Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 97

سورة الأعراف

اَفَاَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ ﴿ؕ۹۷﴾

Then, did the people of the cities feel secure from Our punishment coming to them at night while they were asleep?

کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى ... Did the people of the towns then feel secure! meaning the disbelievers among them, ... أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ... that should come to them our punishment, Our torment and punishing example, ... بَيَاتاً .... Bayatan, during the night, .. وَهُمْ نَأيِمُونَ أَوَ أَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓي۔۔ : یعنی اللہ کا عذاب ان کے بیخبر سونے کی حالت میں بھی آسکتا ہے اور عین دوپہر جاگتے ہوئے مصروفیت کی صورت میں بھی آسکتا ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ دن ہو تو اس کا مقابلہ کرلیں گے۔ (بقاعی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا بَيَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝ ٩٧ ۭ أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ بياتا والبَيَاتُ والتَّبْيِيتُ : قصد العدوّ ليلا . قال تعالی: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف/ 97] ، بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف/ 4] . ( ب ی ت ) البیات البیات والتبیت کے معنی رات میں دشمن پر حملہ کرنے یعنی شبخون مارنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف/ 97] کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ ( بیخبر ) سو رہے ہوں ۔ بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف/ 4] رات کو آتا تھا جب کے وہ سوتے تھے یا ( دن کو ) جب وہ قیلو لہ ( یعنی دن کو آرام ) کرتے تھے ۔ نوم النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه . ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نووم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧۔ ٩٨۔ ٩٩) کیا مکہ والے اس بات سے غفلت میں ہیں کہ رات کو ان کے غافل ہونے کی حالت میں ہمارا عذاب ان کے پاس نہیں آئے گا یا دن میں جب وہ گمراہی میں مبتلا ہوں گے ہمارا عذاب ان پر نہیں آئے گا، عذاب الہی سے نقصان والے یعنی کافر ہی بےفکر ہوتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50: ان واقعات کے حوالے سے اب کفار مکہ کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے کسی کو بھی بے فکر ہو کر نہیں بیٹھ رہنا چاہئے، اور یہ بات صرف کفار مکہ ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو کسی گناہ بدعملی یا ظلم میں مشغول ہو اسے ان آیات کریمہ کا ہمیشہ دھیان رکھنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:97) امن۔ وہ بےخوف ہوگیا۔ وہ نڈر ہوگیا۔ امن سے (باب سمع) ماضی واحد مذکر غائب۔ امن بمعنی امن ۔ بےخوفی۔ دلجمی۔ باسنا۔ ہمارا عذاب۔ بیانا۔ رات کے وقت۔ راتوں رات۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں پانچ اقوام کی تباہی اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے دنیا میں جزاء و سزا کا ایک عمومی اصول بیان فرمایا اور اس کے بعد ایمان اور تقویٰ کی ترغیب دیتے ہوئے زمین و آسمان کی برکات کی خوشخبری سنائی اب پھر مجرموں کو وارننگ دی جا رہی ہے۔ قرٰی کا واحد ” قَرْیَۃ “ ہے یہ لفظ شہر اور دیہات دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اسے شہر اور بستیوں کے لیے استعمال فرمایا ہے سورة زخرف آیت : ٣١ میں ہے کہ لوگ شہروں کے رہنے والے ہوں یا دیہاتوں کے بسنے والے انھیں وارننگ اور انتباہ کیا جا رہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بغاوت اور نافرمانیاں کرکے کس طرح پرسکون اور امن میں رہ سکتے ہو ؟ یہ تو اللہ کی حکمت اور اس کی طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ باغی اور نافرمانوں کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے اگر وہ لوگوں کے جرائم اور گناہوں کی وجہ سے پکڑنے پر آجائے تو زمین پر چلنے والی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو مدت معینہ تک مہلت دیتا ہے۔ جب مہلت ختم ہوجاتی ہے تو ایک لمحہ تقدیم یا تاخیر نہیں ہونے پاتی۔ (النحل، آیت : ٦١) اس لیے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا عذاب رات کی تاریکیوں میں ان کو نیند کی حالت میں اچک سکتا ہے اور اگر ہم چاہیں تو دن دیہاڑے لوگوں کو فنا کی گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ سورة القصص آیت ٧١ تا ٧٢ میں فرمایا : (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِطاَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍطاَفَلا تَسْمَعُوْنَ ۔ ) [ سورة القصص، آیت : ٧١، ٧٢] ” اے نبی لوگوں سے فرما دیجیے اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات کو قیامت تک طویل کر دے تو کون ہے صبح کی روشنی لانے والا اور اگر وہ دن کو قیامت تک لمبا کر دے تو کون ہے رات لانے والا جس میں تم سکون پاتے ہو ؟ “ قوم لوط پر صبح کے وقت عذاب آیا جو قیامت تک رات کی تاریکی نہیں پاسکتے۔ قوم مدین پر رات کی تاریکیوں میں عذاب نازل ہوا جنھیں قیامت تک صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوگی۔ ایسے ہی یہاں عذاب کا اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دن اور رات میں کسی وقت بھی تمہیں پکڑ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بےخوف ہونے والے نقصان ہی پایا کرتے ہیں، یا در ہے مکر کے لفظ کی نسبت لوگوں کی طرف ہو تو اس کا مطلب مکر و فریب ہوتا ہے جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر ہوا کرتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھیے۔ 2005 ء میں رمضان المبارک کے دوسرے دن کشمیر میں صبح 9 بجے ایسا زلزلہ آیا کہ چالیس سیکنڈ کے اندر 70000 انسان موت کا لقمہ بنے اور لاکھوں مکان زمین بوس ہوگئے۔ 1948 ء میں رات کے وقت بلوچستان میں زلزلہ آیا تو بیس سیکنڈ میں کوئٹہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ مسائل ١۔ پہلی قوموں پر عذاب اس وقت آیا جب وہ اللہ اور آخرت کو بھولے، غفلت اور بدامنی میں پڑے ہوئے تھے۔ ٢۔ عذاب الٰہی سے بےخوف ہونا کفر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے عذاب سے بےخوف ہونے والے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے : ١۔ جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے اس کے تمام عمل برباد اور وہ دنیاء و آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا۔ (المائدۃ : ٥) ٢۔ اللہ کے عذاب سے بےخوف ہونے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔ (الاعراف : ٩٩) ٣۔ جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھائیں گے۔ (الزمر : ٦٢) ٤۔ کافروں کی پیروی کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ (آل عمران : ١٤٩) ٥۔ اللہ کو چھوڑ کر شیطان سے دوستی کرنے والا نقصان اٹھائے گا۔ ( النساء : ١١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی کیا لوگ سنت الٰہیہ کو دیکھتے ہوئے بھی اس قدر بےخوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوشحالی اور فراوانی دے کر اور شدائد و مصائب میں مبتلا کرکے آزماتا ہے۔ اس کے بعد ناشکروں اور نافرمانوں اور جھٹلانے والون کو تباہ و برباد کرتا ہے اور ان کی تباہی اور ہلاکت کے میدان تمہاری نظروں کے سامنے ہیں جو تباہ ہوئے اور جنہوں نے ان بستیوں کو خوب آباد کیا اور تباہی کے بعد پیچھے آنے والوں کے لئے چھوڑ دیا ، کیا وہ اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان پر بھی اچانک عذاب الٰہی آجائے اور وہ غفلت اور بیخبر ی میں مبتلا ہوں اور تباہ و برباد ہوجائیں۔ عذاب دن کے کسی وقت میں آئے یا رات کو کسی ایسے وقت میں آئے کہ وہ غافل ہوں یاد رہے کہ نیند میں انسان اس طرح غرق ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی شعور اور ارادہ نہیں رہتا اور نہ کوئی کام کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ نہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتا ہے۔ نہ کسی معمولی کیڑے مکوڑے کے خلاف مدافعت کرسکتا ہے۔ اللہ جیسی عظیم قوت کے مقابلے میں تو وہ کیا کرے گا ؟ جس کے مقابلے میں کوئی انسان نہایت بیداری اور قوت و حکمت کے ساتھ بھی کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ غرض ان پر یہ عذاب دن کو بھی آسکتا ہے جب یہ کھیل رہے ہوں ، کھیل کے وقت انسان کو کوئی ہوش نہیں ہوتا۔ وہ کھیل میں غرق ہوتا ہے اور اس کی توجہ صرف مد مقابل کی طر فہوتی ہے۔ رہا وہ حملہ جو اللہ کی جانب سے ہو تو اس کا مقابلہ تو وہ پوری تیاری اور پوری بیداری کے ساتھ بھی نہیں کرسکتا اور جب وہ غافل ہو تو کیا کرے گا۔ اللہ کا عذاب اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ جاگ رہے ہوں یا سو رہے ہوں کسی حالت میں وہ اس کے آگے ٹک نہیں سکتے۔ وہ کھیل میں ہوں یا سنجیدہ حالت میں ہوں ، اس کا مقابلہ تو وہ نہیں کرسکتے ، لیکن قرآنی سیاق انسان کے سامنے اس کی زندگی کے وہ لمحات پشی کرتا ہے تاکہ انسانی شعور میں پوری طرح انسان کے ضعف اور کمزوری کا احساس پیدا کردیا جائے اور وہ محتاط ہوجائے اور اپنے بچاؤ کی فکر کرے جب تباہ کن حملہ ہو اور ایسے حالات میں ہو کہ انسان پوری طرح غفلت اور لاپرواہی میں ہو اور مکمل بیخبر ی میں اسے آ لیا جائے تو ایسے حالات میں اس کا دفاع نہایت ہی کمزور ہوتا ہے۔ رہا عذاب الٰہی تو انسان باخبر ہو یا بیخبر ہو ، اس کے مقابلے میں اس کی بےبسی بیکراں ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

103: ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ اور “ اَھْلَ الْقْرٰي ” سے مکہ اور گرد و نواح کی بستیوں کے لوگ مراد ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی بعض کے نزدیک یہ عام ہے۔ والمراد بالقری مکۃ وما حولھا لانھم کذبوا محمدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و قیل ھو عام فی جمیع القری (قرطبی ج 7 ص 253) مشرکین عرب گذشتہ سرکش قوموں کے انجام بد سے اچھی طرح واقف ہیں مگر اس کے باوجود عناد اور سرکشی پر اڑے ہوئے ہیں کیا انہیں اس بات کا خطرہ اور اندیشہ نہیں کہ کہیں رات کو سوتے وقت یا دن کو جب وہ کھیل میں مصروف ہوں اچانک ہی اللہ کا عذاب آپہنچے اور ان کو ہلاک کردے۔ کیا وہ اللہ کے عذاب سے بالکل ہی بےفکر ہیں۔ جو لوگ اس طرح اللہ کے عذاب سے نڈر ہو کر ایمان و عمل سے غافل ہوجائیں وہ دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 کیا اے پیغمبر یہ موجودہ بستیوں کے لوگ یعنی مکہ اور اس کے پاس کی بستیوں کے رہنے والے اس امر سے نڈر اور بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آجائے جبکہ ان کی حالت یہ ہو کہ پڑے سو رہے ہوں۔