Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 14

سورة المعارج

وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۙ ثُمَّ یُنۡجِیۡہِ ﴿ۙ۱۴﴾

And whoever is on earth entirely [so] then it could save him.

اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دلا دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی اولاد، بیوی، بھائی اور خاندان یہ ساری چیزیں انسان کو نہایت عزیز ہوتی ہیں، لیکن قیامت والے دن مجرم چاہے گا کہ اس سے فدیے میں یہ عزیز چیزیں قبول کرلی جائیں اور اسے چھوڑ دیا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] اس دنیا میں یہ کیفیت دیکھی جاسکتی ہے کہ بسا اوقات باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر، خاوند بیوی پر، بیوی خاوند پر، ماں بیٹے پر، بیٹا ماں پر، دوست دوست پر فدا ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ایسی مثالیں کم ہیں تاہم مل ضرور جاتی ہیں۔ مگر اس دن یہ حال ہوگا کہ مجرم یہ سوچے گا کہ ماں، باپ اور اولاد تو درکنار میری طرف سے ساری دنیا جہنم میں جاتی ہے تو جائے میری بلا سے بس ایک میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤں۔ لیکن اس کی یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوسکے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا۝ ٠ ۙ ثُمَّ يُنْجِيْہِ۝ ١٤ ۙ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤۔ ٢١) اور تمام اہل زمین کو اپنے فدیہ میں دے پھر اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کو عذاب سے بچا لے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو عذاب سے مطلقا نہیں بچائے گا وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کہ ہاتھ پیروں اور تمام بدن کی کھال تک اتار دے گی اور یا یہ کہ اس کے بدن کو جھلس دے گی۔ لظی دوزخ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور وہ شخص کو خوب بلائے گی جس نے توحید سے پشت پھیری ہوگی اور ایمان سے بےرخی کی ہوگی اور کفر سے توبہ نہ کی ہوگی اور دنیا میں مال جمع کیا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا حق نہ ادا کر کے اس کو محفوظ کر کے رکھا ہوگا۔ کافر کم ہمت بخیل لالچی پیدا ہوا ہے جب اس کو فاقہ و تنگی پیش آتی ہے اور صبر نہیں کرتا اور جب اس کو فارغ البالی ہوتی ہے تو اس میں سے حق اللہ کو روکنے لگتا ہے اور شکر نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:14) ومن فی الارض جمیعا : من موصولہ ہے فی الارض اس کا صلہ۔ یا سارے (جن و انس) جو زمین پر ہیں۔ من کا عطف بھی بنیہ پر ہے۔ اور چاہے گا کہ زمین پر جو جن و انس بستے ہیں وہ سب فدیہ میں دے کر اس دن کے عذاب سے بچ جائے۔ ثم ینجیہ : ثم حرف عطف سے ینجی مضارع واحد مذکر غائب۔ انجاء (افعال) مصدر سے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا فاعل الافتداء محذوف ہے پھر یہ افتداء اس کو بچالے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اس روز ایسی نفسا نفسی ہوگی کہ ہر شخص کو اپنی فکر پڑجاوے گی، اور جن پر جان دیتا تھا ان کو اپنے عوض میں سپرد کردینے کو اگر اس کے قابو کی بات ہو گوارا کرلے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور روئے زمین کے سب لوگوں کو اپنے فدیے میں دے ڈالے پھر یہ فدیہ دینا اس مجرم کو عذاب سے بچالے۔ مھل پگھلا ہوا تانبا پگھلا ہوا سیسا، پگھلی ہوئی چاندی کو کہتے ہیں تیل کی تلچھٹ کو بھی کہتے ہیں اور زیتون کے تیل کی تلچھٹ کے ساتھ بھی تفسیر کی گئی ہے بہرحال آسمان کی مختلف حالتیں ہوں گی اس لئے یہ سب باتیں جمع ہوسکتی ہیں۔ عہن رنگین اون کو کہتے ہیں چونکہ دوسری جگہ کالعہن المنفوش آیا ہے اس لئے ہم نے تیسیر میں دھنکی ہوئی رنگین اون کردیا ہے۔ بہرحال پہاڑ آخر میں اڑتے پھریں گے رنگین شاید اس لئے فرمایا کہ پہاڑ مختلف الالوان ہوتے ہیں جیسا کہ سورة فاطر میں گزرچکا ہے جب رنگ برنگ کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر ملیں گے تو رنگین نظر آئیں گے کوئی دوست اور قرابت دار کسی دوست اور قرابت دار کو نہ پوچھے گا ایسی افراتفری ہوگی کہ کوئی کسی کو نہ پوچھے گا بلکہ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ حمیم گہرا دوست اور قریبی رشتہ دار حالانکہ ایک دوسرے کو دیکھتے بھی ہوں گے یعنی دوست اور قرابت دار سامنے ہوں گے اور پھر کام نہ آئیں گے۔ سورہ یونس (علیہ السلام) میں تعارف کی بحث گزر چکی ہے اور کہیں کہیں جو قرآن میں تساء ل کا ذکر آیا ہے یعنی آپس میں گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں گے یہ اس لایسئل کے منافی نہیں ہے ، مجرم کافرو مشرک اس دن اس بات کی تمنا اور خواہش کرے گا اور اس بات کو دوست رکھے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لئے سب کو فدیہ میں دے ڈالے خواہ دو بیٹے ہوں یا بیوی ہو بھائی ہو یا کنبے والے ہوں جن میں رہتا سہتا تھا اور وہ اس کو ٹھکانا اور پناہ دیتے تھے بلکہ روئے زمین کے تمام لوگوں کو کسی طرح فدیے میں دے ڈالے پھر یہ فدیہ دینا اس مجرم کو عذاب سے بچالے اور چھڑادے۔ غرض عذاب سے بچنے کے سینکڑوں جتن کرے گا لیکن کوئی کارگر نہ ہوگا۔ یبصرونھم اور سو رہ یونس میں یتعارفون فرمایا یعنی قیامت کے طویل دن میں مختلف حالات ہوں گے ایسا بھی ہوگا کہ دوست اور اقارب کو آمنے سامنے کردیا جائیگا اور ایک کو دوسرے کی حالت دکھائی جائے گی اور آپس میں ایک دوسرے کہ پہچانیں گے بھی اور ایسا بھی ہوگا کہ ایک کو دوسرے کی خبر نہ ہوگی کوئی کہیں ہوگا اور کوئی کہیں ہوگا۔ سورہ معارج میں اس وقت کا ذکر ہے جب آپس میں ایک کو دوسرادکھایا جائے گا اور ایک دوسرے کو دیکھتا ہوگا اور ہر شخص اپنی بےبسی کو محسوس کرتا ہوگا آگے مجرم کی اس تمنا اور لغو خواہش کا جواب ہے۔