Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 19

سورة الجن

وَّ اَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبۡدُ اللّٰہِ یَدۡعُوۡہُ کَادُوۡا یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِ لِبَدًا ﴿ؕ٪۱۹﴾  11

And that when the Servant of Allah stood up supplicating Him, they almost became about him a compacted mass."

اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when the servant of Allah stood up invoking Him in prayer they just made round him a dense crowd as if sticking one over the other. Al-`Awfi reported from Ibn `Abbas, "When they heard the Prophet reciting the Qur'an they almost mounted on top of him due to their zeal. When they heard him reciting the Qur'an they drew very near to him. He was unaware of them until the messenger (i.e., Jibril) came to him and made him recite, قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ (Say: "It has been revealed to me that a group of Jinn listened)." (72:1) They were listening to the Qur'an." This is one opinion and it has been reported from Az-Zubayr bin Al-`Awwam. Ibn Jarir recorded from Ibn `Abbas that he said, "The Jinns said to their people, لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا (when the servant of Allah stood up invoking Him in prayer they just made round him a dense crowd as if sticking one over the other)." This is the second view and it has also been reported from Sa`id bin Jubayr. Al-Hasan said, "When the Messenger of Allah stood up and said none has the right to be worshipped except Allah, and he called the people to their Lord, the Arabs almost crowded over him together (against him)." Qatadah said concerning Allah's statement, وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا when the servant of Allah stood up invoking Him in prayer they just made round him a dense crowd as if sticking one over the other. "Humans and Jinns both crowded together over this matter in order to extinguish it. However, Allah insisted upon helping it, supporting it and making it victorious over those who opposed it." This is the third view and it has also been reported from Ibn `Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr and Ibn Zayd. It was also the view preferred by Ibn Jarir. This view seems to be the most apparent meaning of the Ayah due to Allah's statement which follows it, قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلاَ أُشْرِكُ بِهِ أَحَدً ا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 عَبْدُاللّٰہِ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور مطلب ہے کہ انس و جن مل کر چاہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، لیکن امام ابن کثیر نے اسے رجوع کرنا قرار دیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] کافروں کے قرآن سننے کی وجوہ :۔ یعنی جب بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑے آتے ہیں اور کافر بھی۔ اگرچہ دونوں کے آنے اور ہجوم کرنے کا مقصد الگ الگ اور ایک دوسرے کے برعکس ہوتا ہے۔ مسلمان ہدایت کے طالب ہیں اس لیے وہ فوراً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل پڑتے ہیں اور کافر یہ چاہتے ہیں کہ وہاں شور شرابا کرکے قرآن کی آواز لوگوں کے کانوں میں نہ پڑنے دیں یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نظریں جما کر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھور گھار کر اتنا مرعوب کردیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن سنانا بند کردیں یا پھر اس لیے سننے آجاتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کیا جاسکے یا مذاق اڑایا جاسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وانہ لما قام عبداللہ…:) مشرکین نہ صرف یہ کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے بلکہ ان کے لئے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اس قدر باعث تعجب اور تکلیف دہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کے لئے یا توحید کی دعوت کے لئے کھڑے ہوتے اور صرف ایک اللہ ہی کو پکارتے تو مشرکین اظہار تعجب کے لئے اور آپ کو پریشان کرنے کیلے گروہ در گروہ آپ کے اردگرد جمع ہوجاتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللہِ يَدْعُوْہُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِ لِبَدًا۝ ١٩ ۭۧ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے لبد قال تعالی: يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً [ الجن/ 19] أي : مجتمعة، الواحدة : لُبْدَةٌ ، كَاللُّبْدِ الْمُتَلَبِّدِ ، أي : المجتمع، وقیل : معناه : کانوا يسقطون عليه سقوط اللّبد، وقرئ : لبدا أي : متلبّدا ملتصقا بعضها ببعض للتّزاحم عليه، وجمع اللُّبْدِ : أَلْبَادٌ ولُبُودٌ. وقد أَلْبَدْتُ السرجَ : جعلت له لبدا، وأَلْبَدْتُ الفرسَ : ألقیت عليه اللّبد . نحو : أسرجته، وألجمته، وألببته، واللِّبْدَةُ : القطعة منها . وقیل : هو أمنع من لبدة الأسد أي : من صدره، ولَبَّدَ الشّعَرَ ، وأَلْبَدَ بالمکان : لزمه لزوم لبده، ولَبِدَتِ الإبل لَبَداً : أکثرت من الکلإ حتی أتعبها . وقوله : مالًا لُبَداً البلد/ 6] أي : كثيرا متلبّدا، وقیل : ما له سبد ولا لبد ولُبَدُ : طائر من شأنه أن يلصق بالأرض، وآخر نسور لقمان کان يقال له لُبَدُ وأَلْبَدَ البعیرُ : صار ذا لبد من الثّلط ، وقد يكنّى بذلک عن حسنه لدلالة ذلک منه علی خصبه وسمنه، وأَلْبَدْتُ القِرْبَةَ : جعلتها في لَبِيدٍ أي : في جو الق صغیر . ( ل ب د ) لبدۃ ۔ تہ بر تہ جمی ہوئی اون ج لبد قرآن میں ہے : يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً [ الجن/ 19] کافران کے گرداگرد ہجوم کرلینے کو تھے ۔ یعنی تہ برتہ جمی ہوئی اون کی طرح ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ آپ پر مجتمع ہوکر لبدہ کی طرح گرنے لگے ۔ ایک قرات میں لبدا بھی ہے یعنی آپ کے گرد ہجوم کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر چڑھ رہے تھے ۔ اور لبد کی جمع البار ولبود آتی ہے البدت السرج میں نے زین کے لئے نمدہ بنایا اور البدت الفرس کے معنی ہیں میں نے گھوڑے پر نمدہ دالا ۔ جیسے اسرجتہ ( میں نے اس پر زین کسی ۔ والجمتہ میں نے اسے لگام دی ۔ الببتہ ( سینہ بند باندھا ) اللید ۃ یہ لبد کا مفرد ہے نمدہ کے ا یک ٹکڑہ کو لبد کہتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ھو امنع من لبدۃ الاسد ۔ وہ شیر کے لبدہ یعنی سینہ یا ابال سے بھی زیادہ محفوظ ہے ۔ لبد الشعر بالوں کا اوپر تلے جم جانا ۔ لبدت الابل ۔ بل لبدا ۔ زیادہ گھاس کھانے کی وجہ سے اونٹ پریشان اور سینہ گرفتہ ہوگئے اور آیت کریمہ : مالًا لُبَداً [ البلد/ 6] بہت سامال ۔ میں لبد کے معنی مال کثٰیر کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے مالہ سبد ولا لبد ۔ نہ اس کے پاس اون ہے نہ بال یعنی بالکل مفلس ہے نہ تھوڑا ہے نہ بہت ۔ لبد ایک پرند جو زمین کے ساتھ سینہ لگا کر چپک جاتا ہے ۔ اور نسو ( لقمان ( لقمان کے گدھوں میں سے آخری نرگدھ ) کو لبد کہاجاتا ہے ۔ البد البعیر اونٹ کے سرین پر گوبر کا جم جانا کبھی یہ اس کے خوبصورت اور موٹا ہونے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ البدت القربۃ مشک کو لبد یعنی بالوں سے بنی ہوئی چھوٹی بوری میں ڈال دینا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب محمد بطن نخلہ میں اپنے پروردگار کی عبادت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ تمام جن جس وقت رسول اکرم سے قرآن کریم سنتے ہیں تو آپ کی اور قرآن کریم کی محبت کی وجہ سے آپ کے دائیں بائیں جمع ہوجاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ } ” اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے “ { کَادُوْا یَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا ۔ } ” تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس پر ہجوم کر کے آجائیں گے۔ “ اللہ کے بندے سے مراد یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور اس میں قرآن کی تلاوت فرماتے تو مشرکین یہ کلام سننے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد بڑے تجسس سے جمع ہوجاتے تھے ‘ لیکن ایمان لانے کو تیار نہیں تھے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں کھڑا دیکھتے تو ان کے عناد کی آگ بھڑکنے لگتی اور ان کا جی چاہتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہلہ ّبول دیں اور اس شمع ہدایت کو ُ گل کردیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 The commentators generally have taken "mosques" to mean the places of worship. Accordingly, the verse means: "None should he associated in the worship of Allah in the places of worship. Hadrat Hasan Basri says: The entire earth is a place of worship, and the verse means to say: polytheism ought not to be committed anywhere on God's earth," He has reasoned out this meaning from the Holy Prophet's Hadith "For me the entire earth has been made a place of worship and a means of obtaining purity:" Hadrat Sa`id bin Jubair has interpreted masajid to imply the parts of the body on which one prostrates oneself, i.e. the hands, the knees, toes and forehead. According to this explanation, the verse means: These limbs have been made by Allah; no one should prostrate oneself on these before anyone other than Allah.

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :20 اللہ کے بندے سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11 اللہ کے بندے سے یہاں مراد حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، اور ٹوٹے پڑنے کا مطلب ایک تو یہ ممکن ہے کافر لوگ آپ کے اِرد گرد جمع ہو کر ایسا انداز اِختیار کرتے تھے جیسے وہ آپ پر حملہ کردیں گے، اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جب آپ عبادت کے دوران قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے تو قرآن سننے کے لئے آپ کے گرد جِنّات کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:19) وانہ لما قام عبد اللہ یدعوہ۔ اس کا عطف بھی جملہ ان لو استقاموا پر ہے یعنی اور مجھے یہ بھی وحی کی گئی ہے کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پا کرنے کھڑا ہوتا ہے۔ ان حرف مشبہ بالفعل ہ ضمیر شان واسم ان باقی جملہ اس کی خبر۔ لما ظرف زمان۔ جب۔ عبد اللہ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کا بندہ۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ یدعو مضارع واحد مذکر غائب ۔ دعوۃ (باب نصر) مصدر۔ عبادت کرنا۔ پکارنا ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ ہے۔ یدعوہ حال ہے قام کے فاعل سے ۔ کادوا یکونوں علیہ لبدا یہ جملہ لما کے جواب میں ہے کادوا ماضی جمع مذکر غائب کود (باب سمع) مصدر۔ راغب اور سیبویہ کے نزدیک (باب سمع و نصر) دونوں سے آتا ہے۔ کاد افعال مقاربہ میں سے ہے فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے۔ کاد اگر بصورت اثبات مذکور ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کو آنے والا فعل واقع ہی نہیں ہوا۔ قریب الوقوع ضرور تھا۔ جیسے یکاد البرق یخطف ابصارھم (2:20) قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے۔ یعنی بجلی کی چمک نے ان کی آنکھوں کی بینائی کو اچک نہیں لیا تھا لیکن اچک لینے کے قریب تھی۔ اور اگر بصورت نفی ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ بعد کو آنے والا فعل واقع ہوگیا لیکن عدم وقوع کے قریب تھا۔ جیسے فذبحوھا وما کادوا یفعلون ۔ (2:71) انہوں نے (بڑی مشکل سے) اس (گائے) کو ذبح کیا۔ اور وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ یعنی انہوں نے گائے تو ذبح کردی لیکن ذبح نہ کرنے کی حد تک پہنچ گئے تھے۔ کود کے معنی ارادہ اور خواہش بھی ہے مثلا قرآن میں ہے اکاد اخفیہا (20:15) میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں۔ یکونون مضارع جمع مذکر غائب۔ کون (باب نصر) وہ ہوں گے۔ کا دو یکونون قریب ہے کہ وہ ہوجائیں گے علیہ اس پر لبدا : لبد، لبدۃ : کی جمع ہے۔ لبد کا اصل معنی ہے ایسی جماعتیں جن میں کچھ لوگ اوپر ہوں کچھ نیچے۔ (ٹھٹ کے ٹھٹ) ہجوم بھیڑ، جماعت در جماعت۔ علامہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ حسن، قتادہ، ابن زید نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ توحید کی دعوت دینے کے لئے جب اللہ کا بندہ کھڑا ہوا تو جن و انس سب کے سب دعوت توحید کو باطل کرنے کے لئے اکٹھے ہوگئے وہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے تھے مگر اللہ کا فیصلہ تھا کہ وہ اپنا نور پورا (پھیلا) کر رہے گا۔ اور تمام دشمنوں کے مقابلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ بیضاوی لکھتے ہیں :۔ یکونون علیہ مجتمعین لابطال امرہ۔ وہ اس کے گرف۔ ٹھٹ کے ٹھٹ لگا دیتے اس کی بات کو جھٹلانے کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی قرآن سننے کے شوق میں ایک دوسرے کو ہٹا کر آپ کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا چاہتے تھے۔ یہ واقعہ وادی بطن نخلہ میں پیش آیا جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ (فتح القدیر) آیت کا دوسرا مطلب جسے امام ابن جریر نے اختیار کیا ہے، یہ ہے کہ جبی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کا آغاز فرمایا تو مشرکین عرب مخالفت کے لئے آپ پر ٹوٹ پڑے یعنی آپ کے در پے آزار ہوگئے۔ “ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ” اگلی آیت کو دیکھا جائے تو یہی (دوسرا) مطلب اظہر (زیادہ واضح) قرار پاتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانہ ........................ لبدا ” یعنی سب جمع ہوکر اور جتھا بنا کر اس وقت اس پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہوگئے جب وہ اللہ کو پکارنے کے لئے یعنی اللہ کے سامنے نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا۔ نماز یعنی صلوة کے معنی دعا کے ہیں۔ صلوة کے اصلی معنی ہی دعا کے ہیں۔ اگر یہ آیت جنوں کا قول ہو تو اللہ کی جانب سے ان کی بات کی حکایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور تلاوت کرتے تو مشرکین مکہ آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے جیسا کہ سورة المعارج میں ہے۔ فمال .................... عزین (٧٣) (٠٧ : ٦٣۔ ٧٣) ” پس اے نبی کیا بات ہے ، کہ یہ منکر دائیں اور بائیں سے گروہ در گروہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں “۔ اور نہایت حیرانی سے قرآن سنتے ہیں اور قبول نہیں کرتے۔ یا وہ ادھر ادھر سے آپ پر حملہ آور ہونے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ آپ کو ان سے بچاتا ہے اور ایسے مواقع بارہا پیش آئے۔ اگر یہ جنوں کا قول ہے تو وہ اپنی قوم کے سامنے مشرکین مکہ کے رویہ پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں اور اگر ابتداء ہی سے کلام الٰہی ہے کلام سنتے ہیں ، تعجب کرتے ہیں اور یہ رسول اللہ کے ارد گرد اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح اونی کپڑے کے بنے ہوئے بال ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ مفہوم اس تعجب ، حیرانی اور دہشت کے زیادہ مناسب ہے جو جنات کے پورے کلام کے دوران موجود رہی ہے۔ کیونکہ جنات کا پوراکلام درحقیقت اظہار تعجب اور اچھنبے کا نمونہ ہے۔ واللہ اعلم ! اسلامی دعوت اور قرآن کے کلام کے بارے میں جب جنوں کا کلام یہاں آکر ختم ہوتا ہے ، جس میں جنوں نے اپنے تعجب کا اظہار کیا ، جس میں ان کے شعور اور ان کی سوچ میں ارتعاش پیدا ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ ارض وسما اور جنات وفرشتے اور ستارے اور سیارے سب کے سب اس عظیم دعوت اور اس عظیم کلام کے حوالے سے متحرک ہیں۔ کائنات کا یہ عظیم نظام بھی اس کی وجہ سے متاثر ہوگیا ہے اور یہ ایک نہایت اہم اور سنجیدہ تحریک ہے۔ تو اس کے ساتھ ہی روئے سخن اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ نہایت ہی دو ٹوک ، فیصلہ کن اور اٹل ہدایات دی جاتی ہیں کہ آپ تبلیغ کے لئے خالص ہوجائیں اور یہ کہہ دیں کہ میں کسی کے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں۔ نہ میں غیب دانی کا مدعی ہوں ، نہ میں لوگوں کی تقدیر بدل سکتا ہوں۔ یہ بات نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ اور شکایت کا انداز میں کی جاتی ہے۔ نہایت سختی اور فیصلہ کن انداز میں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَّ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا ٢ؕ (رح) ٠٠١٩﴾ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ بھی اَنَّهُ اسْتَمَعَ پر معطوف ہے اور مطلب یہ ہے کہ میری طرف یہ بھی وحی آئی ہے کہ جب اللہ کا بندہ یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی عبادت کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو یہ جنات ان کے پاس جمگٹھے لگا کر جمع ہوگئے۔ یعنی انہوں نے جو آپ کی عبادت کا مشاہدہ کیا اور آپ کی قرات سنی اور آپ کی اقتداء میں جو آپ کے اصحاب کا رکوع سجود دیکھا تو جماعتیں بن کر کھڑے ہوگئے کیونکہ یہ منظر انہوں نے کبھی دیکھا نہ تھا۔ حضرت حسن اور حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا کہ ﴿ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ ﴾ کی ضمیر کفار قریش اور دیگر اہل عرب کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کا بندہ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے کام یعنی کار ِ رسالت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتا ہے تو ان کو ناگوار معلوم ہوتا ہے اور آپ کی دشمنی پر تل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے آپ کے پاس جمگٹھا لگا دیتے ہیں۔ فائدہ : اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق (میں اللہ کے پورے کلمات کے واسطہ سے ہر اس چیز کے شر سے پناہ لیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص کسی منزل پر اتر کر ان کلمات کو پڑھ لے تو وہاں سے روانہ ہونے تک اسے کوئی بھی چیز ضرر نہیں پہنچائے گی۔ (رواہ مسلم) ۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب کسی منزل پر اترتے تھے تو شیاطین کی پناہ لیتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ دعا پڑھنے کو بتائی جس میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” وانہ لما قام “ عبدا اللہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جب آپ توحید کی دعوت دیتے اور تبلیغ کرتے ہیں تو مشکین مخالفت کے لیے آپ پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ تفسیر حسن، قتادہ اور ابن زید رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ ومعناہ علی ما قال الحسن وقتادۃ وابن زید انہ لما قام عبداللہ بالدعوۃ الی التوحید کاد الجن والانس یکونون مجتمعین لابطال امرہ (مظہری ج 10 ص 93) ۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ صرف اللہ ہی کو پکارتا ہے اور اس کی عبادت بجا لاتا ہے تو لوگ کمال ذکر و عبادت کی وجہ سے اس بندہ خدا کو کارخانۃٔ خدائی میں دخیل سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی حاجات کے لیے اس پر ہجوم کر آتے ہیں۔ کوئی اس سے بیٹا مانگتا ہے، کوئی روزی طلب کرتا ہے اور کوئی اس سے حاجت بر آری اور مشکل کشائی کی درخواست کرتا ہے۔ اس میں جن وانس دونوں فریق شریک ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ دونوں کی طرف رسول ہیں اس لیے آپ کو حکم دیا کہ اگر آپ کو ثقلین سے یہ اندیشہ ہے کہ وہ آپ کو بھی خدا کا شریک بنائیں گے۔ اور حاجات ومصائب میں آپ کو پکاریں گے تو آپ واشگاف الفاظ میں اعلان فرما دیں کہ میں تو خود صرف اللہ ہی کو پکارتا ہوں اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہیں کرتا اور میں تمہارے نفع ونقصان کا بھی مالک ومختار نہیں ہوں (تفسیر عزیزی پارہ 29 ص 169، 170) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) یہ مضمون بھی وحی کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کھڑا ہوتا ہے تو اس پر لوگ ہجوم اور اژدحام کرکے ٹوٹے پڑتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان سے مراد وہی جنات کی جماعت ہو جو نصیبین سے یمن جارہے تھے اور بطن نخلہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سن کر اتر پڑے تھے اور آپ کے قریب اس قدر ہوئے کہ آپ پر جھک پڑے وہی جماعت مراد ہو یا کفار مکہ کی طرف اشارہ کر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں قرآن پڑھتے ہیں تو یہ بتوں کی حمایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھیڑ لگا کر ٹھٹھہ کے ٹھٹھہ جمع ہوجاتے ہیں اور تعجب و عداوت سے آپ جانب اس طرح دیکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے پر ٹوٹ پڑں گے اور حملہ کردیں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کادوا سے مسلمان اور غیر مسلمان دونوں مراد ہوں مسلمان قرآن سننے کے شوق میں جمع ہوجاتے ہیں اور کافر تعجب اور عناد کی وجہ سے یہ خواہش لے کر جمع ہوتے ہیں کہ موقع لگے تو اس آواز کو ہمیشہ کے لئے بند کردیں۔ جیسا کہ سورة حج میں فرمایا تھا لیکادون یسطون بالذین یتلون علیھم یعنی غلبہ حاصل کرنے اور حملہ کرنے کرنے کی غرض سے جمع ہوتے ہیں اور قریب ہے کہ قرآن پڑھنے والے پر جھپٹ پڑیں اور ان کا ٹھٹھہ حضور پر ٹوٹ پڑے۔ لبد جمع لبدۃ کی ہے لبدۃ کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز پر لپیٹنا اس رکوع میں تیرہ آیتیں تو جنات کی باہمی باتیں ہیں جن سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا گیا باقی دیگر مضامین ہیں جن کا عطف انہ استمع کے جملے پر ہے۔ یہ وہ مضامنی ہیں جن کا تعلق جنات کی عام عادات سے ہے اور ان عادات خبیثہ میں اکثر انسان بھی شریک ہیں۔