Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 25

سورة نوح

مِمَّا خَطِیۡٓــٰٔتِہِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا ۬ ۙ فَلَمۡ یَجِدُوۡا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡصَارًا ﴿۲۵﴾

Because of their sins they were drowned and put into the Fire, and they found not for themselves besides Allah [any] helpers.

یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نے نہ پایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, مِمَّا خَطِييَاتِهِمْ ... Because of their sins, It also has been recited as; خَطَاياهُمْ (their errors.) ... أُغْرِقُوا ... they were drowned, meaning, for their numerous sins, rebellion, persistence in disbelief and opposition to their Messengers. ... أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا ... they were drowned, then were made to enter the Fire. meaning, they will be carried from the flood of the seas to the heat of the Fire. ... فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا And they found none to help them instead of Allah. meaning, they will have no helper, assistant, or savior who can rescue them from the punishment of Allah. This is similar to Allah's statement, لااَ عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلااَّ مَن رَّحِمَ This day there is no savior from the decree of Allah except him on whom He has mercy. (11:43) وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَى الاَْرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا

کثرت گناہ تباہی کو دعوت دیتا ہے خطیئاتھم کی دوسری قرأت خطایاھم بھی ہے فرماتا اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ لوگ ہلاک کر دیئے گئے ان کی سرکشی ، ضد اور ہٹ دھرمی ان کی مخالفت و دشمنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حد سے گذر گئی تو انہیں پانی میں ڈبو دیا گیا ، اور یہاں سے آگ کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے اور کوئی نہ کھڑا ہوا جو انہیں ان عذابوں سے بچا سکتا ، جیسے فرمان ہے آیت ( قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ 43؀ ) 11-ھود:43 ) یعنی آج کے دن عذاب اللہ سے کوئی نہیں بچا سکتا صرف وہی نجات یافتہ ہو گا جس پر اللہ رحم کرے ، نوح نبی علیہ السلام ان بدنصیبوں کی اپنے قادر و ذوالجلال اللہ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھ کر فریاد کرتے ہیں اور اس مالک سے ان پر آفت و عذاب نازل کرنے کی درخواست پیش کرتے ہیں کہ اللہ اب تو ان ناشکروں میں سے ایک کو بھی زمین پر چلتا پھرتا نہ چھوڑ اور یہی ہوا بھی کہ سارے کے سارے غرق کر دیئے گئے یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کا سگا بیٹا جو باپ سے الگ رہا تھا وہ بھی نہ بچ سکا ، سمجھا تو یہ تھا کہ پانی میرا کیا بگاڑ لے گا میں کسی بڑے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ پانی تو نہ تھا وہ تو غضب الٰہی تھا ، وہ تو بد دعائے نوح تھا اس سے بھلا کون بچا سکتا تھا ؟ پانی نے اسے وہیں جا لیا اور اپنے باپ کے سامنے باتیں کرتے کرتے ڈوب گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر طوفان نوح میں اللہ تعالیٰ کسی پر رحم کرتا تو اس کے لائق وہ عورت تھی جو پانی کو ابلتے اور برستے دیکھ کر اپنے بچے کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پہاڑ پر چڑھ گئی جب پانی وہاں بھی آ گیا ہے تو بچے کو اٹھا کر اپنے مونڈھے پر بٹھا لیا جب پانی وہاں پہنچا تو اس نے بچے کو سر پر اٹھا لیا ، جب پانی سر تک جا چڑھا تو اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سر سے بلند کر لیا لیکن آخر پانی وہاں تک جا پہنچا اور ماں بیٹا ڈوب گئے ، اگر اس دن زمین کے کافروں میں سے کوئی بھی قابل رحم ہوتا تو یہ عورت تھی مگر یہ بھی نہ بچ سکی نہ ہی بیٹے کو بچا سکی ۔ یہ حدیث غریب ہے لیکن راوی اس کے سب ثقہ ہیں ۔ الغرض روئے زمین کے کافر غرق کر دیئے گئے ۔ صرف وہ با ایمان ہستیاں باقی رہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں تھیں اور حضرت نوح نے انہیں اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا ، چونکہ حضرت نوح علیہ السلام کو سخت تلخ اور دیرینہ تجربہ ہو چکا تھا اس لئے اپنی ناامیدی کو ظاہر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا الٰہی میری چاہت ہے کہ ان تمام کفار کو برباد کر دیا جائے ، ان میں سے جو بھی باقی بچ رہا وہی دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے گا اور جو نسل اس کی پھیلے گی وہ بھی اسی جیسی بدکار اور کافر ہو گی ، ساتھ ہی اپنے لئے بخشش طلب کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں میرے رب ، مجھے بخش میرے والدین کو بخش اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں آ جائے اور ہو بھی وہ با ایمان ، گھر سے مراد مسجد بھی لی ہے لیکن عام مراد یہی ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن ہی کے ساتھ بیٹھو ، رہو ، سہو اور صرف پرہیزگار ہی تیرا کھانا کھائیں ، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف اسی اسناد سے یہ حدیث معروف ہے ، پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہیں اور کہتے ہیں تمام ایماندار مرد و عورت کو بھی بخش خواہ زندہ ہوں خواہ مردہ اسی لئے مستحب ہے کہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھے تاکہ حضرت نوح علیہ السلام کی اقتدار بھی ہو اور ان احادیث پر بھی عمل ہو جائے جو اس بارے میں ہیں اور وہ دعائیں بھی آ جائیں جو منقول ہیں ، پھر دعا کے خاتمے پر کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ان کافروں کو تو تباہی ، بربادی ، ہلاکت اور نقصان میں ہی بڑھاتا رہ ، دنیا و آخرت میں برباد ہی رہیں ۔ الحمد اللہ سورہ نوح کی تفسیر بھی ختم ہو گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] عذاب قبر کا ثبوت :۔ طوفان نوح کا ذکر سورة اعراف کے حاشیہ ٦٨ اور سورة یونس کے حاشیہ ٨٣ کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ جب یہ طوفان آیا تو اس قوم کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے بلکہ وہ بھی ان کے ساتھ غرق ہوگئے اور غرق ہونے کے ساتھ ہی انہیں جہنم میں داخل کردیا گیا۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے برزخ یا عذاب قبر کا ثبوت قرآن سے مہیا ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) مما خطیئتھم اغرقوا…: یہ نوح (علیہ السلام) کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں۔ جار مجور پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی صرف اپنے گناہوں (کفر و معصیت ) کی وجہ سے انہیں غرق کیا گیا۔ ان کے غرق ہونے کا تفصیلی واقعہ سورة ہود، سورة مومنون اور سورة عنکبوت وغیرہ میں مذکور ہے۔” فادخلوا ناراً “ پس وہ آگ میں داخل کئے گئے، ” فائ “ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غرق ہوتے ہی انہیں آگ میں داخل کردیا گیا، یعنی قیامت کے دن جہنم میں جانے سے پہلے برزخ و قبر ہی میں وہ آگ میں داخل کردیئے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے متعلق فرمایا :(وحاق بال فرعون سوٓء العذاب، النار یعرضون علیھا غدواً وعشیاً ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب) (المومن : ٧٥، ٣٦)” اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا جو آگ ہے، اس پر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔ “ خلاصہ یہ کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم اور آل فرعون کو پہلے پانی میں غرق کیا گیا، پانی کے عذاب کے بعد اس کا الٹ یعنی آگ کا عذاب قبر ہی میں شروع ہوگیا ، پھر قیامت کے دن جہنم کے ” اشذ العذاب “ میں داخل کئے جائیں گے۔ یہ آیت اور سورة ممون کی آیت عذاب قبر کی زبردست دلیلیں ہیں۔ (٢) فلم یجدوالھم من دون اللہ انصاراً : یعنی اللہ کے عذبا سے نہ انہیں کوئی سردار بچا سکا اور نہ ان کے پاس پنج تنوں میں سے کوئی ان کی مدد کرسکا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِ‌قُوا فَأُدْخِلُوا نَارً‌ا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ أَنصَارً‌ا (Because of their sins they were drowned, and then admitted into the Fire. So they found no helpers for them besides Allah…1:25). The &sins& referred to here are unpardonable sins of &kufr and shirk&. They were drowned in water and emerged in fire, an opposing punishment which is not impossible for Divine power. Obviously, the ‘Fire’ mentioned in the verse does not refer to the fire of Hell, but refers to the fire in the realm of ‘Barzakh’ (the existence between the worldly life and the life of the Hereafter). The Qur&an speaks of the fire in the realm of &Barzakh&. It is evident that Sayyidna Nuh&s (علیہ السلام) people will be punished in Hell-Fire in the Hereafter after resurrection and accounting for their deeds. Qur’ an Confirms Punishment in the Grave The verse under comment confirms that people will be punished in the realm of Barzakh, usually referring to the period of stay in the grave. This further proves that, since the evil-doers will be punished in the grave, the righteous believers will also be rewarded and blessed with favours. Authentic and successively transmitted ahadith report about the reward and punishment in the grave so abundantly and clearly that its reality cannot be denied or rejected. Therefore, there is a total agreement of the Ummah on this issue; and belief in it is the symbol of Ahl-us-Sunnah wal-Jami&ah. Al-hamdulillah The Commentary on Surah Nuh Ends here

(آیت) مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا، یعنی یہ لوگ اپنی خطاؤں کفر و شرک کی وجہ سے پانی میں غرق کئے گئے تو یہ آگ میں داخل ہوگئے۔ یہ متضاد عذاب کہ ڈوبے پانی میں اور نکلے آگ میں، حق تعالیٰ کی قدرت سے کیا بعید ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں جہنم کی آگ تو مراد نہیں کیونکہ اس میں داخلہ تو قیامت کے حساب کتاب کے بعد ہوگا یہ برزخی آگ ہے جس میں داخل ہونے کی قرآن کریم نے خبر دی ہے۔ عذاب قبر قرآن سے ثابت ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عالم برزخ یعنی قبر میں رہنے کے زمانے میں بھی مردوں پر عذاب ہوگا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قبر میں بدعمل کو عذاب ہوگا تو نیک عمل والوں کو ثواب اور نعمت بھی ملے گی۔ احادیث صحیحہ متواترہ میں قبر کے اندر عذاب وثواب ہونے کا بیان اس کثرت اور وضاحت سے آیا ہے کہ انکار نہیں کیا جاسکتا اس لئے اس پر امت کا اجماع اور اس کا اقرار اہل سنت والجماعت کی علامت ہے۔ تمت سورة نوح بعمد اللہ لیلتہ الاربعآء رجب دس 1391 ھ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا۝ ٠ۥۙ فَلَمْ يَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَنْصَارًا۝ ٢٥ خطأ الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب : أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله، وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] . والثاني : أن يريد ما يحسن فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء/ 92] . والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان، لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا لتولّد ذلک الفعل منه ( خ ط ء ) الخطاء والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔ یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔ اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔ الخطیتۃ یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة/ 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥۔ ٢٦) اپنے ان ہی گناہوں کی وجہ سے وہ دنیا طوفان کے ذریعے غرق کیے گئے اور آخرت میں دوزخ میں داخل کیے گئے اور اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا بھی ان کو میسر نہ ہوا اور جبکہ نوح سے ان کے پروردگار نے کہا کہ آپ کی قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا، تب نوح نے یہ بھی فرمایا پروردگار ان کافروں میں سے کسی کو باقی مت چھوڑ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥{ مِمَّا خَطِیْٓئٰتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًالا } ” اپنی خطائوں کی وجہ سے ہی وہ غرق کیے گئے اور داخل کردیے گئے آگ میں “ { فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا ۔ } ” تو نہ پایا انہوں نے اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی مددگار۔ “ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس فریاد کا سخت ترین حصہ آگے آ رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 That is, "Drowning was not their end, but after death their souls were immediately subjected to the punishment of the Fire." This precisely was the treatment that was meted out to Pharaoh and his people, as has been stated in Surah Al-Mu'min: 45-46. (For explanation, see E.N. 63 of Al-Mu'min) . This verse also is of those verses which prove the punishment of barzakh (intermediary stage between death and Resurrection) . 20 That is, "None of the gods whom they looked upon as their supporters and helpers came to their rescue." This, in fact, was a warning to the people of Makkah, as if to say: "If you too are subjected to the torment of Allah, these gods on whom you have placed all your reliance, will avail you absolutely nothing. "

سورة نُوْح حاشیہ نمبر :19 یعنی غرق ہونے پر ان کا قصہ تمام نہیں ہو گیا ، بلکہ مرنے کے بعد فوراً ہی ان کی روحیں آگ کے عذاب میں مبتلا کر دی گئیں ۔ یہ بعینہ وہی معاملہ ہے جو فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ کیا گیا ، جیسا کہ سورہ مومن ، آیات 45 ۔ 46 میں بیان کیا گیا ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، المومن ، حاشیہ 63 ) ۔ یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جس سے برزخ کا عذاب ثابت ہوتا ہے ۔ سورة نُوْح حاشیہ نمبر :20 یعنی اپنے جن معبودوں کو وہ اپنی حامی و مددگار سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے نہ آیا ۔ یہ گویا تنبیہ تھی اہل مکہ کے لیے کہ تم بھی اگر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو گئے تو تمہارے یہ معبود ، جن پر تم بھروسا کیے بیٹھے ہو ، تمہارے کسی کام نہ آئیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥۔ ٢٨۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکایت اور بددعا کا آخر نتیجہ یہ ہوا کہ سوا تھوڑے سے آدمیوں کے جو حضرت نوح کے سمجھانے سے راہ راست پر آگئے تھے اور سب قوم کے لوگ طوفان سے ہلاک ہو کر سیدھے جہنم کو چلے گئے یہ طوفان کا قصہ سورة عنکبوت اور سورة ہود میں تفصیل سے گزر چکا ہے ساڑھے نو سو برس تک حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی سرکشی کا خوب تجربہ ہوچکا تھا اس لئے طوفان کے وقت انہوں نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ اس سرکش قوم میں کا ایک گھر بھی طوفان کی آفت سے باقی نہ رہے کیونکہ ان میں کا ایک گھر بھی باقی رہے گا تو وہ اور ان کی اولاد لوگوں کو بہکائیں گے پھر اپنی ذات اور اپنے ماں باپ اور جو فرمانبردار مرد عورت حضرت نوح کے گھر میں طوفان کی آفت سے امن وامان میں رہنے کے لئے آئے تھے ان کے گناہ معاف ہونے کی دعا۔ اور بت پرستوں کی بربادی کی بددعا پر کلام کو ختم کیا۔ بت پرستی حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماں باپ کے بعد پھیلی ہے اس لئے حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماں باپ مسلمان تھے حضرت نوح کے باپ کا نام لامک تھا حضرت آدم کے پانچویں پشت کے پوتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:25) مما خطیئتھم اغرقوا : مما ، من سببیہ اور ما زائدہ سے۔ مرکب ہے ما زائدہ تاکید کے لئے لایا گیا ہے خطیئات مضاف ہم مضاف الیہ ۔ جمع ہے خطیئۃ کی بمعنی گناہ، تقصیر، خطاء ھم ضمیر جمع مذکر غائب ان کی خطائیں۔ ان کی تقصیریں۔ ان کے گناہ اغرقوا : ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ اغرقوا۔ اغراق (افعال) مصدر سے وہ غرق کئے گئے وہ ڈبو دئیے گئے۔ بوجہ اپنی خطاؤں کے ڈبو دئیے گئے وہ۔ فادخلوا نارا ف عاطفہ ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن میں ہے :۔ جہاں ترتیب اور تعقیب بتانا مقصود ہو یعنی یہ کام پہلے کام کے بععد ہوا اور اس کے بعد فورا ہوا۔ تو یہ ف استعمال ہوتی ہے۔ یعنی ان کے غرق ہونے کے بعد۔ فادخلوا نارا۔ کہ انہیں معا آگ میں ڈال دیا گیا۔ اسی سے اہلسنت عذاب قبر پر استدلال کرتے ہیں ۔۔ الخ۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) تعالیٰ رقمطراز ہیں :۔ ہم کہتے ہیں یہ توجیہات مجازی ہیں اصل کلام میں حقیقت ہے۔ خواہ مخواہ حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ اس کے علاوہ بیشمار احادیث ہیں کہ عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے اجماع سلف صالحین بھی اسی پر ہے ۔۔ اس کے بعد آپ نے چند احادیث نقل فرمائی ہیں۔ نارا مفعول فیہ آگ میں (یعنی عذاب قبر میں) ۔ فلم یجدوا : ف عاطفہ ہے لم یجدوا فعل مضارع نفی جحد بلم جمع مذکر غائب۔ انہوں نے نہ پایا۔ لہم اپنے لئے۔ لم یجدوا میں ضمیر فاعل اور لہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب قوم نوح کے لئے ہے۔ انصارا منصوب بوجہ مفعول ہونے لم یجدوا کے۔ پھر انہوں نے اپنے لئے کوئی مددگار اللہ کے سوا نہ پایا۔ (کہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچائے) ۔ انصار جمع نصیر اور ناصر کی۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر ہے وہاں انصار سے مراد انصار مدینہ ہیں۔ جو نصرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بدولت اسی لقب سے سرفراز کئے گئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی مرتے ہی ان پر آگ کا عذاب شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جسے احادیث میں عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مما خطیئتہم ........................ انصارا ان کی خطاکاریوں ، ان کے گناہوں اور ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوئے۔ یہاں فائے تعطیب بالارادہ لائی گئی ہے۔ کیونکہ ان کے غرق ہوتے ہی ان کو جہنم رسید بھی کردیا گیا اور ان کے غرق ہونے اور جہنم کے داخل ہونے کے درمیان جو زمانی فاصلہ ہے وہ گویا ہے ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ کے میزان اور معیار میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ گویا اس دنیا میں ان کا غرق کیا جانا اور آخرت میں ان کا دوزخ میں داخل کیا جانا گویا باہم قریب ومتصل ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر کا عرصہ ہو جو نہایت ہی مختصر ہے۔ فلم ........................ انصارا (١٧ : ٥٢) ” پھر انہوں نے اپنے لئے اللہ سے بچانے والا کو مددگار نہ پایا “۔ نہ اولاد ، نہ مال ، نہ مرتبہ ، نہ دوست اور نہ ان کے نام نہاد الٰہہ۔ ان دو چھوٹی سی آیات میں ان سرکشوں کا قصہ تمام ہوگیا اور ان کا قصہ حیات ختم ہوا۔ لیکن ابھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا ختم نہیں ہوئی کہ اے اللہ ان کو فنا کردے۔ یوں کہ ان کا وجود تک نہ رہے۔ یہاں ان کی غرقابی اور طوفان کے قصے کی تفصیلات نہیں دی گئیں ، اس لئے کہ اس مقام پر نہایت شتابی کے ساتھ ان کا قصہ تمام کرکے دکھانا مطلوب تھا۔ یہاں تک کہ غرقابی اور داخلہ جہنم کے درمیان کے طویل فاصلے کو صرف فائے تعقیب کے ذریعہ لپیٹ لیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فائدہ : یہ جو فرمایا : ﴿ مِمَّا خَطِيْٓـٰٔتِهِمْ۠ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ﴾ (اپنی خطاؤں کی وجہ سے وہ لوگ غرق کردیئے گئے پھر آگ میں داخل کردیئے گئے) اس میں چونکہ اغرقوا اور ادخلوا دونوں ماضی کے صیغے ہیں اس لیے حضرات علماء کرام نے اس آیت سے عذاب قبر کو ثابت کیا ہے عذاب قبر میں کافر مبتلا ہوتے ہیں اور بعض گناہگار اہل ایمان کا بھی ابتلا ہوتا ہے۔ احادیث شریفہ میں اس کی تفصیلات وارد ہوئی ہیں۔ ثبوت عذاب قبر کے جو دلائل ہیں ان میں ایک یہ آیت بھی ہے ظاہر ہے دوزخ کا داخلہ تو قیامت کے دن ہوگا صیغہ ماضی کے ساتھ جو فرمایا ہے کہ وہ لوگ غرق کردیئے جانے کے بعد آگ میں داخل کردیئے گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ برزخ میں بھی آگ کا عذاب ہے برزخ کی تکلیف کو جو موت کے بعد قیامت ہونے سے پہلے ہے عذاب قبر سے تعبیر کیا جاتا ہے، بہت سے ملحد جو نئے زمانہ میں پیدا ہوگئے ہیں۔ عذاب قبر کے منکر ہیں۔ فاتلھم اللہ انی یوفکون۔ الحمد للہ علی اتمام تفسیر سورة نوح اولا و آخرا و باطنا وظاھرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” مما خطیئتہم “ یہ تخویف ہے اور من سببیہ ہے۔ ” فادخلوا “ میں فاء تعقیب بلا تاخیر کے لیے ہے۔ ” من دون اللہ “ سے ان کے خود ساختہ معبود ” ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر “ وغیرہ مراد ہیں۔ یعنی قوم نوح (علیہ السلام) کو ان کے گناہوں کی وجہ سے غرق کردیا گیا پھر فورًا ہی ان کو آگ میں داخل کردیا گیا۔ تو اللہ کے سوا جن کو وہ پکارتے تھے ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ یہ آیت عذاب قبر کے اثبات پر اہل سنت کی محکم دلیل ہے۔ کیونکہ غرق کے فورًا بعد ان کو جس آگ میں داخل کیا گیا وہ آخرت کی آگ نہیں، کیونکہ قیامت تو تاہنوز قائم ہی نہیں ہوئی، اس لیے اس سے لامحالہ عالم برزخ کا عذاب ہی مراد ہے جسے اصطلاح شریعت میں عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے (فادخلوا نارا) فی عالم البرزخ المسمی بالقبر فانہ روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفرات النیران فھذہ الایۃ دلیل علی اثبات عذاب القبر لان الفاء للتعقیب (مظہری ج 10 ص 77) (فاخلوا نارا) ھی نار البرزخ والمراد عذاب القبر (روح ج 29 ص 79) ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہو اور فادخلوا سے مراد فحکم بدخولہم النار فی الاخرۃ (الشیخ (رح) تعالی) ۔ یا اغراق اور ادخال جہنم کے درمینی عرصے کو غیر معتد بہ قرار دے کر ادخال پر فاء داخل کی گئی ہو (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) وہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے بالآخر پانی میں غرق کئے گئے اور آگ میں داخل کردیئے گئے پھر اللہ تعالیٰ کے ہوا ان کو اپنے لئے کہیں سے کچھ مدد کرنے والے بھی میسر نہ آئے۔ یعنی نوح (علیہ السلام) کی بدکردار قوم اپنے گناہوں کے سبب آخر کار پانی میں غرق کی گئی اور برزخی نار میں داخل کردی گئی اور ان کے بتوں میں سے اور فرضی او مصنوعی حمایتوں میں سے کوئی بھی مدد کو نہ پہنچ سکا یہ آیت عذاب قبر کے لئے واضح حجت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جہنم کی آگ میں دخول مراد ہو جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے اور عذاب جہنم کو یوں سمجھو۔ والتعقیب لتنزیلہ منزلۃ المتعقب (واللہ اعلم) آگے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعاکا بقیہ حصہ مذکور ہے۔