Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 79

سورة الأعراف

فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾

And he turned away from them and said, "O my people, I had certainly conveyed to you the message of my Lord and advised you, but you do not like advisors."

اس وقت ( صالح علیہ السلام ) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم میں !نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ... Then he (Salih) turned from them, and said: "O my people! I have indeed conveyed to you the Message of my Lord, and have given you good advice, These are the words of admonishment that Salih conveyed to his people after Allah destroyed them for defying Him, rebelling against Him, refusing to accept the truth, avoiding guidance, and preferring misguidance instead. Salih said these words of admonishment and criticism to them after they perished, and they heard him (as a miracle for Prophet Salih from Allah). Similarly, it is recorded in the Two Sahihs that; after the Messenger of Allah defeated the disbelievers in the battle of Badr, he remained in that area for three days, and then rode his camel, which was prepared for him during the latter part of the night. He went on until he stood by the well of Badr (where the corpses of the disbelievers were thrown) and said, يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا O Abu Jahl bin Hisham! O Utbah bin Rabiah! O Shaybah bin Rabiah! Did you find what your Lord has promised you (of torment) to be true, for I found what my Lord promised me (of victory) to be true. Umar said to him, "O Allah's Messenger! Why do you speak to a people who have rotted?" He said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لاَا يُجِيبُون By He in Whose Hand is my soul! You do not hear what I am saying better than they, but they cannot reply. Similarly, Prophet Salih, peace be upon him, said to his people, ... لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ... "I have indeed conveyed to you the Message of my Lord, and have given you good advice," but you did not benefit from it because you do not like the Truth and do not follow those who give you sincere advice, ... وَلَكِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ "but you like not good advisers."

صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابو جہل ، اے عتبہ ، اے شیبہ ، اے فلاں ، اے فلاں ، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی ۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی ۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا ۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی ۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی ۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو ۔ یہی حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی ۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ابھی ابھی گذرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ صحاح ستہ میں نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یہ یا تو ہلاکت سے قبل کا خطاب ہے یا پھر ہلاکت کے بعد اسی طرح کا خطاب ہے، جس طرح رسول اللہ نے جنگ بدر ختم ہونے کے بعد جنگ بدر میں مشرکین کی لاشوں سے خطاب فرمایا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] ہجرت سے پہلے اپنی قوم کو خطاب :۔ حجر جیسے متمدن شہر کے کھنڈرات دیکھنے ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی مگر ان میں سے صرف ایک سو بیس آدمی سیدنا صالح (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اللہ تعالیٰ نے سیدنا صالح (علیہ السلام) کو عذاب کی آمد کے وقت سے مطلع کردیا تھا چناچہ انہوں نے ان پیروکاروں کو لے کر فلسطین کا رخ کیا اور جاتے جاتے اپنی قوم کے لوگوں سے نہایت افسوس سے یہ خطاب کیا کہ میں نے تو تمہیں اللہ کا پیغام بھی پہنچا دیا تھا اور تمہاری خیر خواہی کی بھی انتہائی کوشش کی تھی لیکن تم ان باتوں کا مذاق ہی اڑاتے رہے اب تم جانو تمہارا کام۔ یہ کہہ کر آپ شہر سے باہر نکلے ہی تھے کہ اس قوم پر عذاب نازل ہوگیا فلسطین پہنچ کر آپ اپنے ساتھیوں سمیت رملہ کے قریب آباد ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد اسی مقام پر وفات پائی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : یہ اسی قسم کا خطاب تھا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے مشرک مقتولین سے کیا تھا۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (٤٣) کی تفسیر۔ دوسرے تمام انبیاء کے ذکر میں ” ُرِسٰلٰتِ رَبِّيْ “ جمع کا لفظ ہے اور یہاں ” رِسَالَةَ رَبِّيْ “ واحد ہے۔ بقاعی نے فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ایک ہی معجزہ تھا، یعنی اونٹنی۔ (نظم الدرر) (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَكُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٨٠ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) حضرت صالح (علیہ السلام) ان کی ہلاکت سے پہلے ان کے درمیان سے نکلے (یاہلاک ہونے کے بعد اور بطور حسرت کے) کہا میں نے تمہیں احکام الہی کی تبلیغ کی اور عذاب الہی سے ڈرا کر توبہ ایمان کی طرف بلایا مگر تم تو خیر خواہوں کی پیروی نہیں کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنْ لاَّ تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ ) ۔ اس کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ آپ ( علیہ السلام) عراق کے رہنے والے تھے اور سامی النسل تھے۔ آپ ( علیہ السلام) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رسالت سے سرفراز فرماکر سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ دونوں شہر بحیرۂ مردار (Dead Sea) کے کنارے اس زمانے کے دو بڑے اہم تجارتی مراکز تھے۔ اس زمانے میں جو تجارتی قافلے ایران اور عراق کے راستے مشرق سے مغرب کی طرف جاتے تھے وہ فلسطین اور مصر کو جاتے ہوئے سدوم اور عامورہ کے شہروں سے ہو کر گزرتے تھے۔ اس اہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے ان شہروں میں بڑی خوشحالی تھی۔ مگر ان لوگوں میں مردوں کے آپس میں جنسی اختلاط کی خباثت پیدا ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اس قوم میں سے نہیں تھے۔ سورة العنکبوت (آیت ٢٦) میں ہمیں آپ ( علیہ السلام) کی ہجرت کا ذکر ملتا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) ان شہروں کی طرف مبعوث ہو کر عراق سے آئے تھے۔ یہاں پر یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے ‘ جبکہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہم عصر تھے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کے زمانے کے تین رسولوں کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چھوڑ کر حضرت لوط ( علیہ السلام) کا ذکر شروع کردیا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک خاص اسلوب سے انباء الرّسل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ یعنی ان رسولوں کا تذکرہ جو اللہ کی عدالت بن کر قوموں کی طرف آئے اور ان کے انکار کے بعد وہ قومیں تباہ کردی گئیں۔ چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ضمن میں اس نوعیت کی کوئی تفصیل صراحت کے ساتھ قرآن میں نہیں ملتی اس لیے آپ ( علیہ السلام) کا ذکر قصص النبیین کے ذیل میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کا تذکرہ سورة الاعراف کے بجائے سورة الانعام میں کیا گیا ہے اور وہاں یہ تذکرہ قصص النبیین ہی کے انداز میں ہوا ہے ‘ جبکہ سورة الاعراف میں تمام انباء الرّسل کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔ انباء الرسل اور قصص النبیین کی تقسیم کے اندر یہ ایک منطقی ربط ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:80) ولوطا۔ ای وارسلنا لوطا۔ اتاتون الفاحشۃ۔ کیا تم ایسی بےحیائی کا کام کرتے ہو۔ ملاحظہ ہو 7:28 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی عذاب آیا یا عذاب آنے کا وقت ہوا۔ حضرت صالح کی قوم پر دو طرح کا عذاب آیا یعنی اوپر سے صحیحتہ (چیخ) اور نیچے سے رجفتہ یعنی زلزہ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِیْنَ (79) ” اور صالح یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ” اے میری قوم ‘ میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیرخواہی کی مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ۔ “ یہ شہادت دے دی گئی کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے پیغام پوری طرح پہنچا دیا تھا اور سرکشی اور نافرمانی کرکے انہوں نے خود اپنے آپ کو ان انجام کا مستحق بنایا تھا ۔ یہاں مکذبین کی تاریخ کا ایک دوسرا صفحہ لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ اور کسی ڈرانے والے کی توہین وتکذیب کرنے والے برے انجام کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اب تاریخ کی گاڑی آگے بڑھتی ہے اور ہم عہد ابراہیم (علیہ السلام) میں پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں حضرت ابراہیم کا قصہ بیان نہیں کیا جاتا کیونکہ یہاں ان سرکش نافرمانوں کا ذکر مطلوب ہے جنہیں ہلاک کردیا گیا ۔ یہ اس آیت اور موضوع کی تفصیل ہے جسے آغاز سورت میں لایا گیا تھا ۔ آیت ” وکم من قریۃ اھلکنھا “۔ ”’ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا “۔ یہ قصص گویا اس موضوع کی تفصیلات کے طور پر آ رہے ہیں جبکہ قوم ابراہیم کو ہلاک نہ کیا گیا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے ان کی ہلاکت کے لئے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔ اس لئے یہاں قصہ لوط کو لایا جاتا ہے ۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور آپ کے معاصر تھے ۔ اس قصے میں ڈراوا ہے ‘ اور لوگوں کی طرف سے تکذیب ہے اور انجام میں قوم کی ہلاکت ہے اور یہ اس سلسلہ قصص اور موضوع سے مناسبت رکھتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85: جب قوم ہلاک ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نہایت حسرت و یاس کے ساتھ اپنی قوم سے یوں فرماتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اے میری قوم ! میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم کو پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کردیا مگر افسوس کہ تم خیر خواہی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں حرف نداء اور ضمائر خطاب سے تباہ و برباد شدہ قوم سے خطاب کرنا اور ان کو سنانا مقصود نہیں بلکہ یہ نداء و خطاب محض قوم کی بد قسمتی پر اظہارِ افسوس اور تحسر کے لیے ہے۔ فتولیٰ عنھم بعد ان جریٰ علیھم ما جریٰ علی ما ھو الظاھر مغتماً متحسراً علی ما فاتھم من الایمان متحزناً علیھم (روح ج 8 ص 165) اس سے معلوم ہوا کہ حروف نداء اور ضمائر خطاب سے ہمیشہ کسی کو مخاطب کرنا اور اسے کچھ سنانا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لیے التحیات میں السلام علیکم ایھا النبی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاظر وناظر ہونے پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ وہ محض دعاء ہے اس سے خطاب کرنا اور سنان مقصود ہی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 اس وقت حضرت صالح (علیہ السلام) یہ فرماتے ہوئے تشریف لے گئے اور حسرت کے ساتھ کہتے ہوئے لوٹے کہ اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے ہر طرح تمہاری خیر خواہی کی لیکن اس کا کیا علاج کہ تم خیر خواہی کرنے والوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔