Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 86

سورة الأعراف

وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ ۪ وَ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۸۶﴾

And do not sit on every path, threatening and averting from the way of Allah those who believe in Him, seeking to make it [seem] deviant. And remember when you were few and He increased you. And see how was the end of the corrupters.

اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راہ سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو اور اس حالت کو یاد کرو جب تم کم تھے پھر اللہ نے تم کو زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Prophet Shu`ayb forbade his people from setting up blockades on the roads, saying, وَلاَ تَقْعُدُواْ بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ ... "And sit not on every road, threatening," According to As-Suddi, threatening people with death if they do not give up their money, as they were bandits, Ibn Abbas, Mujahid and several others commented: the believers who come to Shu`ayb to follow him." The first meaning is better, because Prophet Shu`ayb first said to them, بِكُلِّ صِرَاطٍ ("on every road..."). He then mentioned the second meaning, ... وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ مَنْ امَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ... "and hindering from the path of Allah those who believe in Him, and seeking to make it crooked." meaning, you seek to make the path of Allah crooked and deviated. ... وَاذْكُرُواْ إِذْ كُنتُمْ قَلِيلً فَكَثَّرَكُمْ ... "And remember when you were but few, and He multiplied you." meaning, you were weak because you were few. But you later on became mighty because of your large numbers. Therefore, remember Allah's favor. ... وَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ "And see what was the end of the mischief-makers." from the previous nations and earlier generations. See the torment and punishment they suffered, because they disobeyed Allah and rejected His Messengers. Shu`ayb continued;

قوم شعیب کی بداعمالیاں فرماتے ہیں کہ مسافروں کے راستے میں دہشت گردی نہ پھیلاؤ ۔ ڈاکہ نہ ڈالو اور انہیں ڈرا دھمکا کر ان کا مال زبردستی نہ چھینو ۔ میرے پاس ہدایت حاصل کرنے کیلئے جو آنا چاہتا ہے اسے خوفزدہ کر کے روک دیتے ہو ۔ ایمانداروں کو اللہ کی راہ پر چلنے میں روڑے اٹکاتے ہو ۔ راہ حق کو ٹیڑھا کر دینا چاہتے ہو ان تمام برائیوں سے بچو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ظاہر ہے کہ ہر راستے پر نہ بیٹھنے کی ہدایت سے تو قتل و غارت سے روک کے لئے ہو جو ان کی عادت تھی اور پھر راہ حق سے مومنوں کو نہ روکنے کی ہدایت پھر کی ہو ۔ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ گنتی میں قوت میں تم کچھ نہ تھے بہت ہی کم تھے اس نے اپنی مہربانی سے تمہاری تعداد بڑھا دی اور تمہیں زور آور کر دیا رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرو ۔ عبرت کی آنکھوں سے ان کا انجام دیکھ لو جو تم سے پہلے ابھی ابھی گذرے ہیں جن کے ظلم و جبر کی وجہ سے جن کی بد امنی اور فساد کی وجہ سے رب کے عذاب ان پر ٹوٹ پڑے ۔ وہ اللہ کی نافرمانیوں میں رسولوں کے جھٹلانے میں مشغول رہے دلیر بن گئے جس کے بدلے اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوئی ۔ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی باقی نہیں رہی نیست ونابود ہوگئے مر مٹ گئے ۔ دیکھو میں تمہیں صاف بےلاگ ایک بات بتا دوں تم میں سے ایک گروہ مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور ایک گروہ نے میرا انکار اور بری طرح مجھ سے کفر کیا ہے ۔ اب تم خود دیکھ لو گے کہ مدد ربانی کس کا ساتھ دیتی ہے اور اللہ کی نظروں سے کون گر جاتا ہے ؟ تم رب کے فیصلے کے منتظر رہو ۔ وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے اچھا اور سچا فیصلہ کرنے والا ہے ۔ تم خود دیکھ لو کہ اللہ والے با مراد ہوں گے اور دشمنان اللہ ناشاد ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے جس کے نمونے آجکل کے متجدین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوا ہے۔ یا حضرت شعیب (علیہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں، یا بعض کے نزدیک محصول اور چونگی وصول کرنے کے لئے ان کے راستوں پر بیٹھنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہوسکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ سب ہی کچھ کرتے ہوں۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] ہیرا پھیریوں اور لوٹ مار کی قسمیں :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تجارتی راستوں پر بیٹھ کر ان قافلوں کو لوٹنے کے درپے نہ ہوجاؤ پھر یہ لوٹنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو عام صورت ہے کہ جیسی کوئی رہزن کسی کمزور کا مال چھین لیتا ہے دوسرے تجارتی منڈی میں پہنچنے سے پیشتر اس سے مال کا سودا کرلینا جبکہ اس راہ رو کو منڈی کے بھاؤ کی خبر نہ ہو اس طرح فریب کے ساتھ راہرو سے سستا مال لے لینا بھی لوٹنے کے مترادف ہے اور اس سے رسول اللہ نے سختی سے منع فرمایا ہے اور تیسرا یہ کہ اپنی سیاسی پوزیشن کی بنا پر ان تاجروں کو بلیک میل نہ کیا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نبی پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں ڈراؤ دھمکاؤ نہیں یا ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے نبی کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ میں ٹیڑھ مت پیدا کرو جیسا کہ انبیاء کے مخالفین ہر زمانے میں ایسی حرکتیں کرتے اور چالیں چلتے آئے ہیں چناچہ مشرکین مکہ نے بھی آپ کی راہ روکنے کے لیے ایسے تمام حربے استعمال کیے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ ۔۔ : یہ لوگ راستوں پر ناکے لگا کر لوگوں سے زبردستی ٹیکس وصول کرتے، کبھی ڈرا دھمکا کر ان کی بےعزتی کرتے اور ان کا سب کچھ ہی چھین لیتے۔ اگر کوئی شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے کی طرف مائل نظر آتا تو اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش کرتے اور اسلام کے احکام میں طرح طرح کی خرابیاں نکال کر اور شبہات پیدا کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ یہ سیدھا نہیں بلکہ غلط راستہ ہے، جیسا کہ آج کل بھی نام کے وہ مسلمان دانش ور، صحافی، پروفیسر اور حکمران جو کفار سے مرعوب ہیں اسلام کے احکام کو وحشیانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شعیب (علیہ السلام) نے انھیں ان برائیوں سے روکا اور اللہ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا کہ اس نے تمہاری تھوڑی سی نسل کو کس قدر بڑھایا اور انھیں مفسدین کے انجام بد سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the last sentence of verse 86, it was said: وَاذْكُرُ‌وا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَ‌كُمْ ۖ وَانظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ. (And remember the time when you were few, then He increased you in number. And look, how was the fate of mischief makers). The twin aspects of persuasion and intimidation were employed to warn these people. The first was persuasion when they were reminded of the blessing of Allah who increased their insignificant num¬bers to become a large nation, or changed their economic weakness into need-free financial strength. Then, to chasten them through in¬timidation, it was said that they could do much better if they had a look at the sad end of peoples who had engineered disorder on the earth. The peoples of Nuh, ` Ad, Thamud and Lut (علیہم السلام) were examples of so many different punishments, which should help them understand their own situation and make the correction needed.

تیسری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے۔ راستوں سڑکوں پر نہ بیٹھا کرو۔ اس کا مطلب بعض مفسرین نے یہ قرار دیا کہ یہ دونوں جملے ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں کہ یہ لوگ راستوں پر بیٹھ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس آنے والوں کو روکتے اور ڈراتے دھمکاتے تھے اس سے منع کیا گیا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ان کے یہ دو جرم الگ الگ تھے۔ راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ بھی کرتے تھے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ پہلے جملہ میں پہلا مضمون اور دوسرے جملہ میں دوسرا مضمون بیان فرمایا ہے۔ تفسیر بحر محیط وغیرہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کرنے میں اس کو بھی داخل قرار دیا ہے جو خلاف شرع ناجائز ٹیکس وصول کرنے کے لئے راستوں پر چوکیاں بنائی جاتی ہیں۔ علامہ قرطبی نے فرمایا وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا یعنی تم لوگ اللہ کے راستہ میں کجی کی تلاش میں لگے رہتے ہو کہ کہیں انگلی رکھنے کی جگہ ملے تو اعتراضات و شبہات کے دفتر کھول دیں اور لوگوں کو دین حق سے بیزار کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد آیت کے آخر میں فرمایا واذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ، اس میں ان لوگوں کی تنبیہ کے لئے ترغیب و ترہیب کے دونوں پہلو استعمال کئے گئے۔ اول تو ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت یاد دلائی کہ تم پہلے اعداد و شمار کے لحاظ سے کم تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری نسلیں بڑھا کر ایک بڑی وسیع قوم بنادیا۔ یا مال و سامان کے اعتبار سے کم تھے اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرما کر مستغنی کردیا۔ پھر ترہیب کے لئے فرمایا کہ اپنے سے پہلے فساد کرنے والی قوموں کے انجام پر نظر ڈالو کہ قوم نوح قوم عاد وثمود قوم لوط پر کیا کیا عذاب آچکے ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَانَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَاۗىِٕفَۃٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰي يَحْكُمَ اللہُ بَيْنَنَا۝ ٠ ۚ وَہُوَخَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ۝ ٨٧ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ الحمد لله پاره مکمل هوا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦۔ ٨٧) اور ہر ایک ایسے راستہ پر جہاں سے لوگوں کا گزر ہوتا ہو اس غرض سے مت بیٹھو کہ ان کو مار کر اور ڈرا کر غربا کے کپڑے چھین کر اور شعیب (علیہ السلام) پر جو ایمان لائے ہیں ان کو دین الہی اور اطاعت الہی سے روک کر اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو اور تعداد میں تم کم تھے ہم نے اس میں زیادتی کردی اور دیکھو کہ تم سے پہلے مشرکوں کا انجام سوائے ہلاکت اور بربادی کے اور کیا ہوا ذرا ٹھہرجاؤ ! تمہارے درمیان عذاب الہی سے فیصلہ ہوا چاہتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (وَلاَ تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ ) یعنی وہ لوگ راہزنی بھی کرتے تھے اور تجارتی قافلوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے بھتہ بھی وصول کرتے تھے۔ ان حرکات سے بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں منع کیا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ اور یہ بھی کہ ان کو خوشحالی زیادہ نصیب ہوئی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:86) لاتفعدوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تم نہ بیٹھو۔ تم نہ بیٹھا کرو۔ قعود سے بمعنی بیٹھنا۔ (باب نصر) ۔ توعدون۔ تم ڈراتے ہو۔ لاتقعدوا۔ توعدون۔ تمام راستوں پر مت بیٹھو کہ لوگوں کو (شعیب (علیہ السلام) اور حق پر ایمان لانے سے) ڈراؤ۔ یعنی شعیب (علیہ السلام) اور احق پر ایمان لانے کے تمام راستوں کو دھمکیوں اور تہدید سے بند مت کرو۔ کل طریق سے مطلب کل طریق من الحق والدین (حق اور دین کی طرف جانے والے تمام راستے) ۔ وتصدون عن سبیل اللہ من امن بہ۔ (ای ولا تقعدوا بکل صراط تصدون عن سبیل اللہ من امن بہ۔ ای ولا تمنعوا من یرید الایمان باللہ۔ اور جو اللہ پر ایمان لانا چاہتا ہے اس کو خدا کی راہ سے روکنے کے لئے تمام راستے بند مت کرو۔ تبغونھا۔ تم اس کو چاہتے ہو۔ بغی سے مضارع جمع مذکر حاضر ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جو کہ سبیل اللہ کی طرف راجع ہے۔ عوجا۔ عوج۔ کجی۔ ٹیڑھا پن۔ لا تقعدوا ۔۔ عوجا۔ یعنی راستہ پر ہوا بن کر مت بیٹھ جاؤ۔ کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خدا کی راہ سے روکے رکھو۔ اور طریق حق میں میں میخ نکالتے رہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی قوم کے بد معاش لوگ راستوں میں بیٹھے رہتے وار جو لوگ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے پاس دین سیکھنے کے لیے آتے انہیں ڈراتے اور کبھی ان سے کہتے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اس کے پاس مت جا و ( ابن جریر)9 یعنی تمہاری نسل بڑھائی یا تم مفلس تھے اس نے تمہیں مالدار کیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91: حضرت ابن عباس، قتادہ، مجادہ اور سدی سے منقول ہے کہ قوم شعیب (علیہ السلام) کے مشرکین شہر میں آنیوالے تمام راستوں پر بیٹھ جاتے اور جو لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آتے ان کو روک لیتے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو عیاذاً باللہ کذاب (بڑا جھوٹا) کہہ کر ان کو بد ظن کرنے کی کوشش کرتے اور ساتھ ہی ان کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دیتے۔ کانوا یقعدون علی الطرقات المفضیۃ الی شعیب فیتوعدون من اراد المجئ الیہ و یصدونہ و یقولون انہ کذاب فلا تذھب الیہ، کما کانت قریش مکۃ تفعلہ مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و ھذا ظاھر (قرطبی ج 7 ص 279) جیسا کہ قریش مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہونیوالوں سے کیا کرتے تھے۔ 92 یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر انعام ذکر فرمایا۔ قلت و کثرت سے تعداد میں کمی بیشی مراد ہے یا دولت کی۔ مفسرین نے دونوں قول لکھے ہیں۔ “ وَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ الخ ” اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کرو اور اس کی دعوت کو مان لو ورنہ جن لوگوں نے اللہ کی دعوت کو جھٹلایا اور شرک اور دوسرے اعمال بد سے زمین میں فساد پھیالا ان کا حشر تم دیکھ چکے ہو کہ ان کو اللہ نے کس طرح تباہ کیا تمہارا بھی یہی انجام ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86 اور تم ہر راستے پر اس غرض سے نہ بیٹھا کرو کہ جو شخص دین حق کو قبول کرنے کی غرض سے آئے اس کو ڈرائو اور قتل کی دھمکیاں دو اور لوگوں کو اللہ کے صحیح راستے سے روکو اور اس صحیح راہ اور سیدھے راستے میں شکوک و شبہات پیدا کرو اور اس راہ میں ٹیڑھا پن اور کجی تلاش کرنے کے درپے ہو اور دیکھو اس موقعہ کو یاد کرو جب تمہاری تعداد کم تھی پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری اکثریت کردی اور تم کو بڑھا دیا اور اس بات کو دیکھو کہ فساد برپا کرنے والوں کا انجام کیا ہوا اور کیسا ہوا۔ یعنی مدین والوں کی یہ حرکت بہت ہی بری تھی کہ جو لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں دین حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کی غرض سے آتے ان کو راستے میں روک کر ڈراتے دھمکاتے اور مسلمانوں کے روبرو جاہلانہ شکوک و شبہات پیش کرتے دین حق میں ٹیڑھی ٹیڑھی باتیں نکالنے کی کوشش کرتے ان باتوں سے منع فرمایا اور ترغیب و ترہیب کے طور پر فرمایا کہ تم شمار میں یا مال میں کم تھے پھر خدا تعالیٰ نے تم کو تعداد میں یا مال میں زیادہ کردیا اور یہ بھی فرمایا کہ اپنی حرکات ناشائستہ سے باز نہ آئوگے تو پھر فسادیوں کا انجام پیش نظر رکھو۔