Allah tells;
فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ
...
Then he (Salih) turned from them, and said: "O my people! I have indeed conveyed to you the Message of my Lord, and have given you good advice,
These are the words of admonishment that Salih conveyed to his people after Allah destroyed them for defying Him, rebelling against Him, refusing to accept the truth, avoiding guidance, and preferring misguidance instead. Salih said these words of admonishment and criticism to them after they perished, and they heard him (as a miracle for Prophet Salih from Allah).
Similarly, it is recorded in the Two Sahihs that;
after the Messenger of Allah defeated the disbelievers in the battle of Badr, he remained in that area for three days, and then rode his camel, which was prepared for him during the latter part of the night. He went on until he stood by the well of Badr (where the corpses of the disbelievers were thrown) and said,
يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا
O Abu Jahl bin Hisham! O Utbah bin Rabiah! O Shaybah bin Rabiah! Did you find what your Lord has promised you (of torment) to be true, for I found what my Lord promised me (of victory) to be true.
Umar said to him, "O Allah's Messenger! Why do you speak to a people who have rotted?"
He said,
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لاَا يُجِيبُون
By He in Whose Hand is my soul! You do not hear what I am saying better than they, but they cannot reply.
Similarly, Prophet Salih, peace be upon him, said to his people,
...
لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ
...
"I have indeed conveyed to you the Message of my Lord, and have given you good advice,"
but you did not benefit from it because you do not like the Truth and do not follow those who give you sincere advice,
...
وَلَكِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ
"but you like not good advisers."
صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں
قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابو جہل ، اے عتبہ ، اے شیبہ ، اے فلاں ، اے فلاں ، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی ۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی ۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا ۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی ۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی ۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو ۔ یہی حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی ۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ابھی ابھی گذرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ صحاح ستہ میں نہیں ۔