Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 6

سورة المعارج

اِنَّہُمۡ یَرَوۡنَہٗ بَعِیۡدًا ۙ﴿۶﴾

Indeed, they see it [as] distant,

بیشک یہ اس ( عذاب ) کو دور سمجھ رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, they see it (the torment) afar off. meaning, the happening of the torment and the establishment of the Hour (Day of Judgement). The disbelievers see this as something that is farfetched. The word "Ba`id" here means that which is impossible to occur. وَنَرَاهُ قَرِيبًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی قیامت کو اور اس کے عذاب کو بعید از قیاس یا ناممکن سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ عنقریب واقع ہونے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّهُمْ يَرَ‌وْنَهُ بَعِيدًا وَنَرَ‌اهُ قَرِ‌يبًا (They see it far off, and We see it near....70:6-7). In this context, the expressions &far off and &near& do not refer to time or space, but &far off in terms of possibility and occurrence. The verse purports to describe that the pagans see the occurrence of Resurrection as impossible, and Allah sees its occurrence not only possible, but a certain reality.

(آیت) اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا ۝ ۙوَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا، یہاں قریب و بعید با اعتبار مسافت یا زمانے کے نہیں بلکہ بعید از امکان یا بعید از وقوع مراد ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ یہ لوگ تو قیامت کے وقوع بلکہ امکان کو بھی بعید سمجھ رہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کا وقوع یقینی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہُمْ يَرَوْنَہٗ بَعِيْدًا۝ ٦ ۙ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ ‘ ٧{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا ۔ } ” یہ لوگ تو اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔ “ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے ۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:6) انھم یرونہ بعیدا : ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع عذاب ہے۔ بعیدا ، بعد سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ وہ عذاب کو امکان سے بعید یا عقل سے دور جانتے ہیں ان کے خیال میں عذاب کا احتمال اگر آتا بھی ہے تو ضعیف ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انھم ........................ قریبا (٠٨ : ٧) ” یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں “۔ اس کے بعد اس دن کے مناظر پیش کیے جاتے ہیں ، جس میں واقع ہونے والا عذاب آئے گا ، جسے وہ بعید سمجھتے ہیں اور اللہ اسے قریب سمجھتا ہے۔ یہ مناظر اس کائنات میں ہیں اور انسان کی نفسیاتی دنیا کے اندر بھی۔ یہ اس قدر ہولناک ہوں گے کہ انسان کے اوسان خطا ہوجائیں گے اور اس کائنات اور نفس انسانی کے اندر زلزلہ برپا ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًاۙ٠٠٦ وَّ نَرٰىهُ قَرِيْبًاؕ٠٠٧﴾ (یہ لوگ قیامت کے دن کو دور دیکھ رہے ہیں) یعنی یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف کہنے کی باتیں ہیں قیامت آنے والی نہیں ہے اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ قیامت آنی ہے اور ان لوگوں کو اس دن عذاب میں مبتلا ہونا ہی ہے اسی کو سورة ٴ انعام میں فرمایا : ﴿اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ ١ۙ وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ ٠٠١٣٤﴾ (بلاشبہ تم جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آجانے والی چیز ہے اور تم عاجز کرنے والے نہیں ہو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) یہ دین حق کے منکر اس عذاب یا قیامت کی دن کو دورازقیاس ودوراز عقل سمجھ رہے ہیں۔