Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 8

سورة المعارج

یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ ۙ﴿۸﴾

On the Day the sky will be like murky oil,

جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Terrors of the Day of Judgement Allah says that the torment will befall the disbelievers. يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاء كَالْمُهْلِ The Day that the sky will be like the Al-Muhl. Ibn `Abbas, Mujahid, `Ata, Sa`id bin Jubayr, `Ikrimah, As-Suddi and others have all said, "Like the residue of oil." وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ

عذاب کے طالب عذاب دیئے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس عذاب کو یہ طلب کر رہے ہیں وہ عذاب ان طلب کرنے والے کافروں پر اس دن آئے گا جس دن آسمان مثل مھل کے ہو جائے ، یعنی زیتون کی تلچھٹ جیسا ہو جائے ، اور پہاڑ ایسے ہو جائیں جیسے دھنی ہوئی اون ، یہی فرمان اور جگہ ہے آیت ( وَتَكُوْنُ الْجِبَا... لُ كَالْعِهْنِ Ḍ۝ۙ ) 70- المعارج:9 ) پھر فرماتا ہے کوئی قریبی رشتہ دار کسی اپنے قریبی رشتہ دار سے پوچھ گچھ بھی نہ کرے گا حالانکہ ایک دوسرے کو بری حالت میں دیکھ رہے ہوں گے لیکن خود ایسے مشغول ہوں گے کہ دوسرے کا حال پوچھنے کا بھی ہوش نہیں سب آپا دھاپی میں پڑے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھے گا پہچانے لگا لیکن پھر بھاگ کھڑا ہو گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ 37؀ۭ ) 80-عبس:37 ) یعنی ہر ایک ایسے مشغلے میں لگا ہوا ہو گا جو دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دے گا ۔ ایک اور جگہ فرمان ہے لوگو اپنے رب سے ڈر اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنی اولاد کے اور اولاد اپنے باپ کے کچھ کام نہ آئے گا اور جگہ ارشاد ہے کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا ، گو قرابت دار ہوں اور جگہ فرمان ہے لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنی اولاد کے اور اولاد اپنے باپ کے کچھ کام نہ آئے گا اور جگہ ارشاد ہے کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا ، گو قرابت دار ہوں اور جگہ فرمان ہے آیت ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١؁ ) 23- المؤمنون:101 ) یعنی صور پھونکتے ہی سب آپس کے رشتے ناتے اور پوچھ گچھ ختم ہو جائے گی اور جگہ فرمان ہے یعنی اس دن انسان اپنے بھائی ، ماں ، باپ ، بیوی اور فرزند سے بھاگتا پھرے گا ۔ ہر شخص اپنی پریشانیوں کی وجہ سے دوسرے سے غافل ہو گا ، یہ وہ دن ہو گا کہ اس دن ہر گنہگار دل سے چاہے گا کہ اپنی اولاد کو اپنے فدیہ میں دے کر جہنم کے آج کے عذاب سے چھوٹ جائے اور اپنی بیوی ، بھائی ، اپنے رشتے کنبے ، اپنے خاندان اور قبیلے کو بلکہ چاہے گا کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے لیکن اسے آزاد کر دیا جائے ۔ آہ ! کیا ہی دل گداز منظر ہے کہ انسان اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو ، اپنی شاخوں ، اپنی جڑوں سب کو آج فدا کرنے پر تیار ہے تاکہ خود بچ جائے ۔ ( فصیلہ ) کے معنی ماں کے بھی کئے گئے ہیں ، غرض تمام تر محبوب ہستیوں کو اپنی طرف سے بھینٹ میں دینے پر دل سے رضامند ہو گا ، لیکن کوئی چیز کام نہ آئے گی کوئی بدلہ اور فدیہ نہ کھپے گا ، کوئی عوض اور معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا بلکہ اس آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا جو اونچے اونچے اور تیز تیز شعلے پھینکنے والی اور سخت بھڑکنے والی ہے جو سر کی کھال تک جھلسا کر کھینچ لاتی ہے ، بدن کی کھال دور کر دیتی ہے اور کھوپڑی پلپلی کر دیتی ہے ، ہڈیوں کو گوشت سے الگ کر دیتی ہے ، رگ پٹھے کھنچنے لگتے ہیں ، ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگتے ہیں ، پنڈلیاں کٹی جاتی ہیں چہرہ بگڑ جاتا ہے ، ہر ایک عضو بدل جاتا ہے ، چیخ پکار کرتا رہتا ہے ، ہڈیوں کا چورا کرتی رہتی ہے ، کھالیں جلائی جاتی ہے ۔ یہ آگ اپنی فصیح زبان اور اونچی آواز سے اپنے والوں کو جنہوں نے دنیا میں بدکاریاں اور اللہ کی نافرمانیاں کی تھیں پکارتی ہے پھر جس طرح پرند جانور دانہ چگتا ہے اسی طرح میدان محشر میں سے ایسے بدلوگوں کو ایک ایک کر کے دیکھ بھال کر چن لیتی ہے ، اب ان کی بد اعمالیاں بیان ہو رہی ہیں کہ یہ دل سے جھٹلانے والے اور بدن سے عمل چھوڑ دینے والے تھے ، یہ مال کو جمع کرنے والے اور سربند کر کے رکھ چھوڑنے والے تھے ، اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام میں بھی مال خرچ کرنے سے بھاگتے تھے بلکہ زکوٰۃ تک ادا نہ کرتے تھے ، حدیث شریف میں ہے سمیٹ سمیٹ کر سینت سینت کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا ، حضرت عبداللہ بن حکیم تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کبھی تھیلی کا منہ ہی نہ باندھتے تھے ، امام حسن بصری فرماتے ہیں اے ابن آدم اللہ تعالیٰ کی وعید سن رہا ہے پھر مال سمیٹتا جا رہا ہے؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مال کو جمع کرنے میں حلال حرام کا پاس نہ رکھتا تھا اور فرمان اللہ ہوتے ہوئے بھی خرچ کی ہمت نہیں کرتا تھا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] مُھْل کے معنی پگھلا ہوا تانبا بھی اور تیل کی تلچھٹ بھی۔ اور ان دونوں چیزوں کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے۔ یعنی آج تو ہمیں آسمان نیلگوں نظر آتا ہے اس دن یہ اپنا رنگ بدلنا شروع کردے گا حتیٰ کہ نیلگوں ہونے کی بجائے سرخی مائل ہوجائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یوم تکون السمآء کالمھل…:” کالمھل “ یعنی آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (سرخ اور گرم ہو کر پھٹ جائے گا۔ ) (دیکھیے رحمان : ٣٧)” العھن “ اون، یعنی پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح بالکل ہلکے ہو کر اڑنے لگیں گے۔ دیکھیے سورة طہ (١٠٥) ۔ قارعہ (٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ كَالْمُہْلِ۝ ٨ ۙ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، (...  س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ مهل المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] . ( م ھ ل ) المھل کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان پر وہ عذاب اس روز واقع ہوگا جس دن آسمان رنگت میں تیل کی تلچھٹ کی طرح یا یہ کہ پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 A section of the commentators regard this sentence as related to "a day whose measure is fifty thousand years"; they say that the day whose measure has been stated to be fifty thousand years is the Day of Resurrection. In Musnad Ahmad and in the Tafsir by Ibn Jarir, a tradition has been related on the authority of Hadrat Abu Sa'id Khudri, saying: "When wonder and amazment was expressed before th... e Holy Prophet (upon whom be peace) about the length of this Day with reference to this verse, he replied: 'By Him in Whose hand is my life, the believer will find the Day even lighter (of shorter duration) than the time he takes in performing an obligatory Prayer in the world" . " Had this tradition been reported through authentic channels, this verse could not be interpreted in any other way, but two of its transmitters, Darraj and his teacher Abul Haytham, are both weak and untrustworthy. 9 That is, it will change its colour over and over again.  Show more

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :8 مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس فقرے کا تعلق فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ سے مانا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال کی مدت جس دن کی بتائی گئی ہے اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔ مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں حضرت ابو سعید خدری سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ ص... لی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق عرض کیا گیا کہ وہ تو بڑا ہی طویل دن ہو گا ۔ اس پر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے مومن کے لیے وہ دن اس سے بھی زیادہ ہلکا ہو گا ۔ یہ روایت اگر صحیح سند سے منقول ہوتی تو پھر اس کے سوا اس آیت کی کوئی دوسری تاویل نہیں کی جا سکتی تھی ۔ لیکن اس کی سند میں دراج اور اس کے شیخ ابو الہثیم ، دونوں ضعیف ہیں ۔ سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :9 یعنی بار بار نگ بدلے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ ١٨۔ اوپر ان لوگوں کا ذکر تھا جو عذاب کی جلدی کرتے تھے ان آیتوں میں پہلے صور سے لے کر دوزخ میں جانے تک کا حال فرمایا تاکہ ان عذاب کے جلدی کرنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ دنیا میں اگر ان پر کسی عذاب کے آنے کا اللہ کا حکم نہ بھی ہوا تو قیامت کے دن ایسے جزا و سزا کے منکر لوگوں پر سخت عذاب آنے والا ہے ج... س کے چھٹکارے کے بدلے میں یہ لوگ اپنے بی بی بچوں اور ساری دنیا کو دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ جب بھی ان کا چھٹکارا نہ ہوگا۔ مھل کے معنی پگھلا ہوا تانبا۔ عھن کے معنی رنگین دھنی ہوئی اون جو نہایت ہلکی ہوجاتی ہے اور ہوا میں بہت جلدی اڑ جاتی ہے۔ اس دن ہر ایک کو اپنی جان کی ایی پڑی ہوگی کہ ایک دوسرا دیکھے گا اور کوئی کسی سے بات تک بھی نہیں کرنے گا۔ اس دن عام لوگوں کی بدحواسی کا تو کیا ذکر ہے سوائے خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور انبیاء تک کی زبان پر نفسی نفسی کا کلمہ ہوگا۔ نصیلہ کے معنی کنبے کے لوگ جو آدمی کے ہر وقت پر کام آتے ہیں۔ لظی جہنم کا ایک نام ہے۔ شوی کے معنی جسم کی کھال مطلب یہ ہے کہ اوپر کی سب کھال جل جائے گی اور دل قائم رہے گا تاکہ عذاب کی تکلیف برقرار رہے۔ ان آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ دوزخ نافرمان لوگوں کو پکارے گی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث معتبر سند سے ترمذی ١ ؎ وغیرہ میں جو ہے وہ اس آیت کی گویا تفسیر ہے۔ حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن دوزخ کی آگ کی ایک گردن کی صورت دوزخ میں سے نکلے گی اس کو خدا گویائی دے گا وہ کہے گی کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو مشرک ‘ متکبر اور مصور ‘ ان تین قسم کے آدمیوں کے طلب کے لئے مامور فرمایا ہے۔ آیت ھل من مزید اور جنت دوزخ کی بحث کی صحیح ٢ ؎ حدیث میں بھی دوزخ کے بولنے کا ذکر ہے۔ اللہ کی قدرت سے جبکہ یہ امر کچھ بعید نہیں ہے کہ پتھر ‘ پیڑ ‘ جنت ‘ دوزخ جس کو چاہے گویا کر دے تو پھر اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں میں طرح طرح کے شاخسانے نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب ان لوگوں کی عادتیں بتائیں جن کو دوزخ پکار کر بلائے گی تاکہ وہ لوگ اپنے کئے کا خمیازہ بھگتیں فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو حق بات سن کر مکڑائی کرتے تھے اور حق کے کہنے والے کی طرف سے پیٹھ موڑ کر چلے جاتے تھے اللہ کی فرمانبرداری سے کنیاتے تھے ادھر ادھر سے جو کچھ ملا اس کو سینت کر رکھتے تھے اور کار خیر میں کچھ اس میں سے خرچ نہیں کرتے تھے۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ النار ص ٩٤ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا ص ٣٨١ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:8) یوم تکون السماء کالمہل : یوم بوجہ قریبا کی ظرفیت کے منصوب ہے تقدیر کلام یوں ہے۔ ونراہ قریبا یوم تکون السماء کالمہل اور ہم اس (عذاب) کو قریب ہی دیکھ رہے ہیں۔ اس روز آسمان (پگھل کر) تانبے جیسا ہوجائے گا۔ کالمہل : ک تشبیہ کا ہے مہل پگھلا ہوا تانبا۔ یا اور کوئی دھات، تیل کی تلچھٹ اور جگہ قرآن م... جید میں ہے :۔ کالمہل یغلی فی البطون (44:45) جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں کھولے گا۔ المہل کے اصل معنی حلم و سکون کے ہیں اور مہل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام لیا۔ اور امہلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فمہل الکفرین امہلہم رویدا (86:17) تو تم کافروں کو مہلت دو پس چند روز ہی مہلت دو  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوم تکون ................ کالعھن (٠٧ : ٩) ” جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں گے “۔ مہل کے معنی ہیں خام معدنیات کو پگھلانا مثلا تیل کی تلجھٹ ، اور العہن کے معنی ہیں اون کا منقش کپڑا۔ قرآن کریم مختلف مقامات میں یہ اطلاع دیتا ہے کہ اس دن عظ... یم واقعات رونما ہوں گے۔ ان کی وجہ سے اس دنیا کے اجرام فلکی کی موجودہ حالت نہیں رہے گی۔ ان کے اوصاف ، حالات اور شکل بدل جائے گی اور ان میں سے ایک یہ آسمان یوں ہوجائے گا جس طرح پگھلی ہوئی معدنیات۔ اور جو لو علوم طبیعیہ پر تحقیقات کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ان آیات پر غور کریں۔ ان کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ تمام فلکی اجرام دراصل پگھلے ہوئے مادے سے منجمد ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ یہ مادہ گیس کی شکل میں تھا اور گیس کا درجہ پگھلنے اور سیال ہونے کی حالت کے بعد بھی آتا ہے۔ شاید یہ تمام مادہ قیامت کے دن بجھ جائے گا۔ جس طرح کہا گیا۔ واذا ............ انکدرت ” اور جب ستارے تاریک ہوجائیں گے “۔ اور ٹھنڈے ہوکر سیال ہوجائیں گے ، یوں ان کی گیس کی طبیعت میں تبدیلی ہوجائے گی۔ بہرحال یہ تو ایک احتمال ہے اور اس زاویہ سے تحقیقات کرنے والوں کی دلچسپی اس میں ہوسکتی ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں جو آیت کا مفہوم ہے۔ اور جس میں یہ خوفناک نقشہ کھینچا گیا ہے کہ آسمان پگھلے ہوئے مواد کی طرح ہوں گے ۔ اور پہاڑ دھنکے ہوئے متلون اون کی طرح ہوں گے۔ اور نہایت ہی خوفناک منظر ہوگا جس کی تعبیر قرآن اس خوفناک الفاظ میں کررہا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن ایک دوست دوسرے دوست کو نہ پوچھے گا، رشتہ داروں کو اپنی جان کے بدلہ عذاب میں بھیجنے کو تیار ہوں گے ان آیات میں قیامت کے دن کی بعض بڑی چیزوں کے ادل بدل ہوجانے کا تذکرہ فرمایا ہے ارشاد ہے کہ اس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا اور پہاڑ رنگی ہوئی اون کی طرح ہوں گے۔ سورة القارعہ میں لفظ ال... منفوش کا بھی اضافہ ہے مطلب یہ ہے کہ پہاڑ رنگی ہوئی اون کی طرح ہوں گے جو اڑتے ہوئے پھریں گے۔ آسمان کے بارے میں جو کالمہل فرمایا اس کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی تیل کی تلچھٹ اور صاحب جلالین نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے كذائب الفضتہ کہا ہے یعنی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح سے ہوگا اس میں آسمان کی ایک کیفیت ذکر فرمائی ہے وہ واھیۃ کی تصویر ہے جیسا کہ گزشتہ سورت میں ﴿فَہِیَ يَوْمِىِٕذٍ وَاھِیَۃٌ﴾ گزر چکا ہے۔ آسمانوں اور پہاڑوں کا حال بیان فرمانے کے بعد میدان قیامت میں حاضر ہونے والوں کی حیرانی اور پریشانی بیان فرمائی۔ ارشاد فرمایا : ﴿ وَ لَا يَسْـَٔلُ حَمِيْمٌ حَمِيْمًاۚۖ٠٠١٠﴾ (اور اس دن کوئی بھی دوست کسی بھی دوست کو نہ پوچھے گا) ﴿ يُّبَصَّرُوْنَهُمْ ١ؕ﴾ (آپس میں ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے) یعنی ایک دوسرے کو دیکھیں گے مگر کوئی کسی کی مدد اور ہمدردی نہیں کرسکے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” یوم تکون السماء “ تخویف اخروی۔ ظرف کا متعلق محذوف ہے جو سوال مقدر کا جواب ہے۔ یعنی وہ عذاب کب آئیگا ؟ جواب دیا گیا جب آسمان تانبہ گداختہ کی مانند ہوجائیں گے۔ کانہ قیل متی یقع ذلک العذاب ؟ یقع یوم تکون السماء الخ، افاہ الشیخ قدس سرہ۔ یا یہ ” قریبا “ سے متعلق ہے یا یقع مقدر سے۔ مراد اس سے قایمت ... کا دن ہے۔ قیامت کا منظر نہایت ہولناک ہوگا۔ قیامت کے دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی مانند سرخ ہوجائیں گے اور پہاڑ دھنی ہوئ روئی کے گالوں کی مانند ہوں گے۔ اس دن کوئی مخلص سے مخلص دوست بھی اپنے کسی دوست کی خبر نہیں لے گا، حالانکہ سب دوست آمنے سامنے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے مگر کچھ کر نہیں سکیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) وہ عذاب اس دن ہوگا جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا۔