا سوال تھا اس سے ان اہل ایمان نے مزاحمت ہی نہیں کی کیونکہ ان کے رسول من اللہ ہونے کو وہ بحث کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ان کی رسالت ایک مسلمہ حقیقت و صداقت تھی۔ جیسا کہ فی الواقع تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ: ان کا یہ پوچھنا اپنے تکبر کے اظہار اور طنز کے لیے تھا۔ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ : یعنی ہمیں نہ صرف ان کے رسول ہونے پر یقین ہے، بلکہ ان کے دیے ہوئے ایک ایک حکم کے صحیح ہونے پر بھی یقین ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Confrontation Between the Arrogant and the Weakened The third (75) and the fourth (76) verses carry a dialogue between two groups of the people of Thamud. One of these was of those who had come to believe that Sayyidna Salih (علیہ السلام) was a prophet while the other was that of deniers and disbelievers. Says the verse: قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ (The chiefs of his people, who were arrogant said to the weakened, to those of them who believed). In Tafsir Kabir, Imam Razi has said: At this place, the Holy Qur&an identifies two qualities of these two groups, but the quality or trait of the disbelievers was mentioned in the active voice (اسْتَكْبَرُ‌وا who were arrogant) while the quality or state of the believers was identified through the passive (اسْتُضْعِفُوا the weakened). It indicates that the con¬dition of the disbelievers - that they were arrogant - was what they chose to do at their own discretion which was questionable and blame-worthy, and which finally became the cause of their punishment. As for the quality or state of believers which these people put as weak and low, it was something said by disbelievers. Their description had nothing to do with the actual state and quality of believers, something which could be considered blameworthy in any manner whatsoever. In fact, blameworthy are those who call them weak and low, and take them to be so, without any reason. After that comes the dialogue which has occured between these two groups where the disbelievers said to the believers: ` Are you sure that Salih is a messenger from his Lord?& The reply given by the believers was: ` Surely, we believe in what he has been sent with.& The famous Tafsir Kashshaf says: What an eloquent answer was given by the believers from the people of Thamud when they said: ` All this debate of yours - is he a messenger of Allah or is he not? - is just not worth debating. In fact, this is obvious, foregone and certain. And equally certain is that what he says is a message brought from Allah Ta` ala. If there is anything worth talking about here, it is: Who be¬lieves in him and who does not? So, as for us, praise be to Allah, we do believe in every word of guidance brought by him.& But, even this eloquent answer could not soften the disbelieving people of Thamud. They countered back coldly and arrogantly saying that they rejected what they had accepted. The lust of worldly life is merciless. So is the toxic elation of having wealth and power. May Al¬lah Ta` ala keep all of us protected for they become invisible curtains before human eyes which would not let those seeing eyes see the obvi¬ous.

تیسری اور چوتھی آیت میں وہ مکالمہ اور مباحثہ ذکر کیا گیا ہے جو قوم ثمود کے دو گروہوں کے درمیان ہوا۔ ایک وہ گروہ جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا تھا، دوسرا منکرین و کفار کا گروہ۔ ارشاد فرمایا (آیت) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ ، یعنی کہا قوم صالح (علیہ السلام) میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے تکبر کیا ان لوگوں سے جن کو حقیر و ضعیف سمجھا جاتا تھا یعنی جو ایمان لائے تھے۔ امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا کہ اس جگہ ان دونوں گروہوں کے دو وصف قرآن کریم نے بتلائے مگر کفار کا وصف بصیغہ معروف بتلایا استکبروا اور مومنین کا وصف بصیغہ مجہول بتلایا استضعفوا اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ کفار کا یہ حال کہ وہ تکبر کرتے تھے خود ان کا اپنا فعل تھا جو قابل مواخذہ و ملامت اور انجام کار موجب عذاب ہوا۔ اور مومنین کا جو وصف یہ لوگ بیان کرتے تھے کہ وہ ذلیل و حقیر اور ضعیف ہیں۔ یہ کفار کا کہنا ہے خود مومنین کا واقعی حال اور وصف نہیں جس پر کوئی ملامت ہوسکے بلکہ ملامت ان لوگوں پر ہے جو بلاوجہ ان کو حقیر و ضعیف کہتے اور سمجھتے ہیں۔ آگے وہ مکالمہ جو دونوں گروہوں میں ہوا یہ ہے کہ کفار نے مومنین سے کہا کہ کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ تفسیر کشاف میں ہے کہ قوم ثمود کے مومنین نے کیسا بلیغ جواب دیا ہے کہ تم جس بحث میں پڑے ہوئے ہو کہ یہ رسول ہیں یا نہیں یہ بات قابل بحث ہی نہیں بلکہ بدیہی اور یقینی ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لایا ہوا پیغام ہے۔ بات کچھ ہو سکتی ہے تو یہ کہ کون ان پر ایمان لاتا ہے کون نہیں، سو تم تو بحمد اللہ ان کی لائی ہوئی سب ہدایات پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر ان کے بلیغ جواب پر بھی قوم نے وہی سرکشی کی بات کی جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے منکر ہیں۔ دنیا کی محبت اور دولت و قوت کے نشہ سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے کہ وہ انسان کی آنکھوں کا پردہ بن جاتے ہیں اور وہ بدیہی چیزوں کا انکار کرنے لگتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَ۝ ٧٦ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) ان رئیسوں نے جو کہ منکر تھے غریب لوگوں سے کہا، کیا تم صالح (علیہ السلام) کی رسالت کے قائل ہو، انہوں نے کہا ہم تو بیشک ان کی تصدیق کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ط) (قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ) حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے جو غریب ‘ دبے ہوئے اور کمزور لوگ تھے مگر ایمان لے آئے تھے ‘ ان سے ان کے سردار بڑے متکبرانہ انداز سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ صالح واقعی اپنے رب کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ؟ اس پر وہ لوگ بڑے یقین سے جواب دیتے تھے کہ جو کچھ آپ ( علیہ السلام) کے رب نے آپ ( علیہ السلام) کو دیا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ان سارے احکام کو سچ جانتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:75) استضعفوا۔ وہ ضعیف سمجھے گئے۔ وہ کمزور خیال کئے گئے۔ استضعاف (استفعال) سے ماضی مجہول ۔ جمع مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی طنزا پوچھنے لگے۔2 یعنی نہ صرف ان کے رسول ہونے پر یقین ہے بلکہ ان کے دیئے ہوئے ایک ایک حکم کی صحت پر بھی یقین ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” قَالَ الْمَلأُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُواْ مِن قَوْمِہِ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُواْ لِمَنْ آمَنَ مِنْہُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحاً مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّہِ قَالُواْ إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِہِ مُؤْمِنُونَ (75) ” اس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کمزور طبقہ کے ان لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے ‘ کہا ” کیا واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کا پیغمبر ہے ؟ “ بااثر لوگوں کی طرف سے یہ سوال تہدید اور ڈرانے کے لئے کیا گیا تھا ۔ ان لوگوں نے اس بات کو بہت ہی برا سمجھا کہ یہ غریب لوگ بھی صالح کے جنبہ دار بن گئے ہیں اور یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی تصدیق کر رہے ہیں ؟ ۔ لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ضعیف لوگ جب ایمان لے آتے ہیں تو وہ ضعیف نہیں رہتے ۔ ایمان ان کے دلوں کو قوت اور جرات سے بھر دیتا ہے ۔ ان کے دلوں کے اندر اطمینان اور یقین پیدا ہوجاتا ہے ‘ انہیں اپنے نظریات پر اعتماد ہوتا ہے ‘ لہذا اب دنیاوالوں کی تہدید و تخویف اور ڈراوے دھمکاوے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ نہ مذاق اور استہزاء کان ان پر اثر ہوتا ہے ۔ اب وہم مستکبرین کو خاطر میں نہیں لاتے اور ایمان کا اعلان کردیتے ہیں ۔ اور جواب میں یہ مستکبرین بھی تہدید آمیز لہجے میں یہ بتا دیتے ہیں کہ اچھا ہم تو اس دعوت کا صاف صاف انکار کر رہے ہیں ۔ آیت ” قَالُواْ إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِہِ مُؤْمِنُونَ (75) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِیَ آمَنتُمْ بِہِ کَافِرُونَ (76) ” انہوں نے جواب دیا ” بیشک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں ۔ “ ان بڑائی کے مدعیوں نے کہا ” جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔ “ حالانکہ صالح (علیہ السلام) واضح دلائل لے کر آئے تھے ‘ ان دلائل ومعجزات کے بعد پھر شک کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ اکابرین قوم اس لئے انکار نہ کر رہے تھے کہ انکے سامنے دلائل ومعجزات کی کوئی کمی تھی بلکہ وہ اس لئے منکر تھے کہ وہ ایک ایسے نظام مملکت کو تسلیم نہ کرنا چاہتے تھے جس میں صرف رب العالمین کی اطاعت ہوتی ہو ۔ مسئلہ حاکمیت اور اقتدار اعلی کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دل میں حاکمیت واقتدار کی ایک اعلی اور گہری خواہش پائی جاتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے شیطان انسان پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ چناچہ انہوں نے قولی انکار کے بعد کافرانہ کاروائی کی اور اللہ کی اس ناقہ پر دست درازی کی جو درحقیقت نبی وقت کی تائید کیلئے بطور معجزہ لائی گئی تھی اور جس کے بارے میں نبی وقت نے قبل از وقت ان کو متنبہ کردیا تھا کہ وہ اس رپ دست درازی سے باز رہیں ورنہ وہ ایک دردناک عذاب سے دو چار ہوں گے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت صالح (علیہ السلام) پر جو لوگ ایمان لے آئے تھے وہ زیادہ تر دنیاوی اعتبار سے کمزور تھے۔ (عام طور پر یوں ہی ہوتا رہا ہے کہ حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت پر اولاً وہی لبیک کہتے ہیں جو دنیاوی اعتبار سے نیچے کے طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں) ان کی قوم میں جو بڑے لوگ تھے یعنی دنیاوی اعتبار سے بڑے سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے غریب مسلمانوں سے کہا کیا تمہیں یقین ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں انہوں نے جواب میں کہا۔ (اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ) (کہ بلاشبہ ہم تو اس پر ایمان لائے جو وہ لے کر بھیجے گئے) متکبرین نے کہا کہ ہم تو اس کو نہیں مانتے اور جس پر تم ایمان لے آئے ہم اس کے منکر ہیں۔ یہ تکبر اور دنیا کے چودھراہٹ اور بڑائی ہمیشہ بڑا بننے والوں کا ناس کھو دیتی ہے۔ اور حق کو قبول کرنے سے باز رکھتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:“ لِمَنْ اٰمَنَ ” یہ “ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا ” سے باعادہ جار بدل ہے۔ قوم صالح (علیہ السلام) کے بڑے اور مغرور لوگوں نے ایمان والوں سے جو بظاہر قوت اور دولت کے اعتبار سے کمزور تھے بطور استہزاء و تمسخر کہا کیا تم صالح کو اللہ کا نبی مانتے ہو ؟ اس کے جواب میں انہوں نے پوری جرات سے کہا ” یقیناً ہم حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور جو مسئلہ توحید لے کر وہ آیا ہے ہمارا اس پر بھی ایمان ہے۔ “ بِمَا اُرْسِلَ ” میں “ مَا ” سے مسئلہ توحید مراد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے متکبر اور سرکش رئوسا نے ان کمزور اور غریب لوگوں سے جوان میں سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تعلیم پر ایمان لے آئے تھے دریافت کیا کہ تم جانتے ہو اور کیا تم کو یقین ہے کہ یہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور یہ واقعی خدا کا فرستادہ ہے ان غریب اور کمزور لوگوں نے جواب دیا بیشک ہم ان باتوں پر اور اس حکم پر جو وہ دیکر بھیجا گیا ہے پورا یقین رکھتے ہیں۔