Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 14

سورة الجن

وَّ اَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ ؕ فَمَنۡ اَسۡلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوۡا رَشَدًا ﴿۱۴﴾

And among us are Muslims [in submission to Allah ], and among us are the unjust. And whoever has become Muslim - those have sought out the right course.

ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرمانبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ... And of us some are Muslims, and of us some are Al-Qasitun. meaning, `among us there is the Muslim and the Qasit.' The Qasit is he who behaves unjustly with the truth and deviates from it. This is the opposite of the Muqsit, the one who is just. ... فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُوْلَيِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا And whosoever has embraced Islam, then such have sought the right path. meaning, they sought salvation for themselves. وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی جو نبوت محمدیہ پر ایمان لائے وہ مسلمان، اور اس کے منکر بےانصاف ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] تَحَرَّوْا۔ اَحرٰی بمعنی لائق تر اور تَحَرَّی بمعنی زیادہ مناسب اور لائق تر چیز کو طلب کرنا۔ دو چیزوں میں سے زیادہ بہتر کو طلب کرنا۔ یعنی ایمان لانے والے جن اپنی قوم میں واپس آکر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ بلا شبہ ہم میں سے کچھ فرمانبردار ہیں اور کچھ نافرمان اور بےراہ رو بھی ہیں۔ اور حق بات یہی ہے کہ جو لوگ اسلام لے آئے انہوں نے عقلمندی کی۔ ہدایت کی راہ کو پسند کرلینا ہی ان کے بہتر انتخاب کی دلیل ہے۔ کیونکہ جو لوگ اس سیدھی راہ کے علاوہ کوئی اور راہیں اختیار کریں گے وہ گھاٹے میں ہی رہیں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے && اس مقام پر جنوں کی وہ تقریر یا وعظ و نصیحت ختم ہوجاتی ہے جو انہوں نے ایمان لانے کے بعد واپس آکر اپنے بھائی بندوں کو کی۔ چناچہ بہت سے جن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے پھر اس واقعہ کے بعد متعدد بار جن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وانا منا السلمون ومنا القسطون…:” القسطون ‘ ظلم کرنے والے، راہ حق سے ہٹنے والے۔ ” قسط یقسط “ (ض) ” قسطا “ (قاف کے فتحہ کے ساتھ) ظلم کرنا، سیدھی راہ سے ہٹنا۔” القسط “ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) انصاف۔ ” اقسط یقسط “ (افعال) انصاف کرنا۔ یعنی ہدایت سننے کے بعد ہم میں سے کچھ وہ ہیں جو تابع فرمان ہوگئے۔ یہ وہ ہیں جن کا ارادہ ہے کہ پوری کوشش کے ساتھ سیدھی راہ پر چلیں۔ ” تحری یتحری تحریاً “ قصد کرنا، کوشش کے ساتھ ظن سے یقین تک پہنچنا اور جو راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ (٢) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن آگ سے پیدا کئے گئے ہیں، وہ جہنم کا ایندھن کیسے بنیں گے ؟ جواب یہ ہے کہ جس طرح انسان مٹی سے بنا ہے مگر مٹی کا ڈھیلا مارا جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے اور ہر زندہ چیز پانی سے پیدا ہوئی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(٣ جعلنا من المآء کل شیء حی) (الانبیائ : ٣٠) (اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی) مگر یہی پانی اسے غرق کردیتا ہے۔ پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، مگر یہی پانی جنوں کے لئے جو آ سے بنے ہیں نعمت ہے، جیسا کہ سورة رحمٰن کی آیات (١٦) میں آرہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ آگ سے پیدا کئے جانے کے باوجود جنوں کی ایک الگ شکل و صورت ہے جو آگ سے متاثر ہوتی ہے، جس طرح گوشت پوست کا انسان مٹی سے پیدا ہونے کے باوجود مٹی سے الگ شکل و صورت رکھتا ہے۔ یہاں سے جنوں کی تقریر جو اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے ختم ہوئی، آئندہ آیات میں دوبارہ اللہ تعالیٰ کا خطاب شروع ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ۝ ٠ ۭ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا۝ ١٤ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ قسط الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] . ( ق س ط ) القسط ( اسم ) ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ حری حَرَى الشیء يحري، أي : قصد حراه، أي : جانبه، وتَحَرَّاه كذلك، قال تعالی: فَأُولئِكَ تَحَرَّوْا رَشَداً [ الجن/ 14] ، وحَرَى الشیء يحري : نقص كأنه لزم الحری ولم يمتد، قال الشاعر : والمرء بعد تمامه يحري ورماه اللہ بأفعی حارية ( ح ر ی ) حری ( ض ) الشئی وتحرا ہ کے معنی کسی چیز کے حری یعنی جانب کا قصد کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ تَحَرَّوْا رَشَداً [ الجن/ 14] یہی لوگ ہیں جنہوں نے سیدھی راہ کا قصد کیا ۔ اور حری الشئی حریا کے معنی کسی چیز کے کھونے کے ہیں گویا وہ ایک جانب پڑی رہی اور پھول پھلی نہیں شاعر نے کہا ہے ( الکامل انسان کامل ہونے کے بعد ڈھلنا شروع ہوجاتا ا ہے ( اللہ تعالیٰ اس پر بوڑھا اژدہا مسلط کرے رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤۔ ١٥) اور ہم میں سے بعض لوگ تو خلوص کے ساتھ وحدانیت کر کے رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لے آئے اور بعض ہم میں سے حسب سابق حق و ہدایت سے پھرے ہوئے ہیں۔ سو جو شخص مسلمان ہوگیا اس نے بھلائی کا رستہ ڈھونڈ لیا اور جو کفار ہیں سو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ } ” اور یہ کہ ہم میں فرمانبردار بھی ہیں اور بےانصافی کرنے والے بھی ۔ “ قَسَطَ ( ثلاثی مجرد میں) عدل اور ناانصافی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قَاسِط (اسم فاعل) کے معنی ” ناانصاف “ کے ہوتے ہیں ‘ لیکن اَقْسَطَ (باب افعال میں ) صرف عدل و انصاف کے معنی میں مستعمل ہے۔ { فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ۔ } ” تو جن لوگوں نے اطاعت قبول کرلی تو انہوں نے ڈھونڈ نکالی نیکی کی راہ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 "Fear of loss": fear of being given a lesser reward than what one actually deserves for one's good deeds, and "injustice" that one may be deprived of the reward for the good deeds done but duly punished for the errors committed or punished innocent; no believer has any fear of such an injustice from Allah.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:14) المسلمون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ المسلم فرماں بردار۔ مسلمان۔ القاسطون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ قاسط واحد۔ اگر قسط واقسط (باب ضرب و نصر) مصدر سے آتے تو اس کے معنی ہوں گے انصاف کرنے والا۔ اور اگر مصدر قسط وقسوط سے (باب ضرب) سے آئے تو اس کے معنی ہوں گے ظلم کرنے والا۔ ناانصافی کرنے والا۔ یہاں چونکہ القاسطون کے مد مقابل المسلمون آیا ہے لہٰذا یہ مصدر قسط وقسوط (باب ضرب) سے بمعنی ظلم کرنے والا۔ کج روی کرنے والا ہوگا۔ اسی مادہ (قسط) سے باب افعال سے اسم فاعل المقسط کا مطلب ہے انصاف کرنے والا۔ قرآن مجید میں ہے ان اللہ یحب المقسطین (49:9) بیشک خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ فمن اسلم : ف بمعنی سو۔ پس ۔ من شرطیہ ۔ جملہ شرطیہ ہے پس جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ (من بمعنی) جمع آیا ہے۔ جیسا کہ اولئک سے ظاہر ہے۔ فالئک تحریرا رشدا : جملہ جواب شرط ۔ ف جواب شرط کے لئے ہے۔ اولئک اسم اشارہ جمع مذکر تحروا ماضی جمع مذکر حاضر۔ تحری (تفعل) مصدر جس کے معنی عمدہ اور مناسب ترین رائے کو ڈھونڈھنے اور اچھی چیز کا قصد کرنے کے ہیں ۔ قصد کیا۔ رشدا واحد مذکر اسم مفعول۔ راستی، بھلائی، نیکی، راہ حق، رشد یرشد (باب نصر) کا مصدر ہے جس کا معنی راہ راست پانا۔ راہ راست تلاش کرنا۔ یا ڈھونڈھنا ہے۔ تو انہوں نے راہ حق تلاش کرلی۔ یہ جملہ سابقہ جملہ سے جواب شرط ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی انہوں نے راہ حق کی تلاش کی یہاں تک کہ اسے پا لیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانا منا ................ رشدا (٤١) واما .................... حطبا (٢٧ : ٥١) ” اور یہ کہ ” ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کی اطاعت گزار) ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کرلیا ” انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والا ہیں “۔ قاسط کے معنی ظالم اور حق سے ایک طرف ہونے والے عدل و نیکی سے منحرف ہونے والے کے ہیں۔ جنوں نے ان کو مسلمانوں کے مقابل لاکر ذکر کیا ہے اور اس کے اندر ایک لطیف اشارہ ہے ، کہ ایک مسلمان عادل اور مصلح ہوتا ہے اور اس کا فریق مقابل ظالم اور مفسد ہوتا ہے۔ فمن اسلم .................... رشدا (٢٧ : ٤١) ” جس نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کرلیا ” انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی “۔ یہاں ان کے اس فعل کو لفظ ” تحروا “ سے تعبیر کیا۔ نہایت گہری سوچ سے راہ ہدایت تلاش کرنا۔ اور اس کے بالمقابل ہے گمراہی اور ضلالت۔ ” تحری “ کے معنی ہوتے ہیں نہایت دقت سے راہ صواب کو اختیار کرنا اچھی طرح سوچ کر اور اچھی چھان بین کرکے۔ یہ نہیں کہ جدھر منہ ہوا ادھر چل دیا۔ بغیر سوچ سمجھ کے ، یعنی اسلام قبول کرتے ہی وہ راہ صواب تک پہنچ گئے۔ اسارہ اس طرف ہے کہ اسلام عین راہ نجات ہے اور یہ بہت ہی خوبصورت اشارہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور یہ کہ ہم میں سے بعض تو فرماں بردار بن گئے اور مسلمان ہوگئے ہیں اور بعض ہم میں سے ظالم ہیں اور بےراہ ہیں بس جنہوں نے اسلام قبول کرلیا اور مسلمان ہوگئے تو انہوں نے بھلائی کا راستہ اختیار کرلیا اور بھلی راہ ڈھونڈ لی۔