Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 16

سورة الجن

وَّ اَنۡ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا عَلَی الطَّرِیۡقَۃِ لَاَسۡقَیۡنٰہُمۡ مَّآءً غَدَقًا ﴿ۙ۱۶﴾

And [ Allah revealed] that if they had remained straight on the way, We would have given them abundant provision

اور ( اے نبی یہ بھی کہہ دو ) کہ اگر لوگ راہ راست پر سیدھے رہتے تو یقیناً ہم انہیں بہت وافر پانی پلاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ کی فرمانبرداری اور رزق کی فراوانی :۔ یعنی جن اور انسان اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور رزق کی فراوانی کردیتے۔ اور یہ وہی مضمون ہے جو پہلے سورة نوح کی آیت نمبر ١١، ١٢ کے تحت گزر چکا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورة نوح کا حاشیہ نمبر ٥

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وان لو استقاموا علی الطریقۃ…: اس کا عطف ” انہ استمع نفرمن الجن…“ پر ہے اور ” وان لو استقاموا “ کا اصل ” وانھم لو استقاموا “ ہے، یعنی کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا … اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ (یعنی قریش مکہ یا تمام بنی آدم اور جن) اصل راستے پر سیدھے چلتے رہتے تو ہم انہیں وافر پانی پلاتے۔” غقاً “ کا معنی کثیر ہے۔ وافرپانی سے مراد وافر رزق ہے، کیونکہ زمین سے حاصل ہونے والی تمام برزکات بارش ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بیان فرمائی ہے :(ولو ان اھل القریٓ امنوا و اثقوا لفتحنا علیھم برکت من السمآء والارض) (الاعراف : ٩٦) ’ اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکات کھول دیتے۔ “ سورة نوح (١٠ تا ١٢) اور سورة مائدہ (٦٦) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَۃِ لَاَسْقَيْنٰہُمْ مَّاۗءً غَدَقًا۝ ١٦ ۙ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے طرق الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] ، قال الشاعر : 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک : ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة . وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ، وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ. ( ط رق ) الطریق کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے غدق قال تعالی: لَأَسْقَيْناهُمْ ماءً غَدَقاً [ الجن/ 16] ، أي : غزیرا، ومنه : غَدِقَتْ عينه تَغْدَقُ والغَيْدَاقُ يقال فيما يغزر من ماء وعدو ونطق . ( غ د ق ) الغدق کے معنی زیادہ اور افر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأَسْقَيْناهُمْ ماءً غَدَقاً [ الجن/ 16] تو ہم ان کے پینے کو بہت سا پانی دیتے ۔ اور اسی سے غدقت عینہ تغدق سے جسکے معنی آنکھ سے کو ب پانی بہنا کے ہیں اور غیداق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو وافر اور زیادہ ہو عام اس سے کہ پانی ہو یا گفتگو اور یا دوڑ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر یہ لوگ کفر کے طریقہ پر یا یہ کہ اسلام کے طریقہ پر قائم ہوجاتے تو ہم ان کو بہت مال اور وسعت دیتے تاکہ ہم اس کے ذریعے ان کا امتحان کریں تاکہ یہ اپنی اسی حالت کی طرف لوٹ آئیں جو کہ ان کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ شان نزول : وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ (الخ) مقاتل سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی جب ان سے سات سال تک بارش روک دی گئی تھی اور ابن ابی حاتم نے ابو صالح کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جنات نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم آپ کی مسجد میں آپ کے ساتھ نمازوں میں حاضر ہوسکیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ وَّاَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰہُمْ مَّآئً غَدَقًا ۔ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہیے کہ مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے) کہ اگر یہ لوگ درست طریقے پر چلتے رہتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے ۔ “ یعنی اگر نسل انسانی کے لوگ انبیاء و رسل - کے راستے پر چلتے رہتے تو آخرت کی نجات کے ساتھ ساتھ ہم انہیں دنیا میں بھی خوب نوازتے۔ یہاں پر جس مفہوم میں لفظ ” طَرِیْقَۃ “ آیا ہے عین وہی مفہوم لفظ ” شَرِیْعَۃ “ اس آیت میں ادا کر رہا ہے : { ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ } (الجاثیۃ : ١٨) ” پھر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ہم نے آپ کو قائم کردیا دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر “۔ گویا ان دونوں الفاظ کا مفہوم تو ایک ہی ہے لیکن ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ” شریعت “ دین کے ظاہری اور قانونی پہلو کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ ” طریقت “ سے دین کا باطنی پہلو مراد لیاجاتا ہے۔ مثلاً نماز کے فرائض اور واجبات کیا ہیں ؟ مختلف ارکان کی ادائیگی کا درست طریقہ کیا ہے ؟ کن چیزوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟ یہ شریعت کا موضوع ہے۔ ظاہر ہے ایسے مسائل معلوم کرنے کے لیے آپ کو کسی فقیہہ یا مفتی سے رجوع کرنا ہوگا۔ لیکن نماز کی اصل روح کیا ہے ؟ نماز میں خشوع و خضوع اور حضور قلب کس طرح پیدا ہوتا ہے ؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں ؟ اس قسم کے سوالات طریقت سے متعلق ہیں اور ان کے جوابات آپ کو کسی صوفی سے ملیں گے۔ اوّلین ادوار کے بزرگانِ دین تو جامع الصفات تھے۔ جو صوفی تھے وہ بہت بڑے عالم اور مفتی بھی ہوا کرتے تھے۔ برصغیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی - ایسی ہی ایک جامع شخصیت تھے۔ آپ مفتی ‘ مفسر اور محدث بھی تھے اور بہت بڑے صوفی اور مرشد بھی۔ آپ مرزا مظہر جانِ جاناں شہید - (آپ اہل تشیع کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے) کے خلیفہ تھے۔ آپ کا تعلق شیخ احمد سرہندی - کے سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ سے تھا۔ بہرحال ایسی شخصیات کی موجودگی میں تو شریعت اور طریقت کے درمیان کوئی ُ بعد نہیں تھا ‘ لیکن آج بدقسمتی سے دین کے ان دونوں پہلوئوں کو پھاڑ کر بالکل الگ الگ کردیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 Here, one may ask: when, according to the Qur'an, the jinn have been created from the fire, what harm can the fire of Hell do them? The answer is: Even according to the Qur'an, man has been created out of the earth; why does then man feel hurt when a clod of earth is thrown at him? The truth is that although the whole body of man has been made from the earthly substances, when a living man of flesh and blood is moulded from them he becomes an entirely different thing from those substances; then other things made from the same substances become a means of causing harm to him. Likewise, although the jinn also have been created from the fire, when a living and sentient creation has been made from it, the same fire becomes a means of causing harm and hurt for it. (For further explanation, see E.N. 15 of Surah Ar-Rahman) .

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :15 اوپر جنوں کی بات ختم ہو گئی ۔ اب یہاں سے اللہ تعالی کے اپنے ا رشادات شروع ہوتے ہیں ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :16 یہ وہی بات ہے جو سورہ نوح میں فرمائی گئی ہے کہ اللہ سے معافی مانگو تو وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، تفسیر سورہ نوح ، حاشیہ 12 ) ۔ پانی کی کثرت کو نعمتوں کی کثرت کے لیے بطور کنایہ استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ پانی ہی پر آبادی کا انحصار ہے ۔ پانی نہ ہو تو سرے سے کوئی بستی بس ہی نہیں سکتی ، نہ انسان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو سکتی ہیں ، اور نہ انسان کی صنعتیں چل سکتی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:16) وان لو استقاموا علی الطریقۃ اس جملہ کا عطف انہ استمع (آیت نمبر 1 متذکرہ بالا) پر ہے۔ تقدیر کلام ہے : اوحی الی انہ استمع ۔۔ وان لو استقاموا ۔۔ ان مخففہ ہے جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوکر ان بن گیا ہے ان کا اسم جو ضمیر شان ہے (استفعال) مصدر۔ قائم رہنا۔ سیدھا رہنا۔ ثابت قدم رہنا۔ الطریقۃ۔ اللہ کا پسندیدہ راستہ، یعنی دین اسلام۔ مطلب یہ کہ :۔ میرے پاس اس بات کی بھی وحی ہے کہ اگر جن و انس دین اسلام پر قائم رہیں گے ۔۔ یہ جملہ شرطیہ ہے اگلا جملہ اس کی جزاء ہے۔ لاسقینہم ماء غدقا۔ جملہ سابقہ سے جواب شرط ہے لام تاکید کا ہے۔ اسقینا ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ اسقاء (افعال) مصدر بمعنی پلانا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ماء مفعول ثانی۔ غدقا صفت اپنے موصوف ماء کی۔ الغدق کے معنی بہت زیادہ اور افراط کے ہیں۔ اصل میں یہ باب سمع سے مصدر ہے بمعنی پانی کا بہت ہونا۔ مبالغہ کے طور پر ” بہت پانی “ کے معنی میں آتا ہے۔ تو ہم ان کو پانی کی ریل پیل سے سیراب کردیں گے۔ (مال و اولاد کھیتی باڑی، تندرستی، عافیت کو ماء غدقا سے تعبیر کرنا عرب کا محاورہ ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی خوب پانی برساتے جس سے بکثرت پھل اور غلے پیدا ہوتے اور وہ خوشحال ہوتے۔ ” آزمانے “ سے مراد یہ ہے کہ اس میں بھی ان کا امحتان ہو کر آیا خوشحال پا کر شکر بجا لاتے ہیں یا کفر و ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ آیت کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب ان پر سات سال کا قحط پڑا بعض مفسرین نے طریقہ سے مراد کفر و ضلالت کا راستہ ہے یعنی اگر یہ لوگ کفر و ضلالت کے راستہ پر ہی جمع رہتے تو ہم بطور استدراج انہیں خوف بارغ البالی اور خوشحالی دیتے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : فلما نسواما ذکروابہ فتحنا علیھم ابواب کل شی حتی اذا فرحوا بما اوتواحدنا ھم بغتہ فاذا ھم مبلسون “ پھر جب وہ اس نصیحت کو فراموش کر بیٹھے جو انہیں کی گی تھی تو ہم نے ان پر ہر قسم کی خوشحالی کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ بخشوں میں جو انہیں دی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور ان کا حال یہ ہوگیا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ “ (انعام 44) د ’ آزمانے “ کے لفظ کو دیکھا جائیتو اسی دوسرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ استقاموا۔ وہ کھڑے ہوئے۔ اسقینا۔ ہم نے پلایا۔ غدق۔ ڈھیروں۔ لبد۔ اکٹھے۔ اضعف۔ زیادہ کمزور۔ اقل۔ تھوڑا۔ لا یظھر۔ وہ مطلع نہیں کرتا۔ ارتضی۔ اس نے منتخب کرلیا۔ یسلک۔ وہ چلاتا ہے۔ رصد۔ نگہبان۔ احصی۔ اس نے شمار کرلیا۔ تشریح : کفار مکہ عقیدہ کی گندگی میں مبتلا تھے۔ ان کا جنات اور اپنے کاہنوں کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ غیب کی تمام باتوں کو جانتے ہیں اسی لئے وہ جنات سے پناہ مانگتے اور کاہنوں سے اپنی تقدیر کے فیصلے کراتے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ جس کو بیت اللہ کہتے تھے اس میں سیکڑوں بت رکھے ہوئے تھے۔ ان کو اپنی سفارشی مان کر ان سے فریادیں کرتے اور اپنی مرادین مانگا کرتے تھے۔ اگر کوئی یہ کہتا کہ لوگو ! یہ اللہ کا گھر ہے اس میں صرف اسی کی عبادت کی جائے اللہ ہی سے اپنے حاجتوں کے لئے سوال کیا جائے تو وہ اس آواز کو برداشت نہیں کرتے تھے اور اس پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جب آپ بیت اللہ میں عبادت کرتے اور لوگوں کو ان بےجان بتوں کی حقیقت بتاتے جو نہ تو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کفار یہ سن کر آپ کا مذاق اڑاتے اور چاروں طرف سے آپ پر ٹوٹ پڑتے اور ستانے میں کمی نہ چھوڑتے۔ اللہ تعالیٰ نے زیر مطالعہ آیات میں ان تمام باتوں کو کھول کر بیان فرمایا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ سب کچھ دینے والی ذات اللہ کی ہے اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو تمہیں کچھ بھی دے سکے۔ اگر تم ایمان لا کر نیک اعمال کرو گے اور ان پر ثابت قدم رہوگے تو اللہ تمہیں خوش حال کردے گا اور تمہیں کسی چیز کی کمی نہ رہے گی البتہ اگر نعمتیں پانے کے بعد کسی نے اللہ کی ناشکری کی تو پھر ایسے لوگوں کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ کی طرف سے وحی کی گئی ہے کہ بلاشبہ مسجدیں اللہ کے لئے مخصوص ہیں ان مساجد میں اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارا جائے اور جب کوئی اللہ کا نام بلند کر رہا ہو تو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر اللہ کے گھر میں اللہ کا نام لینے والے پر لوگ ٹوٹ پڑیں تو یہ ایک انتہائی نامناسب حرکت ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اللہ کے سوا کوئی نقصان پہنچانے یا نفع دینے کا اختیار نہیں رکھتا کیونکہ یہ تو سب چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں مجھے بھی اللہ کے دامن ہی میں پناہ مل سکتی ہے۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ نے جس پیغام کے پہنچانے کی ذمہ داری میرے سپرد کی تھی وہ میں نے نہایت دیانت و امانت کے ساتھ پہنچا دی ہے۔ اب اس کے بعد جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کیلئے جہنم کی وہ آگے تیار کی گئی ہے جس میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا جب اللہ کے نافرمان اس عذاب اور جہنم کو دیکھیں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ کون مددگاروں کیا اعتبار سے کمزور ہے اور کون شمار کے لحاظ سے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے جس عذاب کا فیصلہ کیا ہے وہ قریب ہے یاد ور ہے کیونکہ ان چیزوں کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کا سارا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعہ اتنا ہی علم غیب دیاجاتا ہے جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے لیکن غیب کی ہر بات کا علم انہیں نہیں دیا جاتا۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے کوئی نبی اور رسول غیب سے وحی کے ذریعہ مطلع تو کیا جاتا ہے لیکن وہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف عالم الغیب نہیں ہوا کرتا۔ فرمایا کہ وحی کے ذریعے جس غیب کا علم دیا جاتا ہے یا جو وحی کی جاتی ہے اس کی حفاظت کے لئے اللہ نے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں تاکہ پیغام الٰہی میں کوئی کسی طرح کی آمیزش یا ملاوٹ نہ کرسکے اور اللہ کا پیغام پوری طرح پہنچ جائے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ اس علم کے لئے فرشتوں کا محتاج نہیں ہے بلکہ اس کا علم تو ہر چیز پر چھایا ہوا ہے اور اس نے ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنوں کے خیالات کی تائید قرآن مجید کے الفاظ میں۔ اس سے پہلے ایماندار جنوں کے خیالات کو قرآن کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے براہ راست اپنے بندوں کو سمجھاتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بتلائیں کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ اگر لوگ صحیح راستے پر چلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں کثیر پانی سے سیراب فرمائے گا۔ یاد رہے کہ دنیا کی زندگی اور انسانی وسائل کا تعلق پانی سے ہے اس لیے فرمایا کہ ہم انہیں پانی سے سیراب کریں گے یعنی ان کی روزی اور وسائل میں اضافہ فرمائیں گے۔ انہیں پھر بتلائیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا وہ اسے سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اے نبی ! انہیں یہ بھی بتلائیں کہ مساجد ” اللہ “ کی ہیں ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب اللہ کا بندہ یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی دعوت دینے کے لیے بیت اللہ میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ٹوٹ پڑتے ہیں تاکہ آپ ڈر کر اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی دعوت چھوڑ دیں۔ اے نبی ! ان سے ڈرنے کی بجائے کھلے دل سے اعلان فرماتے جائیں کہ میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔ اے نبی ! انہیں یہ بھی فرمائیں کہ اگر میں اللہ کی عبادت اور اس کی دعوت میں کوتاہی کروں تو مجھے اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ ہی مجھے اس کے سوا کوئی اور پناہ دکھائی دیتی ہے۔ میرا کام اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہچانا ہے لہٰذا یارکھو ! جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس وعدے کو ضرور پالیں گے، پھر انہیں معلوم ہوگا کہ مدد کرنے میں اور افرادی قوت کے اعتبار سے کون کمزور ہے۔ کفار مالی وسائل اور افرادی قوت کی بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈراتے اور دھمکاتے تھے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کی دعوت لوگوں تک نہ پہنچائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو ” قل “ کے لفظ سے مخاطب کیا اور حکم فرمایا کہ اے نبی ! کہتے جائیں کہ میں اپنے رب کی دعوت اور عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا اور نہ ہی میں اس کی خدائی میں اختیارات رکھنے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میری دعوت تو یہ ہے کہ میں نہ تمہارے نفع اور نقصان کا مالک ہوں اور نہ اپنے بارے میں کوئی اختیارات رکھتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑنے پر آئے تو مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور نہ اس کی پکڑ سے مجھے کوئی چھڑسکتا ہے۔ جہاں تک تمہاری طاقت اور مخالفت کا معاملہ ہے۔ جس دن کی تم تکذیب کرتے ہو اس دن تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے مددگار کتنے کمزور ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طاقت اور لشکروں کے مقابلے میں تم کتنے حقیر اور تھوڑے ہو۔ یہاں فرمایا ہے کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں ہونی چاہیے۔ مشہورتابعی حضرت حسن بصری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے پوری زمین کو مسجدبنایا ہے یعنی جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہاں مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنا یا کسی سے مددمانگنا کسی جگہ بھی جائز نہیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تمام انبیاء (علیہ السلام) پر چھ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں : ١۔” مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔ ٣۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ ٤۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ ٥۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے۔ ٦۔ مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا ہے۔ “ (رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ) مسائل ١۔ اللہ کے نبی اپنے رب کی عبادت اور دعوت میں کسی کو شریک نہیں سمجھتے تھے۔ ٢۔ اللہ کے نبی لوگوں کے نفع اور نقصان پر اختیار نہیں رکھتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کوئی بھی بچا اور پناہ نہیں دے سکتا۔ ٤۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ وسائل اور افرادی قوت کے اعتبار سے کتنے کمزور ہیں۔ تفسیر بالقرآن نفع اور نقصان کا مالک صرف ” اللہ “ ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتے ہو جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ میں انپے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں۔ (یونس : ٤٩) ٣۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ؟ (المائدۃ : ٧٦) ٤۔ اگر اللہ تمہیں نقصان میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اس سے بچائے گا۔ (الفتح : ١١) ٥۔ (اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیں کہ میں تمہارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ (الجن : ٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان .................................... صعد اللہ فرماتا ہے کہ جن ہمارے متعلق یہ کہتے تھے کہ اگر لوگ یا ظالم اور کافر لوگ راہ راست پر آجائیں تو ہم ان کو خوب سیراب کریں۔ اور یوں ان کے رزق میں اضافہ ہو ، تاکہ ” ہم “ ان کو آزمائیں کہ شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔ طرز ادا میں یہ تبدیلی کہ جنوں کے قول کو نقل کرنے کے بجائے جنوں کے قول کا مفوم قرآنی الفاظ میں ادا کیا گیا اور جنوں کی بات تو اس طرح قرآن کریم میں کئی جگہ آتی ہے اور اس سے کلام میں تاکید مزید پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہے اور قاری اس طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ توجہ مبذول کرانے کے اس نوٹ میں کئی حقائق ہیں ، جن کے مطابق ایک مومن کا ایمان تشکیل پاتا ہے اور ان کے مطابق وہ معاملات کے فیصلے کرتا ہے اور واقعات کے باہم روابط متعین کرتا ہے۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ اقوام اور سوسائٹیاں اور معاشرے کس طرح صراط مستقیم پر قائم رہ کر اللہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اور پھر وصول الی اللہ اور پیداوار میں اضافہ اور اور خوشحالی کے حصول کے درمیان ربط کیا ہے جبکہ خوشحالی کا سبب اول آبپاشی کا انتظام اور کثرت ہے جہاں تک زندگی کا تعلق ہے وہ تو پانی سے تشکیل پاتی ہے۔ آج ہمارے صنعتی دور میں بھی خوشحالی کا دارومدار بہرحال پانی اور سیرابی پر ہے۔ اگرچہ صرف زراعت پر زندگی موقوف نہیں رہی ہے۔ لیکن پھر بھی تعمیر و ترقی کا مدار پانی ہی پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ راہ راست پر قائم رہے تو نہ صرف وہ ترقی یافتہ اور خوش حال ہوجاتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو زمین پر اقتدار اعلیٰ بھی حاصل ہوتا ہے ، امت عربیہ۔ اس کی واضح مثال ہے کہ ایام جاہلیت میں جزیرة العرب کے درمیان یہ نہایت پسماندہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن جب وہ راہ راست پر چل پڑے تو ان کے لئے ایسی زمینوں کے دروازے کھل گئے جہاں پانی بڑی مقدار میں مہیا تھا اور جب یہی عرب بدعمل ہوگئے اور انہوں نے راہ راست سے انحراف اختیار کیا تو وہ دوبارہ پسماندہ ہوگئے اور اس لئے وہ اس وقت بدحال ہیں۔ اور یہ اس وقت تک بدحال رہیں گے جب تک یہ دوبارہ راہ راست پر نہیں آجاتے۔ اور جب بھی یہ آئے ان پر خوشحالی آجائے گی اور ان کو زمین میں تمکن حاصل ہوگا۔ اگر ایسی اقوام کہیں موجود ہوں جو راہ راست پر نہ ہوں اور پھر بھی وہ باد سائل ہوں ، تو اللہ ان پر دوسرے عذاب مسلط کردے گا اور وہ کئی آفات وبلیات سے دوچار ہوں گی۔ ایسی اقوام انسانیت ، اقدار ، انسانی شرف اور کرامت کے اعتبار سے گر جائیں گی۔ یوں ان کی یہ خوشحالی اور مادی ترقی بےمعنی ہوکر رہ جائے گی۔ اور ان کی زندگی تلخ ، اور پر مشقت ہوگی۔ ایسی اقوام انسانی شرف سے محروم ہوں گی۔ اور ان کی زندگی میں کوئی اطمینان نہ ہوگا۔ اس مضمون کی تشریحات ہم سورة نوح میں کر آئے ہیں۔ اور اس نوٹ سے جو دوسری حقیقت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خوشحالی اور تمکین فی الارض بھی دراصل ایک ابتلا ہے ، ایک آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اچھے اور برے حالات کے ذریعہ آزماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوشحالی میں اللہ کا شکر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی بدحالی پر صبر کرے ، جبکہ بادی النظر میں انسان کی توجہ ایک طرف ہوجاتی ہے ، اس کی مدافعانہ قوتیں مجتمع ہوجاتی ہیں۔ اور وہ اپنی پوری قوتوں کو صورت حالات کی مدافعت میں لگا دیتا ہے۔ مثلاً وہ اللہ کو یاد کرتا ہے ، اللہ سے دعا کرتا ہے ، اور اللہ سے ان مشکل حالات میں مدد طلب کرتا ہے جبکہ تمام دنیاوی سہارے ختم ہوتے ہیں تو انسان اللہ کا سہارا لیتا ہے۔ رہی خوشحالی تو وہ انسان کو غافل کردیتی ہے ، انسان فضولیات میں مشغول ہوجاتا ہے۔ انسانی اعضا سست ہوجاتے ہیں ، قوت مدافعت سو جاتی ہے اور انسان کے لئے غفلت اور بےراہ روی کے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں۔ اور انسان بڑی سہولت سے شیطان کے پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ جب انسان پر خوشحالی اور نعمتوں کی کثرت کی آزمائش آجائے تو اسے ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مال و دولت بسا اوقات انسان کو سرکشی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ انسان اللہ کا شکر نہیں کرتا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخیل ہوجاتا ہے اور دنیاوی اخراجات میں اسراف کرنے لگتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں زندگی کے توازن کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اقتدار کی قوت بھی اکثر اوقات انسان کو اندھا کردیتی ہے ، وہ ظالم اور سرکش ہوجاتا ہے ، وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ، اور حدود سے آگے بڑھتا ہے۔ لوگوں پر دست درازی کے بعد ایسا شخص پھر اللہ کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے۔ اسی طرح مال و جمال کے فتنے انسان کو کبروغرور اور بےراہ روی اور بدعملی اور بدکرداری اور فسق وفجور میں مبتلا کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ذکی اور ذہین ہے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے اور برخود غلط ہوجاتا ہے اور وہ اعلیٰ قدروں کو پامال کرتا ہے۔ غرض ہر نعمت آزمائش ہے الایہ کہ کوئی بروقت اللہ کو یاد کرے اور اللہ کی پناہ طلب کرے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ ذکر الٰہی سے اعراض کے نتیجے میں ایک طرف انسان خوشحالی میں آزمایا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ عذاب اخروی میں بھی مبتلا ہوگا۔ قرآن کریم اس کی تصریح کرتا ہے۔ یسل کہ عذابا صعدا (٢٧ : ٧١) ” اس کا رب اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا “۔ یعنی یہ عذاب بہت شدید ہوگا ، جس طرح ایک آدمی چڑھائی چڑھ رہا ہو تو وہ مشکل محسوس کرتا ہے۔ جوں جوں چڑھتا ہے اس کے لئے رفتار مشکل ہوتی جاتی ہے۔ قرآن کریم نے کئی جگہ شدت عذاب کی تعبیر چڑھائی چڑھنے کے ساتھ کی ہے۔ ایک دوسری جگہ ہے۔ فمن یرد ................................ السماء (٦ : ٥٢١) ” پس جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ اور ایسا بھینچتا ہے کہ اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا وہ آسمانوں کی طرف چڑھ رہا ہے “۔ اور دوسری جگہ ہے۔ سارھقہ صعود (المدثر۔ ٧١) ” میں عنقریب اسے ایک کٹھن چڑھائی چڑھاﺅں گا “۔ یہ تیسری آیت ہوسکتی ہے کہ یہ جنوں کے قول کی حکایت ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ کا کلام ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَّ اَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَى الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ۠ مَّآءً غَدَقًاۙ٠٠١٦﴾ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ ﴿ اَنَّهُ اسْتَمَعَ ﴾ پر معطوف ہے مطلب یہ ہے کہ میری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ انسان اور جن اسلام کے طریقے پر مستقیم رہتے تو ہم انہیں خوب اچھی طرح پانی پلاتے یعنی انہیں مال کی فراوانی سے نوازتے اور انہیں بڑی بڑی نعمتیں دیتے ﴿لِّنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ ١ؕ ﴾ تاکہ ہم اس میں ان کا امتحان کریں کہ نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” وان لو استقاموا “ یہ ” انہ استمع “ پر معطوف ہے اور مستقل وحی ہے، یہ جنات کا کلام نہیں۔ اس میں اہل مکہ کی طرف التفات ہے۔ ” غدقا کثیرا “ یعنی بکثرت، وافر، مراد خوشحالی ہے۔ یہ بات بھی آپ کی طرف وحی کی گئی کہ اگر اہل مکہ طریقہ مستقیمہ یعنی ملت اسلام پر قائم ہوجائیں، تو ہم دنیا میں ان پر روزی فراخ کردیں گے تاکہ ان کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کون شکر کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ ” ومن یعرض عن ذکر ربہ “ یہ تخویف ہے۔ صعدا، شاقا، یعنی سخت دچوار اور جو شخص اللہ کی کتاب اور اس کی توحید سے اعراض کرے گا اسے وہ نہایت سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ صعدا شاقا یعلوا المعذب یغلبوہ (مظہری ج 10 ص 91) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور میری جانب یہ بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر لوگ سیدھی راہ اور سیدھے طریقے پر قائم ہوجاتے یعنی اسلام کے پابند ہوجاتے تو ہم ان کو کثیر اور وافر پانی سے خوب سیرات کرتے۔