Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 43

سورة المعارج

یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمۡ اِلٰی نُصُبٍ یُّوۡفِضُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

The Day they will emerge from the graves rapidly as if they were, toward an erected idol, hastening.

جس دن یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے ، گویا کہ وہ کسی جگہ کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Day when they will come out of the graves quickly as racing to a Nusub. meaning, they will stand up out of their graves when the Lord, Blessed be He the Most High, calls them to the place of the reckoning. They will rise up quickly as if they were rushing towards some monumental object. Ibn `Abbas, Mujahid and Ad-Dahhak, all said, "As if they were rushing towards a flag." Abu `Aliyah and Yahya bin Abi Kathir both said, "As if they were rushing towards a goal." The majority of reciters recited this word as "Nasb" (instead of Nusub) with a Fathah over the letter Nun and a Sukun over the letter Sad. This (Nasb) is a verbal noun meaning something that is erected. Al-Hasan Al-Basri recited it as "Nusub" with a Dammah over both the letter Nun and Sad. This (Nusub) means an idol. With this recitation the Ayah means, as if their rushing to this place was like when they used to hurry in the worldly life to the idol when they saw it. They would rush hurriedly to see who would be the first of them to touch it. This has been reported from Mujahid, Yahya bin Abi Kathir, Muslim Al-Batin, Qatadah, Ad-Dahhak, Ar-Rabi` bin Anas, Abu Salih, `Asim bin Bahdalah, Ibn Zayd and others. Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 جدث کے معنی ہیں قبر۔ جہاں بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور بتوں کے معنی میں بھی استعمال ہے۔ بتوں کے پجاری جب سورج طلوع ہوتا تھا تو نہایت تیزی سے اپنے بتوں کی طرف دوڑتے کہ کون پہلے اسے بوسہ دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن اپنی قبروں سے برق رفتاری سے نکلیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] نصب کا لغوی مفہوم :۔ نُصُبٍ : نصب الشئی بمعنی کسی چیز کو سیدھے رخ کھڑا کردینا اور زمین میں گاڑ دینا اور نصیب اس پتھر کو بھی کہتے ہیں جو بطور نشان راہ گاڑا جاتا ہے نیز نصیب پتھر یا لوہے کے اس مجسمے کو بھی کہتے ہیں جو کسی جگہ بغرض عبادت نصب کردیا گیا ہو۔ یہ مجسمے عموماً نبیوں، ولیوں اور پیروں یا بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔ اور ایسے مقامات جہاں یہ مجسمے نصب ہوں انہیں بھی نصیب یا تھان یا استھان یا آستانے کہا جات ہے اور نصیب کی جمع نصب یا انصاب آتی ہے۔ گویا نصب کے تین معنی ہوئے (١) نشان راہ کے پتھر، (٢) نصب شدہ مجسمے، (٣) وہ مقام جہاں مجسمے یا بت نصب ہوں۔ اس آیت میں تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ پہلا معنی اس لحاظ سے کہ ان کا یہ دوڑنا اللہ کے حکم کے تحت اور اضطراری امر ہوگا اور باقی دونوں معنی اس لحاظ سے کہ دنیا میں وہ ایسے بتوں کے مجسموں اور تھانوں کی طرف تیزی سے دوڑ کر جایا کرتے تھے۔ قیامت کے دن بھی وہ اسی طرح تیزی سے دوڑے جارہے ہوں گے اور اللہ نے ان کے لئے وہی کیفیت بیان فرمائی جس کو وہ خوب جانتے اور اس دنیا میں اس کے عادی تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(یوم یخرجون من الاجداث…:” الاجداث “ ” جدث “ (جیم اور دال کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، قبریں۔” سراعاً “” سریع “ کی جمع ہے، دوڑنے والے۔ قیامت کے دن قبروں سے اتنی تیزی سے نکل کر دوڑیں گے جس طرح وہ لوگ تیزی سے دوڑتے ہیں جو نشانہ بازی کے وقت ایک نشان گاڑ لیتے ہیں، پھر تیلر چلا کر تیزی سے دوڑتے ہیں، تاکہ جا کر دیکھیں کہ نشانہ درست لگا ہے یا نہیں۔ ” نصب “ ان پتھروں کو بھی کہتے ہیں جو عبادت کے لئے نصب کئے جاتے ہیں۔ مشرکین دنیا میں بوتں اور آستانوں کی طرف تیزی سے جایا کرتے تھے۔ قیامت کے دن ایسے ہی قبروں سے نکل کر حشر کے میدان کی طرف تیزی سے دوڑتے ہوئے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّہُمْ اِلٰى نُصُبٍ يُّوْفِضُوْنَ۝ ٤٣ ۙ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جدث قال تعالی: يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج/ 43] ، جمع الجَدَث، يقال : جدث وجدف وفي سورة يس : فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس/ 51] . ( ج د ث ) جدث ۔ قرج اجداث قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج/ 43] اس دن یہ قبر سے نکل کر ( اس طرح ) دوڑیں گے ۔ اور سورة یسن میں ہے : ۔ فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس/ 51] یہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کیطرف دوڑیں گے ۔ اور قبروں کو جدف بھی کہا جاتا ہے ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں نصب ( تعب) والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . ( ن ص ب ) نصب اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ وفض الإِيفَاضُ : الإسراعُ ، وأصله أن يعدو من عليه الوَفْضَةُ ، وهي الکنانة تتخشخش عليه، وجمعها : الوِفَاضُ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] أي : يسرعون، وقیل : الأَوْفَاضُ الفرق من الناس المستعجلة . يقال : لقیته علی أَوْفَاضٍ . أي : علی عجلة، الواحد : وَفْضٌ. ( و ف ض ) الایفاض ۔ ( افعال ) کے معنی تیزروی کے ہیں اور اصل میں اس کے معنی کسی کے وفضۃ کو اٹھا کر اس طرح تیزی سے بھاگنے کے ہیں کہ اس سے خشخثہ کی آواز پیداہو اور وفضۃ چمڑی کے ترکش کو کہتے ہیں اس کی جمع وفاض آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] جیسے شکاری شکار کے جال کی طرف درڑتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے ک اوفاض تیز رو جماعتوں کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لقیتہ علیٰ اوفاض میں اسے عجلت میں ملا ۔ اس کا واحد وفض ہے جس کے معنی جلدی کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ اس عذاب کے وقت کو بیان فرماتے ہیں کہ جس دن ان کا اس تیزی کے ساتھ قبروں سے نکل کر صور کی آواز کی طرف دوڑنا ہوگا جیسا کہ کسی نشان اور جھنڈے کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣{ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ ۔ } ” جس دن وہ نکلیں گے اپنی قبروں سے دوڑتے ہوئے ‘ جیسے کہ وہ مقرر نشانوں کی طرف بھاگے جا رہے ہوں۔ “ ” نُصُب “ سے مراد وہ نشان ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر دوڑنے والا دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 There is a difference of opinion among the commentators about the meaning of the word nusub. SAme have interpreted it to mean idols, according to which the meaning would be: "They would be racing towards the place appointed by the Lord of Resurrection as they race today towards the shrines of their idols" ; and some others have taken nusub to mean the goal signs which are set for the competitors in a race, so that each tries to reach and touch the appointed post before the other.

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :30 اصل الفاظ ہیں الی نصب یوفضون ۔ نصب کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ان میں سے بعض نے اس سے مراد بت لیے ہیں اور ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اور محشر کی مقرر کی ہوئی جگہ کی طرف اس طرح دوڑے جا رہے ہونگے جیسے آج وہ اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ نشان لیے ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر ایک دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:43) یوم یخرجون من الاجداث سراعا : یوم بدل ہے یومہم سے سراعا من الاجداث حال ہے یخرجون کے فاعل سے۔ سراعا دوڑتے ہوئے۔ جلدی کرتے ہوئے ، بمعنی فاعل دوڑنے والے۔ جلدی کرنے والے ۔ سریع کی جمع سرعۃ سے جسکے معنی جلدی کرنے کے ہیں بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے جس طرح کریم کی جمع کرام ہے۔ الاجداث جمع، جدث واحد بمعنی قبر۔ کانھم الی نصب یوفضون۔ یہ جملہ بھی یخرجون کے فاعل سے حال ہے۔ کانھم ۔ کان حرف مشبہ بالفعل ہم ضمیر جمع مذکر غائب کان کا اسم ۔ گویا وہ سب ۔ نصب اسم مفرد، انصاط جمع بمعنی بت، جھنڈا، نشان۔ یوفضون : مضارع جمع مذکر غائب۔ افاضیۃ (افعال) سے مصدر۔ وہ دوڑیں گے و ف ض مادہ۔ اصل میں الایفاض (افعال) کے معنی کسی کے دفضہ (چمڑے کا ترکش) کو اٹھا کر اس طرح تیزی سے بھاگنے کے ہیں کہ اس سے جھنکار کی آواز پیدا ہو۔ لہٰذا تیز روی کے معنی میں آتا ہے۔ نصب کے مختلف معانی کی وجہ سے اس آیت کی تفسیر بھی مختلف طور پر مفسرین نے کی ہے۔ مثلاً (1) جس طرح دنیا میں اپنے بتوں اور خیالی معبودوں کی طرف دوڑتے ہیں اسی طرح قبروں سے نکل کر میدان حشر میں رب العلمین کی طرف دوڑیں گے۔ (2) قیامت کے دن قبروں سے نکل کر تخت رب العلامین کی طرف اسی طرح دوڑیں گے جیسا کہ کوئی شرط میں نشان گڑے ہوئے تک جلد جلد دوڑتا ہے۔ (3) کلبی نے نصب کا ترجمہ علم کیا ہے یعنی جس طرح لشکری اپنے جھنڈے کی طرف لپکتے ہیں اسی طرح یہ حشر کے دن محشر کی طرف لپکیں گے۔ (4) علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں :۔ جس دن خدا انہیں بلائے گا اور میدان محشر کی طرف جہاں انہیں حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا اس طرح لپکتے ہوئے جائیں گے جس طرح دنیا میں کسی بت یا علم کو یا تھان کو اور چلے کو چھونے اور ڈنڈوت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے جاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی گویا کوئی خاص نشان ہیں جن کی طرف یہ تیزی سے دوڑ رہے ہیں یا ” نصب “ سے مراد ان کے وہ استھان ہیں جن پر وہ دنیا میں اپنے جانور ذبح کیا کرتے تھے اور ان کی طرف لپکا کرتے تھے۔ فی زماننا جو ائمہ کے تابوت یا ان کی قبروں کی پوجا کرتے ہیں وہ ان کی طرف دوڑ کر جاتے ہیں گویا یہ مشرکین کی پرانی عادت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور نافرمان لوگ حقیقت تسلیم نہیں کرتے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہائی ہمدردی درد مندی کے ساتھ کفار کو اللہ کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت دیتے لیکن وہ آپ کے قریب آنے اور آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے اور آپ سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ یہ دنیاوی مشاغل میں لگے رہیں۔ یہاں تک کہ انہیں موت آلے یہ اس دن اپنے رب کے حضور پیش ہوں جس دن کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ آج آپ کی دعوت سن کر دور بھاگتے ہیں لیکن جس دن صور پھونکا جائے گا تو یہ اس کی آواز پر اپنی اپنی قبروں سے نکل کر دوڑتے ہوئے اس طرح پہنچیں گے جس طرح وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں۔ آج یہ نفرت اور حقارت کی بنا پر آپ کو آنکھیں پھاڑ پھا ڑکردیکھتے ہیں لیکن اس دن ذلّت اور خوف کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور کہنے والا کہے گا یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا اور تم اس کو جھٹلایا کرتے تھے۔ دوسرے نفخہ کے بعد لوگ قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جیسے شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے یا مشرک اپنے بتوں اور درباروں کی طرف جاتے ہیں۔ اللہ کے باغی قبروں سے نکلتے ہی واویلا کریں گے، ہائے افسوس ! ہمیں کس نے قبروں سے نکال باہر کیا ہے۔ قیامت کی ہولناکیوں اور محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جانے کا حال دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے جس کا ہمارے ساتھ ربِّ رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پیغمبریاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ جس قیامت کے بارے میں یہ لوگ جھگڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں آئے گی وہ تو اسرافیل کی ایک پھونک کا نتیجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوں ہی اسرافیل صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں شدید ترین زلزلے ہوں گے یہاں تک کہ زمین جگہ جگہ سے پھٹ جائے گی اور ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا اور سب کے سب ربِّ ذوالجلال کے حضور حاضر ہوجائیں گے، لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے اور اس طرح حواس باختہ ہوں گے جیسے انہوں نے نشہ کیا ہوا ہو۔ یہ حالت ان کی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محشر کی سختی اور ربِّ ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے ہوگی۔ (الحج : ٢) اس موقع پر اعلان ہوگا کہ آج کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوپائے گا۔ (یٰس : ٥٤) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ) (رواہ البخاری : باب کَیْفَ الْحَشْر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا یعنی کوئی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھ سکے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی توحید کا انکار اور حق سے انحراف کرنے والے کو بالآخر انہی کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ کی توحید اور اس کے دین کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن وہ صور کی آواز پر دوڑتے ہوئے جمع ہوجائیں گے۔ ٣۔ اللہ کی توحید اور اس کے دین کا انکار کرنے والوں کی آنکھیں ذلت اور خوف کی وجہ سے جھکی ہوں گی۔ ٤۔ قیامت کا وعدہ سچا ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن لوگوں کا محشر میں اکٹھا ہونا : ١۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمہیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٢۔ آپ فرما دیں تمہارے پہلے اور آخر والے کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعہ : ٤٧ تا ٥٠) ٣۔ پھر ہم تمہیں تمہاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ : ٥٦) ٤۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ : ١٠٩) ٥۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن اللہ جمع کرے گا۔ (التغابن : ٩) ٦۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تمہیں بھی جمع کردیا ہے اور پہلوں کو بھی۔ (المرسلات : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) اس دن یہ قبروں سینکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے کسی بت کے تھان کی طرف یا جیسے کوئی پراگندہ وفوج اپنے نشان اور اپنے جھنڈے کی طرف دوڑی جارہی ہے۔