Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 5

سورة الجن

وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ تَقُوۡلَ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۙ﴿۵﴾

And we had thought that mankind and the jinn would never speak about Allah a lie.

اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی باتیں لگائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, we thought that men and Jinn would not utter a lie against Allah. meaning, `we did not think that humans and Jinns would join each other in lying about Allah by attributing a spouse and a son to Him. So when we heard this Qur'an we believed in it and we knew that they (Jinns and men) had been lying about Allah in this matter.' Among the Causes of the Transgression of t... he Jinns were that Humans sought Refuge with Them Allah says, وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الاْأِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اسی لئے ہم اس کی تصدیق کرتے رہے اور اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے رہے۔ حتٰی کہ ہم نے قرآن سنا تو پھر ہم پر اس عقیدے کا باطل ہونا واضع ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی جنوں اور انسانوں کی عظیم اکثریت اگر یہ باتیں کہتی ہے کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے یا فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں یا اللہ نے اپنے پیاروں کو بھی کئی قسم کے اختیارات تفویض کر رکھے ہیں تو وہ جھوٹ کیسے ہوسکتا ہے۔ اتنی عظیم اکثریت جھوٹی بات پر کیسے اتفاق کرسکتی ہے۔ لہذا ہم نے بھی ان باتوں کو درست تسل... یم کرلیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وانا ظننا ان لن تقول الانس والجن…: یعنی ہم یہی سمجھتے تھے کہ انسان اور جن کم از کم اللہ پر تو ہرگز جھوٹ نہیں باندھ سکتے، اسلئے ہم نے ان سے سن کر مان لیا کہ اللہ کے کچھ شریک ہیں اور اس کی اولاد اور بیوی بھی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ ظالم جھوٹے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللہِ كَذِبًا۝ ٥ ۙ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چو... نکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ جِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . ۔ الجنتہ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہمارا پہلے خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی اللہ کی شان میں جھوٹ بات نہیں کہیں گے باقی اب ہم پر ان کا جھوٹ ثابت ہوگیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کی آپس کی گفتگو کو روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّـنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۔ } ” اور یہ کہ ہم تو اس گمان میں رہے کہ جن اور انسان اللہ پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھیں گے۔ “ وہ بدبخت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا رہا اور ہم اس خوش فہمی میں اس کی باتوں کو مانتے رہے کہ کوئی انسان یا جن الل... ہ کے بارے میں کبھی کوئی خلافِ حق بات نہیں کرسکتا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 The word safihuna as used in the Text can be spoken for an individual as well as for a group. If it is taken for a foolish individual, it would imply Iblis and if for a group, it would imply a group of foolish jinn who said such things.

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :6 یعنی ان کی غلط باتوں سے ہمارے گمراہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم کبھی یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ انسان یا جن اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنے کی جرات بھی کر سکتے ہیں ، لیکن اب یہ قرآن سن کر ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ فی الواقع وہ جھوٹے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یعنی اب تک جو ہم غلط عقائد رکھتے رہے، اُس کی وجہ یہ تھی کہ سارے اِنسان اور جنات یہی عقائد رکھتے تھے، اس لئے خیال یہی ہوا کہ اتنے سارے لوگ جھوٹے عقائد نہیں رکھتے ہوں گے، چنانچہ ہم ان کی تقلید میں انہی عقائد کے قائل رہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:5) وانا ظننا۔ اس کا عطف بھی جملہ وانہ تعالیٰ جد رہنا پر ہے ظننا ماضی جمع متکلم فلن (باب نصر) سے مصدر۔ ہم سمجھے ہوئے تھے۔ ہمارا گمان تھا۔ ان لن تقول : ان مصدریہ بمعنی کہ ” لن تقول “ مضارع منفی تاکید بلن منصوب صیغہ واحد مؤنث غائب۔ کذبا۔ صفت ہے موصوف محذوف کی۔ ای قولا کذبا۔ جھوٹی بات۔ ترجمہ ہو... گا :۔ اور ہم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ انسان اور جن اللہ پر چھوٹی بات نہیں بنایا کرتے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ” اور اسی غلط فہمی پر ہم نے ان کی بات مان لی تھی اور یہ عقیدہ رکھنے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی اور اولاد ہے لیکن اب معلوم ہوا کہ یہ کمبخت جھوٹے بیوقوف تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” وانا ظننا “ واعظین جن اپنی طرف سے معذرت پیش کرتے ہیں کہ وہ ابتک کیوں ان نادانوں کی بات مان کر گمراہی اور شرک میں پھنسے رہے۔ انہوں نے کہا ہم تو اب تک اس خوش فہمی اور حسن ظن میں مبتلا رہے ہیں کہ جن و انس اللہ تعالیی کی طرف کوئی جھوٹی اور غلط بات منسوب نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہم یہی سمجھتے رہے کہ ہما... رے یہ رہنما جو خدا کے لیے شریک اور نائب تجویز کر رہے ہیں وہ درست اور حق پر ہیں۔ مگر اب قرآن سننے سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ وہ جھوٹے اور مفتری ہیں اور اللہ تعالیٰ شریک سے پاک ہے۔ ” وانہ کان رجال من الانس “ یہ اس طرف اشارہ ہے جو مشرکین کا دستور تھا کہ جب کسی جنگل بیابان میں داخل ہوتے شریر جنوں سے ان کے سردار کی پناہ مانگتے اور کہتے اعوذ بسید ھذا الوادی من شر سفہاء قومہ (بیضاوی) اور وہ سمجھتے کہ اب وہ شاہ جنات کی پناہ میں ہیں اس یلے اب انہیں جنوں کی طرف سے کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ جب جنات ان کی بات سنتے تو ان کے کبر و غرور اور تعنت و طغیان میں مزید اضافہ ہوجاتا اور وہ اپنے کو بڑی شان کے مالک سمجھنے لگے۔ ” فزادوھم “ میں ضمیر فاعل سے انس اور ضمیر مفعول سے جنات مراد ہیں اور ” رھق “ کے معنی طغیان اور سرکشی کے ہیں یا ضمیر فاعل جنات سے اور ضمیر مفعول انس سے کنایہ ہے اور رھق کے معنی گمراہی کے ہیں۔ المعنی فزاد الجن الانس غیابان اضلوھم حتی استعاذوا بہم (مظہری ج 10 ص 86) ۔ ہادیان جن پہلے تو خود بھی ایسے ہی تھے، لیکن اب ان پر اس گمراہی کا انکشاف ہوا تو اپنی قوم کو اس سے روکنے لگے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اوریہ کہ ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ جنات اور انسان اللہ تعالیٰ کی شان میں کبھی کوئی جھوٹی بات نہ کہیں گے۔ یعنی ہم تو پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ جنات اور انسان اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی جھوٹی بات زبان سے نہ نکالیں گے اس لئے ہم نے عام جنات اور انسان کی دیکھا دیکھی شرک اختیار کرلیا اور جو سب کررہے تھے...  وہی ہم بھی کرنے لگے لیکن اب قرآن سننے کے بعد ہم کو معلوم ہوا کہ حق کچھ اور ہے اور عوام محض گمراہی اور غلط راستے پر چل رہے ہیں اور اکثر جنات اور انسان حضرت حق تعالیٰ کی شان میں بڑی گستاخی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس لئے ہم بھی جھک گئے۔ خلاصہ : یہ کہ ہمارے گمراہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہوئی ک ہم جنات اور انسانوں کے متعلق اس خوش فہمی میں پڑگئے کہ یہ کوئی جھوٹی بات اللہ تعالیٰ کی شان میں نہ کہیں گے اور اتنی مخلوق جو مشرکانہ کام کررہی ہے وہ صحیح ہوں گے۔  Show more