Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 3

سورة نوح

اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾

[Saying], 'Worship Allah , fear Him and obey me.

کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہنا مانو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ... That you should worship Allah, and have Taqwa of Him, meaning, `abandon those things that He has forbidden and avoid that which He has declared to be sinful.' ... وَأَطِيعُونِ and obey me, `In that which I command you to do and that which I forbid you from.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 اور شرک چھوڑ دو ، صرف اسی کی عبادت کرو۔ 2۔ 2 اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پاسکتے ہو، 2۔ 3 یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] نوح کی دعوت کے نکات :۔ جب کوئی نبی مبعوث کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ بعد ازاں وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے اس تعارف کے بعد وہ لوگوں کو اللہ کا پیغام سناتا ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی نبوت کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا۔ (اِنِّىْ لَكُ... مْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ۝ ۙ ) 71 ۔ نوح :2) پھر اس کے بعد تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ (١) صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور بتوں کی عبادت چھوڑ دو ، (٢) ڈرو تو صرف اللہ سے ڈرو، بتوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارا یہ کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے احکام بجا لاؤ، (٣) اور اللہ کے احکام بجا لانے کی صورت یہ ہے کہ میری اطاعت کرو۔ اگر تم یہ تینوں کام سرانجام دو گے تو اللہ تمہارے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں تمہاری طبعی عمر تک زندہ رہنے دے گا تاکہ تم نیک اعمال بجا لاکر اخروی عذاب سے بچ جاؤ۔ اور اگر یہ باتیں نہ مانو گے تو پھر تمہاری طبعی موت سے پہلے ہی تم پر عذاب نازل کرے گا پھر اس وقت نہ تمہارا ایمان لانا کچھ فائدہ دے گا اور نہ ہی تمہیں کچھ مزید مہلت مل سکے گی۔ لہذا اس وقت جو تمہیں مہلت ملی ہوئی ہے اس میں اپنا نفع و نقصان خوب سوچ سمجھ لو اور سنبھل جاؤ۔ خ قوم کے مختلف جوابات :۔ یہ تھی وہ دعوت جو سیدنا نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی۔ اور اس قسم کی دعوت ہی حق و باطل کے درمیان محاذ آرائی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ چناچہ قوم کے چودھری سینہ تان کر سیدنا نوح کی مخالفت پر اتر آئے۔ کبھی کہتے : ارے ! ہم میں اور تم میں فرق کیا ہے ؟ تم بھی ہمارے جیسے ہی محتاج انسان ہو، تمہیں بھی ویسے ہی کھانے پینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں۔ پھر ہم تمہاری اطاعت آخر کیوں کریں ؟ کبھی کہتے کہ یہ تم سارے جہان سے نرالی اور ان ہونی بات کہتے ہو کہ ہم اپنے بتوں کی عبادت چھوڑ دیں۔ ایسی دیوانگی کی باتیں چھوڑ دو ۔ کبھی کہتے کہ اگر تم ہمارے معبودوں کی توہین سے باز نہ آئے تو وہ تمہیں ایسی بری مار ماریں گے کہ پھر اٹھ نہ سکو گے، اور کبھی کہتے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے، اور کبھی کہتے : نوح ! یہ چند بدھو قسم کے لوگ تم نے اپنے ساتھ لگا لیے ہیں یہ تو ہمارے کمینے اور رذیل لوگ ہیں۔ ان کے بل بوتے پر تم ہم سے مطالبہ کرتے ہو کہ ہم بھی تمہاری اطاعت کریں ؟ غرض سیدنا نوح اور ان کی قوم کے درمیان اس قسم کے مذاکرات آٹھ نو سو سالوں پر محیط ہیں جن کو اس مقام پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس طویل مدت کی تبلیغ کا جو نتیجہ سیدنا نوح کی سمجھ میں آیا وہ ان الفاظ میں اپنے پروردگار کے سامنے پیش کرتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِيْعُوْنِ۝ ٣ ۙ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وه... و كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّـقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ } ” کہ تم لوگ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ “ یہاں نبی (علیہ السلام) اور رسول (علیہ السلام) میں فرق کے حوالے سے یہ نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ اللہ کے ”...  رسول “ کی حیثیت سے کیا تھا۔ کسی نبی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم لوگ میری اطاعت کرو۔ سورة یوسف (علیہ السلام) میں ہم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تفصیلی حالات پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی تھے۔ آپ (علیہ السلام) نے مصر کے بادشاہ کو یہ نہیں کہا کہ میں نبی ہوں ‘ تم میری اطاعت کرو ‘ اور نہ ہی آپ (علیہ السلام) نے مصر کے لوگوں سے مخاطب ہو کر یوں کہا کہ مجھ پر ایمان لائو ورنہ تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ بلکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور نبوت میں بادشاہ اپنی جگہ پر بادشاہ رہا۔ آپ (علیہ السلام) اس کی بادشاہی میں ایک بڑے عہدے پر کام بھی کرتے رہے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ گویا انبیاء کرام کی دعوت عمومی نوعیت کی تھی کہ تم لوگ اللہ کے نیک بندے بنو ‘ اللہ کا حق مانو ‘ وغیرہ۔ لیکن جب کسی نبی کو کسی قوم کی طرف کوئی خاص مشن دے کر بھیجا گیا تو وہ اللہ کے ” رسول (علیہ السلام) “ اور اللہ کے نمائندے بن کر اس قوم کی طرف گئے اور اسی حیثیت سے انہوں نے متعلقہ قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی : { وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط } (النساء : ٦٤) ” ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے “۔ اس لحاظ سے رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے : { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج } (النساء : ٨٠) ” جس نے اطاعت کی رسول کی اس نے اطاعت کی اللہ کی۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 The three things which the Prophet Noah presented before his people at the outset of his mission of Prophethood were: (1) Worship of Allah, (2) adoption of piety (tagwa) and (3) obedience of the Messenger. Worship of AIIah meant that they should give up worship and service of all others and should acknowledge Allah alone as their Deity and should worship and carry out His commands alone. Taqwa (... piety) meant that they should refrain from alI those works which caused Allah's anger and displeasure, and should instead adopt such attitude in their lives as the God fearing people should adopt. As for "obey me", it meant that they should obey the commands that he gave them as Allah's Messenger.  Show more

سورة نُوْح حاشیہ نمبر :2 یہ تین باتیں تھیں جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے پیش کیں ۔ ایک ، اللہ کی بندگی ۔ دوسرے ، تقوی ۔ تیسرے ، رسول کی اطاعت ۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی بندگی و عبادت چھوڑ کر اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر...  کے اسی کی پرستش کرو اور اسی کے احکام بجا لاؤ ۔ تقوی کا مطلب یہ تھا کہ ان کاموں سے پرہیز کرو جو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کے موجب ہیں ، اور اپنی زندگی میں وہ روش اختیار کرو جو خدا ترس لوگوں کو اختیار کرنی چاہیے ۔ رہی تیسری بات کہ میری اطاعت کرو ، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ان احکام کی ا طاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں دیتا ہوں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:3) ان اعبدوا اللہ واتقوہ ان مصدریہ۔ جملہ متعلقہ نذیر ہے یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) نے نذیر کی حیثیت سے اپنی قوم سے کہا کہ :۔ (1) اللہ کی عبادت کرو۔ (2) اور اس سے ڈرو۔ اتقوا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ اتقاء (افتعال) مصدر سے۔ تم ڈرو۔ تم پرہیزگاری اختیار کرو) ۔ (3) اور میری اطاعت کرو۔ یعنی میں جو توح... ید اور طاعت الٰہی کی بابت تمہیں حکم دے رہا ہوں اس کو مانو۔ اطیعون امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اطاعۃ (افعال) مصدر سے ن وقایہ ہے اور ی ضمیر واحد متکلم محذوف ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ” اور اسی کے بندے بن کر رہو۔ “ ” عبادت “ کے لفظ میں پوجا اور بندگی دونوں کا مفہوم شامل ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا کہ اے میری قوم شرک اور اللہ کی نافرمانی سے تائب ہو کر اللہ کی بندگی کرو اور میری اطاعت کرتے رہو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں عافیت کی زندگی عطا کرے گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی...  عبادت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور ہر قسم کے شرک سے باز آؤ اور میری اطاعت قبول کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں وقت مقررہ تک مہلت دے گا۔ وقت مقرر سے مراد ہر انسان کی موت ہے اگر اس سے مراد کسی قوم یا برادری اور جماعت کا مقرر وقت سمجھا جائے تو اس سے مراد اس کا وہ دور ہے جس میں وہ دوسری برادری یا قوم پر حکومت کرتی ہے وہ دور خیر و عافیت اور عزت واقبال کے ساتھ گزرتا ہے۔ عبادت کا مفہوم جاننے کے لیے سورة الذاریات آیت ٥٦ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ! یاد رکھو ! کہ جب اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وقت یعنی اس کا عذاب آتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو رات اور دن، صبح اور شام، انفرادی اور اجتماعی، خفیہ اور اعلانیہ سمجھایا مگر وہ لوگ آپ کی دعوت پر غور کرنے کی بجائے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور اپنے چہروں کو کپڑوں سے چھپالیا کرتے تھے، وہ کفر و شرک پر اڑ گئے اور انہوں نے تکبر کرنے کی انتہاکردی۔ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ ) (رواہ ابن ماجۃ : باب ذکر التوبۃ) ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اسی طرح ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ “ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر کفر و شرک چھوڑ دو ۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے اس لیے انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میری اطاعت کرو۔ ٣۔ نوح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ کی عبادت کرنے اور میری اطاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو ٹال دے گا۔ ٤۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دن اور رات انفرادی اور اجتماعی اعلانیہ اور خفیہ طور پر دعوت دی مگر انہوں نے اپنے چہروں کو چھپالیا اور اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ٥۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف بڑی سازشیں اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدوجہد کی ایک جھلک : ١۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور فرمایا کہ شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون : ٢٣) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٠٩) ٣۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) (ھود : ٣٥) (ہود : ٣١) (یونس : ٧١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت نوح (علیہ السلام) جو دعوت پیش کررہے تھے ، وہ بھی سادہ اور سیدھی ہے۔ ان اعبدو .................... واطیعون (١٧ : ٣) ” کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو “۔ یعنی اللہ وحدہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو ، تمہارے شعور و سلوک پر یہ...  بات چھائی ہوئی ہو ، اور رسول اللہ کی اطاعت وہ بات ہے جس سے نظام زندگی پھوٹتا ہے اور زندگی کے تفصیلی قواعد وضع ہوتے ہیں جس کی تعبیر سنت رسول سے کی جاتی ہے۔ بس تمام ادیان سماوی کے یہی خطوط ہیں۔ اللہ کا حکم اور رسول اللہ کی اطاعت۔ انہی خطوط پر دین استوار ہوتا ہے۔ تفصیلات ہر دور کے حالات کے مطابق ہوتی ہیں۔ انسانیت کے تفصیلی سوالات ، اس کا تصور وجود اور اس کائنات کے اندر پائے جانے والے مختلف سوالات جو مختلف ادوار میں ہوتے ہیں ان کے جوابات کے نتیجے میں ادیان کی تفصیلات اور فروعات میں اختلاف ہوتا ہے۔ اللہ کی پوری بندگی کرنا ہی دراصل ایک مکمل نظام ہوتا ہے۔ اللہ کی بندگی میں تصور الٰہ ، اس کی اطاعت کی تفصیلات خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی نوعیت ، اس کائنات میں حسن وقبح کے اصول ۔ لوگوں کی زندگیوں میں حسن وقبح کے اصول۔ اس طرح اللہ کی بندگی کے اصول سے ایک مکمل نظام زندگی قائم ہوجاتا ہے۔ زندگی گزارنے کا ایک منہاج سامنے آجاتا ہے۔ یہ ایک ربانی منہاج حیات ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندگی اور خدائی کا باہم تعلق کیا ہوتا ہے ؟ اور وہ کیا قدریں ہیں ، جو زندہ اور غیر زندہ اشیاء کے متعلق اللہ نے تجویز فرمائی ہیں۔ اور ” خدا کا خوف “ وہ ضامن ہے جو اس نظام زندگی اور منہاج حیات کو قائم رکھتا ہے۔ جس قوم کے دل میں خدا کا خوف ہو وہ اس منہاج سے ادھر ادھر نہیں جاتی۔ نہ اس میں حیلے اور بہانے تلاش کرتی ہے۔ نیز تقویٰ کے بدولت انسان کے اندر اخلاق فاضلہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ انسان کا طرز عمل حقیقی ہوتا ہے ، بغیر کسی ظاہرداری اور دکھاوے کے۔ اطاعت رسول سے دراصل راستے کی حدود کا تعین ہوتا ہے اور انسان اس سیدھی راہ پر چلنے کے لئے تفصیلی ہدایات اخذ کرتا ہے اور براہ راست رب تعالیٰ اور عالم بالا سے مربوط رہتا ہے۔ یہ تھے وہ خطوط جن پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے آغاز انسانیت سے لوگوں کے لئے راہ ہدایت اور منہاج حیات استوار کیا۔ اور از منہ مابعد کی تمام دعوتیں انہی خطوط پر استوار ہوتی رہیں اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم سے وعدہ کیا کہ اگر تم نے توبہ کرلی اور لوٹ آئے تو اللہ معاف کردے گا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو اور میرا کہا مانو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آچکا ہے یہ بہت پرانے پیغمبر ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بعداللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی آبادی کے لئے ان کو رسول بنا کر بھیجا تھا چناچہ انہوں نے تمام ... بنی نوح انسان کو سمجھانا شروع کیا اللہ کی عبادت اور اپنی اطاعت کا حکم دیا اور توحید و رسالت پر جو ثمرات مرتب ہونے والے ہیں ان سے بھی ان کو آگاہ کیا چناچہ فرمایا اللہ کی عبادت اور تقویٰ اور میری اطاعت اگر تم نے اختیار کی تو۔  Show more