Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 6

سورة نوح

فَلَمۡ یَزِدۡہُمۡ دُعَآءِیۡۤ اِلَّا فِرَارًا ﴿۶﴾

But my invitation increased them not except in flight.

مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیادہ بھاگنے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But all my calling added nothing but to (their) flight. meaning, `the more I called them to come to the truth, the more they fled from it and avoided it.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی میری پکار سے یہ ایمان سے اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ جب کوئی قوم گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے جتنا اللہ کی طرف بلاؤ، وہ اتنا ہی دور بھاگتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] یعنی میں نے اپنی امکانی حد تک لوگوں کو تیرا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حتیٰ کہ دن رات ایک کردیا۔ مگر یہ قوم کچھ اس قدر ضدی واقع ہوئی ہے کہ ہر سیدھی بات کا الٹا ہی مطلب لیتی ہے۔ میں نے جتنی بھی کوشش کی کہ انہیں اپنے قریب لاسکوں اتنا ہی یہ مجھ سے دور رہنے اور بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فلم یردھم دعآء ی الا فراراً : مگر ان پر لاٹا اثر ہوا، وہ ایمانق بول کرنے کے بجائے اور زیادہ دور بھاگنے لگے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمْ يَزِدْہُمْ دُعَاۗءِيْٓ اِلَّا فِرَارًا۝ ٦ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن م... عنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل ( ف ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآئِ یْٓ اِلَّا فِرَارًا ۔ } ” لیکن میری اس دعوت نے ان میں کچھ اضافہ نہیں کیا سوائے فرار کے۔ “ یعنی میری اس شب و روز کی دعوتی مساعی کے نتیجے میں ان کے گریز اور فرار ہی میں اضافہ ہوا۔ جتنا جتنا میں ان کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ یہ دور بھاگتے گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 That is, "As I went on calling them towards You, they went on fleeing farther and farther away from You."

سورة نُوْح حاشیہ نمبر :8 یعنی جتنا جتنا میں ان کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ دور بھاگتے چلے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:6) فلم یردھم دعائی الافرارا۔ ف بمعنی لیکن : لم یرد مضارع نفی جحد بلم۔ صیغہ واحد مذکر غائب۔ زیادۃ (باب ضرب) مصدر ۔ بمعنی بڑھانا ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب دعاء ی مضاف مضاف الیہ مل کر فاعل : الا فرارا استثناء مفرغ (جس کا مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو) فرارا مفعول ثانی دعوت کا۔ ترجمہ ہوگا :۔ لیکن میری ... دعوت نے ان میں زیادتی نہ کی مگر فرار کی، یعنی میری دعوت نے ان پر اور تو کوئی اثر نہ کیا سوائے اس کے کہ وہ مجھ سے دور بھاگتے رہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی میرے بلانے پر ایمان تو کیا لاتے ایمان سے انہیں اور زیادہنفرت ہوگئی، گویا میرے بلانے کا ان پر الٹا اثر ہوا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) پر میری دعوت نے ان میں زیادہ نہیں کیا مگر بھاگنا اور بدکنا۔ یعنی عرصہ دراز تک ان کو سمجھاتے رہے ، کہتے ہیں نو سو سال تک حضرت نوح علیہالسلام نے ان کو سمجھایا اور دین حق کی دعوت میں لگے رہے لیکن وہ کفر وشرک سے جب باز آنے پر تیار نہ ہوئے تو تنگ آکر حضرت نوح (علیہ السلام) نے بددعا کی اور اپنی دعوت و...  تبلیغ کو بارگاہ حق میں پیش کیا کہ رات اور دن ان کو دعوت دیتا رہا لیکن جس قدر بلایا اور سمجھایا اسی قدر ان کی نفرت اور فرار بڑھتے گئے۔ گویا میری دعوت و تبلیغ نے ان میں کچھ نہیں بڑھایا مگر بھاگنے کا اضافہ ہوا آگے اور تفصیل ہے۔  Show more