Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 83

سورة الأعراف

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ ۖکَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۸۳﴾

So We saved him and his family, except for his wife; she was of those who remained [with the evildoers].

سو ہم نے لوط ( علیہ السلام ) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ ... Then We saved him and his family, except his wife; she was of the Ghabirin (those who lagged behind). Allah says, We saved Lut and his family, for only his household believed in him. Allah said in another Ayah, فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُوْمِنِينَ فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِم... ِينَ So We brought out from therein the believers. But We found not there any household of the Muslims except one (of Lut and his daughters). (51:35-36) Only his wife (from his family) did not believe, remaining on the religion of her people. She used to conspire with them against Lut and inform them of who came to visit him, using certain signals that they agreed on. This is why when Lut was commanded to leave by night with his family, he was ordered not to inform his wife or take her with him. Some said that she followed them, and when the torment struck her people, she looked back and suffered the same punishment as them. However, it appears that she did not leave the town and that Lut did not tell her that they would depart. So she remained with her people, as apparent from Allah's statement, ... إِلاَّ امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ except his wife; she was of the Ghabirin. meaning, of those who remained, or they say: of those who were destroyed, and this is the more obvious explanation. Allah's statement,   Show more

لوطی تباہ ہوگئے حضرت لوط اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا جیسے فرمان رب ہے آیت ( فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین ) یعنی وہاں جتنے مومن تھے ہم نے سب کو نکال دیا ۔ لیکن بجز ایک گھر والوں کے وہاں ہم نے کسی مسلما... ن کو پایا ہی نہیں ۔ بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی اسی لئے حضرت لوط سے کہدیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی تھی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ ظاہر قول پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے حضرت لوط نے عذاب کی خبر کی نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی ۔ ( غابرین ) کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کئے ہیں وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کیلئے آسمان سے گر رہے تھے ۔ گو اللہ کے عذاب کو بے انصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول اللہ کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ امام ابو حنفیہ فرماتے ہیں لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیے کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی ہو ۔ امام شافعی کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔ اس کی دلیل مسند احمد ، ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ بھی مثل زنا کاری کے ہے شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ امام شافعی کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے اسکا پورا بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 یعنی وہ ان لوگوں میں باقی رہ گئی۔ جن پر اللہ کا عذاب آیا۔ کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھی اور اس کی ہمدردیاں بھی مجرمین کے ساتھ تھیں بعض نے اس کا ترجمہ ' ہلاک ہونے والوں میں سے ' کیا ہے۔ لیکن یہ لازمی معنی ہیں، اصل معنی وہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] لوط کی بیوی کا کردار :۔ چونکہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان بدکرداروں سے پوری ساز باز رکھتی تھی۔ گھر میں کوئی مہمان آتا تو فوراً خفیہ طور پر اطلاع کردیتی اور ان لوگوں کو اس مہمان سے بدکرداری کرنے کی ترغیب دیا کرتی تھی لہذا وہ بھی قوم کے جرم میں برابر کی شریک تھی اور اسے بھی اسی عذاب سے دو چار ہ... ونا پڑا جو اس قوم پر نازل ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوط کی بیوی بھی انہی کی قوم سے تعلق رکھتی تھی اور لوط (علیہ السلام) بابل سے ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوئے تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ: یعنی ہم نے لوط (علیہ السلام) اور اس کے گھر والوں کو عذاب سے بچا لیا، کیونکہ اس بستی میں یہی ایک گھر مسلم تھا۔ دیکھیے سورة ذاریات (٣٦) ۔ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ڮ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ ہم نے تمہاری بیوی کی خی... انت و کفر کی وجہ سے اس کا پیچھے رہنا طے کردیا ہے۔ دیکھیے سورة نمل (٥٧) اور سورة تحریم (١٠) چناچہ وہ ان لوگوں میں رہ گئی جو لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں نکلے، بلکہ اپنے علاقے ہی میں رہے، ان پر عذاب نازل ہوا تو وہ بھی ان کے ساتھ تباہ ہوگئی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the fourth (83) and the fifth (84) verses is the Divine punishment given to the people of Sadum for their crooked and immod¬est practice. As a consequence, the punishment of Allah Ta` ala de¬scended on the entire people with the exception of Sayyidna Lut (علیہ السلام) and some of his companions who remained safe from the punishment. The words of the Qur&an say: فَأَنجَيْنَاهُ وَأَ... هْلَهُ (We saved him and his ` ahl& ). Who were these ` ahl?& Some commentators say that included in ` ahl& were two women who had become Muslims. The wife was not. Mentioned in another verse of the Qur&an is: فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ‌ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٦﴾ that is, in all those habitations, there was no Muslim home except one - 51:36. This obviously shows that only people from the household of Sayyidna Lut (علیہ السلام) were the ones who were saved from the punish¬ment - and that did not include his wife. Some other commentators say that ahl& is general. It refers to his own family as well as others who had joined him by embracing Islam. To sum up, it can be said that they were a counted few Muslims to save whom Allah Ta` ala ordered Sayyidna Lut (علیہ السلام) to take, except his wife, with him and get out of that habitation late in the night and be sure not to look back, because when they are out of the habitation, the punishment would instantly descend on those in it. Sayyidna Lut (علیہ السلام) followed the Divine command. He went out of the limits of Sadum with his family and companions late in the night. There are two reports about the wife: (1)-She just did not go with them; (2)-That she did start off with them and walked on for a while, but since she was eager to see the fate of the people she had left behind, quite contrary to the initial Divine command, she was seized by the punishment. This event has been mentioned in the Qur&an at sev¬eral occasions in varying details. Here, in the fourth verse (83), it has been briefly said that Allah Ta` ala saved Sayyidna Lut (علیہ السلام) and his family and companions from the punishment, but his wife was left with the rest in it. The additional details of how they were saved and how they were asked to leave the habitation late in night and were not to look back appear in other verses.  Show more

تیسری اور چوتھی آیتوں میں قوم سدوم کی اس کجروی اور بےحیائی کی سزا آسمانی کا ذکر ہے اور یہ کہ اس پوری قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا صرف لوط (علیہ السلام) اور ان کے چند ساتھی عذاب سے محفوظ رہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ آیا ہے یعنی ہم نے لوط اور ان کے اہل کو عذاب سے نجات...  دی۔ یہ اہل کون لوگ تھے۔ بعض حضرات مفسرین کا قول ہے کہ اہل میں دو لڑکیاں تھیں جو مسلمان ہوئی تھیں۔ بیوی بھی مسلمان نہ ہوئی تھی۔ قرآن مجید کی ایک دوسری (آیت) میں فما وجدنا فیہا غیر بیت من المسلمین مذکور ہے کہ ان تمام بستیوں میں ایک گھر کے سوا کوئی مسلمان نہ تھا۔ اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے صرف گھر کے آدمی مسلمان تھے جن کو عذاب سے نجات ملی ان میں بھی بیوی داخل نہ تھی۔ اور مفسرین نے فرمایا کہ اہل سے مراد عام ہے اپنے گھر والے اور دوسرے متعلقین جو مسلمان ہوچکے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گنے چنے چند مسلمان تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عذاب سے بچانے کے لئے حضرت لوط (علیہ السلام) کو حکم دے دیا کہ بیوی کے سوا دوسرے اہل و متعلقین کو لے کر آخر رات میں اس بستی سے نکل جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ کیونکہ جس وقت آپ بستی سے نکل جائیں گے تو بستی والوں پر فوراً عذاب آجائے گا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے حکم خدا وندی کی تعمیل کی اپنے اہل و متعلقین کو لے کر آخر شب میں سدوم سے نکل گئے۔ بیوی کے متعلق دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ وہ ساتھ چلی ہی نہیں دوسری یہ کہ کچھ دور تک ساتھ چلی مگر حکم خداوندی کے خلاف پیچھے مڑ کر بستی والوں کا حال دیکھنا چاہتی تھی تو اس کو عذاب نے پکڑ لیا۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات میں اس واقعہ کو مجمل اور مفصل بیان فرمایا گیا ہے۔ یہاں تیسری آیت میں صرف اتنا مذکور ہے کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے اہل و متعلقین کو عذاب سے نجات دے دی مگر ان کی بیوی عذاب میں رہ گئی۔ نجات دینے کی یہ صورت کہ یہ لوگ آخر رات میں بستی سے نکل جائیں اور مڑ کر نہ دیکھیں دوسری آیات میں مذکور ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا۝ ٠ ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٨٤ ۧ مطر المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في الع... ذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] ( م ط ر ) المطر کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں بیٹیوں (اور دوسرے مومنوں) کو نجات دی اور ان کی بیوی بھی ہلاک ہونے والے کافروں کے ساتھ ہوگئی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66. As the Qur'an mentions elsewhere, Lot's wife supported her disbelieving relatives to the last. Hence, when God directed Lot and his followers to migrate from that corrupt land, He ordained that Lot's wife be left behind. This seems to be an inference from al- Tahrim 66: 10 - Ed.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :66 دوسرے مقامات پر تصریح ہے کہ حضرت لوط کی یہ بیوی ، جو غالباً اسی قوم کی بیٹی تھی ، اپنے کافر رشتہ داروں کی ہمنوا رہی اور آخر وقت تک اس نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا ۔ اس لیے عذاب سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو...  ہدایت فرما دی کہ اس عورت کو ساتھ نہ لیا جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:83) الغابرین۔ الغابر اسے کہتے ہیں جو ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جائے۔ اسی سے غبرۃ ہے۔ تھنوں میں باقی ماندہ دودھ۔ غبار وہ گردا جو قافلہ کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جاتا ہے۔ مٹی اڑنے کے بعد فضا میں باقی رہ جائے۔ لہٰذا الغابدین پیچھے رہ جانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان لوگوں میں رہ گئی جو حضرت لو ط ( علیہ السلام) کے ساتھ نہیں نکلے بلکہ اپنے علاقہ ہی میں رہے ان پر عذاب نازل ہوا تو وہ بھی انہی کے ساتھ تباہ ہوگئی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ بیوی کافر تھی جب لوط (علیہ السلام) کو قبل عذاب بستی سے نکل جانے کا حکم ہوا بعض نے تو کہا کہ یہ بیوی ساتھ نہیں گئی بعض نے کہا کہ ساتھ چلی گئی تھی پھر لوٹنے لگی اور ہلاک کردی گئی اور لوط (علیہ السلام) پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آرہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” فَأَنجَیْْنَاہُ وَأَہْلَہُ إِلاَّ امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِیْنَ (83) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْْہِم مَّطَراً فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ (84) ” آخر کار ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کو نجات دی بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بچا کر نکال دی... ا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش پھر دیکھو کہ ان مجرموں کا کیا انجام ہوا ؟ “۔ اللہ کے نافرمان اللہ کے بندوں کے لئے خطرہ بن گئے تھے ‘ تو اللہ نے اپنے بندوں کو نجات دی اور نافرمان طبقات اور فرمان برداروں کے درمیان نظریاتی تفریق کردی گئی ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی اگرچہ ان کی بیوی تھی لیکن وہ ہلاکت سے نہ بچ سکی کیونکہ اس کا نظریاتی اتحاد ان لوگوں کے ساتھ تھا جو ہلاک ہونے والے تھے ۔ ان لوگوں کو سخت بارشوں نے آلیا اور ان بارشوں میں زبردست طوفان تھے ‘ یوں نظر آتا تھا کہ سب لوگ بارش میں غرق ہوگئے اور پانی اس طرح امڈ رہا تھا جس طرح موجیں اور یوں اس سرزمین کو ان ناپاک لوگوں سے پاک کردیا گیا ۔ کیونکہ وہ روحانی طور پر ناپاک ہوگئے تھے اور گندگیوں میں آلودہ ہوگئے تھے ۔ چناچہ وہ گندگی میں زندہ رہے اور گندگی کے اندر ہی انکو موت نے آلیا ۔ اب تکذیب کرنے والی اقوام کی تاریخ کا آخری صفحہ الٹا جاتا ہے یہ صفحہ اس دور کی اقوام میں سے قوم شعیب یعنی اہل مدین سے متعلق ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اسی کو فرمایا (فَاَنْجَیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ) (سو ہم نے نجات دی لوط کو اور اس کے گھر کے لوگوں کو سوائے اس کی بیوی کے۔ یہ باقی رہ جانے والوں سے تھی) یعنی جو اہل ایمان بستیوں سے نکال دیئے گئے تھے تاکہ عذاب میں مبتلا نہ ہوں ان کے علاوہ جو لوگ تھے وہ انہی میں...  رہ گئی۔ سورۂ ہود میں ہے کہ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہا (فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ ) (سو تم رات کے ایک حصہ میں نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی بھی مڑکر نہ دیکھے سوائے تمہاری بیوی کے، بیشک اسے عذاب پہنچنے والا ہے جو ان لوگوں کو پہنچے گا۔ ان کی ہلاکت کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے کیا صبح قریب نہیں ہے۔ ) مفسرین لکھتے ہیں یا تو ان کی بیوی ان کے گھر والوں کے ساتھ نکلی ہی نہ تھی یا ساتھ نکلی لیکن پیچھے مڑ کر دیکھ کر اپنی قوم کی ہلاکت پر افسوس ظاہر کرنے لگی۔ ایک پتھر آیا اور اسے وہیں قتل کردیا۔ سورة ہود اور سورة حجر میں (حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ) فرمایا اور سورة ذاریات میں (حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ) فرمایا۔ دونوں جگہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ جو پتھر ان لوگوں پر برسائے گئے وہ یہ عام پتھر یعنی پہاڑوں کے ٹکڑوں میں سے نہ تھے بلکہ ایسے پتھر تھے جو مٹی سے پکا کر بنائے گئے ہوں جس کا ترجمہ کنکر سے کیا گیا اور مُسَوَّمَۃً بھی فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ ہر پتھر پر نشان لگا ہوا تھا کہ یہ فلاں شخص پر ہی گرے گا۔ اور سورة ہود میں جو مَنْضُوْدٍ ہے اس کے معنی ہیں کہ لگا تار پتھر برسائے گئے مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان بستیوں کا تختہ الٹ دیا۔ اس خطہ کو اوپر اٹھا کرلے گئے اور وہاں سے الٹا کر کے زمین کی طرف پھینک دیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جن بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ چار بستیاں تھیں جن کے نام مورخین و مفسرین نے سدوم، امورا، عاموراء اور صبویر بتائے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی بستی سدوم تھی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اسی میں رہتے تھے۔ یہ بستیاں نہراردن کے قریب تھیں۔ ان بستیوں کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کی جگہ بحرمیت جاری کردیا گیا جو آج بھی موجود ہے پانی کہیں دوسری جگہ سے نہیں آتا ہے صرف ان بستیوں کی حدود میں رہتا ہے۔ یہ پانی بد بو دار ہے جس سے کسی قسم کا انتفاع انسانوں کو یا جانوروں کو یا کھیتیوں کو نہیں ہوتا۔ سورۂ صافات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ (وَاِِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (اور تم ان پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرتے ہو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) اہل عرب تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے راستے میں یہ بستیاں پڑتی تھیں جن کا تختہ الٹ دیا گیا تھا کبھی صبح کے وقت اور کبھی رات کے وقت وہاں سے گزر ہوتا تھا ان لوگوں کو یاد دلایا کہ دیکھو کافروں، بد کاروں کا کیا انجام ہوا۔ تم وہاں سے گزرتے ہو اور نظروں سے دیکھتے ہو پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے۔ فائدہ : قرآن مجید کی تصریح سے معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جس فحش کام یعنی مردوں کے ساتھ شہوت رانی کا عمل کرنے میں لگی ہوئی تھی یہ عمل اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا۔ یہ عمل عقلاً و شرعاً و فطرۃً نہایت ہی شنیع اور قبیح ہے اور کبائر میں سے ہے۔ اس کی سزا کیا ہے ؟ اس کے بارے میں حضرات صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ یہ بھی ایک طرح کا زنا ہے اس کی سزا بھی وہی ہے جو زنا کی سزا ہے۔ یعنی بعض صورتوں میں سو کوڑے مارنا اور بعض صورتوں میں سنگسار کردینا (یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کردینا) ان دونوں سزاؤں کی تفصیلات کتب فقہ کی کتاب الحدود میں لکھی ہیں حضرت امام شافعی (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ اور ان کا ایک قول یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے اور ایک قول یہ ہے کہ دونوں کو سنگسار کردیا جائے۔ حضرت امام مالک (رح) کا بھی یہی ایک قول ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ اس کی کوئی ایسی سزا مقرر نہیں کہ ہمیشہ اسی کو اختیار کیا جائے بلکہ امیر المومنین اس کو مناسب جانے تو دونوں کو قتل کر دے۔ اور مناسب جانے تو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دے۔ یہاں تک کہ ان دونوں کی موت ہوجائے یا توبہ کریں اور اگر اس عمل کو دو بارہ کریں تو قتل کردیا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ خلافت میں ایک یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے ان کو خط لکھا کہ یہاں ایک ایسا آدمی ہے جس سے لوگ اسی طرح شہوت پوری کرتے ہیں جس طرح عورت سے شہوت پوری کی جاتی ہے۔ اس بارے میں حکم شرعی بتایا جائے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرات صحابہ کو جمع فرمایا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ یہ ایسا گناہ ہے جسے صرف ایک ہی امت نے کیا ہے ان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس کو آگ میں جلا دیا جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ اس فعل بد کی کیا سزا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آبادی میں جو سب سے اونچی عمارت ہو وہاں سے اوندھے منہ کر کے پھینک دیا جائے پھر پیچھے سے پتھر مارے جائیں۔ یہ تفصیل فتح القدیر اور بحر الرائق میں لکھی ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح ص ٣١٣ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (رض) نے فاعل اور مفعول کو جلا دیا تھا اور حضرت ابوبکر (رض) نے ان دونوں پر دیوار گروا کر ہلاک کردیا تھا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83 آخر کار ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام متعلقین کو بجز اس کی بیوی کے نجات دے دی کہ اس کی بیوی باقی ماندہ عذاب شدگان میں رہ گئی۔