Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 28

سورة الجن

لِّیَعۡلَمَ اَنۡ قَدۡ اَبۡلَغُوۡا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمۡ وَ اَحَاطَ بِمَا لَدَیۡہِمۡ وَ اَحۡصٰی کُلَّ شَیۡءٍ عَدَدًا ﴿٪۲۸﴾  12

That he may know that they have conveyed the messages of their Lord; and He has encompassed whatever is with them and has enumerated all things in number.

تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے اللہ تعالٰی نے انکے آس پاس ( کی تمام چیزوں ) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہرچیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Till he knows that they have conveyed the Messages of their Lord. And He surrounds all that which is with them, and He keeps count of all things. The pronoun `he' which is in His statement, لِيَعْلَمَ Till he knows, refers to the Prophet. Ibn Jarir recorded from Sa`id bin Jubayr that he said concerning the Ayah, عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلاَّ مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا The All-Knower of the Unseen, and He reveals to none His Unseen. Except to a Messenger whom He has chosen, and then He makes a band of watching guards to march before him and behind him. "These are four guardians among the angels along with Jibril, لِيَعْلَمَ Till he knows, This means Muhammad, ... أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالاَتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا that they have conveyed the Messages of their Lord. And He surrounds all that which is with them, and He keeps count of all things." This was recorded by Ibn Abi Hatim. It has also been reported by Ad-Dahhak, As-Suddi and Yazid bin Abi Habib. `Abdur-Razzaq reported from Ma`mar, from Qatadah, لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالاَتِ رَبِّهِمْ ... Till he knows that they have conveyed the Messages of their Lord. "So that the Prophet of Allah would know that the Messengers had conveyed their Messages from Allah and that the angels have protected them and defended them." This has also been reported by Sa`id bin Abi `Arubah from Qatadah, and Ibn Jarir preferred this interpretation. Al-Baghawi said, "Ya`qub recited it as, ( لِيَعْلَمَ in order to be known) this means, so that the people may know that the Messengers had conveyed the Message." It also could carry the meaning that the pronoun refers to Allah (i.e., So that He (Allah) may know. This opinion has been mentioned by Ibn Al-Jawzi in Zad Al-Masir. The meaning of this is that He protects His Messengers through His angels so that they will be able to convey His Messages. He protects what He reveals to them of revelation so that He will know that they have indeed conveyed the Messages of their Lord. This is like His statement, وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَأ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ And We made the Qiblah which you used to face, only that We know who followed the Messenger from those who would turn on their heels. (2:143) Allah also said, وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَـفِقِينَ Verily, Allah knows those who believe, and that He knows the hypocrites. (29:11) It should be added to these examples that from Allah's knowledge is that He knows all things before they occur, and this is something definite and certain. Therefore, He says after this, .. وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا And He surrounds all that which is with them, and He keeps count of all things. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Jinn, and all praises and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 لیعلم۔ میں ضمیر کا مرجع کون ہے ؟ بعض کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاکہ آپ جان لیں کہ آپ سے پہلے رسولوں نے بھی اللہ کا پیغام اسی طرح پہنچایا جس طرح آپ نے پہنچایا۔ بعض نے فرشتوں کو بنایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ کا پیغام نبیوں تک پہنچایا۔ اور بعض نے اللہ کو مرجع بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی فرشتوں کے ذریعے حفاظت فرماتا ہے۔ 28۔ 2 فرشتوں کے پاس کی یا پیغمبروں کے پاس کی۔ 28۔ 3 کیونکہ وہی عالم الغیب ہے، جو ہوچکا اور آئندہ ہوگا، سب کا اس نے شمار کر رکھا ہے۔ یعنی اسکے علم میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] وحی الٰہی کی حفاظت کا اہتمام :۔ اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ رسول کو علم ہوجائے کہ فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیئے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہوجائے کہ فرشتوں نے رسول کو پیغامات پہنچا دیئے اور تیسرا یہ کہ اللہ کو علم ہوجائے کہ رسولوں نے اس کے پیغام ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا دیئے۔ گویا ان پہرے داروں کی اس وقت تک ڈیوٹی ختم نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ کے پیغامات فرشتوں کے ذریعہ رسولوں تک اور رسولوں کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچا نہیں دیئے جاتے۔ [٢٦] یعنی ان انتظامات کے علاوہ ان سب سے اوپر اللہ تعالیٰ کی اپنی نگرانی اور کنٹرول ہے۔ یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اسی طرح محیط ہے اگر وہ بال برابر بھی اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں تو فوراً گرفت میں آجائیں۔ نہ فرشتوں کی یہ مجال ہے کہ وہ وحی الٰہی میں سے ایک لفظ تک کی کمی بیشی کرسکیں اور نہ رسولوں کی۔ کیونکہ اللہ جو وحی بھیجتا ہے اس کا ایک ایک لفظ گنتی میں آچکا ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یعلم ان قدا ابلغوا…: اس سارے انتظام کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ رسولوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر اس چھوٹی اور بڑی چیز کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہے اور ہر ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔ رسولوں کی مجال نہیں (خواہ وہ فرشتے ہں جیسے جبریل (علیہ السلام) یا انسان ہوں جیسے تمام رسول علیہ السلام) کہ اللہ کے پیغامات میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی کرسکیں۔ ی ہاں ایک سوال ہے کہ نص تو پہلے ہی ہر چیز کا علم رکھتا ہے، پھر ” لعلم “ (تاکہ وہ جان لے) فرمانے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا ہے کہ اس طرح ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ سب انتظام اس لئے کیا ہے تاکہ رسول اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیں اور اللہ تعالیٰ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں۔ (٢) بعض لوگ ان آیات سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول بھی عالم الغیب ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں غیب پر مطلع کرتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے اور انبیاء کا علم غیب عطائی یعنی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے :(قل لایعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ) (النمل : ٦٥)” کہہ دیجیے ہ آسمانوں میں اور زمین میں جو بھی ہے اللہ کے علاوہ غیب نہیں جانتا۔ “ یعنی عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر وہ کسی رسول کو کوئی بات بتادے تو اس سے وہ عالم الغیب نہیں بن جاتا، کیونکہ ایک تو رسولوں کو صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے جتنی بتائی جاتی ہے، وہ ہر بات نہیں جانتے اور یہ عالم الغیب کی شان کے لخاف ہے کہ اسے کچھ خبریں معلوم ہوں اور کچھ معلوم نہ ہوں۔ دوسیر جب کسی کو غیب کی کوئی بات بتانے سے معلوم ہو تو وہ عالم الغیب نہیں ہوتا، ورنہ ہم سب عالم الغیب ہوجائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی جو باتیں بتائیں وہ لوگوں کو پہنچانے کے لئے بتائیں، قیامت، جنت، دوزخ اور حوض کوثر وغیرہ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے سے ہمیں معلوم ہیں، تو کیا ہم بھی عالم الغیب ہیں ؟ ظاہر ہے ایسا نہیں، سو حق یہی ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے، دوسرا کوئی عالم الغیب نہیں، نہ ذاتی نہ عطائی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The concluding part of the last verse says: وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (...and has comprehensive knowledge of everything by numbers....72:28). In other words, Allah alone encompasses the perfect knowledge of everything and keeps a meticulous count of it. He has the knowledge of the exact number of particles in the mountains. He has the knowledge of the exact number of drops in all the oceans of the world. He has the knowledge of the exact number of drops in every rain. He alone has the knowledge of the exact number of leaves on all the trees in the world. Thus it is made clear that the totality of the knowledge of the Unseen is reserved exclusively for Allah, so that there should be no misunderstanding about the above &exception& clause. The question of the Unseen Knowledge is fully discussed under [ 27:65] قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ Say, |"No one in the heavens and the earth has the knowledge of the Unseen except Allah.|" [ 27:65]

آخر سورت میں فرمایا وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات خاص ہے جس کے علم میں ہر چیز کے اعداد و شمار ہیں۔ اس کو پہاڑوں کے اندر جتنے ذرے ہیں ان کا بھی عدد معلوم ہے، ساری دنیا کے دریاؤں میں جنتے قطرے ہیں ان کا شمار اس کے علم میں ہے ہر بارش کے قطروں اور تمام دنیا کے درختوں کے پتوں کے اعداد و شمار کا اسی کو علم ہے۔ اس میں پھر علم غیب کلی کا ذات حق سبحانہ، و تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونا واضح کردیا کہ کسی کو مذکورہ اسثناء سے غلط فہمی نہ ہوجائے۔ مسئلہ علم غیب کے معنے اور اس کے ا حکامام سورة نمل کی (آیت) قل لایعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ کے تحت میں پوری تحقیق و تفصیل کے ساتھ گذر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم تمت بحمد اللہ تعالیٰ سورة الجن لیلتہ الجمعہ 10 رجب 1391

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۝ ٢٨ ۧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا حصا الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی: وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن/ 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» ( ح ص ی ) الا حصاء ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن/ 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها . والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] ، ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ انتظام اس لیے کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے کہ فرشتوں نے حفاظت کے ساتھ اپنے پروردگار کے پیغاموں کو پہنچا دیا اور ہمارے جاننے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان تمام فرشتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو اس کے پاس موجود ہیں اور اس کو ہر ایک چیز کی پوری طرح گنتی معلوم ہے جیسا کہ وہ کپڑوں میں لپٹنے والے کی حالت سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ } ” تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے واقعتا اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے ہیں “ یعنی اللہ تعالیٰ یہ بات واضح کر دے۔ اسی حوالے سے اتمامِ حجت کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر حاضرین سے پوچھا تھا : (اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ ) ” کیا میں نے اللہ کا پیغام تم لوگوں تک پہنچادیا ؟ “ اس پر تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا تھا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (١) { وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا ۔ } ” اور وہ احاطہ کیے ہوئے ہے اس سب کچھ کا جو ان کے پاس ہے اور اس نے ہرچیز کا حساب کتاب رکھا ہوا ہے گنتی کے ساتھ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, the Messenger by himself is no knower of the unseen, but when AIIah chooses him to perform the mission of Prophethood, He grants him the knowledge of those of the unseen truths which He is pleased to grant. 28 "Guards": Angels. That is, when Allah sends down the knowledge of the unseen realities to the Messenger by revelation, He appoints angels on every side to safeguard it so that the knowledge reaches the Messenger in a safe condition, free from every kind of adulteration. This is the same thing which has been expressed in vv. 8-9 above, saying: After the appointment of the Holy Messenger the jinn found that all the doors to the heavens had been closed, and they noticed that strict security measures had been adopted because of which no room had been left for them to eavesdrop.

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :29 اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ رسول یہ جان لے کہ فرشتوں نے اس کو اللہ تعالی کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالی یہ جان لے کہ فرشتوں نے اپنے رب کے پیغامات اس کے رسول تک صحیح صحیح پہنچا دیے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالی یہ جان لے کہ رسولوں نے اس کے بندوں تک اپنے رب کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے ۔ آیت کے الفاظ ان تینوں معنوں پر حاوی ہیں اور بعید نہیں کہ تینوں ہی مراد ہوں ۔ اس کے علاوہ یہ آیت دو مزید باتوں پر بھی دلالت کرتی ہے ۔ پہلی بات یہ کہ رسول کو وہ علم غیب عطا کیا جاتا ہے جو فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لیے اس کو دینا ضروری ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جو فرشتے نگہبانی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں وہ صرف اسی بات کی نگہبانی نہیں کرتے کہ رسول تک وحی محفوظ طریقے سے پہنچ جائے بلکہ اس بات کی نگہبانی بھی کرتے ہیں کہ رسول اپنے رب کے پیغامات اس کے بندوں تک بےکم و کاست پہنچا دے ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :30 یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں پر بھی اللہ تعالی کی قدرت اس طرح محیط ہے کہ اگر بال برابر بھی وہ اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں تو فوراً گرفت میں آ جائیں ۔ اور جو پیغامات اللہ تعالی بھیجتا ہے ان کا حرف حرف گنا ہوا ہے ، رسولوں اور فرشتوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ان میں ایک حرف کی کمی بیشی بھی کر سکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:28) لیعلم : لام حرف علت یعلم مضارع (منصوب بوجہ عمل لام علت) صیغہ واحد مذکر غائب (باب سمع) مصدر۔ تاکہ وہ جان لے فائدہ : یوں تو ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہے یہاں جاننے سے مراد ہے علمی تعلق کا کسی موجود کے ساتھ ظاہر ہونا۔ یہی مراد آیت لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب میں ہے (5:94) (تاکہ معلوم کرے اللہ کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے) شیاطین سے حفاظت کرنے کے لئے ملائکہ کو مامور کرنے کی یہ علت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حفاظت وحی کے بعد اللہ کو یہ معلوم ہوجائے کہ پیغمبروں نے اپنے رب کے پیام بلا کم و بیش پہنچا دیئے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پیغمبر اللہ کے پیام کو بغیر تبدیل و تغیر اور آمیزش کے پہنچا سکیں اسی غرض کے لئے اللہ نے حفاظت وحی کے لئے فرشتوں کو مقرر کردیا ہے۔ (تفسیر مظہری) انہ قد ابلغوا رسلت ربھم : ان مخففہ ہے ان ثقیلہ سے مخفف کیا گیا ہے۔ قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کا فائدہ دیتا ہے۔ ابلغوا ماضی جمع مذکر غائب ابلاغ (افعال) مصدر۔ انہوں نے پہنچایا۔ انہوں نے پہنچا دیا ۔ رسلت ربھم : رسلۃ کی جمع ہے بمعنی پیغام، مضاف، ربھم مضاف مضاف الیہ مل کر رسلت کا مضاف الیہ۔ ان کے رب کا پیام۔ ترجمہ ہوگا :۔ کہ انہوں نے اپنے رب کے پیام پہنچا دیئے۔ ان قد ابلغوا رسلت ربھم : ان مخففہ ان سے۔ ان حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے۔ اس کا اسم ضمیر ہ محذوف ہے جو ضمیر شان ہے۔ قد ابلغوا ۔۔ اس کی خبر ہے۔ فائدہ : مولانا دریا بادی اپنی تفسیر ماجدی میں رقمطراز ہیں :۔ لیعلم کی ضمیر فاعل کی جانب راجع ہے ؟ اس پر بہت قیل و قال ہوئی ہے۔ لیکن راقم اثم کو اپنے بعض اکابر کے اتباع میں وہی ترکیب مناسب معلوم ہوئی جو یہاں اختیار کی گئی ہے۔ یحمل ان یکون الضمیر عائدا الی اللہ عزوجل وھو قول حکاہ ابن الجوزی فی زار المسیر۔ (ابن کثیر) ای لیعلم اللہ (مدارک) وھو اختیار اکثر المحققین (کبیر) ابلغوا سے مراد وہی جماعت انبیا ہے ای الرسل (معالم، المدارک) بعض نے فرشتے بھی مراد لئے ہیں۔ ترجمہ یوں ہوگا :۔ تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیامات پہنچا دئیے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر حقانی) واحاط بما لدیہم۔ یہ جملہ یسلک کے ضمیر فاعل سے حال ہے۔ احاط ماضی واحد مذکر غائب احاطۃ (افعال) مصدر۔ اس نے گھیر لیا۔ اس نے احاطہ کرلیا۔ اس نے قابو میں کرلیا۔ احاطہ کرنے کے معنی ہیں کسی شے پر اس طرح چھا جانا کہ اس سے فرار ممکن نہ ہو ما لدیہم : ما موصولہ۔ لدی پاس ، نزدیک، اسم ظرف۔ مضاف ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ۔ دونوں مل کر صلہ اپنے موصول کا۔ جو ان کے پاس ہے۔ ان کی ہر چیز ان کے سب حالات۔ ان کے سب کام۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور حقیقت یہ ہے کہ (حال یہ ہے کہ) ان کے تمام حالات اس کے قبضہ میں ہیں اور ان کی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے واحصی کل شیء عددا۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور یہ بھی یسلک کے فاعل سے حال ہے۔ احصی ماضی واحد مذکر غائب احصاء (افعال) مصدر۔ اس نے گن لیا۔ اس نے گن رکھا ہے۔ کل شیء مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول احصی کا عددا منصوب بوجہ تمیز۔ بمعنی شمار کی رو سے ۔ تعداد کے لحاظ سے۔ اور اس نے ہر شے کا شمار کر رکھا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اسے اس کے من جانب اللہ ہونے کا یقین ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ یعنی اللہ تعالیٰ مشاہدہ سے بھی جان لے کہ انہوں نے یعنی فرشتوں نے پیغمبروں تک یا پیغمبروں نے عام لوگوں تک اپنے مالک کا پیغام بےکم وکاست ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا یہ کہ ابلیس جان لے کہ پیغمبروں نے اپنے مالک کا پیغام پہنچا دیا۔ (شوکانی)7 یعنی پیغمبروں کے پاس یا پہرے دار فرشتوں کے پاس۔8 چاہے وہ پہلے ہوچکی ہو یا اب موجود ہو یا آئندہ کبھی ہونیوالی ہو اور چاہے وہ فضا میں ہو یا پانی میں یا خشکی میں۔9 اکثر مفسرین نے اس پوری سورة کو مکی قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ (ام المومنین) میمونہ کے ہاں رات گزاری۔ آنحضرت رات کو تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہوئے اور آپ نے فجر کی سنتوں سمیت تیرہ رکعت نماز پڑھی۔ ان میں سے ہر رکعت اتنی لمبی تھی جتنی سورة مزمل۔ (شوکانی بحوالہ ابی دائود)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ حاصل مقام یہ کہ علم ساعت علوم نبوت سے نہیں ہے، اس لئے اس کا علم نہ ہونا قادح نبوت یا مستلزم عدم وقوع ساعت نہیں ہے، البتہ علوم نبوت عطا کئے جاتے ہیں اور وہی مقصود بعثت سے ہیں اور ان میں احتمال خطا کا نہیں ہوتا، تو ایسے علوم سے تم مستفید ہو اور زوائد کی تحقیق چھوڑو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) تاکہ وہ یہ دیکھ لے کہ ان فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات بحفاظت رسول تک پہنچادیئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان نگہبانوں کے تمام حالات کا احاطہ رکھا ہے اور اس نے تو ہر ہر چیز کو شمار کررکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی رسول کو خبر دیتا ہے غیب کی پھر چوکیداری رکھتا ہے اسکے ساتھ کہ اس میں شیطان دخل نہ کرنے پاوئے اور انپا نفس غلط نہ سمجھے یہی معنی ہیں اس بات کے کہ پیغمبروں کو عصمت ہے اوروں کو نہیں اور ان کو معلوم میں شک نہیں اوروں کی معلوم میں شک ہے۔ خلاصہ : یہ کہ مغیبات کا حقیقی علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے وہ اپنے مغیبات اور اپنے اسرار اور اپنے بھید کسی پر ظاہر نہیں کرتا البتہ بمقتضائے مصلحت کسی برگزیدہ اور پسندیدہ رسول پر کوئی بات ظاہر کردیتا ہے وہ رسول خواہ کوئی فرشتہ ہو یا بشر میں سے کوئی رسول ہو اگر فرشتہ ہو تب بھی بڑی حفاظت اور اہتمام کے ساتھ وہ اطلاع اس کے سپرد کی جاتی ہے اور اگر وہ بشر اور انسان ہو تب بھی اس کی پوری حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور شیاطین سے ان کو محفوظ رکھا جاتا ہے اور خود اس رسول کی قوت فکریہ کی پوری حفاظت کی جاتی ہے خواہ یہ مغیبات مثبت نبوت ہوں یا علم احکام ہوں مثبت نبوت جیسے پیشین گوئیوں کی اطلاع۔ بہرحال ان مغیبات کے اظہار کے وقت خاص اہتمام ہوتا ہے اگر جبرئیل پر ظہور ہوتا ہے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنے میں ان کی خاص حفاظت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کوئی آیت یا حکم لے کر آتے تو ان کے ساتھ محافظ فرشتے ہوتے تھے انہی کا ایک قول ہے کہ سورة انعام جب نازل ہوئی تو جبرئیل (علیہ السلام) کے ہمراہ ستر ہزار فرشتے آئے تھے اس حفاظت کا منشاء صاف ہے کہ شیاطین سے اللہ تعالیٰ کا پیغام محفوظ رہے۔ اور اگر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو ان کی حفاظت کے لئے بعض روایات میں آتا ہے کہ چار محافظ فرشتے مقرر تھے جو نزول وحی کے وقت آپ کی حفاظت کرتے تھے کہ جو اطلاع آتی ہے اس میں کوئی شیطان اثر انداز نہ ہو۔ چنانچہ حضرت حق تعالیٰ شاتہ فرماتا ہے تاکہ ظاہری طور پر وہ بات جان لے کہ فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات رسول تک پہنچا دیئے۔ ہوسکتا ہے کہ لیعلم کی ضمیر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہو جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ رسول یہ بات جان لے کہ ان پہنچانے والوں نے اپنے پروردگار کے پیغام مجھ تک محفوظ طور پر پہنچا دیئے۔ بہرحال ! ہم رجح قول کی بنا پر تفسیر کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ بات ظاہری طور پر جان لے اور معلوم کرلے کہ فرشتوں نے رسول تک اور رسول نے مخلوق تک اس کے احکام بلاکم وکاست پہنچا دیئے اور اللہ تعالیٰ نے ان نگہبانوں کے حالات اور چوکیداروں کے پاس جو کچھ ہے اس کا احاطہ کررکھا ہے یعنی اس کے قبضے اور اس کی نگرانی میں ہیں کسی کو مجال تغیر وتبدل نہیں اور اس نے ہرچیز کو فرداً فرداً شمار کررکھا ہے۔ یعنی یہ باتیں اظہار حکومت وقوت کی غرض سے کی جاتی ہیں اور یہ انتظامات اظہار جاہ و جلال کے لئے ہیں ورنہ وہاں کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے وہ نہ چوکیداروں کے محتاج ہیں نہ پہرہ داروں کے۔ سبحان الذی بیدہ ملکوت کل شیء تم تفسیر سورہو الجن