Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 8

سورة الأعراف

وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۸﴾

And the weighing [of deeds] that Day will be the truth. So those whose scales are heavy - it is they who will be the successful.

اور اس روز وزن بھی برحق ہےپھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Meaning of weighing the Deeds Allah said, وَالْوَزْنُ يَوْمَيِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَـيِكَ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُواْ بِأيَاتِنَا يِظْلِمُونَ

میزان اور اعمال کا دین قیامت کے دن نیکی بدی انصاف و عدل کے ساتھ تولی جانے کی ، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ونضع الموازین القسط لیوم القیامتہ ) الخ ، قیامت کے دن ہم عدل کی ترازو رکھیں گے ، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا ، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ سورۃ قارعہ میں فرمایا جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا ( ہاویہ ) ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے اور آیت میں ہے ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ101 ) 23- المؤمنون ) یعنی نفحہ پھونک دیا جائے گا سارے رشتے ناتے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے ، کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا ۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پالی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تو لے جائیں گے کوئی کہتا ہے نامہ اعمال تو لے جائیں گے ۔ کوئی کہتا ہے خود عمل کرنے والے تو لے جائیں گے ۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی عمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے واللہ اعلم ۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا ۔ حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنا دور تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر ( لا الہ الا اللہ ) ہو گا ۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ، اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے ( ترمذی ) تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا 105 ) 18- الكهف ) ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ: اوپر کی آیت میں سوال اور حساب کا ذکر ہے، اس آیت میں وزن اعمال کا، یعنی ہر ایک کے نیک و بد اعمال کا وزن ہوگا۔ یہاں اس اشکال کی بنا پر کہ ان اعمال کا تو اس وقت وجود ہی ختم ہوچکا ہوگا، بعض عقل پرستوں نے وزن اعمال ہی سے انکار کردیا، مگر اللہ تعالیٰ کی بات کیسے غلط ہوسکتی ہے۔ امام بخاری (رض) نے اپنی صحیح بخاری کو ختم ہی اس بات کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ ثابت کرنے سے کیا ہے۔ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٤٧) یہ وزن کیسے ہوگا، کچھ اہل علم نے کہا کہ وہ کاغذ تولے جائیں گے جن میں عمل لکھے ہوں گے۔ بعض نے کہا کہ ان اعمال کو جسم دے کر وہ جسم تولے جائیں گے۔ بعض نے کہا کہ اس عمل والے کو تولا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” تینوں صورتیں ممکن ہیں اور آیات و احادیث میں ہر ایک کی تائید ملتی ہے۔ “ چوتھی صورت یہ ہے کہ خود عمل تو لے جائیں گے، کیونکہ ان کا وجود ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ( وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ ) [ الکہف : ٤٩ ] ” اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیں گے۔ “ اور فرمایا : ( وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ) [ الأنبیاء : ٤٧ ] ” اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے۔ “ اور سورة لقمان (١٦) میں بھی یہی بات فرمائی سورة زلزال میں فرمایا : (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ , وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ) [ الزلزال : ٧، ٨ ] اور جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ “ سورة آل عمران (٣٠) میں بھی یہ بات موجود ہے۔ اور یہی چوتھی صورت راجح ہے۔ اب تو جدید سائنس نے دنیا ہی میں یہ مسئلہ حل کردیا ہے، ہوا میں تحلیل ہوجانے والی آوازوں اور اعمال کا سارا نقشہ اور ختم ہونے والی چیزوں کا وزن سب کچھ انسان کے ہاتھوں ظاہر ہو رہا ہے۔ [ وللہ المثل الاعلی ] مگر ماننے کا لطف اس وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات عقل میں آئے یا نہ آئے اسے من و عن تسلیم کیا جائے اور اسی کا نام اسلام ہے، سائنس سے ثابت ہونے کے بعد کسی نے مانا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو کیا مانا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the first verse, it was said: وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ` (And the Weighing on that day is definite). It means that the weighing of good and bad deeds on the day of Judgment is due and true. There is no room for doubt in it. Here, the hint given is that let no one be deceived by the idea that things which usually get to be weighed or measured are things having some weight or heaviness. Human deeds, good or bad, have no body or mass which could be weighed. How, then, would deeds be weighed? First of all, the reason is that the authority of Allah is absolute. He is powerful over everything. Why then, would it be necessary that something we cannot weigh could not be weighed by Allah Almighty as well? Then, other than that, we have before us, in our time, countless new instruments which claim to weigh or measure anything in the world. They no more need the traditional balance or scales or rod or tip. Modern instruments can weigh what nobody ever thought could be weighed, air, electric current, heat, cold, and so many other things. A meter is all you need. Now, if Allah Almighty, the Maker of makers, in His perfect power, could weigh or measure human deeds - with or without a device - what is there in it which would make it to be something far out to believe? Leaving this aside for a moment, the Creator of the Universe does have the power to transform our deeds at some time into a material presence, even give it some shape or form (interesting that people would believe something like this happening in a Speilberg movie, yet squirm at the religious view of things as would come to pass). There are many Ahadith from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ` which confirm that human deeds will appear in particular shapes and forms during Barzakh (the post-death - pre-resurrection state) and Mahshar (Resurrection). Good deeds of a person will, in forms beautified, become the companions of the grave - and evil deeds would crawl all over in the form of snakes and scorpions. A Hadith says that a person who has not paid the Zakah due against his wealth, that wealth will reach his grave in the shape of a poisonous snake to bite him and say: I am your wealth, I am your treasure. It is said in a Sahih Hadith that Al-Baqarah and &Al-` Imran, the two Surahs of the Holy Qur&an will come on the plains of Resurrection in the form of two dense clouds and cast their shade over those who used to recite these Surahs. Similarly, there are countless narrations from Hadith, all authentic and reported reliably, which indicate that once these good and bad deeds of ours pass away from this mortal world, they will transform into particular shapes and forms and be there on the plains of Resur¬rection in a material presence. There are even verses of the Qur&an which confirm it. It is said: وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرً‌ا ، that is, ` what people had done in the world, they would find that present there - 18:49.& In a verse of Surah Az-Zalzalah, it is said: مَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ا يَرَ‌هُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ that is, ` whoever does good even the weight of a particle shall see it on the day of Qiyamah, and whoever does evil even the weight of a particle shall see that too in Qiyamah.& Things as described here obviously lend to the possibility that human deeds will come in some nuclear form of existence. This is something which needs no further interpretations as what is crucial is the compensation of deeds which will exist and be perceptible. Under these circumstances, weighing deeds does not remain something difficult or far out. But, human beings are what they are. Given their limited framework of reasoning, they take everything on the analogy of their own present state of being and this is the criterion they have to judge things around them. So used to it they are that they just cannot act otherwise. It is this state of being of theirs which the Qur&an has put in words which appear in Surah Ar-Rum: يَعْلَمُونَ ظَاهِرً‌ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ‌ةِ هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾. It means that ` these people know an obvious aspect of mortal life (and that too, not the whole of it) and about the Hereafter they are totally heedless - 30:7.& In their onslaught on the ob¬vious and the perceptible, they will shake the earth and the space to find out the unfound, but the great field of the reality of things the unfolding of which has to take place in the &Akhirah is something they are totally unaware of Therefore, in this verse, special care has been taken while saying: وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ (And the Weighing on that day is definite) so that man, all infatuated with the obvious, may not be able to deny the weighing of deeds in the Hereafter - which stands proved from the Holy Qur&an and is the collective belief of the Muslim Ummah. That there will be the weighing of deeds on the day of Qiyamah is a subject dealt with in many verses of the Holy Qur&an from various an¬gles, and in Hadith, its details abound. The Weighing of Deeds: A Doubt and its Answer Out of the details on the weighing of deeds appearing in the Aha¬dith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the first to ponder about is the oft-narrated statement that, on the day of Resurrection, the heaviest in weight shall be the Kalimah: لا إلہ إلا اللہ محمد الرسول اللہ (There is no god but Allah, Muhammad is the Messenger of Allah). The scale-pan which holds this Kalimah shall outweigh the rest. Tirmidhi, Ibn Majah, Ibn Hibban, Baihaqi and Hakim have reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: A man of my Ummah will be brought before the entire creation on the plain of Resurrection. Then, ninety nine of his Books of Deeds will be brought in. Each scroll of his Book of Deeds will be as long as far he could see - and all these Books of Deeds shall be full of sins and evils. This person will be asked if everything written in these Books of Deeds was correct, or had the angels done any injustice to him, or had they written anything there which was not as it hap-pened. He will admit: 0 my Lord, whatever is written there is correct. But, in his heart, he will be nervous while worrying about how would he find his deliverance from this situation. That will be the time Allah Ta` ala will say: Today, there is no injustice for anyone. Against all your sins, We have a testimonial of your being good, with Us, written where, is your Kalimah: لا إلہ إلا اللہ محمد الرسول اللہ (I testify that there is no god but Allah and I testify that Muhammad is His ser¬vant and His Messenger). That person will say: 0 my Lord, what weight this little note will carry against such a big black Book of Deeds? Then, it would be said: No injustice will be done to you. Then, all those Books of Deeds full of sins will be placed in one scale-pan and in the other, this note with the Kalimah of &Iman on it. The scale-pan with the Kalimah on it shall weigh heavier and the scale-pan with all those sins on it shall turn to be lighter. After having related this event, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Nothing can weigh more than the name of Allah. (Mazhari) According to a narration from Sayyidna Ibn ` Umar (رض) in Musnad al-Bazzar and Mustadrak Hakim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: At the time of his death, Nuh (علیہ السلام) (La¬ ila-ha illallah) لا إلہ إلا اللہ because, should the heavens and the earth be placed in one pan of the scale and the Kalimah: لا إلہ إلا اللہ La Ilaha Illallah in the other, the pan containing the Kalimah shall invariably remain heavier. Oth¬er narrations on the same subject have been reported from Sayyidna Abu Said al-Khudri, Sayyidna Ibn ` Abbas and Sayyidna Abu-ad-Darda& (رض) supported by reliable transmitting authorities and are spread over in various Hadith collections. (Mazhari) According to these narrations, a believing Muslim who recites the Kalimah shall always find the scale heavier in his favour, no matter how many sins he carries on him. But, many other verses of the Qur&an and narrations of Ahadith prove that the good and bad deeds of a Muslim shall be weighed. For some, the scale-pan with good deeds will be heavier, for some others, that of sins. The one whose scale-pan with good deeds is heavier will have his salvation while the one whose scale-pan with sins and evils is heavier will have his punishment. For example, in Surah Al-Anbiya& it is said: وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾ And We shall set up Scales of Justice on the day of Judgment. Then, not the least injustice will be done to anyone. And if there be (good or bad) the weight of a mustard seed, We shall bring it (to account on the scale for deeds) and We are sufficient to take account - 21:47. And in Surah Al-Qari` ah, it is said: فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴿٦﴾ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّ‌اضِيَةٍ ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ﴿٨﴾ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ Whoever has his scale of good deeds heavy will be in life bliss¬ful and whoever has his scale of good deeds lighter, his place will be Hell -101:6-9. Explaining these verses, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) ، said: The believer whose good deeds on the scale are heavier will go to Jannah with his deeds - and the one whose evil deeds on the scale are heavier will be sent to Jahannam with his deeds. (Reported by Al-Baihaqi in Shu&ab al-&Iman - Mahari) Based on a narration from Sayyidna Abu Hurairah (رض) it has been reported in Abu Dawud: If a shortage is found in the Fara&id of a servant, Allah Ta` ala will ask if that servant has some Nawafil to his credit. If they are there, the shortage of the obligatory will be compensated by the voluntary. (Mazhari) The outcome of all these verses and Hadith narrations is that the scale will sometimes be heavier in favour of a believer and lighter at some others. Therefore, scholars of Tafsir say that this shows that weighing in Mahshar (Resurrection) will be twice. First to be weighed will be belief and disbelief through which distinction will be made be¬tween a believer and a disbeliever. In this weighing whoever has even just the declaration of faith (Kalimah) in the Book of Deeds, his or her scale will become heavier and he or she will be separated from the group of disbelievers. Then, there will be a second weighing of good and bad deeds. In this, the good deeds of one believer will be heavy on the scale while the other will find the scale heavy with evil deeds - and everyone will have his or her punishment or reward in accordance with that. Thus, the subject as dealt with in all these verses and nar¬rations of Hadith becomes synchronized. (Bayan a1-Qur&an) How Would Deeds Be Weighed? According to a Hadith narrated by Sayyidna Abu Hurairah رضی اللہ تعالیٰ عنہ which appears in Al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: On the day of Qiyamah, there will come some heavy people whose weight, in the sight of Allah, will not be worth the weight of even a mosquito - and, in support, he recited the verse of the Qur&an: نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا that is, on the day of Qiyamah, We will not give them any weight - 18:105 (Mazhari). And featuring the virtues (manaqib) of Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) there is a Hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: His legs look so thin but, by Him in whose hands lies my life, on the balance of justice for the day of Qiyamah, their weight shall be more than the weight of the mountain of Uhud. Then, there is the Hadith of Sayyidna Abu Hurairah (رض) with which Imam al-Bukhari has concluded his book, the Sahih. In it, it is said that there are two words very light when said but very heavy when weighed on the Scale of Deeds, and with Allah, they are dear, and they are: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہِ (Subbanallahi wa bi-hamdihi : Pure is Allah and Praised is He سُبحَانَ اللہِ اَلعَطِیم Subhanallahil-Azim : Pure is Allah the Great). As narrated by Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) عنہما the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم used to say that saying: سُبحَانَ اللہِ (Subhan Allah) fills half of the pan on the scale of deeds while saying: اَلحَمدُ للہ ، (Alhamdulillah) fills the other half. Abu Dawud, Tirmidhi and Ibn Hibban report with sound authority from Sayyidna Abu۔ ا d Darda& (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: No deed will be heavier than good morals on the scale of deeds. And to Sayyidna Abu Dharr al-Ghifari (رض) the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: I tell you about two things doing which is not hard for anyone - but, on the scale of deeds, they shall be the heaviest -(1) good morals, and (2) usually observing silence, that is, not talking un¬less necessary. In his Kitab al-Zuhd, Imam Ahmad (رح) has reported from Sayyidna Hazim (رض) ، that angel, Jibra&il al-Amin (علیہ السلام) came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) while someone there was weeping in fear of Allah. Angel Jibra&il (علیہ السلام) said: All human deeds will be weighed, but human tears flow¬ing from the fear of Allah and &Akhirah is a deed which would not be weighed. Rather, one such tear would put off the wildest fire of Jahan¬nam. (Mazhari) A Hadith says about a person present on the plain of Resurrection. When he will look at his Book of Deeds, he will notice very few good deeds there. He will be nervous. All of a sudden, something will rise like a cloud and fall right into the scale-pan of his good deeds. He will be told that this was in return for his teaching of the faith which multiplied onwards when people acted in accordance with it, and there was a share kept aside for him with each single follower of his teaching. (Mazhari, from Sayyidna Ibn al-Mubarak) Tabarani reports from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: A person who goes to the graveyard with the Janazah, two karats will be placed on his scale of deeds. Other narrations say that the weight of this karat will be equal to the mountain of Uhud. He has also reported from Sayyidna Jabir (رض) that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: One&s first deed to be placed on the scale of deeds will be the good deed of spending on one&s family and taking care of their needs. Imam al-Dhahabi has reported from Sayyidna ` Imran ibn Husayn (رح) ، that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: On the day of Qiya¬mah, when the ink used by the ` Ulama to write about the religion and its rules will be weighed against the blood of shuhada& (martyrs), the weight of the ink used by ` Ulama will turn out to be more than the weight of the blood of martyrs. There are many more Ahadith relating to the weighing of deeds as in Qiya.mah. Some of them have been mentioned here as they shed light on the merit and worth of particular deeds. The mode of weighing deeds as mentioned in these narrations of Hadith seems to be different. Some indicate that the doers of deeds will be the ones weighed and it will be they who would be heavy or light according to their deeds. Some others show that their Books of Deeds will be weighed. Still others prove that deeds themselves would become personified and they will be measured. Tafsir authority, Ibn Kathir, after having reported all these narrations, has said that it is possible that the weighing is repeated several times in different ways and, it is obvious, the full reality of these matters is known to Allah Ta` ala alone - and for doing what one does in real life, it is, for all prac¬tical purposes, not necessary to know this reality. Quite sufficient for us is to know that our deeds shall be weighed. If our deeds turn out to be lighter on the scale of deeds, we shall deserve punishment. Then, it is an entirely different matter that Allah Ta` ala, in His grace, by Him-self, or by the intercession of a Nabiyy or Waliyy, forgives us our sins and we stand delivered from punishment. As for the likelihood that some people will have their salvation on the sole virtue of their having said and believed in the Kalimah of &Iman (La Ilaha Illallah) and all sins accruing to them will be forgiven because of that - as narrated in some of these narrations - that belongs to the exception mentioned above and which is beyond the general reg¬ulation and is a special manifestation of the grace and mercy of Allah Ta` ala. In the two verses the Tafsir of which you have just read through, sinners were warned against the disgrace on the plain of Resurrection and the Divine punishment that would come in its wake. Then comes the third verse which mentions the blessings of Allah Ta` ala and persuades people to accept truth and act accordingly by suggesting that Allah has bestowed on them full ownership and control on the earth and has opened thousands of avenues of comfort for them. It is as if the Master of the Universe has made this whole earth and what it con¬tains a giant warehouse of human needs and comforts, a most compre-hensive inventory of that inside it. Now, what is left for human beings to do is to learn to go in there, take out what they need and use it how they will. Science and technology are essentially no more than a trained method of taking out things created by the Master of the Uni¬verse and stored in this warehouse, properly and nicely, and use it soundly and beneficially. One who is short on sense and manners and does not know how to take things out from this warehouse, or does not understand how to use what he has taken out, he remains deprived of their benefits. An intelligent person benefits from both. In short, Allah Ta` ala has placed all that human beings need on and in this earth which demands that they should be grateful to Him all the time under all conditions. But, human beings are prone to heedlessness. They would not take much time to forget the favours of their Creator and Master - only to return to the same world of things. So, at the end of the verse, it is in a mode of complaint that it was said: قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ (Little you are receptive to advice).

خلاصہ تفسیر اور اس روز (یعنی قیامت کے دن اعمال و عقائد کا) وزن واقع ہونے والا ہے (تاکہ عام طور پر ہر ایک کی حالت ظاہر ہوجائے) پھر (وزن کے بعد) جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی وہ مومن ہوگا) سو ایسے لوگ (تو) کامیاب ہوں گے (یعنی نجات پائیں گے) اور جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی وہ کافر ہوگا) تو یہ لوگ وہ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کی حق تلفی کیا کرتے تھے، اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی، اور ہم نے تمہارے لئے اس (زمین) میں سامان زندگی پیدا کیا (جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ تم اس کے شکریہ میں فرمانبردار و اطاعت شعار ہوتے، لیکن) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو (مراد اس سے اطاعت ہے اور کم اس لئے فرمایا کہ تھوڑا بہت نیک کام تو اکثر لوگ کر ہی لیتے ہیں، لیکن بوجہ ایمان نے ہونے کے وہ قابل اعتبار نہیں) ۔ معارف و مسائل پہلی آیت میں ارشاد ہے والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ یعنی بھلے برے اعمال کا وزن ہونا اس دن حق و صحیح ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ وزن اور تول تو ان چیزوں کا ہوا کرتا ہے جن میں کوئی بوجھ اور ثقل ہو۔ انسان کے اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ان کا کوئی جسم اور جزم ہی نہیں، جس کا تول ہو سکے، پھر اعمال کا وزن کیسے ہوگا، کیونکہ اول تو مالک الملک قادر مطلق ہر چیز پر قادر ہے، یہ کیا ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم نہ تول سکیں حق تعالیٰ بھی نہ تول سکیں، اس کے علاوہ آج کل تو دنیا میں وزن تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد ہوچکے ہیں، جن میں نہ ترازو کی ضرورت ہے، نہ اس کے پلوں کی اور نہ ڈندی کی اور کانٹے کی، آج تو ان نئے آلات کے ذریعہ وہ چیزیں بھی تولی جاتی ہیں جن کے تولنے کا آج سے پہلے کسی کو تصور بھی نہ تھا، ہوا تولی جاتی ہے، برقی رو تولی جاتی ہے، سردی گرمی تولی جاتی ہے، انکا میٹر ہی ان کی ترازو ہوتا ہے، اگر حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انسانی اعمال کا وزن کرلیں تو اس میں کیا استبعاد ہے، اس کے علاوہ خالق کائنات کو اس پر بھی قدرت ہے کہ ہمارے اعمال کو کسی وقت جوہری وجود اور کوئی شکل و صورت عطا فرمادیں، حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت سی روایات اس پر شاہد بھی ہیں کہ برزخ اور محشر میں انسانی اعمال خاص خاص شکلوں اور صورتوں میں آئیں گے، قبر میں انسان کے اعمال صالحہ ایک حسین صورت میں اس کے مونس بنیں گے، اور برے اعمال سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے، حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مال کی زکوٰة نہیں ادا کی وہ مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی قبر میں پہنچ کر اس کو ڈسے گا، اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ اسی طرح معتبر احادیث میں ہے کہ میدان حشر میں انسان کے اعمال صالحہ اس کی سواری بن جائیں گے، اور برے اعمال بوجھ بن کر اس کے سر پر لادے جائیں گے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کی سورة بقرہ اور سورة آل عمران میدان حشر میں دو گہرے بادلوں کی شکل میں آکر ان لوگوں پر سایہ کریں گی جو اس سورتوں کے پڑھنے والے تھے۔ اسی طرح کی بیشمار روایات حدیث مستند اور معتبر طریقوں سے منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان سے گزر جانے کے بعد ہمارے یہ سارے اعمال نیک و بد خاص خاص شکلیں اور صورتیں اختیار کرلیں گے، اور ایک جوہری وجود کے ساتھ میدان حشر میں موجود ہوں گے۔ قرآن مجید کے بھی بہت سے ارشادات سے اس کی تائید ہوتی ہے، ارشاد ہے : (آیت) ووجدوا ما عملوا حاضرا، ” یعنی لوگوں نے دنیا میں جو کچھ عمل کیا تھا اس کو وہاں حاضر و موجود پائینگے “۔ ایک آیت میں فرمایا (آیت) من یعمل مثقال ذرة خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ ” یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کرے گا تو قیامت میں اس کو دیکھے گا، اور ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو قیامت میں اس کو بھی دیکھے گا “۔ ظاہر ان حالات سے یہی ہے کہ انسان کا عمل جوہری وجود کے ساتھ اس کے سامنے آئے گا، ان میں بھی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ اعمال کی جزاء کو موجود پائے گا اور دیکھے گا۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ان اعمال کا تولا جانا کوئی بعید یا مشکل امر نہیں رہتا، مگر چونکہ تھوڑی سی عقل و فہم کا مالک انسان اس کا عادی ہے کہ سارے امور کو اپنی موجودہ حالت اور کیفیت ظاہری پر قیاس کرتا ہے، اور سب چیزوں کو اسی کے پیمانہ سے جانچتا ہے، قرآن کریم نے اس کے اسی حال کو اس طرح بیان فرمایا ہے، (آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا وھم عن الاخرۃ ھم غفلون ” یعنی یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ایک ظاہری پہلو کو جانتے ہیں وہ بھی پورا نہیں، اور آخرت سے بالکل غافل ہیں، ظاہر حیات دنیا میں تو زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، مگر حقائق اشیاء سے جن کا صحیح انکشاف آخرت میں ہونے والا ہے یہ لوگ بالکل بیخبر ہیں۔ آیت مذکورہ میں اسی لئے اہتمام کرکے یہ فرمایا گیا والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ، تاکہ یہ ظاہر میں انسان آخرت میں وزن اعمال سے انکار نہ کر بیٹھے، جو قرآن کریم سے ثابت اور پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ قرآن مجید میں بروز قیامت وزن اعمال ہونے کا مسئلہ بہت سی آیات میں مختلف عنوانوں سے آیا ہے اور روایات حدیث اس کی تفصیلات میں بیشمار ہیں۔ وزن اعمال کے متعلق ایک شبہ اور جواب وزن اعمال کے متعلق جو تفصیلی بیان رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں آیا ہے اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ متعدد روایات حدیث میں آیا ہے کہ محشر کی میزان عدل میں سب سے بڑا وزنی کلمہ لَا الہٰ الاَّ اللہ ُ مُحَمَّد رَسُول اللہ کا ہوگا، جس پلے میں یہ کلمہ ہوگا وہ سب سے بھاری رہے گا۔ ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر میں میری امت کا یک آدمی ساری مخلوق کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے نامہ اعمال لائے جاویں گے، اور ان میں سے ہر نامہ اعمال اتنا طویل ہوگا کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے، اور یہ سب نامہ اعمال برائیوں اور گناہوں سے لبریز ہوں گے، اس شخص سے پوچھا جائے گا کہ ان نامہائے اعمال میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح ہے یا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تم پر کچھ ظلم کیا ہے اور خلاف واقعہ کوئی بات لکھ دی ہے ؟ وہ اقرار کرے گا کہ اے میرے پروردگار ! جو کچھ لکھا ہے سب صحیح ہے، اور دل میں گھبرائے گا کہ اب میری نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس وقت حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا، ان تمام گناہوں کے مقابلہ میں تمہاری ایک نیکی کا پرچہ بھی ہمارے پاس موجود ہے، جس میں تمہارا کلمہ اَشُہَدُ اَن لَّآ اِلٰہ الاَّ اللہ وَاَشہد اَنَّ مُحَمدُّ اَعَبدُہ وَرَسُولُہ لکھا ہوا ہے وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار ! اتنے بڑے سیاہ نامہ اعمال کے مقابلہ میں یہ چھوٹا سا پرچہ کیا وزن رکھے گا، اس وقت ارشاد ہوگا کہ تم پر ظلم نہیں ہوگا، اور ایک پلّہ میں وہ سب گناہوں سے بھرے ہوئے نامہ اعمال رکھے جائیں گے، دوسرے میں یہ کلمہ ایمان کا پرچہ رکھا جائے گا تو اس کلمہ کا پلّہ بھاری ہوجائے گا اور سارے گناہوں کا پلّہ ہلکا ہوجائے گا، اس واقعہ کو بیان کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوسکتی (مظہری) اور مسند، بزار اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی وفات کا وقت آیا تو اپنے لڑکوں کو جمع کرکے فرمایا کہ میں تمہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور زمین ایک پلّہ میں اور کلمہ لا الہ الا اللہ دوسرے پلّہ میں رکھ دیا جائے تو کلمہ کا پلّہ بھاری رہے گا، اسی مضمون کی روایات حدیث حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابو الدرداء (رض) سے معتبر سندوں کے ساتھ کتب حدیث میں منقول ہیں (مظہری) ۔ ان روایات کا مقتضا تو یہ ہے کہ مومن کا پلّہ ہمیشہ بھاری ہی رہے گا، خواہ وہ کتنے بھی گناہ کرے، لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی حسنات اور سیّئات کو تولا جائے گا کسی کی حسنات کا پلّہ بھاری ہوگا، کسی کے گناہوں کا، جس کی حسنات کا پلّہ بھاری رہے گا وہ نجات پائے گا، جس کی سیئات اور گناہوں کا پلّہ بھاری ہوگا اس کو عذاب ہوگا۔ مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت میں سے : (آیت) ونضع الموازین القسط لیوم تا حٰسبین۔ ” یعنی ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کرینگے اس لئے کسی شخص پر ادنیٰ ظلم نہیں ہوگا جو بھلائی یا برائی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی نے کی ہے وہ سب میزان عمل میں رکھی جائے گی، اور ہم حساب کے لئے کافی ہیں “۔ اور سورة قارعہ میں ہے : فاما من ثقلت موازینہ تا ھاویہ۔ ” یعنی جس کا نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا وہ عمدہ عیش میں رہے گا، اور جس کا پلّہ نیکی کا ہلکا ہوگا اس کا مقام دوزخ ہو گا “۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ جس مومن کا پلّہ حسنات کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جنت میں اور جس کا پلّہ گناہوں کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جہنم میں بھیج دیا جائے گا (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مظہری) ۔ اور ابوداؤد میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ اگر کسی بندہ کے فرائض میں کوئی کمی پائی جائے گی تو رب العالمین کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندہ کے کچھ نوافل بھی ہیں یا نہیں، اگر نوافل موجود ہیں تو فرضوں کی کمی کو نفلوں سے پورا کردیا جائے گا۔ (مظہری) ان تمام آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ مومن مسلمان کا پلّہ بھی کبھی بھاری کبھی ہلکا ہوگا، اس لئے بعض علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں وزن دو مرتبہ ہوگا، اول کفر و ایمان کا وزن ہوگا، جس کے ذریعہ مؤ من، کافر کا امتیاز کیا جائے گا۔ اس وزن میں جس کے نامہ اعمال میں صرف کلمہ ایمان بھی ہے اس کا پلّہ بھاری ہوجائے گا، اور وہ کافروں کے گروہ سے الگ کردیا جائے گا، اور اسی کے مطابق اس کو جزاء و سزاء ملے گی، اس طرح تمام آیات اور روایات کا مضمون اپنی اپنی جگہ درست اور مربوط ہوجاتا ہے (بیان القرآن) وزن اعمال کس طرح ہوگا بخاری و مسلم میں بروایت ابوہریرہ (رض) یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض موٹے فربہ آدمی آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا، اور اس کی شہادت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی، فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا، ” یعنی قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قرار نہ دیں گے “ (مظہری) ۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب میں یہ حدیث آئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کی ٹانگیں ظاہر میں کتنی پتلی ہیں لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قیامت کی میزان عدل میں ان کا وزن احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوگا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ حدیث جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں مگر میزان عمل میں بہت بھاری ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہیں، اور وہ کلمے یہ ہیں : سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ کہنے سے میزان عمل کا آدھا پلّہ بھر جاتا ہے، اور الحمد للہ سے باقی آدھا پورا ہوجاتا ہے۔ اور ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو الدرداء (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میزان عمل میں حسن خلق کے برابر کوئی عمل وزنی نہیں ہوگا۔ اور حضرت ابوذر غفاری (رض) سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہیں ایسے دو کام بتاتا ہوں جن پر عمل کرنا انسان کے لئے کچھ بھاری نہیں، اور میزان عمل میں وہ سب سے زیادہ بھاری ہوں گے، ایک حسن خلق، دوسرے زیادہ خاموش رہنا، یعنی بلا ضرورت کلام نہ کرنا۔ اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے کتاب الزہد میں بروایت حضرت حازم (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل امین تشریف لائے تو وہاں کوئی شخص خوف خدا تعالیٰ سے رو رہا تھا، تو جبرئیل نے فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال کا تو وزن ہوگا مگر خدا و آخرت کے خوف سے رونا ایسا عمل ہے جس کو تولا نہ جائے گا، بلکہ ایک آنسو بھی جہنم کی بڑی سے بڑی آگ کو بجھا دے گا (مظہری) ۔ ایک حدیث میں ہے کہ میدان حشر میں ایک شخص حاضر ہوگا، جب اس کا نامہ اعمال سامنے آئے گا تو وہ نیک اعمال کو بہت کم پاکر گھبرائے گا کہ اچانک ایک چیز بادل کی طرح اٹھ کر آئے گی اور اس کے نیک اعمال کے پلّے میں گر جائے گی، اور اس کو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرے اس عمل کا ثمرہ ہے جو تو دنیا میں لوگوں کو دین کے احکام و مسائل بتلاتا یا سکھاتا تھا، اور یہ تیری تعلیم کا سلسلہ آگے چلا تو جس جس شخص نے اس پر عمل کیا ان سب کے عمل میں تیرا حصہ بھی لگایا گیا (مظہری عن ابن المبارک) ۔ طبرانی نے بروایت جابر (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان کی میزان عمل میں سب سے پہلے جو عمل رکھا جائے گا وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا نیک عمل ہے۔ اور امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی روشنائی جس سے انہوں نے علم دین اور احکام دین لکھے ہیں اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ اس طرح کی روایات حدیث قیامت کے وزن اعمال کے سلسلہ میں بہت ہیں، یہاں چند کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ان سے خاص خاص اعمال کی فضیلت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان تمام روایات حدیث سے وزن اعمال کی کیفیت مختلف معلوم ہوتی ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کرنے والے انسان تولے جائیں گے، وہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے ہلکے بھاری ہوں گے، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے، اور بعض سے ثابت ہوتا ہے کہ خود اعمال مجسّم ہوجائیں گے وہ تولے جائیں گے، امام تفسیر ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے یہ سب روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزن مختلف صورتوں سے کئی مرتبہ کیا جائے، اور ظاہر ہے کہ پوری حقیقت ان معاملات کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور عمل کرنے کے لئے اس حقیقت کا جاننا ضروری بھی نہیں، صرف اتنا کافی ہے کہ ہمارے اعمال کا وزن ہوگا، نیک اعمال کا پلّہ ہلکا رہا تو عذاب کے مستحق ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ حق تعالیٰ کسی کو خود اپنے فضل و کرم سے یا کسی نبی یا ولی کی شفاعت سے معاف فرما دیں اور عذاب سے نجات ہوجائے۔ جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ بعض لوگوں کو صرف کلمہ ایمان کی بدولت نجات ہوجائے گی اور سب گناہ اس کے مقابلہ میں معاف ہوجائیں گے، یہ اسی استثنائی صورت سے متعلق ہیں جو عام ضابطہ سے الگ مخصوص فضل و کرم کا مظہر ہے۔ ان دونوں آیتوں میں جن کی تفسیر ابھی بیان ہوئی گناہگاروں کو میدان حشر کی رسوائی عذاب الٓہی سے ڈرایا گیا تھا، تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر فرما کر حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب اس طرح دی گئی کہ ہم نے تم کو زمین پر پوری قدرت اور تصرف مالکانہ عطا کیا، اور پھر اس میں تمہارے لئے سامان عیش حاصل کرنے کے ہزاروں راستے کھول دئیے، گویا رب العالمین نے زمین کو انسان کی تمام ضروریات سے لے کر تفریحی سامان تک کا عظیم الشان گودام بنادیا ہے، اور تمام انسانی ضروریات کو اس کے اندر پیدا فرما دیا ہے، اب انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ اس گودام سے اپنی ضروریات کو نکالنے اور ان کے استعمال کرنے کے طریقوں کو سیکھ لے، انسان کے ہر علم و فن اور سائنس کی نئی سے نئی ایجاد کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ خالق کائنات کی پیدا کی ہوئی چیزیں جو زمین کے گودام میں محفوظ ہیں، ان کو سلیقہ کے ساتھ نکالے اور صحیح طریقہ سے استعمال کرے، بیوقوف اور بدسلیقہ آدمی جو اس گودام سے نکالنے کا طریقہ نہیں جانتا، یا پھر نکال کر اس کے استعمال کا طریقہ نہیں سمجھتا وہ ان کے منافع سے محروم رہتا ہے، سمجھ دار انسان دونوں چیزوں کو سمجھ کر ان سے نفع اٹھاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ساری ضروریات انسانی حق تعالیٰ نے زمین میں ودیعت رکھ دی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حق تعالیٰ کا شکر گزار ہو مگر وہ غفلت میں پڑ کر اپنے خالق ومالک کے احسانات کو بھول جاتا ہے، اور انہی اشیاء میں الجھ کر رہ جاتا ہے، اسی لئے آخر آیت میں بطور شکایت کے ارشاد فرمایا : قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ” یعنی تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو “۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝ ٠ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٨ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) اور قیامت کے دن پورے انصاف کے ساتھ اعمال کا وزن ہوگا سو جن کی نیکیاں ترازو میں وزنی ہوں گی وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے محفوظ ہوں گے اور جن کی نیکیاں ہلکی ہوں گی تو یہ وہی لوگ ہوں گے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کا انکار کرکے سزا کے مستحق ہوگئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نِ الْحَقُّ ج) اس روز اللہ تعالیٰ ترازو نما کوئی ایسا نظام قائم کرے گا ‘ جس کے ذریعے سے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن ہوگا ‘ مگر اس دن وزن صرف حق ہی میں ہوگا ‘ یعنی صرف اعمال صالحہ ہی کا وزن ہوگا ‘ باطل اور برے کاموں میں سرے سے کوئی وزن نہیں ہوگا ‘ ریاکاری کی نیکیاں ترازو میں بالکل بےحیثیت ہوں گی۔ (وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نالْحَقُّ ج) کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اس دن وزن ہی حق ہوگا ‘ وزن ہی فیصلہ کن ہوگا۔ اگر دو پلڑوں والی ترازو کا تصور کریں تو جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا نجات بس اسی کے لیے ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. This means that when the Balance is fixed on the Day of Judgement, 'truth' and weight will be identical. The more truth one has to one's credit, the more truth one has to one's credit, the more the weight in one's scale; and vice versa. One will be judged solely on the basis of this weight. In other words, no consideration other than truth will enter into the calculation. A life of falsehood, however long it lasted, and however full of worldly achievements, will carry no weight at all. Weighed in the Balance, the devotees of falsehood will discover that their life-long deeds do not even weigh so much as a birds feather. The same point has been expatiated upon in al-Kahf 18:103-5 : 'Shall We tell you of those who are greatest losers in respect of their deeds? It is those whose efforts have been wasted in this life while they kept believing that they were acquiring good by their deeds. they are those who deny the Signs of their Lord and the fact of their having to meet Him (in the Hereafter). So their works are in vain and we shall attach no weight to them on the Day of Judgement.'

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :8 اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روز خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے ۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگی اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی ۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ با وزن ہوگا ۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہو گا وزن کے لحاظ سے ہوگا ، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا ۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں ، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائےگی ۔ باطل پرست جب اس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرِ کاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا ۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف آیات ١۰۳ تا ١۰۵ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کیا کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے ، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(8 ۔ 9) ۔ اللہ کے حکم سے قیامت کے دن عملوں کو ایک طرح کا جسم دیا جاوے گا جسم میں نیکی کے سب سے ایک بھاری پن اور بدی کے سبب سے ایک ہلکا پن ہوگا غیر جسمی چیزوں کے لئے ایک طرح کا جسم پیدا ہوجانا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ بلا اور دعا آپس میں لڑتے ہیں یا قبر میں نیک عمل نیک صورت بن کر اور بدعمل بری صورت بن کر مردہ کے پاس آتے ہیں یہ قدرت الٰہی سے کچھ بعید نہیں ہے اس واسطے یہ تاویل کرنا کہ صاحب عمل لوگوں کا جسم تولا جاویگا ایک بعید تاویل ہے اور بعضے مفسروں نے صحیحین کی اس حدیث سے کہ قیامت کے دن بڑے بڑے موٹے اور جسیم آدمی ہوں گے جو اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کی برابر نہ جچیں گے صاحب عمل کے تولنے کی تائید جو نکالی ہے وہ تائید بھی تکلیف سے خالی نہیں کیونکہ اس حدیث میں ان لوگوں کی قدر منزلت اللہ کے نزدیک ملکی ہونے کا ذکر ہے جسموں کے تولنے سے اس حدیث کو کچھ تعلق نہیں نہیں اور بعضے مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ عمل نہیں تولے جاویں گے بلکہ نامہ اعمال کے کا عذر تولے جاویں گے اور اپنے اس قول کی تائید میں ترمذی اور مسند امام احمد ابن حنبل کی وہ حدیث پیش کی ہے کہ کلمہ توحید کے ثواب کا کاغذ کا ٹکڑا بہت سے بدیوں کے دفتروں سے بھاری رہے گا اس میں بھی عمل کے ثواب کا وزن ہے ورنہ کاغذ کا خالی ٹکڑا کیا بھاری ہوسکتا ٦ ؎ ہے ترمذی ‘ ابوداؤد وغیرہ میں ابودرداء کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میزان میں خوش اخلاقی بڑی بھاری چیز ٹھہرے گی اس حدیث کو ابن حبان نے صحیح کہا ہے اس صحیح حدیث سے عملوں کے تولے جانے کی پوری تائید ہوتی ہے اب عملوں کے تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنتی قرار پاویں گے اور جن کا بدعملوں کا پلڑا بہاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے۔ دوزخ میں جانے کے بعد جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا آخر کو وہ دوزخ سے نکل کر جنت میں جاویگا چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید (رض) حدری کی حدیث اس باب میں گذر چکی ہے میزان میں جن لوگوں کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے وہ لوگ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کے موافق اعراف پر جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ اخیر تک ٹھہرائے جاکر پھر جنت میں جاویں گے اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان میں ایک دیوار ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے قیامت کے تین مقام جو بڑے خوف اور بڑی پریشانی کے ہیں ان میں ایک مقام تو یہی اعمال کے تولے جانے کا ہے دوسرا مقام نامہ اعمال کہ دائیں یا بائیں ہاتھ میں آنے کا ہے تیسرا مقام پل صراط پر گذرنے کا ہے ابوداؤد میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے جس میں ان تینوں مشکل کا ذکر ہے اگرچہ ابوداؤد اور حافظ عبدالعظیم منذری دونوں نے اس حدیث کی سند کا کچھ حال بیان نہیں کیا لیکن اس حدیث کی سند معتبر ہے کیونکہ یہ حدیث حسن بصری (رح) کی روایت سے ہے جس کو انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے ملاقات ہوئی ہے اس صورت میں یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے اس لئے کہ جن دو شخصوں کا زمانہ ایک ہو ان کی باہمی روایت امام مسلم کے نزدیک صحیح ہے یہاں تو حسن بصری (رح) اور حضرت عائشہ (رض) کی ملاقات بھی ثابت ہوئی اس حدیث کی سند معتبر معلوم ہوتی ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:8) الوزن۔ (تولنا) یعنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنا۔ وزن یزن (ضرب) کا مصدر ہے۔ عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے ہیں جو ترازو۔ یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے۔ واقیموا الوزن بالقسط (55:9) اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو۔ الحق۔ حق ۔ برحق۔ الوزن یؤمئذن الحق کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) الوزن موصوف۔ الحق صفت۔ صفت موصوف مل کر مبتدائ۔ یؤمئذ خبر۔ (یؤمئذ اصل میں جملہ محذوف یوم یسئل اللہ الامم ورسلہم کی جگہ آیا ہے) ۔ (2) الوذن۔ مبتداء اور الحق خبر۔ یؤمئذ متعلق خبر۔ پہلی صورت میں معنی ہوں گے۔ جس دن رسل اور مرسل الیہم سے پوچھ گچھ ہوگی۔ اس دن پورا پورا تول تولا جائے گا۔ دوسری صورت میں معنی ہوں گے اور اس دن (اعمال کا) تولنا برحق ہے۔ موازینہ اسم آلہ۔ میزان کی جمع۔ یا اسم مفعول مؤزون کی جمع ہے۔ وزن کرنے کا آلہ یعنی ترازہ۔ یا وزن کئے جانے والے اعمال

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 16 یعنی ہر ایک کے نامہ اعمال کو تو لا جائے گا اور اس تولنے میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوگی، اوپر کی آیت میں سوال اور حساب کا ذکر ہے اور اس آیت میں وزن اعمال کا۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے صحیفے تولے جائیں گے۔ یہی قول مفسرین کا ہے۔ (کبیر) آخرت میں ہو کا غذ تو لینگے جس کے نیک کام بھاری ہوئے تو برے کام بخشے گئے اور ہلکے ہوئے ت پکڑا گیا (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی قیامت کے روز۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں ارشاد ہے کہ ہم انبیاء اور ان کی امتوں سے پوچھیں گے۔ پھر انہیں ان کے اعمال کے بارے میں بتلائیں گے یہاں ارشاد ہے کہ اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ پھر وزن کی بنیاد پر جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ گو یا کہ یہ پوچھ نہیں بلکہ جزا سزا بھی ہوگی۔ منکرین قرآن اور آخرت کے عقیدہ کا انکار کرنے والے کہا کرتے تھے کہ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ یہ نبی جھوٹ بولتا ہے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں زنا کرتا ہے اس کا وزن کیسے ہوگا۔ کفر و شرک کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے۔ عقیدہ فکر کا نام ہے۔ فکر کی پیمائش اور وزن ہو نہیں سکتا۔ لیکن سائنس نے کا فی حد تک ثابت کردیا ہے کہ ہوا کا وزن ہوسکتا ہے بخار کا ٹمریچر معلوم کرلیا جاتا ہے۔ آواز اور تصویر منتقل کی جاسکتی ہے علیٰ ہذا القیاس کیا جس رب نے انسان کو سب کچھ سکھایا ہے وہ اعمال کا وزن نہیں کرسکتا ؟ یقیناً کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ وہ وقت آئے گا اور وزن ہوگا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے سب کچھ ہو کر رہے گا۔ ہاں جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا۔ وہ کامیاب ہوگا اور جس کا برائیوں کا پلڑا ہلکا ہوا وہ رسوا ہوجائے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا۔ ٢۔ جن کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ہوگا۔ ٣۔ دنیا میں نیک اعمال نہ کرنے والے خائب و خاسر ہوں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اعمال کا وزن، بھاری اوزان والوں کی کامیابی : اللہ رب العزت ہمیشہ سے ساری مخلوق کے اعمال سے واقف ہے اگر قیامت کے میدان میں صرف اپنی معلومات کی بناء پر اعمال کی جزا و سزا دے تو اس کو اس کا بھی حق ہے، لیکن میدان حشر میں ایسا نہ کیا جائے گا بلکہ بندوں کے سامنے ان کے اعمال نامے پیش کیے جائیں گے وزن ہوگا گواہیاں ہوں گی، اور مجرمین انکاری بھی ہوں گے اور دلیل سے جرم کا اثبات بھی کیا جائے گا تاکہ سزا بھگتنے والے یوں نہ کہہ سکیں کہ ہم کو ظلماً بلا وجہ عذاب میں ڈالا گیا۔ اسی کو فرمایا (وَ الْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نِ الْحَقُّ ) اور اس دن وزن کرنا حق ہے سو جن کی تولیں بھاری پڑیں وہی لوگ با مراد ہوں گے، اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں سو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ وزن اعمال کا ذکر یہاں اعراف میں بھی ہے اور سورة مومنون رکوع (٢) میں بھی ہے اور سورة القارعہ میں بھی ہے وہاں فرمایا ہے۔ (فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ) سو جس کے وزن بھاری ہوئے وہ خوشی کی زندگی میں ہوگا اور جس کے وزن ہلکے ہوئے تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ یعنی دوزخ ہے۔ حضرت سلمان (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز (اعمال تولنے کی) ترازو رکھ دی جائے گی (اور وہ اس قدر لمبی چوڑی ہوگی کہ) اگر اس میں سارے آسمان و زمین رکھ کر وزن کیے جائیں تو سب اس میں آجائیں۔ اس کو دیکھ کر فرشتے بار گاہ خداوندی میں عرض کریں گے کہ یہ کس کے لیے تولے گی ؟ اللہ جل شانہٗ فرمائیں گے کہ میں اپنی مخلوق میں سے جس کے لیے (حساب کرنے کے واسطے) تول قائم کروں (اس کے لیے تولے گی) یہ سن کر فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ ! آپ پاک ہیں جیسا عبادت کا حق ہے ہم نے ایسی عبادت آپ کی نہیں کی۔ (الترغیب و الترہیب ص ٤٢٥ ج ٤ رواہ الحاکم و قال صحیح علیٰ شرط مسلم) حضرت انس (رض) آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا (قیامت کے روز) ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہوگا (اعمال کو وزن کرنے کے لیے) انسان اس ترازو کے پاس لائے جاتے رہیں گے، جو آئے گا ترازو کے دونوں پلڑوں کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا۔ پس اگر اس کے تول بھاری ہوئے تو وہ فرشتہ ایسی بلند آواز سے پکار کر اعلان کرے گا جسے ساری مخلوق سنے گی کہ فلاں ہمیشہ کے لیے سعادت مند ہوگیا، اب اس کے بعد بد نصیب نہ ہوگا اور اگر اس کے تول ہلکے رہے تو وہ فرشتہ ایسی بلند آواز سے پکار کر اعلان کرے گا جسے ساری مخلوق سنے گی کہ فلاں ہمیشہ کے لیے نامراد ہوگیا۔ اب کبھی اس کے بعد خوش نصیب نہ ہوگا (الترغیب و الترہیب ص ٤٢٥ از بزار و بیہقی) حضرت شاہ عبدالقادر صاحب (رض) موضح القرآن میں لکھتے ہیں کہ ہر شخص کے عمل وزن کے موافق لکھے جاتے ہیں ایک ہی کام ہے اگر اخلاق و محبت سے حکم شرعی کے موافق کیا اور برمحل کیا تو اس کا وزن بڑھ گیا اور دکھاوے یا ریس کو کیا یا موافق حکم نہ کیا یا ٹھکانے پر نہ کیا تو وزن گھٹ گیا آخرت میں وہ کاغذ تلیں گے جس کے نیک کام بھاری ہوئے تو برائیوں سے در گزر ہوا اور (جس کے نیک کام) ہلکے ہوئے تو پکڑا گیا۔ بعض علماء نے فرمایا کہ قیامت کے روز اعمال کو جسم دے کر حاضر کیا جائے گا اور یہ جسم تلیں گے اور ان جسموں کے وزنوں کے ہلکا یا بھاری ہونے پر فیصلے ہوں گے۔ کاغذوں کا تلنا یا اعمال کو جسم دے کر تولا جانا بعید نہیں ہے۔ اور اعمال کو بغیر وزن دیئے یونہی تول دینا بھی قادر مطلق کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ آج جبکہ سائنس کا دور ہے اور ایجادات روز افزوں ترقی پر ہیں اعمال کا تول میں آجانا بالکل سمجھ میں آجاتا ہے۔ یہ عاجز بندے جن کو اللہ جل جلالہٗ و علم نوالہٗ نے تھوڑی سی سمجھ دی ہے تھرما میٹر کے ذریعے جسم کی حرارت کی مقدار بتا دیتے ہیں۔ اور اسی طرح کے بہت سے آلات ہیں جو اجسام کے علاوہ دوسری چیزوں کی مقدار معلوم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں تو اس وحدہ لا شریک کی قدرت سے یہ کیسے باہر مانا جائے کہ عمل تول میں نہ آسکیں۔ شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ اعمال تو حسی وجود نہیں رکھتے اور وجود میں آنے کے ساتھ ہی فنا ہوتے رہتے ہیں۔ پھر آخرت میں کیونکر جمع شدہ ملیں گے ؟ اس شبہ کی موجودہ دور میں کوئی حیثیت نہیں رہی کیونکہ اب تو ٹیلی ویژن اور وی سی آر نے بتادیا کہ حرکات سکنات اور آواز کو ریکارڈ کیا جاسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو الفاظ و کلمات اور حرکات و سکنات کو گرفت میں لا کر اکٹھا کرنے اور ریکارڈ میں لانے کی طاقت دی ہے تو وہ خود اس پر ضرور قادر ہے کہ اپنی مخلوق کے اعمال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار رکھے۔ جس میں سے ایک ذرہ اور شوشہ بھی غائب نہ ہو۔ اور حسی طور پر قیامت کے روز ان کا وزن سب کے سامنے عیاں اور ظاہر ہوجائے۔ (لِیَجْزِیَ اللّٰہُ کُلَّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) صاحب تفسیر مظہری علامہ سیوطی (رح) سے نقل فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ مومنین کے اعمال کا صرف وزن ہوگا، یا کافروں کے اعمال بھی تولے جائیں گے ؟ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ صرف مومنین کے اعمال تولے جائیں گے (کیونکہ) کافروں کی نیکیاں تو اکارت جائیں گی۔ پھر جب نیکی کے پلڑہ میں رکھنے کے لیے کچھ نہ رہا تو ایک پلڑا سے کیا تو لا جائے گا اس جماعت نے (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) سے استدلال کیا ہے۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ کفار کے اعمال بھی تولے جائیں گے، لیکن وہ بےوزن نکلیں گے ان کا استدلال آیت (وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فِیْ جَھَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ) سے ہے اور جن کی تول ہلکی نکلی سو یہ وہ لوگ ہیں جو ہار بیٹھے اپنی جان، یہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ استدلال (ھُمْ فیھَا خٰلِدُوْنَ ) سے ہے۔ (یہ سورة مومن کی آیت ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ہلکی تول نکلنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اس سے معلوم ہوا کہ کافروں کے اعمال بھی تولے جائیں گے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مومن کوئی بھی دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا۔ اس کے بعد صاحب تفسیر مظہری علامہ قرطبی (رح) کا قول نقل فرماتے ہیں کہ ہر ایک کے اعمال نہیں تولے جائیں گے (بلکہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ) جو لوگ بغیر حساب جنت میں جائیں گے یا جن کو دوزخ میں بغیر حساب میدان حشر قائم ہوتے ہی جانا ہوگا۔ ان دونوں جماعتوں کے اعمال نہ تولے جائیں گے اور ان کے علاوہ باقی مومنین و کفار کے اعمال کا وزن ہوگا۔ صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ علامہ قرطبی کا یہ اشارہ دونوں جماعتوں کے مسلکوں اور دونوں آیتوں (آیت سورة کہف اور آیت سورة مومنون) کے مطالب کو جمع کردیتا ہے۔ حضرت حکیم الامت قدس سرہ (بیان القرآن میں) سورة اعراف کے شروع میں ایک تمہید مفید کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ ” پس اس میزان میں ایمان و کفر بھی وزن کیا جائے گا اور اس وزن میں ایک پلہ خالی رہے گا اور ایک پلہ میں اگر وہ مومن ہے تو ایمان اور اگر کافر ہے تو کفر رکھا جائے گا۔ جب اس تول سے مومن و کافر متمیز ہوجائیں گے (تو) پھر خاص مومنین کے لیے ایک پلہ میں ان کے حسنات اور دوسرے پلہ میں ان کے سیئات غالب رکھ کر ان کے اعمال کا وزن ہوگا اور جیسا کہ درمنثور میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اگر (مومن کے) حسنات غالب ہوئے تو جنت اور اگر سیئات غالب ہوئے تو دوزخ اور اگر دونوں برابر ہوئے تو اعرف تجویز ہوگی پھر خواہ شفاعت سے قبل سزا خواہ سزا کے بعد مغفرت ہوجائے گی (اور سیئات غالب ہونے والے مومن بندے اور اعراف والے جنت میں داخل ہوجائیں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7: علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ قیامت کے دن جو میزان (ترازو) نصب کیا جائے گا۔ اس میں کیا تولا جائے گا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ اعمالنامے تولے جائیں گے جن میں حسنات و سیئات لکھے جاتے ہیں اور بعض کا قول ہے کہ قیامت کے دن اعمال حسنہ کو اچھی صورت میں اور اعمال سیئہ کو قبیح صورت میں مصور و مجسم کیا جائے گا اور پھر ان کو ترازو کے پلڑوں میں ڈال کر تولا جائے گا۔ قال بعضہم توزن صحائف الاعمال المکتوبۃ فیھا الحنات والسیئات۔ و قال ابن عباس یوتی بالاعمال الحسنۃ علی صورۃ حسنۃ و بالاعمال السیئۃ علی صورۃ قبیحۃ فتوضع فی المیزان (خازن ج 2 ص 174) ۔ 8 یہ بشارت اخروی ہے۔ “ وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهٗ ” یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 اور اس دن یعنی قیامت کے دن اعمال کا وزن ایک امر واقعی اور غیر مشتبہ حقیقت ہے پھر جن کا پلہ بھاری ہوگا تو وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں یعنی مومن ہو اور ایمان کا پلہ بھاری ہو اور ایمان اسی کا بھاری ہوگا جس کے علم صالح ہوں گے اور اعمال میں خلوص ہوگا۔