Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 91

سورة الأعراف

فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ ﴿ۚۖۛ۹۱﴾

So the earthquake seized them, and they became within their home [corpses] fallen prone.

پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So the earthquake seized them and they lay (dead), prostrate in their homes. Allah said that the earthquake shook them, as punishment for threatening to expel Shu`ayb and his followers. Allah mentioned their end again in Surah Hud, وَلَمَّا جَأءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِى دِيَـرِهِمْ جَـثِمِينَ And when Our commandment came, We saved Shu`ayb and those who believed with him by a mercy from Us. And the Sayhah (loud cry) seized the wrongdoers, and they lay (dead) prostrate in their homes. (11:94) This Ayah mentions the Sayhah (cry) that struck them after they mocked Shu`ayb, saying, أَصَلَتُكَ تَأْمُرُكَ . (Does your Salah (prayer) command you...11:87), so it was befitting to mention here the cry that made them silence. In Surah Ash-Shu`ara, Allah said, فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ But they belied him, so the torment of the Day of Shadow (a gloomy cloud) seized them. Indeed that was the torment of a Great Day. (26:189) because they challenged Shu`ayb, فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاء ("So cause a piece of the heaven to fall on us, if you are of the truthful!)" (26:187). Therefore, Allah stated that each of these forms of punishment struck them on the Day of the Shadow. First, فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ So the torment of the Day of Shadow (a gloomy cloud) seized them (26:189), when a gloomy cloud came over them (containing) fire, flames and a tremendous light. Next, a cry from the sky descended on them and a tremor shook them from beneath. Consequently, their souls were captured, their lives were taken and their bodies became idle, فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (and they lay (dead), prostrate in their homes). Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عذاب میں ساری ہی چیزوں کا اجتماع ہوا پہلے بادل نے ان پر سایہ کیا جس میں شعلے چنگاریاں اور آگ کے بھبھوکے تھے، پھر آسمان سے سخت چیخ آئی اور زمین سے بھونچال، جس سے ان کی روحیں پرواز کر گئیں اور بےجان لاشے ہو کر پرندوں کی طرح گھٹنوں میں منہ دے کر اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧] اہل مدین پر عذاب :۔ اہل مدین پر عذاب کے بارے میں قرآن کریم کی بعض دوسری آیات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر تین طرح کا عذاب آیا تھا ظلۃ۔ صیحۃ اور رجفۃ یعنی ان پر پہلے ایک ایسا بادل چھا گیا جس میں سے آگ کے شعلے اور چنگاریاں نکلنے لگیں پھر اسی سے ایک ہولناک اور جگر خراش کرخت قسم کی آواز پیدا ہوئی اور اسی دوران نیچے سے زلزلہ نے آلیا اس طرح یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں موت کی آغوش میں چلے گئے اس حال میں کہ انہوں نے اوندھے پڑ کر اپنے سینوں کو زمین سے چمٹا رکھا تھا تاکہ انہیں اس عذاب سے کم سے کم تکلیف محسوس ہو۔ رہے شعیب اور ان کے ساتھی تو انہیں اللہ نے پہلے ہی اس بستی سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ۔۔ : ان پر عذاب دونوں طرح سے آیا، یعنی ” الرَّجْفَةُ “ (زلزلہ) بھی، جیسے یہاں مذکور ہے اور ” الصیحۃ “ (چیخ) بھی، جیسا کہ سورة ہود (٩٤) میں ہے۔ ” جٰثِمِيْنَ “ کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٧٨) کے حواشی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The punishment of the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) has been identified as earthquake (Rajfah, Zalzalah) while in other verses it appears as: فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ (26:189) which means that they were seized by the punishment of Yowm az-Zullah. Yowm az-Zullah means day of the shade. It refers to what happened to them when to come on them first was the shade of a deep and thick cloud under which they all assem¬bled. Then, from this very cloud, stones or fire was rained down. To accommodate and reconcile the sense of the two verses given above, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has said: First of all, the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) were subjected to such intense heat, as if the door of Hell has been thrown open towards them. This made them suffocate. Shade or water, nothing seemed to work. Driven by heat, they went into basements. They were more hot. With no choice left, they ran from the city into the nearby forest. There, Allah Ta` ala sent a thick cloud with cool breeze passing underneath. Out of their senses under the impact of heat, they all rushed for refuge under the shade of that cloud. At that time, the whole cloud became a cloud of fire raining on them and also came the earthquake which turned them to ashes. In this manner, the punishments of the earthquake and the shade had simultaneously converged on these people. (Al-Bahr Al Muhit) Some commentators have said that it is also possible that the peo¬ple of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) were split in different groups or sec¬tions where some were hit by the earthquake while others were de¬stroyed by the punishment of the shade.

چوتھی آیت میں اس سرکش قوم کے عذاب کا واقعہ اس طرح ذکر فرمایا (آیت) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ یعنی ان کو سخت اور عظیم زلزلہ نے آپکڑا جس سے وہ اپنے گھروں میں اندھے پڑے رہ گئے۔ قوم شعیب (علیہ السلام) کا عذاب اس آیت میں زلزلہ کو بتلایا ہے اور دوسری آیات میں (آیت) فاخذہم عذاب یوم الظلہ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو یوم الظلة کے عذاب نے پکڑ لیا۔ یوم الظلة کے معنی ہیں سایہ کا دن۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ان پر گہرے بادل کا سایہ آیا جب سب اس کے نیچے جمع ہوگئے تو اسی بادل سے ان پر پتھر یا آگ برسائی گئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے ان دونوں آیتوں میں تطبیق کے لئے فرمایا کہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر اول تو ایسی سخت گرمی مسلط ہوئی جیسے جہنم کا دروازہ ان کی طرف کھول دیا گیا ہو جس سے ان کا دم گھٹنے لگا نہ کسی سایہ میں چین آتا تھا نہ پانی میں۔ یہ لوگ گرمی سے گھبرا کر تہ خانوں میں گھس گئے تو وہاں اوپر سے بھی زیادہ سخت گرمی پائی۔ پریشان ہو کر شہر سے جنگل کی طرف بھاگے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ایک گہرا بادل بھیج دیا جس کے نیچے ٹھنڈی ہوا تھی۔ یہ سب لوگ گرمی سے بدحواس تھے دوڑ دوڑ کر اس بادل کے نیچے جمع ہوگئے۔ اس وقت یہ سارا بادل آگ ہو کر ان پر برسا اور زلزلہ بھی آیا جس سے یہ سب لوگ راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئے۔ اس طرح اس قوم پر زلزلہ اور عذاب ظلہ دونوں جمع ہوگئے (بحر محیط) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ قوم شعیب (علیہ السلام) کے مختلف حصے ہو کر بعض پر زلزلہ آیا اور بعض عذاب ظلہ سے ہلاک کئے گئے ہوں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِہِمْ جٰثِمِيْنَ۝ ٩١ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ رجف الرَّجْفُ : الاضطراب الشدید، يقال : رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر، وبحر رَجَّافٌ. قال تعالی: يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات/ 6] ، يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل/ 14] ، فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف/ 78] ، والإِرْجَافُ : إيقاع الرّجفة، إمّا بالفعل، وإمّا بالقول، قال تعالی: وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ويقال : الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . ( ر ج ف ) الرجف ( ن ) اضطراب شدید کو کہتے ہیں اور رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر کے معنی زمین یا سمندر میں زلزلہ آنا کے ہیں ۔ بحر رَجَّافٌ : متلاطم سمندر ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل/ 14] جب کہ زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات/ 6] جب کہ زمین لرز جائے گی فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف/ 78] پس ان کو زلزلہ نے پالیا ۔ الارجاف ( افعال ) کوئی جھوٹی افواہ پھیلا کر یا کسی کام کے ذریعہ اضطراب پھیلانا کے ہیں قران میں ہے : ۔ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَة اور جو لوگ مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . کہ جھوٹی افوا ہیں فتنوں کی جڑ ہیں ۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ جثم فَأَصْبَحُوا فِي دارِهِمْ جاثِمِينَ [ الأعراف/ 78] ، استعارة للمقیمین، من قولهم : جَثَمَ الطائرُ إذا قعد ولطئ بالأرض، والجُثْمَان : شخص الإنسان قاعدا،. ( ج ث م ) جثم ( ض ن ) جثما وجثوما ۔ الطائر پرندے کا زمین پر سینہ کے بل بیٹھنا اور اس کے ساتھ چمٹ جانا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر فرمایا : ۔ فَأَصْبَحُوا فِي دارِهِمْ جاثِمِينَ [ الأعراف/ 78] اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔ الجثمان بیٹھے ہوئے انسان کا شخص ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١۔ ٩٢) نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو عذاب الہی نے زلزلہ اور فرشتے کی چیخ کی صورت میں آپگڑا جس سے وہ سب اپنے شہروں اور لشکروں میں ہر کر ایسے ہلاک ہوئے جیسے زمین میں ان کا نام ونشان بھی باقی نہ تھا اور عذاب سے یہی لوگ خسارہ میں پڑگئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: اس قوم پر جو عذاب آیا اس کے لئے قرآنِ کریم نے یہاں زلزلے کا ذکر فرمایا ہے، سورۂ ہود (۱۱:۹۴) میں اس کو ’’صیحہ‘‘ یعنی ’’چنگھاڑ‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اور سورۂ شعراء میں اسے ’’عذاب یوم الظلہ‘‘ یعنی ’’سائبان کے دن کا عذاب‘‘ فرمایا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے ایک روایت یہ ہے کہ ان لوگوں پر پہلے سخت گرمی پڑی جس سے یہ بلبلا اٹھے پھر شہر سے ایک بادل آیا جس میں ٹھنڈی ہوا تھی۔ یہ لوگ گھروں سے نکل کر اس کے نیچے جمع ہوگئے۔ اس وقت اس بادل سے آگ برسائی گئی، جسے ’’سائبان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، پھر زلزلہ آیا (روح المعانی) اور زلزلے کے ساتھ عموما آواز بھی ہوتی ہے جسے چنگھاڑ کہا گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ان پر عذاب دونوں طرح سے آیا یعنی رجفتہ ( زلزلہ) بھی جیسے یہاں مذکور ہے اور صیحتہ (چیخ) بھی جیسا کہ سورة ہود میں مذکور ہے۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْنَ (91) ” مگر ہوا یہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔ “ رجفہ ایسی آفت جو دہلا دیتی ہے اور اوندھا گرا دیتی ہے ‘ اس لئے کہ انہیں اپنی دھمکیاں اور دست درازیاں یاد آجائیں کہ وہی تو تھے جو اہل ایمان کو اذیتیں دیتے تھے ۔ اب اللہ تعالیٰ ان کے اس دعوے کا جواب انہیں الفاظ میں دیتے ہیں ۔ وہ کہتے تھے ۔ آیت ” لئن اتبعتم ۔۔۔۔ (٧ : ٩١) ” اگر تم نے شعیب کا اتباع کیا تو تم برباد ہوجاؤ گے ۔ “ یہ بات وہ مومنین کو بطور تہدید کہتے تھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے شعیب کی اطاعت کی وہ نہیں بلکہ وہ لوگ برباد ہوئے جنہوں نے مخالفت کی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

97:“ اَلرَّجْفَةُ ” زلزلہ (قرطبی) ۔ ایک شدید زلزلہ آیا جس سے وہ تمام ہلاک ہوگئے اور اسے ہلاک ہوئے گویا کہ وہ اپنے گھروں میں کبھی آباد ہی نہ تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

91 جب متکبر سرداروں نے یہاں تک مزاحمت اختیار کی تو آخر کار ان کو بھی زلزلہ نے دفعتہً آپکڑا پھر وہ اپنے گھروں میں منہ کے بل پڑے کے پڑے رہ گئے اور اوندھے منہ گرے کے گرے رہ گئے۔