Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 95

سورة الأعراف

ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۹۵﴾

Then We exchanged in place of the bad [condition], good, until they increased [and prospered] and said, "Our fathers [also] were touched with hardship and ease." So We seized them suddenly while they did not perceive.

پھر ہم نے اس بد حالی کی جگہ خوش حالی بدل دی ، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی اور کہنے لگے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا اور ان کو خبر بھی نہ تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّيَةِ الْحَسَنَةَ ... Then We changed the evil for the good, Therefore, Allah changed the hardship into prosperity, disease and sickness into health and well-being, and poverty into richness in provision, so that they might be thankful to Allah for this, but they did none of that. Allah's statement, ... حَتَّى عَفَواْ ... until they `Afaw, refers to increase in numbers, wealth and offspring. Allah said next, ... وَّقَالُواْ قَدْ مَسَّ ابَاءنَا الضَّرَّاء وَالسَّرَّاء ... ... and they said: "Our fathers were touched with evil and with good." He tested them with this (afflictions) and that (ease and abundance) so that they may humble themselves and repent to Him. However, they failed both tests, for neither this nor that compelled them to change their ways. They said, "We suffered Ba'sa' and Darra', but prosperity came afterwards, just as like our forefathers in earlier times." "Therefore," they said, "it is a cycle where we sometimes suffer a hardship and at other times, we enjoy a bounty." However, they did not comprehend Allah's wisdom, nor the fact that He is testing them in both cases. To the contrary, the believers are grateful to Allah in good times and practice patience in hard times. In the Sahih, there is a Hadith that says; عَجَبًا لِلْمُوْمِنِ لاَ يَقْضِي اللهُ لَهُ قَضَاءً إِلاَّ كَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَه The matter of the believer is amazing, for nothing that Allah decrees for him, but it is better for him. If a Darra' (harm) strikes him, he is patient, and this is better for him, if he is given Sarra' (prosperity), he thanks (Allah) for it and this is better for him. The believer, therefore, is aware of the test behind the afflictions whether it may be prosperity or adversity that Allah sends to him, as well as the blessings. Similarly, in another Hadith, لاَايَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُوْمِنِ حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنْ ذُنُوبِهِ The believer will continue to be tested by afflictions until he ends up pure from sin. وَالْمُنَافِق مِثْله كَمَثَلِ الْحِمَارِ لاَا يَدْرِي فِيمَ رَبَطَهُ أَهْلُهُ وَلاَا فِيمَ أَرْسَلُوه And the parable of the hypocrite is that of a donkey, it does not know why its owners tied it or released it. Allah said next, ... فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ So We seized them all of a sudden while they were unaware. meaning, We struck them with punishment all of a sudden, while they were unaware. A Hadith describes sudden death, مَوْتُ الْفَجْأَةِ رَحْمَةٌ لِلْمُوْمِنِ وَأَخْذَةُ أَسَفٍ لِلْكَافِر Sudden death is a mercy for the believer, but a sorrowful punishment for the disbeliever.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 یعنی فقر و بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا جب کے ان کے اندر رجوع الی اللہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوا تو ہم نے ان کو تنگ دستی کو خوش حالی سے اور بیماری کو صحت عافیت سے بدل دیا تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر کریں۔ لیکن اس انقلاب حال سے بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے کہا یہ تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے تو پھر ہم نے اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ اسی لیے حدیث مومنوں کا معاملہ اس کے برعکس بیان فرمایا گیا ہے۔ کہ وہ ارام وراحت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تکلیف پہنچنے پر صبر سے کام لیتے ہیں یوں دونوں ہی حالتیں ان کے لیے خیر اور اجر کا باعث ہوتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَان السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ ۔۔ : ” عَفَوْا “ یہ ” عَفَا یَعْفُوْ “ سے ماضی معلوم جمع مذکر غائب ہے، معنی ہے ” بڑھ گئے۔ “ باب افعال کا معنی ” بڑھانا “ ہے، جیسا کہ فرمایا : ( أَعْفُوا اللِّحَی ) [ بخاری، اللباس، باب إعفاء اللحی : ٥٨٩٣]” ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ۔ “ مگر جب انھوں نے ایسا نہ کیا تو ہم نے بدحالی کی جگہ انھیں خوش حالی دے کر واپس پلٹنے کا موقع دیا، انھیں قحط کے بجائے ارزانی اور بیماری کے بجائے تندرستی عطا فرمائی، آبادی ان کی خوب بڑھ گئی اور مال و دولت کی ریل پیل ہوگئی، تو ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے رب کے رسول پر ایمان لے آنے کے بجائے پہلی سختی کو بھول گئے اور ان نعمتوں کی بھی قدر نہ کی اور کہنے لگے، اگر ہم قحط اور دوسری مصیبتوں میں مبتلا ہوئے تو محض زمانے کی گردش کی وجہ سے ہوئے ہیں نہ کہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے۔ دنیا میں ایسے ہوتا ہی رہتا ہے، موسم کے تغیر سے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی بیماری اور کبھی تندرستی، کبھی خوش حالی اور کبھی بدحالی وغیرہ۔ یہ حالات ہمیں کو نہیں بلکہ ہمارے باپ دادا کو بھی پیش آتے رہے ہیں، مگر جلد ہی ٹلتے بھی رہے ہیں، اس قسم کے حالات پیش آنے میں انسانوں کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسی توجیہات اب بعض مسلمان بھی کرنے لگے ہیں۔ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : یعنی جب اللہ تعالیٰ کو اس طرح فراموش کر بیٹھے تو یکایک اللہ کا غضب نازل ہوا اور ایسا عذاب آیا کہ آن کی آن میں سب نیست و نابود ہوگئے۔ ان قوموں کے بعد فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے، فرعون کی قوم پر تنگی اور تکلیف کی گرفت متعدد بار آئی، مثلاً طوفان، جراد اور قمل وغیرہ، مگر انھوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پہلی قوموں کی طرح اچانک عذاب آیا اور سمندر میں غرق کردیے گئے۔ اس کے برعکس مومنین خوش حالی میں شکر اور تنگ دستی میں صبر کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، کیونکہ اس کا سارا معاملہ بہترین ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ “ [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩ ] اس آیت کی تشریح میں شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” بندے کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنچتی ہے تو امید ہے توبہ کرے اور جب گناہ راست (موافق) آگیا تو یہ اللہ تعالیٰ کا بھلاوا ہے، پھر ڈر ہے ہلاک (ہونے) کا، جیسے زہر کھایا، اگل دے تو امید ہے اور اگر پچ گیا (ہضم ہوگیا) تو کام آخر ہوا۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Arabic word: سَّيِّئَةِ &sayyiah& in this verse refers to distress, while the word: حَسَنَةَ &hasanah& signifies prosperity, and the word عَفَو ` Afw&: signifies increase or growth. The verse implies firstly that, they were made to undergo a test of hardship and suffering in order that they may repent and turn to Allah. When they did not take lesson from this warning and were a failure in this test, they were put to another test of a different kind. Their adversity was replaced with prosperity and their distress with ease and comfort until they increased in number and strength. This prosperity, after a long period of adversity, should have made them grateful to their Lord and they should have repented to Allah, but being completely lost in material pursuits and perverted by their mundane desires, they did nothing but to say, &The suffering and prosperity came to our fathers (too).& that is, their suffering and prosperity had nothing to do with their deeds, it was just a natural course of changing phenomena. It was after their obstinate persistence in their evil and ignorance that they were seized by the punishment of Allah. The verse said, &Then We seized them suddenly while they were unaware.&

اس کے بعد دسری آیت میں فرمایا ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَان السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا، اس میں سیہ سے مراد وہ فقر وفاقہ یا بیماری کی بد حالی ہے جس کا ذکر اوپر آیا اور حسنہ سے مراد اس کے بالمقابل مال میں وسعت وفراخی اور بدن میں صحت و سلامت ہے اور لفظ عفوا، عفو سے بنا ہے جس کے معنی بڑھنے اور ترقی کرنے کے بھی ہیں، کہا جاتا ہے عفا النبات گھاس یا درخت بڑھ گئے اور ترقی کرگئے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلا امتحان ان لوگوں کو فقر وفاقہ اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کرکے لیا گیا تھا جب اس میں ناکامیاب ہوئے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ ہوئے تو دوسرا امتحان اس طرح لیا گیا کہ ان کے فقروفاقہ کے بجائے مال و دولت کی وسعت اور بیماری کے بجائے صحت و سلامت ان کو عطا کردی گئی یہاں تک کہ وہ خوب بڑھ گئے اور ہر چیز میں ترقی کرگئے) اس امتحان کا حاصل یہ تھا کہ مصیبت کے بعد راحت اور دولت ملنے پر وہ شکر گزار ہوں اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں لیکن یہ غفلت شعار مادی راحتوں میں اور لذتوں میں بدمست اس سے بھی ہوشیار نہ ہوئے بلکہ یہ کہنے لگے کہ (وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ ) یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں اور نہ یہ کسی اچھے یا برے عمل کا نتیجہ ہے بلکہ زمانہ کی عادت ہی یہی ہے کہ کبھی ایسے ہی حالات پیش آئے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ پہلا امتحان تکلیف و مصیبت کے ذریعہ کیا گیا اس میں ناکام ہوئے، دوسرا امتحان راحت و دولت سے کیا گیا اس میں ناکام رہے اور کسی طرح اپنی گمراہی سے باز نہ آئے، تب اچانک عذاب میں پکڑے گئے فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ، بغتة کے معنی اچانک۔ مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ دونوں قسم کی آزمائشوں میں ناکام رہے اور ہوش میں نہ آئے تو پھر ہم نے ان کو اچانک اس طرح عذاب میں پکڑ لیا کہ ان کو اس کی خبر بھی نہ تھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَۃِ الْحَسَـنَۃَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ فَاَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ٩٥ ثمَ ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و : ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] فهو في موضع المفعول ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ «مَكَانُ»( استکان) قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی سراء، ضراء والنعماء والضراء قيل انها مصادر بمعنی المسرة والنعمة والمضرة والصواب انها أسماء للمصادر ولیست أنفسها فالسراء الرخاء والنعماء النعمة والضراء الشدة فهي أسماء لهذه المعاني فإذا قلنا إنها مصادر کانت عبارة عن نفس الفعل الذي هو المعنی وإذا کانت أسماء لها کانت عبارة عن المحصّل لهذه المعاني . بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَان السَّیِّءَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَ نَا الضَّرَّآءُ وَالسَّرَّآءُ ) (فَاَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ) جب وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے رہے تو ان پر دنیاوی آسائشوں کے دہانے کھول دیے گئے کہ اب کھاؤ ‘ پیو اور عیش کرو۔ پھر وہ عیش و عشرت کی زندگی میں اس قدر مگن ہوئے کہ سختیوں کے دور کو بالکل ہی بھول گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں ‘ اس میں امتحان اور آزمائش کی کون سی بات ہے ‘ حتیٰ کہ ان کی پکڑ کی گھڑی آن پہنچی اور انہیں اس کا شعور ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت یوں اچانک آجائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. After narrating individually the stories of how various nations responded to the Message of their Prophets, the Qur'an now spells out the general rule which has been operative throughout the ages. First, before the appearance of a Prophet in any nation, conditions that would conduce to the acceptance of his Message were created. This was usually done by subjecting the nations concerned to a variety of afflictions and punishments. They were made to suffer miseries such as famine, epidemics, colossal losses in trade and business, defeat in war. Such events usually have a healthy impact on people. They lead to a softening in their hearts. They generate humility and modesty. They enable people to shake off their pride and shatter their reliance on wealth and power and induce thern to trust the One Who is all-powerful and fully controls their destiny. Above all, such events incline people to heed the words of warning and to turn to God in humility. But if the people continue to refrain from embracing the truth they are subjected to another kind of test - that of affluence. This last test signals the beginning of their destruction. Rolling in abundant wealth and luxury, people are inclined to forget the hard times they have experienced. Their foolish leaders also inculcate in their minds an altogether preposterous concept of history. They explain the rise and fall of nations and the alternation of prosperity and adversity among human beings by reference to blind natural forces, and in total disregard of moral values. Hence if a nation is seized by an affliction or scourge, such people see no reason why it should be explained in terms of moral failure. They are rather inclined to consider that a person's readiness to heed moral admonition or to turn humbly towards God, is a sign of psychological infirmity. This foolish mentality has been portrayed all too well by the Prophet (peace be on him): 'A believer continually faces adversity until he comes out of it purified of his sins. As for the hypocrite, his likeness in adversity is that of a donkey who does not know why his master had tied him and why he later released him.' (Cited by Ibn Kathir in his comments on the verse - Ed.) Hence, when a people become so hard of heart that they neither turn to God in suffering, nor thank Him for His bounties in prosperity, they are liable to be destroyed at any moment. It should be noted that the above rule which was applied to the nations of the previous Prophets, was also applied in the time of the Prophet Muhammad (peace be on him). When this surah was revealed the Quraysh displayed exactly the same characteristics and attitudes as those nations which had earlier been destroyed. According to a tradition narrated by both 'Abd Allah b. Mas'ud and Abd Allah b. 'Abbas, as the Quraysh grew in defiance to the Prophet's call, he prayed to God that he might be assisted by inflicting famine on the Quraysh, as in the days of the Prophet Joseph. Accordingly, God subjected the Quraysh to such a severe famine that they took to subsisting on carcasses, the skins of animals, bones, and wool. Unnerved by this the Quraysh, led by Abu Sufyan, implored the Prophet (peace be on him) to pray to God on their behalf. But when the Prophets prayer helped to improve the situation somewhat, the Quraysh reverted to their arrogant and ignorant way's. (Bukhari, Kitab al-Taharah, Bab idha istashfa'a al-Mushrikun bi al-Muslim' - Ed.) The wicked ones among them tried to dissuade from God those who had derived some lesson from the famine. They argued that famines take place in course of operation of natural laws, that they are merely a recurrent physical phenomenon. They emphasized that the occurrence of famine should not mislead people into believing in Muhammad (peace be on him). It was during this time that the surah under discussion was revealed. The above verses were thus quite relevant and it is against this backdrop that one appreciates their full significance. (For details see Yunus 10: 21, al-Nahl 16: 112, al-Muminun 23: 75-6; and al-Dukhan 44: 9-16.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :77 ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا ۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا ۔ قحط ، وبا ، تجارتی خسارے ، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں ۔ تا کہ اس کا دل نرم پڑے ، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو ، اس کا غرور طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے ، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہو جائے ، اسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں ، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہو جائے ۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبول ِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہو جاتی ہے ۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے برے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اُتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے ، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے ۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے: لایزال البلا بالمؤمن حتٰی یخرجَ نقیاً من ذنوبہٖ ، والمنافقُ مَثَلہُ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہ اھلہ ولاَ فِیمَ ارسلوہ ۔ یعنی”مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے ، لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا ۔ “پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے ، نہ نعمتوں پر وہ شکرگزار ہوتی ہے ، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بربادی اس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کب اس کا وضع حمل ہو جائے ۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا اور شامت زدہ قوموں کے جس طرزِ عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ، ٹھیک وہی طرزِ عمل سورہ اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا ۔ حدیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا ، یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت قحط میں مبتلا کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے ، چمڑے اور ہڈیاں اور اُون تک کھا گئے ۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے ، جن میں ابو سفیان پیش پیش تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے ۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ بُرا وقت ٹال دیا ور بھلے دن آئے تو ان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں ، اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کر دیا کہ میاں ، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤ ہے ۔ پہلے بھی آخر قحط آتے ہی رہے ہیں ، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا ، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پھندے میں نہ پھنس جانا ۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورہ اعراف نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ان کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو یونس ، آیت ۲١ ۔ النحل ١١۲ ۔ المومنون ۵ ۔ ۷٦ ۔ الدخان ۹ ۔ ١٦ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:95) السیئۃ اصل میں سوأۃ تھا واؤ کو ی سے بدل کر ی کو ی میں مدغم کردیا گیا ہے ۔ بمعنی برائی۔ خطاکاری۔ گناہ۔ فعل بد۔ ہر وہ شی جو فی نفسہ یا نتیجہ آسائش۔ فرحت و اطمینان کا باعث بنے۔ نیکی۔ نیکوکاری۔ خوشحالی۔ سلامتی۔ عفوا۔ عفا یعفوا (نصر) وہ بڑھ گئے۔ وہ زیادہ ہوگئے۔ عفو سے جس کے معنی زیادہ ہونے کے ہیں۔ عفوا۔ ای کثروا فی انفسھم واموالہم۔ مال و جان میں کثرت ہونا۔ السرائ۔ نعمت ۔ فراخی۔ خوشی۔ اصل میں حالت شادمانی کا نام سرا ہے۔ بغتۃ۔ اچانک۔ ایک دم۔ یکایک۔ دفعۃً ۔ آیات 94، 95 میں بعض کے نزدیک نبی کے بعد فکذبوہ محذوف ہے۔ یعنی ہم نے جب کبھی کسی بستی میں نبی بھیجا تو انہوں نے اسے جھٹلایا۔ تو ہم نے ان کو محتاجی اور بیماری میں پکڑ لیا۔ لیکن بعض کے نزدیک یضرعون کے بعد اضمار ہے یعنی ولکن لم یضرعوا محذوف ہے کہ ہم نے ان پر محتاجی اور بیماری عائد کردی کہ وہ سرکشی سے باز آئیں۔ لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ۔ تو ہم نے ان کو دوسرا موقع دیا اور ان کی تنگی اور بیماری کو فراخی اور مال و جان کی کثرت میں بدل دیا۔ کہ شاید اب اللہ کی طرف جھکیں گے اور ہمارے رسولوں کا اتباع کریں گے۔ لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو اچانک سزا کے طور پر ہم نے ان کو اپنی گرفت میں جکڑ دیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی قحط کی بجائے خوب ارزانی کی اور بیماری کی بجائے تندرستی دی۔3 یعنی ان کی آبادی بڑھ گئی اور مال و دولت کی خوب ریل پیل ہوگئی اور وہ اپنی پچھلی سختیوں کو بھول گئے،4 یعنی اگر ہم قحط اور دوسری سختیوں میں مبتلا ہوئے ہیں تو محض زمانے کی گردش کی وجہ سے ہوئے ہیں کہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے، دنیا میں اس یا ہوتا ہی رہتا ہے۔ موسم کے تٖغیر سے حالات بدلے تے رہتے ہیں کبھی بیماری اور کبھی تندرستی کبھی خوش حالی اور کبھی بدحالی۔ یہ حالات ہمیں کو نہیں بلکہ ہمراے باپ دادا کو بھی آتے ہیں ہیں مگر جلدی ہی ٹلتے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے حالات پیش آنے میں انسانوں کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسی توجیہات اب بعض مسلمانوں بھی کرنے لگے ہیں۔5 یعنی اللہ تعالیٰ کو اس طرح فراموش کر بیٹھے تو یکایک اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور ایسا عذان آیا کہ آن کی آن میں سب نیست ونابود ہوگئے۔ اس کے بر عکس مومنین خوشحالی میں لشکر اور تنگدستی میں صبر کرتے ہیں جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے م : مومن کا معاملہ بھی خوب ہے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہرحال میں اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے وار خو شحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں بندے کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنتی ہے تو امید ہے کہ تو بنہ کرے اور جب گناہ راست آگیا تو اللہ تعالیٰ کا بھلا وا ہے اور اگاربیچ گیا تو کام آخر ہوا ّ موضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ ۔ " اس کے بعد ہم نے ان کی بد حالی کو خوشحالی سے بدل دیا "۔ سختی کی جگہ نرمی آگئی ، تنگی کی جگہ فراوانی آگئی۔ غربت کی جگہ انعامات آگئے ، بیماری کی جگہ صحت آگئی ، اولاد کی کمی کی جگہ کثرت اولاد آگئی ، ہر چیز میں کمی کی جگہ کثرت نے لے لی ، اور خوف کی جگہ امن آگیا۔ چناچہ عیش و آرام کے تمام ساز و سامان مہیا ہوگئے ، ناز و نعمت اور کھانے پینے کے لئے سامان فراہم ہوگئے۔ لیکن اللہ کے اس اصول کے مطابق در اصل یہ سب کچھ ایک قسم کی ازمائش تھی۔ اگر کسی کو مصائب میں مبتلا کر کے آزمائش میں ڈالا جائے تو بعض اوقات اس پر لوگ صبر کرتے ہیں اور اکثر لوگ اس کو برداشت کرتے ہیں۔ کیونکہ شدت سے فریق مخالف میں دفاعی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ ظلم اور شدت کا شکار شخص بعض اوقات اللہ کو یاد کرکے قوت حاصل کرتا ہے۔ بشرطیکہ اس میں بھلائی کی کوئی رمق ابھی باقی ہو۔ ایسا شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے عاجزی اور زاری کرتا ہے اور ذکر الٰہی کے سایہ میں وہ اطمینان و سکون حاصل کرلیتا ہے۔ یاد رہے کہ ذکر الٰہی کے آفاق وسیع ہیں اور اس کے میدان طویل و عریض ہیں اور اللہ کی جانب سے ذاکرین کے لئے جو وعدے ہوتے ہیں ، ان میں ان کے لئے خشخبری ہوتی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کو مال کی فراوانی کے ذریعے آزماتا ہے تو یہ ازمائش غربت و افلاس کے مقابلے میں بہت سخت ہوتی ہے۔ دولت مندی کی وجہ سے انسان غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر وہ سرکشی اختیار کرلیتا ہے اور بہت ہی کم لوگ ایسے حالت میں صبر کرسکتے ہیں اور ایسے کم لوگ ہی پھر اللہ کے صحیح بندے ہوتے ہیں۔ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ ۔ " پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ " ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہتے ہیں " یعنی یہ لوگ پھلے پھولے اور زمین میں پھیل گئے ، عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگے ، ان کو زندگی کی تمام سہولیات فراہم ہوگئیں اور انہوں نے سب کرنا شروع کردیا۔ کسی معاملے میں احتیاط یا ڈر ان کی راہ میں حائل نہ رہا۔ عَفَوْا کے لفظ سے جہاں کسی چیز کی کثرت کا اظہار ہوتا ہے وہاں اس سے لاپرواہی کی نفسیات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز کو خفیف اور ہلکی سمجھنے لگے۔ ہر معاملے میں خواہ و شعوری دنیا سے متعلق ہو یا طرز عمل کے ساتھ متعلق ہو ، اس میں وہ سہل انگار ہوگئے تھے۔ یہ نفسیاتی اور عملی صورت حالات ان تمام لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے جن لوگوں کو مال و دولت کی فراوانی حاصل ہو اور وہ بڑے آرام کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ خصوصاً جبکہ عیش کوشی میں وہ ایک طویل عرصے تک غرق رہے ہوں ، خواہ افراد ہوں یا اقوام ہوں گویا ان کے دل و دماغ سے سنجیدگی اور احساس جاتا رہا ہے اور وہ بڑے بڑے معاملات میں بھی سنجیدہ ہونا پسند نہیں کرتے۔ وہ کھلے ہاتھوں خرچ کرتے ہیں ، وسیع پیمانے پر داد عیش دیتے ہیں ، عیش و عشرت میں ہر وقت گم رہتے ہیں اور نہایت ہی لاپرواہی سے معاملات کو لیتے ہیں اور ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کے بارے میں سن کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ ایسے افعال کا ارتکاب بڑی بےباکی سے کرتے ہیں وہ اللہ کے غضب سے نہیں ڈرتے۔ وہ عوام سے شرم محسوس نہیں کرتے۔ ان سے ہر قسم کی ذلت کا صدور بڑی لاپرواہی سے ہوتا ہے۔ وہ اس کائنات میں جاری سنت الٰہیہ کو نہیں پاتے۔ ان آزمائشوں کو نہیں سمجھتے ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملات یہاں یونہی چلتے رہتے ہیں ، ان کا کوئی معلوم سبب نہیں ہے اور نہ یہ کائنات کسی منصوبے کے ساتھ چل رہی ہے اور یہ کہ (ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے رہے ہیں) قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ ہم نے مشکلات کا دور گزار لیا ہے ، اب ہمارے اچھے دن آئے ہیں اور یہ دن بہت ہی اچھی طرح بسر ہو رہے ہیں اور یہ بغیر کسی منصوبے کے گزر رہے ہیں۔ یہ وہ آخری حد ہے کہ جب یہ لوگ غفلت میں ڈوب جاتے ہیں ، ہر نصیحت کو بھول کر لہو و لعب اور سرکشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اس حد پر انجام بد ان کو آ لیتا ہے اور یہ سنت الٰہیہ کے مطابق ہوتا ہے۔ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ۔ آخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی " ان کی غفلت ، غرور اور اللہ سے ان کی دوری پر ان کو یہ سزا دی گئی۔ انہوں نے اپنی خواہشات کو کھلی چھٹی دے دی تھی۔ وہ کسی بھی برے کام کے ارتکاب میں کوئی باک نہ کرتے تھے۔ اور ان کے دلوں کے پیمانے سئے خدا خوفی کا آخری قطرہ بھی ختم ہوگیا تھا۔ یہی ہے اللہ کی سنت ، اس کائنات میں اور وہ اسی ڈگر پر چلتی رہتی ہے۔ یہ سنت اللہ کی مخلوق میں اس کی مشیت کے مطابق کام کرتی ہے۔ انسانی تاریخ کا قافلہ انسان کے ارادے اور عمل کے ساتھ ، اللہ کی قدرت اور مشیت کے وسیع دائرے میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اور قرآن کریم اس سنت الٰہیہ کو لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور بار بار انہیں اس سے ڈراتا اور متنبہ کرتا ہے۔ یہ فتنہ عذاب الٰہی کا فتنہ ہے اور اس میں انسان کو مصائب و مشکلات میں مبتلا کرکے آزمایا جاتا ہے اور اس میں انسان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت چوکنا رہے اور برے انجام سے بچتا رہے ، کیونکہ یہاں مکافات عمل کا قانون جاری وساری ہے اور مکافات عمل کا قانون اٹل ہے۔ اس لئے جو شخص چوکنا نہ رہے ، جس نے خدا خوفی کا راستہ نہ اپنایا ، اور احتیاط نہ کی وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا۔ اور وہ اپنے آپ کو ایسے عذاب سے دوچار کرلے گا جو ٹلنے والا نہ ہوگا۔ اور اللہ کسی نفس پر کوئی حکم نہیں کرتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

100:“ عَفَوْا ” ای کثروا۔ یعنی جب ان کے مال و اولاد میں کثرت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے تکلیف و راحت اور تنگدستی و فراخی دونوں طریقوں سے ان کا امتحان فرمایا مگر وہ کسی طرح کفر و شرک سے باز نہ آئے۔ اعلم اللہ تعالیٰ انہ اخذھم بالشدۃ والرخاء فلم یزدجروا ولم یشکروا (قرطبی ج 2 ص 252) ۔ 101: اس اختلاف احوال سے انہوں نے کچھ عبرت حاسل نہ کی اور نہ اسے اللہ کی طرف سے ابتلاء سمجھا اور یوں کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا پر بھی حالات آتے رہے ہیں کبھی تکلیف اور تنگدستی اور کبھی راحت اور فراخی ہم پر بھی اسی طرح آرہے ہیں۔ یہ تکلیف اور آسودگی تغیرات زمانہ میں سے ہے کسی پیغمبر کے انکار یا اسکو ماننے کی وجہ نہیں ہے۔ “ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَةً ” یہانتک کہ ان پر اچانک ہمارا عذاب آپہنچا اس حال میں کہ انہیں اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

95 پھر جب وہ باز نہ آئے تو اس کے بعد ہم نے ان کی تکلیف کو راحت سے بدل دیا اور ان کی تنگدستی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ بکثرت پھلے پھولے اور بےفکر ہوکرکہنے لگے اس طرح کا دکھ سکھ اور تکلیف و راحت ہمارے باپ دادوں کو بھی پیش آتی تھیں آخرکار ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور ان کو اس گرفت کی خبر تک نہ تھی یعنی ابتدائی تکذیب کے بدلے میں کچھ تکلیف پہنچی باز نہ آئے پھر آرام دیا کہ شاید اب سمجھ جائیں اور احسان مانیں لیکن پھر بھی پیغمبر کی تعیلم کو قبول نہ کیا اور پیغمبر کے معاملہ میں ڈھیلے نہ پڑے اور یہ نہ سمجھے کہ وہ آزمائش میں مبتلا ہیں بلکہ اس تمام دکھ سکھ کو اتفاقی سمجھے اور زمانے کا ہیر پھیر خیال کیا اور اس غلطی میں پڑ کر کہنے لگے کہ اس قسم کی تکلیف و راحت تو زندگی کے ساتھ وابستہ ہے ہمارے آبائو اجداد بھی اس قسم کے دکھ سکھ سے دوچار ہوتے رہتے تھے یہ معمولی بات ہے جب مرض اس درجہ پر پہنچ گیا تو اچانک عذاب نے آلیا اور ایسی حالت میں آلیا کہ ان کو بالکل خبر نہ تھی۔