Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 88

سورة الأعراف

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾

Said the eminent ones who were arrogant among his people, "We will surely evict you, O Shu'ayb, and those who have believed with you from our city, or you must return to our religion." He said, "Even if we were unwilling?"

ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراہ ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ شعیب ( علیہ السلام ) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah describes the way the disbelievers answered His Prophet Shu`ayb and those who believed in him, by threatening them with expulsion from their village, or with forceful reversion to the disbeliever's religion. Allah tells, قَالَ الْمَلُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ امَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ... The chiefs of those who were arrogant among his people said: "We shall certainly drive you out, O Shu`ayb and those who have believed with you from our town, or else you (all) shall return to our religion." The chiefs spoke the words mentioned here to the Messenger Shu`ayb, but intended it for those who followed his religion too. The statement, ... قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ He said: "Even though we hate it!" means, would you force us to do that, even though we hate what you are calling us to!

شعیب علیہ السلام کی قوم نے اپنی بربادی کو آواز دی حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کر یا ہمارے مذہب میں آ جاؤ ۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں ۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی؟ اگر اللہ کرے ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہو گا ؟ اس کے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے دو گھڑی پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا ۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعوی کیا تھا ۔ خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی علیہ السلام نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے؟ لیکن چونکہ انسان کمزور ہے ۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے؟ اس لئے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں ۔ ہر چیز کے آغاز انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے ۔ اے اللہ تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ہماری مدد فرما تو سب حاکموں کا حاکم ہے ، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، عادل ہے ، ظالم نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان اور توحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کرکے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی یا تو اپنے آبائی مذہب میں واپس آجاؤ نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ اہل ایمان کے لئے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا۔ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی ملت ابائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ ودعوت سے پہلے اپنا مذہب ہی سمجھتے تھے کو حقیقتا ایسا نہ ہو۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کرلیا ہو۔ (2) یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لئے اور واو حالیہ ہے۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنی بستی سے نکال دوگے دراں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں ؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] سرداران قوم کی دھمکی :۔ جب متکبر سرداروں کے انکار اور ہٹ دھرمی کے باوجود کچھ لوگ سیدنا شعیب پر ایمان لے آئے اور ایسے مومنوں کی ایک کمزور سی جمعیت سامنے آگئی تو سرداروں کی آنکھوں میں یہ لوگ کھٹکنے لگے لہذا انہیں دھمکی دینے پر اتر آئے گویا جس میدان میں عقلی طور پر مات کھاچکے تھے اب ڈنڈے کے زور سے اس مسئلے کو حل کرنے کے درپے ہوئے اور یہی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے انہوں نے کہا شعیب ! بس دو ہی باتیں ہیں جن میں سے ایک تمہیں بہرحال قبول کرنا پڑے گی یا تو اس نئے دین کی تبلیغ سے باز آؤ اور وہی پرانا دین اختیار کرلو یا پھر ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس آبادی سے نکال دیں گے تمہارے توحید پر قائم رہتے ہوئے یہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ “ اسْتَكْبَرُوْا باب استفعال سے ہے، جس کا معنی عموماً طلب ہوتا ہے، یعنی وہ سردار بڑا بننے کے بہت خواہش مند تھے، گویا ان کی طلب ہی یہ تھی۔ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ : یعنی انھوں نے صرف جھٹلانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ نہایت بدتمیزی سے نام کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں ہر صورت دو باتوں میں سے ایک اختیار کرنا ہوگی، یا ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے، یا تمہیں پھر سے ہماری ملت، یعنی کفر و شرک میں پلٹنا ہوگا۔ اب تم سوچ لو کہ اپنے لیے ان میں سے کون سی بات پسند کرتے ہو ؟ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَآ : ” معک “ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اس کا تعلق ” آمنوا “ سے ہو، یعنی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، دوسرا یہ کہ اس کا تعلق ” لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ “ کے ساتھ ہو، یعنی تجھے اور تیرے ساتھ ان لوگوں کو بھی نکال دیں گے جو ایمان لائے ہیں۔ ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) نے اس کا تعلق ” لَنُخْرِجَنَّكَ ‘ کے ساتھ قرار دیا ہے۔ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا ۭ: ” عَادَ یَعُوْدُ عَوْدًا “ کے معنی کسی چیز کی طرف لوٹ آنے کے ہیں۔ شعیب (علیہ السلام) خود تو کبھی کفر و شرک میں مبتلا نہیں رہے، پھر ان کے دین میں لوٹ آنے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اگلی آیت میں شعیب (علیہ السلام) کے قول ” ا اِنْ عُدْنَا “ (اگر ہم تمہاری ملت میں پھر آجائیں) اور ” اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَآ “ سے یہ اشکال اور قوی ہوجاتا ہے۔ علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں، ایک یہ کہ نبوت سے پہلے شعیب (علیہ السلام) اگرچہ کفر و شرک سے اور نبوت کے منصب کے منافی ناپسندیدہ کاموں سے محفوظ تھے، مگر نبوت عطا ہونے سے پہلے عام طور طریقے میں اپنی قوم ہی کے ساتھ تھے۔ البتہ کفر، شرک اور گندے کاموں سے اجتناب کے باوجود مبعوث نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہتے تھے۔ جس سے ان کی قوم کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے ہی دین پر ہیں۔ اس لیے انھوں نے ” اَوْ لَتَعُوْدُنَّ “ کہہ دیا، ورنہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ یا ان کا مطلب یہ تھا کہ پہلے کی طرح اب بھی خاموش ہوجاؤ، تو ہم تمہیں اپنا ہی سمجھ لیں گے۔ فرمایا، اب ہم پہلے کی طرح نہیں ہوسکتے۔ دوسرا یہ کہ ان کے اکثر ساتھی چونکہ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے ان سب کے ساتھ شعیب (علیہ السلام) کو بھی شامل کردیا۔ اسے تغلیب کہتے ہیں، یعنی سب پر وہی الفاظ بول دیے جو اکثر پر صادق آتے تھے۔ شعیب (علیہ السلام) نے بھی انھی کے لہجہ میں ” اِنْ عُدْنَا “ اور ” اَنْ نَّعُوْدَ “ فرما دیا۔ تیسرا یہ کہ ” عَادَ یَعُوْدُ “ بعض اوقات ” صَارَ یَصِیْرُ “ کے معنی میں بھی آتا ہے، اسے ” صَیْرُوْرَۃٌ“ کہتے ہیں، یعنی ابتداءً (پہلی بار) کسی چیز کو اختیار کرنا، معنی یہ کہ تم ہمارا دین اختیار کرلو گے۔ اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ : یعنی اگر ہمیں دونوں باتیں ہی گوارا نہ ہوں تو کیا پھر بھی ہم ایک ضرور اختیار کریں گے، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ سوال درحقیقت انکار کے لیے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary When the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) told him: Had you been on the side of truth, believers in you would have been prospering and non-believers in you would have been under punishment. But, what is actually happening is that both parties have come out equal and living a comfortable life. With this incongruity in sight, how can we take you to be true? Thereupon, the answer that Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) gave was: Do not make haste. The time is near when Allah Ta` ala will decide the case between the two of them. Not convinced by his answer, the arrogant chiefs of those people said what is always said by oppressive practitioners of arrogance. They said: 0 Shu&aib, either you and the rest of your believers return to the fold of our faith, or else, we shall throw you out of our hometown. As for the return of ` the rest of believers in Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) to the fold of their old faith& is concerned, it is something which can be understood, for all of them were a part of the faith and way of the disbelievers. It was only later that they had embraced Islam. But, the case of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was different. He had never fol¬lowed their false faith and way even for a day - nor can a prophet of Allah Ta` ala ever follow a faith which is counter to pure monotheism. Why then would they be asking him to return to their faith? Perhaps, it was because Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) - before prophethood was bestowed on him - would maintain silence over their false sayings and doings and continued living among the people as one of them. Because of this, his disbelieving people took Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) too as one of the rest, a fellow-traveller and votary of their faith. It was only after he gave his call of true &Iman that they discovered that his faith or religion was different from their own. Then, this led them to con¬clude that he had turned away from their old faith. About their warning that he must return to their old faith, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) said: أَوَلَوْ كُنَّا كَارِ‌هِي . It means: Are you trying to say that we should return to the fold of your faith despite that we do not like it and consider it to be false? This is a manner of saying that it can never be.

خلاصہ تفسیر ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے (جو یہ باتیں سنی تو انہوں نے گستاخانہ) کہا کہ اے شعیب (یاد رکھئے) ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ (تو البتہ ہم کچھ نہ کہیں گے۔ یہ بات مومنین کے لئے اس لئے کہی کہ وہ لوگ قبل ایمان کے اسی طریق کفر پر تھے لیکن شعیب (علیہ السلام) کے حق میں باوجود اس کے کہ انبیاء سے کبھی کفر صادر نہیں ہوتا اس لئے کہی کہ ان کے سکوت قبل بعثت سے وہ یہ ہی سمجھتے تھے کہ ان کا اعتقاد بھی ہم جیسا ہوگا) شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گے گو ہم (بدلیل و بصیرت) اس کو مکروہ (اور قابل نفرت) ہی سمجھتے ہوں (یعنی جب اس کے باطل ہونے پر دلیل قائم ہے تو کیسے اس کو اختیار کرلیں) ہم تو اللہ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں اگر (خدا نہ کرے) ہم تمہارے مذہب میں آجائیں (خصوصاً ) بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی ہو (کیونکہ اول تو مطلقاً کفر کو دین حق سمجھنا یہی اللہ پر تہمت لگانا ہے کہ یہ دین معاذ اللہ اللہ کو پسند ہے خصوصاً مومن کا کافر ہونا چونکہ بعد علم و قبول دلیل حق کے ہے اور زیادہ تہمت ہے ایک تو وہی تہمت دوسری وہ تہمت کہ اللہ نے جو مجھ کو دلیل کا علم دیا تھا جس کو میں حق سمجھتا تھا وہ علم غلط دیا تھا اور شعیب (علیہ السلام) نے لفظ عود تو تغلیاً دوسروں کے اعتبار سے یا ان کے گمان کو فرض کرکے یا مشاکلةً برتا) اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے (ہمارے) مقدر (میں) کیا ہو (جس کی مصلحت انہی کے علم میں ہے تو خیر اور بات ہے) ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے (اس علم سے سب مقدرات کے مصالح کو جانتے ہیں مگر) ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں (اور بھروسہ کرکے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہم کو دین حق پر ثبت رکھے اور اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ان کو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین نہ تھا انبیاء کو یہ یقین دیا جاتا ہے بلکہ مقصود اظہار عجز اور تفوض الی المالک ہے جو کہ لوازم کمال نبوت سے ہے اور دوسرے مؤمنین کے اعتبار سے لیا جائے تو کوئی اشکال ہی نہیں یہ جواب دے کر جب دیکھا کہ ان سے خطاب کرنا بالکل مؤ ثر نہیں اور ان کے ایمان لانے کی بالکل امید نہیں ان سے خطاب ترک کرکے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ) اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری (اس) قوم کے درمیان فیصلہ کر دیجئے (جو کہ ہمیشہ) حق کے موافق (ہوا کرتا ہے کیونکہ خدائی فیصلہ کا حق ہونا لازم ہے یعنی اب عملی طور پر حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیجئے) اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اور ان کی قوم کے (انہی مذکور) کافر سرداروں نے (شعیب (علیہ السلام) کی یہ تقریر بلیغ سن کر اندیشہ کیا کہ کہیں سامعین پر اس کا اثر نہ ہوجائے اس لیے انہوں نے بقیہ کفار سے) کہا کہ اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راہ چلنے لگو گے تو بیشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے (دین کا بھی کیونکہ ہمارا مذہب حق ہے حق کو چھوڑنا خسارہ ہے اور دنیا کا بھی اس لئے کہ پورا ناپنے تولنے میں بچت کم ہوگی غرض وہ سب اپنے کفر و ظلم پر جمے رہے اب عذاب کی آمد ہوئی) پس ان کو زلزلے نے پکڑا سو اپنے گھر میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی (اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کو آمادہ تھے خود) ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی (اور ان کے اتباع کرنے والے کو خاسر بتلاتے تھے خود) وہی خسارہ میں پڑگئے اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے اور (بطور حسرت کے فرضی خطاب کرکے) فرمانے لگے کہ اے میری قوم میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے (جن پر عمل کرنا ہر طرح کی فلاح کا سبب تھا) اور میں نے تمہاری (بڑی) خیر خواہی کی (کہ کس کس طرح سمجھایا گیا مگر افسوس تم نے نہ مانا اور یہ روز بد دیکھا پھر ان کے عناد و کفر وغیرہ کو یاد کرکے فرمانے لگے کہ جب انہوں نے اپنے ہاتھوں یہ مصیبت خریدی تو) پھر میں ان کافر لوگوں (کے ہلاک ہونے) پر کیوں رنج کروں۔ معارف و مسائل شعیب (علیہ السلام) سے جب ان کی قوم نے یہ کہا کہ اگر آپ حق پر ہوتے تو آپ کے ماننے والے پھلتے پھولتے اور نہ ماننے والوں پر عذاب آتا مگر ہو یہ رہا ہے کہ دونوں فریق برابر درجہ میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں تو ہم آپ کو کیسے سچا مان لیں۔ اس پر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جلد بازی نہ کرو عنقریب اللہ تعالیٰ ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ فرما دیں گے۔ اس پر قوم کے متکبر سرداروں نے وہی بات کہی جو ہمیشہ ظالم متکبر کہا کرتے ہیں کہ اے شعیب یا تو تم اور جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں وہ سب ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ، ورنہ ہم تم سب کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ ان کے مذہب میں واپس آنا قوم شعیب (علیہ السلام) کے مؤمنین کے متعلق تو اس لئے صادق ہے کہ وہ سب سے پہلے انھیں کے مذہب اور طریقہ پر تھے۔ پھر شعیب (علیہ السلام) کی دعوت پر مسلممان ہوئے۔ مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) تو ایک دن بھی ان کی باطل مذہب و طریقہ پر نہ رہے تھے اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ کا پیغمبر کبھی کسی مشرکانہ باطل مذہب کی پیروی کرسکتا ہے تو پھر ان کے لئے یہ کہنا کہ ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ غالباً اس وجہ سے تھا کہ نبوت عطا ہونے سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) ان لوگوں کے باطل اقوال و اعمال پر سکوت فرماتے تھے اور قوم کے اندر گھل مل کر رہتے تھے ان کے سبب ان کا خیال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہ تھا کہ وہ بھی ہمارے ہی ہم خیال اور ہمارے مذہب کے پیرو ہیں۔ دعوت ایمان کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ان کا مذہب ہم سے مختلف ہے اور خیال کیا کہ یہ ہمارے مذہب سے پھرگئے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ ، یعنی کیا تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے مذہب کو ناپسند اور باطل سمجھنے کے باوجود ہم تمہارے مذہب میں داخل ہوجائیں اور مراد اس سے یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک پہلی آیت کا مضمون ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللہِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِيْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللہُ مِنْہَا۝ ٠ ۭ وَمَا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْہَآ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ رَبُّنَا۝ ٠ ۭ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ٠ ۭ عَلَي اللہِ تَوَكَّلْنَا۝ ٠ ۭ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ۝ ٨٩ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراخ ہے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ فتح ( فيصله) ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨۔ ٨٩) کافر اور منکر سردار بولے ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے ورنہ ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ! کیا تم ہمیں اس بات پر مجبور کرتے ہو ہم تو اسے قابل نفرت سمجھتے ہیں باوجود یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین سے نجات دی ہے اگر ہم پھر اس دین میں آجائیں، تو ہم اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوں گے۔ ہمارے لیے تو یہ ہرگز جائز نہیں کہ ہم تمہارے مشرکانہ دین کو اختیار کرلیں، الایہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے معرفت ایمانی کو نکال لے۔ ہمارے رب کا علم ہر ایک شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے ہمارے پروردگار بس حق کے موافق فیصلہ کردیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاط (قَالَ اَوَلَوْ کُنَّا کٰرِہِیْنَ ) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے متکبر سرداروں نے آپ ( علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ماننے والوں سے کہا کہ اگر تم لوگ ہمارے ہاں امن اور چین سے رہنا چاہتے ہو تو تمہیں ہمارے ہی طور طریقوں اور رسم و رواج کو اپنانا ہوگا ‘ بصورت دیگر ہم تم لوگوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم لوگ زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس پھیر لو گے جبکہ ہم تو ان طور طریقوں سے نفرت کرتے ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:88) لتعودن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثتیلہ ۔ جمع مذکر حاضر۔ تم پھر آؤ گے۔ تم مڑ آؤ گے۔ تم پلٹ آؤ گے۔ عاد یعود عودا (باب نصر) کسی شے سے پلٹنے کے بعد (پلٹنا خواہ بذات خود ہو یا بذریعہ قول یا بذریعہ عزم و ارادہ) اسکی طرف پھرنے اور لوٹنے کو کہتے ہیں۔ ملتنا۔ ہمارا مذہب۔ (او لتعودن فی ملتنا۔ یا تمہیں واپس ہمارے دین میں لوٹ آنا ہوگا۔ یہ خطاب کفار اور مشرکین کا حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے پیروؤں سے تھا۔ ان کے پیرو قبل ازیں مشرکین ہی کے مذہب سے تھے۔ لہٰذا مشرکین کے مذہب میں واپس لوٹ آنے کا خطاب ان پیروکاروں سے ہے جو بذاتہٖ حضرت شعیب سے نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ تو کبھی بھی مشرکین کے دین پر نہ تھے) اولوکنا کارھین۔ ہمزہ استفہام کے لئے ہے واؤ برائے حال ۔ تقدیر کلام یوں ہے اتیدوننا فی ملتکم فی حال کر اھتنا ومع کو ننا کارھین۔ کیا تم ہمیں اپنے دین کی طرف لوٹا دو گے حالانکہ ہمیں اس سے کراہت ہے۔ نفرت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی دو باتوں میں سے ایک بات ناگزیر ہے یا تمہیں اپنے وطن سے نکلنا پڑے گا یا ہماری ملت یعنی شرک و کفر کو پھر سے اختیار کرنا ہوگا ْ اب تم سوچ لو کہ اپنے لیے ان میں سے کونسی سزا پسند کرتے ہو ؟ عود کے معنی کسی چیز کی طرف لوٹ آنے کے ہیں حضرت شعیب ( علیہ السلام) خود تو کبھی شرک وکفر میں مبتلا نہیں رہے پھر ان کے دین میں لوٹ آنے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اور پھر حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے اپنے اس وقل کی تکذیب نہ کرنے سے یہ شکال اور بھی قوی ہوجاتا ہے ہے علما نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں اول یہ کہ ان کے اکثر ساتھی چونکہ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوتے تھے اس لیے انہوں نے تفلیبا شعیب کو بھی ان لوگوں میں شامل سمجھ کر یہ بات کہدی، دوم یہ کہ بعثت سے قبل جب تک حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے دعوت و تبلیغ کا آغاز نہیں کیا تھا۔ اور پنی قوم کے کفر و شرک پر خاموش رہے تھے تو کفار نے گمان کرلیا ہوگا کہ شاید یہ بھی ہمارے دین پر ہیں، اس لیے انہوں نے اولتعودن کہ دیا ورنہ حقیقت یہ نہیں تھی، سوم یہ کہ عود بمعنی صیو ورۃ ہو یعنی ابتدا کسی چیز کو اختیار کرنا تو ترجمہ ہوگا یا تم ہمارا دین اختیار کرلو۔ چہار م یہ کہ عوام کو دھو کا دینے کے لیے ان سرداروں نے یہ بات کہہ دی ہو اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے بھی مشا کلتہ اس ابہام کے مطابق جواب دے دیا ہو ( کذافی الکبیر الرازی) وضح رہے کہ آیت میں معک کا تعلق اخراج سے ہے ایمان سے نہیں ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 11 ۔ آیات 88 تا 93: اسرار و معارف : یہاں پھر وہی نتائج سامنے آئے کہ متکبرین کی جماعت جو اپنی خواہشات کو تقدس کا لبادہ اوڑھائے ہوئے تھی برداشت نہ کرسکی اور کہا میاں شعیب سیدھے سیدھے واپس ہمارے مذہب پر آجاؤ ورنہ تمہیں بھی اور تمہارے ساتھ تم پر ایمان لانے والوں کو بھی شہر سے نکال دیا جائے گا انہوں نے فرمایا عجیب بات ہے۔ رسومات کی برائی : کبھی مذہب بھی مسلط کیا جاسکتا ہے بھئی ہم نے اسے گمراہی سمجھ کر چھوڑا اور اس پر دلائل ہیں پھر اب تو ہمارے دل کی ایک کیفیت بن چکی ہے کہ وہ کفر سے نفرت کرتا ہے بھلا تم زبردستی کیسے کرسکتے ہو حضرت شعیب (علیہ السلام) تو نبی تھے جن سے کبھی کفر کا ارتکاب ہی ممکن نہیں یہ بات ان مومنین کے اعتبار سے ہو رہی ہے جو ان کے ساتھ تھے دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم واپس تمہارے ساتھ شامل ہوں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم عماذ اللہ جھوٹ بولتے رہے اللہ نے ہماری رہنمائی نہیں کی تھی اور یہ پھر بہت بڑا ظلم ہے کہ انسانوں سے بڑھ کر کوئی اللہ پر جھوٹ باندھے یاد رہے خود ساختہ رسومات کو دین یا باعث ثواب بتانا ایسی ہی برائی ہے اور اللہ نے ہمیں اس سے نجات بخشی ہے الحمدللہ یہ اسی کا احسان ہے کہ ہم نے دین قبول کیا اور اس پر قائم ہیں۔ دین سے پھرنا اللہ کی ناراضگی کے باعث ہوتا ہے : لہذا ہم کبھی دین نہیں چھوڑیں گے۔ ہاں اللہ نہ کرے کوئی ایسی غلطی ہوجائے کہ اللہ کریم ناراض ہو کر نور ایمان سلب کرلیں تو اچھا بھلا دیندار آدمی گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے اور اللہ کریم کا علم بہت وسیع ہے لہذا وہ دلوں کے بھید جانتا ہے جب تک انسان کے دل میں بگاڑ نہیں آتا وہ اس کے گناہوں پہ بھی توبہ کی توفیق بخشتا ہے مگر جب دل بگڑتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں اور ہم تو اللہ ہی پہ بھروسہ کیے ہوئے ہیں کہ وہی حق پہ استقامت بھی عطا فرماتا رہے گا۔ آخر دعا مانگی کہ بار الہہ اگر یہ ضرور چاہتے ہیں تو ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے اور حق کو ظاہر فرما کہ تو ہی بہتر فیصلہ کرنے ولا ہے اس لیے اب انہوں نے حق کو باطل ثابت کرنے کی مہم شروع کردی تھی اور مومنین کو گمراہ کرنے پہ سارا زور صرف کر رہے تھے کہتے یہ تھے کہ ہمیں دیکھو عیش کر رہے ہیں بھلا ایمان لا کر تم نے کیا پایا الٹا بظاہر تو نقصان ہی میں رہے نہ دولت سمیٹ سکتے ہو نہ عیاشی کا موقع میسر ہے۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔ چنانچہ ان پر عذاب آیا مفسرین کے مطابق سخت گرمی پڑی کسی پل چین نہیں پاتے تھے کہ دیکھا جنگل پر بڑا گھنا بادل امنڈ رہا ہے سب بھاگ کر وہاں جمع ہوگئے تو زمین پر زلزلہ طاری ہوا اور بادل سے آگ برسنے لگی چناچہ سب تباہ برباد ہوگئے یہ حال ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے والے گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں اور حق بات واجح ہوگئی کہ کفر کی راہ اپنانے والے ہی خسارے میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حسرت سے فرمایا لوگو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں بہت نصیحت کی مگر تم نہ جانے اب ایسے بدبختوں پر کوئی کہاں تک افسوس کرے چناچہ مومنین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں رہے اکثر انبیاء (علیہم السلام) جن کی قومیں تباہ ہوئیں باقی بچنے والوں کو لے کر مکہ مکرمہ آجاتے تھے اگرچہ بیت اللہ شریف کی عمارت نہ تھی مگر یہ جگہ مہبط تجلیات تھی یہیں رہے بسے اور دفن ہوتے رہے اب بھی مطاف کے نیچے متعدد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہیں جن کے بارے بجز انکشافات قلبی کوئی ذریعہ جاننے کا نہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (88 تا 93 ) ۔ لنخرجنک (البتہ ہم تجھے ضرور نکال دیں گے) ۔ من قریتنا (اپنی بستی سے) ۔ لتعو دن (البتہ تمہیں پلٹ کر آنا ہوگا۔ ) ۔ فی ملتنا (ہمارے دین میں) ۔ اولو کنا (کیا اور اگر ہم ہوں) ۔ کارھین (برا سمجھنے والے) ۔ ان عدنا (اگر ہم پلٹ گئے) ۔ تو کلنا (ہم نے بھروسہ کرلیا) ۔ افتح (کھول دے) ۔ تشریح : آیت نمبر (88 تا 93 ) ۔ ” یہ ہے دو نظریات کا ٹکراؤ ۔ یہ صورت حال صرف اہل مدین کے ساتھ نہیں۔ ہر دور اور ہر علاقہ اس آئینہ میں اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے ورنہ اس کا اندراج قرآن کریم میں نہ ہوتا۔ اہل کفر وشرک بےایمانی کے وکیل بن کر کہہ رہے تھے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت معاملات تہذیب و تمدن اور سیاسی مفادات ختم ہوجائیں گے ہم جو یہاں اتنی بڑی تجارتی شہہ رگ پر بیٹھے ہیں زمینی بھی اور سمندری بھی ۔۔۔۔ کیا ہم شعیب کی باتیں مان کر نیک بخت اور ایمان دار بن جائیں اور ان تمام عظیم فائدوں کو ہاتھ سے جانے دیں جو بےایمانی اور فریب سے ہمیں حاصل ہو رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے پیغمبر نے اللہ کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا اور آخرت کا فائدہ ایمانداری اور دیانتداری میں ہے۔ تجارت اسی سے پھل پھول سکتی ہے لوگ اسی سے تم پر اعتماد کرسکیں گے دنیا اور آخرت کا فائدہ ان عقیدوں اور اصولوں میں پوشیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائے ہیں۔ تجارتی بد دیانتی بظاہر خوب پھلتی پھولتی ہے اس کی رونق بھی خوب ہوتی ہے لیکن یہ پھلنا پھولنا اور رونق ایک عارضی سی چیز ہوتی ہے ڈھلتی چھاؤں ہے جب ڈھل گئی تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جاتا ہے اسکے پیچھے عذاب جہنم ہے لیکن ایمان داری کا فائدہ ابدی فائدہ ہے مادی بھی اور روحانی بھی اور اس کے پیچھے جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی ہے۔ نظریات کی یہ ٹکر صرف علمی اور عقلی ہی نہ تھی بلکہ سماجی معاشرتی اور سیاسی بھی تھی ایک طرف حکومت اور اقتدار کا زور تھا دوسرے طرف حق و صداقت پر استقامت اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ۔ کفروشرک کرنے والے اگرچہ دل ہی دل میں اسلام کی صحت اور معقولیت کو مان رہے تھے مگر دنیاوی لالچ اور وقتی مفادان کے لئے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اہل کفر و شرک نے ہر طرح کے لالچ اور دبائو اور دھمکیوں سے اہل ایمان کو مرعوب کرنا چاہا مگر اہل ایمان نے استقامت کا ثبوت دیا اور حالات کی نزاکتوں کے باوجود وہ اپنی جگہ جم کر کھڑے ہوگئے۔ نظریات کی جنگ میں ٹکرائو ضرور ہوتا ہے مگر ہمیشہ فتح اور کامیابی حق و صداقت کی ہوا کرتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ بات مومنین کے لیے اس لیے کہی کہ وہ لوگ قبل ایمان کے اسی طریق کفر پر تھے لیکن شعیب (علیہ السلام) کے حق میں باوجود اس کے کہ انبیاء سے کبھی کفر صادر نہیں ہوتا اس لیے کہی کہ ان کے سکوت قبل بعثت سے وہ یہی سمجھتے تھے کہ ان کا اعتقاد بھی ہم جیسا ہوگا۔ 3۔ یعنی جب اس کے باطل ہونے پر دلیل قائم ہے تو ہم کیسے اس کو اختیار کرلیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان کشمکش کا ذکر جاری ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی موت تک قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم نے نہ صرف ان کی باتوں کی طرف توجہ نہ دی بلکہ انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اور کہنے لگے اے شعیب اب تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے اگر تم اپنی بات پر قائم رہنا چاہتے ہو تو اپنا کاروبار اور گھر بار ہمارے حوالے کرو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ اگر تم اپنا کاروبار اور گھر بچانا چاہتے ہو تو پھر تمہیں ہر صورت ہمارے عقیدے کو ماننا پڑے گا۔ اس کے سوا ہمارا اور تمہارا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کیا ہم کفر و شرک اور بددیانتی سے نفرت کرتے ہیں تب بھی اسے قبول کرلیں ؟ ان کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ ایک طرف ہم ان باتوں کے خلاف نفرت کرتے ہوئے مہم چلا رہے ہیں اور دوسری طرف خوف یا لالچ کی بنا پر انہیں قبول کرلیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دین چھوڑ کر دوبارہ کفر و شرک اختیار کرلیں۔ ایسا کرنا ہماری طرف سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ ہم کہتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کفر و شرک، خیانت اور بدیانتی کرنے سے منع کیا اور ان کے خلاف جدوجہد کرنے کا حکم دیا۔ ہاں جو اللہ چاہے وہ ہوجاتا ہے مومنوں کے فرمان کے دو مقصد ہوسکتے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہرگز نہیں چاہتا کہ انسان کفر و شرک، خیانت اور بد دیانتی کا راستہ اختیار کرے اس کا حکم تو وہی ہے۔ جو حضرت شعیب (علیہ السلام) اور تمام انبیاء ( علیہ السلام) دیتے آ رہے ہیں لہٰذا ہمیں سب کچھ منظور ہے لیکن صراط مستقیم سے ہٹنا گوارا نہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ ایمان پر قائم رہنا اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا ہم اپنے رب سے استقامت کی توفیق مانگتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنی قوم کی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ایمان لانا اور اس پر استقامت اختیار کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یہ ہمارے رب کی توفیق کا نتیجہ ہے جس پر ہم تا دم آخر قائم ہیں۔ گویا کہ انہوں نے انشاء اللہ کے مفہوم میں یہ الفاظ ادا فرمائے تھے۔ اسی لیے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے انجام کا ٹھیک ٹھیک علم تو ہمارے رب کے پاس ہے۔ ہمارا بھروسہ اسی پر ہے۔ ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب ظالموں کا ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اس سے ہمارے اور ہمارے دشمنوں کے درمیان بہتر فیصلہ صادر فرما تو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ قوم شعیب اور کفارکا ابتدا ہی سے وطیرہ رہا ہے کہ ایک طرف ایمان والوں پر مظالم ڈھاتے ہیں اور دوسری طرف باقی لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں تاکہ مزید لوگ حلقۂ دین میں داخل نہ ہوسکیں۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بھی یہی گھناؤنا کردار اختیار کر رکھا تھا۔ وہ اپنی قوم کو کہتے کہ اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو یاد رکھو بھاری نقصان اٹھاؤ گے تمہارا برا حشر ہوگا۔ سرداروں کے پروپیگنڈے کا یہ معنٰیبھی تھا کہ اگر تم شعیب کا حکم مانو گے تو تم اپنی مرضی سے کاروبار نہیں کرسکو گے۔ جس سے تمہاری تجارت اور ترقی کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ دنیا دار لوگ شروع ہی سے ایسی باتوں سے عوام کو دین سے روکتے رہے ہیں۔ اور آج بھی نفاذ اسلام کی بات چلے تو ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ قوم شعیب کے کردار اور ان کے بار بار عذاب کے مطالبہ پر رات کے وقت ایسا زلزلہ آیا کہ وہ صبح اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ وسیع ترین کاروبار، بڑے بڑے حفاظتی منصوبے اور ہر قسم کے مکرو فریب انھیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہ بچا سکے جو لیڈرز قوم کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کرنے میں نقصان ہوگا۔ وہی ملک و ملت کی تباہی کا باعث بنے۔ اس المناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم میں نے سمجھانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ جو عذاب لانے کا تم مجھ سے اصرار کرتے تھے اس نے تمہیں آلیا اب تم نے اپنے کیے کا پھل پا لیا ہے۔ لہٰذا میں تم پر کیونکر افسوس کرسکتا ہوں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِیْنَ (88) قَدِ افْتَرَیْْنَا عَلَی اللّہِ کَذِباً إِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّہُ مِنْہَا وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیْہَا إِلاَّ أَن یَشَاء َ اللّہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْْء ٍ عِلْماً عَلَی اللّہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْْرُ الْفَاتِحِیْنَ (89) ” شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا ” کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ۔ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ہمارے لئے تو اس طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الا یہ کہ ہمارا رب ہی ایسا چاہے ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔ اس پر ہم نے اعتماد کرلیا۔ اے رب ‘ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ “ یہ مختصر ترین چند کلمات ہیں ‘ لیکن ان میں ایمان کی تجلیات واضح طور پر نظر آتی ہیں اور اہل ایمان کا ذوق وشوق ان سے عیاں ہے ۔ اسی طرح ان کلمات سے جاہلیت کا مزاج اور اس کی بدذوقی کا اظاہر بھی خوب ہوتا ہے ۔ رسول اللہ وقت کے دل کی خوبصورت مناظر بھی چمکتے نظر آتے ہیں اور ان میں ربانی حقائق صاف نظر آتے ہیں ۔ آیت ” قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِیْنَ (88) ” شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا ” کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کی اس دھمکی کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا ” شعیب ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہوگا ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مطلب یہ ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اس صورت حال میں پھر داخل ہوجائیں جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی ہے ۔ وہ تو ایک مکروہ اور ناپسندیدہ صورت حال ہے ۔ ” ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے ‘ اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ۔ جو شخص اس طاغوتی ملت کی طرف دوبارہ لوٹ جاتا ہے ۔ جس میں دین کے لئے خالص نہیں ہوتا ‘ جس میں اطاعت صرف اللہ کی نہیں ہوتی جس میں لوگ اللہ کے سوا کچھ دوسری شخصیات کو رب بنا لیتے ہیں اور ان کے اقتدار اعلیٰ کا قرار کرتے ہیں وہ صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے حالانکہ ایسے شخص کو اللہ نے ان تمام ملتوں سے نجات دے دی تھی ۔ وہ اللہ کی غلامی کے سوا تمام غلامیوں سے نکل آئے تھے اور اللہ نے انہیں راہ ہدایت بتا دی تھی ۔ ایسا شخص اگر پھر اسی ملت میں داخل ہوتا ہے تو وہ کلمہ شہادت جھوٹ موٹ پڑھ رہا ہے کیونکہ اس نے ملت ابراہیم کو ترک کرکے دوبارہ طاغوتی ملت میں داخلہ لے لیا ہے ۔ ایسی ملت میں دوبارہ جانے کا مدعا صرف یہی ہو سکتا ہے کہ وہ طاغوتی ملت کو حق سمجھتا ہے اور ایسے لوگوں کے اقتدار اعلی کو جائز اور قانونی سمجھتا ہے ۔ ایسا شخص کلمہ شہادت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوتی ملت کا بھی فرد بن جاتا ہے ۔ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ طاغوتی نظام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اس دنیا میں قائم رہے ‘ اور اپنا اقتدار اعلی قائم کردے اور یہ کہ اس کا وجود ایمان کے منافی نہیں ہے ۔ ایسا شخص طاغوتی ملت میں داخل ہو کر اسے تسلیم کرتا ہے ۔ ایسے شخص کا یہ طرز عمل اس شخص سے زیادہ خطرناک ہے جو سرے سے ہدایت قبول نہیں کرتا اور اسلام کے جھنڈے کو بلند ہی نہیں کرتا کیونکہ اس طرز عمل سے یہ شخص طاغوت کے اقتدار اعلی کے جھنڈے کو بلند کرتا ہے اور طاغوت کا اقتدار اعلی پر دست درازی کے مترادف ہوتا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔ آیت ” وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیْہَا “۔ (٧ : ٨٩) ” ہمارے لئے یہ سزاوار ہی نہیں ہے کہ ہم طاغوتی ملت کی طرف لوٹ آئیں ۔ “ یہ دینی شان ہی کے متضاد ہے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اس بات کا اعلان اس وقت کرتے ہیں جب کہ انکو کھلی دھمکی دی جارہی ہے کہ تمہیں ایسا کرنا ہوگا ایسی دھمکی طاغوتی قوتیں ہر دور اور ہر زمانے میں ہر اسلامی جماعت کو دیتی چلی آئیں ہیں ۔ ان تمام جماعتوں کو جو اپنے آپ کو طاغوتی نظام سے نکالنا چاہتی ہیں اور صرف اللہ کے دین اور نظام میں داخل ہونا چاہتی ہیں ہمیشہ ایسی دھمکیاں ملتی رہی ہیں ۔ طاغوتی نظام اور اس کی اطاعت سے نکلنے کی مشکلات اگرچہ بہت ہی زیادہ نظر آئیں ان مشکلات اور مصائب کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو انسانوں پر طاغوت کی غلامی کی صورت میں پڑتی ہیں ۔ طاغوتی نظام کی جانب سے آنے والی مشکلات نہایت ہی رسواکن ہوتی ہیں اگرچہ بظاہر طاغوتی نظام میں امن وسلامتی اور اطمینان و سکون اور ہر چیز کی فراوانی نظر آئے ۔ طاغوتی نظام کی مشکلات نہایت ہی گہری اور دور رس ہوتی ہیں ۔ ان میں انسان کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ جب انسان انسان کا غلام ہو تو اس کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اس سے بڑی اور کوئی غلامی نہیں ہو سکتی کہ کسی جگہ انسان ‘ انسان کے لئے قانون بنائے اور دوسرا اس کا مطیع فرمان ہو ۔ اس سے بڑی غلامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک انسان کا ارادہ اسی جیسے ایک دوسرے انسان کے تابع ہو اور وہ اس کی مرضی اور حکم کا پابند ہو یا اس سے اور بڑی غلامی اور مصیبت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان بعض انسانوں کی خواہشات اور رجحانات کے غلام ہوں اور ایک انسان کی لگام دوسرے انسانوں کے ہاتھ میں ہو ۔ وہ انہیں جس طرح چاہے چلائے اور جس طرف چاہے لے جائے ۔ لیکن طاغوتی نظام میں صرف اس قسم کی معنوی اور فلسفیانہ اعلی اقدار ہی کو پامال نہیں کیا جاتا بلکہ لوگوں کے اموال اور اولاد بھی طاغوتی نظام کے اختیار میں چلے جاتے ہیں ۔ وہ جس طرح چاہتا ہے لوگوں کے اموال میں تصرفات کرتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے انکی اولاد کو بری یا اچھی تربیت دیتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی کے تصورات و افکار اور مفہوم واقدار عطا کرتا ہے ۔ نیز ان کے اندر اخلاق اور عادات بھی اپنی مرضی کے مطابق رواج دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ طاغوت لوگوں کی روح اور ان کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ ارواح کو ذبح کرتا ہے ‘ وہ لوگوں کے جسموں کو ذبح کرکے ان کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتا ہے ۔ پھر ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کا بھی وہ سودا کرتا ہے اور حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو بھی بےراہ روی سے باز نہیں رکھ سکتا کیونکہ یہ بےراہ روی طاغوتی نظام کے اہلکاروں کے مفاد میں ہوتی ہے ۔ طاغوتی نظام لوگوں کی عزت وآبرو کے ساتھ یا تو بطور ظلم کھیلتا ہے اور لوگوں کے ضمیر کو بدل کر خوشی خوشی ان سے ان کی عزتیں لٹاتا ہے ۔ وہ تہذیب کے عنوان سے ان سے بےتہذیبی کراتا ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاغوتی نظام نظام میں رہتے ہوئے اپنا مال اور اپنی آبرو بچا لے جائیں اور ان کا ایمان ونظریہ بھی محفوظ رہے وہ درحقیقت ایک بہت بڑی غلطی فہمی کا شکار ہیں یا انہیں حقیقی صورت حال کا احساس ہی نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ طاغوت کی غلامی نفس انسانی ‘ دولت انسانی اور عزت انسانی کو گہری مصیبت میں مبتلا کرتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں اللہ کی غلامی کے فرائض خواہ کتنے ہی زیادہ نظر آئیں ‘ وہ بہرحال اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کے لئے بہت ہی مفید ہے جبکہ آخرت میں اللہ کے ہاں اجر عظیم ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی اپنے ایک مقالے ” تحریک اسلامی کی بنیادیں “ میں فرمایا ہیں : ” انسانی زندگی کے مسائل میں جس کی تھوڑی سی بصیرت بھی حاصل ہو وہ اس حقیقت سے بیخبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے بنا اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملات انسانی کی زمام کارکس کے ہاتھ میں ہے ۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت چلا کرتی ہے جس سمت پر ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہے اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواستہ وناخواستہ اسی سمت پر سفر کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں ‘ اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کی ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرا ئع جن کے قابو میں ہوں قوت واقتدار کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہوں ‘ عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو ‘ خیالات و افکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائع جن کے قبضے میں ہوں ‘ انفرادی سیرتوں کی تعمیر اور اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو ‘ ان کی رہنمائی و فرمان روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحثییت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہوں ۔ یہ رہنما وفرمانروا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر وصلاح پر چلے گا ۔ برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے ‘ بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہوگا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی ۔ لیکن اگر رہنمائی و قیادت اور فرمانروائی کا یہ اقتدار ان لوگوں نے ہاتھ میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظام زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم وبداخلاقی پر چلے گا ۔ خیالات ونظریات علوم وآداب ‘ سیاست ومعیشت ‘ تہذیب ومعاشرت ‘ اخلاق ومعاملات ‘ عدل و قانون ‘ سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے ۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی ۔ “ ” اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا دین اول تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیہ بندہ حق بن کر رہیں اور ان کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے ۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے ۔ ان منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور ان خیرات وحسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں ۔ ان تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوع انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملات انسانی کی سربراہ کاری ائمہ کفر وضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض ان کے ماتحت رہ کر ان کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھا تے ہوئے یاد خدا کرتے رہیں ۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیر وصلاح جو اللہ کی رجا کے طالب ہوں ‘ اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایسا نظام حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و راہنمائی اور قیادت و فرمان روائی کا منصب مومنین وصالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدعا حاصل ہی نہیں ہو سکتا جو دین کا اصل مدعا ہے اسی لئے دین میں امام صالحہ کے قیام اور نظام حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے ۔ غور کیجئے آخر قرآن و حدیث میں التزام جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کرلے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمہ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو ۔ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت صالحہ اور نظام حق کا قیام وبقا دین کا حقیقی مقصود ہے ‘ اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے ‘ لہذا جو شخص اجتماعی اطاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرار توحید سے ؟ پھر دیکھئے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہے ؟ جہاد نظام حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے ۔ بالفاظ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظام باطل کے تسلط سے راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظام حق کے قیام کی جدوجہد میں جان ومال سے دریغ کرسکتا ہے ۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے گا اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے ۔ “ ” اس وقت اتنا موقع نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے اس مسئلے کی پوری تفصیل بیان کروں مگر جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لئے بالکل کافی ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے امامت صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی وجہد کو اس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمام کار کفار وفساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظام حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے ۔ اسلام جب یہ دعوت دیتا ہے کہ اقتدار اعلی ان غاصبوں سے چھین لیا جائے اور اسے دوبارہ اللہ کے لئے مخصوص کردیا جائے تو اس دعوت کی اصل غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ کہ انسانیت کو آزاد کیا جائے اور تمام انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ کی غلامی میں داخل کیا جائے ۔ اسی طرح اسلام کی اس دعوت کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کی روحانی ونظریاتی دنیا اور مالی اور مادی دنیا کو بھی ان طاغوتی قوتوں کے خلاف جدوجہد اور جہاد و قتال کریں اور ہر قسم کی قربانیاں دیں ۔ لیکن اس راہ میں قربانیاں دے کر دراصل وہ مسلسل ایسی قربانیاں دینے سے نجات پاتے ہیں جو ان کے مقابلے میں ذلیل اور حقیر ہیں ۔ اسلام تو لوگوں کو عزت اور شرف کے مقام کے لئے جدوجہد کرنے کی دعوت دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا : آیت ” قدافترینا علی اللہ ۔۔۔۔۔ (٧ : ٨٩) ” ہم اللہ پر جھوت گھڑنے والے ہوں گے ‘ اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ۔ ہمارے لئے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں “۔ لیکن حضرت شعیب جس قدر باطل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں ‘ اپنی قوت سے آوازحق بلند کررہے ہیں اور اپنی سوسائٹی کے کبراء کو چیلنج کر رہے ہیں ‘ اسی قدر وہ اللہ کی مشیت اور رضا کے سامنے سرنگوں ہو رہے ہیں اور اللہ کی تقدیر کے سامنے راضی برضا ہو رہے ہیں اس لئے کہ اللہ کا علم وسیع اور حاوی ہے اور انسان کا علم محدود ہے ۔ اللہ کے علم کے سامنے کوئی انسان عزم اور جزم اختیار نہیں کرسکتا ۔ جہاں تک باری تعالیٰ کا تعلق ہے ۔ ایک مسلمان کیلئے اچھا رویہ یہی ہے کہ اس کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم کر دے ۔ آیت ” الا ان یشآء اللہ “۔ (٧ : ٨٩) ” الا یہ کہ ہمارا رب ہی ایسا چاہے ۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) تمام امور کو اللہ کے سپرد فرماتے ہیں ۔ مستقبل میں ان کے حالات جس رخ پر چلنے والے ہیں اور اہل ایمان کو جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ سب کے سب اللہ کے سپرد ہیں ۔ وہ تو صرف یہ کرسکتے ہیں کہ تمام طاغوتی نظریات اور طاغوتی پشیکشوں کا انکار کردیں ‘ ملت طاغوتی ہیں واپس چلے جانے سے صاف صاف انکار کر دے اور مسلمانوں کی جانب سے بھی عزم صمیم ظاہر کردیں ۔ اور اس بات کا اصولی طور پر قطعی انکار کردیں ۔ لیکن وہ مشیت الہیہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ معاملات کا دارومدار تو مشیت الہیہ پر ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور اہل ایمان کا علم محدود ہے اور رب ذوالجلال کا علم لامحدود ہے لہذا وہ اللہ کے وسیع اور محیط علم اور اس کی مشیت کی طرف اپنے معاملات کو سپرد کرتے ہیں ۔ یہ ہے اللہ کے ایک دوست کا طرز عمل اللہ کے ساتھ ۔ ان آداب کے ساتھ وہ اللہ کے اومرا نواہی کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اللہ کی مشیت اور تقدیر پر کوئی احسان نہیں جتلاتے ۔ نہ وہ اللہ کے ارادے اور مشیت میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہیں ۔ دوست کی جانب سے جو پیش آئے منظور ہے ۔ یہ ہے اللہ کے ایک دوست کا طرز عمل اللہ کے ساتھ ۔ ان آداب کے ساتھ وہ اللہ کے اوامر ونواہی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اللہ کی مشیت اور تقدیر پر کوئی احسان نہیں جتلاتے ۔ نہ وہ اللہ کے ارادے اور میشت میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہیں ۔ دوست کی جانب سے جو پیش آئے منظور ہے۔ یہاں حضرت شعیب اپنی قوم کے طاغوتوں اور ان کے وعدو وعید اور دھمکیوں کو ایک طرف چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہایت ہی توکل اور نہایت ہی اعتماد کے ساتھ اور دعا کرتے ہیں کہ اے رب ہمارے اور ہماری اس طاغوتی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ آیت ” عَلَی اللّہِ تَوَکَّلْنَا “ (٧ : ٨٩) ” اللہ پر ہی ہم نے اعتماد کیا ہے ۔ اے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ “ یہاں ہم ایک خیرہ کن منظر دیکھتے ہیں۔ ایک نبی اور خدا کے ایک دوست کے قلب میں حقیقت الہیہ کی تجلیات صاف نظر آتی ہیں ۔ نبی جانتے ہیں کہ قوت کا منبع کہاں ہے اور ایک مومن کے لئے آخری پناہ گاہ کونسی ہے ۔ وہ یہ بھی جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ آخری فیصلے اور فتح وشکست کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے وہ رب واحد پر توکل کرتا ہے اور اس معرکے میں کود پڑتا ہے جو نبی اور اہل ایمان پر مسلط کردیا گیا ہے اور جو حالات نے لابدی کردیا ہے ۔ رب ذوالجلال کی جانب سے عطا کردہ فتح کے سوا یہ معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں کفار اہل ایمان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ان کو اپنے دین سے دور کرنے کی سعی کرتے ہیں

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا اہل ایمان کو کفر میں واپس آنے کی دعوت دینا اور تکذیب کی وجہ سے ہلاک ہونا جو قوم کے سردار ہوتے ہیں وہ متکبر بھی ہوتے ہیں متکبر سرداروں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ اے شعیب ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تمہارے دین میں کیسے آسکتے ہیں جبکہ ہم اسے برا جانتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر ہم تمہارے دین میں واپس آجائیں تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم نے اس کے بعد اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دی یعنی اگر ہم پھر تمہارا دین اختیار کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارا یہ اعتقاد غلط ہے کہ شعیب اللہ کے نبی ہیں اور جو دین اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں یہ حق ہیں۔ اس طرح سے تو ہم اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنے والے ہوجائیں گے۔ کفر کا عقیدہ رکھنا اور کفر کو دین حق سمجھنا یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت دھرنا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ یہ دین اللہ تعالیٰ کو پسند ہے العیاذ باللہ۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دے دی اور ہم نے سوچ سمجھ کر قبول کرلیا تو اس کو چھوڑ دینا اور زیادہ تہمت کی چیز ہوگی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ تمہارے دین میں واپس ہوجائیں، ہاں ! اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو اور بات ہے (اس میں یہ بتایا کہ ہدایت پانا، اور گمراہ ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور قضا و قدر سے ہوتا ہے اور ایمان پر جمنا ہمارا کوئی کمال نہیں، جو استقامت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے) ۔ ہمارا رب علم کے اعتبار سے ہر چیز کو محیط ہے ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے (اللہ تعالیٰ سے ہمیں امید ہے کہ وہ تمہارے مکر و فریب سے ہمیں بچا دے گا اور ہمیں اپنے محبوب دین پر استقامت سے رکھے گا) بستی والوں کو یہ جواب دے کر وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا کی اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دیجیے اور آپ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والے ہیں۔ قوم کے سرداروں نے اپنے عوام سے یہ بھی کہا کہ اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو تم ضرور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤ گے (اس میں انہوں نے اپنے ان عوام کو بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) کے اتباع سے روکا جنہیں نے ایمان قبول نہیں کیا تھا اور اہل ایمان پر بھی تعریض کی کہ تم نقصان میں پڑچکے ہو) (فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ) (سو ان لوگوں کو زلزلہ نے پکڑ لیا۔ سو وہ اپنے گھروں میں صبح کے وقت اوندھے منہ پڑے ہوئے رہ گئے) اس میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا ذکر ہے جیسے قوم ثمود کو زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کیا گیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے رہ گئے اور وہیں کے وہیں ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا بھی حال ہوا۔ سورة ہود میں ہے۔ (اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ ) (خبر دار مدین کے لیے رحمت سے دوری ہے، جیسا کہ قوم رحمت سے دور ہوئی) ۔ پھر فرمایا (الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا) (جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا گویا وہ اپنے گھروں میں رہے ہی نہ تھے) (اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَانُوْا ھُمُ الْخٰسِرِیْنَ ) (جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا وہی خسارہ میں پڑنے والے ہوئے) کہ اپنی جانوں کو تباہی میں ڈالا، نہ دنیا کے رہے نہ آخرت ملی۔ اہل ایمان کو وہ خسارہ میں بتا رہے تھے اور حقیقت میں خود خسارہ میں پڑگئے۔ فوائد فائدہ نمبر ١: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک صاحب زادہ کا نام مدین تھا۔ ان ہی کے نام پر اس بستی کا نام مشہور ہوگیا جس میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قیام تھا۔ سورة اعراف، سورة ھود اور سورة عنکبوت میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی امت کو اصحاب مدین بتایا ہے جن کی طرف وہ مبعوث ہوئے اور سورة شعراء میں ارشاد فرمایا کہ وہ اصحاب الایکہ کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں بھی یہ فرمایا کہ ان کو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا۔ دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ کیونکہ دونوں ہی قوموں کی طرف آپ مبعوث ہوئے تھے۔ البتہ بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم ہو لیکن قرآن کے سیاق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قومیں علیحدہ علیحدہ تھیں۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ اہل مدین کے بارے میں لفظ اخاھم کا اضافہ فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل مدین ہی کی قوم کے فرد تھے۔ اور اصحاب الایکہ کے بارے میں لفظ اخاھم استعمال نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب الایکہ کی طرف مبعوث تو ہوئے لیکن وہ خود ان میں سے نہ تھے، اور دونوں ہی قوموں میں ناپ تول میں کم کر کے دینے کا رواج تھا۔ اصحاب مدین پر کون سا عذاب آیا ؟ یہاں سورة اعراف میں اہل مدین کے بارے میں بتایا کہ وہ رجفہ یعنی زلزلہ سے ہلاک ہوئے اور سورة عنکبوت میں بھی ایسا ہی فرمایا ہے اور سورة ھود میں فرمایا ہے کہ وہ صیحہ یعنی چیخ سے ہلاک ہوئے۔ اس میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ دونوں ہی طرح کا عذاب آیا تھا اور اصحاب الایکہ کے بارے میں سورة شعراء میں فرمایا (فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ) (کہ انہوں نے شعیب کو جھٹلایا لہٰذا ان کو سایہ والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا) ان کی بربادی اس طرح ہوئی کہ ان کی پوری بستی میں سخت گرمی پڑی جس سے سب بلبلا اٹھے پھر قریب ہی میں انہیں گہرا بادل نظر آیا۔ گرمی سے گھبرائے ہوئے تو تھے ہی اب بادل کے سایہ میں جمع ہوگئے۔ جب سب وہاں پہنچ گئے تو بادل سے آگ برسی اور یہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ ایکہ جنگل کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ جنگل نما بستیوں میں رہتے تھے اس لیے ان کو اصحاب الایکہ کہا جاتا ہے۔ اصحاب الایکہ سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا خطاب فرمانا اور ان کا الٹے الٹے جواب دینا اور ان پر عذاب آنا سورة شعراء (رکوع ١٠) میں مذکور ہے۔ ناپ تول میں کمی کرنے کا و بال فائدہ نمبر ٢: حضرت شعیب (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت دیتے ہوئے ان سے یہ بھی فرمایا کہ (وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ ) کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا (وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ھُمْ ) کہ لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر مت دو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مال بیچتے وقت گاہک کو مال کم دینا صرف یہی منع نہیں ہے بلکہ کسی بھی طرح سے کسی کا مال رکھ لینا، حق مارنا حلال نہیں۔ جو لوگ ملازمتیں کرتے ہیں ان میں جو لوگ تنخواہ پوری لے لیتے ہیں کام پورا نہیں کرتے یا وقت پورا نہیں دیتے۔ آیت کا عمومی مضمون ان لوگوں کو بھی شامل ہے۔ ناپ تول کی کمی کو سورة مطففین میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ ) (بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے جب یہ لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کردیتے ہیں) ۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناپ تول کا کام کرنے والوں سے فرمایا کہ ایسے دو کام تمہارے سپرد کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ ص ٢٥٠) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس قوم میں خیانت کا رواج پا گیا اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دے گا اور جن لوگوں میں زنا کی کثرت ہوجائے گی ان میں موت کی کثرت ہوجائے گی، اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کا رزق کاٹ دیا جائے گا۔ اور جو لوگ ناحق فیصلے کریں گے ان میں خوں ریزی پھیل جائے گی اور جو لوگ عہد کی خلاف ورزی کریں گے ان پر دشمن مسلط کردیا جائے گا۔ (رواہ مالک فی المؤطا) ہر گناہ سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ آخرت کی فکر دامن گیر ہو اور وہاں کے مواخذہ اور محاسبہ اور عذاب کا استحضار ہو۔ ناپ تول میں کمی کرنے کا جو گناہ ہے اس کے بارے میں سورة مطففین میں فرمایا (اَلاَ یَظُنُّ اُولٰٓءِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (کیا ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے جس دن تمام آدمی رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے) ناپ تول میں کمی کر کے دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی بھی ہے اور بندوں کے حقوق مارنے کا گناہ بھی ہے۔ قیامت کے دن دونوں باتوں کا مواخذہ ہوگا اور بندوں کے جو حقوق مارے ہیں ان کے عوض نیکیاں دینی ہوں گی اور نیکی نہ ہوئی تو اصحاب حقوق کے گناہ اپنے سر لینے ہوں گے جیسا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بارے میں حدیث میں وارد ہوا ہے۔ عبادت میں کمی اور کوتاہی : جس طرح حقوق العباد میں تطفیف کی جاتی ہے عبادات میں بھی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن اس کا احساس نہیں ہوتا۔ دنیاوی کوئی نقصان ہوجائے تو رنجیدہ ہوتے ہیں اور عبادات میں کوئی نقصان ہوجائے تو دل پر اثر نہیں ہوتا۔ مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر (رض) ، ایک دن جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو عصر کی نماز میں موجود نہ تھے۔ حضرت عمر (رض) نے سوال کیا کہ تمہیں نماز سے کس چیز نے روکا ؟ انہوں نے کوئی عذر بیان کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ” طَفَّفْتَ “ کہ تو نے نقصان کا کام کیا۔ اس کے بعد امام مالک (رح) نے فرمایا۔ ” لکل شیء وفاء و تطفیف “۔ یعنی ہر چیز کے لیے پورا کرنا بھی ہے اور کم کرنا بھی۔ (موطا جامع الو قوت) مطلب یہ کہ کسی بھی چیز کو قاعدہ کے مطابق مکمل کرو تو یہ وفاء ہے یعنی پوری ادائیگی ہے اور اگر کمی کردی جائے تو یہ تطفیف ہے یعنی نقصان کی بات ہے۔ نمازوں کو صحیح طریقہ پر نہ پڑھنا رکوع سجدہ میں سے کٹوتی کرنا یہ سب تطفیف ہے۔ قوم کی بربادی کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) کا خطاب : (فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ ) (پھر ان لوگوں سے منہ پھیرا اور کہنے لگے کہ اے میری قوم میں تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچا چکا اور تمہاری خیر خواہی کرچکا۔ سو اب کافروں میں کیسے افسوس کروں) جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی ہوگئی تو انہوں نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم میں نے تو تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہاری خیر خواہی کی۔ لیکن تم نے سب سنی ان سنی کردی۔ برابر کفر پر جمے رہے تو اب میں کافر لوگوں پر کیسے رنج کروں، تم نے خود ہی اپنی بربادی کا سامان کیا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کی بربادی کے بعد بطور حسرت فرضی خطاب فرمایا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب عذاب آنے کے آثار نمودار ہوئے ہوں اس وقت حضرت شعیب (علیہ السلام) نے زندوں ہی کو خطاب فرمایا ہو اور یہ خطاب فرما کر وہاں سے روانہ ہوگئے ہوں۔ قوم کی ہلاکت کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے اہل ایمان کے ساتھ مکہ معظمہ میں قیام فرمایا اور وہیں وفات ہوئی حضرت ابن عباس (رض) سے ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ مسجد حرام میں صرف دو قبریں ہیں۔ ایک قبر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جو حطیم میں ہے اور ایک قبر شعیب (علیہ السلام) کی جو حجر اسود کے مقابل کسی جگہ پر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (روح المعانی ص ٨ ج ٩)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

94: اس کے جواب میں قوم کے متکبر اور مشرک سرداروں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ یا تو تم اپنا دین توحید چھوڑ کر واپس ہمارے دین میں آجاؤ ورنہ ہم تم کو اور جو تم پر ایمان لے آئے ہیں سب کو اپنے گاؤں سے نکال دیں گے۔ “ قَدِ افْتَرَیْنَا الخ ” جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو تمہارے دین شرک سے محفوظ فرما لیا اور ہمیں یقین ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں لہذا اس کے سوا پکار کے لائق بھی کوئی نہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم تمہارے دین پر آجائیں اور تمہاری طرح شرک کرنے لگیں تو یہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان اور افتراء ہوگا ہم سے تو یہ ہرگز نہیں ہوسکے گا کہ ہم تمہارے دین پر آجائیں۔ “ اِلَّا اَنْ يَّشَاءَ اللّٰهُ ” یہ استثناء منقطع ہے یعنی جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے متکبر اور سرکش رئوسا اور بڑے بڑے سرداروں نے کہا اے شعیب (علیہ السلام) ہم یقیناً تجھ کو اور تیرے ساتھ جو ایمان لائے ہیں اور تیرے ساتھی مومنین کو اپنی بستی سے باہر نکال دیں گے یا تم ہماری ملت اور ہمارے طریقہ پر واپس آجائو شعیب (علیہ السلام) نے کہا اگرچہ ہم تمہارے طریقہ کو برا سجھتے اور ناپسند کرتے ہوں تب بھی واپس آجائیں یعنی جو لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے وہ واقعی ملت کفریہ کو چھوڑ کر موافق سمجھتے تھے کہ شعیب (علیہ السلام) بھی ہماری ملت میں شامل تھا اور ہم سے کٹ کر الگ ہوگیا ہے۔