Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 92

سورة الأعراف

الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا شُعَیۡبًا کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ۚ ۛ اَلَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا شُعَیۡبًا کَانُوۡا ہُمُ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۹۲﴾

Those who denied Shu'ayb - it was as though they had never resided there. Those who denied Shu'ayb - it was they who were the losers.

جنہوں نے شعیب ( علیہ السلام ) کی تکذ یب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے جنہوں نے شعیب ( علیہ السلام ) کی تکذیب کی تھی و ہی خسارے میں پڑ گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَا ... Those who belied Shu`ayb, became as if they had never dwelt there (in their homes). meaning, after the torment seized them, it looked as if they never dwelled in the land from which they wanted to expel their Messenger Shu`ayb and his followers. Here, Allah refuted their earlier statement, ... الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْبًا كَانُواْ هُمُ الْخَاسِرِينَ Those who belied Shu`ayb, they were the losers. Allah tells;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 یعنی جس بستی سے یہ اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو نکالنے پر تلے ہوئے تھے اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہونے کے بعد ایسے ہوگئے جیسے وہ یہاں رہتے ہی نہ تھے۔ 92۔ 2 یعنی خسارے میں وہی لوگ رہے جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی، نہ کہ پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے۔ اور خسارہ بھی دونوں جہانوں میں۔ دنیا میں بھی ذلت کا عذاب چکھا اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ عذاب شدید ان کے لئے تیار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] اس عذاب کے بعد ان کی بستیاں یوں سنسان اور ویران ہوگئیں جیسے وہاں کبھی لوگ آباد ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو یہاں سے ملک بدر کردیں گے یا پھر تمہیں ہمارا ہی مذہب اختیار کرنا پڑے گا یہ تھا اللہ کے پیغمبر اور اس کی آیات کو جھٹلانے کا انجام کہ دھمکی دینے والے خود ہی نیست و نابود ہوگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا : ” غَنِیَ یَغْنَی (س) “ کا معنی ہے کسی جگہ رہنا، یعنی وہ جو شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بستی سے نکالنے کے درپے تھے وہ خود اس طرح ہوگئے جیسے وہ کبھی اس میں رہے ہی نہیں تھے اور انھیں خسارے سے ڈرانے والے خود ہی خسارا اٹھانے والے ہوگئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 92, the fate of the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) has been cited as a lesson - which is the real purpose behind the descrip¬tion of this event. It was said: الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا (Those who belied Shu&aib are as if they never dwelt there). One of the meanings of the word: غِنیٰ (ghina) is to live at some place in peace and comfort. At this place, this is the meaning intended. The sense of the sentence is that the homes where they lived in peace and comfort, turned so deserted after this punishment as if peace and comfort had never existed there. Then, it was said: الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِ‌ينَ (Those who belied Shu&aib were themselves the losers). The hint given is that these were the people threatening to throw Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) and his believing companions out from their city, but, in the end, the loss hit none but them.

پانچویں آیت میں قوم شعیب کے واقعہ سے دوسروں کو عبرت کا سبق دیا گیا ہے جو اس واقعہ کے بیان کا اصل مقصود ہے۔ فرمایا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا، لفظ غنی کے ایک معنی کسی مقام میں خوش عیشی کے ساتھ بسر کرنے کے بھی آتے ہیں اس جگہ یہی معنی مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جن مکانات میں آرام و عیش کی زندگی گزارتے تھے۔ اس عذاب کے بعد ایسے ہوگئے کہ گویا کبھی یہاں آرام و عیش کا نام ہی نہ تھا۔ پھر فرمایا اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِيْنَ یعنی جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا وہی لوگ خسارہ میں پڑے۔ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھیوں کو اپنی بشتی سے نکال دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ انجام کار خسارہ انھیں پر پڑا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْہَا۝ ٠ ۚۛ اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَانُوْا ہُمُ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٩٢ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75. The destruction of the people of Midian remained proverbial in Arabia for a long time. As such the following lines in Psalms are significant: Yea, they conspire with one accord; against thee they make a covenant - the tents of Edom and the Ish'maelites. Moab and the Hagrites, Gebal and Ammon and Am'alek, Philistia with the inhabitants of Tyre; Assyria also has joined them; they are the strong arms of the children of Lot. Do to them as thou didst to Mid'ian (Psalms 83: 5-9). Note also the following statement in Isaiah: A remnant will return, the remnant of Jacob, to the mighty God. For though your people Israel be as the sand of the sea, only a remnant of them will return. Destruction is decreed, overflowing with righteousness. For the Lord, the Lord of hosts, will make a full end, as decreed, in the midst of all the earth. Therefore, thus says the Lord, the Lord of hosts: 'O my people, who dwell in Zion be not afraid of the Assyrians when they smite you with their rod and lift up their staff against you as the Egyptians did. For in a very little while my indignation will come to an end, and my anger will be directed to their destruction. And the Lord of hosts will wield against them a scourge, as when he smote Mid'ian at the rock of Oreb . . .' (Isaiah 10: 21-6).

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :75 مدین کی یہ تباہی مدتہائے دراز تک آس پاس کی قوموں میں ضرب المثل رہی ہے ۔ چنانچہ زبور داؤد میں ایک جگہ آتا ہے کہ اے خدا فلاں فلاں قوموں نے تیرے خلاف عہد باندھ لیا ہے لہٰذا تو ان کے ساتھ وہی کر جو تو نے مدیان کے ساتھ کیا ( ۸۳ ۔ ۵تا۹ ) ۔ اور یَسعِیاہ بنی ایک جگہ بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آشور والوں سے نہ ڈرو ، اگرچہ وہ تمہارے لیے مصریوں کی طرح ظالم بنے جا رہے ہیں لیکن کچھ دیر نہ گزرے گی کہ رب الافواج ان پر اپنا کوڑا برسائے گا اور ان کا وہی حشر ہوگا جو مَدیان کا ہوا ( یسعیاہ: ١۰ ۔ ۲١ تا ۲٦ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:92) لم یغنوا فیہا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ غنی مصدر (باب سمع) انہوں نے قیام نہیں کیا (گویا وہ کبھی بستے ہی نہ تھے) غنیت بالمکان۔ میں مکان میں ٹھہرا ۔ قیام کیا۔ غنی القوم فی وارھم۔ لوگوں نے اپنے گھروں میں مدت تک قیام کیا۔ مغنی۔ قیام گاہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 جو ایمان لائے ان

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ شُعَیْْباً کَأَن لَّمْ یَغْنَوْاْ فِیْہَا الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ شُعَیْْباً کَانُواْ ہُمُ الْخَاسِرِیْنَ (92) ” لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں ہی نہ تھے ۔ شعیب کے جھٹلانے والے ہی آخرکار برباد ہوکر رہے “۔ آنکھ جھپکتے ہی ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھروں میں اوندھے پڑے ہیں ‘ بےحس و حرکت گویا انہوں نے ان گھروں کو تعمیر نہیں کیا اور گویا اب ان گھروں میں ان کے کچھ آثار بھی باقی نہیں ہیں ۔ اب ان کی تاریخ کے ان صفحات کو اس طرح پست کرکے رکھ دیا جاتا ہے اور ان کو ذلیل و خوار کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ وہ رسول جو ان کا بھائی ہے ان سے جدا ہوجاتا ہے ‘ اس لئے کہ ان کی راہیں جدا ہیں ‘ اور ان کے نظریات جدا ہیں ۔ اب اس منظر میں نظر آتا ہے ۔ وہ رسول جو ان کا بھائی ہے ان سے جدا ہوجاتا ہے ‘ اس لئے کہ انکی راہیں ہیں ‘ اور انکے نظریات جدا ہیں ۔ اب اس منظر میں نظر آتا ہے کہ انکے انجام بھی جدا ہیں اور اب ان کے اس انجام بد پر ان کے حقیقی بھائی کو بھی کوئی تاسف نہیں ہوتا کہ کس طرح انہیں نیست ونابود کردیا گیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 وہ لوگ جو شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کے خوگر تھے وہ ایسے ہوگئے گویا کبھی ان گھروں میں سے بسے ہی نہ تھے وہ لوگ جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا وہی نقصان اٹھانے والے ہوئے اور وہی خسارے میں پڑے یعنی جو شعیب (علیہ السلام) کو بستی سے نکالنا چاہتے تھے انہی کو بستی میں رہنا نصیب نہ ہوا اور جو شعیب (علیہ السلام) کی اتباع کو موجب خسارہ کہتے تھے انہی کو نقصان اٹھانا پڑا اور وہی خسارے میں پڑے۔