Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 89

سورة الأعراف

قَدِ افۡتَرَیۡنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنۡ عُدۡنَا فِیۡ مِلَّتِکُمۡ بَعۡدَ اِذۡ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنۡہَا ؕ وَ مَا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّعُوۡدَ فِیۡہَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ؕ رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ ﴿۸۹﴾

We would have invented against Allah a lie if we returned to your religion after Allah had saved us from it. And it is not for us to return to it except that Allah , our Lord, should will. Our Lord has encompassed all things in knowledge. Upon Allah we have relied. Our Lord, decide between us and our people in truth, and You are the best of those who give decision."

ہم تو اللہ تعالٰی پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں ، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو ہمارے رب کا علم ہرچیز کو محیط ہے ، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کردے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّهُ مِنْهَا ... "We should have invented a lie against Allah if we returned to your religion, after Allah has rescued us from it. Certainly if we revert to your religion and accept your ways, we will have uttered a tremendous lie against Allah by calling partners as rivals to Him, ... وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلاَّ أَن يَشَاء اللّهُ رَبُّنَا ... And it is not for us to return to it unless Allah, our Lord, should will. This part of the Ayah refers all matters to Allah's will, and certainly, He has perfect knowledge of all matters and His observation encompasses all things, ... وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ... Our Lord comprehends all things in His knowledge. ... عَلَى اللّهِ تَوَكَّلْنَا ... In Allah (Alone) we put our trust. concerning all our affairs, what we practice of them and what we ignore, ... رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ ... Our Lord! Judge between us and our people in truth, judge between us and our people and give us victory over them, ... وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ for You are the best of those who give judgment. and You are the Most Just Who never wrongs any in His judgment.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 یعنی اگر ہم دوبارہ اس دین آبائی کی طرف لوٹ آئے، جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایمان و توحید کی دعوت دے کر اللہ پر جھوٹ باندھا تھا ؟ مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہماری طرف سے ایسا ہو۔ 98۔ 2 اپنا عزم ظاہر کرنے کے بعد معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد کردیا۔ یعنی ہم نے اپنی رضامندی سے اب کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے۔ 89۔ 3 کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت رکھے گا اور ہمارے اور کفر و اہل کفر کے درمیان حائل رہے گا، ہم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے گا اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] شعیب کا جواب :۔ شعیب نے جواب میں کہا تمہاری یہ دونوں باتیں ہمیں نامنظور ہیں وہ اس لیے کہ اگر ہم دوبارہ تمہارا دین اختیار کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اور میرے ساتھی آج تک جھوٹ ہی بولتے رہے اور اللہ کے ذمے جھوٹ ہی لگاتے رہے پھر جس کام پر اللہ نے مجھے مامور فرمایا ہے اگر میں ہی یا میرے ساتھی ہی اس کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو ہم سے بڑھ کر بےانصاف کون ہوگا ؟ اور انشاء اللہ ہمارا عزم یہی ہے کہ ہم اپنے دین پر نہایت عزم سے ثابت قدم رہیں گے اور اللہ کی توفیق ہمارے شامل حال رہی تو ہم کبھی تمہارے دین میں جانا پسند نہیں کریں گے رہی دوسری بات کہ تم لوگ ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو گے تو ہمیں یہ بات بھی پسند نہیں ہاں اگر تم ہمیں مجبور کر کے زبردستی یہاں سے نکالنا چاہتے ہو تو کر دیکھو مگر ہوگا وہی جو کچھ اللہ ہمارے پروردگار کو منظور ہوگا۔ ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمارا سارا معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہے۔ [٩٥] جب حق و باطل کی محاذ آرائی اس حد تک پہنچ گئی کہ معاندین اور سرکش سردار سیدنا شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنے پر آمادہ ہوگئے اس وقت سیدنا شعیب (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ ! اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان ظالموں کو مزید پند و نصیحت کے فائدہ کا کچھ امکان باقی نہیں رہ گیا لہذا اب ان کے اور ہمارے درمیان تو خود ہی فیصلہ کر دے کہ اب آئندہ کے لیے ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللّٰهِ ۔۔ : یہ ایک دوسرے طریقے سے جواب ہے، شعیب (علیہ السلام) عرب تھے اور عربوں میں شروع ہی سے جھوٹ سے شدید نفرت رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وہ نبی جو تمام دنیا کی طرف اور قیامت تک کے لیے تھا عربوں میں مبعوث کرنا اس لیے طے فرمایا کہ عرب اپنی تمام برائیوں کے باوجود کچھ اوصاف حمیدہ رکھتے تھے، دوسری قومیں ان کی طرح نہیں تھیں، ان میں سے ایک وصف سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت تھی۔ اسی لیے ابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں جھوٹ نہیں بولا کہ مکہ میں جا کر کوئی یہ نہ کہے کہ سردار نے جھوٹ بولا۔ اس لیے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں تمہارے دین سے بچا کر توحید کا اعلان کرنے کی توفیق بخشی تو اب ہم پھر تمہارا دین اختیار کریں تو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے جھوٹ باندھا تھا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ پر ! یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ وَمَا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَآ ۔۔ : یعنی ہمارے لیے تمہارے دین کو اختیار کرنا ممکن ہی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے، اس لیے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے، چناچہ اب ہم جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دوبارہ تمہارا دین اختیار نہیں کریں گے، وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کی بنا پر کر رہے ہیں، کیونکہ ارادہ خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر موقوف ہے۔ اس استثنا سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ شعیب (علیہ السلام) کو اپنے خاتمہ بالخیر میں شک تھا، بلکہ انھوں نے یہ بات صرف اپنی عاجزی کے اظہار اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کے لیے کہی ہے اور اس میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھا ہے۔ واحدی (رض) لکھتے ہیں کہ انبیاء ( علیہ السلام) اور امت کے اکابر ہمیشہ ہی برے انجام سے پناہ مانگتے رہے۔ خلیل اللہ (علیہ السلام) کی دعا ہے : ( وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) [ إبراہیم : ٣٥ ]” اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر دعا یہ تھی : ( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ) ” اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “ [ ترمذی، الدعوات، باب یا مقلب القلوب ۔۔ : ٣٥٢٢، عن أم سلمۃ و صححہ الألبانی ] اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ بطور فرض ہو، یعنی تمہارے جبر واکراہ سے تو ہم کفر اختیار نہیں کرسکتے، ہاں ! (بالفرض) اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی یہ ہو تو دوسری بات ہے۔ عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا : یعنی ہم ایمان پر استقامت کے لیے اپنی قوت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر بھروسا کرتے ہیں۔ عَلَي اللّٰهِ “ کو پہلے لانے سے حصر کا معنی پیدا ہوگیا۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا۔۔ : ” فَتَحَ “ کا معنی واضح فیصلہ ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو اپنے ماننے والوں ہی کے حق میں ہوگا، یعنی انکار اور ضد پر اڑے ہوئے ان مشرکین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما کر ہمارے حق پر ہونے اور ان کے باطل پر ہونے کو خوب واضح کر دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (89), Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) said to his people: Allah Ta` ala saved us from your false faith. Now if we were to return to your faith, this would amount to a false and grim accusation by us against Allah Ta` ala. First of all giving Kufr and Shirk the status of faith by itself means that they have been commanded by Allah Ta` ala - which is forging a lie against Him. In addition to that, after having believed in the revealed Truth (&Iman) and after having its knowledge and insight, a return to Kufr (disbelief) would amount to saying that the first way was false and erroneous while the true and correct way was that which has been adopted later. As obvious, this is a compounded lie and accusation - that the true (Haqq) was taken to be false (Bath) and vice versa, the Bath to be Haqq. There was a certain flavour of claim or assertion in this saying of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) - that we can never return to your religion again. Making such a claim is, at least outwardly, contrary to the spir¬it of selfless submission a true servant of Allah is supposed to have (&abdiyyah). It does not behove those who are close to the presence of Allah and those who have come to know Him. Therefore, he said: مَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَ‌بُّنَا ۚ وَسِعَ رَ‌بُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا (And it is not for us that we turn to it unless Allah, our Lord, so wills. Our Lord encom¬passes everything with His knowledge. In Allah we place our trust). This statement is a mirror of his humility عِجز (&Ijz), an assertion of trust in Allah تَوَکُّل (Tawakkul) and a confident attitude of resigning mat¬ters to Him تفویض (Tafwid). These are master virtues of prophets. They amount to saying: at are we and how can we claim to do something or stay away from it? To be able to do something good and to succeed in staying away from evil is nothing but the grace of Allah Ta&ala – as said by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لَو لَا اللہُ مَا اھتَدَینا وَ لَا تَصَدَّقنَا وَ لَا صَلَّینَا Had there not been the grace of Allah Ta&ala, we would have not been guided right, nor been able to give in charity, nor to make Sarah. It was due to this quality of trusting in Allah alone that when, af¬ter having talked to the arrogant chiefs of the people, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) realized that nothing seems to move these people in any manner whatsoever, he stopped addressing them and made the following Du&a& (prayer) to Allah Ta&ala: رَ‌بَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ‌ الْفَاتِحِين (Our Lord, decide between us and our people, with truth, and You are the best of all judges). Sayyidna &Abdullah ibn &Abbas (رض) has hat the word: فَتح (fath) means &decide& at this place. That is how the word: فَاتِح (fatih) takes the sense of Qadi or judge. And in reality, through these words, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) had prayed for the destruction of the disbelievers from among his people - which was answered by Allah Ta&ala when they were destroyed by an earthquake.

دوسری آیت میں ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہارے باطل مذہب سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نجات دے دی۔ اس کے بعد اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس ہوجائیں تو یہ ہمای طرف سے اللہ تعالیٰ پر سخت جھوٹا بہتان ہوگا۔ کیونکہ اول تو خود کفر و شرک کو مذہب بنانا ہی یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس پر افتراء اور بہتان ہے۔ اس کے علاوہ ایمان لانے اور علم و بصیرت حاصل ہونے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹنا گویا یہ کہنا ہے کہ پہلا طریقہ باطل اور غلط تھا حق اور صحیح وہ طریقہ ہے جس کو اب اختیار کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دوہرا جھوٹ اور بہتان ہے کہ حق کو باطل کہا اور باطل کو حق۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے اس قول میں ایک قسم کا دعویٰ تھا کہ ہم اب تمہارے مذہب میں پھر واپس نہیں ہوسکتے۔ اور ایسا دعویٰ کرنا بظاہر ہر عبدیت کے خلاف ہے جو مقربان بارگاہ الٰہی اور اہل معرفت کی شایان شان نہیں اس لئے فرمایا (آیت) وَمَا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَآ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ۭوَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمً آ عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا یعنی ہم تمہارے مذہب میں ہرگز واپس نہیں ہوسکتے بجز اس کے کہ (خدا نخواستہ) ہمارے پروردگار ہی کی مشیت و ارادہ ہماری گمراہی کا ہوجائے۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ ہم نے اسی اللہ پر بھروسہ کیا ہے۔ اس میں اپنے عجز وضعف کا اظہار اور اللہ تعالیٰ پر توکل و تفویض ہے جو کمالات نبوت میں سے ہے کہ ہم کیا ہیں جو کسی کام کے کرنے یا اس سے بچنے کا دعویٰ کرسکیں۔ کسی نیکی کا کرنا یا برُائی سے بچنا سب اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے۔ جیسا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لولا اللّٰہ ما اھتدینا ولا تصدقنا ولاصلینا۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو ہم کو صحیح راستہ کی ہدایت نہ ہوتی اور نہ ہم صدقہ خیرات کر پاتے نہ نماز پڑھ سکتے۔ یہاں تک کہ قوم کے متکبر سرداروں سے گفتگو کرنے کے بعد جب شعیب (علیہ السلام) کو یہ اندازہ ہوا کہ ان لوگوں پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو اب ان کو خطاب چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ یعنی اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ کر دیجئے حق کے موافق اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ لفظ فتح کے معنی اس جگہ فیصلہ کرنے کے ہیں اس معنی سے فاتح بمعنی قاضی آتا ہے (بحر محیط) اور درحقیقت ان الفاظ سے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں سے کفار کے لئے ہلاکت کی دعا کی تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر ان لوگوں کو زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا۔ دوسری آیت کا مضمون ختم ہوا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللہِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِيْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللہُ مِنْہَا۝ ٠ ۭ وَمَا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْہَآ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ رَبُّنَا۝ ٠ ۭ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ٠ ۭ عَلَي اللہِ تَوَكَّلْنَا۝ ٠ ۭ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ۝ ٨٩ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰٹنَا اللّٰہُ مِنْہَا ط) حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا فرمانا تھا کہ اگر ہم دوبارہ تمہارے طور طریقوں پر واپس آجائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میرا نبوت کا دعویٰ ہی غلط تھا اور میں یہ دعویٰ کر کے گویا اللہ پر افترا کر رہا تھا۔ لیکن چونکہ میرا یہ دعویٰ سچا ہے اور میں واقعتا اللہ کا فرستادہ ہوں لہٰذا اب میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے تمہاری ملت میں واپس آنا ممکن نہیں۔ (وَمَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْہَآ اِلآَّ اَنْ یَّشَآء اللّٰہُ رَبُّنَا ط) یہ ایک بندۂ مومن کی سوچ اور اس کے طرز عمل کی عکاسی ہے۔ وہ نہ اپنے فکرو فلسفہ پر بھروسہ کرتا ہے اور نہ اپنی عقل و استقامت کا سہارا لیتا ہے ‘ بلکہ صرف اور صرف اللہ کی توفیق اور تیسیر پر توکل کرتا ہے۔ یہی وہ فلسفہ تھا جس کے مطابق حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس طرح فرمایا ‘ حالانکہ ان کے واپس پلٹنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ (وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاط عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا ط) اور ہمارے رب نے تو ہر شے کے علم کا احاطہ کیا ہوا ہے ‘ ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73. This phrase signifies substantively what is meant by the commonly used Islamic formula In-sha' Allah ('If Allah so wills'). Its meaning is evident from al-Kahf 18: 23-4, in which the believers are directed not to make definitive statements about what they will do without making such actions contingent on God's will. This is understandable since a believer firmly believes in God's power and is ever conscious that his destiny is inalienably tied to God's will. It is impossible for such a person to make foolish statements about what he will do and what he will not do. He is bound to make it clear that he will accomplish what he intends only, if 'God so wills'.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :73 یہ فقرہ اسی معنی میں ہے جس میں ان شاء اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے ، اور جس کے متعلق سورة کہف ( آیات ۲۳ ۔ ۲٤ ) میں ارشاد ہوا ہے کہ کسی چیز کے متعلق دعوے کے ساتھ یہ نہ کہہ دیا کرو کہ میں ایسا کروں گا بلکہ اس طرح کہا کرو کہ اگر اللہ چاہے گا تو ایسا کروں گا ۔ اس لیے کہ مومن ، جو اللہ تعالیٰ کی سلطانی و بادشاہی کا اور اپنی بندگی و تابعیت کا ٹھیک ٹھیک ادراک رکھتا ہے ، کبھی اپنے بل بوتے پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں فلاں بات کر کے رہوں گا یا فلاں حرکت ہرگز نہ کروں گا ، بلکہ وہ جب کہے گا تو یوں کہے گا کہ میرا ارادہ ایسا کرنے کا یا نہ کرنے کا ہے لیکن میرے اس ارادے کا پورا ہونا میرے مالک کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ توفیق بخشے گا تو اس میں کامیاب ہو جاؤں گا ورنہ ناکام رہ جاؤں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: حضرت شعیب (علیہ السلام) کے دوسرے ساتھی توپہلے اپنی قوم کے دین پر تھے، بعد میں ایمان لائے اس لئے ان کے حق میں توپرانے دین کی طرف لوٹنے کا لفظ صحیح ہے ؛ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) کبھی بھی ان کے دین پر نہیں رہے البتہ ان کی نبوت سے پہلے ان کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ انہی کے دین پر ہیں، اس لئے انہوں نے آپ کے لئے بھی لوٹنے کا لفظ استعمال کیا تھا، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جواب بھی انہی کے الفاظ میں دیا۔ 47: یہ اعلی درجے کی عبدیت کا فقرہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے پکے عزم سے اللہ تعالیٰ کو کسی بات پر مجبور نہیں کرسکتا، ہم نے اپنی طرف سے تو یہ پکا ارادہ کر رکھا ہے کہ کبھی تمہارا دین اختیار نہیں کریں گے لیکن اپنے اس عزم پر عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور اگر وہ چاہے توہمارے دلوں کو بھی پھیر سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ جب کوئی بندہ اخلاص کے ساتھ راہ راست پر رہنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اس کا دل گمراہی کی طرف نہیں پھیرتا اور ہر شخص کے اخلاص کی کیفیت کا اس کو پورا علم ہے، لہذا اخلاص کے ساتھ کسی بات کا پکا ارادہ کرلینے کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہئے کہ وہ اس ارادے کو پورا فرمائے گا، اس طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس جملے سے یہ عظیم سبق دیا ہے کہ کوئی بھی نیکی کرتے وقت بھروسہ اپنے عزم اور عمل کے بجائے اللہ تعالیٰ پر کرنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:89) افترینا۔ افتراء سے ماضی جمع متکلم۔ ہم نے بہتان باندھا۔ قد افترینا ۔۔ منھا۔ تقدیر کلام یوں ہے ان عدنا فی ملتکم بعد اذ بجنا اللہ منھا قد افترینا علی اللہ کذبا۔ باوجود اس کے کہ اللہ نے ہمیں اس (تمہارے دین) سے ہمیں نجات بخشی ہے اگر ہم تمہارے دین کی طرف لوٹتے ہیں تو ہماری طرف سے یہ اللہ تعالیٰ پر صریحاً جھوٹا بہتان ہوگا۔ وما یکون لنا۔ اور نہیں ہے (کوئی وجہ) ہمارے لئے۔ فیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب ملت مشرکین کی طرف راجع ہے۔ الا ان یشاء اللہ ربنا۔ یعنی ماسوائے اس کے کہ مشیت ایزدی ہی یہی ہو اور یہ ہمارا مقدر ہوچکا ہو۔ وسع ربنا کل شیء علما۔ تمیز اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ افتح۔ امر۔ واحد مذکر حاضر۔ تو فیصلہ کر دے۔ الفتاح۔ قاضی ۔ فیصلہ کرنے والا۔ الفتاحۃ۔ حکومت۔ فتح سے۔ فتح کے معنی فتح و نصرت بھی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 پھر بھی ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں گے ؟ حضرت شعیب ( علیہ السلام) ج کا یہ سوال انکار کے لیے ہے یعنی جب دلائل وبرہیم کی روشنی میں ہم تمہارے دین کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے بیز ارہو چکے ہیں تو اسے دوبارہ اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔3 یہ ان کی بات کا دوسر اجواب ہے جس میں تصریح کردی ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے مطلب یہ ہے کہ اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں تو ان کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اب تک جو ہم نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے رہے تھے وہ سب جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر بہتان تھا۔ یہاں بھی بعد اذ نجانا اللہ کہنا یا تو ان مومنوں کے اعتبار سے ہے جو حضرت شعیب ( علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے اور یا ان کے زعم کے مطابق حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے کہہ دیا ہے کہ وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے دین میں داخل سمجھتے تھے۔4 اس لیے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے چناچہ اب ہم ی دعویٰ کر رہے ہیں کہ دوبارہ تمہارا دین اختیار نہ کریں گے وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو دی ہوئی توفیق کی بنا پر کر رہے ہیں، کیونکہ ارادہ خواہ کتناہی نیک کیوں نہ ہو اس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیئت پر مو قوف ہے اس استثبا سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو اپنے خاتمہ بالخیر پر یقین نہ تھا انبیا کو تو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین ہو تو ہی ہے مگر یہ بات صرف اظہار عجز اور تفو یض کے طوپر کہی ہے یا دوسرے مومنین کے اعتبار علامہ واحدی لکھتے ہیں کہ ابنیا ( علیہ السلام) اور اکابر امت ہمیشہ ہی برے انجام سے پناہ مانگتے رہے ہیں۔ حضرت خلیل ( علیہ السلام) کی دعا واجنبنی وبی ان نعبد الا صنام، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموما ی دعا فرتے رہتے یا مقلب القلوب ثبث قلو بنا علی دینک اے دلوں کو استقامت بخشنے والے ہمیں اپنے دین پر ثابت قدمی کی توفیق تمہارے جبرو اکراہ سے تو ہم کفر اختیار نہیں کرسکتے ہاں بالفرض اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی ( معاذ الہ) یہی ہو تو دوسری بات ہے ( رازی)5 ہم اسی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں راہ حق پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے۔6 یعنی ان معاندین کے مقابلے میں ہماری مدد فرمایا ان پر عذاب نازل فرماکر ہمارے حق پر ادران کے باطل پر ہونے کو خوب واضح کردے ( رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ان کو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین نہ تھا انبیاء کو یقین دلایا جاتا ہے مقصود اظہار عجز اور تفویض الی المالک ہے جو کہ لوازم نبوت سے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95: جب حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کے تمرد وعناد کو دیکھ کر ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور قوم کی ایذاء رسانی انتہاء کو پہنچ گئی تو اب اللہ تعالیٰ سے آخری فیصلے کی دعاء مانگی۔ قال ابن عباس وکان شعیب کثیر الصلاۃ فلما۔۔۔ قومه فی کفرہم و غیظھم و یئس من صلاحھم دعا دلیھم فقال ربنا افتح الخ فاستجاب اللہ دعاء ہفاھلکہم بالرجفة (قرطبی ج 7 ص 251) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 اگر ہم تمہارے مذہب میں آجائیں اور پھر رسوم کفر یہ کا ارتکاب کرنے لگیں بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس ملت باطلہ سے نجات دی ہے تو یقیناً ہم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھنے والے اور جھوٹا طوفان اٹھانے والے ہوں گے اور ہم خدا پر افترا کریں گے اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں اور ہم کو ہرگز یہ زیبا نہیں کہ ہم اس ملت باطلہ میں واپس آئیں مگر اللہ تعالیٰ جو ہمارا پروردگار اور مالک ہے اسی کو ہمارا مرتد ہونا منظور ہو اور اسی کی مصلحت کا تقاضہ ہو تو بات دوسری ہے ہمارے پروردگار کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے اور ہمارے پروردگار کا علم ہر شئے سے وسیع ہے ہم نے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کررکھا ہے اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے مابین ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمادے اور تو تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے یعنی ایک دفعہ جب اللہ تعالیٰ نے غلط راہ سے ہم کو بچالیا تو اب یہ توقع کرنا اور ہم سے یہ مطالبہ کرنا کہ ہم اس دین باطل میں پھر لوٹ آئیں محض ایک غلط بات ہے ہاں ! اگر خدا تعالیٰ کی مصلحت اور اس کی مشیت کا تقاضا ہو تو بات دوسری ہے اگر ہم خدا نخواستہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا طوفان ہوگا کہ ایک دفعہ توحید کے قائل ہوکر پھر شرک کو اچھا کہنے لگے۔ اس لغو مطالبہ پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اہل باطل اور اہل حق کے مابین حق حق اور ٹھیک ٹھیک حق کے موافق فیصلہ فرما دے کیونکہ تو ہی تمام فیصلہ کرنے والوں میں بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔