Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 1

سورة الجن

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾

Say, [O Muhammad], "It has been revealed to me that a group of the jinn listened and said, 'Indeed, we have heard an amazing Qur'an.

۔ ( اے محمد ﷺ ) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے ( قرآن ) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Jinns listening to the Qur'an and Their Belief in It Allah commands His Messenger to inform his people that the Jinns listened to the Qur'an, believed in it, affirmed its truthfulness and adhered to it. So Allah says, قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْانًا عَجَبًا

جنات پر قرآن حکیم کا اثر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن کریم سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے ، فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ا... یک جماعت نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے ہم تو اسے مان چکے ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں ۔ یہی مضمون آیتوں میں گذر چکا ہے آیت ( واذ صرفنا الیک الخ ، یعنی جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآں سنیں اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کر چکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں ، پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہم رب کے کام قدرت والے اس کے احکام بہت بلند و بالا ، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے ، اس کی نعمتیں ، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے ، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ( جد ) کہتے ہیں باپ کو ۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں جد ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے ، یہ قول گو سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو واللہ اعلم ، پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو ، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بےعقل ہے ، جھوٹ بکتا ہے ، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے ، پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن وانس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے ، پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں ، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں ، جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے ۔ دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا ، وہ گناہ ، خوف ، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ کردم بن ابو سائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لئے باہر نکلا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو چکی تھی اور مکہ شریف میں آپ بحیثیت پیغمبر ظاہر ہو چکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کر لے بھاگا ، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں اتری کہ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے ، ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کر لے گیا ہو اور چرواہے کی اس وہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ جنات کی پناہ میں آ جانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہو جائیں واللہ اعلم ۔ یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اے جنو جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یہ واقعہ (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀) 46 ۔ الاحقاف :29) کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر...  کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا،  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند اصحاب کے ساتھ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی تھی اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے ا... ور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا ؟ ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوئی ہے۔ اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا پھر کہنے لگے : یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے آسمان کی خبر ہم پر بند کردی گئی۔ پھر اس وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں کہنے لگے (یَا قَوْمَنَا انَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا۔۔ اَحَدًا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت نازل فرمائی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جنوں کی یہ گفتگو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) خ جنوں کا مختلف موقعوں پر قرآن سننا :۔ اس سے پیشتر سورة احقاف کی آیات ٢٩ تا ٣٢ میں بھی جنوں کے قرآن سننے کا ذکر گزر چکا ہے۔ لیکن قرآن کے ہی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں۔ سورة احقاف میں بیان شدہ واقعہ کے مطابق سننے والے جن مشرک نہیں تھے بلکہ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات پر ایمان رکھتے تھے پھر قرآن سننے کے بعد وہ جن قرآن پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ اس سورت میں جن جنوں کا ذکر آیا ہے یہ مشرک تھے۔ جنوں کے متعلق جو حقائق قرآن میں جا بجا مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (١) انسان کے علاوہ جن ہی ایسی مخلوق ہے جو شریعت کی مکلف ہے، (٢) جن ناری مخلوق ہے، جو تیز شعلہ یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیے گئے ہیں جبکہ انسان خاکی مخلوق ہے، (٣) انسان کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے اور ان میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن انسان کی تخلیق کے بعد نبوت کا سلسلہ سیدنا آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد میں منتقل ہوگیا۔ اب جو نبی انسانوں کے لئے مبعوث ہوتا ہے وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا ہے۔ خ جنوں کی صفات :۔ (٤) جن تو انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن انسان جنوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس سورة میں بھی جن جنوں کا ذکر آیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیکھا نہیں تھا بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے قرآن سننے اور متاثر ہو کر ایمان لانے کی خبر دی گئی، (٥) جن بھی انسانوں کی ہی علاقائی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جن قرآن سننے کے ساتھ ہی فوراً اسے سمجھ گئے اور ایمان لے آئے، (٦) انسان کی طرح ان میں بھی بعض نیک ہوتے ہیں، بعض بدکردار اور نافرمان۔ نیز جس قسم کے عقائد، اچھے ہوں یا برے، انسانوں میں پائے جاتے ہیں جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں، (٧) بدکردار جنوں کو شیطان کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ ان معنوں میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، (٨) انسانوں کی طرح ان میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قل اوحی الی انہ استمع…: اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنوں کا قرآن سن کر ایمان لانا اور ان کی آپ س کی ساری گفتگو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہوئی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں :(ماقراء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی الجن و ما راھم) (مسلم، الصلاۃ ، باب الجھر بالقراء...  ۃ فی الصبح …: ٣٣٩)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ جنوں کے سامنے قرآن پڑھا اور نہ انہیں دیکھا (وہ تو آپ کے پاس اقت آئے جب آپ نخلہ میں تھے اور انہوں نے اس موقع پر قرآن سنا۔ “ ہاں، اس کے بعد کئی دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنوں سے ملاقات ہوئی اور آپ نے انہیں قرآن سنایم اور پڑھایا، جیسا کہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ سے غائب رہے، صحابہ نے وہ رات سخت پریشانی میں گزاری، تلاش کرتے کرتے وہ آپ سے اس وقت ملے جب آپ حرا کی طرف سے آرہے تھے۔ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا :(اتانی داعی الجن فذھبت معہ فقرات علیھم القرآن )” میرے پاس جنوں کا دعوت دینے والا آیا تھا، چناچہ میں اس کیساتھ گیا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ “ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں : پھر آپ ہمیں لے گئے اور ہمیں ان کے نشان اور ان کی آگوں کے نشان دکھائے۔ “ (مسلم، الصلاۃ ، باب الجھر بالقراء ۃ فی تصحیح…: ٣٥٠) اسی طرح ایک دفعہ آپ نے جنوں کے سامنے سورة رحمان پڑھی اور وہ (فبای آلاء ربکما تکذبن) تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) پر جواب دیتے رہے :(لا بشیء من یعمک ربنا ت کذب فلک الحمد) (ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة الرحمن : ٣٢٩١، وقال الانباتی صحیح)” ہم تیری کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اے ہمارے رب ! اور تیرے ہی لئے سب تعریف ہے۔ “ (٢) ان آیات میں کفار قریش کو شرم دلائی گئی ہے کہ دیکھو اتنی مدت تک سننے کے باوجود تم پر قرآن کا کچھ اثر نہیں ہوا، نہ تم شرک کی نجاست سے پاک ہو سکے، جب کہ یہ اتنی اعلیٰ ، موثر اور عجیب کتاب ہے کہ جنوں کی اس جماعت نے اسے سنتے ہی ایمان قبول کرلیا اور ہمیشہ کے لئے شرک چھوڑنے کا اعلانا کردیا، حالانکہ جنوں کی سرکشی مشہور و معروف ہے۔ (٣) یہ بھی معلوم ہوا کہ جن وہ زبانیں جانتے ہیں جو انسانوں میں بولی جای ہیں، کم از کم وہ جن تو عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کی باریکیوں تک کو اتنا سمجھتے تھے کہ انہوں نے قرآن کو عجیب قرار دیا اور فوراً اس پر ایمان لے آئے۔ (٤) جن بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مخطاب ہیں اور ان کے رسول بھی وہی ہیں جو انسانوں کے ہیں۔ قرآن مجید یا حدیث میں جنوں میں سے کسی پیغمبر کا ذکر نہیں آیا، اس کے برعکس زیر تفسیر سورت میں صاف ذکر ہے کہ جن قرآن پر ایمان لائے اور سورة احقاف میں ہے کہ انہوں نے کہا، ہم نے ایک ایسی کتاب سنی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے۔ (دیکھیے احقاف : ژ ٣) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا رسول مانتے تھے۔ سورة رحمان کی تمام آیات، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنوں کے سامنے انہیں پڑھنا اور ان کا جواب دینا بھی اس بات کی دلیل ہے۔ سورة انبیاء (٧، ٨) سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (٥) جنوں میں شرک کرنے والے بھی موجود ہیں، جیسا کہ یہ جن مشرک تھے اور انہوں نے قرآن مجید سننے کے بعد شرک چھوڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی آیت ا پڑھ رہ تھے جس سے انہیں شرک کی خرابی معلوم ہوئی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Preliminary Remarks It seems necessary to know a few facts before the start of the study of the Surah, which are as follows: Fact [ 1] Before the advent of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the devils used to go up to the heavens and eavesdrop on the conversations of the angels. After his advent, they were pelted with a piercing flame if they attempted to go up and eavesdrop....  It is mentioned in Surah Al-Ahqaf that a group of jinn went up to the Holy Prophet to investigate the reason for this new phenomenon. Fact [ 2] It was customary in the Days of Ignorance that when people halted in a jungle or valley in the course of a journey, they uttered the following words: اعوذ بعزیز ھذا الودی من شر سفھاء قومہ |"I seek refuge in the leader of this valley from the foolish mischief-makers of his nation|" - believing that the leader of the valley (a Jinn) would protect them. Fact [ 3] A terrible famine held Makkah in its grip for several years as a result of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prayer. Fact [ 4] When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called the pagans towards Islam, they opposed him tooth and nail. The first two incidents are taken from Tafsir Durr Manthur and the last two incidents are taken from Tafsir Ibn Kathir. نَفَرٌ‌ مِّنَ الْجِنِّ (...a group from Jinn....72:1). The word nafar is used for a group consisting of three to ten people. The Jinn referred to here are said to be a group of nine Jinns from a place called Nasibin. Reality of Jinn Jinn is one of the Divine creatures. They have body and soul. They, like human beings, have intellect and senses, but they are hidden from human eyes. This species of creation is called &Jinn& because it literally means &hidden& or &invisible&. They, like human beings, are created from the four primal elements: dust, water, air and fire, but the element of fire predominates in them, whereas in man the element of dust predominates. They, like human beings, are males and females; and they, like human beings, marry and procreate. Apparently, the word shaitan [ pl. shayatin ] &Shaitan& refers to the &arrogant mischief-making Jinn&. The existence of Jinn and angels is established by conclusive and incontestable evidence in the Qur&an and Sunnah, the denial or rejection of which amounts to disbelieving the Qur&an. [ Tafsir Mazhari ]. قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ Say, (It has been revealed to me 72:1). This shows that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not see the group of Jinn who heard him recite the Qur&an. Allah informed him by the revelation of Surah Al-Jinn. Circumstances of Revelation Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) narrates, as recorded in Sahih of Bukhari, of Muslim, and in Tirmidhi and other collections, that Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not by deliberate design make the Jinn listen to the Qur&an, nor did he see them. The true story is that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، with his Companions, was going to the marketplace of ` Ukaz. This incident took place at a time when the devils were barred from going to the skies and eavesdropping on the conversations of the angels by being pelted with piercing flames. When the Jinn realised that they were no longer free to eavesdrop, they discussed among themselves that the incident could not be coincidental. There must be a genuine reason for that. So they divided themselves into groups and each group went in different direction to investigate the cause of the new phenomenon. One of the groups arrived at a place called Nakhlah in Tihamah where Hijaz is situated. At that juncture, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was leading the Sahabah in Fajr salah and the Jinn had the opportunity to hear the Qur&an. When this group of Jinn heard the Qur&an, they listened to it very attentively and concluded on oath that it was the Qur&an that prevented them from eavesdropping in the heavens. Then they returned to their fellow Jinns and recounted to them the entire episode, which is mentioned in the following verse: فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا (...and said [ to their people ], Indeed we have heard an amazing Recital [ Qur&an ]....72:1). Allah informed His Messenger about the entire incident of the Jinn in the verses under discussion. Abu Talib&s Death and the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Journey to Ta&if Most commentators say that after the death of Abu Talib the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) felt lonely, having no friend or supporter in Makkah. So, he undertook a journey to Ta&if where he approached Banu Thaqif for assistance against the hostility and persecution of his people. According to Muhammad Ibn Ishaq&s narration, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) arrived in Ta&if, he approached the three brothers of Banu Thaqif. They were recognized as the leaders and honorable members of the tribe. The three brothers were ` Umair&s sons, their names being ` Abd Yalil, Sa’ ud and Habib. They had a Quraishite lady in their house. Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) invited them to the call of Islam and mentioned about his people&s hostility and persecution and asked for help. But they responded very harshly and did not speak to him about anything. Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw that these three people were the most respected leaders of Banu Thaqif, from whom he expected a favourable response, but he was disappointed. He said to them that if they did not wish to help him, they should at least keep his arrival and request for help confidential and not tell his people; because if they came to know about it, they would persecute him even more harshly. But the oppressors did not concede to this either. On the contrary, they let loose on him foolish hooligans, slaves and hoodlums, so that they may revile him and make violent noises in public places against him. When they made violent noises, more hoodlums and young violent criminal elements joined in. In order to save himself from the mischief of the hooligans and hoodlums, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) took refuge in a vineyard which belonged to two brothers, namely ` Utbah and Shaibah. The brothers themselves were in the vineyard at the time. The hooligans and hoodlums left him and went back. The two brothers were watching him, and they also watched how violently the foolish people behaved towards him. Just then the Quraishite lady, who was in the house of the oppressors, came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He complained to her how her in-laws persecuted him. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) felt a bit settled in the vineyard, he prayed to Allah. The wordings of the supplication are unusual and on no other occasion such wordings are recorded: اللَّھُمَّ اِنِّی اَشکُوا الَیکَ ضُعفَ قُوَّتِی وَ قِلَّۃَ حِیلَتِی وَ ھَوَانِی عَلَی النَّاسِ وَ اَنتَ اَرحَمُ الرَّاحِمِینَ وَ اَنتَ رَبُّ المُستضعفِینَ فَاَنتَ رَبِّی اَلیٰ مَن تَکِلنِی اِلیٰ بَعِیدِ یَتَھَجَّمُنِی اَو اِلیٰ عَدُوِّ مَّلَّکتَہ اَمرِی اِن لَّم تَکُن سَاخِطاً عَلَیَّ فَلَآ اُبالِی وَ لٰکِنَّ عَافِیَتَکَ ھِیَ اَوسعُ لِی۔ اَعُوذُ بِنُورِ وَجھِکَ الَّذِیُ اَشرَقَت لَہُ الظُّلُمَاتُ وَ صَلُحَ عَلَیہِ اَمرُ الدُّنیَا وَ الاٰخِرَۃِ مِن ۔ (مظھری باختصار) |"0 Allah, I complain to you the weakness of my strength and the shortage of my options, and lack of respect for me in the sight of people. You are the Most Merciful of all, and You are the Cherisher and Sustainer of the weaklings. You are my Cherisher. To whom are You handing me over? - to a stranger who would attack me? Or to an enemy whom You have given control over me (so that he may do as he wishes)? If You are not angry with me, I do not care. Your caring about me is better (which I pray for). I seek refuge in the light of Your blessed Being which dispels all darkness and on the foundation of which all matters related to this world and the next world are set a right. If You send down Your wrath on us, our task is to exert ourselves until we gain Your good pleasure. And there is neither strength nor power except through You.|" [ condensed from Mazhari ]. When Rabi` ah&s sons ` Utbah and Shaibah saw this, they felt compassion for him in their heart. They called one of their Christian slaves, ` Addas by name, and asked him to break a bunch of grapes, place it in a plate and give it to that person and ask him to eat. Complying with the instructions, ` Addas kept the plate of grapes in front of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He recited bismil-lah &In the name of Allah& and stretched his hand towards it. ` Addas was watching all this and said: By Allah! this speech [ referring to the formula of basmalah ] is not used by the inhabitants of this city. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him as to where he was from and what his religion was. He replied that he was a Christian and hailed from Nineveh. Then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to him that this means &you are from the village of Yunus Ibn Matta علیہ السلام . He asked: |"What do you know about Yunus Ibn Matta.|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied: |"He was my brother. He was Allah&s Prophet. I too am Allah&s Prophet.|" At this, ` Addas fell to the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) feet. He kissed the blessed head of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his hands and legs. ` Utbah and Shaibah watched the whole incident. One of them said to the other: |"I hope he has not set our slave awry.|" When &Addas returned to them, they asked him: |"What has happened? You were kissing his hands and feet?|" He replied: |"My masters, at this time there is no person better than he on the face of the earth. He has taught me something which none other than a Prophet can teach.|" They said: |"You miserable wretch, may it not happen that this man turns you away from your religion, because your religion in any case is better than his.|" When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was completely despaired of Thaqif’ s assistance, he returned from Ta&if to Makkah. On his way back, he halted at Nakhlah and towards the latter part of the night he performed salat-ut-tahajjud. The delegation of Jinns of Nasibin of Yemen had also gone there. They heard the Qur&an and embraced the faith. They went back to their people and recounted to them the whole incident which Allah has mentioned in the verses under comment. [ Mazhari ] A Jinn Companion of the Holy Prophet Ibn Jauzi, in his book Sifat-us-Safwah, through his own chain of authorities, reports from Sahl Ibn ` Abdullah (رض) that he saw an old Jinn, in a place, who was performing salah in the direction of Ka&bah. He was wearing a woolen cloak that looked beautiful on him and in which he looked graceful. After he completed his prayer, Sayyidna Sahl (رض) greeted him. Replying to his greeting, he said: &You seem to be admiring the beauty of this cloak. This cloak is on my body for seven hundred years. I have met Holy Prophet ` Isa (علیہ السلام) in this cloak, and in the same cloak I met Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and I am from among those Jinns about whom Surah Al-Jinn was revealed.& According to the Hadith narratives that recount the incident of the &Night of Jinn&, (i.e. the night in which the Jinns visited the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) was with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) met the Jinns in a valley near Makkah for the specific purpose of inviting them to the call of Islam and making them hear the Qur&an by deliberate design. Apparently, this incident occurred after the incident mentioned in Surah AI-Jinn. ` Allamah Khafaji has said that reliable Ahadith confirm that the Jinn delegations met the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) six times. Thus there is no contradiction between the two versions of the incident, because they are two separate incidents. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was not even aware of the incident of the Jinn&s coming to him and listening to the Qur&an that is mentioned in Surah Jinn. He only learnt about it later through revelation. This incident happened at Nakhlah on his way back from Taif. The other narratives from which we gather that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) met the Jinn by deliberate design in a valley near the city of Makkah to preach to them and make them hear the Qur&an - is a separate incident which took place after that.  Show more

خلاصہ تفسیر شان نزول : تفسیر آیات سے پہلے چند واقعات جاننے کے قابل ہیں جن کی ضرورت تفسیر میں پیش آوے گی۔ واقعہ اول، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمان تک پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے، آپ کی بعثت کے بعد ان کو شہاب ثاقب کے ذریعہ اس سننے سے روک دیا گیا اور اسی حادثہ...  کی تحقیق کے ضمن میں یہ جنات آپ تک پہنچے جیسا کہ سورة احقاق میں گذرا۔ واقعہ دوم :۔ زمانہ جاہلیت میں عادت تھی کہ جب کسی جنگل یا وادی میں دوران سفر قیام کی نوبت آتی تو اس اعتقاد سے کہ جناب کے سروار ہماری حفاظت کریں گے یہ الفاظ کہا کرتے تھے اعوذ بعزیز ھذا الوادی من شر سفھاء قومہ یعنی میں اس جنگل کے سردار کی پناہ لیتا ہوں اس کی قوم کے بیوقوف شریر لوگوں سے واقعہ سوم مکہ مکرمہ میں آپ کی بددعا سے قحط پڑا تھا اور کئی سال تک رہا۔ واقعہ چہارم، جب آپ نے دعوت اسلامی شروع کی تو کفار مخالفین کا آپ کے خلاف ہجوم اور نرغہ ہوا پہلے دو واقعے تفسیر در منشور سے اور آخری دو تفسیر ابن کثیر سے لئے گئے ہیں۔ آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا پھر) اپنی قوم میں واپس جا کر) انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست بتلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے (قرآن ہونا تو اس کے مضمون سے معلوم ہوا اور عجیب ہونا اس سے کہ مشابہ کلام بشر کے نہیں) اور ہم (اب) اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہ بنائیں گے (یہ بیان ہے آمنابہ کا) اور (انہوں نے ان مضامین کا بھی باہم تذکرہ کیا جو ذیل میں آئے ہیں اور وہ مضامین یہ ہیں کہ) ہمارے پروردگار کی بڑی شان ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا اور نہ اولاد (کیونکہ ایسا ہونا عقلاً محال ہے۔ یہبیان ہے لن نشرک کا) اور ہم میں جو احمق ہوئے ہیں وہ اللہ کی شان میں حد سے بڑھی ہوئی باتیں کہتے تھے (مراد اس سے کلمات شرک بیوی اور اولاد کا اثبات وغیرہ ہیں) اور ہمارا (پہلے) یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے (کیونکہ بڑی بےباکی کی بات ہے اس میں وجہ اپنے مشرک ہونے کی بیان کی کہ چونکہ اکثر جن و انس شرک کرتے تھے ہم سمجھے کہ خدا کی شان میں اتنے شخصوں نے جھوٹ پر اتفاق نہ کیا ہوگا۔ بس ہم نے بھی اسی طریقہ کو اختیار کرلیا حالانکہ نہ مطلق لوگوں کا اتفاق کوئی دلیل حقانیت ہے اور نہ ہر اتفاق کا اتباع عذر ہے اور یہ شرک مذکور تو مشترک تھا) اور (ایک شرک خاص تھا بعضے آدمیوں کے ساتھ جس سے جنات کا کفر اور بڑھ گیا تھا وہ یہ کہ) بہت سے لوگ آدمیوں میں سے ایسے تھے کہ وہ جنتا میں سے بعضے لوگوں کی پاہ لیا کرتے تھے، سو ان آدمیوں نے ان جنات کی بد دماغی اور بڑھا دی (کہ وہ اس وہم میں مبتلا ہوگئے کہ ہم جنات کے سردار تو پہلے سے تھے اب آدمی بھی ہم کو ایسا بڑا سمجھتے ہیں بس اس سے بد دماغی بڑھی اور کفر وعناد پر اور زیادہ مصر ہوگئے۔ یہاں تک مضمون متعلق توحید کے تھا) اور (آگے بعثت یعنی قیامت کے متعلق ہے یعنی ان جنات نے باہم یہ بھی تذکرہ کیا کہ) جیسا تم نے خیال کر رکھا تھا ویسا ہی آدمیوں نے بھی خیال کر رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا (مگر یہ مضمون بھی غلط ثابت ہوا اور بعثت کا حق ہونا معلوم ہوا) اور (آگے رسالت کے متعلق مضمون ہے، یعنی ان جنات نے بام یہ بھی تذکرہ کیا کہ) ہم نے آسمان (کی خبروں) کی (موافق عادت سابقہ کے) تلاشی لینا چاہا سو ہم نے اس کو سخت پہرہ (یعنی محافظ فرشتوں) اور شعلوں سے (کہ ان کے ذریعہ سے حفاظت کی جاتی ہے) بھرا ہوا پایا (یعنی اب پہرہ ہوگیا کہ کوئی جن آسمانی خبر نہ لیجانے پائے اور جو جاوے شہاب ثاقب سے مارا جائے) اور (اس کے قبل) ہم آسمان (کی خبر سننے) کے موقعوں میں (خبر) سننے کے لئے جا بیٹھا کرتے تھے (اور یہ مواقع خواہ اجزاء آسمان ہی کے ہوں اور یا اجزاء ہوا یا کسی ملاء یا خلاء کے ہوں جو کہ آسمان کے قریب ہوں اور جنات اپنی لطافت اور عدم ثقل کی وجہ سے اس پر مستقر ہو سکتے ہوں جیسے بعض پرندے ہوا میں چلتے چلتے ٹھہر جاتے ہیں) سو جو کوئی اب سننا چاہتا ہے تو اپنے لئے ایک تیار شعلہ پاتا ہے (اور تحقیق مباحث شہاب کی سورة حجر کے رکوع دوم میں گذری ہے۔ یہ مضمون رسالت کے متعلق ہے۔ مطلب یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رسالت دی ہے اور دفع التباس کے لئے باب کہانت بند کردیا ہغے اور اس استراق یعنی خبروں کی چوری کا بند ہونا ہی سبب ہو ان جنات کے پہنچنے کا آپ کی خدمت میں، جیسا واقعہ اول میں مذکر ہے) اور (آگے مضامین مذکور کے متمات ہیں کہ) ہم نہیں جانتے کہ ( ان جدید پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث فرمانے سے) زمین والوں کو کوئی تکلیف پہنچانا مقصود ہے یا ان کے رب نے ان کو ہدایت کرنے قصد فرمایا ہے (یعنی مقصود تکوینی ارسال رسل کا معلوم نہیں کیونکہ رسول کے اتباع سے رشد و ہدات ہوتی ہے اور مخالفت سے مضرت و عقوبت اور اتباع اور مخالفت آئندہ کا ہم کو علم نہیں اس لئے ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کے بھیجنے سے قوم کو سزا دینا مقصود ہے یا ہدایت دینا، شاید یہ اس لئے کہا کہ ان کو اپنی قوم کا انداز تھا کہ ایمان لانے والے کم ہوں گے اور وہ سزا کے مستحق ہوجائیں گے و نیز نفی علم غیب سے تقویت ہے مضمون توحید کی کہ دیکھو بعضے لوگ علم غیب کو جنات کی طرف نسبت کرتے ہیں مگر ان کو اتنی بھی خبر نہیں) اور ہم میں (پہلے سے بھی) بعضے نیک (ہوتے آئے) ہیں اور بعضے اور طرح کے (ہوتے آئے) ہیں (غرض) ہم مختلف طریقوں پر تھے (اسی طرح ان نبی کی خبر سن کر اب بھی ہم میں دونوں طریقے کے لوگ موجود ہیں) اور (ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ) ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم زمین (کے کسی حصہ) میں (جا کر) اللہ تعالیٰ کو ہرا نہیں سکتے اور نہ (اور کہیں) بھاگ کر اس کو ہرا سکتے ہیں (بھاگنے سے مراد زمین کے علاوہ آسمان وغیرہ میں بھاگ جانا ہے جو فی الارض کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے فہوکقولہ تعالیٰ ماانتم بمعجزین فی الارض ولافی السمآء شاید اس سے بھی مقصود اندار ہو کر اگر کفر کریں گے تو خدا تعالیٰ کے عذبا سے بچ نہیں سکتے اور اپنے پہلے مختلف طریقوں کے بیان کرنے سے شاید یہ مقصود ہو کہ باوجود حق کے واضح ہوجانے کے بعض کا ایمان نہ لانا حق کے حق ہونے میں کوئی شبہ پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے) اور ہم نے جب ہدایت کی بات سن لی تو ہم نے تو اس کا یقین کرلیا سو (ہماری طرح) جو شخص اپنے رب پر ایمان لے آوے گا تو اس کو نہ کسی کمی کا اندیشہ ہوگا اور نہ زیادتی کا (کمی یہ کہ اس کی کوئی نیکی لکھنے سے رہ جائے اور زیادتی یہ کہ کوئی گناہ زیادہ لکھ لیا جاوے شاید مقصود اس سے ترغیب ہو) اور ہم میں بعضے تو (یہی مضامین انداز و ترغیب کو سمجھ کر) مسلمان (ہو گئے) ہیں اور بعضے ہم میں (بدستور سابق) بےراہ ہیں سو جو شخص مسلمان ہوگیا انہوں نے تو بھلائی کا راستہ ڈھنڈھ لیا (جس پر ثواب مرتب ہوگا) اور جو بےراہ ہیں وہ دوزخ کے ایندھن ہیں (یہاں تک کلام جنات کا ختم ہوگیا جو معمول ہے قالوا کا) اور (آگے اوحی الی کے دوسرے معمولات ہیں یعنی مجھ کو ان مضامین کی بھی وحی ہوئی ہے ایک یہ کہ) اگر یہ (مکہ والے) لوگ (سیدھے) رستے پر قائم ہوجاتے تو ہم ان کو فراغت کے پانی سے سیراب کرتے تاکہ اس میں ان کا امتحان کریں (کہ نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری و نافرماین کرتے ہیں، مطلب یہ کہ اگر اہل مکہ شرک نہ کرتے جس کی مذمت اوپر بضمن کلام جنات آ چکی ہے تو ان پر قحط مسلط نہ ہوتا جیسا واقعہ ثالثہ میں مذکور ہے مگر انہوں نے بجاے ایمان کے اغراض کیا اس لئے مبتلائے قحط مسلط نہ ہوتا جیسا واقعہ ثالثہ میں مذکور ہے مگر انہوں نے بجائے ایمان کے اعراض کیا اس لئے مبتلائے قحط ہوئے) اور (عقوبت کفر میں کچھ تخصیص اہل مکہ کی نہیں بلکہ) جو شخص اپنے پر ورگدار کی یاد (یعنی ایمان و اطاعت) سے روگردانی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا اور (ان وحی شدہ مضامین میں سے ایک یہ ہے کہ) جتنے سجدے ہیں وہ سب اللہ کا حق ہے (یعنی یہ جائز نہیں کہ کوئی سجدہ اللہ کو کیا جاوے اور کوئی سجدہ غیر اللہ کو جیسا مشرکین کرتے تھے) سو اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت مت کرو (اس مضمون میں بھی توحید کی تقریر ہے جس کا اوپر ذکر تھا) اور (ان وحی شدہ مضامین میں سے ایک یہ ہے کہ) جب خدا کا خاص بندہ (مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں) خدا کی عبادت کرنے کھڑا ہوتا ہے تو یہ (کافر) لوگ اس بندہ پر بھیڑ لگانے کو ہوجاتے ہیں (یعنی تعجب و عداوت سے ہر شخص اس طرح دیھتا ہے جیسے اب حملہ کرنے کے لئے بھیڑ لگا چاتہی ہے یہ بھی تمتمہ ہے مضمون توحید کا کیونکہ اس میں مذمت ہے مشرکین کی کہ توحید سے ان کو عداوت اور نفرت ہے آگے اس تعجب اور عداوت کے متعلق جواب دینے کے لئے آپ کو ارشاد ہے یعنی) آپ (ان سے) یہ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (سو یہ کوئی تعجب اور عداوت کی بات نہیں یہ سب مضمون متعلق توحید تھا آگے رسالت کے متعلق مضمون ہے کہ) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے نہ کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا (یعنی تم جو ایسی فرمائشیں کرتے ہو کہ اگر آپ رسول ہیں تو ہم پر عذاب نازل کریں دیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرے اختیار میں نہیں اور اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک طرح ہم آپ کو رسول مان لیں کہ آپ مضامین توحید و قرآن میں کچھ تغیر و تبدل کردیں تو اس کے جواب میں) آپ کہہ دیجئے کہ (اگر خدانخواستہ میں ایسا کروں تو) مجھ کو خدا (کے غضب) سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ (کی جگہ) پاکستا ہوں (مطلب یہ کہ نہ خود کوئی میرا بچانے والا ہوگا اور نہ میری تلاش سے مل سکے گا اور کفار کے ایسے اقوال استعجال عذاب و استبدلال قرآن و دین کے قرآن میں جا بجا مذکور ہیں اور اوپر لا املک لکم ضرا ولارشدا میں نفی اختیار نفع و ضرر کی فرمائی آگے اثبات منصب رسالت کا فرماتے ہیں کہ ضرر و نفع کا مالک ہونا تو لازمہ نبوت نہیں وہ تو منفی ہے) لیکن خدا کی طرف سے پہنچانا اور اس کے پیغاموں کا ادا کرنا یہ میرا کام ہے اور (آگے توحید و رسالت دونوں کے متعلق مضمون ہے کہ) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا کہنا نہیں مانتے تو یقینا ان لوگوں کے لئے آتش دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (مگر کفار اس وقت ان مضامین سے متاثر نہیں ہوتے بلکہا لٹا مسلمانوں کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں (آیت) ای الفریقین خیر مقاما و احسن ندیا اور یہ اس جہالت سے باز نہ آویں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اس وقت جائیں گے کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کی جماعت کم ہے (یعنی کافر ہی ایسے ہوں گے جن کے کوئی کام نہ آوے گا پس مراد جماعت سے جماعت مطیعہ ہے ناصرا میں نافع اعلی کی نفی ہوگئی اور عدداً میں نافع ادنی کی آگے قیامت کے متعلق کلام ہے کہ یہ لوگ قیامت کا وقت بطور انکار کے دریافت کرتے ہیں تو) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آیا وہ نزدیک (آنے والی) ہے یا میرے پروردگار نے اس کے لئے کوئی مدت دراز مقرر کر رکھی ہے (لیکن ہر حال میں وہ آوے گی ضرور رہا علم تعیین سو وہ محض غیب ہے اور) غیب کا جاننے والا وہی ہے سو (جس غیب پر کسی کو مطلع کرنا مصلحت نہیں ہوتا) وہ اپنے (ایسے) غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (اور علم تعیین قیامت ایسا ہی ہے کہ اس پر کسی کو مطلع کرنے میں کوئی مصلحت نہیں کیونکہ وہ علوم متعلقہ بالنبوة سے نہیں جن کے حصول کو قرب الٰہی میں دخل ہوتا ہے پس ایسے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا) ہاں مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو ( اگر کسی ایسے علم پر مطلع کرنا چاہتا ہے جو کہ علم نبوت سے ہو خواہ مثبت نبوت ہو جیسے پیشین گوئیاں خواہ فروع نبوت سے ہو جیسے علم احکام) تو (اس طرح اطلاع دیتا ہے کہ) اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے (یعنی جمعی جہات میں وحی کے وقت) محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے (تاکہ وہاں شیاطین کا گذر نہ ہو جہ کہ وحی جو فرشتہ سے سن کر اور کسی سے جا کہیں یا کسی وسوسہ وغیرہ کا القاء کرسکیں چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایسے پہرہ دار فرشتے چار تھے کمافی روح المعانی اور یہ انتظام اس لئے کیا جاتا ہے) تاکہ (ظاہری طور پر) اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجاوے کہ ان فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغام (رسول تک بحفاظت) پہنچا دیئے (اور اس میں کسی کا دخل و تصرف نہیں ہوا اور پہنچانے اولا تو صرف وحی کا فرشتہ ہے لیکن معیت کی وجہ سے رصد یعنی محافظ فرشتوں کی طرف بھی اساد فعل کی کردی) اور اللہ تعالیٰ ان (پہرہ داروں) کے تمام احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے (اس لئے پہر دار ایسے مقرر کئے گئے ہیں جو اس کام کے پورے پورے اہل ہیں) اور اس کو ہر چیز کی گنتی معلوم ہے (پس وحی کے سب اجزاء ایک ایک کر کے اس کو معلوم ہیں اور وہ سب کی پوری حفاظت کرتا ہے حاصل مقام یہ کہ تعیین قیامت کا علم علوم نبوت سے نہیں اس لئے اس کا علم نہ ہونا نبوت کے منافی نہیں البتہ علوم نبوت عطا کئے جاتے رہیں اور ان میں احتمال خطا کا نہیں ہوتا تو ایسے علوم سے تم مستفید ہو اور زوائد کی تحقیق چھوڑو) معارف ومسائل نَفَرٌ مِّنَ الْجِنّ ۔ لفظ نفرتین سے دس تک عدد کے لئے بولا جاتا ہے۔ جن جنات کا یہاں ذکر ہے روایت یہ ہے کہ یہ نو حضرات تھے نصیبین کے رہنے والے جنات کی حقیقت :۔ جن مخلوقات الٰہیہ میں ایک ایسی مخلوق کا نام جو ذی اجسام بھی ہیں ذی روح بھی اور انسان کی طرح عقل و شعور والے بھی مگر لوگوں کی نظروں سے مخفی ہیں، اسی لئے ان کا نام جن رکھا گیا کہ جن کے لفظی معنے مخفی کے ہیں۔ ان کی تخلیق کا غالب مادہ آگ ہے جیسے انسان کی تخلیق کا غالب مادہ مٹی ہے۔ اس نوع میں بھی انسان کی طرح نر و مادہ یعنی مرد و عورت ہیں اور انسان ہی کطرح ان میں تو الدوتناسل کا سلسلہ بھی ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ قرآن میں جن کو شیاطین کہا گیا ہے وہ بھی جنات ہی میں سے شریر لوگوں کا نام ہے۔ جنات اور فرشتوں کا وجود قرآن و سنت کی قطعی دلائل سے ثابت ہے جس کا انکار کفر ہے (تفسیر مظہری) قُلْ اُوْحِيَ اِلَيّ سے معلوم ہوا کہ جنات کے جس واقعہ کا یہاں ذکر ہے اس میں آپ نے قرآن سننے والے جنات کو دیکھا نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اطلاع دی۔ سورة جن کے نزول کے واقعہ کی تفصیل :۔ صحیح بخاری، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ (اس واقعہ میں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو قرآن بالقصد سنایا نہیں بلکہ ان کو دیکھا بھی نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ پیش آیا کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ بازار عکاظ کی طرف جا رہے تھے اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ شیاطین کو آسمان کی خبریں سننے سے شہاب ثاقب کے ذریعہ روک دیا گیا تھا اور جنات نے باہم مشورہ کیا کہ یہ حادثہ جو ہم پر آسمانی خبروں سے ممنوع ہوجانے کا پیش آیا ہے یہ کوئی اتفاقی بات معلوم نہیں ہوتی دنیا میں کوئی نئی چیز پیش آئی ہے جو اس کا سبب ہوئی اور یہ طے کیا کہ زمین کے مشرق و مغرب اور ہر طرف میں جنات کے وفود جائیں اور اس کی تحقیق کر کے آویں کہ یہ نئی چیز کیا پیش آئی ہے۔ ان کا جو وفد تہامہ حجاز کی طرف بھیجا گیا تھا وہ مقام نخلہ پر پہنچے تو وہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صابہ کرام کے ساتھ صبح کی نماز جماعت سے ادا کر رہے تھے۔ جنات کے اس وفد نے جب قرآن سنا تو قسمیں کھا کر آپس میں کہنے لگے کہ واللہ یہی کلام ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل اور مانع بنا ہے۔ یہ لوگ یہاں سے لوٹے اور جا کر اپنی قوم سے یہ قصہ بیان کیا جس کا ذکر ان آیات میں ہے۔ انا سمعنا قرانا عجبا الآیتہ اللہ تعالیٰ نے اس سارے واقعہ کی خبر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان آیات میں دیدی۔ ابوطالب کی وفات اور آنحضرت کا سفر طائف :۔ اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ ابوطالب کی وفات کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں بےیارومددگار رہ گئے تو آپ نے تن تنہا طائف کا سفر کیا کہ وہاں کے قبیلہ بنی ثقیف سے اپنی قوم کے مظالم کے مقابل ہمیں کچھ مدد اور معاونت حاصل کرسکیں محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین بھائیوں کے پاس گئے جو قبیلہ کے سردار اور شریف سمجھے جاتے تھے، یہ تین بھائی عمیر کے بیٹے عبدیالیل اور سعود اور جبیب تھے، ان کے گھر میں ایک عورت قریش کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور اپنی قوم کے مظالم کا ذکر کر کے ان سے معاوتن کے لئے فرمایا۔ مگر ان تینوں نے بڑا سخت جواب دیا اور آپ سے اور کچھ کلام نہیں کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دیکھا کہ قبیلہ بنو ثقیف کے یہی تین آدمی ایسے شریف سمجھے جاتے تھے جن سے کس معقول جواب کی امید تھی، ان سے بھی مایوسی ہوگئی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اچھا اگر آپ لوگ میری مدد نہیں کرتے تو کم از کم میرے آنے کو میری قوم پر ظاہر نہ کرنا۔ مقصد یہ تھا کہ ان کو خبر ملے گی تو اور زیادہ ستاویں گے، مگر ان ظالموں نے یہ بات بھی نہ مانی بلکہ اپنے قبیلہ کے بیوقوف لوگوں اور غلاموں کو آپ کے پیچھے لگا دیا کہ آپ کو گالیاں دیں اور شور مچائیں ان کے شور و شغب سے بہت سے اور شریر جمع ہوگئے۔ آپ نے ان کے شر سے بچنے کے لئے ایک باغ میں جو عتبہ اور شیبہ دو بھائیوں کا باغ تھا اس میں پناہ لی اور یہ دونوں بھی اس باغ میں موجود تھے۔ اس وقت یہ شریر لوگ آپ کو چھوڑ کر واپس ہوئے اور آپ انگوروں کے باغ کے سائے میں بیٹھ گئے یہ دونوں بھائی آپ کو دیکھ رہے تھے اور یہ بھی دیکھا تھا کہ ان کی قوم کے بیوقوفوں کے ہاتھوں آپ کو کیا تکلیف اور اذیت پیش آئی۔ اسی درمیان وہ قریشی عورت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملی جو ان ظالموں کے گھر میں تھی۔ آپ نے اس سے شکایت کی کہ تمہاری سسرال کے لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ جب اس باغ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ اطمینان حاصل ہوا تو آپ نے اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں دعا مانگنی شروع کی، اس دعا کے الفاظ بھی عجیب و غریب ہیں اور کسی موقع پر آپ سے ایسے الفاظ دعا منقول نہیں، وہ دعا یہ ہے۔ ترجمہ :۔ یا اللہ میں آپ سے شکایت کرتا ہوں اپنی قوت کے ضعف اور کمی کی اور اپنی تدبیر کی ناکامی کی اور لوگوں کی نظروں میں اپنی خفت و بےتوقیری کی اور آپ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں اور آپ کمزوروں کی پورش فرمانے والے ہیں آپ ہی میرے رب ہیں، آپ مجھے کس کے سپرد کرتے ہیں کیا ایک غیر آدمی کے جو مجھ پر حملہ کرے یا کسی دشمن کے جس کو آپ نے مرے معاملہ کا مالک بنادیا ہے ( کہ جو چاہے کرے) اگر آپ مجھ پر ناراض نہوں تو مجھے ان سب چیزوں کی بھی پروا نہیں لیکن آپ کی عافیت میرے لئے زیادہ بہتر ہے (اس کو طلب کرتا ہوں) میں آپ کی ذات مبارک کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے تمام اندھیریاں روشن ہوجاتی ہیں اور اس کی بنا پر دنیا و آخرت کے سب کام درست ہوجاتے ہیں۔ اس بات سے کہ مجھ پر اپنا غضب نازل فرمائیں ہمارا کام ہی یہ ہے کہ آپ کو راضی کرنے اور منانے میں لگے رہیں جب تک کہ آپ راضی نہ ہو جائی اور ہم تو کسی برائی سے بچ سکتے نہیں نہ کسی بھلائی کو حاصل کرسکتے ہیں بجز آپ کی مدد کے۔ جب ربیعہ کے دونوں بیٹیوں عتبہ اور شیبہ نے یہ حال دیکھا تو ان کے دل میں رحم آیا اور اپنے ایک نصرانی غلام عداس نامی کو بلا کر کہا کہا انگور کا ایک خوشہ لو اور ایک طبق میں رکھ کر اس شخص کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو یہ کھائیں۔ عداس نے ایسا ہی کیا اس نے جاکر انگور کا یہ طبق آپ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عداس یہ دیکھ رہا تھا کہنے لگا واللہ یہ کلام یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تو اس شہر کے لوگ نہیں بولتے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا عداس تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا کیا مذہب ہے۔ اس نے کہا میں نصرانی ہوں اور نینوا کا رہنے والا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا تو اللہ کے نیک بندے یونس بن متی (علیہ السلام) کی بستی کے رہے والے ہو۔ اس نے کہا کہ آپ کو یونس بن متی کی کیا خب۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ میرے بھائی ہیں کیونکہ وہ بھی اللہ کے نبی تھے میں بھی نبی ہوں۔ یہ سن کر عداس آپ کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے سر مبارک اور ہاتھوں پاؤں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ یہ ماجرا دیکھ رہے تھے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس نے ہمارے غلام کو تو خراب کردیا جب عداس لوٹ کر ان کے اس گیا تو انہوں نے کہا کہ عداس تجھے کیا ہوا کہ اس شخص کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینے لگا۔ اس نے کہا کہ میرے سردارو۔ اس وقت زمین پر اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں۔ اس نے مجھے ایک ایسی بات بتلائی جو نبی کے سوا کوئی نہیں بتلا سکتا۔ انہوں نے کہا کمبخت ایسا نہ ہو کہ یہ آدمی تجھے تیرے مذہب سے پھیر دے۔ کیونکہ تیرا دین بہرحال اس کے دین سے بہتر ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ گئے جبکہ ثقیف کی ہر خیر سے مایوس ہوگئے۔ واپسی میں آپ نے مقام نخلہ پر قیام فرمایا اور آخر شب میں نماز تہجد پڑھنے لگے تو ملک یمن نصیبین کے جنات کا یہ وفد بھی وہاں پہنچا ہوا تھا اس نے قرآن سنا اور سن کر ایمان لے آئے اور اپنی قوم کی طرف واپس جا کر واقعہ بتلایا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیات مذکورہ میں نازل فرمایا۔ (مظہری) ایک صحابی جن کا واقعہ :۔ ابن جوزی نے کتاب الصفوہ میں اپنی سند کے ساتھ حضرت سہل بن عبداللہ سے نقل کیا کہا نہوں نے ایک مقام پر ایک بوڑھے جن کو دیکھا کہ بیت اللہ کی طرف نماز پڑھ رہا ہے اور اون کا جبہ پہنے ہؤے تھا جس پر بڑی رونق معلوم ہوتی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت سہل کہتے ہیں کہ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دے کر بتلایا کہ تم اس جبہ کی رونق سے تعجب کر رہے ہو یہ جبہ سات سو سال سے میرے بدن پر ہے، اسی جبہ میں میں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کی، پھر اسی جبہ میں محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور میں ان جنات میں سے ہوں جن کے بارے میں سورة جن نازل ہوئی ہے۔ (مظہری) اور روایات حدیث میں جو لیلتہ الجن کا واقعہ مذکور ہے جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود آپ کے ساتھ تھے اس میں آپ کا بالقصد جنات کو تبلیغ و دعوت کے لئے مکہ مکرمہ کے قریب جنگل میں جانا اور قرآن سنانا منقول ہے وہ بظاہر اس واقعہ کے بعد کا قصہ ہے جس کا ذکر سورة جن میں آیا ہے۔ اور علامہ خفاجی نے فرمایا کہ احادیث معتبرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات کے وفود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں چھ مرتبہ حاضر ہوئے ہیں اسلئے ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں کہ سورة جن والے واقعہ میں آپ کو جنات کے آنے اور قرآن سننے کی خبر بھی نہ تھی جب تک بذریعہ وحی آپ کو بتلایا نہ گیا اور یہ کہ یہ واقعہ مقام نخلہ کا اور طائف سے واپسی کے وقت کا ہے اور دوسری روایات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر مکہ کے قریب ہی کے جنگل میں آپ بالقصد اسی کام کے لئے تشریف لے گئے کہ جناب کو دعوت اسلام دیں اور قرآن سنائیں یہ اس کے بعد پیش آیا (مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا۝ ١ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو ج... ملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : يقال للدّلالة علی الشیء نحو قول الشاعر : امتلأ الحوض وقَالَ قطني الخامس : يقال للعناية الصادقة بالشیء، کقولک : فلان يَقُولُ بکذا . السادس : يستعمله المنطقيّون دون غيرهم في معنی الحدّ ، فيقولون : قَوْلُ الجوهر كذا، وقَوْلُ العرض کذا، أي : حدّهما . السابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفتہ ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) کسی چیز پر دلالت کرنے کو قول سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ الرجز ) ( 324 ) امتلاالحوض وقال قطنی حوض بھر گیا اور اس نے کہا بس مجھے کافی ہے ( 5 ) کسی چیز کا صدق دل سے اعتبار کرنا اور اس کی طرف متوجہ ہونا جیسے فلان یقول بکذا فلان اس کا صدق دل سے خیال رکھتا ہے ( 6 ) اہل منطق کے نزدیک قول بمعنی حد کے آتا ہے جیسے قول اجواھر کزا ۔ وقول العرض کزا یعنی جوہر کی تعریف یہ ہے اور عرض کی یہ ہے ( 7 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے اسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» . استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معنی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد آپ ان کفار مکہ سے فرمایے کہ میرے پاس جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے مجھے یہ بتالای کہ نصیبین کے جنات میں سے جو یمن میں ہیں ان لوگوں نے قرآن کریم سنا وہ اس پر ایمان لے آئے پھر اپنی قوم میں انہوں نے واپس جاکر کہا اے ہماری قوم ہم نے ایک قرآن کریم سنا ہے جو حضرت موسیٰ کی کتاب سے مشابہہ رکھتا ہے...  اور یہ جنات توریت پر کار بند تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 This shows that the jinn at that tithe were not visible to the Holy Prophet (upon whom be peace) , nor he knew that they were hearing the Qur'an being recited, but AIIah informed him of the incident afterwards by Revelation. Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas also has, in connection with this incident, stated: "The Holy Messenger of AIIah had not recited the Qur'an before the jinn, nor did he see them.... " (Muslim, Tirmidhi, Musnad Ahmad, Ibn Jarir) . 2 The words in the original are: Qur an-an 'ajaba. Qur an means "something which is read again and again", and the jinn probably used this word in this very meaning, for they were introduced to this Divine Revelation for the first time, and they did not perhaps know then that what they were hearing, was the Qur'an itself. 'Ajab is a superlative, which is used in Arabic for a wonderful thing. So, what the jinn said means: "We have heard such a wonderful recital which is unique both in its language and in its subject-matter. " This also shows that the jinn not only hear what human beings say but also understand their language fully, although it is not necessary that alI the jinn might know all the human languages. It is possible that those of them who live in a particular region of the earth might know the language of the people of that region. But in any case this statement of the Qur'an clearly shows that the jinn who listened to the Qur'an at that time were so conversant with the Arabic language that they not only appreciated the matchless eloquence of the Divine Word but also understood its sublime subject-matter fully well.  Show more

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر نہیں آ رہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں ، بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اس قصے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہیں...  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے سامنے قرآن نہیں پڑھا تھا ، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا ۔ ( مسلم ۔ ترمذی ۔ مسند احمد ۔ ابن جریر ) ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں قرانا عجبا ۔ قرآن کے معنی ہیں پڑھی جانے والی چیز اور یہ لفظ غالباً جنوں نے اسی معنی میں استعمال کیا ہو گا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اس وقت ان کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ جو چیز وہ سن رہے ہیں ان کا نام قرآن ہی ہے ۔ عجب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے ۔ پس جنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی بخوبی سمجھتے ہیں ۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جن انسانی زبانیں جانتے ہوں ۔ ممکن ہے کہ ان میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں ۔ لیکن قرآن کے اس بیان سے بہرحال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنہوں نے اس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اس کے بلند پایہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٧۔ قدیم زمانہ سے علماء مفسرین میں یہ ایک اختلاف چلا آتا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود صحیح ١ ؎ مسلم کی روایت میں اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات سے ملاقات کی اور ان کو قرآن شریف سکھایا اور صحیح بخاری ٢ ؎ اور صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اس کے ... منکر ہیں اور فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات سے ملاقات کی اور نہ ان کو قرآن شریف سکھایا بلکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیخبر ی میں جنات قرآن شریف سن کر چلے گئے۔ بیہقی ‘ حافظ ابن حجر اور علماء نے اس اختلاف کو یوں رفع کیا ہے کہ ان دونوں روایتوں کا قصہ جدا جدا ہے پہلے پہل جنات نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیخبر ی میں قرآن شریف سنا اور ایمان لائے اور جس کا ذکر سورة احقاف میں ہے اسی بیخبر ی کی حالت کو اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں بذریعہ وحی کے جتلایا ہے اور اسی حالت اور اسی قصہ کا ذکر حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں ہے اس دفعہ جنات کے آنے کا سبب معتبر سند سے ترمذی نسائی ‘ ٣ ؎ مسند امام وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں جو بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے سے پہلے جنات آسمان کی کچھ خبریں چوری سے سن آیا کرتے تھے اور کاہنوں سے بیان کرتے تھے اسی واسطے اس زمانہ میں عرب کے سب کاموں کا مدار کاہنوں کے بیان پر تھا پھر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے اور نزول وحی کے زمانہ میں آسمان کی خبروں کا انتظام بہ نسبت پہلے کے زیادہ ہوگیا اور چوری سے خبر سننے والے جنات پر انگارے زیادہ برسنے لگے تو اس زیادتی انتظام کا سبب دریافت کرنے کے لئے جنات کی ٹکڑیاں زمین کے چاروں طرف چکر لگاتی پھرتی تھیں انہیں ٹکڑیوں میں کے نو دس جنوں کی ایک ٹکڑی وہاں آ نکلی جہاں طائف کے راستہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھ رہے تھے یہ جنات قرآن شریف سن کر ایمان لے آئے اور اپنی قوم کو جا کر نصیحت کی اور پھر بارہ ہزار جنات کا قافلہ دین اور اسلام کی باتیں سمجھنے آیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب کے لشکر میں جا کر ان کو سورة الرحمن پڑھ کر سنائی اور دین اسلام کی باتیں سکھائیں۔ اس دوسری دفعہ جنات کے آنے کا ذکر صحیح مسلم ترمذی مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے ہے غرض حضرت عبد اللہ بن عباس کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات کرنے اور جنات کے سامنے قرآن شریف پڑھنے کا انکار ہے ‘ وہ جنات کی پہلی دفعہ کے آنے سے متعلق ہے دوسری دفعہ کے آنے سے متعلق نہیں اسی واسطے امام مسلم نے صحیح مسلم میں پہلے حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث کی روایت کرکے اس کے پیچھے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کو روایت کیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ دونوں قصے جدا جدا گزرے ہیں اور دونوں روایتیں دونوں قصوں کے موافق ہیں۔ آپس میں مختلف نہیں ہیں سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ رسول فقط انسان ہی آئے ہیں کوئی جن جنات کی ہدایت کے لئے رسول ہو کر نہیں آیا بلکہ ہدایت جن و انس دونوں فرقوں کی انسان رسول سے ہی متعلق ہے۔ اسی واسطے جنات کا ایک بڑا قافلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دین کی باتیں سیکھنے کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ نفر تین سے دس تک کی جماعت کو کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ وہ جن دس سے زیادہ نہیں تھے قرآن شریف کی فصاحت اور بلاغت کے سبب سے قرانا عجبا کہا جس کے معنی عجیب کے ہیں جد ربنا کے معنی عظمۃ ربنا کے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوقوف جن و انس حد سے بڑھ کر گستاخی کا یہ کلمہ جو اللہ تعالیٰ کی شان میں کہتے تھے کہ اللہ صاحب اولاد ہے ہم کو یہ گمان تھا کہ شاید وہ کلمہ جھوٹ نہیں کہتے مگر اب قرآن شریف کے سننے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے مقابلہ میں اس کلمہ کا منہ سے نکالنا بڑی گستاخی ہے اور جن و انس میں سے جو یہ کلمہ کہتے ہیں ان کی عقل ٹھکانے نہیں ہے ‘ شططاً اس بات کو کہتے ہیں جو حد سے بڑھ کر نامنصفی کی ہو ایام جاہلیت میں یہ ایک دستور تھا کہ عرب کے لوگ مسافرت کی حالت میں جب کسی جنگل میں اترتے تو نعوذ بسید ھذا الوادی من شر سفھاء قومہ کہا کرتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگل کے جنات کے سردار سے ہم یہ حمایت چاہتے ہیں کہ اس سردار کی قوم میں کا کوئی نادان جن ہماری جان اور مال کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچائے اسی دستور کو جنوں کی اس ٹکڑی نے اپنے کلام میں ذکر کرکے یہ کہا ہے کہ اس دستور نے جنات کے تکبر اور نخوت کو اور بڑھا دیا کیونکہ اس دستور سے وہ سمجھنے لگے کہ ہم بھی ایسے ہیں کہ انسان ہم سے حمایت چاہتے ہیں سورة احقاف گزر چکا ہے کہ جنات کی یہ ٹکڑی یہودی مذہب کی تھی اس لئے انہوں نے قرآن کو سن کر انا سمعتا کتابا انزل من بعد موسیٰ کہا من بعد عیسیٰ نہیں کہا۔ اسی واسطے لن یبعث اللہ احدا کے مفسروں نے دو معنی کئے ہیں ایک تو یہ کہ ان جنات کا ویسا ہی عقیدہ تھا جس طرح بنی آدم میں یہود کا عقیدہ ہے کہ قیامت تک کوئی ایسا رسول نہ پیدا ہوگا جس کے سبب سے توراۃ کے احکام منسوخ ہوں دوسرے معنی یہ کہ اہل مکہ کی طرح حشر کے منکر تھے حاصل یہ ہے کہ اس جنات کی ٹکڑی نے قرآن کے سننے کے بعد فامنا بہ کہہ کر دونوں معنوں کو غلط ٹھہرایا۔ ان آیتوں میں قریش کو یوں قائل کیا ہے کہ جنات کا حال تو ایک ہی دفعہ کے قرآن کے سننے سے یہ ہوا جو بیان ہوا قریش باوجودیکہ انسان ہیں اور گھڑی گھڑی ان کو قرآن کی آیتیں سنائی جاتی ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے وحی نازل ہوتی ہے جس پر ان کا یہ حال ہے کہ خود بھی قرآن کے منکر اور لوگوں کو بھی قرآن کی آیتوں کے سننے سے روکتے ہیں۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن ١٨٤ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن ١٨٤ ج ١۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الجن ص ١٩٠ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:1) قل ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اوحی الی : اوحی ماضی مجہول واحد مذکر غائب : ایحاء (افعال) مصدر۔ بمعنی وحی کرنا۔ وحی بھیجنا۔ اشارہ کرنا۔ الی : الی حرف جار اور ی صیغہ واحد متکلم سے مرکب ہے۔ میری طرف۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ وحی کے ذریعہ مجھے بتا... یا گیا ہے : انہ استمع نفر من الجن۔ جملہ نائب فاعل ہے اوحی الی کا۔ انہ میں ان حرف مشبہ بالفعل ہے ہ ضمیر شان اس کا اسم اور باقی جملہ استمع نفر من الجن اس کی خبر ہے۔ استمع واحد مذکر غائب استماع (افتعال) مصدر۔ اس نے گور سے سنا۔ اس نے اچھی طرح متوجہ ہوکر سنا۔ اس نے کان لگا کر سنا۔ نفر اسم جمع۔ جماعت۔ گروہ۔ متعدد افراد کی ٹولی۔ نفر تین سے دن تک کی جماعت کو کہتے ہیں۔ اس سے زیادہ کے لئے بھی اس کا استعمال جائز ہے۔ نفر و نفور (باب ضرب) جانوروں کا بدک کر یا ڈر کر بھاگنا۔ نفرت کرنا۔ جماعت کی صورت میں جنگ وغیرہ کے لئے نکلنا ۔ من الجن : من تبعیضیہ ہے۔ جنوں میں سے (ایک گروہ) ترجمہ ہوگا :۔ کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے (مجھ سے قرآن پڑھتے) سنا ہے۔ فائدہ : الجن ایک مخلوق ہے جو انسانوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہتی ہے۔ یہ جن و جنون سے مشتق ہے اس کا واحد جنی اور مؤنث جنیۃ ہے۔ جن (باب نصر) بمعنی رات کی تاریک ہونا (کسی شے کو) چھپا لینا یا کسی چیز کا حواس سے چھپ جانا۔ جن الشیء کے معنی ہیں اس نے اس شی کو چھپا دیا۔ جن علیہ الیل (6:77) رات نے اس کو (اپنی تاریکی ) میں چھپالیا۔ الجنین اس بچے کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں چھپا ہوتا ہے اور الجنین قبر کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ میت کو چھپا لیتی ہے جنان قلب کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ سینہ میں چھپا ہوتا ہے۔ الجنۃ زرہ، بکتر کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ جسم کو چھپا لیتا ہے اسی طرح ڈھال کو بھی الجنۃ کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی جسم کو چھپا لیتی ہے۔ اسی طرح الجنۃ اس باغ کو کہتے ہیں کہ جس کے درخت اس کی زمین کو ڈھانپ لیں۔ پاگل پن کو جنون کہتے ہیں کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتا ہے۔ لہٰذا جن اس مخلوق کو کہتے ہیں جو انسانی نگاہ سے پوشیدہ رہے۔ قوم کے بڑے آدمی کو بھی جن کہتے ہیں کیونکہ لوگوں نے اس کے گرد حلقہ باندھ کر اسے چھپا رکھا ہوتا ہے (لسان) وحشی کو بھی جن کہتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں سے چھپا رہتا ہے (لسان) تیز طراز آدمی کو بھی جن کہتے ہیں (لین) جن اور مخلوقات کی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک مستقل مخلوق ہے ان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے قرآن مجید میں ہے :۔ وخلق الجان من مارج من نار (55:15) اور اس نے جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔ لیکن ان کی تخلیق کی تفصیلی کیفیت سے ہم کو آگاہی نہیں ہے اور ہماری طرح یہ بھی احکام شرعیہ کے مکلف ہیں۔ ان میں تو الدو تناسل کا سلسلہ بھی ہے اور ان میں نیک و بد بھی ہیں۔ امام راغب (رح) فرماتے ہیں کہ :۔ لفظ جن کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے :۔ ایک بمقابلہ انسان ان تمام روحانیوں کے لئے جو اس سے پوشیدہ ہیں۔ اس صورت میں فرشتہ اور شیاطین بھی اس میں آجاتے ہیں۔۔ پس ہر فرشتہ جن ہے اور ہر جن فرشتہ نہیں ہے اور اسی طرح ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ روحیانیوں کی تین قسمیں ہیں۔ (1) اخیار۔ یعنی نیک ہی نیک یہ فرشتے ہیں۔ (2) اشرار یعنی سر تا سر بد۔ یہ شیاطین ہیں۔ (3) اوسط۔ یعنی درمیانی۔ ان میں نیک بھی ہیں اور بد اور شریر بھی۔ یہ جن ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی :۔ قل اوحی الی سے لے کروانا منا المسلمون ومنا القسطون (یعنی ہم میں حکم بردار بھی ہیں اور بےانصاف بھی) اس بات کو بتلا رہا ہے۔ تمام ارباب مذاہب کے نزدیک جو کسی آسمانی مذہب کے قائل ہیں جن کو وجود مسلم ہے۔ لیکن بعض دانش فروشوں نے ان کے ماننے سے انکار کردیا ہے حالانکہ عقلا کوئی وجہ نہیں ہے انکار کی۔ سوائے اس کے کہ ان کا وجود ہماری نظروں سے اوجھل ہے اور ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن کسی چیز کو نظر نہ آنا یا اس کی کیفیت کا ہمیں معلوم نہ ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل کب ہے۔ قرآن مجید و احادیث متواترہ کے نصوص جب صراحت کے ساتھ جن کے وجود کو ثابت کر رہے ہیں۔ اور بہت سء حدیثوں میں روایت جن کا ذکر بھی ہے تو پھر کسی مسلمان کو جن کے ماننے سے انکار کرنے کے کیا معنی ؟ قادیانیوں نے قرآن مجید میں جہاں جہاں جن کا ذکر ہے اس سے مراد انسان ہی لئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو جگہ جگہ ایسی تاویلیں کرنی پڑیں کہ ان کو پڑھ کر بےاختیار ہنسی آنے لگتی ہے اتنا نہیں سمجھتے کہ قرآن مجید میں ان کی پیدائش شعلہ آتش سے بیان کی گئی ہے تو کیا انسان بھی آتش سے پیدا کئے گئے ہیں۔ حالانکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق صاف صریح ہے خلقہ من تراب (3:59) (اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا) پھر یہ آگ سے پیدا شدہ انسان کون سے آدم کی نسل سے ہیں۔ حافظ الحدیث قاضی بدر الدین شلبی حنفی المتوفی 769 ھ کی کتاب آکام المرجان فی احکام الجان۔ جنوں کے حالات میں ایک مستقل اور مفصل تصنیف ہے (از لغات القرآن) حضرت پیر کرم شاہ صاحب اپنی تفسیر ضیاء القرآن میں لکھتے ہیں :۔ کتب احادیث میں جنات کی حاضری کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ محدثین کی تحقیق یہ ہے کہ جنات چھ مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت عالیہ مطہرہ میں حاضر ہوئے ہیں۔ پہلی حاضری وہ ہے کہ جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے، صحیح روایت کے مطابق یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف جا رہے تھے یہ جگہ مکہ سے رو رات کی مسافت پر ہے یہاں زمانہ جاہلیت میں پہلے لگا کرتے تھے خریدوفرخت ہوتی تھی اور اردگرد کے سارے قبائل وہاں جمع ہوتے تھے۔ نخلہ کے مقام پر صبح کا وقت ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز ادا کر رہے تھے اور سورة اقراء یا سورة طہ کی تلاوت ہو رہی تھی کہ جنات کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی آواز جب انہوں نے سنی۔ تو وہاں رک گئے بڑہ خاموشی اور توجہ سے اس کو سنتے رہے اس کلام پاک کے سننے روشن ہوگئے۔ دولت ایمان سے مالا مال ہوکر جب وہ اپنے قبیلہ میں پہنچے تو انہوں نے ان کو بھی بتایا کہ ہمارے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اور ہم نے کفر اور شرک سے توبہ کرلی ہے تمہارے لئے بھی یہی بہتر ہے کہ تم جن گمراہیوں میں مبتلا ہو ان سے برأت کا اظہار کرو اور اس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان جنات کی آمد ، قرآن کریم کو غور سے سننے اور پھر اس کو اپنے قبیلہ میں جا کر بیان کرنے کے سارے حالات بذریعہ وحی اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دئیے اور حکم دیا کہ آپ سب لوگوں میں اس کا اعلان کردیں۔ فقالوا : ف کا عطف محذوف پر ہے۔ ای لما رجعوا الی قومہم فقالوا۔ جب وہ واپس اپنی قوم میں گئے تو انہوں نے کہا ۔۔ الخ۔ قرانا عجبا : موصوف و صفت بوجہ سمعنا کے مفعول ہونے کے منصوب ہے، عجبا مصدر ہے اس کو صفت کے صیغہ میں مبالغہ کے لئے لائے ہیں ۔ مطلب یہ کہ :۔ ہم نے قرآن سنا ہے جو نہایت نادر اور عجیب ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 سورة احقاف میں گزرچکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے کہ چند جنوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے جب قرآن سنا تو اس پر سچے دل سے ایمان لائے پھر اپنے قبیلے کی طرف واپس ہوگئے اور اسے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اسی واقعہ کا ذکر سورة جن کی ان آیات میں کیا گیا ہے اور یہاں جنوں ک... ی اس تقدیر کو جو انہوں نے واپس جا کر اپنے قبیلے کے سامنے کی زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس واقعہ سے متعلق دوسری تفصیلات کو سورة احقاف کی آیت 29 تا 32 کیتحت فوائد ہیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔6 یعنی جو اپنی فصاحت و بلاغت طرز بیان قوت تاثیر اور علوم و مضامین کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الجن۔ آیات ١ تا ١٩۔ اسرار ومعارف۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بتادیجئے کہ اللہ رب العزت نے مجھے اطلاع دی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے میری تلاوت سنی تو کہنے لگے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے۔ جن : جنات اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کے اجسام بھی ہیں اور ارواح بھی انسانوں کی طرح مردو عورت بھی ہیں ا... ور نسل بھی چلتی ہے ان کی تخلیق کا غالب مادہ آگ ہے لہذا نظروں سے اوجھل رہتے ہیں چونکہ شیطان بھی جنوں میں سے تھا ، لہذا اس کی اولاد بھی جن ہی ہے مگر بہت زیادہ برے ہیں اور فرشتوں کی طرح جنات کا وجود قرآن وسنت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے جس کا انکار کفر ہے۔ تفسیر مظہری میں لوگوں کے جنات سے ملنے کے واقعات بھی موجود ہیں اور ، اکام المرجان فی احکام جان ، میں کسی قدر تفصیلی حالات ملتے ہیں جنات میں نبو ت نہیں مگر وہ مکلف ہیں اور انسانوں میں سے جو نبی ہو اس کی پیروی انکے لیے ضروری ہے ان کا بھی حساب وکتاب ہوگا۔ مفسرین کے مطابق کسی سفر میں آپ نماز ادا فرما رہے تھے کہ جنات تلاش کرتے ہوئے پہنچے انکی تلاش کا سبب آگے آرہا ہے آپ کی بعثت سے پہلے جنات آسمان کے قریب چلے جاتے اور فرشتوں کی گفتگو سے کچھ اندازہ لگا کر کاہنوں کو بتاتے پھرو یہ باتیں جوڑ کر لوگوں کو سناتے مگر آپ کی بعثت پر جنوں کو اوپر جانے سے روک دیا گیا تو انہیں تلاش ہوئی کہ ضرور کوئی واقعہ عجیب رونما ہوا ہے ان کے مختلف گروہ مختلف سمتوں میں نکلے جن میں سے ایک وہاں پہنچا جہاں آپ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے آپ تو متوجہ الی اللہ تھے پتہ نہ چلا جنوں نے سن کر جو کہا وہ بذریعہ وحی بتلایا گیا چناچہ وہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن ایسا عجیب کلام ہے جو نیکی کا راستہ بتاتا ہے لہذا ہم اس پر ایمان لے آئے اور اب کبھی اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانیں گے قرآن سن کر علم ہوا کہ ہمارا رب بہت بلند وشان والا ہے اور اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی بیوی اور بچے ہوں۔۔ تو ہم میں سے بیوقوف لوگ ایسی جھوٹی باتیں بناکرکہا کرتے تھے اور ہم اس لیے مان لیتے کہ ہمارا خیال تھا کہ انسان اور جنات کم ازکم اللہ رب العزت پر جھوٹ نہ بولیں گے اور اس پر مزید یہ کہ انسانوں نے اور گمراہ لوگوں نے جنوں سے پناہ پکڑناشروع کردیا کہ عربوں کارواج تھا جہاں سفر میں رات ہوتی تو کہتے میں اس وادی کے سردار کی پناہ پکڑتا ہوں اس پر جنات میں اور غرور بڑھا کہ ہم بہت اعلی ہیں انسانوں سے افضل ہیں کہ وہ تو ہماری پناہ حاصل کرتے ہیں اور انہوں نے یہ سوچ لیا کہ اب کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا۔ شہاب ثاقب۔ مگرہم جب پہلے کی طرح آسمانوں کی طرف گئے تو وہاں سخت پہرہ تھا اور انگارے برستے تھے شہاب ثاقت بعثت نبوری سے پہلے بھی تھے لیکن ممکن ہے ان سے پہلے یہ کام نہ لیا جاتا ہو جبکہ بعثت کے بعد جنوں کو روکنے کا کام لیا جانے لگا یا کوئی خاص شعلہ نکلتا ہو جو صرف جنات و شیاطین کے روکنے کے لیے ہو۔ کہ پہلے تو ہم نے جگہیں بنارکھی تھیں جہاں چھپ کر آسمان دنیا کے فرشتوں کی کوئی نہ کوئی بات لے اڑتے تھے مگر اب اگر کوئی سننے کی کوشش کرے تو اس پر ایک شعلہ لپکتا ہے اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ بعثت رسول اہل زمین کے لیے باعث ہدایت ہے یا اتمام حجت بنے گی کہ اس کے انکار کے سبب تباہ کردیے جائیں۔ بے شک ہم میں ہر طرح کے لوگ ہیں نیک بھی ہیں اور ایسے بھی جو نیک نہیں کہ ہم میں بھی بہت طریقے رائج تھے لیکن ہم نے جان لیا کہ اللہ کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں ہیں اور نہ کہیں اس سے بھاگ کر نکل سکتے ہیں اب جب ہمیں ہدایت کی دعوت پہنچ گئی تو ہم اس پر ایمان لائے اور جو کوئی بھی اللہ پر ایمان لائے گا وہ کسی کمی بیشی کا شکار نہ ہوگا کوئی نیکی ضائع جائے یا کسی ناکردہ گناہ میں پکڑاجائے لیکن اس کے باوجود ہم میں اسلام قبول کرنے والے بھی ہیں اور بےراہ رو بھی مگر فائدے میں وہی ہے جس نے اسلام قبول کرلیا کہ قبول نہ کرنے والے تو دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ کیاجنات کے لیے جنت ہے۔ یہاں کافرجنوں کے لیے دوزخ کا وعدہ ہے مگر کہیں بھی صراحت سے مسلمان جنوں کے لیے جنت کی بشارت نہیں لہذا امام ابوحنیفہ سمیت بہت سے سلف کا یہ ارشاد ہے کہ جن کے یے اجر یہ ہے کہ دوزخ سے محفوظ رہے اور حساب کتاب کے بعد جانوروں کے ساتھ انہیں بھی ختم کردیاجائے گا۔ اسی پر کفر کہے گا کہ اے کاش مجھے بھی مٹی کردیاجاتا مگر ایک جماعت قائلین کی بھی ہے اور ان کے پاس بھی دلائل ہیں مگر وہ بھی جنت جانے کی بات نہیں فرماتے بلکہ اعراف ہیں یعنی دوزخ سے باہر ار جنت سے بھی باہر جہان ان کے لیے ٹھہرنے کی عالیشان مقامات ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ ذکرکا آخری درجہ۔ اگر انسان بھی (یعنی اہل مکہ) اس طرح ایمان لے آتے تو ہم ان پر دنیا کی نعمت بھی عام کردیتے تاکہ ان کو آزمایاجاسکے اور جس نے اپنے رب کی یاد بھلادی کہ ذکر الٰہی کا آخری درجہ ایمان ہے پھر زبانی پھر عملی اور سب سے اعلی ذکر قلبی مگر جس نے بالکل ہی فراموش کردیا یعنی ایمان بھی قبول نہ کیا تو اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا اور تمام سجدہ گاہیں ہیں یعنی ہر طرح کا سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے اور کسی بھی طرح ذات یا صفات میں کسی کو اس کا شریک مت ٹھہراؤ لیکن کفار کا یہ حال ہے کہ اللہ کا مقرب بندہ اور اس کا رسول بھی جب اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو الٹ پڑتے ہیں جیسے حملہ آور ہو رہے ہوں یعنی ارشادات نبوی اور نظام اسلام کے خلاف کافر گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ استمع۔ غور سے سنا۔ نفر۔ افراد۔ الرشد۔ ہدایت۔ سیدھا راستہ۔ شطط۔ حد سے بڑھئی ہوئی بات۔ یعوذون۔ پناہ مانگتے ہیں۔ رھق۔ ضد۔ سرکشی ۔ بددماغی۔ ملئت۔ بھردیا گیا۔ شھب۔ شہاب۔ انگارے۔ نقعد۔ ہم بیٹھتے ہیں۔ رصد۔ گھات میں لگا ہوا۔ قدد۔ مختلف۔ ٹکڑے ٹکڑے۔ ھرب۔ بھاگنا۔ بخس۔ نقصان۔ رھق۔ دبائو۔ حطب۔ ایند... ھن۔ تشریح : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت سے پہلے جنات آسمان کے کسی کونے تک پہنچ کر چوری چھپے کسی رکاوٹ کے بغیر فرشتوں کی اس گفتگو کو سننے کی کوشش کرتے جو وہ دنیا کے کاموں کے تدبیر کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے باتیں کرتے تھے۔ یہ جنات فرشتوں کی باتیں سن کر اپنے کاہنوں کو بتا دیا کرتے تھے۔ کاہن جنات کی ان باتوں کو سن کر اور کچھ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں کو بتا دیتے اس طرح وہ کاہن لوگوں کو نہایت آسانی سے بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے اور اس سے بہت کچھ دنیاوی فائدے بھی حاصل کرتے تھے اور جنات کے علم غیب کا اس شدت سے پروپیگنڈا کرتے کہ عام لوگ ان سے ہر وقت خوف زدہ رہا کرتے تھے۔ جنات کو آسمان میں اچانک ایک زبردست انقلابی تبدیلی محسوس ہوئی۔ وہ جب بھی سن گن لینے کے لئے آسمان کی طرف پرواز کرتے تو نہ صرف ان کو شدید رکاوٹ پیش آتی بلکہ ان پر شہاب ثاقب یعنی آگ کے لوگوں کی بھرمار کردی جاتی اور ان کو دور بھگا دیا جاتا تھا۔ حالانکہ جنات کو آگے سے پیدا کیا گیا ہے لیکن شہاب ثاقب آگ سے اس قدر بھرپور ہوتے تھے کہ جنات ان سے ڈر کر بھاگ جاتے اور اس طرح آسمان کی طرف ان پر پرواز کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔ انہیں اس تبدیلی اور چاروں طرف فرشتوں کے پہروں نے حیرت میں ڈال دیا۔ جنات نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ کائنات میں ایسی کیا تبدیلی آئی ہے یا کیا ایسے حالات پیش آنے والے ہیں جن کی وجہ سے ہم پر زبردست بندشیں لگ گئیں ہیں اور جب بھی ہم آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم پر آگ کے گولے برسا دئیے جاتے ہیں۔ صورت حال معلوم کرنے کے لئے جنات کے گروہ کائنات میں ہر جگہ پھیل گئے۔ ان ہی میں سے نصیبیں کے نوجنات جو حضرت موسیٰ پر ایمان رکھتے تھے گھوم رہے تھے کہ نخلہ کے مقام پر صبح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کو نماز فجر پڑھا رہے تھے۔ جنات نے کلام اللہ کو بڑے غور سے سنا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں تلاوت فرما رہے تھے۔ وہ کلام اللہ کی عظمت اور لذت کی کیفیات میں اس طرح محو ہر کر رہ گئے تھے کہ آپس میں قسم کھا کر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمیں یقین ہے یہی وہ کلام ہے جس کو اللہ نے نازل کیا ہے اور اس کلام کی حفاظت کے لئے آسمانوں پر پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں اور ہمیں فرشتوں کی گفتگو تک سننے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ سب جنات اسی وقت اس کلام پر ایمان لے آئے اور اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے روانہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی قوم میں جاکر کہا کہ ہم نے اللہ کا وہ کلام سنا ہے جو عجیب و غریب اور بہترین مضامین پر مشتمل ہے جو ہمیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے اسی لئے ہم ہر طرح کے کفرو شرک سے توبہ کرکے اس پر ایمان لے آئے ہیں اب ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے کیونکہ ہمارے پروردگار کی شان یہ ہے کہ نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ اس نے کسی کو بیٹا بنا رکھا ہے۔ ایسی غلط باتیں وہی کرسکتے ہیں جو حقیقت کو نہیں سمجھتے ورنہ جنات اور انسانوں میں سے کوئی بھی ایسی جھوٹی بات کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنا رکھا ہے۔ اللہ کی ذات ہر طرح کے شرک سے پاک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس موق پر اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ جنات کون ہیں ؟ جن کے معنی چھپے ہوئے اور پوشیدہ مخلوق کے آتے ہیں۔ اللہ نے جس طرح انسان کو مٹی سے اور فرشتوں کو نور سے بنایا ہے اسی طرح جنات کو آگ سے پیدا کیا ہے جس طرح ہوا موجود ہے مگر ہمیں نظر نہیں آتی اسی طرح اللہ نے جنات اور فرشتوں کو پیدا کیا ہے اور وہ بھی ہمیں نظر نہیں آتے۔ جنات بھی انسانوں کی طرح ایک بااختیار مخلوق ہیں۔ جس طرح انسانوں میں مختلف مذہب رکھنے والی قومیں ہیں اسی طرح جنات میں بھی کوئی مومن ہے اور کوئی کافرو مشرک۔ جس طرح انسانوں میں بیوی، بچے، پیدائش، زندگی، موت اور مختلف نسلیں ہیں اسی طرح ان جنات میں اللہ کی وہ مخلوق ہیں جن کو اس کی طاقت عطا فرمائی گئی ہے کہ وہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں اور آسمانوں کی طرف پرواز کرسکتے ہیں۔ سورة کہف میں فرمایا گیا ہے کہ شیطان بھی جنات ہی کی قوم سے تھا۔ جو بہت نیک، فرماں بردار اور عبادت گزار تھا اور فرشتوں کے ساتھ رہ کر اس میں بہت اسی اچھی خصوصیات بھی پیدا ہوگئی تھیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں اس وقت شیطان نے سجدے سے انکار کرتے ہوئے نہایت غرور وتکبر سے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ کی اس نافرمانی اور تکبرو غرور سے اس عبادت گزار جن کو ابلیس اور شیطان بنا دیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں بیشمار آیات سے یہ ثابت ہے کہ جنات بھی انسانوں کی طرح ایک بااختیار مخلوق ہیں۔ وہ بھی اللہ کے بندے ہیں اور ان میں بھی اللہ کے فرماں بردار، نافرمان، مسلم اور کافر و مشرک موجود ہیں۔ سورة رحمن میں اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسان دونوں کو ایک طرح خطاب کرکے بتا دیا ہے کہ دونوں اللہ کی ذمہ دار مخلوق ہیں۔ کفار مکہ جن میں ہر طرح کا بگاڑ کچھ اتنا زیادہ آچکا تھا کہ وہ جنات کے متعلق بھی عجیب و غریب خیالات رکھتے تھے۔ ایک طرف تو کاہنوں کے بےبنیاد پروپیگنڈے نے اللہ کی اس مخلوق کو خوفناک شکل دے رکھی تھی دوسری طرف کفار کے وہم اور بدعقیدگی نے جنات کو عالم الغیب تک بنا ڈالا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جنات کو غیب کی ہر بات کا علم ہے وہ ہر پوشیدہ راز تک سے واقف ہیں۔ اللہ کی قدرت میں جنات شریک ہیں بلکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے نسب تک میں شامل سجھتے تھے (نعوذ باللہ) وہ جنات اس قدر خوف زدہ رہتے تھے کہ جب وہ سفر کرتے اور کسی جنگل یا وادی میں قیام کرتے تو ان میں سے کوئی ایک آدمی بلند آواز سے کہتا ”………“ یعنی جنات کو قوم کے شریروں سے اس وادی کے سردار کی پناہ میں آتا ہوں۔ کفار جنات کی خوشامد کے لئے خوشبوئیں جلاتے، نذر ونیاز کرتے، جنوں کے بادشاہ اور جنوں کے سرداروں کا نام لے کر ان کی دھائی مانگتے۔ ان تمام حماقتوں کا نقصان یہ ہوا کہ جنات کی گمراہی اور غرور وتکبر میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور وہ اپنے آپ کو انسان سے افضل سمجھنے لگے۔ حالانکہ اللہ نے اپنی ساری مخلوق پر انسان کو عظمت و فضیلت عطا فرمائی ہے۔ ان آیات کو بیان کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار مکہ کو شرم دلا رہے ہیں کہ دیکھو مکہ والوں کی کتنی بدنصیبی ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت اور ان کے عظیم کردار سے اچھی طرح واقف ہیں انہوں نے ان کے دن اور رات کو دیکھا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نجاتے کتنی مرتبہ قرآن کریم کی آیات کو سنا تھا پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے لیکن وہ جنات جو ان کی جنس اور قوم سے بھی نہیں ہیں انہوں نے ایک مرتبہ قرآن کری کو سنا اور نہ صرف ایمان لائے بلکہ اسکے مبلغ بھی بن گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو شرک سے روکنا اور توحید کی دعوت دینا تھا اسی دعوت کے ساتھ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث کیے گئے جس کا تذکرہ اس سورت میں جنوں کی زبان سے کیا گیا ہے۔ اہل مکہ جب کسی سفر کے دوران صحراء یا جنگل میں پڑاؤ ڈالتے تو قافلے...  کا ایک فرد کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر آواز دیتا کہ اے جنوں کے سردار ہم نے یہاں پڑاؤڈالا ہے، ہماری تجھ سے درخواست ہے کہ اس صحراء میں ہماری حفاظت فرمانا۔ اس عقیدے کی تردید کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” قُلْ “ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ جو واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا ہے آپ یہ واقعہ اور جنوں کا عقیدہ اہل مکہ کے سامنے بیان فرمائیں۔ واقعہ اس طرح ہے کہ مکہ سے کچھ دور عکاظ کی منڈی لگتی تھی جو عکاظ بازار کے نام سے مشہور تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تبلیغ کی غرض سے جارہے تھے کہ راستے میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی آپ کی تلاوت جنوں کی ایک جماعت نے سنی۔ جنوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو ان کے کلیجے ہل گئے اور وہ فوری طور پر شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوگئے۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا خیال ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے مکہ واپس آرہے تھے تو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا۔ غالب بات یہی ہے کہ یہ واقعہ طائف سے واپسی کے وقت پیش آیا کیونکہ طائف والوں نے آپ کی دعوت کو مسترد کیا اور آپ پر بہت زیادتی کی تھی اس لیے آپ کو تسلی دی گئی کہ اگر طائف والوں نے آپ کی دعوت کو نہیں سنا تو آپ غم زدہ نہ ہوں یہ دعوت ایسی دعوت ہے کہ جس کو جن بھی قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی جس میں جنوں کے تاثرات اور عقائد کا ذکر کیا گیا ہے ” اَسْتَمَعَ “ کا معنٰی ہے کہ توجہ سے کان لگا کر سنناجونہی جنوں کی جماعت نے توجہ کے ساتھ قرآن مجید سنا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں میں جا کر کہا کہ اے ہمارے ساتھیو ! ہم نے ایک عجب قرآن سنا ہے جو بھلائی اور خیرخواہی کی راہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہمارا رب بڑی عظمت والا، اعلیٰ اور ارفع ہے۔ وہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے اس لیے نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اولاد۔ ہم میں سے جو جن ” اللہ “ کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور کہتے ہیں کہ اس کی بیوی اور اولاد ہے وہ بیوقوف ہیں وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ کوئی انسان اور جن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا اس لیے ہم اس باطل عقیدے میں مبتلا ہوگئے۔ بالخصوص جب انسانوں میں کچھ لوگوں نے جنوں سے پناہ حاصل کرنے کا عقیدہ اپنایا تو جن سرکشی اور شرک کرنے میں اور زیادہ آگے بڑھ گئے انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ ان آیات میں جنوں کے حوالے سے سب سے پہلے قرآن مجید کی تاثیر، اس کی عظمت اور دعوت کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اپنے الفاظ، انداز تکلم اور تاثیر کے لحاظ سے عجب کتاب ہے عجب کے لفظ میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسی کتاب جس کا کسی اعتبار سے بھی مقابلہ نہ کیا جاسکے۔ اس کتاب کی پہلی دعوت یہ ہے کہ ” اللہ “ کے ساتھ کسی کو کسی اعتبار سے شریک نہ کیا جائے کیونکہ شرک پرلے درجے کی بیوقوفی اور زیادتی ہے اس لیے جنوں نے شرک کو حماقت اور اسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی دعوت قبول کرنے سے پہلے جنوں کا عقیدہ تھا کہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بول سکتے، ایمان لانے کے بعد ان کا یہ عقیدہ غلط ثابت ہوا کیونکہ ہدایت پانے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ہم جہالت میں تھے ورنہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ گویا کہ جس طرح جن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے ہیں اسی طرح انسانوں میں غیب کی خبریں دینے اور مشکل کشائی کا دعویٰ کرنے والے، کاہن، سادھو، جوگی، دنیا پرست پیر، فقیر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ثواب کا جھانسہ دے کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کے ساتھ وہ علماء بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے اور حماقت کی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو داتا اور دستگیر کہتے ہیں اور شرک کی دعوت دیتے ہیں جنوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بھی بتلایا کہ جس طرح انسان سمجھتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجنا اسی طرح ہمارا بھی خیال تھا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانوں کا اور ہمارا یہ عقیدہ بھی غلط ثابت ہوا، ہمیں یقین ہوگیا کہ آسمان کی حفاظت کے لیے جس طرح غیر معمولی اقدامات کرلیے گئے ہیں یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی اہم ترین واقعہ رونما ہونے والا ہے یعنی نبی مبعوث ہوچکا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید بڑی ہی عظیم کتاب ہے۔ ٢۔ قرآن مجید صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دعوت ” اللہ “ کی توحیدکو ماننا اور شرک سے رکنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی شان بڑی بلندوبالا ہے لہٰذا وہ بیوی اور اولاد سے مبرّا ہے۔ ٤۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے شریک ثابت کرتے ہیں وہ حماقت کی بات کرتے ہیں اور اپنے رب پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ٥۔ جو لوگ کسی نہ کسی انداز میں جنوں سے مدد مانگتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے کے ساتھ جنوں کی بغاوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ٦۔ جنوں میں بہت سے جن اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ : ١۔ اللہ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (النحل : ١١٦۔ ١١٧) ٢۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٣۔ اس شخص نے نقصان اٹھایا جس نے اللہ پر جھوٹ بولا۔ (طٰہٰ : ٦١) (آل عمران ؛ ٩٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل اوحی ........................ احد نفر اور رھط کا اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے جبکہ جنوں کے بارے میں روایت ہے کہ یہ نو تھے۔ جس انداز سے یہاں اس واقعہ کا آغاز کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یوں تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی تلاوت فرمائی اور جنوں نے قرآن کو سنا اور پھر...  اپنی قوم کے پاس جاکر انہوں نے تبلیغ کی اور اس کا علم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی تلاوت فرمائی اور جنوں نے قرآن کو سنا اور پھر اپنی قوم کے پاس جاکر انہوں نے تبلیغ کی اور اس کا علم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ نہ تھا ، اس تمام واقعہ کی اطلاع اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی دی اور یہ پہلا واقعہ تھا اور اس کے بعد بھی کئی واقعات ہوئے ہوں گے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن پڑھا اور جنوں نے سنا ہوگا۔ اور اس بات کا اظہار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات کے بارے میں وارد احادیث سے بھی ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جانتے ہوئے اسے پڑھا کہ جن بھی سنتے ہیں۔ امام ترمذی نے حضرت جابر ابن عبداللہ سے روایت کی ہے : ” حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور اپنے ساتھیوں کے سامنے سورة رحمان کی تلاوت فرمائی ، اول سے آخر تک ، سب لوگ خاموش ہوگئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ سورت میں جنوں پر تلاوت کی ہے ، وہ اس کا تم سے اچھا جواب دینے والے تھے۔ جب بھی میں پڑھتا۔ فبای ................ تکذبن ، تو وہ جواب میں کہتے۔ لا بشئی ................ الحمد ” اے ہمارے رب ، ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کی تکذیب نہیں کرتے لہٰذا سب تعریفیں تیرے لئے ہیں “۔ اس روایت سے ابن مسعود کی روایت کی تائید ہوتی ہے ، جس کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے جس میں جنوں کے سماعت قرآن کی بات کی گئی ہے۔ اسی موقعہ کے بارے میں سورة احقاف کی آیات میں بھی بات کی گئی ہے۔ واذصرفنا ............................ ضلل مبین (٦٤ : ٩٢ تا ٢٣) ” جس وقت متوجہ کیا ہم نے آپ کو طرف جنوں میں سے کچھ لوگ ، جو سننے لگے قرآن مجید کو ، پھر وہ جب وہاں پہنچ گئے ، بولے ، چپ رہو ، پھر جب تلاوت خیم ہوئی تو واپس ہوئے اپنی قوم کی طرف ان کو ڈراتے ہوئے ، کہنے لگے اے ہماری قوم کے لوگو ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتری ہے ، یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ سچائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔ ایک سیدھے راستے کی طرف ، اے ہماری قوم کے لوگو ! اللہ کی طرف بلانے والے کو مان لو ، ایمان لاﺅ اس پر ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں عذاب الیم سے نجات دے گا۔ اور جو کوئی اللہ کی طرف بلانے والے کی بات مانے گا تو وہ اس بات کو زمین میں روک نہ سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا اور ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہوں گے۔ “ انا سمعنا ............ عجبا (٢٧ : ١) ” ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے “۔ قرآن کریم کی جو پہلی خصوصیت ان کو اضح نظر آئی وہ یہ تھی کہ یہ عجیب اور غیر مالوف ہے اور اس کو سن کر دلوں کے اندر خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ جو شخص بھی قرآن مجید کو تیز احساس اور کھلے دل کے ساتھ پڑھے گا ، دل کی کشادگی اور معتدل ذوق کے ساتھ پڑھے گا یا سنے گا ، وہ اس سے مرعوب ہوجائے گا۔ اور اسے نظر آئے گا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے۔ اس کے اندر قوت استدلال ہے۔ اس کے اندر بےپناہ جاذبیت ہے۔ اور اس کے اثرات اس قدر شدید ہیں کہ قلب وضمیر کے تاروں کے اندر ایک زبردست ارتعاش اور نغمہ پیدا کردیتا ہے۔ یہ عملاً بھی عجیب ہے۔ اس پر جنات کا رد عمل شاہد ہے کہ انہوں نے اسے ایسا پایا اور فوراً عمل کے لئے تیار ہوگئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنات کا قرآن سننا اور اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دینا یہاں سے سورة الجن شروع ہو رہی ہے جن پرانی مخلوق ہے جو حضرت آدم اور بنی آدم کی تخلیق سے پہلے سے دنیا میں موجود ہے ان لوگوں میں بھی مومن اور کافر نیک اور بدسب قسم کے افراد ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی ایم... ان کے مکلف تھے اور ہیں جس طرح بنی آدم میں انسانوں میں کافر اور مشرک ہیں اس طرح جنات میں بھی مشرک اور کافر رہے ہیں اور ان میں مومن بھی ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ : حضور خاتم الانبیاء سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین نے ایک دھندہ بنا رکھا تھا۔ انسانوں میں کچھ لوگ کاہن بنے ہوئے تھے یہ لوگ آنے والے واقعات کی خبریں بتایا کرتے تھے اور یہ خبریں شیاطین ان کے پاس لاتے تھے، شیاطین کا یہ طریقہ تھا کہ آسمان کے قریب تک جاتے تھے اور وہاں جو زمین میں پیش آنے والے حوادث کا فرشتوں میں ذکر ہوتا تھا اسے سن لیتے تھے پھر کاہنوں کے کان میں آ کر کہہ دیتے تھے۔ کاہن اس بات کو لوگوں میں پھیلا دیتے تھے یہ بات چونکہ اوپر سے سنی ہوئی ہوتی تھی اس لیے صحیح نکل جاتی تھی، سننے والے ان کاہنوں کے معتقد ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو اس کو آنے والے واقعات کا علم نہ ہوتا تو پہلے کیسے بتادیتا ؟ اس طرح سے شیاطین اور کاہنوں نے مل کر انسانوں کو بہکانے کا سلسلہ جاری رکھا تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو شیاطین کو اوپر پہنچنے سے روک دیا گیا اس کے بعد سے ان میں سے کوئی فرد خبریں سننے کے لیے اوپر پہنچتا تو اس پر انگارے پھینکے جانے لگے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب یہ صورت حال پیش آئی تو شیاطین آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان آڑ لگا دی گئی ہے اور ہم پر انگارے پھینکے جانے لگے ہیں لہٰذا زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کرو اور دیکھو کہ وہ کیا نئی چیز پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے۔ چناچہ انہوں نے زمین کے مشارق اور مغارب کا سفر کیا اور اصل صورت حال کا سراغ لگاتے ہوئے گھومتے پھرے۔ ان میں ایک جماعت تہامہ کی طرف آئی (یہ عرب کا وہ علاقہ ہے جس میں حجاز واقع ہے) اس جماعت نے دیکھا کہ مقام نخلہ میں آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ (رض) کو نماز فجر پڑھا رہے ہیں جب ان کے کانوں میں قرآن کی آؤاز پہنچی تو خوب دھیان کے ساتھ سننے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ ہو نہ ہو یہی چیز ہے جو تمہارے خبریں سننے کے درمیان حائل ہوگئی ہے اس کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف واپس ہوگئے۔ اور ان سے کہا : ﴿ اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاۙ٠٠١ يَّهْدِيْۤ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ ١ؕ وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًاۙ٠٠٢﴾ اس پر اللہ تعالیٰ نے ﴿ قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ ﴾ نازل فرمائی۔ (صحیح بخاری صفحہ ٧٣٢: ج ٢) شیاطین جس آزادی سے آسمان تک جاتے تھے اور وہاں فرشتوں کا جو مذاکرہ دنیاوی امور سے متعلق ہوتا تھا اسے سن کر نیچے آجاتے اور کاہنوں کے کان میں ڈال دیتے تھے یہ سلسلہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر ختم ہوگیا۔ لیکن شیاطین نے ایک اور دھندہ نکالا اور وہ یہ کہ نیچے سے لے کر بادلوں تک پرا لگا لیتے ہیں، وہاں فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے کان لگا کر پہنچتے ہیں تو ان پر انگارہ پھینک دیا جاتا ہے اس انگارہ کے لگنے سے پہلے کوئی بات سن کر اوپر والے نے اپنے نیچے والے کے کان میں ڈال دی اور ہوتے ہوتے وہ بات کاہن تک پہنچ گئی تو وہ اپنے پاس سے اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں خبریں پھیلا دیتا تھا۔ ان خبروں میں کوئی بات سچی نکل آتی ہے تو وہ وہی ہوتی ہے۔ احادیث شریف میں تفصیل وارد ہوئی ہے اور سورة ٴ الصافات کی آیت ﴿اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ٠٠١٠﴾ میں اسی کو بیان فرمایا ہے کہ شیاطین اوپر سے بات اچکنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہاب ثاقب یعنی روشن انگارہ سے مارے جاتے ہیں۔ سیّدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یہ کاہن جو بطور پیشین گوئی کچھ بتا دیتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کاہن جو بات بیان کرتا ہے ٹھیک نکل جاتی ہے، آپ نے فرمایا وہ ایک صحیح بات وہ ہوتی ہے جسے اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے جیسے مرغی کڑ کڑ کرتی ہے پھر وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٣٩٢ از بخاری و مسلم) حضرت عائشہ (رض) نے یہ بھی بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی سنا کہ فرشتے بادلوں میں اترتے ہیں وہ آپس میں ان فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو عالم بالا میں ہوچکے ہوتے ہیں شیاطین کان لگا کر چرانے کی کوشش کرتے ہیں اور جو بات سنتے ہیں اسے کاہنوں کے کانوں میں جا کر ڈال دیتے ہیں اور کاہن اس میں اپنے پاس سے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٣٩٣ عن البخاری) ﴿ قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ ﴾ (الآیات) آپ فرما دیجئے کہ مجھے اللہ کی طرف سے یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات میں سے چند افراد نے قرآن سنا اور پھر اس سے متاثر ہوئے اور اپنی قوم سے کہا کہ یقین جانو کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کا راستہ بتاتا ہے ہماری سمجھ میں قرآن کی بات آگئی اس میں جو ہدایت ہے یعنی توحید کی دعوت ہے وہ ہم نے قبول کرلی اور ہم اس پر ایمان لے آئے جب ہم نے توحید کو سمجھ لیا تو شرک کی گمراہی ہم پر واضح ہوگئی اب ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اسی شرک کے سلسلہ میں یہ بات تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور اولاد تجویز کرتے تھے ہم اس سے بھی توبہ کرتے ہیں ہمارے رب کی بڑی شان ہے اس نے کسی کو نہ اپنی بیوی بنایا اور نہ اپنے لیے کوئی اولاد تجویز کی اب تک جو ہم کفر اور شرک اختیار کیے رہے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم میں سے جو احمق لوگ تھے وہ اللہ کی شان میں حد سے بڑھی ہوئی باتیں کرتے تھے اور ہم یہ سمجھتے رہے کہ انسان اور جنات اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو باتیں کہتے ہیں وہ جھوٹی نہ ہوں گی اور اتنے اشخاص اور افراد مل کر جھوٹ نہ بولتے ہوں گے لہٰذا ہم نے بھی ان کی بتائی ہوئی باتوں کو اختیار کرلیا تھا، یہ ان لوگوں نے اپنے مشرک ہونے کا عذر بیان کیا لیکن یہ عذر غلط ہے توحید جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے گمراہوں کا اتفاق لائق اتباع نہیں ہوتا۔ جنات نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ا نسانوں میں سے بہت سے آدمی جنات کی پناہ لیا کرتے تھے جس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کبھی سفر میں رات کو کہیں کسی خوف زدہ جگہ میں ٹھہرنا ہوتا تو ان میں سے بعض لوگ یوں پکارتے تھے۔ یا عزیز ھذا الوادی اعوذبک من السفھاء الذین فی طاعتک (اے اس وادی کے سردار میں ان بیوقوفوں سے تیری پناہ لیتا ہوں جو تیری فرمانبرداری میں ہیں) اس بات نے جنات کو اور چڑھا دیا اور بد دماغ بنا دیا وہ سمجھنے لگے کہ دیکھو ہم اتنے بڑے ہیں کہ جنات اور انسان ہم سے ہماری پناہ لیتے ہیں جیسا کہ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جاتی ہے اسی طرح ہماری پناہ لی جاتی ہے۔ جنات نے اپنی قوم کو یہ بھی بتایا کہ جس طرح تمہارے اندر یوم قیامت اور بعث و نشور کا انکار کرنے والے ہیں ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ اسی طرح انسانوں میں بھی ہیں قرآن سن کر ہمیں پتہ چل گیا کہ قیامت کا انکار بھی گمراہی ہے انکار سے قیامت ٹلنے والی نہیں خواہ انسان انکار کرے خواہ جنات انکار کریں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” قل اوحی “ دلیل نقلی از جنات۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ابتداء وحی سے شیاطین کا آسمان پر جا کر فرشتوں کی باتیں سننا بند ہوگیا۔ پہلے وہ اوپر جا کر بیٹھ جاتے اور فرشتوں کی باتیں سنتے تھے، لیکن اب جو اوپر جاتا ہے تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتا ہے۔ شیاطین اس سے پریشان ہوئے اور ابلیس سے سار... ا معاملہ بیان کیا۔ اس نے کہا ضرور کوئی نئی بات رونما ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمان پر جانا محال ہوگیا ہے ابلیس نے جنوں کی جماعتیں منظم کر کے مختلف سمتوں میں روانہ کردیں تاکہ وہ اصل حقیقت کا سراغ لگائیں۔ جنوں کی ایک جماعت تہامہ کی طرف روانہ کی گئی۔ یہ جماعت پھرتی پھراتی مقام نخلہ میں پہنچی تو دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز باجماعت ادا فرما رہے ہیں۔ چناچہ وہ خاموشی کیساتھ بغور قرآن سننے لگے۔ چناچہ وہ قرآن سن کر ایمان لے آئے اور سمجھ گئے اس وحی کو ہماری دسترس سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم پر آسمان پر جانے کی راہیں بند کردی گئی ہیں۔ جنوں کی یہ جماعت اسی جگہ سے اپنی قوم کے پاس واپس پہنچی اور انہیں تبلیغ کرنے لگی۔ جنوں کی اس جماعت نے اپنی قوم کو جو تبلیغ کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی۔ اسی طرح جنوں کے آنے اور قرآن سننے کی اطلاع بھی آپ کو وحی کے ذریعے ہی دی گئی۔ یہی تفصیل یہاں سورة جن میں مذکور ہے (مظہری، روح) ۔ ٖف 3:۔ ” فقالوا “ یہ جنات جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن مجید سن کر اور ایمان لا کر اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو اپنی قوم سے کہا کہ ہم ایک عجیب و غریب کلام سن کر آئے ہیں جو حسن نظم، اسلوب بیان اور تاثیر کے اعتبار سے انسانی کلام سے مختلف ہے اور وہ توحید اور راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم تو دل و جان سے اس پر ایمان لا چکے ہیں اور ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم آئندہ کے لیے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ ھو عجب فی نفسہ لفصاحۃ کلامہ وحسن مبانیہ ودقۃ معانیہ وغرابۃ اسلوبہ وبلاغۃ مواعظہ (بحر ج 8 ص 347) ۔ اور الرشد سے مراد عام ہے حق و صوب یا خاص توحید الی الحق والصواب وقیل الی التوحید والایمان (روح) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) انے نبی آپ فرمادیجئے کہ میرے پاس یہ وحی بھجی گئی ہے اور میرے جانب یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا پھر انہوں نے واپس جاکر اپنی قوم میں بیان کیا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔