Commentary When the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) told him: Had you been on the side of truth, believers in you would have been prospering and non-believers in you would have been under punishment. But, what is actually happening is that both parties have come out equal and living a comfortable life. With this incongruity in sight, how can we take you to be true? Thereupon, the answer that Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) gave was: Do not make haste. The time is near when Allah Ta` ala will decide the case between the two of them. Not convinced by his answer, the arrogant chiefs of those people said what is always said by oppressive practitioners of arrogance. They said: 0 Shu&aib, either you and the rest of your believers return to the fold of our faith, or else, we shall throw you out of our hometown. As for the return of ` the rest of believers in Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) to the fold of their old faith& is concerned, it is something which can be understood, for all of them were a part of the faith and way of the disbelievers. It was only later that they had embraced Islam. But, the case of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was different. He had never fol¬lowed their false faith and way even for a day - nor can a prophet of Allah Ta` ala ever follow a faith which is counter to pure monotheism. Why then would they be asking him to return to their faith? Perhaps, it was because Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) - before prophethood was bestowed on him - would maintain silence over their false sayings and doings and continued living among the people as one of them. Because of this, his disbelieving people took Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) too as one of the rest, a fellow-traveller and votary of their faith. It was only after he gave his call of true &Iman that they discovered that his faith or religion was different from their own. Then, this led them to con¬clude that he had turned away from their old faith. About their warning that he must return to their old faith, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) said: أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِي . It means: Are you trying to say that we should return to the fold of your faith despite that we do not like it and consider it to be false? This is a manner of saying that it can never be.
خلاصہ تفسیر ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے (جو یہ باتیں سنی تو انہوں نے گستاخانہ) کہا کہ اے شعیب (یاد رکھئے) ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ (تو البتہ ہم کچھ نہ کہیں گے۔ یہ بات مومنین کے لئے اس لئے کہی کہ وہ لوگ قبل ایمان کے اسی طریق کفر پر تھے لیکن شعیب (علیہ السلام) کے حق میں باوجود اس کے کہ انبیاء سے کبھی کفر صادر نہیں ہوتا اس لئے کہی کہ ان کے سکوت قبل بعثت سے وہ یہ ہی سمجھتے تھے کہ ان کا اعتقاد بھی ہم جیسا ہوگا) شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گے گو ہم (بدلیل و بصیرت) اس کو مکروہ (اور قابل نفرت) ہی سمجھتے ہوں (یعنی جب اس کے باطل ہونے پر دلیل قائم ہے تو کیسے اس کو اختیار کرلیں) ہم تو اللہ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں اگر (خدا نہ کرے) ہم تمہارے مذہب میں آجائیں (خصوصاً ) بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی ہو (کیونکہ اول تو مطلقاً کفر کو دین حق سمجھنا یہی اللہ پر تہمت لگانا ہے کہ یہ دین معاذ اللہ اللہ کو پسند ہے خصوصاً مومن کا کافر ہونا چونکہ بعد علم و قبول دلیل حق کے ہے اور زیادہ تہمت ہے ایک تو وہی تہمت دوسری وہ تہمت کہ اللہ نے جو مجھ کو دلیل کا علم دیا تھا جس کو میں حق سمجھتا تھا وہ علم غلط دیا تھا اور شعیب (علیہ السلام) نے لفظ عود تو تغلیاً دوسروں کے اعتبار سے یا ان کے گمان کو فرض کرکے یا مشاکلةً برتا) اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے (ہمارے) مقدر (میں) کیا ہو (جس کی مصلحت انہی کے علم میں ہے تو خیر اور بات ہے) ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے (اس علم سے سب مقدرات کے مصالح کو جانتے ہیں مگر) ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں (اور بھروسہ کرکے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہم کو دین حق پر ثبت رکھے اور اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ان کو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین نہ تھا انبیاء کو یہ یقین دیا جاتا ہے بلکہ مقصود اظہار عجز اور تفوض الی المالک ہے جو کہ لوازم کمال نبوت سے ہے اور دوسرے مؤمنین کے اعتبار سے لیا جائے تو کوئی اشکال ہی نہیں یہ جواب دے کر جب دیکھا کہ ان سے خطاب کرنا بالکل مؤ ثر نہیں اور ان کے ایمان لانے کی بالکل امید نہیں ان سے خطاب ترک کرکے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ) اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری (اس) قوم کے درمیان فیصلہ کر دیجئے (جو کہ ہمیشہ) حق کے موافق (ہوا کرتا ہے کیونکہ خدائی فیصلہ کا حق ہونا لازم ہے یعنی اب عملی طور پر حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیجئے) اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اور ان کی قوم کے (انہی مذکور) کافر سرداروں نے (شعیب (علیہ السلام) کی یہ تقریر بلیغ سن کر اندیشہ کیا کہ کہیں سامعین پر اس کا اثر نہ ہوجائے اس لیے انہوں نے بقیہ کفار سے) کہا کہ اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راہ چلنے لگو گے تو بیشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے (دین کا بھی کیونکہ ہمارا مذہب حق ہے حق کو چھوڑنا خسارہ ہے اور دنیا کا بھی اس لئے کہ پورا ناپنے تولنے میں بچت کم ہوگی غرض وہ سب اپنے کفر و ظلم پر جمے رہے اب عذاب کی آمد ہوئی) پس ان کو زلزلے نے پکڑا سو اپنے گھر میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی (اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کو آمادہ تھے خود) ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی (اور ان کے اتباع کرنے والے کو خاسر بتلاتے تھے خود) وہی خسارہ میں پڑگئے اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے اور (بطور حسرت کے فرضی خطاب کرکے) فرمانے لگے کہ اے میری قوم میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے (جن پر عمل کرنا ہر طرح کی فلاح کا سبب تھا) اور میں نے تمہاری (بڑی) خیر خواہی کی (کہ کس کس طرح سمجھایا گیا مگر افسوس تم نے نہ مانا اور یہ روز بد دیکھا پھر ان کے عناد و کفر وغیرہ کو یاد کرکے فرمانے لگے کہ جب انہوں نے اپنے ہاتھوں یہ مصیبت خریدی تو) پھر میں ان کافر لوگوں (کے ہلاک ہونے) پر کیوں رنج کروں۔ معارف و مسائل شعیب (علیہ السلام) سے جب ان کی قوم نے یہ کہا کہ اگر آپ حق پر ہوتے تو آپ کے ماننے والے پھلتے پھولتے اور نہ ماننے والوں پر عذاب آتا مگر ہو یہ رہا ہے کہ دونوں فریق برابر درجہ میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں تو ہم آپ کو کیسے سچا مان لیں۔ اس پر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جلد بازی نہ کرو عنقریب اللہ تعالیٰ ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ فرما دیں گے۔ اس پر قوم کے متکبر سرداروں نے وہی بات کہی جو ہمیشہ ظالم متکبر کہا کرتے ہیں کہ اے شعیب یا تو تم اور جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں وہ سب ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ، ورنہ ہم تم سب کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ ان کے مذہب میں واپس آنا قوم شعیب (علیہ السلام) کے مؤمنین کے متعلق تو اس لئے صادق ہے کہ وہ سب سے پہلے انھیں کے مذہب اور طریقہ پر تھے۔ پھر شعیب (علیہ السلام) کی دعوت پر مسلممان ہوئے۔ مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) تو ایک دن بھی ان کی باطل مذہب و طریقہ پر نہ رہے تھے اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ کا پیغمبر کبھی کسی مشرکانہ باطل مذہب کی پیروی کرسکتا ہے تو پھر ان کے لئے یہ کہنا کہ ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ غالباً اس وجہ سے تھا کہ نبوت عطا ہونے سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) ان لوگوں کے باطل اقوال و اعمال پر سکوت فرماتے تھے اور قوم کے اندر گھل مل کر رہتے تھے ان کے سبب ان کا خیال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہ تھا کہ وہ بھی ہمارے ہی ہم خیال اور ہمارے مذہب کے پیرو ہیں۔ دعوت ایمان کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ان کا مذہب ہم سے مختلف ہے اور خیال کیا کہ یہ ہمارے مذہب سے پھرگئے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ ، یعنی کیا تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے مذہب کو ناپسند اور باطل سمجھنے کے باوجود ہم تمہارے مذہب میں داخل ہوجائیں اور مراد اس سے یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک پہلی آیت کا مضمون ہے۔